نوک جھونک

0
196
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

بیوی
میں درحقیقت بد نصیب ہوں ورنہ کیوں مجھے روز ایسے نفرت انگیز مناظر دیکھنے پڑتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ مجھے دیکھنے ہی نہیں پڑتے بلکہ بدنصیبی نے ان کو میری زندگی کا جزو خاص بنادیا ہے۔ میں اس عالی ظرف برہمن کی لڑکی ہوں جس کا احترام بڑی بڑی ہندو مذہبی سوسائٹیوں میں کیا جاتا ہے، جو آج مذہب کا ستون سمجھا جاتا ہے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ میں نے گھر پر کبھی بغیر نہائے اور پوجا کیے منھ میں پانی کی ایک بوند تک بھی ڈالی ہو۔ مجھے ایک بار بخار کی حالت میں بغیر نہائے ہوئے مجبوراً دوا پینا پڑی تھی اس کا مجھے مہینوں رنج رہا۔

ہمارے گھر میں دھوبی قدم نہیں رکھنے پاتا تھا۔ چماریاں تو دالان میں بھی نہ بیٹھ سکتی تھیں اور جولاہوں کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے مجھے سخت نفرت معلوم ہوتی تھی۔ لیکن یہاں آکر گویا میں ایک ظلمت کدہ میں پہنچ گئی۔ میرے شوہر بڑے رحیم، خوش اخلاق قابل شخص ہیں۔ ان کے یہ اوصاف دیکھ کر میرے باپ ان پر محو ہوئے۔ لیکن افسوس! وہ کیا جانتے تھے کہ یہ لوگ ایسے لامذہب ہیں۔ سندھیا عبادت تو درکنار، کوئی یہاں روزانہ نہاتا بھی نہیں۔ ہمیشہ کمرے میں مسلمان، عیسائی آیا کرتے ہیں اور آپ وہیں بیٹھے بیٹھے پانی، چائے، دودھ پی لیتے ہیں اور صرف اس قدر نہیں بلکہ وہیں بیٹھے بیٹھے مٹھائیاں بھی کھالیتے ہیں۔ابھی کل کی بات ہے کہ میں نے انہیں لیمنٹڈ پیتے دیکھا تھا۔

سائیس جو چمار ہے بغیر روک ٹوک گھر میں آتا ہے اور بور ےسے چنے نکال لے جاتا ہے۔ سنتی ہوں وہ اپنے مسلمان دوستوں کے یہاں دعوتیں کھانے بھی جایا کرتے ہیں۔ بے عنوانیاں مجھ سے دیکھی نہیں جاتیں۔ میری طبیعت متنفر ہوتی جاتی ہے۔ جب وہ مسکراتے ہوئے میرے قریب آجاتے ہیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر قریب بیٹھا لیتے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ اپنی اس ذلت پر اپنے نامعقول طرزِ زندگی پر میرے چشمِ دل سے لہو کے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ اف! ہندو قوم! تو نے ہی ہم عورتوں کو ایسا کمزور بنادیا۔ کیا اپنے خاوند کی لونڈی بننا ہی ہماری زندگی کا فرض اولیٰ ہے۔ کیا ہمارے خیال، ہمارے ارادے اور ہمارے فرائض کی کچھ قیمت نہیں۔

اب مجھے صبر نہیں آتا۔ آج میں ان حالات کا فیصلہ کردینا چاہتی ہوں۔ میں اس بلا سے نکلنا چاہتی ہوں۔ یہ شرمناک زندگی اب مجھ سے ایک ساعت بھی نہیں برداشت ہوسکتی ہے۔ میں نے اپنے دامن میں پناہ لینے کا ارادہ کرلیا ہے۔ آج یہاں دعوت ہورہی ہے۔ میرے شوہر صرف اس میں شامل ہی نہیں ہیں بلکہ اس کے خاص محرکوں میں ہیں۔ انھیں کی کوشش اور ایما سے اس نامہذبانہ بدعت کا ظہور ہوا ہے۔ مختلف مذاہب کے لوگ بیٹھ کر ایک ساتھ کھانا کھاررہے ہیں۔ سنتی ہوں مسلمان بھی اس قطار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آسمان کیوں نہیں گرپڑتا۔ کیا بھگوان مذہب کی حفاظت کے لئے اب اوتار نہ لیں گے۔ کیا اس سے بھی زیادہ کسی مذہبی کجروی کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔ برہمن ذات اپنے خاص بھائیوں کے علاوہ دوسرے برہمن تک کا چھوا ہوا کھانا گوارا نہیں کرتی۔ وہی ذی وقعت قوم آج اس پستی کو پہنچ گئی ہے کہ کائستھوں، بنیوں، مسلمانوں کے ساتھ تک بیٹھ کر کھانے میں دریغ نہیں کرتی بلکہ اسے قومی عروج اور قومی اتحاد کا باعث سمجھتی ہے۔

