جب وہ افسر بہادر کے گھر نوکری کے لیے بھیجا گیا تو اس پر عجیب سی وحشت طاری تھی۔ شانے جھکے ہوئے، رنگ پیلا، آنکھوں تلے اندھیرا۔ اتنی بڑی کوٹھری میں وہ یوں کھوگیا جیسے سچ مچ مرگیا ہو۔ یتیموں کی طرح کھڑا ٹکر ٹکر دوسرے نوکروں کا منہ تک رہا تھا اور وہ سب اس قدر مصروف تھے کہ کسی نے اس کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھا۔
کس قدر فضول سی چیز سمجھ رہا تھا اپنے آپ کو۔ اس کا بس چلتا تو یہا ں کبھی بھی نہ آتا مگر برا ہو ماں باپ کا جنہوں نے ساری برادری سے زور ڈالواکر اسے بھجوادیا۔ سب اس کے انکار پر حیران تھے۔ کسے ملتی ہے افسروں کے گھر نوکری۔ کم بخت ایسی خوش نصیبی پر لات مار رہا تھا۔ ماں باپ کا خوشی سے برا حال تھا۔ وہ گاؤں میں فخریہ سراونچا کرکے یہ تو کہہ سکتے تھے کہ ان کا بیٹا سرکاری افسر کے گھر نوکر ہے۔ گاؤں والوں پر رعب پڑے گا۔ دشمن بھی دوستی کا دم بھرنے لگیں گے۔ ان کے گاؤں سے کئی آدمی سرکاری افسروں کے گھر نوکری کرنے گئے تھے۔ ایسی شاندار تنخواہ کہ اپنے اپنے گھر بھرلیے تھے اور پھر کسی کی مجال تھی جو ان سے اونچی آواز میں بات بھی کرسکیں، موچی، میراثی ہوکر ملک جی کہلوانے لگے تھے۔ چھٹی پر آتے تو لیڈی ہملٹن کی قمیض پہنے ہوتے۔
ان تمام باتوں کے باوجود وہ سخت ڈرا ہوا تھا۔ اگر افسر بہادر کے گھر ٹھیک سے کام نہ کرسکا تو جانے اس کا کیا حشر ہو۔ اس کو بچپن ہی سے افسر کے نام سے ڈرلگتا تھا۔ اس نے تو برادری کی بات بھی رد کردی لیکن رانی نے عین وقت پر چپکے سے مل کر یہی مشورہ دیا کہ نوکری پر چلا جائے۔ اس کے بعد اس کے باپ کی مجال ہے جو رشتے سے انکار کردے۔
سرجھکائے جوتوں پر نظریں گاڑے گاڑے جب کافی دیر ہوگئی تو آیا اسے اپنے ساتھ بیگم کے کمرے میں لے گئی۔ سرخی پاؤڈر سے لپی پتی گڑیا جیسی بیگم کو اپنے بستر میں موم کے گدے میں غوطے لگاتے دیکھ کر وہ تھر تھر کانپنے لگا۔ بھلا اس کا کیا قصور تھا۔ اسے تو آیا لے آئی تھی، اس نے پہلے دیکھ ہی لیا ہوتا کہ کہیں بیگم لیٹی تو نہیں۔
’’تم کو کون سا کام کرنا آتا ہے؟‘‘ بیگم نے بڑے رعب سے سوال کیا اور ٹا نگیں پھیلاکر چت لیٹ گئیں۔
’’جو کہیں بی بی جی۔‘‘ اس نے ڈرتے ڈرتے بیگم کی طرف دیکھ کر نظریں جھکالیں۔ اس طرح تو کبھی اس کے سامنے رانی بھی نہ لیٹی تھی۔ اگر یوں لیٹی ہوتی تو۔۔۔ تو۔۔۔ وہ گڑبڑاگیا۔ سرتوڑدیتا اس کا۔
’’ایک بات کان کھول کر سن لو۔ آیا، خانساماں اور مالی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرو گے۔‘‘ گڑیا کی آواز بڑی کرخت تھی۔
’’بہت اچھا۔‘‘
’’تمہارا کام یہ ہے کہ رات کو صاحب کے اور بچوں کے جوتوں پر پالش کرو گے۔ بھینس کی دیکھ بھال کروگے، میز پر کھانا لگاؤگے، کھانے کے کمرے کی جھاڑ پونچھ کروگے اور کل صبح سے بازار سے سودا بھی لاؤگے۔‘‘
