راہ نجات

0
185
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

سپاہی کو اپنی لال پگڑی پر، عورت کو اپنے گہنوں پر، اور طبیب کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے مریضوں پر جوناز ہوتا ہے وہی کسان کو اپنے لہلہاتے ہوئے کھیت دیکھ کر ہوتا ہے۔

جھینگر اپنے ایکھ کے کھیتوں کو دیکھتا تو اس پر نشہ سا چھا جاتا ہے۔ تین بیگھے زمین تھی۔ اس کے چھ سو تو آپ ہی مل جائیں گے، اور جو کہیں بھگوان نے ڈنڈی تیز کردی۔ (مراد نرخ سے) تو پھر کیا پوچھنا۔ دونوں بیل بوڑھے ہوگئے۔ اب کی نئی گوئیں بٹیسر کے میلہ سے لے آوے گا۔ کہیں دو بیگھے کھیت اور مل گئے تو لکھا لے گا۔ روپیوں کی کیا فکر ہے، بنئے ابھی سے خوشامد کرنے لگے تھے۔ ایسا کوئی نہ تھا جس سے اس نے گاؤں میں لڑائی نہ کی ہو۔وہ اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھتا ہی نہ تھا۔

ایک روز شام کے وقت وہ اپنے بیٹے کو گود میں لیے مٹر کی پھلیاں توڑ رہا تھا۔اتنے میں اس کو ا بھیڑوں کا ایک جھنڈ اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگا، ادھر سے بھیڑوں کے نکلنے کا راستہ نہ تھا کیا کھیت کی مینڈ پر سے بھیڑوں کا جھنڈ نہیں جاسکتا تھا؟بھیڑوں کو ادھر سے لانے کی کیا ضرورت؟ یہ کھیت کو کچلیں گی،چریں گی۔ اس کا دام کون دے گا؟معلوم ہوتا ہے بدّھو گڈریا ہے۔ بچہ کو گھمنڈ ہوگیا ہے جبھی تو کھیتوں کے بیچ میں سے بھیڑیں لیے جارہاہے۔ ذرا اس کی ڈھٹائی تو دیکھو۔ دیکھ رہا ہے کہ میں کھڑا ہوں اور پھر بھی بھیڑوں کولوٹاتا نہیں۔ کون میرے ساتھ کبھی سلوک کیا ہے کہ میں اس کی مروّت کروں۔ ابھی ایک بھیڑامول مانگوں تو پانچ روپے سنا دیگا۔ ساری دنیا میں چار روپے کے کمبل بکتے ہیں پر یہ پانچ روپے سے کم بات نہیں کرتا۔

اتنے میں بھیڑیں کھیت کے پاس آگئیں۔ جھینگر نے للکارکر کہا ارے یہ بھیڑیں کہاں لیے آتے ہو۔ کچھ سوجھتا ہے کہ نہیں؟

بدھو انکسار سے بولا، مہتو۔ ڈانڈپر سے نکل جائیں گی، گھوم کر جاؤں گا۔ تو کوس بھر کا چکّر پڑے گا۔

- Advertisement -

جھینگر: تو تمھارا چکّربچانے کے لیے میں اپنا کھیت کیوں کچلاؤں ڈانڈ ہی پر سے لے جانا ہے تو اور کھیتوں کے ڈانڈے سے کیوں نہیں لے گئے؟ کیا مجھے کوئی چمار بھنگی سمجھ لیا ہے یا روپیہ کا گھمنڈ ہوگیا ہے؟ لوٹا ؤ ان کو۔

بدھو: مہتو آج نکل جانے دو۔ پھر کبھی ادھر سے آؤں تو جو ڈند(سزا) چاہے دینا۔

جھینگر: کہہ دیا کہ لوٹاؤ انھیں۔اگر ایک بھیڑ بھی مینڈ پر چڑھ آئی تمھاری کسل نہیں۔

بدھو: مہتو، اگر تمھاری ایک بیل بھی کسی بھیڑ کے پیروں کے نیچے آجائے تو مجھے بٹھا کر سوگالیاں دینا۔

بدھو باتیں تو بڑی لجاجت سے کررہا تھا۔ مگر لوٹنے میں اپنی کسر شان سمجھتا تھا۔اس نے دل میں سوچا کہ اسی طرح ذرا ذرا سی دھمکیوں پر بھیڑوں کو لوٹانے لگا تو پھر میں بھیڑیں چراچکا۔ آج لوٹ جاؤں گا تو کل کو کہیں نکلنے کا راستہ ہی نہ ملے گا۔ سبھی رعب جمانے لگیں گے۔

