پنچایت

0
197
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

جمّن شیخ اور الگو چودھری میں بڑایارانہ تھا۔ ساجھے میں کھیتی ہوتی۔ لین دین میں بھی کچھ ساجھا تھا۔ ایک کو دوسرے پر کامل اعتماد تھا۔ جمّن جب حج کرنے گئے تھے تو اپنا گھر الگو کو سونپ گئے تھے اور الگو جب کبھی باہر جاتے تو جمّن پر اپنا گھر چھوڑ دیتے۔ وہ نہ ہم نوالہ تھے نہ ہم مشرب، صرف ہم خیال تھے اور یہی دوستی کی اصل بنیاد ہے۔

اس دوستی کا آغاز اسی زمانہ میں ہوا جب دونوں لڑکے جُمّن کے پدر بزرگوار شیخ جمعراتی کے روبرو زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔ الگو نے استاد کی بہت خدمت کی خوب رکابیاں مانجھیں۔ خوب پیالے دھوئے ۔ان کا حقّہ دم نہ لینے پاتا تھا۔ان خدمتوں میں شاگرد انہ عقیدت کے سوا اور کوئی بھی خیال مضر نہ تھا۔جسے الگو خوب جانتا تھا۔ ان کے باپ پرانی وضع کے آدمی تھے۔ تعلیم کے مقابلے میں انھیں استاد کی خدمت پر زیادہ بھروسہ تھا۔وہ کہا کرتے تھے استاد کی دعا چاہیے جو کچھ ہوتا ہے فیض سے ہوتا ہے۔اور اگر الگو پر استاد کے فیض یا دعاؤں کا اثر نہ ہوا تو اسے تسکین تھی کہ تحصیل علم کاکوئی دقیقہ اس نے فروگزاشت نہیں کیا۔ علم اس کی تقدیر ہی میں نہ تھا۔ شیخ جمعراتی خوددعا اور فیض کے مقابلے میں تازیانے کے زیادہ قائل تھے اورجمّن پر اس کا بے دریغ استعمال کرتے تھے اسی کا یہ فیض تھا کہ آج جمّن کے قرب وجوار کے مواضعات میں پرشش ہوتی تھی ۔بیع نامہ یا رہن نامہ کے مسودات پر تحصیل کا عرائض نویس بھی قلم نہیں اٹھاسکتا تھا۔حلقہ کا پوسٹ مین کانسٹیبل اور تحصیل کا مذکوری یہ سب ان کے دست کرم کے محتاج تھے۔ اس لیے اگر الگو کو ان کی ثروت نے ممتاز بنادیا تھا۔ تو شیخ جمّن بھی علم کی لازوال دولت کے باعث عزت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔

شیخ جمّن کی ایک بوڑھی بیوہ خالہ تھیں۔ ان کے پاس کچھ تھوڑی سی ملکیت تھی۔ مگر غریب کا وارث کوئی نہ تھا، جمّن نے وعدے وعہد کے سبز باغ دکھا کر خالہ اماں سے وہ ملکیت اپنے نام کرالی تھی، جب تک ہبہ نامہ پر رجسٹری نہ ہوئی تھی خالہ جان کی خوب خاطر داریاں ہوتی تھی۔ خوب میٹھے لقمے چٹ پٹے سالن کھلائے جاتے تھے۔مگر پگڑی کی مہر ہوتے ہی ان کی خاطر داریوں پر بھی مہر ہوگئی وہ وعدے وصال کے دمورے ثابت ہوئے۔جُمّن کی اہلیہ بی فہیمن نے روٹیوں کے ساتھ چیز بھی بدل دیں اوررفتہ رفتہ سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کردی۔بڑھیا وقت کے بوریے بٹورے گی کیا، دوتین بیگھے اوسرکیادے دیا ہے ،ایک دن دال بغیر روٹی نہیں اترتی ۔جتنا روپیہ اس کے پیٹ میں گیا، اگر ہوتا تو اب تک کئی گاؤں مول لے لیتے کچھ دنوں تک خالہ جان نے اور دیکھا مگر جب برداشت نہ ہوئی تو جُمّن سے شکایت کی۔جمّن صلح پسند آدمی تھا۔ اب اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا۔کچھ دن تو رودھو کر کام چلا۔آخر ایک روز خالہ جان نے جمّن سے کہا، ’’بیٹا ۔تمہارے ساتھ میرا نباہ نہ ہوگا۔ تم مجھے روپے دے دیا کرو میں اپناالگ پکالوں گی۔‘‘ جمّن نے بے اعتنائی سے جواب دیا، ’’روپیہ کیا یہاں پھلتا ہے؟‘‘ خالہ جان نے بگڑ کر کہا، ’’تو مجھے کچھ نان نمک چاہیے یا نہیں؟‘‘