شوہر
وہ کون سا مبارک وقت ہوگا جب کہ اس ملک کی عورتیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گی۔ قومی شیرازہ بندی میں مردوں کا ساتھ دیں گی؟ یہ مذہبی تنگ خیالیاں کب مٹیں گی؟ ہم کب تک برہمن غیر برہمن کی قید میں پھنسے رہیں گے۔ ہمارے شادی بیاہ کے طریقے کب تک خاندانی قید کی رسی سے بندھے رہیں گے۔ ہم کو کب معلوم ہوگا کہ عورت اور مرد کے خیالات کی موافقت نسبتی پابندیوں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو برندا میری زوجہ نہ ہوتی۔ اور نہ میں اس کا شوہر۔ ہم دونوں کے خیالات میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اگرچہ وہ ظاہرا نہیں کہتی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ میرے آزاد خیالات کو نفرت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھے چھونا بھی نہیں چاہتی۔ یہ اس کا قصور نہیں۔ یہ ماں باپ کا قصور ہے جنہوں نے ہم دونوں پر ایسا ظلم کیا۔ تاہم مجھے خوشی ہے کہ برندا اتنی خود دار ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ مشکلات میں بھی اپنے خیالات پر خواہ وہ صحیح ہوں یا غیر صحیح نہایت مضبوطی کے ساتھ قایم رہتی ہے۔

کل برندا کھل پڑی۔ میرے کئی دوستوں نے عام دعوت کی تجویز کی تھی۔ میں نے بخوشی اس کی تائید کی تھی۔ کئی دن کی بحث و تکرار کے بعد آخر کل میرے گنے گنائے دوستوں نے دعوت کا سامان کر ہی ڈالا۔ ماسوا میرے صرف چار برہمن تھے۔ باقی بقال کائستھ اور چند اور مذاہب کے لوگ تھے۔ یہ آزاد روی برندا کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ میں جب کھانا کھاکر واپس آیا تو وہ ایسی بے چین تھی گویا اس کے دل پر سخت صدمہ پہنچا ہے۔ میری طرف غضب ناک نگاہوں سے دیکھ کر بولی۔

’’اب تو بہشت کا دروازہ ضرور کھل گیا ہوگا؟‘‘

یہ ناملائم الفاظ میرے دل پر تیر کی طرح لگے۔ کرخت آواز سے بولا، ’’بہشت اور دوزخ کے خیال میں وہ رہتے ہیں جو کاہل ہیں، مردہ ہیں۔ ہماری دوزخ اور بہشت سب اسی زمین پر ہے۔ ہم اس دارِ عمل میں کچھ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

برندا ’’آفریں ہے آپ کی ہمت اور مردانگی کو۔ اب دنیا میں آرام چین کا راج ہوجائے گا۔ دنیا کو آپ نے بچا لیا۔ اس سے بڑھ کر اس کی اور کیا بھلائی ہوسکتی ہے؟‘‘

میں نے جھلا کر کہا، ’’جب ایشور نے تمہیں ان باتوں کے سمجھنے کی قوت ہی نہیں دی تو میں تمہیں کیا سمجھاؤں۔ اس باہمی تفریق اور تمیز سے ہمارے ملک کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اسے موٹی سے موٹی عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ اس تفرقہ کے مٹنے سے قوم کو جو نفع ہوگا وہ اظہر من الشمس ہے۔ البتہ جو لوگ جان کر بھی انجان بنیں۔ ان کی دوسری بات ہے۔‘‘

برندا ’’کیا بغیر ایک ساتھ بیٹھ کر کھائے ہوئے آپس میں محبت نہیں پیدا ہوسکتی؟‘‘ میں نے اس بحث میں پڑنا فضول تصور کر کے ایسے اصول کی آڑ لینا مناسب خیال کیا جس میں مباحثہ کی گنجائش ہی نہ ہو۔

