کہانی کی کہانی:’’اس افسانہ میں ایک قدامت پسند گھرانے کی روایات، آداب و اطوار اور طرز رہائش میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر ہے، افسانہ کے مرکزی کردار کے گھر سے اس گھرانے کے گہرے مراسم ہوا کرتے تھے لیکن وقت اور مصروفیت کی دھول اس تعلق پر جم گئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب واحد متکلم اس گھر میں کسی کام سے جاتا ہے تو ان کے طرز زندگی میں آنے والی تبدیلیوں پر حیران ہوتا ہے۔‘‘
مکرمی! آپ کے موقر اخبار کے ذریعے میں متعلقہ حکام کو شہر کے مغربی علاقے کی طرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جب بڑے پیمانے پر شہر کی توسیع ہو رہی ہے اور ہر علاقے کے شہریوں کو جدید ترین سہولتیں بہم پہنچائی جا رہی ہیں، یہ مغربی علاقہ بجلی اور پانی کی لائنوں تک سے محروم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی تین ہی سمتیں ہیں۔ حال ہی میں جب ایک مدت کے بعد میرا اس طرف ایک ضرورت سے جانا ہوا تو مجھ کو شہر کا یہ علاقہ بالکل ویسا ہی نظر آیا جیسا میرے بچپن میں تھا۔
(۱)
مجھے اس طرف جانے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن اپنی والدہ کی وجہ سے مجبور ہو گیا۔ برسوں پہلے وہ بڑھاپے کے سبب چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھیں، پھر ان کی آنکھوں کی روشنی بھی قریب قریب جاتی رہی اور ذہن بھی ماؤف سا ہو گیا۔ معذوری کا زمانہ شروع ہونے کے بعد بھی ایک عرصے تک وہ مجھ کو دن رات میں تین چار مرتبہ اپنے پاس بلا کر کپکپاتے ہاتھوں سے سر سے پیر تک ٹٹولتی تھیں۔ در اصل میرے پیدا ہونے کے بعد ہی سے ان کو میری صحت خراب معلوم ہونے لگی تھی۔ کبھی انھیں میرا بدن بہت ٹھنڈا محسوس ہوتا، کبھی بہت گرم، کبھی میری آواز بدلی ہوئی معلوم ہوتی اور کبھی میری آنکھوں کی رنگت میں تغیر نظر آتا۔ حکیموں کے ایک پرانے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان کو بہت سی بیماریوں کے نام اور علاج زبانی یاد تھے اور کچھ کچھ دن بعد وہ مجھے کسی نئے مرض میں مبتلا قرار دے کر اس کے علاج پر اصرار کرتی تھیں۔
ان کی معذوری کے ابتدائی زمانے میں دو تین بار ایسا اتفاق ہوا کہ میں کسی کام میں پڑ کر ان کے کمرے میں جانا بھول گیا، تو وہ معلوم نہیں کس طرح خود کو کھینچتی ہوئی کمرے کے دروازے تک لے آئیں۔ کچھ اور زمانہ گذرنے کے بعد جب ان کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی تو ایک دن ان کے معالج نے محض یہ آزمانے کی خاطر کہ آیا ان کے ہاتھ پیروں میں اب بھی کچھ سکت باقی ہے، مجھے دن بھر ان کے پاس نہیں جانے دیا اور وہ بہ ظاہر مجھ سے بے خبر رہیں، لیکن رات گیے ان کے آہستہ آہستہ کراہنے کی آواز سن کر جب میں لپکتا ہوا ان کے کمرے میں پہنچا تو وہ دروازے تک کا آدھا راستہ طے کر چکی تھیں۔
ان کا بستر، جو انھوں نے میرے والد کے مرنے کے بعد سے زمین پر بچھانا شروع کر دیا تھا، ان کے ساتھ گھسٹتا ہوا چلا آیا تھا۔ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بستر ہی ان کو کھینچتا ہوا دروازے کی طرف لیے جا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن تکان کے سبب بے ہوش ہو گئیں اور کئی دن تک بے ہوش رہیں۔ ان کے معالج نے بار بار اپنی غلطی کا اعتراف اور اس آزمائش پر پچھتاوے کا اظہار کیا، اس لیے کہ اس کے بعد ہی سے میری والدہ کی بینائی اور ذہن نے جواب دینا شروع کیا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ان کا وجود اور عدم برابر ہو گیا۔
ان کے معالج کو مرے ہوئے بھی ایک عرصہ گذر گیا۔ لیکن حال ہی میں ایک رات میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پائینتی زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں اور ایک ہاتھ سے میرے بستر کو ٹٹول رہی ہیں۔ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’آپ۔۔۔؟‘‘ میں نے ان کے ہاتھ پر خشک رگوں کے جال کو دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’یہاں آ گئیں؟‘‘