جمّن نے مظلومانہ انداز سے جواب دیا’’چاہیے کیوں نہیں میرا خون چوس لو!کوئی یہ ٹھوڑے ہی سمجھتا تھا کہ تم خواجہ خضر کی حیات لے کر آئی ہو۔

خالہ جان اپنے مرنے کی بات نہیں سن سکتی تھیں جامہ باہر ہوکر پنچایت کی دھمکی دی ۔جُمّن ہنسے ۔وہ فاتحانہ ہنسی جو شکاری کے لبوں پر ہرن کو جال کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر نظر آتی ہے۔ کہا ہاں ۔ضرور پنچا یت کرو فیصلہ ہوجائے مجھے بھی رات دن کا وبال پسند نہیں۔

- Advertisement -

پنچایت کی صدا کس کے حق میں اٹھے گی اس کے متعلق شیخ جمّن کو اندیشہ نہیں تھا۔ قرب وجوار ،ہاں ایسا کون تھا جوان کا شرمندہ منّت نہ ہو؟ کون تھا جو ان کی دشمنی کو حقیر سمجھے؟ کس میں اتنی جرأت تھی جو ان کے سامنے کھڑا ہوسکے۔آسمان کے فرشتہ تو پنچایت کرنے آئیں گے نہیں مریض نے آپ ہی دوا طلب کی۔

اس کے بعد کئی دن تک بوڑھی خالہ لکڑی لیے آس پاس کے گاؤں کے چکرّ لگاتی رہیں۔ کمر جھک کر کمان ہوگئی تھی۔ایک قدم چلنا مشکل تھا مگر بات آپڑی تھی اس کا تصفیہ ضروری تھا۔ شیخ جمّن کو اپنی طاقت رسوخ اور منطق پر کامل اعتماد تھا ۔وہ کسی کے سامنے فریاد کرنے نہیں گئے۔

بوڑھی خالہ نے اپنی دانست میں تو گریہ وزاری کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ مگرخوبئی تقدیر کوئی اس طرف مائل نہ ہوا۔کسی نے تو یوں ہی ہاں ہوں کرکے ٹال دیا کسی نے زخم پر نمک چھڑک دیا ذرا اس ہوس کو دیکھو قبر میں پیر لٹکائے ہوئے ہیں۔ آج مریں کل دوسرا دن ہوا، مگر صبر نہیں ہوتا۔پوچھو اب تمھیں گھر بار، جگہ زمین سے کیا سروکار۔ ایک لقمہ کھاؤ ٹھنڈاپانی پیو اور مالک کی یاد کرو۔سب سے بڑی تعداد ستم ظریفوں کی تھی۔خمیدہ کمر پوپلا منہ سن کے سے بال اور ثقل سماعت جب اتنے تفریح کے سامان موجود ہوں تو ہنسی کا آنا قدرتی امر ہے۔ غرض ایسے درد رس, انصاف پرور آدمیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جنھوں نے خالہ جان کی فریاد کو غور سے سنا ہو، اور اس کی تشفی کی ہو،چاروں طرف سے گھوم گھام کر بڑھیا الگو چودھری کے پاس آئی لاٹھی پٹک دی اور دم لے کر کہا، ’’بیٹا تم بھی چھن بھر کو میری پنچایت میں چلے آنا۔‘‘ الگو بے رخی سے بولے، ’’مجھے بلاکر کیا کروگی۔ کئی گاؤں کے آدمی تو آئیں گے ہی۔‘‘

