پاسپورٹ

0
124
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

ڈبو کی موت کا واقعہ ایک مدت تک آنے جانے والوں کو سنایا جاتا رہا۔ ایسے میں آسمان یکدم چپ ساد ھ لیتا، اس میں تیرتی چیلیں ساکت ہو جاتیں اور درختوں کی شاخیں جھک آتیں۔ سارے میں کچھ نارنجی مائل روشنی کھلتی محسوس ہوتی اور ایک لق ودق میدان، کہ جس کا اور نہ چھور، اس کی آنکھ سامنے کھلتا، چھپ جاتا۔ بڑا مانوس مگر گمشدہ۔ اسے اپنی باہوں کے روئیں ٹک ٹک الٹتے محسوس ہوتے۔

ڈبو بےحد ڈی کلاس کتا تھا کہ خودبخود گیٹ پر آن بیٹھنے لگا۔ ایک بار تاؤجی نے سوکھی روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا۔ پھر وہ اپنے مقررہ وقت پر آکر وہاں بیٹھ جاتا۔ قدرے انتظار کھینچتا، پھر ایک روتی ہوئی آواز گلے سے نکالتا۔ کوئی نہ کوئی بچی کھچی روٹی لے کر دوڑتا۔ پھر اس نے ایک ایک قدم حدود کو توڑنا شروع کیا۔ دھیرے دھیرے اس کا آسن برآمدے کی سیڑھی بن گیا۔ اب تاؤجی دودھ پانی میں روٹی ڈال کر دینے لگے اور برابر کی سطح پراس سے مکالمے کی رسم ڈالی۔

’’لے، کھالے۔ آ ج تیری دعوت ہے۔ اوہوں، یہ چیچڑ کہاں سے آیا؟ بڑا آوارہ مزاج ہے بھئی، ہیں!‘‘ اب وہ چمٹی سے اس کی بھوری کھال صاف کرتے نظر آتے۔ ایسے میں وہ اپنا لمبوترا منھ ان کے پاؤں سے رگڑے جاتا۔ ررہ رہ کے اس کی کھال میں کپکپی دوڑتی اور دم کا پنڈولم بری طرح ہلتا۔ پھروہ خانہ باغ کے انار تلے بیٹھنے لگا۔ انہی دنوں معلوم ہوا کہ آوارہ کتوں کو مارنے کی مہم زوروں پر ہے۔ میونسپلٹی کی گاڑیاں سڑک کنارے پڑے مردہ کتوں کو لاد لاد کرلے جاتی تھیں۔ تاؤجی نے اب ایک سستا سا چاکلیٹی رنگ کا پٹا ڈبو کے گلے میں ڈالا۔ دراصل اس پٹے کے بعد ہی اس کا نام ڈبو پڑا۔

اس کی آوارہ مزاجی سے تنگ آکر تاؤجی نے اسے زنجیر کرنا شروع کی۔ ہوتے ہوتے وہ تاؤجی کے معمولات کا حصہ بن گیا۔ دن کا اکثر حصہ ڈبو بندھا رہتا۔ عصر کے بعد تاؤجی مسجد سے لوٹتے تو اس کی رہائی ہوتی۔ کیسی کیسی الٹی چھلانگیں لگاتا۔ پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوکر دستیاں ہلا ہلا تاؤجی کے گلے گلے پہنچ جاتا۔ ایسے میں ہم سب، ڈرائنگ روم کے جالی کے دروازے سے لگ کر کھڑے ہو جاتے۔ تاؤجی نہایت دوستانہ لہجے میں سمجھاتے، ’’آؤ یار، یوں نہیں کرتے۔ شاباش! چل ذرا گھوم پھر آ۔ جا۔‘‘ وہ دم ہلاتا گیٹ کی طرف چل دیتا۔ آنے جانے والوں نے سختی سے نوٹس لیا۔

’’کتاپال لیا ہے۔ نجس جانور ہے۔ اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، جہاں کتا ہو۔‘‘