’’تمھیں دیکھنے۔ کیسی طبیعت ہے؟‘‘ انھوں نے اٹک اٹک کر کہا، پھر ان پر غفلت طاری ہو گئی۔
میں بستر سے اتر کر زمین پر ان کے برابر بیٹھ گیا اور دیر تک ان کو دیکھتا رہا۔ میں نے ان کی اس صورت کا تصور کیا جو میری اولین یادوں میں محفوظ تھی اور چند لمحوں کے لیے ان کے بوڑھے چہرے کی جگہ انھیں یادوں والا چہرہ میرے سامنے آ گیا۔ اتنی دیر میں ان کی غفلت کچھ دور ہوئی۔ میں نے آہستگی سے انھیں اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’آئیے آپ کو آپ کے کمرے میں پہنچا دوں۔‘‘
’’نہیں!‘‘ انھوں نے بڑی مشکل سے کہا، ’’پہلے بتاؤ۔‘‘
’’کیا بتاؤں؟‘‘ میں نے تھکے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’طبیعت کیسی ہے؟‘‘
کچھ دن سے میری طبیعت واقعی خراب تھی، اس لیے میں نے کہا، ’’ٹھیک نہیں ہوں۔‘‘ میری توقع کے خلاف انھوں نے بیماری کی تفصیل دریافت کرنے کے بجائے صرف اتنا پوچھا، ’’کسی کو دکھایا؟‘‘
’’کس کو دکھاؤں؟‘‘
مجھے معلوم تھا وہ کیا جواب دیں گی۔ یہ جواب وہ فوراً اور ہمیشہ تیز لہجے میں دیتی تھیں، لیکن اس بار انھوں نے دیر تک چپ رہنے کے بعد بڑی افسردگی اور قدرے مایوسی کے ساتھ وہی بات کہی، ’’تم وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
میں ان کے ساتھ بچپن میں وہاں جایا کرتا تھا۔ وہ پرانے حکیموں کا گھرانہ تھا۔ یہ لوگ میری والدہ کے قریبی عزیز تھے۔ ان کا مکان بہت بڑا تھا جس کے مختلف درجوں میں کئی خاندان رہتے تھے۔ ان سب خاندانوں کے سربراہ ایک حکیم صاحب تھے جنھیں شہر میں کوئی خاص شہرت حاصل نہیں تھی لیکن آس پاس کے دیہاتوں سے ان کے یہاں اتنے مریض آتے تھے جتنے شہر کے نامی ڈاکٹروں کے پاس بھی نہ آتے ہوں گے۔
اس مکان میں تقریبیں بہت ہوتی تھیں جن میں میری والدہ کو خاص طور پر بلایا جاتا تھا اور اکثر وہ مجھے بھی ساتھ لے جاتی تھیں۔ میں ان تقریبوں کی عجیب عجیب رسموں کو بڑی دل چسپی سے دیکھتا تھا۔ میں یہ بھی دیکھتا تھا کہ وہاں میری والدہ کی بڑی قدر ہوتی ہے اور ان کے پہنچتے ہی سارے مکان میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وہ خود بھی وہاں کے کسی فرد کو فراموش نہ کرتیں، چھوٹوں اور برابر والوں کو اپنے پاس بلاتیں، بڑوں کے پاس آپ جاتیں اور وہاں کے خاندانی جھگڑوں میں، جو اکثر ہوا کرتے، ان کا فیصلہ سب کو منظور ہوتا تھا۔
وہاں اتنے بہت سے لوگ تھے، لیکن مجھ کو صرف حکیم صاحب کا چہرہ دھندلا دھندلا سا یاد تھا؛ وہ بھی شاید اس وجہ سے کہ ان میں اور میری والدہ میں ہلکی سی خاندانی مشابہت تھی۔ اتنا مجھے البتہ یاد ہے کہ وہاں ہر عمر کی عورتیں، مرد اور بچے موجود رہتے تھے اور ان کے ہجوم میں گھری ہوئی اپنی والدہ مجھے ایسی معلوم ہوتی تھیں جیسے بہت سی پتیوں کے بیچ میں ایک پھول کھلا ہوا ہو۔
لیکن اس وقت وہ اپنا مرجھایا ہوا چہرہ میری طرف گھمائے ہوئے اپنی بجھی ہوئی آنکھوں سے میرا چہرہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
’’تمھاری آواز بیٹھی ہوئی ہے۔ چکنائی والی چیزیں نہ کھایا کرو۔‘‘ انھوں نے کہا،اور پھر کہا، ’’تم وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
’’وہاں۔۔۔ اب میں وہاں کسی کو پہچان بھی نہ پاؤں گا۔‘‘
’’دیکھو گے تو پہچان لو گے۔ نہیں تو وہ لوگ خود بتائیں گے۔‘‘
’’اتنے دن ہو گیے۔‘‘ میں نے کہا، ’’اب مجھے راستہ بھی یاد نہیں۔‘‘
’’باہر نکلو گے تو یاد آتا جائے گا۔‘‘
’’کس طرح؟‘‘ میں نے کہا، ’’سب کچھ تو بدل گیا ہو گا۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں‘‘ انھوں نے کہا۔ پھر ان پر غفلت طاری ہونے لگی، لیکن ایک بار پھر انھوں نے کہا، ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ بالکل غافل ہو گئیں۔