برندا مذہبی عقائد پر جان دیتی ہے۔ میں نے اس منتر سے اسے تسخیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم لوگ مذہبی عقائد کا بھی احترام نہیں کرتے۔ بڑی سنجیدگی سے بولا،’’اگر محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ذرا غور تو کرو۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ ہم سب ایک خالق کی مخلوق ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ اعلیٰ اور ادنیٰ کی تخصیص کریں۔ یہ ساری دنیا اسی معبود ِحقیقی کا جلوہ ہے۔ ہر ایک ذی روح اسی نورِ حقیقی سے منور ہے۔ صرف اسی نفسانیت کے پردہ نے ہمیں ایک دوسرے سے الگ کردیا ہے۔ اسی خود پروری نے ہمیں اندھا بنادیا ہے ورنہ دراصل ہم سب ایک ہیں۔ جس طرح سورج کی روشنی مختلف مکانوں میں جاکر اختلافی صورت نہیں اختیار کرتی اس طرح پروردگار عالم کی روشنی بھی مختلف اجسام میں جاں گزیں ہوکر علیحدہ نہیں ہوجاتی۔ کیا سورج کی روشنی بھی مختلف اجسام میں جاں گزیں ہوکر علیحدہ نہیں ہوجاتی۔ کیا سورج کی روشنی جھونپڑوں پر نہیں پڑتی۔ میں تو کہوں گا کہ جھونپڑیوں پر محلوں سے کہیں زیادہ پڑتی ہے۔’’علیٰ ہذا میرے اس عارفانہ سیلاب نے برندا کے سوکھے ہوئے دل کو شاداب کردیا۔ ہمہ تن گوش ہوکر میری باتیں سنتی رہی۔ جب میں خاموش ہوگیا تو اس نے میری طرف ارادت مندانہ نگاہوں سے دیکھا اور رونے لگی۔

انسان کا دل لاکھ کی مانند ہوتا ہے۔ اس کے نشانات مٹانا یوں تو ناممکن ہے مگر اسے گرم کر کے ہم اس کی جگہ نئے نشانات مرتسم کرسکتے ہیں۔ برندا کے من سے خاندانی عظمت اور قومی غرور کے حروف مٹ گئے۔ ان کی جگہ عالم گیر روحانی ارتباط کے حروف منقوش ہوگئے۔

بیوی
سوامی جی کے گیان اپدیش نے مجھے بیدار کردیا۔ اف میں اندھے کنویں میں پڑی تھی۔ اس نے اٹھاکر مجھے ایک روشن قلعہ کوہ پر پہنچا دیا۔ میں نے اپنے اعلیٰ خاندان کے غرور میں اپنی اونچی ذات کے ناجائز فخر میں کتنے ہی نفوس کی بے عزتی کی۔ اے پرماتما تو مجھے معاف کر۔ میں نااہل تھی، ناسمجھ تھی، مجھ غریب کی اس دعا کو قبول کر۔ اس خیال کے باعث میرے دل میں اپنے قابلِ احترام شوہر سے جو کدورت پیدا ہوگئی تھی اور جو محبت کی کمی میری طرف سے ظاہر ہوئی اسے معاف فرما۔

جب سے میں نے وہ نورانی الفاظ سنے ہیں، میرا دل بہت نازک ہوگیا ہے۔ طرح طرح کے نیک ارادے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

کل دھوبن کپڑے لے کر آئی تھی۔ اس کے سر میں بڑا درد تھا۔ کراہ رہی تھی۔ پہلے میں اسے اس حالت میں دیکھ کر شاید زبانی ہمدردی کرتی یا مہری سے تھوڑا سا تیل لادیتی۔ پر کل میرا دل بے چین ہوگیا۔ ایسا معلوم ہونے لگا گویا وہ میری بہن ہے۔ میں نے اسے اپنے پاس بٹھالیا اور کامل ایک گھنٹہ تک اس کے سر پر تیل ملتی رہی۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اس وقت مجھے کتنا روحانی لطف آرہا تھا۔ میرا دل خود بخود کسی زبردست کشش کے تابع ہوکر اس کی طرف کھنچا جاتا تھا۔ میری نند نے آکر میرے اس فعل پر کس قدر ناک بھوں چڑھائی، تیور بدلے، مگر میں نے ذرا بھی پروا نہ کی۔ آج علی الصبح سخت سردی تھی۔ ہاتھ پاؤں گلے جاتے تھے۔ مہری کام کرنے اٹھی تو کھڑی کانپ رہی تھی۔ میں لحاف اوڑھے انگیٹھی کے پاس بیٹھی تھی۔ اس پر بھی منھ کھولنا دشوار معلوم ہوتا تھا۔ مہری کو دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ مجھے اپنی خود غرضی پر شرم آئی۔ میں نے خیال کیا جو یہ ہے وہی میں ہوں۔ اس کی روح میں بھی وہی روشنی ہے۔ لیکن میں آرام سے انگیٹھی کے پاس بیٹھی ہوں اور یہ میری خدمت میں مصروف۔ یہ ناانصافی کیوں؟ کیا اس وجہ سے کہ میں ایک دولت مند شخص کی بیوی ہوں؟ کیا اس وجہ سے کہ خودی نے ہماری نگاہوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔ مجھے کچھ سوچنے کی ہمت نہ ہوئی۔ فوراً اٹھی اور نیا شال لاکر مہری کو اڑھا دیا۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر انگیٹھی کے پاس بٹھا دیا۔ اس نے متعجب ہوکر کہا، ’’بہوجی چھوڑیئے میں کروں۔ سرکار کو کچہری جانے میں دیر ہوجائے گی۔‘‘