خالہ نے ہانپ کر کہا، ’’اپنی فر یاد تو سب کے کان میں ڈال آئی ہوں۔ آنے نہ آنے کا حال اللہ جانے؟ ہمارے سیّد سالار گہار سن کر پیڑسے اٹھ آئے تھے ۔کیا میرا رونا کوئی نہ سنے گا۔‘‘ الگو نے جواب دیا، ‘‘یوں آنے کو میں آجاؤں گا، مگر پنچایت میں منہ نہ کھولوں گا۔‘‘ ’’خالہ نے حیرت سے پوچھا کیوں بیٹا۔‘‘ الگو نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا، ’’اب اس کا کیا جواب؟ اپنی اپنی طبیعت جُمّن میرے پرانے دوست ہیں۔ اس سے بگا ڑ نہیں کر سکتا۔‘‘ خالہ نے تاک کر نشانہ مارا، ’’بیٹا کیا بگاڑ کے ڈرسے ایمان کی بات نہ کہو گے؟‘‘

ہمارے سوئے ایمان کی ساری جتھا چوری سے لٹ جائے۔اسے خبر نہیں ہوتی۔مگر کھلی ہوئی للکار سن کر وہ چونک پڑتا ہے اورہوشیار ہوجاتا ہے۔ الگو چودھری اس سوال کا جواب نہ دے سکے کیا وہ ’’نہیں‘‘ کہنے کی جرأت کرسکتے تھے؟

شام کو ایک پیڑ کے نیچے پنچایت بیٹھی۔ٹاٹ بچھا ہوا تھا۔ حقّہ کا بھی انتظام تھا یہ سب شیخ جُمّن کی مہمان نوازی تھی۔وہ خود الگو چودھری کے ساتھ ذرادور بیٹھے حقّہ پی رہے تھے۔ جب کوئی آتا تھا ایک دبی ہوئی سلام علیک سے اس کا خیر مقدم کرتے تھے۔ مگر تعجب تھا کہ بااثر آدمیوں میں صرف وہی لوگ نظرآتے ۔جنھیں ان کی رضا جوئی کی کوئی پروا نہیں ہوسکتی تھی۔کتنے مجلس کو دعوتِ احباب سمجھ کر جھنڈ کے جھنڈ جمع ہوگئے تھے۔

جب پنچایت پوری بیٹھ گئی تو بوڑھی بی نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا، ’’پنچوں آج تین سال ہوئے میں نے اپنی سب جائیداد اپنے بھانجے جمّن کے نام لکھ دی تھی اسے آپ لوگ جانتے ہوں گے۔ جُمّن نے مجھے تاحین حیات روٹی کپڑا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سال چھ مہینے تو میں نے ان کے ساتھ کسی طرح رودھو کر کاٹے مگر اب مجھ سے رات دن کا رونا نہیں سہاجاتا،مجھے پیٹ کی روٹیاں تک نہیں ملتیں۔بیکس بیوہ ہوں۔ تھانہ کچہری کر نہیں سکتی سوائے تم لوگوں کے اور کس سے اپنا دکھ درد روؤں۔ تم لوگ جو راہ نکال دو اس راہ پر چلوں اگر میری بُرائی دیکھو میرے منہ پر تھپڑ مارو جمّن کی برائی دیکھو تو اسے سمجھاؤ ۔کیوں ایک بیکس کی آہ لیتا ہے۔‘‘

رام دھن مصر بولے، ’’(ان کے کئی اسامیوں کو جمّن نے توڑلیاتھا۔)جمّن میاں پنچ کسے بناتے ہو ابھی سے طے کرلو۔‘‘ جمّن نے حاضرین پر ایک اڑتی ہوئی نگاہ ڈالی۔اپنے تئیں مخالفوں کے نرغے میں پایا۔ دلیر انہ انداز سے کہا، ’’خالہ جان جسے چاہیں پنچ بنائیں مجھے عذر نہیں ہے۔‘‘ خالہ نے چلا کر کہا، ’’ارے اللہ کے بندے تو پنچوں کے نام کیوں نہیں بتادیتا؟

جمّن نے بڑھیا کو غضبناک نگاہوں سے دیکھ کر کہا، ’’اب اس وقت میری زبان نہ کھلواؤ جسے چاہو پنچ بنادو۔‘‘ خالہ نے جمّن کے اعتراض کو تاڑ لیا۔بولیں، ’’بیٹا۔خدا سے ڈر۔میرے لیے کوئی اپنا ایمان نہ بیچے گا۔اتنے بھلے آدمیوں میں کیا سب تیرے دشمن ہیں اور سب کو جانے دو۔الگو چو دھری کو تو مانے گا؟‘‘ جمّن فرط مسرت سے باغ باغ ہوگئے۔ مگر ضبط کرکے بولے، ’’الگو چودھری ہی سہی میرے لیے جیسے رام دھن مصر، ویسے الگو چودھری کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔‘‘ الگو بغلیں جھانکنے لگے۔اس جھمیلے میں نہیں پھنسنا چاہتے تھے۔معترضانہ انداز سے کہا، ’’بوڑھی ماں تم جانتی ہو کہ میر ی اور جمّن کی گاڑی دوستی ہے۔‘‘ خالہ نے جواب دیا، ’’بیٹا دوستی کے لیے کوئی اپنا ایمان نہیں بیچتا۔پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔ پنچ کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ اللہ کی طرف سے نکلتی ہے۔‘‘