’’جی بی بی جی۔‘‘ کام تو کچھ بھی نہیں۔ وہ جی ہی جی میں خوش ہوگیا۔
’’تنخواہ پندرہ روپیہ مہینہ ملے گی۔ یہاں بہت خوش رہوگے۔ فکر نہ کرنا۔ ہاں۔‘‘
’’جی۔۔۔ جیح۔۔۔‘‘ پندرہ روپے مہینے کی بات پر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے سر پر لاٹھی کھینچ ماری ہو، پچیس تیس روپے اور سال کا اناج تو وہ محنت مزدوری کرکے کما لیتا تھا۔ اب اماں ابا کی طبیعت ٹھیک ہوگی۔ بھوکے مریں گے تو پھر برادری روٹی د ینے نہ آجائے گی۔ جانے کون سے زمانے کے افسر ہوں گے جو نوکروں کو لمبی تنخواہیں دیتے تھے۔ ایسے گھروں میں نوکری کرکے چاندی ہوجاتی تھی۔ یہاں تو لوہے کے دام بھی نہ ملے۔ اس پر کچھ ایسی مایوسی طاری ہوئی کہ سرجھکائے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
’’سمجھ گئے۔‘‘ بیگم نے اسے یوں کھڑا دیکھ کر سختی سے کہا، ’’کوئی گڑبڑ میں پسند نہیں کرتی۔‘‘
’’جی بی بی جی۔‘‘ وہ گھبراکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ گڑبڑ کرنے کی اس میں کب ہمت تھی۔ ایسی ہمت کرنے والوں کا انجام دیکھ چکا تھا۔ ایک نوکر کے اس نے خود اپنی آنکھوں سے ہتھکڑی لگے د یکھا تھا۔ ہتھکڑی کے تصور ہی سے اس پر پھر ایک بار لرزہ طاری ہوگیا۔
’’جاؤ، اب خانساما ں سے کھانا مانگ لو۔ تمہیں بھوک لگ رہی ہوگی۔‘‘ اس بار بیگم کی آواز میں بڑی نرمی تھی۔ کمرے سے وہ یوں نکلا جیسے واقعی قید سے آزاد ہوگیا ہو۔
باورچی خانے میں جاکر وہ بڑی خاموشی سے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ آیا، مالی اور خانساماں بان سے بنی ہوئی پرانی پیڑھیوں پر بیٹھے، اپنے اپنے حصے کا کھانا کھا رہے تھے اور دونوں ادھیڑ عمر کی آیا سے ہلکے ہلکے فحش مذاق کرتے جارہے تھے۔ آیا کامیاں جوانی میں مرگیا تھا۔ اس نے دوسری شادی نہ کی اور یہی حسرت اس کی آنکھوں سے جھانکتی رہتی۔ ایسی ویسی باتیں سن کر ذرا جی شاد کرلیا کرتی۔ و یسے تو بیگم ایسی سخت تھیں کہ مجال ہے کوئی اپنی من مانی کر سکے۔ وہ چپ چاپ کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا اور جی ہی جی میں کڑھ بھی رہا تھا۔ لالچ کیسی بری چیز ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کو بھی داؤں پر لگادیتے ہیں۔ جانے یہاں سے کب جان چھوٹے گی۔
’’اٹھا پلیٹ۔‘‘ تھوڑی دیر بعد خانساماں اس کی طرف متوجہ ہوا، ’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘
’’صابر۔‘‘ اس نے الماری سے پلیٹ اٹھالی۔
’’ابے یہ پلیٹ نہیں چلے گی، یہ مالکوں کے برتن ہیں۔ نوکروں کے برتن اُدھر پھٹے پر رکھے ہیں۔‘‘ خانساماں نے انگلی سے اشارہ کیا۔ صابر نے دوسری پلیٹ اٹھالی۔ اسے یہ سب کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ نوکر مرد نہیں ہوتا، بیگمیں ٹانگیں پھیلائے لیٹی رہتی ہیں۔ کتوں کی طرح نوکر کے برتن الگ ہوتے ہیں۔