- Advertisement -

’’رحمت کے فرشتوں کے لیے دوسرا گیٹ ہے۔‘‘ تاؤجی نہایت سنجیدگی سے اطلاع دیتے۔

ڈبو کے آنے سے اتنا ضرور ہو اکہ تفریحاً گھنٹی بجاکر مانگنے والے اور گھروں کے پتے پوچھنے والے بالکل غائب ہو گئے۔ اس کی سہیلیاں پہلے سے فون پر اطلاع دے دیتیں، ’’ہم آ رہے ہیں۔ وہ تمہارا ڈبو نام تونہیں پوچھےگا؟‘‘

یہ انہی دنوں کی بات ہے جب وہ کمزور، ڈی کلاس ڈبو، دودھ روٹی کھا کھاکے خوب فربہ ہو گیا تھا اوراس کی کھال سفیدے کی مانند چمکنے لگی تھی۔ اس کی سرمہ لگی آنکھیں، روشن، چمکتی آپس میں جڑتی، بڑی سمجھ داری سے ہر ایک کو دیکھتیں اور بات بات کی سن گن لیتیں۔ زور آور ایسا ہو گیا تھا کہ اکثر تاؤجی کے قابو میں نہ آتا۔ لاکھ زنجیر کھینچتے، ان کو بھی گھسیٹ لے جاتا۔ عجب عجب طرح کی آوازیں نکالنا اس کا مشغلہ بن چکا تھا۔ جس روزوہ زیادہ بدتمیزی کرتا، تاؤجی اس کی پابندی کے وقت میں اضافہ کر دیتے۔ وہ مالی کو حکم دیتے، ’’آج اس کو پانچ نہیں ساڑھے پانچ بجے کھولنا!‘‘

’’لیو بھئی۔ آج تو تاؤجی کو ناراج کر دیو۔ کیوں بھئی ڈبو۔‘‘ مالی اپنے سیاہ چمکتے چہرے پرکی ذہین، لمبی آنکھوں میں ہنستا۔ جب پہلے روز فریدہ نے مالی کا نام سنا تو اس کا چہرہ کانوں کی لووں تک دہک اٹھا۔ بڑی باجی مالی سلیم کوگل داؤدی کے گملے رکھنے کی ہدایات رہی تھیں۔

’’یہ تمہارے مالی کا نام سلیم ہے؟‘‘ اس نے نہایت رنجیدہ، بلکہ زخم خوردہ ہوکر پوچھا۔

’’کیوں؟ ہے تو سہی۔‘‘

’’اتنا اچھا نام اور مالی! یہ آیا کہاں سے ہے؟‘‘

’’معلوم نہیں۔‘‘ اور واقعی انہیں کچھ معلوم نہ تھا۔ ان دنوں اکثر سرحد پار سے مہاجرین، کسی ٹھکانے، سرونٹ کوارٹر کی تلاش میں، گھر گھر گھنٹیاں بجاتے۔ مالی سلیم اباجی کے دفتر پہنچ گیا تھا اور وہاں سے گھر۔ دفتر اور گھر دونوں جگہ مالی گیری کرتا۔ خانہ باغ کے ساتھ ساتھ کوارٹروں کی لمبی قطار تھی۔ تعداد میں کل آٹھ کوٹھریاں تھیں۔ ایک آدھ کے سوا ساری پکی اینٹ کے فرش والی۔ ابھی تین کوارٹر خالی پڑے تھے۔ ایک میں مالی سلیم آن جما۔ وہ تنہا تھا۔ پوربی۔ تاؤجی جب موڈ میں آتے تو اسے پورب کا بھیاکہہ کر پکارتے۔

روزانہ صبح سویرے جب اسکول بس اسٹاپ کے لیے وہ سڑک پر نکلتی، مالی سلیم انتہائی سفید جگمگاتے کپڑے پہنے، ہاتھ میں سلور کاٹفن کیریئر پکڑے، کام پر جا رہا ہوتا۔ تنگ مہری کا پاجامہ، کرتا اور صدری۔ سرپر کالی ٹوپی اور جگمگاتے جوتے۔ وہ ہرگز مالی نہ لگتا تھا۔ جب کوارٹروں کے آخر میں لگے بھوری کے چھپر میں آنا جانا ہوتا تو مالی سلیم کی کوٹھری سب سے الگ صاف ستھری چمکتی نظر آتی۔ فرش کی سرخ اینٹیں انار کے دانوں کی طرح چمچماتیں۔ ایک طرف چارپائی پر کالا سفید ڈبے دار کھیس بچھا ہوتا۔ سامنے دیوار میں بنے طا ق پر جگر جگر کرتی ایلومینیم کی پتیلیاں اور بھوری پھولدار پیالیاں۔