الگو کو کوئی چارہ نہ رہا۔ سرپنچ بنے۔ رام دھن مصر دل میں بڑھیا کو کوسنے لگے۔ الگو چودھری نے فرمایا، ’’شیخ جمّن۔ہم اور تم پرانے دوست ہیں۔ جب ضرورت پڑی ہےتم نے میری مدد کی ہے اور ہم سے بھی جو کچھ بن پڑا ہے،تمھاری خدمت کرتے آئے ہیں۔ مگر اس وقت نہ تم ہمارے دوست ہو، نہ ہم تمھارے دوست۔یہ انصاف اور ایمان کا معاملہ ہے۔‘‘ خالہ جان نے پنچوں سے اپنا حال کہہ سنایا۔

’’تم کو بھی جو کچھ کہنا ہو کہو۔‘‘ جمّن ایک شانِ فضیلت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے، ’’پنچوں میں خالہ جان کو اپنی ماں کی جگہ سمجھتا ہوں اور ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رکھتا۔ہاں عورتوں میں ذراَن بَن رہتی ہے۔ اس میں میں مجبور ہوں۔ عورتوں کی تو عادت ہی ہے۔ مگر ماہوار روپیہ دینا میرے قابو سے باہر ہے۔کھیتوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے چھپی نہیں۔آگے پنچوں کا حکم سر اور ماتھے پر ہے۔‘‘

الگو کو آے دن عدالت سے واسطہ رہتا تھا۔ قانونی آدمی تھے۔جمّن سے جرح کرنے لگے۔ایک ایک سوال جمّن کے دل پر ہتھوڑے کی ضرب کی طرح لگتا تھا۔رام دھن مصر اور ان کے رفیق سر ہلاہلا کر ان سوالوں کی داد دیتے تھے۔جُمّن حیرت میں تھے کہ الگو کو کیا ہوگیاہے۔ ابھی تو یہ میرے ساتھ بیٹھا کیسے مزے مزے کی باتیں کررہا تھا۔اتنی دیر میں ایسی کایاپلٹ ہو گئی کہ میری جڑ کھودنے پر آمادہ ہے۔ اچھی دوستی نبا ہی۔ اس سے اچھے تو رام دھن ہی تھے۔وہ یہ تو نہ جانتے کہ کون کون سے کھیت کتنے پر اٹھتے ہیں اور کیا نکاسی ہوتی ہے۔ ظالم نے بنابنایا کھیل بگاڑ دیا۔

جرح ختم ہونے کے بعد الگو نے فیصلہ سنایا۔ لہجہ نہایت سنگین اور تحکمانہ تھا۔

’’شیخ جمّن ۔پنچوں نے اس معاملہ پر اچھی طرح غور کیا۔زیادتی سراسر تمھاری ہے۔ کھیتوں سے معقول نفع ہوتا ہے۔ تمھیں چاہیے کہ خالہ جان کے ماہوار۔گذارے کا بندوبست کردو۔ اس کے سوائے اور کوئی صورت نہیں اگر تمھیں یہ منظور نہیں تو ہبّہ نامہ منسوخ ہوجائے گا۔‘‘

جمّن نے فیصلہ سنا اور سنّاٹے میں آگیا۔احباب سے کہنے لگا، ’’بھئی اس زمانہ میں یہی دوستی ہے کہ جو اپنے اوپر بھروسہ کرے۔ اس کی گردن پر چھُری پھیر ی جائے۔اسی کو نیرنگی روزگار کہتے ہیں،اگر لوگ ایسے دغاباز جو فروش گندم نما نہ ہوتے تو ملک پر یہ آفتیں کیوں آتیں یہ ہیضہ اور پلیگ انہی مکاریوں کی سزا ہے۔‘‘