’’بیگم نے تیرے ذمے کون کون سے کا م لگائے ہیں؟‘‘ خانساماں نے سالن نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’رات کو جوتوں پر پالش کرنا، بھینس کی خدمت، کھانے کے کمرے میں صفائی اور سودا لانا۔‘‘
’’سودا؟‘‘ خانساماں کی مونچھیں ایک دم کھڑی ہوگئیں، ’’کیسا سودا؟ ابھی آیا اور ابھی سودا لائے گا؟ میری باری ختم نہیں ہوئی اور تو سودا لائے گا؟ ابے کیا گھانس کھالیا ہے؟ مجھے جانتا نہیں؟‘‘
’’میرا کیا قصور؟‘‘ وہ بڑی مسکینی سے بولا، ’’بیگم نے کہا ہے کہ میں کل سے سودا بھی لاؤں گا۔‘‘
’’میرا کیا قصور۔۔۔‘‘ خانساماں نے اس کی نقل کی، ’’یاد رکھیو میرا نام دلاور ہے۔ بڑا خراب آدمی ہوں۔‘‘ اس نے دو موٹی موٹی روٹیاں اور سالن کی پلیٹ اس طرح آگے بڑھائی جیسے کھینچ کر مار رہا ہو۔ صابر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’خانساماں جی مجھ سے کیوں ناراض ہوتے ہو۔‘‘
’’دیکھو کیسا شریف نظر آرہا ہے جیسے کچھ جانتا ہی نہیں۔‘‘ آنسو دیکھ کر خانساماں کو اور بھی غصہ آگیا۔
’’رہنے بھی دے دلاور، نیا نیا ہے، ابھی اس کو کیا پتہ، پھر جو کچھ تو کہے گا وہی کرے گا۔‘‘
’’ہاں ہاں بڑا معصوم ہے، اسے کیا پتہ، جب دونوں ہاتھو سے جیبیں بھرے گا تو پھر پتہ چلے گا۔ ہتھکڑی لگوادوں گا بیٹا کے۔‘‘
’’بس کر دلاور، تیرے کہے پر نہ چلے تو پھر بات کیجیو۔‘‘ آیا بڑی مکاری سے باتیں کر رہی تھی مگر صابر کو وہ بڑی اچھی لگی۔
’’خانساماں سودا تو لے آیا کرنا، میں تیرے حصے کا کام کردوں گا، میں تو تیرا بھائی ہوں۔‘‘
’’توبہ کر، تیری باری پر میں سودا لاسکتا ہوں؟ بیگم بڑی ویسی ہے۔ ہر طرف سونگھتی پھرتی ہے۔ دکانوں سے پچھوالیتی ہے۔ کوئی بہانہ نہ چلے گا۔‘‘ خانساماں اب ذرا نرم پڑگیا تھا۔
’’پھر میں کیا کروں؟‘‘
’’بے شک سودا لینے جا مگر میں جو کچھ کہوں گا وہی کرنا، میری بات نہ مانی تو یاد رکھیو، میں سات سال پرانا کام کرنے والا ہوں۔ میرا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ انگریزی اور اردو دونوں کھانے پکالیتا ہوں۔ اس سے پہلے انگریزوں کی نوکری کرتا تھا۔ ہاں گڑبڑ کی تو تجھے پارلگادوں گا۔‘‘ خانساماں ایک آنکھ پچکاکر زور سے ہنسا۔ اس وقت وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ بیگم اس کا بے تحاشہ بڑھا ہوا تن و توش دیکھ کر روٹھی روٹھی رہتی تھیں۔ کئی بار جھاڑ بھی چکی تھیں۔ اشاروں اشاروں میں تنبیہ بھی کی تھی کہ اپنی کھال کے اندر رہے اور اب جیسے ہی نیا نوکر آیا تو خانساماں کی لگام کھینچ دی۔ ارے ہاں کیا پتہ کہ کہیں ہاتھ سے نکل جائے۔ ایسا اچھا کھانا پکانے والا کہاں مل سکتا تھا۔ پھر آخر دوسرے نوکروں کو بھی تو جینا تھا۔