بدھو بھی گھر کا مضبوط آدمی تھا۔بارہ کوڑی بھیڑیں تھیں۔ انھیں کھیتوں میں بٹھانے کے لیے فی شب آٹھ آنے کوڑی مزدوری ملتی تھی۔ اس کے علاوہ دودھ بھی فروخت کرتا تھا۔ اون کے کمبل بناتا تھا۔ سوچنے لگا۔اتنے گرم ہورہے ہیں، میرا کرہی کیا لیں گے؟ کچھ ان کا بیل تو ہوں نہیں۔ بھیڑوں نے جو ہری پتّیاں دیکھیں تو بے کل ہوگئیں۔ کھیت میں گھس پڑیں۔ بدھو انھیں ڈنڈوں سے مارمار کر کھیت کے کنارے سے ہٹاتا تھا۔ اور وہ ادھر ادھر سے نکل کر کھیت میں جا گھستی تھیں۔ جھینگر نے گرم ہوکر کہا۔ تم مجھے ہینکڑی جتانے چلے ہو تو تمھاری ہینکڑی بھلادوں گا۔

بدھو: تمھیں دیکھ کر بھڑ کتی ہیں، تم ہٹ جاؤ تو میں سب نکال لے جاؤں۔

جھینگر نے لڑکے کو گودی سے اتاردیا اور اپنا ڈنڈا سنبھال کر بھیڑوں کے سر پر گیا۔ دھوبی بھی اتنی بے دردی سے اپنے گدھوں کو نہ مارتا ہوگا، کسی بھیڑ کی ٹانگ ٹوٹی کسی کی کمر ٹوٹی۔ سب نے زور سے ممیانا شروع کیا۔ بدھو خاموش کھڑا ہوا اپنی فوج کی تباہی، اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہاوہ نہ بھیڑوں کو ہانکتا تھا، اورنہ جھینگر سے کچھ کہتا تھا۔بس کھڑا ہوا تماشا دیکھتا رہا۔ دو منٹ میں جھینگر نے اس فوج کو اپنی حیوانی طاقت سے مار بھگایا۔بھیڑوں کی فوج کو تباہ کرکے فاتحانہ غرورسے بولا۔ اب سیدھے چلے جاؤ، پھر ادھر سے آنے کا نام نہ لینا۔

بدھو نے چوٹ کھائی ہوئی بھیڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جھینگر، تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ پچھتاؤ گے۔

کیلے کو کاٹنا بھی اتنا آسان نہیں، جتنا کسان سے بدلا لینا۔ ان کی ساری کمائی کھیتوں میں رہتی ہے یا کھلیانوں میں،کتنی ارضی و سماوی آفات کے بعد اناج گھر میں آتا ہے اور جو کہیں آفات کے ساتھ عداوت نے میل کرلیا تو بے چارہ کسان کانہیں رہتا۔ جھینگر نے گھر آکر اور لوگوں سے اس لڑائی کا حال کہا تو لوگ سمجھانے لگے۔ جھینگر تم نے بڑا برا کیا۔ جان کر انجان بنتے ہو۔ بدھو کو جانتے نہیں کہ کتنا جھگڑا لو آدمی ہے۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا، جاکر اسے منالو نہیں تو تمھارے ساتھ گاؤں پر آفت آجائے گی۔ جھینگر کے سمجھ میں بات آئی، پچھتانے لگا کہ میں نے کہاں سے کہا ں اسے روکا۔ اگربھیڑیں تھوڑا بہت چرہی جاتیں تو کون میں اجڑا جاتا تھا۔اصل میں ہم کسانوں کا بھلا دب کر رہنے ہی میں ہے۔