مگر رام دھن مصرا اور فتح خان اور جگّو سنگھ اس بے لاگ فیصلہ کی تعریف میں رطب اللّسان تھے۔ اس کا نام پنچایت ہے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی دوستی دوستی کی جگہ ہے۔ مقّدم ایمان کا سلامت رکھناہے۔ایسے ہی ستیہ بادیوں سے دنیا قائم ہے ورنہ کب کی جہنم میں مل جاتی۔

اس فیصلہ نے الگو اور جمّن کی دوستی کی جڑیں ہلا دیں۔تناداردرخت حق کا ایک جھونکا بھی نہ سہہ سکا۔وہ اب بھی ملتے تھے مگر وہ تیر وسپر کی طرح جُمّن کے دل سے دوست کی غّداری کا خیال دور نہ ہوتا تھا اور انتقام کی خواہش چین نہ لینے دیتی تھی۔

خوش قسمتی سے موقع بھی جلد مل گیا پچھلے سال مصروٹبیسرکے میلے سے بیلوں کی ایک اچھی گوئیاں مول لائے تھے۔ پچھائیں نسل کے خوبصورت بیل تھے مہینوں تک قرب وجوارکے لوگ انھیں دیکھنے آتے رہے۔

اس پنچایت کے ایک مہینہ بعد ایک بیل مرگیا۔ جمّن نے اپنے دوستوں سے کہا، ’’یہ دغا بازی کی سزا ہے۔انسان صبر کرجائے،مگر خدا نیک وبد دیکھتا ہے۔‘‘ الگو کو اندیشہ ہوا کہ جمّن نے اسے زہر دلوایا ہے اس کے برعکس چودھرائین کا خیال تھا کہ اس پرکچھ کرایا گیا ہے۔ چودھرائین اور فہمین میں ایک دن زور شورسے ٹھنی۔ دونوں خواتین نے روانی بیان کی ندی بہادی۔تشبیہات اور استعاروں میں باتیں ہوئیں ۔بارے جمّن نے آگ بجھادی۔ بیوی کو ڈانٹا اور رزم گاہ سے ہٹالے گیا۔ادھر الگو چودھری سے اپنے ڈنڈے سے چودھرائین کی شیریں بیانی کی داددی۔

ایک بیل کس کام کا۔ اس کا جوڑا بہت ڈھونڈا مگر نہ ملا۔ناچاراسے بیچ ڈالنے کی صلاح ہوئی۔ گاؤں میں ایک سجھو سیٹھ تھے۔ وہ یکہ گاڑی ہانکتے تھے۔گاؤں میں گڑگھی بھرتے اور منڈی لے جاتے۔ منڈی سے تیل نمک لاد کرلاتے اورگاؤں میں بیچتے تھے۔ اس بیل پر ان کی طبیعت لہرائی سوچا اسے لے لوں ،تو دن میں بلا کسی منت کے تین کھیوے ہوں۔ نہیں تو ایک ہی کے لالے رہتے ہیں۔بیل دیکھا گاڑی میں دوڑایا۔دام کے لیے ایک مہینہ کا وعدہ ہوا۔ چودھری بھی غرض مند تھے گھاٹے کی کچھ پرواہ نہ کی۔