میں دیر تک ان کو سہارا دیے بیٹھا رہا۔ میں نے اس مکان کا راستہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ان دنوں کا تصور کیا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ وہاں جایا کرتا تھا۔ میں نے اس مکان کا نقشہ بھی یاد کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے اس کے سوا کچھ یاد نہ آیا کہ اس کے صدر دروازے کے سامنے ایک ٹیلہ تھا جو حکیموں کا چبوترا کہلاتا تھا۔ اتنا اور مجھے یاد تھا کہ حکیموں کا چبوترا شہر کے مغرب کی جانب تھا، اس پر چند کچی قبریں تھیں اور اس تک پہنچتے پہنچتے شہر کے آثار ختم ہو جاتے ہیں۔
میں نے اپنی والدہ کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا۔ بالکل اسی طرح جیسے کبھی وہ مجھ کو اٹھایا کرتی تھیں، اور یہ سمجھا کہ میں نے ان کا کچھ قرض اتارا ہے، اور اگر چہ وہ بالکل غافل تھیں، لیکن میں نے ان سے کہا، ’’آئیے آپ کو آپ کے کمرے میں پہنچا دوں۔ کل سویرے میں وہاں ضرور جاؤں گا۔‘‘
دوسرے دن سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد میری آنکھ کھلی، اور آنکھ کھلنے کے کچھ دیر بعد میں گھر سے روانہ ہو گیا۔
(۲)
خود اپنے محلے کے مغربی حصے کی طرف ایک مدت سے میرا گذر نہیں ہوا تھا۔ اب جو میں ادھر سے گذرا تو مجھے بڑی تبدیلیاں نظر آئیں۔ کچے مکان پکے ہو گیے تھے۔ خالی پڑے ہوئے احاطے چھوٹے چھوٹے بازاروں میں بدل گیےتھے۔ ایک پرانے مقبرے کے کھنڈر کی جگہ عمارتی لکڑی کا گودام بن گیا تھا۔ جن چہروں سے میں بہت پہلے آشنا تھا ان میں سے کوئی نظر نہیں آیا، اگرچہ مجھ کو جاننے والے کئی لوگ ملے جن میں سے کئی کو میں بھی پہچانتا تھا، لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ میرے ہی ہم محلہ ہیں۔ میں نے ان سے رسمی باتیں بھی کیں لیکن کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔
کچھ دیر بعد میرا محلہ پیچھے رہ گیا۔ غلّے کی منڈی آئی اور نکل گئی۔ پھر دواؤں اور مسالوں کی منڈی آئی اور پیچھے رہ گئی۔ ان منڈیوں کے داہنے بائیں دور دور تک پختہ سڑکیں تھیں جن پر کھانے پینے کی عارضی دکانیں بھی لگی ہوئی تھیں، لیکن میں جس سڑک پر سیدھا آگے بڑھ رہا تھا اس پر اب جا بجا گڈھے نظر آ رہے تھے۔ کچھ اور آگے بڑھ کر سڑک بالکل کچی ہو گئی۔ راستہ یاد نہ ہونے کے باوجود مجھے یقین تھا کہ میں صحیح سمت میں جا رہا ہوں، اس لیے میں آگے بڑھتا گیا۔
دھوپ میں تیزی آ گئی تھی اور اب کچی سڑک کے آثار بھی ختم ہو گیے تھے، البتہ گرد آلود پتیوں والے درختوں کی دو رویہ مگر ٹیڑھی میڑھی قطاروں کے درمیان اس کا تصور کیا جا سکتا تھا، لیکن اچانک یہ قطاریں اس طرح منتشر ہوئیں کہ سڑک ہاتھ کے پھیلے ہوئے پنجے کی طرح پانچ طرف اشارہ کر کے رہ گئی۔ یہاں پہنچ کر میں تذبذب میں پڑ گیا۔ مجھے گھر سے نکلے ہوئے بہت دیر نہیں ہوئی تھی اور مجھے یقین تھا کہ میں اپنے محلے سے بہت دور نہیں ہوں۔ پھر بھی میں نے وہاں پر ٹھہر کر واپسی کا راستہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ گرد آلود پتیوں والے درخت اونچی نیچی زمین پر ہر طرف تھے۔ میں نے ان کی قطاروں کے درمیان سڑک کا تصور کیا تھا لیکن وہ قطاریں بھی شاید میرے تصور کی پیداوار تھیں، اس لیے کہ اب ان کا کہیں پتا نہ تھا۔