میں نے لحاف اتار دیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر برتن دھونے لگی۔ غریب عورت مجھے بار بار ہٹانا چاہتی تھی۔ میری نند نے آکر مجھے استعجاب کی نگاہ سے دیکھا اور اس طرح منھ بناکر چلی گئی گویا میں کوئی سوانگ بھر رہی ہوں۔ تمام گھر میں ہلچل مچ گئی۔ گویا کوئی تعجب خیز واقعہ ہوگیا۔ ہم کتنے خود پرست ہیں۔ ہم پرماتما کی توہین کرتے ہیں۔ نفسانیت کے دام میں پھنس کر اپنے ہی اوپر انواع و اقسام کے ظلم کرتے ہیں۔ افسوس!

شوہر
شایدمیانہ روی عورتوں کی سرشت میں داخل ہی نہیں۔ وہ حدود پر ہی رہ سکتی ہیں۔ برندا کہاں تو اپنی عالی نسبی پر جان دیتی تھی، قومی وقار کا راگ الاپتی تھی۔ کہاں اب مساوات اور ہمہ اوست کی صورت بنی بیٹھی ہے۔ میری ذرا سی تعلیم کا یہ اثر ہے۔ اب میں بھی اپنی قوت ِتالیف پر ناز کروں گا۔ واقعی یہ جنس تمیز سے بے بہرہ ہوتی ہے۔ اس میں مجھے اعتراض نہیں ہے کہ وہ نیچی ذاتوں کی عورتوں کے ساتھ بیٹھے، ہنسے بولے، انھیں پڑھ کر کچھ سنائے، لیکن ان کے پیچھے اپنے آپ کو بالکل کھودینا میں کبھی بھی گوارا نہیں کرسکتا۔

تین دن ہوئے میرے پاس ایک چمار اپنے زمیندار کے مظالم کا رونا رونے آیا۔

بیشک زمیندار نے اس کے ساتھ سختی برتی تھی۔ لیکن وکیل مفت میں تو مقدمہ نہیں کیا کرتا اور پھر ایک چمار کے پیچھے ایک بڑے زمیندار سے دشمنی کروں۔ ایسا کروں تو پھر وکالت کرچکا۔ اس کی فریاد کی آواز برندا کے کان میں بھی پڑ گئی۔ وہ میرے درپے ہوئی کہ اس مقدمہ کی پیروی ضرور کیجئے اور لگی بحث مباحثہ کرنے۔ میں نے حیلہ حوالہ کر کے اسے کسی طرح ٹالنا چاہا لیکن اس نے مجھ سے وکالت نامہ پر دستخط بنوا ہی لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان تین دنوں میں میرے پاس کئی مقدمے ایسے ہی مفت خوروں کے آئے اور مجھے کئی بار برندا کو سخت الفاظ میں فہمائش کرنی پڑی۔ اسی وجہ سے بزرگوں نے عورتوں کو مذہبی مسائل کی تلقین کے قابل نہیں سمجھا۔ اتنا بھی نہیں جانتی کہ ہر ایک اصول کی عملی شان کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ خدا عادل ہے پر اس کی عدالت کے پیچھے اپنے ماحول کو کوئی نہیں بھولتا۔ اگر وحدۃ الوجود کے مسئلہ پر عمل کیا جائے تو تمام دنیا میں آج امن و عافیت کی دہائی پھر جائے۔ لیکن یہ مسئلہ فلسفہ کا ایک اصول ہی رہے گا اور انسانی قوت ہمارے نظامِ معاشرہ کی ایک محال تمنا۔ ہم ان دنوں مسائل کی زبان سے تعریف کرتے ہیں۔ ان پر مناظرے کرتے ہیں۔ ان کی حمایت کرتے ہیں۔ عوام کی نظروں میں وقار حاصل کرنے کے لئے ان سے مدد لیتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ برندا اتنی ذرا سی معمولی اور موٹی بات بھی نہیں سمجھتی۔