’’دیکھ بیٹا، سودے سے جو کچھ بچے گا۔ اس میں ایک حصہ میرا بھی ہوگا۔ سمجھ گیا؟ تجھ سے پہلے جو نوکر تھا اسے میں نے یوں چٹکی بجاتے میں نے اڑایا ہے، مجھے الو بنانے لگا تھا۔‘‘ خانساماں نے مونچھ کا کونا مروڑکر اور اونچا کردیا۔ حصے کی بات سن کر صابر سب کچھ سمجھ گیا۔ اس نے سوچ لیا کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے گا۔ کل کو بیگم نے جیل بھجوادیا تو خانساماں حصہ بٹانے تو نہ آجائے گا۔
’’خانساماں جی، میں سودے سے ایک پیسہ نہ کاٹوں گا، پندرہ روپیہ مہینے ملے گا وہی ٹھیک ہے، بے شک ماں باپ بھوکے مرجائیں۔ کہیں کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو؟‘‘
’’ابے کیوں مراجاتا ہے۔ بازار گیا تو چاند کی سیر کر آئے گا۔‘‘ خانساماں نے زورکا قہقہہ لگایا، ’’بس یہ بتادینا کہ کس گھر سے آیا ہے۔ سمجھا؟‘‘ خانساماں نے بڑی شفقت سے صابر کی کمر پر ایک دھول رسید کردی، ’’لے اب کھا خوب ڈٹ کر، مہینے تک سودا لایا تو ان سوکھی ہوئی ہڈیوں پر اصلی گھی کی چکنائی چڑھ جائے گی۔‘‘
بیگم کے پکارنے کی آواز آئی تو صابر دوڑتا ہوا کمرے میں پہنچ گیا۔ ’’بھینس کو پانی پلادینا اور دیکھو سب نوکروں سے کہہ دو کہ اب میں سو رہی ہوں، آیا سے کہو کہ بچوں کے کمرے میں جائے، دوپہر میں کوئی باہر نہ نکلے۔‘‘
’’بہت اچھا بی بی جی۔‘‘
بھینس کو پانی پلاتے ہوئے اسے برابر رانی یاد آتی رہی۔ گوری چٹی رانی، جب سیاہ چمکتی ہوئی بھینس کو ساتھ لے کر چرانے جاتی تو اور بھی گوری نظرآتی۔ کتنی بار اس کا جی چاہا تھا کہ اللہ اسے بھی بھینس بنادے۔ کم از کم رانی کے ساتھ تو رہ سکے گا۔ مگر اب تو رانی نے اسے الو بناکر یہاں بھیج دیا تھا۔
’’لالچی، کتے کی اولاد۔۔۔‘‘ وہ رانی کو یاد کرکے گالیاں دیتا رہا۔ بھینس کو پانی پلانے کے بعد، خانساماں سے پوچھ کر اس نے کھاٹ اٹھائی اور لان کے ایک سرے پر گھنے درخت کے سائے میں بچھا کرلیٹ گیا۔ ایسی گرم گرم ہوا چل رہی تھی کہ جسم جھلسا جاتا۔ ذرا دیر بعد خانساماں اور مالی بھی آگئے۔
’’لے بیٹا اُٹھ جا، دنیا ہی میں جنت کے میوے کھالے۔‘‘ خانساماں نے ایسے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کہ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ خانساماں نے بغل میں دبی ہوئی پوٹلی نکال کر کھاٹ پر رکھ دی۔ پھر بڑے فخر سے گرہ کھولی۔ پیلے پیلے پکے ہوئے بڑے بڑے آٹھ آم سامنے پڑے تھے۔ ایسے آم تو صابر نے اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھے تھے۔ فصل پر کبھی کبھی کوئی آم بیچنے والا ادھر اس کے گاؤں میں بھی آنکلتا۔ ننھے آم جن میں رس برائے نام ہوتا۔
’’لے کھا۔‘‘ دو آم اس نے صابر کی طرف بڑھادیے اور دومالی کو دے دیے اور چار آم ایسی تیزی سے چیر پھاڑ کر کھاگیا کہ صابر منہ تکتا رہ گیا۔ ’’ابے کھا تو منہ کیوں تک رہا ہے؟ یہاں ان چیزوں کی کمی نہیں۔ اتنی ہوتی ہیں کہ آدمی کھائے نہ تھکے۔ ہمارے صاحب کسی سے اور کچھ نہیں لیتے۔ بڑے ایماندار مشہور ہیں۔ اب اگر کوئی پھل فروٹ کے ٹوکرے لے آئے تو ہاتھ بھی نہیں پکڑلیتے۔ باپ دادا کی طرف سے بیس پچیس مربعے ملے ہیں، کس چیز کی کمی ہے جو بے ایمانی کریں؟‘‘