اپنے حساب سے میں بالکل سیدھی سڑک پر چلا آ رہا تھا، لیکن مجھے بارہا اس کا تجربہ ہو چکا تھا کہ دیکھنے میں سیدھی معلوم ہونے والی سڑکیں اتنے غیر محسوس طریقے پر اِدھر اُدھر گھوم جاتی ہیں کہ ان پر چلنے والے کو خبر بھی نہیں ہوتی اور اس کا رخ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں کئی مرتبہ اِدھر اُدھر گھوم چکا ہوں، اور اگر مجھ کو سڑک کا سراغ نہ مل سکا تو میں خود سے اپنے گھر تک نہیں پہنچ سکتا؛ لیکن اس وقت مجھ کو واپسی کے راستے سے زیادہ حکیموں کے چبوترے کی فکر تھی جو کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہر طرف پھیلے ہوئے درخت اتنے چھدرے تھے کہ زمین کا کوئی بڑا حصہ میری نگاہوں سے اوجھل نہیں تھا، لیکن میرے بائیں ہاتھ زمین دور تک اونچی ہوتی گئی تھی اور اس پر جگہ جگہ گنجان جھاڑیاں آپس میں الجھی ہوئی تھیں۔ ان کی وجہ سے بلندی کے دوسری طرف والا نشیبی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔
اگر کچھ ہو گا تو ادھر ہی ہو گا، میں نے سوچا اور اس سمت چل پڑا۔ میرا خیال صحیح تھا۔ جھاڑیوں کے ایک بڑے جھنڈ میں سے نکلتے ہی مجھے سامنے کتھئی رنگ کی پتلی پتلی اینٹوں والا ایک مکان نظر آیا۔ یہ وہ مکان نہیں تھا جس کی مجھے تلاش تھی، تاہم میں سیدھا اس طرف بڑھتا گیا۔ اس کے دروازے پر کسی کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی جس کے قریب قریب سب حروف مٹ چکے تھے۔ مکان کے اندر خاموشی تھی لیکن ویسی نہیں جیسی ویران مکانوں سے باہر نکلتی محسوس ہوتی ہے، اس لیے میں نے دروازے پر تین بار دستک دی۔ کچھ دیر بعد دروازے کے دوسری طرف ہلکی سی آہٹ ہوئی اور کسی نے آہستہ سے پوچھا، ’’کون صاحب ہیں؟‘‘
بتانے سے کیا فائدہ؟ میں نے سوچا، اور کہا، ’’میں شاید راستہ بھول گیا ہوں، حکیموں کا چبوترا ادھر ہی کہیں ہے؟‘‘
’’حکیموں کا چبوترا؟ آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
یہ غیر متعلق بات تھی۔ اپنے سوال کے جواب میں سوال سن کر مجھے ہلکی سی جھنجھلاہٹ محسوس ہوئی، لیکن دروازے کے دوسری طرف کوئی عورت تھی جس کی آواز نرم اور لہجہ بہت مہذب تھا۔ اس نے دروازے کے خفیف سے کھلے ہوئے پٹ کو پکڑ رکھا تھا۔ اس کے ناخن نارنجی پالش سے رنگے ہوئے تھے۔ مجھے وہم سا ہوا کہ دروازے کا پٹ تھوڑا اور کھلا اور ایک لمحے کے اندر مجھ کو دروازے کے پیچھے چھوٹی سی نیم تاریک ڈیوڑھی اور ڈیوڑھی کے پیچھے صحن کا ایک گوشہ اور اس میں لگے ہوئے انار کے درخت کی کچھ شاخیں نظر آ گئیں جن پر دھوپ پڑ رہی تھی۔ اور دوسرے لمحے مجھے کچھ کچھ یاد آیا کہ میری والدہ کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے اس مکان میں بھی اترتی تھیں۔ لیکن اس مکان کے رہنے والے مجھے یاد نہ آ سکے۔
’’آپ کہیں باہر سے آئے ہیں؟‘‘ دروازے کے دوسری طرف سے پھر آواز آئی۔
’’جی نہیں!‘‘ میں نے کہا اور اپنا اتا پتا بتا دیا۔ پھر کہا، ’’بہت دنوں کے بعد ادھر آیا ہوں۔‘‘
دیر کے بعد مجھے جواب ملا، ’’اس مکان کے پیچھے چلے جائیے۔ چبوترا سامنے ہی دکھائی دے گا۔‘‘
مکان کے اندرونی حصے سے کسی بوڑھی عورت کی بھاری آواز سنائی دی، ’’کون آیا ہے، مہر؟‘‘
میں رسمی شکریہ ادا کر کے مکان کی پشت پر آ گیا۔ سامنے دور تک چھوٹے بڑے کئی ٹیلے نظر آ رہے تھے اور ان کی بے ترتیب قطاریں پھر ایک سڑک کا تصور پیدا کر رہی تھیں۔ یہ ٹیلے محض مٹی کے تودے تھے، لیکن ان سے ذرا ہٹ کر ایک ٹیلے پر جھاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ میں نے اس ٹیلے کو غور سے دیکھا۔ جھاڑیوں کے بیچ بیچ میں کچی قبروں کے نشان نمایاں تھے۔ بعض بعض قبروں پر چونے کی سفیدی دھوپ میں چمک رہی تھی۔
(۳)
مکان چبوترے کی اوٹ میں تھا اور اس تک پہنچنے کے لیے مجھے چبوترے کا آدھا چکر کاٹنا پڑا۔ پرانی لکڑی کے بھاری صدر دروازے کے سامنے کھڑا دیر تک میں سوچتا رہا کہ اپنے آنے کی اطلاع کس طرح کراؤں۔ دروازے کی لکڑی بہت دبیز اور تھوڑی سیلی ہوئی تھی۔ اس پر دستک دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، پھر بھی میں نے تین بار اس پر ہاتھ مارا، لیکن اپنی دستک کی آواز خود مجھ کو ٹھیک سے سنائی نہیں دی۔ مجھے شبہ ہوا کہ مکان ویران ہے۔ میں نے دروازے کو آہستہ سے دھکا دیا تو اس کے دونوں پٹ بڑی سہولت کے ساتھ اپنی چولوں پر گھوم گیے اور مجھ کو اپنے سامنے ایک کشادہ ڈیوڑھی نظر آئی جس کے ایک سرے پر دوہرے ٹاٹ کا پردہ لٹک رہا تھا۔ میں دروازے کے قریب گیا اور اب مجھے مکان کے اندر لوگوں کے بولنے چالنے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے دستک دی اور اندر کسی نے کسی کو پکار کر کہا، ’’دیکھو کوئی آیا ہے۔‘‘