بھگوان کو بھی ہمارا سر اٹھا کر چلنا اچھا نہیں لگتا۔ جی تو بدھو کے یہاں جانے کو نہ چاہتا تھا، مگر دوسروں کے اصرار سے مجبور ہوکر چلا۔اگہن کا مہینہ تھا۔ کہرا پڑرہا تھا۔ چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گاؤں سے باہر نکلا ہی تھا۔ کہ یکایک اپنے ایکھ کے کھیت کی طرف آگ کے شعلے دیکھ کر چونک پڑا دل دھڑکنے لگا۔ کھیت میں آگ لگی ہوئی تھی بے تحاشا دوڑا۔ مناتاجاتا تھا کہ میرے کھیت میں نہ ہو۔ مگر جیوں جیوں قریب پہنچتا تھا۔یہ پر امید وہم دور ہوتا جاتا تھا۔ وہ غضب ہی ہوگیا جسے روکنے کے لیے وہ گھرسے چلا تھا۔ ہتھیارے نے آگ لگادی اور میرے پیچھے سارے گاؤں کو چوپٹ کردیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کھیت آج بہت قریب آگیا ہے گویا درمیان کے پرتی کھیتوں کووجود ہی نہیں رہا۔آخر جب وہ کھیت پر پہنچاتو آگ خوب بھڑک چکی تھی۔ جھینگر نے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ گاؤں کے لوگ دوڑ پڑے اور کھیتوں سے ارہر کے پودے اکھاڑ کر آگ کو پیٹنے لگے۔ انسان و آتش کی باہمی جنگ کا منظر پیش ہوگیا۔ ایک پہر تک کہرام برپا رہا۔ کبھی ایک فریق غالب آتا، کبھی دوسرا۔ آتشی جانباز مر کر جی اٹھتے تھے اور دوگنی طاقت سے لڑائی میں مستعد ہوکر ہتھیار چلانے لگتے تھے۔ انسانی فوج میں جس سپاہی کی مستعدی سب سے زیادہ روشن تھی وہ بدھو تھا۔ بدھو کمر تک دھوتی چڑھائے اور جان کو ہتھیلی پر رکھے آگ کے شعلوں میں کود پڑتا تھا۔اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے بال بال بچ کر نکل آتا تھا۔ بالآخر انسانی فوج فتحیاب ہوئی مگر ایسی فتح جس پر شکست بھی خندہ زن تھی گاؤں بھر کی ایکھ جل کر راکھ ہوگئی اور ایکھ کے ساتھ ساری تمنائیں بھی جل بھن گئیں۔

آگ کس نے لگائی۔ یہ کھلا ہو راز تھا مگر کسی کو کہنے کی ہمّت نہ تھی کوئی ثبوت نہیں اور بلا ثبوت کے بحث کی وقعت ہی کیا؟ جھینگر کو گھر سے نکلنا محال ہوگیا۔ جدھر جاتا طعن و تشنیع کی بوچھار ہوتی۔ لوگ اعلانیہ کہتے کہ یہ آگ تم نے لگوائی تمھیں نے ہمارا ستیاناس کیا۔ تمھیں مارے گھمنڈ کے دھرتی پر پاؤں نہ رکھتے تھے۔آپ کے آپ گئے اور اپنے ساتھ گاؤں بھر کو بھی لے ڈوبے بدھو کو نہ چھیڑتے تو آج کیوں یہ دن دیکھنا پڑتا؟ جھینگر کو اپنی بربادی کو اتنا رنج نہ تھا۔ جتنا ان جلی کٹی باتوں کا۔تمام دن گھر میں بیٹھتا رہتا۔ پوس کا مہینہ آیا۔ جہاں ساری رات کو لھو چلاکرتے تھے وہاں سناٹا تھا۔ جاڑوں کے سبب لوگ شام ہی سے کواڑ بند کرکے پڑرہتے اور جھینگر کو کوستے تھے۔ راکھ اور بھی تکلیف دہ تھا۔ا یکھ صرف دولت دینے والی نہیں بلکہ کسانوں کے لیے زندگی بخش بھی ہے اسی کے سہارے کسانوں کا جاڑا پار ہوتا ہے۔گرم رس پیتے ہیں،ایکھ کی پتّیاں جلاتے ہیں اور اس کے اگوڑے جانوروں کو کھلاتے ہیں۔ گاؤں کے سارے کتّے جو رات کو بھٹیوں کی راکھ میں سویا کرتے تھے، سردی سے مرگئے۔ کتنے ہی جانور چارے کی قلّت سے ختم ہوگئے۔ سردی کی زیادتی ہوئی اور کل گاؤں کھانسی بخار میں مبتلا ہوگیا اور یہ ساری مصیبت جھینگر کی کرنی تھی۔ ابھاگے ہتھیارے جھینگرکی۔

جھینگر نے سوچتے سوچتے قصد کرلیا کہ بدھو کی حالت بھی اپنی ہی سی بناؤں گا۔ اس کے کارن میراستیاناس ہوگیااور وہ چین کی بانسری بجارہا ہے۔میں اس کا ستیاناس کردوں گا۔