سجھو نے نیا بیل پایا تو پاؤں پھیلائے دن میں، تین تین چار چار کھیوے کرتے نہ چارے کی فکر تھی نہ پانی کی۔ بس کھیووں سے کام تھا۔ منڈی لے گئے وہاں کچھ سوکھا بھس ڈالا دیا اور غریب جانور ابھی دم بھی نہ لینے پایا تھا کہ پھرجوت دیا۔ الگو چودھری کے یہاں تھے تو چین کی بنسی بجتی تھی۔ راتب پاتے، صاف پانی ،دلی ہوئی ارہر، بھوسے کے ساتھ کھلی ،کھبی کبھی کبھی گھی کا مزہ بھی مل جاتا۔ شام سویرے ایک آدمی کھریرے کرتا۔ بدن کھجلاتا،جھاڑتا، پونچھتا، سہلاتا، کہاں وہ نازونعمت کہاں یہ آٹھوں پہر کی رپٹ مہینہ بھر میں بیچا رے کا کچومر نکل گیا۔یکّہ کا جوا دیکھتے ہی بے چارے کا ہاؤ چھوٹ جاتا۔ ایک ایک قدم چلنا دوبھر تھا۔ہڈیاں نکل آئی تھیں،لیکن اصیل جانور،مار کی تاب نہ تھی۔ایک دن چوتھے کھیوے میں سیٹھ جی نے دونا بوجھ لادا دن بھر کا تھکا جانور، پیر مشکل سے اٹھتے تھے۔ اس پر سیٹھ جی کوڑے رسید کرنے لگے۔بیل جگر توڑ کر چلا۔ کچھ دور دوڑا۔چاہا کہ ذرا دم لے ادھر سیٹھ جی کو جلد گھر پہنچنے کی فکر، کئی کوڑے بے دردی سے لگائے بیل نے ایک بار پھر زور لگایا مگر طاقت نے جواب دے دیا۔زمین پر گر پڑا اور ایسا گرا کہ پھر نہ اٹھا۔ سیٹھ نے بہت مارا پیٹا، ٹانگ پکڑ کر کھینچی ،نتھنوں میں لکٹی کھونس دی، مگر لاش نہ اٹھی تب کچھ اندیشہ ہوا غور سے دیکھا بیل کو کھول کر الگ کیا اور سوچنے لگے کہ گاڑی کیوں کر گھر پہنچے بہت چیخے اور چلّائے مگر دیہات کا راستہ بچّوں کی آنکھ ہے سر شام سے بند، کوئی نظر نہ آیا قریب کوئی گاؤں بھی نہ تھا۔ مارے غصّہ کے موئے بیل پر اور درّے لگائے سسرے تجھے مرناتھا تو گھر پر مرتا۔ تو نے آدھے راستہ میں دانت نکال دیے۔ اب گاڑی کون کھینچے؟ اس طرح خوب جلے بھنے کئی بورے گڑ اور کئی کنستر گھی کے بیچے تھے۔ دوچار سو روپے کمر میں بندھے ہوئے تھے، گاڑی پر کئی بورے نمک کے تھے چھوڑ کر جا بھی نہ سکتے گاڑی پر لیٹ گئے، وہیں رت جگا کرنے کی ٹھان لی اور آدھی رات تک دل کو بہلاتے رہے۔ حقہّ پیا، گایا، پھر حقّہ پیا،آگ جلائی، تاپا۔اپنی دانست میں وہ تو جاگتے ہی رہے۔ مگر جب پو پھٹی چونکے اور کمر پر ہاتھ رکھا، تو تھیلی ندارد کلیجہ سن سے ہوگیا، کمر ٹٹولی۔ تھیلی کا پتہ نہ تھا گھبراکر اِدھر ادھر دیکھا ، کئی کنستر تیل کے بھی غائب تھے۔ سر پیٹ لیا، پچھاڑیں کھانے لگے۔ صبح کو بہزار خرابی گھر پہنچے۔

سیٹھانی جی نے یہ حادثہ المناک سنا تو چھاتی پیٹ لی، پہلے تو خوب روئیں تب الگو چودھری کو گالیاں دینے لگیں ۔ حفظ ما تقدم کی سوجھی نگوڑے نے ایسا منحوس بیل دیا کہ سارے جنم کی کمائی لٹ گئی۔

اس واقعہ کو کئی ماہ گذر گئے الگو جب اپنے بیل کی قیمت مانگتے تو سیٹھ اور سیٹھانی دونوں جھلّائے ہوئے کتّوں کی طرح چڑھ بیٹھے۔ یہاں تو سارے جنم کی کمائی مٹّی میں مل گئی ،فقیر ہوگئے۔ انھیں دام کی پڑی ہے۔ مردہ منحوس بیل دیا تھا، اس پر دام مانگتے ہیں۔آنکھ میں دھول جھونک دی۔مراہوا بیل گلے باندھ دیا۔نراپونگا ہی سمجھ لیا ہے۔ کسی گڈھے میں منہ دھو آؤ تب دام لینا۔ صبر نہ ہوتا ہو تو ہمارا بیل کھول لے جاؤ مہینے کے بدلے دو مہینے جوت لو اور کیا لوگے؟ اس فیاضانہ فیصلے کے قدر دان حضرات کی بھی کمی نہ تھی۔ اس طرح جھڑپ سن کر چودھری لوٹ آتے مگر ڈیڑھ سو روپے سے اس طرح ہاتھ دھولینا آسان کام نہ تھا۔