برندا کا انہماک روزانہ ناقابلِ برداشت ہوتا جاتا ہے۔ آج سب کے کھانے کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا بنا ہے۔ اب تک گھر کے خاص آدمیوں کے لئے باریک چاول پکتے تھے۔ ترکاریاں گھی میں بنائی جاتی تھیں۔ دودھ مکھن اور میوہ جات وغیرہ منگوائے جاتے تھے۔ نوکروں کے لئے موٹا چاول، تیل کی ترکاری، مٹر کی دال رہتی تھی۔ دودھ وغیرہ انہیں نہیں دیے جاتے تھے۔ بڑے بڑے رئیسوں کے یہاں بھی یہی دستور زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے۔ میں نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے اور نہ نوکروں نے اس کے متعلق کبھی شکایت کی۔ لیکن آج ملازموں نے بھی وہی کھانے کھائے ہیں جو گھر کے لوگوں نے کھائے۔ میں کچھ بول نہ سکا۔ متحیر سا ہوگیا۔برندا خیال کرتی ہے کہ کھانے میں فرق کرنا نوکروں پرظلم ہے۔ کتنا بچوں کا سا خیال ہے۔ یہ اپنی مساوات کی دھن میں شریف رذیل، چھوٹے بڑے کا فرق مٹانا چاہتی ہے۔ اے بیوقوف یہ تفریق ہمیشہ قائم رہتی ہے اور رہے گی۔ میں بھی ملکی اتحاد کا حامی ہوں اور تمام تعلیم یافتہ ابنائے وطن اس اتحاد پر جان دیتے ہیں لیکن کوئی خواب میں بھی یہ خیا ل نہیں کرتا کہ ان مزدوروں، خدمت گاروں کو برابری کا حق دیا جائے۔ ہم ان میں تعلیم پھیلانا چاہتے ہیں ان کو حالتِ افلاس سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہ ہوا تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ پر اس کی اصلیت کیا ہے یہ ہمارے دل ہی جانتے ہیں خواہ اس کا اظہار نہ کیا جاوے، اس کا اصلی مطلب یہ ہے کہ ہمارا ملکی وقار قائم ہو، ہمارا دائرہ اثر وسیع ہو، ہم اپنے حقوق کے لئے کامیابی کے ساتھ جدوجہد کرسکیں، ہمیں یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ ہماری آواز صرف تعلیم یافتوں کی آواز نہیں ہے بلکہ تمام قوم کی متحدہ آواز ہے لیکن یہ برندا اتنا بھی نہیں سمجھتی۔

بیوی
کل میرے شوہر کا منشا ظاہر ہوا۔ اس وقت میری طبیعت سخت مغموم ہوئی۔ اے خدا دنیا میں اتنی نمائش ہے۔ لوگ اتنے خود غرض ہیں، اتنے ظالم ہے۔ مجھے کل یہ دردناک تجربہ ہوا۔ میں اس نصیحت کو سن کر اپنے شوہر کو دیوتا سمجھنے لگی تھی۔ مجھے اس بات کا فخر تھا کہ ایسے نفسِ مطمئنہ کی خدمت گزاری کا موقع حاصل ہے۔ یہ میرے مقدر کی خوبی ہے لیکن مجھے آج معلوم ہوا کہ جو لوگ دوناؤں پر ایک ساتھ بیٹھنے کے مشتاق ہیں زیادہ تر وہی قومی خیر اندیش کہلاتے ہیں۔