تب میرا دماغ سوالوں سے منتشر ہونا شروع ہوا۔ اس مکان میں کون کون ہے، میں کس سے کیا بات کروں گا، اپنے آنے کی غرض کیا بتاؤں گا، اپنے کو کس طرح پہچنواؤں گا۔ میرا جی چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں، لیکن اسی وقت پردے کے پیچھے سے کسی عورت نے روکھے لہجے میں پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘
میں نے اپنا پورا نام بتا دیا۔
’’کس سے ملنا ہے؟‘‘
اس کا میرے پاس ایک ہی جواب تھا۔
’’حکیم صاحب سے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’مطب دوسری طرف ہے۔ وہیں جائیے۔ وہ تیار ہو رہے ہیں۔‘‘
آخری لفظوں تک پہنچتے پہنچتے آواز دور ہونا شروع ہو گئی تھی، اس لیے میں نے اور ذرا بلند آواز میں کہا، ’’اندر اطلاع کرا دیجیے۔‘‘
آواز پھر قریب آ گئی اور اب اس کے لہجے کا روکھاپن کچھ کم ہوا، ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
میں نے یہاں بھی اپنا اتا پتا بتایا، کچھ توقف کیا، پھر اپنی والدہ کا نام لیا، پھر توقف کیا، پھر ان کا گھر کا نام بتایا، یہ بتایا کہ میں ان کا بیٹا ہوں، پھر جھجکتے جھجکتے اپنا وہ دُلار کا نام بھی بتا دیا جس سے میں بچپن میں چڑتا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ بہت بے ترتیب انداز میں بتایا، جسے پردے کے اُدھر والی عورت نے کسی کے پوچھنے پر قدرے مربوط کر کے دہرایا، اور مکان کے اندر عورتوں کے بولنے کی آوازیں تھوڑی دیر کے لیے تیز ہو گئیں۔ مجھے ان آوازوں میں اپنی والدہ کا گھر کا نام اور اپنا بچپن والا نام بار بار سنائی دیا۔ یہ دونوں نام میں بہت دنوں کے بعد سن رہا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اگر یہ نام اسی طرح سنائی دیتے رہے تو مجھ کو اس مکان کا پورا نقشہ اور اس کے رہنے والے سب یاد آ جائیں گے ؛ بلکہ میرے ذہن میں ایک کشادہ صحن کا نقش بننا شروع بھی ہو گیا تھا، لیکن عین اس وقت ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ ٹاٹ کا پردہ میری طرف بڑھا، اوپر اٹھا، اور اس کے نیچے سے ایک بائیسکل کا اگلا پہیا نمودار ہوا۔
میں ایک کنارے ہو گیا اور بائیسکل لیے ہوئے ایک لڑکا اندر سے ڈیوڑھی میں آیا اور مجھے سلام کرتا ہوا صدر دروازے سے باہر نکل گیا۔ میں خاموش کھڑا انتظار کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد پردے کے پیچھے سے دبی دبی آوازیں آئیں اور چار پانچ بطخیں پردے کے نیچے سے نکل کر ڈیوڑھی میں آئیں۔ ان کی بے ترتیب قطار دیکھ کر صاف معلوم ہوتا تھا کہ انھیں باہر کی طرف ہنکایا گیا ہے۔ بطخیں آپس میں چہ میگوئیاں سی کرتی اور ڈگمگاتی ہوئی صدر دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔ اس کے بعد مکان کے اندر سے دیر تک کوئی آواز نہیں آئی۔ میں ڈیوڑھی میں کھڑے کھڑے اکتا گیا۔ مجھے وہم ہونے لگا کہ پردے کے پیچھے سے ویران مکانوں والی خاموشی باہر نکل کر مجھ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ لیکن اسی وقت دوسری طرف سے کسی نے کہا، ’’آئیے، اندر چلے آئیے۔‘‘
دوہرے ٹاٹ کا پردہ ایک طرف کر کے میں اس مکان کے صحن میں اتر گیا۔
(۴)