جس روز اس مہلک عناد کی ابتدا ہوئی اسی روز سے بدھو نے اس طرف آناترک کردیا تھا۔ جھینگر نے اس سے ربط ضبط بڑھانا شروع کیا۔ وہ بدھو کو دکھلاناچاہتا تھا کہ تم پر مجھے ذرابھی شک نہیں ہے۔ ایک روز کمبل لینے کے بہانے گیا، پھر دودھ لینے کے بہانے جانے لگا۔ بدھو اس کی خوب آؤ بھگت کرتا۔ چلم تو آدمی دشمن کوبھی پلا دیتا ہے۔ وہ اسے بلادودھ اور شربت پلائے نہ جانے دیتا۔ جھینگر آج کل ایک سن لپیٹنے والی مشین میں مزدوری کرنے جایا کرتا تھا۔اکثر کئی روز کی اجرت یکجائی ملتی تھی۔بدھو ہی کی مدد سے جھینگر کا روزانہ خرچ چلتا تھا۔ بس جھینگر نے خوب میل جول پیدا کرلیا۔ ایک روز بدّھو نے پوچھا۔ کیوں جھینگر، اگر اپنی ایکھ جلانے والے کو پا جاؤ تو کیا کرو، سچ کہنا۔

جھینگر نے متانت سے کہا۔میں اس سے کہوں کہ بھیّا‘ تم نے جو کچھ کیا بہت اچھا کیا۔میرا گھمنڈ تو توڑدیا مجھے آدمی بنا دیا۔

بدھو۔میں جو تمھاری جگہ ہوتا تو اس کا گھر جلائے بغیر نہ مانتا۔

جھینگر۔ چاردن کی جندگانی میں بیر بڑھانے سے کون فائدہ؟ میں تو برباد ہی ہوا،اب اسے برباد کرکے کیا پاؤں گا؟

بدھو۔ بس یہی تو آدمی کا دھرم ہے۔ مگر بھائی کرودھ (غصّہ) کے بس میں ہوکر بدھی الٹی ہوجاتی ہے۔

پھاگن کا مہینہ تھا۔ کسان ایکھ بونے کے لیے کھیتوں کو تیار کررہے تھے، بدھو کا بازار گرم تھا۔ بھیڑوں کی لوٹ مچی ہوئی تھی۔ دوچار آدمی روزانہ دروازہ پر کھڑے خوشامد کیا کرتے۔ بدھو کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ بھیڑ بٹھانے کی اجرت دوگنی کردی تھی۔اگر کوئی اعتراض کرتا تو بے لاگ کہتا، بھیا،بھیڑیں تمھارے گلے تو نہیں لگاتا ہوں۔ جی نہ چاہے تو نہ بٹھلاؤ لیکن میں نے جو کہہ دیا ہے اس سے ایک کوڑی بھی کم نہیں ہوسکتی۔ غرض تھی لوگ اس کی بے مروّتی پر بھی اسے گھیرے ہی رہتے تھے، جیسے پنڈے کسی جاتری کے پیچھے پڑے ہوں۔

لکشمی کا جسم تو بہت بڑا نہیں اور وہ بھی وقت کے مطابق چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ کبھی وہ اپنی قدوقامت کو سمیٹ کر چند کاغذی الفاظ ہی میں چھپا لیتی ہے۔ کبھی کبھی تو انسان کی زبان پرجابیٹھتی ہے۔ جسم غائب ہوجاتا ہے۔ مگر ان کے رہنے کے لیے وسیع جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ آئیں اور گھر بڑھنے لگا چھوٹے چھوٹے مکان میں ان سے نہیں رہا جاتا۔ بدّھو کا گھر بھی بڑھنے لگا۔ دروازہ پر برآمدے کی تعمیر ہوئی، دو کی جگہ چھ کوٹھریاں بنوائی گئیں۔ یوں کہئے کہ مکان از سر نو بننے لگا۔ کسی کسان سے لکڑی مانگی، کسی سے کھرپل کاآنوا لگانے کے لیے اپلے، کسی سے بانس اور کسی سے سرکنڈے۔دیوار بنانے کی اجرت دینی پڑی۔ وہ بھی نقد نہیں، بھیڑکے بچّوں کی شکل میں لکشمی کا یہ اقبال ہے، ساراکام بیگار میں ہوگیا مفت میں اچھاخاصا مکان تیار ہوگیا داخلہ کے جشن کی تیاریاں ہونے لگیں۔