’’بیگم سے پوچھ کر لائے ہو خانساماں؟‘‘ صابر نے پوچھا۔ اسے تو قدم قدم پر جیل نظر آرہی تھی۔ کہیں خانساماں اسے بھی نہ لے ڈوبے۔
’’ابے الو کی کان، میں یہاں تیرے باپ کے سمان ہوں، جو کہوں وہ کر، پوچھ کر بھی کچھ ملا ہے۔ بیگم ہاتھ اٹھاکر کسی کو کچھ نہیں دیتی۔ ہم لوگ اپنا حصہ خود لیتے ہیں۔ بیگم کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ حساب کرکرکے مرجائے جب بھی اسے پتہ نہ چلے۔ یہاں ایسی چیزیں بے حساب آتی ہیں۔ تو خواہ مخواہ ڈرا جاتا ہے۔‘‘
’’نیا ہے نا، تھوڑے دن میں ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ مالی نے اپنے آم رومال میں باندھ لیے اور باہر سے پھاٹک بھیڑ کر چلا گیا۔ ڈر کے باوجود چوری کے آم بڑے میٹھے تھے۔ خانساماں اگر اپنے آم منٹوں میں چٹ نہ کرجاتا تو شاید اس سے ایک آم کی فرمائش اور کردیتا۔
دوسرے دن بیگم نے اسے دس کا نوٹ پکڑادیا، ’’ایک مرغی، آدھا سیر بکری کا گوشت، آدھا سیر ٹماٹر، دو کھیرے، آدھا سیر پیاز۔ نوکروں کے لیے آدھا سیر گائے کا گوشت۔‘‘
’’بس بی بی جی؟‘‘
’’ہاں بس، خانساماں کو میرے پاس بھیجو اور تم مالی کے ساتھ بازار ہوآؤ۔‘‘
خانساماں کو بیگم کے پاس بھیج کر صابر مالی کے ساتھ بازار چلا گیا۔ کوئی بہت بڑا بازار تو تھا نہیں، تھوڑی دیر میں ساری دکانیں دیکھ لیں۔ مالی نے چائے والی کی دکان سے باسی پیسٹری کھائیں اور چائے کی پیالی پی کر چلتا بنا مگر صابر اپنی آؤبھگت دیکھ کر چکرایا جارہا تھا۔ ہر سودے کے دام آدھے سے بھی کم تھے۔ سبزی والے نے دام لینے سے بالکل ہی انکار کردیا۔ سب اس کے سامنے یوں بچھے جاتے جیسے وہ کہیں کاحاکم ہو۔ اسے اپنی اہمیت کا اس قدر سخت احساس ہو رہا تھا کہ پاؤں زمین پر نہ پڑ رہے تھے۔ اس کے تو چھوٹے بھائی نے بھی کبھی اس کی عزت نہ کی تھی۔ گاؤں والے الگ تو تکار پر اترے رہتے۔ باپ بھی صبح ہوتے ہی اسے کسی نہ کسی بات پر ایک آدھ گالی ضرور ٹکادیتا۔
قصائی مدارات میں سب سے آگے بڑھ گیا۔ اس نے اپنی پسندیدہ دکان سے صابر کے لیے چائے منگوائی۔ جس دکان سے مالی نے چائے پی تھی، اس کی برائی کی، پھر دبی دبی زبان سے یہ بھی بتایا کہ مالی اور خانساماں اسی دکان سے چائے پیتے ہیں، اس کے آڑے وقت کام آتے ہیں۔ اس کے دوست کی دکان کا رخ نہیں کرتے۔ بڑے چالاک ہیں دونوں۔ اس کا دشمن چائے والا ایسا بدذات ہے کہ ٹھاٹ سے لکڑیاں جلاتا ہے۔ دھویں کے مارے سب کی آنکھیں پھوٹتی ہیں۔ پھر ایسی گندی چائے بناتا ہے، کیا مقابلہ کرے گامیرے یار کی چائے سے۔ تم کو وہاں کا حلوہ پوری کھلاؤں گا۔ بڑی مشہور ہے۔ خانساماں نے دس بار کہا کہ اس کم بخت کو بیگم صاحب کی طرف سے دھمکی دے دو مگر کون سنتا ہے۔