اسے حیرت ہوتی، مرد بھی اتنے اچھے برتن دھوتے ہیں اور جھاڑو۔ پھر وہ گھوم کر دیکھتی۔ مالی گھر کی دھوتی اور صدری پہنے، کھرپی لیے کیاریاں کھود رہا ہے، ہاتھ مٹی میں سنے ہیں۔ یہ پہلے مالی سے کتنا مختلف تھا۔ وہ چھوٹے سے قداور گٹھے جسم کا، پھرکی کی طرح گھومنے والا مالی، پانچ منٹ میں، ناچتے کودتے، پودوں کو گنجاکانا پانی دیا اور سائیکل پریہ جاوہ جا۔ بڑے بھیا نے اس کے فوارے پر سفیدپینٹ سے ’مالی بھمبیری‘ لکھ دیا تھا۔ اگلے ہی روز وہ بچوں کی بدتمیزی کا عذر کرکے چل دیا۔ مگریہ مالی سلیم زمین پر کیسے جمے جمے قدم ڈالتا۔ اس کی ہرحرکت میں توازن کا احساس ہوتا تھا۔ اسے فریدہ کا سوال پھر یاد آ گیا۔ یہ ہے کون؟

بھری گرمیوں کی سنسان دوپہر۔۔۔ اس کے کوارٹر سے سسکیوں کی آواز آئی۔ اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے جھانکا مگر سامنے تو کھٹے کی باڑھ آ جاتی تھی۔ سب کمرے اندھیرے کیے سو رہے تھے۔ اس نے چپکے سے دروازے کی چٹخنی گرائی۔ لان کی سوکھی گھاس پار کرتے کرتے اس کے تلوے چلچلانے لگے۔ مالی کے کوارٹر کی دہلیز پر ململ کا دھانی دوپٹا اوڑھے ایک سانولی سی عورت بیٹھی ہچکیاں لے رہی تھی۔ اس کی پتلی، لمبی، چیتا کمر ہر ہلکورے کے ساتھ لرز جاتی۔ باہوں میں ہری اوربستی کانچ کی چوڑیاں، سیاہ لمبے بال، سیدھی مانگ۔ وہ حیرت سے کھڑی دیکھتی رہی۔ مالی غائب تھا۔

شام کو تاؤجی نے بتایا، ’’مالی سلیم کی بھانجی ہے۔ اس کا آدمی ہندوستان میں تھا۔ گزر گیا۔ ’’ایک دم اس کا دل ڈھے گیا۔ یہ کیسے ہوتا ہے؟ اس نے حیرت سے سوچا۔ کچھ لوگ ادھر، کچھ ادھر اتنی دور۔ اس کی آنکھوں میں لمبی چیتاکمر اور سبز چوڑیاں گھوم گئیں۔ اب شاید یہ اپنی چوڑیاں توڑدے گی۔ توپھر سلیم کے لوگ کہاں ہیں؟ وہ تنہا کیوں ہے؟ شاید اس کے سب عزیز بھی ادھر ہی ہیں۔ وہ یہاں تنہا کیا کر رہا ہے؟ اور پھر وہ اس کے نام پرششدر رہ گئی۔ فریدہ کا سرخ چہرہ۔ ہاں کیا معلوم یہ کون ہے۔ یوں جماجما کر قدم دھرنے والا۔ شہزادہ سلیم۔ ان دنوں الحمرا میں انار کلی ڈراما اسٹیج کیا جا رہا تھا۔ صاحب عالم۔ مہابلی۔ شیخو۔ دل آرام۔ دمدموں میں دم نہیں اب خیر مانگو جان کی۔ اے ظفر بس ہو چکی اب تیرے ہندوستان کی۔ غدر کے افسانے۔ شہزادی کی بپتا۔ اس کا تصور بھٹکتا چلا گیا۔