ادھر جھینگر دن بھر مزدوری کرتا تو کہیں آدھا اناج ملتا۔ بدھو کے گھر میں کنچن برس رہاتھا۔ جھینگر جلتا تھا تو کیا بُرا کرتا تھا؟ یہ انیائے کس سے سہا جائے گا۔

ایک روز وہ ٹہلتا ہوا چماروں کے ٹولے کی طرف چلاگیا۔ ہری ہر کو پکاراہری ہر نے آکر رام رام کی اور چلم بھری، دونوں پینے لگے۔ یہ چماروں کا مکھیابڑا بدمعاش آدمی تھا۔ سب کسان اس سے تھر تھر کانپتے تھے۔

جھینگر نے چلم پیتے پیتے کہا۔ آج کل بھاگ واگ نہیں ہوتا کیا؟ کہو، تمھاری آج کل کیسی کٹتی ہے؟

جھینگر۔ کیا کٹتی ہے۔ نکٹا جیا برے حال؟ دن بھر کارخانے میں مجوری کرتے ہیں تو چولھا جلتا ہے۔ چاندی تو آج کل بدّھو کی ہے۔ رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ نیا گھر بنا۔ بھیڑیں اور لی ہیں۔ اب گرہ پرویش (داخلہ مکان) کی دھوم ہے۔ ساتوں گاؤں میں نیوتنے کی سپاری جائے گی۔

ہری ہر لچھمی میّا آتی ہیں تو آدمی کی انکھوں میں سیل (مروت) آجاتی ہے۔ مگر اس کو دیکھو دھرتی پر پاؤں نہیں دھرتا۔ بولتا ہے توا ینٹھ کر بولتا ہے۔

جھینگر کیوں نہ انیٹھے؟ اس گاؤں میں کون ہے اس کے ٹکّر کا؟ پریار یہ انیائے تو نہیں دیکھا جاتا۔ جب بھگوان دیں تو سر جھکاکر چلنا چاہیے یہ نہیں کہ اپنے برابر کسی کو سمجھے ہی نہیں۔ اس کو موینگ سنتا ہوں تو بدن میں آگ لگ جاتی ہے اکل کا بانی آج کا سیٹھ۔ چلا ہے ہمیں سے اکڑنے ابھی لنگوٹی لگائے کھیتوں میں کوّے ہانکا کرتا تھا،آج اس کا آسمان میں دِیا جلتا ہے۔

ہری ہر: کہو تو کچھ جوگ جاگ کروں۔

جھینگر: کیا کروگے؟ اسی ڈر سے تو وہ گائے بھینس نہیں پالتا۔

ہری ہر: بھیڑیں تو ہیں۔

جھینگر: کیا بگلا مارے پکھنا ہاتھ۔

ہری ہری: پھر تمھیں سوچو۔

جھینگر: ایسی جگت نکالو کہ پھر پنپنے نہ پائے۔

اس کے بعد دونوں میں کانا پھوسی ہونے لگی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ نیکی میں جتنی نفرت ہوتی ہے، بدی میں اتنی ہی رغبت۔ عالم عالم کو دیکھ کر، سادھو سادھو کو دیکھ کر، شاعرشاعر کو دیکھ کرجلتا ہے۔ ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔مگر جواری جواری کو دیکھ کر، شرابی شرابی کو دیکھ کر، چور چور کو دیکھ کر، ہمدردی جتاتا ہے، مدد کرتا ہے۔ ایک پنڈت جی اگر اندھیرے میں ٹھوکر کھاکر گر پڑیں تو دوسرے پنڈت جی انھیں اٹھانے کے بجائے دو ٹھوکریں اور لگائے کہ وہ پھر اٹھ ہی نہ سکیں۔ مگر ایک چور پر آفت آتے دیکھ کر دوسرا چور اس کی آڑ کر لیتا ہے۔ بدی سے سب نفرت کرتے ہیں اس لیے بدوں میں باہمی محبت ہوتی ہے۔ نیکی کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے، اس لئے نیکوں میں مخالفت ہوتی ہے۔ چور کو مار کر چور کیا پائے گا؟ نفرت۔عالم کی توہین کرکے عالم کیا پائے گا؟ نیک نامی۔