قصائی کے اخلاق میں کچھ ایسی چھری جیسی تیزی تھی کہ صابر اس کی ہر بات مانتا گیا اور گھر واپس جاتے جاتے چائے والے کو لکڑی جلانے سے منع کرنے پہنچ گیا۔ مالی نے اس سے صابر کو ملوایا نہ تھا، اس لیے وہ ایک دم بپھر گیا لیکن جیسے ہی صابر نے افسر کے گھر اور بیگم کی دھونس جمائی تو ’’سم سم کھل جا‘‘ کا اثر ہوا۔ چائے والا خوشامدوں پر اتر آیا۔
’’ارے میرے بھائی!یہاں تو خانساماں، مالی اور تجھ سے پہلے جتنے نوکر آئے سب چائے پیتے تھے۔ پہلے کبھی بیگم صاحب نے ایسا حکم نہ دیا۔ یہ سب قصائی کی شرارت ہے۔ غریب بندہ ہوں۔ لکڑی تو مفت میں کاٹ لاتا تھا۔ اب کوئلہ خریدنا پڑے گا۔ تمہاری ہر طرح خدمت کروں گا۔‘‘
’’کچھ دن کوئلہ جلاؤ، پھر لکڑی جلانے کی اجازت دلوادوں گا۔‘‘ صابر نے بڑے غرور سے کہا مگر دل میں خانساماں سے ڈر رہا تھا۔ اسے پتہ چلا تو ناراض نہ ہو۔ سودالے کر کوٹھی پہنچا تو خانساماں اس کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی آنکھ ماری۔ صابر اس مری ہوئی آنکھ کا مطلب تو سمجھ گیا مگر وہ ایمانداری سے بیگم کو حساب دینے کے لیے جارہا تھا۔ خانساماں نے طیش میں آکر اسے پیڑھی پر دھکادے کر بٹھادیا۔
’’ابے الو کی کان۔ یہاں ایسی ایمانداری نہیں چلے گی۔ بیگم کو پتہ چلا کہ تو ان کے نام پر سستا سودا لاتا ہے تو سر توڑدیں گی، جیل پہنچادیں گی۔ نکال جیب سے کتنا بچالایا ہے۔‘‘ صابر نے ڈر کر جیب سے پانچ روپے نکال دیے۔
’’بس اتنا بچا ہے۔‘‘
’’پانچ روپے؟ بس ٹھیک ہے۔ بیگم کو بتادیجیو، مرغی ساڑھے پانچ روپے کی، گوشت ڈھائی روپے کا، سبزی ایک روپے کی، گائے کا گوشت آٹھ آنے کا۔ بیگم کی اٹھنی بچی۔ ڈیڑھ روپیہ میرا تین روپے تیرے۔ اپنے ڈیڑھ روپے سے چونی آیا کو دے دوں گا۔ بیچاری بیوہ ہے۔ اسے دینا ثواب کا کام ہے۔ پان تمباکو کھالیا کرتی ہے۔‘‘ صابر تین روپے جیب میں ڈال کر بیٹھا تو حساب لگانے لگا کہ مہینے میں کتنے روپے بنیں گے۔ نوے روپے کے خیال ہی سے اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس کے ساتھ بیگم کے خوف کی تلوار زور زور سے گردن پر وار کرنے لگی۔
خانساماں نے اسے یوں ڈرا سہما، چپ چاپ بیٹھے دیکھا تو سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا، ’’ابے تو کیوں ڈرتا ہے۔ میرے ہوتے تجھے کس بات کی فکر۔ لے ایک گلاس دودھ پی لے، آخر تو بھینس کی رکھوالی بھی تو کرتا ہی ہے۔‘‘ خانساماں نے پتیلی سے گرم گرم دودھ انڈیل کر گلاس اس کے ہاتھ میں تھمادیا۔ ’’بس ایک بات کا خیال رکھیو بیگم کو کسی بات کی خبر نہ لگے اور میرے حصے کی بات تو اسے کبھی نہ معلوم ہو۔ گھر کی بات باہر بھی نہ کیجیوہاں۔‘‘ صابر دودھ پیتے ہوئے ہر بات پر اچھا اچھا کرتا رہا۔ خانساماں کے تسلی دینے سے اس کی ڈھارس بندھ گئی تھی۔ خانساماں بھی تو سستا سودا لاتا ہے۔ بیگم کو اس بات کی خبر نہیں تو پھر وہ ناحق ڈرا جاتا ہے۔