مالی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اسی طرح سفید براق کپڑوں میں، چمکتا ٹفن کیریئر اٹھائے کام پر جاتا۔ کیاریوں میں بیج ڈالتا، فوارے سے پانی دیتا اور تیسرے پہر اس کے کوارٹر سے کسیلا کسیلا دھواں بل کھاتا، کھٹے کی باڑھ کے پار اڑتا اور گول گول لہراتا فضا میں تحلیل ہو جاتا۔ لان کے پار کوارٹروں کے ساتھ ساتھ عجب دنیا آباد تھی۔ اب ایک جانب ڈبو کا ٹھکانا تھا۔ اسے بیری کے ساتھ باندھا جاتا تھا۔ کونے میں بھوری بھینس کا چھپر۔ ساتھ والے کوارٹرمیں مرغیاں اور توڑی ملی جلی اور پھر آگے سب کے ٹھکانے۔ ڈرائیور عظیم جو عرف عام میں جیم کہلاتا تھا اور مالی۔ پھر خانساماں فضل دین جو تیسرے پہر اپنا پھندنوں جڑا الغوزہ بجایا کرتا۔

شام ڈھلے کوارٹروں سے چارپائیاں باہر نکالی جاتیں۔ صاف ستھرے بسترے بچھتے۔ مالی ہاتھ کی چھوٹی سی حقی پیتا۔ بندمٹھی میں وہ پراسرار سی حقی ہوتی۔ وہ انگلیوں کی جھونپڑی سی بناکر منہ کے قریب لے جاتا۔ گڑگڑگڑ اور پھر تھوڑا سا دھواں۔ مغرب کی اذان درختوں درختوں ہوتی برآمدے میں اترتی۔ کوارٹروں میں لالٹینیں روشن ہو جاتیں۔ ڈبو کی عجیب کیفیت تھی۔ اذان پرہولے ہولے رونے لگتا۔ اس کے گلے سے درد سے لرزتی باریک آواز نکلتی۔ ایسے میں آس پاس گھروں کی منڈیریں اور بھی تنہا اورخاموش ہو جاتیں۔ درخت، سراپا سماعت، معلوم نہیں کن صداؤں کی لہروں جذب کرتے رہتے۔

وہ شدید گرمی کی شام تھی۔ درودیوار سے آنچ اٹھ رہی تھی۔ ابھی ابھی عصر کی اذان کے ساتھ ساتھ ڈبو دھاروں دھار رویا تھا۔ ایسے میں اس کے پورے جسم میں جھرجھری اٹھتی۔ اندرفضل دین میز پر شام کی چائے لگا رہا تھا۔

’’چائے۔۔۔ چائے۔۔۔‘‘ چھوٹی پیالی پر چمچی کی تال بجا رہی تھی کہ اچانک سڑک پر تیز گھسٹتی ہوئی بریک لگی۔ چررررر۔۔۔ کچھ وقفہ۔۔۔ اور پھر رواں دواں سواریاں۔ گھرلب سڑک ہوں تو دن رات ٹریفک کا ریلا گویا گھر ہی میں بہتا ہے۔

’’مگر کھلا کیسے، یہ تو بندھا تھا اس زنجیر کے ساتھ۔‘‘ تاؤجی ہاتھ میں ٹوٹی زنجیر لیے کھڑے تھے۔‘‘ میں نے خوداپنے ہاتھوں سے باندھا تھا۔‘‘ انہوں نے سوچتی آنکھوں سے سڑک کے پار دیکھا۔ سورج ڈوبنے کو تھا اور آسمان کناروں کناروں سے سرخ ہو رہا تھا۔ پھر روز ہی کی طرح اندھیرا ہوا۔ مغرب کی اذان گونجی۔ اندھیرا پڑے مالی حقی گڑگڑاتا، تاؤجی کے ساتھ تبادلہ خیال کرتا رہا۔