کل میری نند کی رخصتی تھی۔ وہ سسرال جارہی تھی۔ شہر کی بہتیری عورتیں آئی تھیں۔ وہ سب عمدہ لباس اور مرصع زیورات سے آراستہ ہوکر قالینوں پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں ان کی مہمان داری میں مصروف تھی کہ یکایک مجھے دروازے پر چند عورتیں اس جگہ زمین پر بیٹھی ہوئی نظر آئیں جہاں ان عورتوں کی سلیپریں اور جوتیاں رکھی ہوئی تھیں۔ یہ بیچاریاں بھی رخصتی دیکھنے آئی تھیں۔ مجھے ان کا وہاں بیٹھنا مناسب معلوم نہ ہوا۔ اس لیے میں نے ان کو بھی لاکر قالین پر بٹھادیا۔ اس پر ان خاتون میں سرگوشیاں ہونے لگیں اور تھوڑے عرصے میں سب کی سب کسی نہ کسی حیلہ سے ایک ایک کر کے چلی گئیں۔ اتنے میں کسی نے میرے شوہر تک یہ خبر پہنچا دی۔ وہ باہر سے نہایت مغلوب القلب ہوکر آئے اور بھری سبھا میں مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔

آج علی الصبح اٹھی تو میں نے عجیب واقعہ دیکھا۔ شب میں مہمانوں کی دعوت و مدارات کے بعد جو جوٹھے پتل، کٹورے، دونے وغیرہ باہر میدان میں پھینک دیے گئے تھے اس وقت پچاسوں آدمی انہیں پتلوں پر گرے ہوئے ان کو چاٹ رہے تھے۔ ہاں انسان تھے اور انسان وہی انسان جن پر پرماتما کا جلوہ ہے۔ روشنی ہے۔ بہتیرے کتے بھی ان پتلوں پر جھپٹ رہے تھے۔ پر یہ کنگلے کتوں کو مار کر ہٹادیتے تھے۔ ان کی حالت کتوں سے بھی گئی گزری تھی۔ یہ نظارہ دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایشور! یہ بھی ہمارے بھائی بہن ہیں۔ ہماری ہی روحیں ہیں۔ ان کی ایسی قابلِ رحم حالت! میں نے اسی وقت مہری کو بھیج کر ان آدمیوں کو بلایا اور میوے مٹھائیاں وغیرہ جو مہمانوں کے لئے رکھی ہوئی تھیں سب کی سب پتلوں میں رکھ انہیں دے دیں۔ مہری تھرانے لگی کہ مالک سنیں گے تو میرے سر کا ایک بال نہ چھوڑیں گے۔ لیکن میں نے اسے ڈھارس دی تب اس کی جان میں جان آئی۔

ابھی یہ بیچارے مٹھائیاں کھا ہی رہے تھے کہ میرے شوہر صاحب بھی غصہ میں بھرے ہوئے آئے اور نہایت سخت آواز میں بولے، ’’تمہاری عقل پر پتھر تو نہیں پڑ گیا ہے کہ جب دیکھو ایک نہ ایک آفت مچائے رہتی ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمھیں ہوکیا گیا ہے۔ مٹھائیاں ڈومڑوں کے لئے نہیں بنوائی گئی تھیں، مہمانوں کے لئے بنوائی گئی تھیں۔ اب مہمانوں کو کیا دیا جائے گا؟ کیا تم نے میری غیرت کو خاک میں ملانے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے؟‘‘

میں نے مستقل مزاجی سے کہا، ’’آپ فضول غصہ کرتے ہیں۔ آپ کی جس قدر مٹھائیاں میں نے خرچ کی ہیں وہ سب منگا دوں گی۔ یہ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی شخص تو مٹھائیاں کھائے اور کوئی پتل اور دونے چاٹے۔ ڈومڑے بھی تو انسان ہیں۔ ان کی بھی تو روح وہی ہے کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟‘‘

شوہر صاحب بولے، ’’رہنے بھی دو۔ بے وقت کی شہنائی بجاتی ہو۔ جب دیکھو وہی مرغ کی ایک ٹانگ کہ سب روحیں ایک سی ہیں۔ اگر ایک سی ہیں تو ایشور کو کس نے منع کردیا تھا کہ سب کو ایک حالت میں نہ رکھے۔ اس اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق اس نے کیوں کر رکھی ہے۔ بے سر پیر کی بحث کرتی ہو۔‘‘

میں خاموش ہوگئی۔ بو ل نہ سکی۔ میرے دل سے شوہر کی عزت اور محبت اٹھنے لگی۔ افسوس نفسانیت نے ہم کو کس قدر خود غرض بنادیا ہے۔ ہم ایشور کا بھی سوانگ بھرتے ہیں۔ کتنی شرمناک ریاکاری ہے۔ ہم حقیقت کو مکمل مفاد اور ذاتی اغراض پر قربان کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں اگر ہماری کوششیں بار آور نہیں ہوتیں تو تعجب کیا ہے۔

مأخذ : پریم چند کے نمائندہ افسانے

مصنف:پریم چند

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here