جھینگر اور ہری ہر نے صلاح کرلی۔ سازش کی تدبیرسوچی گئی اس کا نقشہ، وقت اور طریقہ طے کیا گیا۔ جھینگر چلا تو اکڑاجاتا تھا۔ مار لیا دشمن کواب توکہاں جاتا ہے۔

دوسرے روز جھینگرکام پر جانے لگا تو پہلے بدّھو کے گھر پہنچا۔بدّھو نے پوچھا کیوں آج نہیں گئے؟ جھینگر۔ جاتو رہا ہوں، تم سے یہی کہنے آیا تھا کہ میری بچھیا کو اپنی بھیڑوں کے ساتھ کیوں نہیں چرادیا کرتے؟ بے چاری کھونٹے پر بندھی مری جاتی ہے۔ نہ گھاس، نہ چارا، کیا کھلاویں؟

بدّھو؟ بھیاّ میں گائے بھینس نہیں رکھتا۔ چماروں کو جانتے ہوں یہ ایک ہی ہتھیارے ہوتے ہیں۔ اسی ہری ہر نے میری دو گائیں مار ڈالیں۔ نہ جانے کیا کھلا دیتا ہے۔تب سے کان پکڑے کہ اب گائے بھینس نہ پالوں گا۔ لیکن تمھاری ایک ہی بچھیا ہے،اس کا کوئی کیا کرے گا؟ جب چاہو پہنچا دو۔

یہ کہہ کر بدّھو اپنے مکان والی دعوت کا سامان اسے دکھانے لگا۔ گھی، شکر، میدہ، ترکاری سب منگا کر رکھا تھا۔ صرف ست نرائن کی کتھا کی دیر تھی۔ جھینگر کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایسی تیاری نہ اس نے خود کبھی کی تھی اور نہ کسی کو کرتے دیکھی تھی۔ مزدوری کر گھر کو لوٹا تو سب سے پہلا کام جو اس نے کیا وہ اپنی بچھیا کوبدّھو کے گھر پہنچانا تھا اسی رات کو بدّھو کے یہاں ست نرائن کی کتھا ہوئی ’وبر مہ بھوج‘ بھی کیا گیا، ساری رات برہمنوں کی تواضع وتکریم میں گذری۔ بھیڑوں کے گلہ میں جانے کا موقع ہی نہ مِلا علی الصباح کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا (کیوں کہ رات کا کھانا صبح ملا) کہ ایک آدمی نے آکر خبر دی۔بدّھو تم یہاں بیٹھے ہو۔ ادھر بھیڑوں میں بچھیا مری پڑی ہے۔ بھلے آدمی، اس کی پگھیا بھی نہیں کھولی تھی۔

بدّھو نے سنا اور گویا ٹھوکر لگ گئی۔ جھینگر بھی کھانا کھاکر وہیں بیٹھا تھا۔ بولا ہائے میری بچھیا۔چلو ذرا دیکھوں تو، میں نے تو پگھیا نہیں لگائی تھی۔اسے بھیڑوں میں پہنچا کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ تم نے یہ پگھیا کب لگادی۔

بدّھو: بھگوان جانے جو میں نے اس کی پگھیا دیکھی بھی ہو، میں تو تب سے بھیڑوں میں گیا ہی نہیں۔

جھینگر: جاتے نہ تو پگھیا کون لگادیتا؟َ گئے ہوگے، یاد نہ آتی ہوگی۔

ایک برہمن: مری توبھیڑوں ہی میں نا؟ دنیا تو یہی کہے گی کہ بدّھو کی غفلت سے اس کی موت ہوئی، چاہے پگھیا کسی کی ہو۔