’’مگر تاؤجی، میں نے کھد دیکھا، اس جنجیر کے ساتھ بندھا تھا۔ میں ادھر درکھت تلے بیٹھا تھا۔ ایک دم جیسے کسی بلاوے پر اس نے ایسا جور لگایا، ایسا بپھر کر جور لگایا، میں دیکھتا رہ گیا۔ مانو کسی نے کھد ہاتھ سے زنجیر کھول دی ہو۔ تیر کی طریوں بھاگا، سیدھااور اسی دم، ادھر سے وہ اینٹوں کا ٹرک چلا آ رہا تھا، مانواسی کی کھاتر اور سیدھا اس کے اوپر سے گجر گیا۔ پر میں کہتا ہوں اس کی جنجیر کس نے کھولی؟‘‘

’’اس نیلی چھتری والے کے اشارے پر کھلی میرے بھائی۔ ہر ایک کا وقت مقرر ہے۔‘‘ تاؤجی نے ٹوپی اتار اپنے گھنے سفید بالوں میں انگلیاں پھیریں۔ دوبارہ ٹوپی سر پر دھری، ’’جب وہ ساعت آ گئی، تب نہ ایک منٹ آگے نہ پیچھے۔ آدمی خودبخود اپنی جگہ پر کھنچا چلا جاتا ہے۔ یہ اسی وعدہ نبھانے والے کا وعدہ ہے۔ چلو اب اس زنجیر کا کیا کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے زنجیر ایک طرف ڈھیر کر دی۔ پھر اٹھائی۔ اسے الٹا پلٹا۔ پھر زیرلب، ’’خودبخود زنجیر کی جانب کھنچا جاتا ہے دل۔ تھی اسی فولاد سے شاید مری شمشیر بھی۔‘‘ مالی مفت میں شرمندہ، پشیمان بیٹھا حقی گڑگڑاتا ہے۔

اب مالی کی بھانجی اکثر آنے جانے لگی۔ اس کا سانولا، دبلا پتلا چہرہ پیلا پڑ چکا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس کو کپڑے دھونے والی صابن کی ٹکیا نظر آتی، جو چپ چاپ گھلتی چلی جاتی ہے۔ سردیوں کے آغاز میں دھنیا آتا۔ خالی کوارٹر میں روئی دھنکی جاتی۔ اوپر چھت تک روئی کے گالے برف ایسے سفید، پہاڑسا جمتا چلا جاتا اور اس کی آواز دھن۔۔۔ دھن۔۔۔ دھا۔۔۔ برابر کی چھوٹی چھوٹی آوازوں کے بعد ایک ترچھی پڑتی چوٹ۔ دھنیا مالی کا ہم وطن پوربی تھا۔ اس کی وہ لمبی سی کمان مہارت سے چلتی رہتی۔ لحاف بھرے جاتے۔ روئی کو چھڑی سے برابر کیا جاتا۔ ہلکی ہلکی چوٹ سے کنارے کنارے روئی پھیلائی جاتی اور پھر مالی کی بھانجی، اس کانام مہرن، یقیناً مہرالنسا ہوگا، مہرن دالان میں فرش پر لحاف پھیلائے، سر جھکائے ڈورے ڈالتی رہتی۔ کبھی اماں ادھر آنکلتیں۔ باتیں کرتے کرتے مہرن کی آنکھیں یکدم جل تھل ہو جاتیں۔

’’اور مالی؟ اس کا کوئی نہیں؟‘‘ اماں نے پوچھا۔

’’ماما؟ مامی ہے۔ دو بیٹے ہیں۔ نانی بھی تھی۔ مر گئی۔ ایک بیٹا تو بہت بیمار رہا۔ بہت یاد کرتا تھا ماما کو۔ سب لوگ بہت روتے ہیں۔ مامی تو بالکل۔۔۔‘‘

’’چلو، کبھی ان کوبھی یہیں لے آئےگا نا۔‘‘ اماں نے تسلی دی۔

’’بہت کوشش کی مگر پاسپورٹ نہیں بنتا۔ بند ہیں۔ بالکل نہیں بننے کے۔‘‘

اباجی بھی بہت بھلکڑ تھے۔ اماں کے باربار کہنے پربھی مالی کا پاسپورٹ نہ بنوا سکے۔ جانے سے ایک دو دن پہلے وہ بہت سا وقت کوارٹر میں گزارنے لگا تھا۔ کبھی رات گئے اس کی گہری کھردری آواز لہر درلہر کھڑکی سے ٹکراتی۔