بڑے صحن، دوہرے تہرے دالانوں، شہ نشینوں، صحنچیوں اور لکڑی کی محرابوں والے مکان میں نے اپنے بچپن میں بہت دیکھے تھے۔ یہ مکان ان سے مختلف نہیں تھا، لیکن مجھے یاد نہ آ سکا کہ کبھی میں یہاں آیا کرتا تھا۔ کشادہ صحن کے بیچ میں کچھ لمحوں کے لیے رک کر میں نے دیکھا کہ مکان کا ہر درجہ آباد ہے۔ کئی صحنچیوں سے عورتیں گردن باہر نکالے متجسّس نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس گھر کی بیگم کو کس حصے میں ہونا چاہیے، اور سیدھا اس دالان کی طرف بڑھتا چلا گیا جس کی بلند محرابوں میں عنّابی رنگ کے بڑے قمقمے لٹک رہے تھے۔ دالان میں نیچے تختوں کا چوکا اور اس کے دونوں طرف بھاری مسہریاں تھیں۔ سب پر صاف دھلی ہوئی چادریں بچھی تھیں جن میں سے بعض کا ابھی کلف بھی نہ ٹوٹا تھا۔ چوکے پر ایک معمر خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے انھیں پہچانے بغیر سلام کیا، انھوں نے آہستہ سے مسکرا کر بہت سی دعائیں دیں۔ پھر بولیں، ’’بیٹے! آج ادھر کہاں بھول پڑے؟‘‘
مجھے خیال ہوا یہ سوال اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ اس کا جواب دیا جائے، لہٰذا اپنے امکان بھر شائستگی کے ساتھ میں نے ان کی مزاج پرسی کی، اور وہ بولیں، ’’تمھیں تو اب کیا یاد ہو گا، چھٹ پنے میں تم یہاں آتے تھے تو جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔‘‘ پھر انھوں نے ایسی کئی تقریبوں کا ذکر کیا جن کے بعد میری والدہ کو محض میری ضد کی وجہ سے کئی کئی دن رکنا پڑا تھا۔
’’تب بھی تم روتے ہوئے جاتے تھے۔‘‘ انھوں نے کہا، اور دوپٹے کے پلّو سے آنکھیں پونچھیں۔
اس دوران مکان کے مختلف درجوں سے نکل نکل کر عورتیں اس بڑے دالان میں جمع ہوتی رہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے اپنا تعارف خود کرایا۔ پیچیدہ رشتے میری سمجھ میں نہ آتے تھے لیکن میں نے یہ ظاہر کیا کہ ہر تعارف کرانے والی کو میں پہچان گیا ہوں اور ہر رشتہ مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا۔ سب عورتوں نے بالوں میں بہت سا تیل لگا کر چپٹی کنگھی کر رکھی تھی۔ سب موٹے سوتی دوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں جن میں سے بعض بعض گھر کے رنگے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہر ایک کے پاس میرے بچپن کے قصوں کا ذخیرہ تھا۔ مجھے صحن کے کنارے لگا ہوا امرود کا ایک درخت دکھایا گیا جس پر سے گر کر میں بے ہوش ہو گیا تھا اور مجھے بے ہوش دیکھ کر میری والدہ بھی بے ہوش ہو گئی تھیں۔ میری شرارتوں کا ذکر چھڑا تو معلوم ہوا کہ میں نے وہاں پر موجود ہر عورت کو کسی نہ کسی شرارت کا نشانہ بنایا تھا۔
مجھے احساس ہوا کہ میں دیر سے ایک لفظ بھی نہیں بولا ہوں۔ سب لوگ شاید اب میرے بولنے کے منتظر تھے اور دالان میں کچھ خاموشی سی ہو گئی تھی۔ میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو چوکے پر ایک طرف تین چار لڑکیاں بیٹھی دکھائی دیں۔ میں نے ان سے ان کی تعلیم اور دوسرے مشغلوں کے بارے میں دریافت کیا تو وہ شرما کر ایک دوسرے کے قریب گھسنے لگیں اور ان کی طرف سے دوسروں نے جواب دیے۔ ان سے کچھ فاصلے پر تین لڑکے کسی وقت آ کر بیٹھ گیے تھے۔ میں نے ان سے اپنے خیال میں ان کی دل چسپی کی دو چار باتیں کیں، لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ انھیں کن باتوں میں دل چسپی ہے۔ لڑکے مجھے بے وقوف اور لڑکیاں بدصورت معلوم ہوئیں، لیکن لڑکیوں کا شرمانا اچھا لگا۔ میں ان سے کچھ اور باتیں کرنے کے لیے ان کی دل چسپی کا کوئی موضوع سوچ رہا تھا کہ ڈیوڑھی کے دروازے پر کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔
سائیکل والا لڑکا واپس آ گیا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں اخباری کاغذ کی کئی پڑیاں تھیں جن میں بعض پر چکنائی پھوٹ آئی تھی۔ اس نے دالان کی طرف دیکھ کر کچھ اشارہ کیا اور لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں۔ کچھ دیر بعد قریب کے کسی درجے سے ان کے ہنسنے اور چینی کے برتن بجنے کی آوازیں آئیں۔ مجھے دونوں آوازوں میں مبہم سی مشابہت محسوس ہوئی، اور یہ بھی شبہ ہوا کہ لڑکیاں میرے بولنے کی نقل اتار رہی ہیں۔