ایک باروہ بھی بگڑے سیٹھ جی گرم ہو پڑے ۔سیٹھانی جی جذبہ کے مارے گھر سے نکل پڑیں سوال و جواب ہونے لگے۔ خوب مباحثہ ہوا مجادلہ کی نوبت آپہنچی سیٹھ جی نے گھر میں گھس کر کواڑ بند کرلیے۔گاؤں کے کئی معزز آدمی جمع ہوگئے۔دونوں فریق کو سمجھایا۔ سیٹھ جی کو دلاسا دیکر گھر سے نکالا۔اور صلاح دی کہ آپس میں سرپھٹّول سے کام نہ چلے گا۔ اس سے کیا فائدہ پنچایت کر لوجو کچھ طے ہوجائے اسے مان جاؤ۔ سیٹھ جی راضی ہوگئے ۔ الگو نے بھی حامی بھری فیصلہ ہوگیا۔ پنچایت کی تیاریاں ہونے لگیں۔ دونوں فریق نے غول بندیاں شروع کیں۔تیسرے دن اسی سایہ داردرخت کے نیچے پھر پنچایت بیٹھی۔

وہی شام کا وقت تھا کھیتوں میں کووّں کی پنچایت لگی ہوئی تھی۔ امر متنازعہ یہ تھا۔ مٹرپھلیوں پر اس کا جائز استحقاق ہے،یا نہیں ، اور جب تک یہ مسئلہ طے نہ ہو جائے وہ رکھوالے لڑکے کی فریادبے دارپر اپنی بلاغت آمیز ناراضگی کا اظہار ضروری سمجھتے تھے۔

درخت کی ڈالیوں پر طوطوں میں زبردست مباحثہ ہورہا تھا۔ بحث طلب یہ امر تھا کہ انسان کو انھیں من حیث القوم بے وفا کہنے کا کیا حق حاصل ہے۔ پنچایت پوری آبیٹھی، تو رام دھن مصرنے کہا، ’’اب کیوں دیر کی جائے بولوچودھری کن کن آدمیوں کو پنچ بدتے ہو؟‘‘ الگو نے منکسر انہ انداز سے جواب دیا، ’’سمجھو سیٹھ ہی چن لیں۔ ‘‘ سمجھو سیٹھ کھڑے ہوگئے اور کڑک کر بولے، ’’میری طرف سے شیخ جمّن کا نام رکھ لو۔‘‘

الگو نے پہلا نام جمّن کا سنا تو کلیجہ دھک سے ہوگیا، گویا کسی نے اچانک تھپڑ ماردیا رام دھن مصرالگو کے دوست تھے۔ تہ پر پہنچ گئے بولے، ’’چودھری تم کو کوئی عذرتو نہیں ہے۔‘‘ چودھری نے مایوسانہ انداز سے جواب دیا، ’’ نہیں مجھے کوئی عذر نہیں ہے۔‘‘

اس کے بعد چار نام اور تجویز کیے گئے۔ الگو پہلا چرکا کھاکر ہوشیار ہوگئے تھے خوب جانچ کر انتخاب کیا۔صرف سرپنچ کا انتخاب باقی تھا۔ الگو اس فکر میں تھے، کہ اس مرحلہ کو کیوں کر طے کروں کہ یکایک سمجھو سیٹھ کے ایک عزیز گوڈر شاہ بولے، ’’سمجھو بھائی سر پنچ کسے بناتے ہو؟‘‘

سمجھو کھڑے ہوگئے اور اکڑکر بولے، ’’شیخ جمّن کو۔‘‘

رام دھن مصر نے چودھری کی طرف ہمدردانہ انداز سے دیکھ کر پوچھا، ’’الگو تمھیں کوئی عذر ہو تو بولو۔‘‘ الگو نے قسمت ٹھونک لی ،حسرتناک لہجے میں بولے، ’’نہیں عذر کوئی نہیں ہے۔‘‘

اپنی ذمّہ داریوں کا احساس اکثر ہماری تنگ ظرفیوں کا زبردست مصلح ہوتا ہے اور گمراہی کے عالم میں معتبر رہنما۔

ایک اخبار نویس اپنے گوشہ عافیت میں بیٹھا ہو امجلس وزرا کوکتنی بے باکی اور آزادی سے اپنے تازیانہ قلم کا نشانہ بناتا ہے مگر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ خود مجلس وزراء میں شریک ہوتا ہے۔ اس دائرہ میں قدم رکھتے ہی اس کی تحریر میں ایک دل پذیر متانت کا رنگ پیدا ہوتا ہے، یہ ذمّہ داری کا احساس ہے۔