ہری ہر: میں نے کل سانجھ کوانھیں بھیڑوں میں بچھیا کو باندھتے دیکھا تھا۔

بدّھو: مجھے؟

ہری ہر: تم نہیں لاٹھی کندھے پر رکھے، بچھیا کو باندھ رہے تھے؟

بدّھو: بڑا سچّا ہے تو، تو نے مجھے بچھیا کو باندھتے دیکھا تھا؟

ہری ہر: تو مجھ پر کا ہے کو بگڑتے ہو بھائی؟ تم نے نہیں باندھی تو نہیں سہی۔

برہمن: اس کا نشچے کرنا ہوگا گو ہتھیا کو پراشچت کرنا پڑے گا، کچھ ہنسی ٹھٹھا ہے۔

جھینگر: مہاراج، کچھ جان بوجھ کر تو باندھی نہیں۔

برہمن: اس سے کیا ہوتا؟ ہتھیا اسی طرح لگتی ہے کوئی گئو کومارنے نہیں جاتا۔

جھینگر: ہاں، گؤوں کو کھولنا باندھنا ہے تو جوکھم کا کام۔

برہمن: شاسترو ں میں اسے مہا پاپ کہا ہے۔ گؤ کی ہتھیا برہمن کی ہتھیا سے کم نہیں۔

جھینگر: ہاں، پھر گؤ توٹھہری ہی اسی سے نہ ان کا مان (اور) ہے۔ جوماتا سو گؤ۔ لیکن مہاراج۔ چوک ہوگئی۔ کچھ ایساکیجئے کہ بے چارہ تھوڑے میں نپٹ جائے۔

بدّھو کھڑا سن رہا تھا کہ خواہ مخواہ میرے سر گؤ ہتھیا کا الزام تھوپا جارہا ہے۔ جھینگر کی چالاکی بھی سمجھ رہا تھا، میں لاکھ کہوں کہ میں نے بچھیا نہیں باندھی پر مانے گا کون؟ لوگ یہی کہیں گے کہ پراشچت سے بچنے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے۔

برہمن دیوتا کا بھی اس کے پراشچت کرانے میں فائدہ تھا۔ بھلا ایسے موقع پر کب چوکنے والے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بدّھو کو ہتھیا لگ گئی۔ برہمن بھی اس سے جل رہے تھے۔ کسر نکالنے کا موقع ملا۔ تین ماہ تک بھیک مانگنے کی سزادی گئی۔ پھر سات تیرتھوں کی جاترا، اس پر پانچ سو برہمنوں کا کھلانا اور پانچ گایوں کا دان۔ بدّھو نے سنا تو ہوش اڑ گئے۔ رونے پیٹنے لگا، تو سزا گھٹا کر دوماہ کردی گئی۔اس کے سوا کوئی رعایت نہ ہوسکی۔ نہ کہیں اپیل، نہ کہیں فریاد، بے چارے کو یہ سزا قبول کرنی پڑی۔

بدّھو نے بھیڑیں۔ ایشور کو سونپیں۔لڑکے چھوٹے تھے۔ عورت اکیلی کیا کرتی۔ غریب جاکر دروازوں پر کھڑا ہوتا اور منہ چھپاتے ہوئے کہتا گائے کی باچھی دیو بن باس، بھیک تو مل جاتی مگر بھیک کے ساتھ دوچار سخت اور توہین آمیز فقرے بھی سننے کو پڑتے۔ دن کو جوکچھ پاتا اسی کو شام کے وقت کسی درخت کے نیچے پکا کر کھا لیتا اوروہیں پر رہتا۔ تکلیف کی تو اس کو پرواہ نہ تھی۔ بھیڑوں کے ساتھ تمام دن چلتا ہی تھا، درخت کے نیچے سوتا ہی تھا، کھانا بھی اس سے کچھ بہتر ہی ملتا تھا، مگر شرم تھی بھیک مانگنے کی۔ خصوصاً جب کوئی بدمزاج عورت یہ طعنے دیتی کہ روٹی کمانے کا اچھا ڈھنگ نکالا ہے، تو اسے دلی قلق ہوتا تھا مگر کرے کیا۔

دوماہ بعد وہ گھر واپس آیا۔ بال بڑھے ہوئے تھے، کمزور اس قدر کہ گویا ساٹھ سال کا بوڑھا ہو۔ تیرتھ جانے کے لیے روپیوں کا بندوبست کرنا تھا۔گدڑیوں کو کون مہاجن قرض دے۔ بھیڑوں کا بھروسہ کیا؟ کبھی کبھی وبا پھیلتی ہے تو رات بھرمیں گلّہ کا گلّہ صاف ہوجاتا ہے۔ اس پر جیٹھ کا مہینہ جب بھیڑوں سے کوئی آمدنی ہونے کی امید نہیں،ایک تیلی راضی بھی ہوا، تو دو فی روپیہ سود پر آٹھ ماہ میں سود اصل کے برابر ہوجائے گا۔ یہاں قرض لینے کی ہمّت نہ پڑی۔ ادھر دو مہینوں میں کتنی ہی بھیڑیں چوری چلی گئیں۔ لڑکے چرانے لے جاتے تھے دوسرے گاؤں والے چپکے سے دو ایک بھیڑیں کسی کھیت یا گھر میں چھپا دیتے اور بعد کو مارکر کھاجاتے۔ لڑکے بے چارے ایک تو نہ پکڑ سکتے اور جو کچھ بھی لیتے تو لڑیں کیسے۔ سارا گاؤں ایک ہوجاتا تھا۔ ایک ماہ میں بھیڑیں آدھی بھی نہ رہ جائیں گی۔ بڑا مشکل مسئلہ تھا۔ مجبوراًبدّھو نے ایک قصاب کو بلایا اور سب بھیڑیں اس کے ہاتھ فروخت کر ڈالیں۔ پانچ سو روپیہ ہے ان میں سے دو سو لے کر وہ تیرتھ یاترا کرنے گیا۔ بقیہ روپیہ برمہہ بھوج کے لیے چھوڑ گیا۔