میں نے اندازہ کرنے کی کوشش کی کہ مجھے اس دالان میں بیٹھے ہوئے کتنی دیر ہوئی ہو گی، لیکن اسی وقت میرے بائیں ہاتھ پر ایک دروازہ کھلا اور اس کی چلمن کے پیچھے حکیم صاحب کھڑے نظر آئے۔ میں نے انھیں فوراً پہچان لیا۔ وہ سر پر ٹوپی کا زاویہ درست کر رہے تھے۔ پھر وہ چلمن کی طرف منھ کر کے اپنی جیبوں میں کچھ ٹٹولنے لگے۔ ان کے پیچھے ایک اور دروازہ نظر آ رہا تھا جس کے قریب دیہاتی مردوں اور عورتوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔
’’ارے بھئی، ہم آ رہے ہیں‘‘ حکیم صاحب نے کہا اور چلمن اٹھائی۔
’’آئیے آئیے۔‘‘ گھر کی بیگم بولیں، ’’دیکھیے کون آیا ہے۔ پہچانا؟‘‘
حکیم صاحب دالان میں آ گیے۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر انھیں سلام کیا اور انھوں نے آہستہ سے میرا نام لیا۔ پھر بولے،’’میاں آپ تو بہت بدل گیے، کہیں اور دیکھتا تو بالکل نہ پہچانتا۔‘‘
کچھ دیر تک وہ بھی مجھے میرے بچپن کی باتیں بتاتے اور میرے والد کی وضع داری کے قصے سناتے رہے۔ اتنے میں ایک ملازمہ پیتل کی ایک لمبی کشتی میں کھانے کی چیزیں لے کر آ گئی۔ میں نے ایک نظر کشتی میں لگی ہوئی چینی کی نازک طشتریوں کو دیکھا۔ ان میں زیادہ تر بازار کا سامان تھا، لیکن کچھ چیزیں گھر کی بنی ہوئی بھی تھیں۔ حکیم صاحب نے کشتی کی طرف اشارہ کیا اور بولے :’’میاں، تکلف سے کام مت لیجیے گا۔‘‘ پھر بیگم سے بولے، ’’اچھا بھئی، ہم کو دیر ہو رہی ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں چلے گیے۔
’’ان کو مطب سے فرصت ہی نہیں ہوتی۔‘‘ بیگم نے معذرت کے انداز میں کہا۔ وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھیں، لیکن مجھ پر شاید کچھ دیر کو غنودگی سی طاری ہو گئی تھی، اس لیے کہ جب میں چونکا تو دالان میں صرف بیگم تھیں اور اس کی دو محرابوں پر کسی موٹے کپڑے کے پردے جھول رہے تھے۔ صرف بیچ کی محراب کھلی ہوئی تھی اور اس میں لٹکتا ہوا قمقمہ ہوا میں ہلتا ہوا کبھی داہنی طرف چکر کھاتا تھا کبھی بائیں طرف۔ میں نے چلمن کی جانب دیکھا۔ دوسرے دروازے کے قریب حکیم صاحب ایک بوڑھے دیہاتی کی نبض پر ہاتھ رکھے کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں بیگم کی طرف مڑا۔ ان پر بھی غنودگی طاری تھی، لیکن قریب کی کسی صحنچی سے لڑکیوں کی گھٹی گھٹی ہنسی کی آواز آئی تو وہ ہوشیار ہو کر بیٹھ گئیں۔
’’کیا مہر آئی ہیں؟‘‘ انھوں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ مجھے ان کے آسودہ چہرے پر پہلی بار فکر کی ہلکی سی پرچھائیں نظر آئی۔ اسی وقت داہنی طرف والی محراب کا پردہ ہٹا اور ایک نوجوان لڑکی دالان میں داخل ہوئی۔ میں نے اس کو اچٹتی ہوئی نظر سے دیکھا۔ وہ کسی بے شکن کپڑے کی نارنجی ساری باندھے تھی اور اس کے ناخن نارنجی پالش سے رنگے ہوئے تھے۔ بیگم مجھ سے مخاطب ہوئیں، ’’مہر کو پہچانا؟‘‘
میں نے پھر ایک اچٹتی ہوئی نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔ اس کے ہونٹوں پر نارنجی لپ اسٹک کی بہت ہلکی تہہ تھی۔ میں نے اس کے سلام کے جواب میں سر کو یوں جنبش دی گویا اسے بھی دوسری عورتوں کی طرح پہچان گیا ہوں۔ پھر میں نے اس کو غور سے دیکھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ پردے کے پیچھے سے کسی لڑکی نے اسے دھیرے سے آواز دی اور وہ دالان سے باہر چلی گئی۔ حکیم صاحب اسی طرح بوڑھے دیہاتی کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور بیگم پر پھر غنودگی طاری ہو گئی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ بیگم نے ادھ کھلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور میں نے کہا:’’اب اجازت دیجیے۔‘‘