ایک نوجوان عالم شباب میں کتنا بے فکر ہوتا ہے۔ والدین اسے مایوسانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اسے ننگ خاندان سمجھتے ہیں۔ مگر تھوڑے ہی دنو ں میں والدین کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد وہی وارفتہ مزاج، ننگ خاندان کتنا سلامت رو، کتنا محتاط ہو جاتا ہے۔ یہ ذمّہ داری کا احساس ہے یہ احساس ہماری نگاہوں کو اور وسیع کر دیتا ہے، مگر زبان کو محدود۔

شیخ جمّن کو بھی اپنی عظیم الشّان ذمہ داری کا احساس ہوا۔اس نے سوچا میں اس وقت انصاف کی اونچی مسند پر بیٹھا ہوں۔ میری آواز اس وقت حکم خدا ہے اور خدا کے حکم میں میری نیت کو مطلق دخل نہ ہونا چاہیے۔حق اور ر استی سے جو بھرٹلنا بھی مجھے دنیا اور دین دونوں ہی میں سیاہ بنادے گا۔

پنچایت شروع ہوئی فریقین نے اپنے حالات بیان کیے جرح ہوئی شہادتیں گذریں۔ فریقین کے مددگاروں نے بہت کھینچ تان کی جمّن نے بہت غور سے سنا، اور تب فیصلہ سنایا۔

’’الگو چودھری اور سمجھوسیٹھ پنچوں نے تمھارے معاملہ پر غور کیا سمجھو کو بیل کی پوری قیمت دینا واجب ہے جس وقت بیل ان کے گھر آیا ۔اس کو کوئی بیماری نہ تھی۔ اگر قیمت اس وقت دے دی گئی ہوتی توآج سمجھو اسے واپس لینے کا ہر گز تقاضہ نہ کرتے۔‘‘

رام دھن مصر نے کہا، ’’قیمت کے علاوہ ان سے کچھ تاوان بھی لیا جائے سمجھونے بیل کو دوڑا دوڑا کر مار ڈالا۔‘‘

جمّن نے کہا، ’’اس کا اصل معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ گوڈرشاہ نے کہاسمجھو کے ساتھ کچھ رعایت ہونی چاہیے۔ ان کا بہت نقصان ہوا ہے اور اپنے کیے کی سزامل چکی ہے۔‘‘

جمّن بولا، ’’اس کا بھی اصل معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔یہ الگو چودھری کی بھل منسی پر منحصر ہے۔‘‘یہ فیصلہ سنتے ہی الگو چودھری پھولے نہ سمائے۔ اٹھ کھڑے ہوئے، اور زور زور سے ہانک لگائی۔

’’پنچ پرمیشری کی جے۔۔۔

آسمان پر تارے نکل آئے تھے اس نعرہ کے ساتھ ان کی صدائے تحسین بھی سنائی دی۔ بہت مدہم گویا سمندر پار سے آئی ہو۔ ہر شخص جمّن کے انصاف کی داد دے رہا تھا۔’’انصاف اس کو کہتے ہیں آدمی کا یہ کام نہیں پنچ میں پرماتما بستے ہیں ۔ یہ ان کی مایا ہے پنچ کے سامنے کھوٹے کو کھرا بنانا مشکل ہے۔‘‘

ایک گھنٹہ کے بعد جمّن شیخ الگو کے پاس آئے اور ان کے گلے سے لپٹ کر بولے۔بھیّا جب سے تم نے میری پنچایت کی ہے میں دل سے تمھارا دشمن تھا۔ مگر آج مجھے معلوم ہواکہ پنچایت کی مسند پر بیٹھ کر نہ کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔ انصاف کے سوا اور اسے کچھ نہیں سوجھتا یہ بھی خدا کی شان ہے آج مجھے یقین آگیا کہ پنچ کا حکم اللہ کا حکم ہے۔‘‘

الگو رونے لگے۔ دل صاف ہوگئے۔ دوستی کا مرجھا یا ہوا درخت پھر سے ہرا ہوگیا اب وہ بالو کی زمین پر نہیں۔حق اور انصاف کی زمین پر کھڑا تھا۔

مصنف:پریم چند

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here