ندی کنارے دھواں اٹھت ہے میں جانوں کچھ ہوئے

جس کے کارن میں جوگن بھئی وہی نہ جلتا ہوئے

وہ جیسے کسی اونچان سے گرتی چلی جاتی۔ پھر ایک روز صبح سویرے مالی سلام کرنے کو پہنچا۔

’’میاں تم بغیر پاسپورٹ کے کہاں جا رہے ہو؟ سرحد کیسے پار کروگے؟ ابھی رکو، کچھ عرصے میں سلسلہ چل نکلےگا۔ بن جائےگا پاسپورٹ۔‘‘

’’جی نہیں صاب۔ میرا دل پریسان ہے۔ لگتا ہے وہاں میری جرورت ہے۔ ان سب کی آواجیں آتی ہیں کانوں میں۔ بس ان کولے کر آجاؤں گا اپنی اس کو ٹھریا میں۔ ابھی تالا لگائے جاتا ہوں۔ تالی بیگم صاب کو تھمادی ہے۔‘‘

یوں اس بیچ کے کوارٹر میں تالا ڈال گیا۔ زنجیردار کنڈے میں بھاری سا لوہے کا تالا، جس میں مسلسل بارش سے زنگ لگ گیا۔ چابی معلوم نہیں اماں نے کہاں ڈال دی ہوگی، کیوں کہ جب دوسری برسات میں سب کوارٹروں کی چھتیں ٹپکیں تو اس کاتالا تاؤجی نے ہتھوڑے سے توڑا۔ سامنے جگمگاتی پتیلیوں پر مٹی کی تہہ جمی تھی۔ چارپائی ایک کونے میں کھڑی تھی۔ اس کے پائے کے ساتھ گیندے کا سوکھا ہار لٹک رہا تھا۔ مہرن نے کانپتے کانپتے، پتیلیوں، رکابیوں، پیالیوں کے ساتھ ساتھ وہ ہاربھی بوری میں ڈالا۔ چارپائی ٹھیلے پر رکھوائی۔

’’ہمارے محلے کا لڑکا اور ماما ساتھ ہی تو گئے تھے۔ مگر بارڈر کے قریب سے وہ تو لوٹ آیا۔ ماما اندھیرے میں سرکا۔ تابڑتوڑ گولیاں برساکیں مگر و ہ بھاگتا ہی گیا۔ آ رہا ہوں۔ آ رہا ہوں۔‘‘

’’وہ نیلی چھتری والا۔۔۔‘‘ ٹھیلا جانے کے بعد تاؤجی نے انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی، ’’وہی اشارے کرتا ہے۔ کبھی صدائیں دیتا ہے۔ لبیک الہم لبیک۔ ہر جی کو وہ مزہ چکھنا ہے جو چکھنا ہے۔ حضرت سلیمان دربار کرتے تھے کہ ایک شخص نے باریابی چاہی۔ بلاکر تخت شاہی پر بٹھایا۔ وزیر بھی پاس ہی بیٹھا تھا۔ نووارد اسے بہت دیر تک گھورتا رہا۔ بارے رخصت ہوا۔ وزیر نے حضرت سلیمان سے عرض کی یہ شخص کون تھا جو مجھے اس بری طرح گھورتا رہا۔ حضرت نے فرمایا، یہ عزرائیل تھا کہ انسانی بھیس میں آیا۔ وزیر نے عرض کی، مجھے اس کا گھورنا بہت برا لگا۔ آپ مجھے فلاں دروازے کے جزیرے میں پہنچا دیجیے۔ حضرت نے اپنے ہوائی تخت پراسے مذکورہ جزیرے میں پہنچا دیا۔ وہاں وہ شخص پہلے ہی سے اس کا منتظر تھا۔ بعدمیں حضرت سلیمان سے عرض کی کہ جب میں آپ کے پاس آیا، حیران تھا کہ مجھے تو چند لمحوں میں اس جزیرے میں اس شخص کی روح قبض کرنا تھی اوریہ اب تک یہاں بیٹھا ہے!‘‘

تاؤ جی نے ڈبو کی ٹوٹی زنجیر اور کوارٹر کا تالا لپیٹ کر خالی طاق میں ڈال دیے۔

مصنف:خالدہ حسین

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here