’’جاؤ گے؟‘‘ انھوں نے بوجھل آواز میں پوچھا، اور اچانک مجھے کچھ یاد آ گیا۔
’’وہ۔۔۔ ڈراؤنی کوٹھری۔۔۔ اب بھی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ڈراؤنی کوٹھری‘‘ انھوں نے کہا، کچھ سوچا، پھر افسردگی کے ساتھ مسکرا کر بولیں، ’’ایک بار تم نے مہر کو اس میں بند کر دیا تھا۔‘‘ پھر ان کی مسکراہٹ میں اور زیادہ افسردگی آ گئی۔ ’’چلو تمھیں یہاں کی کوئی شے تو یاد آئی۔‘‘
’’اب بھی ہے؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’وہ کیا ڈیوڑھی کے برابر دروازہ ہے۔ کچھ بھی نہیں، وہاں پہلے باورچی خانہ تھا، دھوئیں سے دیواریں کالی ہیں۔ ایک دروازہ باہر کی طرف بھی ہے، کھلا ہو گا۔ اس کی کنڈی نہیں لگ پاتی۔‘‘
’’میں ادھر ہی سے نکل جاؤں گا۔‘‘ میں نے کہا، رخصتی کےسلام کے لیے ہاتھ اٹھایا اور صحن کی طرف مڑا۔
’’اسی طرح کبھی کبھی یاد کر لیا کرو۔ پہلے تو روز کا آنا جانا تھا۔‘‘ انھوں نے لمبی سانس لی اور ان کی آواز تھوڑی کپکپا گئی، ’’وقت نے بڑا فرق ڈال دیا ہے، بیٹے۔‘‘
ان کے ہونٹ ابھی ہل رہے تھے، لیکن میں صحن پار کر کے ڈیوڑھی سے متصل دروازے میں داخل ہو گیا۔ وہاں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ چھت اور دیواروں پر کلونس تھی، اس کے باوجود اندھیرا بہت گہرا نہیں تھا۔ ایک طرف بھوسا ملی ہوئی چکنی مٹی کا بڑا سا چولھا تھا جسے توڑ دیا گیا تھا۔ سامنے روشنی کی ایک کھڑی لکیر نظر آ رہی تھی۔
باہر کا دروازہ، میں نے اپنے آپ کو بتایا اور لکیر کے پاس پہنچ کر اس سے آنکھ لگا دی۔ سامنے حکیموں کا چبوترا دکھائی دے رہا تھا۔ میری پیشانی کو لوہے کی لٹکتی ہوئی زنجیری کنڈی کی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ میں نے اسے اپنی طرف کھینچا۔ دروازے کا ایک پٹ کھلا۔ میں نے کنڈی چھوڑ دی۔ پٹ آہستہ آہستہ بند ہو گیا۔ دو تین مرتبہ یہی ہوا۔ مجھے خیال آیا کہ اس طرح کے دروازوں کو کھولنا اور انھیں اپنے آپ بند ہوتے ہوئے دیکھنا بچپن میں میرا پسندیدہ کھیل تھا۔ میں نے دونوں پٹ ایک ساتھ اپنی طرف کھینچ کر کھولے اور باہر نکل آیا۔
کچھ دیر بعد میں کتھئی اینٹوں والے ایک منزلہ مکان کی پشت پر تھا۔ حکیموں کا چبوترا اور اس پر کی جھاڑیاں اور کچی قبریں اب اور زیادہ صاف نظر آ رہی تھیں۔ مجھے وہاں کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی اور اسی کے ساتھ خیال آیا کہ میں نے چبوترے کو اوپر جا کر نہیں دیکھا۔ اور اسی وقت مجھے کچھ اور یاد آ گیا۔ میں واپس ہوا اور چبوترے کے اوپر آ گیا۔
قبروں کی تعداد میرے اندازے سے زیادہ تھی، لیکن پتاور کا وہ جھنڈ غائب تھا جو ایک بہت پرانے سانپ کا مسکن بتایا جاتا تھا۔ جو لوگ اسے دیکھنے کا دعویٰ کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اس کے پھن پر بال اگ آئے ہیں۔ بچے پتاور کے جھنڈ کے پاس کھیلتے رہتے تھے، بلکہ میں تو اس کے اندر جا چھپتا تھا لیکن سانپ سے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یہ بات مشہور تھی کہ وہ کئی پشتوں سے حکیم خاندان کا نگہبان ہے۔ خشک اور سبز پتاور کے اس جھنڈ کا نقش میرے ذہن میں بالکل واضح ہو گیا تھا، لیکن یہ مجھے یاد نہ آ سکا کہ وہ چبوترے پر کس طرف تھا۔ جس جگہ اس کے ہونے کا مجھے گمان تھا وہاں پر کئی قبریں تھیں جن پر چونے کی سفیدی چمک رہی تھی۔
چبوترے پر سے مکان کے صدر دروازے کو میں دیر تک دیکھتا رہا۔ میرا جی چاہنے لگا کہ اس پر دستک دوں، اور میں چند قدم ادھر بڑھا بھی، لیکن پھر رک گیا۔ یہ بہت واہیات بات ہو گی، میں نے سوچا، اور چبوترے پر سے مکان کی مخالف سمت اتر گیا۔
واپسی کا راستہ مشکل نہیں تھا۔ میں بہت آسانی سے گھر پہنچ گیا۔
مأخذ : عطر کافور
مصنف:نیر مسعود