کچھ دن تو ڈرتے ڈرتے گزرے پھر ہمت بڑھ گی۔ سودا لاتے مہینہ گزرا تو صابر سوروپے کما چکا تھا۔ اس نے تو کبھی خواب میں نہ سوچا تھا کہ وہ سوروپیہ مہینہ کما سکے گا۔ اس کے جسم میں جیسے بجلیاں سی مچلنے لگی تھیں۔ یوں دوڑ دوڑ کر کام کرتا، بیگم کے منہ سے بھی تعریف نکل ہی جاتی۔ کبھی کبھی اسے دیکھ کر لاڈ سے مسکرا بھی دیتیں۔ اس وقت صابر مارے غرور کے چاند پر ہو بھی آتا۔ لیکن خانساماں کم بخت سے کد بڑھتا جارہا تھا۔ مفت میں اس کے حصے کا ڈیڑھ روپیہ روز ہضم کرجاتا۔ دکاندار اس سے بیزار تھے۔ انہوں نے صابر کو بتایا تھا کہ کبھی کبھی خانساماں قرض سودا لے جاتا ہے اور پھر پلٹ کر ایک آنہ نہیں دیتا۔ سخت اتنا کہ ذرا تڑپڑ کرو تو جان کو آجاتا ہے۔ بس اتنی اچھائی ہے کہ ہر ایک کے برے وقت میں کام آتا ہے۔ کیسا ہی کام ہو منٹوں میں کرادیتا ہے۔
صابر سے سب خوش تھے۔ نہ تو اس نے کبھی قرض سودا لے کر پورے دام ڈب میں کیے اور نہ کبھی کسی پر سختی کی۔ آدھے پونے دام ضرور دے کر ہی آتا۔ چائے والے کو لکڑی جلانے سے منع کرنے پر قصائی ایسا خوش ہوا تھا کہ اس نے صابر کے لیے لیڈی ہملٹن کی ایک قمیض بنوادی تھی۔ خانساماں کو قمیض کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ چھپاکر لایا اور بکس میں بند کردی۔ اس نے سوچا تھا کہ یہ قمیض شادی میں پہنے گا۔ رانی نے کیسی دانائی کی جو اسے یہاں بھجوادیا تھا۔ اب تو اس نے رانی کے نام کی ساری گالیاں واپس لے لی تھیں۔
سوروپے گھر منی آرڈر کرنے کے بعد صابر نے دھیرے دھیرے خانساماں کی طرف سے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا، ’’آج تو صرف چار روپے بچے ہیں تو ایک روپیہ لے لے۔‘‘ خانساماں نے پہلے تو اسے بے تحاشا گھورا پھر ایک دم بھڑک گیا، ’’ابے الو کی کان ہم سے اونچا اڑتا ہے؟‘‘
’’میں کیا کروں، دکان والے زیادہ سستا سودا نہیں دیتے۔‘‘ صابر ڈھٹائی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیتا۔ اب اسے یقین ہوگیا تھا کہ خانساماں بیگم سے شکایت نہیں کرسکتا۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر کون پتھر مارسکتا ہے۔ خانساماں نے دانت کٹکٹاکر روپیہ ہی جیب میں ڈال لیا۔ ’’دیکھوں گا تجھے بیٹا۔‘‘ وہ دھمکاتا تو صا بر کو دل ہی دل میں ہنسی آتی۔ ’’میں تو سچ کہتا ہوں، تو یوں ہی غصہ کرتا ہے۔ دکاندار اب دھونس میں نہیں آتے۔ تم سے تو ڈرتے ہیں۔‘‘
’’جب میں سودا لاؤں گا تو پھر تیرا سارا جھوٹ کھل جائے گا۔ دکاندار دھونس میں نہیں آتے۔ ہنھ، سارے کے سارے بندھ جائیں گے جو ہم سے اونچے اڑیں۔ سمجھ گیا۔ سب بے ایمان ہیں سالے۔‘‘
