ابھی جوانی ہے میکدے پر ابھی تو بادل بھی ہے گھنیرا
ابھی تو زندہ ہے حسن ساقی ابھی سلامت ہے عشق میرا
وہ شب کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں وہ لڑکھڑانے لگا اندھیرا
اٹھو مصیبت کشو اٹھو بھی اٹھو کہ ہونے کو ہے سویرا
مجھے نہ محبوس کر سکے گی کسی بھی پازیب کی چھنا چھن
گرفت کی منزلوں سے آگے گزر چکا ہے شعور میرا
وہ سرمدی سا حسیں ترنم لطیف ہونٹوں کا اک تبسم
مجھے یہ احساس کیوں ہے پیہم کہ جیسے کچھ کھو گیا ہے میرا
نظر اٹھانا ادھر نہ افسرؔ برا ہے یہ ڈالروں کا چکر
ادھر ادھر ہو گئی صفائی جدھر جدھر اس نے ہاتھ پھیرا
مأخذ : فانوس
شاعر:افسر آذری