بدھو کے جانے پر اس کے مکان میں دوبار نقب ہوئی مگر یہ خیریت ہوئی کہ جاگ پڑنے کی وجہ سے روپے بچ گئے۔

ساون کا مہینہ تھا چاروں طرف ہریالی پھیلی ہوئی تھی۔ جھینگر کے بیل نہ تھے، کھیت بٹائی پر دے دیے تھے۔ بدھو پراشچت سے فارغ ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ ہی مایا کے پھندے سے بھی آزاد ہوگیا تھا۔ نہ جھینگر کے پاس کچھ تھا،نہ بدّھو کے پاس۔ کون کس سے جلتا اور کس لیے جلتا؟

سن کی کل بند ہوجانے کے سبب جھینگر اب بیلداری کا کام کرتا تھا۔ شہر میں ایک بڑا دھرم شالہ بن رہا تھا۔ ہزاروں مزدور کام کرتے تھے۔ جھینگر بھی انھیں میں تھا، ساتویں روز مزدوری کے پیسے لے کر گھر آتا تھا اور رات بھر رہ کر سویرے پھر چلا جاتا تھا۔

بدّھو بھی مزدوری کی تلاش میں یہیں پہنچا۔ جمعدار نے دیکھا کہ کمزورآدمی ہے۔ سخت کام تو اس سے ہو نہ سکے گا۔ کاری گروں کا گارا پہنچا نے کے لیے رکھ لیا، بدّھو سر پر طاش رکھے گا را لینے گیا، تو جھینگر کو دیکھا۔رام رام ہوئی۔ جھینگر نے گارا بھردیا۔ بدّھو نے اٹھالیا۔ دن بھر دونوں اپنا کام کرتے رہے۔

شام کو جھینگر نے پوچھا۔ کچھ بناؤگے نا؟

بدّھو: نہیں تو کھاؤں گا کیا؟

جھینگر: میں تو ایک جون جینا کرلیتا ہوں۔ اس جوں ستو کھاتا ہوں کون جھنجھٹ کرے؟

بدّھو: ادھر ادھر لکڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ بٹور لاؤ۔ آ ٹاگھرسے لیتا آیا ہوں گھر ہی میں پسوالیا تھا۔ یہاں تو بڑا مہنگا ملتا ہے۔ اسی پتھر والی چٹان پر آٹا گوندھے لیتا ہوں۔ تم تو میرا بنایاکھاؤ گے نہیں۔ اس لیے تمھیں روٹیاں سینکو میں روٹیاں بناتا جاؤں گا۔

جھینگر: تو ا،بھی نہیں ہے۔

بدّھو: تو ے بہت ہیں یہی گارے کا تسلہ مانجے لیتا ہوں۔

آگ جلی، آٹا گوندھا گیا۔ جھینگر نے کچّی پکّی روٹیاں تیاری کیں۔ بدّھو پانی لایا۔ دونوں نے نمک مرچ کے ساتھ روٹیاں کھائیں۔ پھر چلم بھری گئی دونوں پتّھر کی سلوں پرلیٹے اور چلم پینے لگے۔

بدّھو نے کہا، تمھاری اوکھ میں آگ میں نے لگائی تھی۔

جھینگر نے مذاق آمیز لہجہ میں کہا، جانتا ہوں۔

ذرا دیر بعد جھینگر بولا۔ بچھیا میں نے ہی باندھی تھی اور ہری ہر نے اسے کچھ کھلا دیا تھا بدّھو نے بھی اسی لہجہ میں کہا جانتا ہوں۔

پھر دونوں سوگئے۔

مأخذ : پریم چند کے سو افسانے

مصنف:پریم چند

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here