’’ہوں گے، مجھے کیا۔‘‘ صابر اور بھی معصوم بنتا تو خانساماں کو چپ ہونے کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ انتقاماً سب سے برا کھانا دیتا۔ سالن میں کچا پانی انڈیل دیتا۔ روٹیاں ایسی کچی کہ کھاکر بدہضمی ہوجائے یا پھر ہیضہ ہوجائے یا پھر مرجائے۔ صابر نہ مرا نہ بیمار پڑا۔ وہ تو کنکر، پتھر بھی ہضم کرجاتا ان دنوں۔ آج کل تو ایف، اے۔ بی، ا ے روزگار کی تلاش میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں، وہ جاہل ہوکر سوروپیہ مہینہ کمارہا تھا۔ ادھر بیگم اس سے اتنی خوش تھیں کہ خانساماں اسے کھلے خزانے نقصان بھی نہ پہنچاسکتا تھا۔ کڑھ کڑھ کر وقت گزار رہا تھا اور صابر اسے کڑھاکر اپنی ہوشیاری پر نازاں تھا۔
بیگم صابر سے زیادہ خوش ہوئیں تو انہوں نے اسٹور کی چابی اس کے سپرد کردی۔ اب وہ کم بخت ناپ تول کر گھی، چاول، سویاں، وغیرہ نکالا کرتا۔ پہلے یہ کام آیا کرتی تھی اور گھی نکالتے وقت خانساماں کی خستہ روٹیوں کا لحاظ رکھتی تھی۔ اب سوکھی روٹی کھاتے ہوئے وہ صابر کو دل سے بددعائیں دیتا۔
مرغی والا مری ہوئی مرغی ذبح کرکے بیچنے کے جرم میں پکڑا گیا۔ مرغی والے کو چھڑانا صابر کے حداختیار سے باہر تھا۔ موقعہ تاک کر اس نے ڈرتے ڈرتے بیگم سے ذکر کردیااور گواہی بھی دے دی کہ وہ مرغی زندہ تھی۔ یوں ہی آنکھ موند کر پڑ گئی تھی۔ اس کے سامنے ذبح کی گئی تھی۔ لوگوں نے یوں ہی شور مچادیا۔ بیگم نے سب سن کر غور سے صابر کی طرف دیکھا تو اس کی جان سن سے ہوگئی۔ پھر وہ ایک دم کھلکھلاکر ہنس پڑی، ’’اب تو بڑاہوشیار ہوگیا ہے۔ جھوٹ بھی بولنے لگا ہے۔‘‘
’’قسم لے لیجیے بی بی جی جو میں جھوٹ بول رہا ہوں۔‘‘ صابر کی جان میں جان آئی تو وہ ہمک کر بولا، ’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ غریب بال بچوں والا ہے۔‘‘
’’اچھا اب باتیں نہ بنا۔ میں کہلادوں گی مگر اپنے مرغی والے کو سمجھادیجیو کہ اب ایسی حرکت نہ کرے۔ غضب خدا کا مسلمانوں کو حرام گوشت کھلاتا ہے۔‘‘
صابر کا مارے خوشی کے برا حال ہوگیا۔ اس نے خانساماں کو سارا قصہ سناکر دھونس جمانا چاہی تو وہ زور زور سے قہقہے لگانے لگا، ’’بیٹا اس سات سال میں بیگم سے سات ہزار کام کراچکا ہوں تو ایک کام لے کر اتھلا ہو رہا ہے۔ تو اپنے کو سمجھتا کیا ہے۔ خواہ مخواہ زیادہ سر نہ چڑھ، اتار کے پھینک دوں گا۔‘‘
وہ تو دیکھا جائے گا۔ صابر نے دل ہی دل میں سوچا۔
مرغی والے کی پکڑ دھکڑ سے جان بچی تو اس نے صا بر سے پندرہ دن تک مرغی کا ایک پیسہ نہ لیا۔ اس نے کئی بار کہا بھی کہ کیوں اپنا نقصان کرتا ہے مگر مرغی والے نے ایک بات نہ سنی۔ صابر نے پندرہ دن کے اندر ہی اندر ساٹھ روپے کا منی آرڈر گھر بجھوادیا۔ قصائی سے خط بھی لکھوادیا کہ رانی کا رشتہ مانگ لو۔ اگر نہ مانیں تو ان سے کہو کہ گاؤں میں رہنا مشکل کردوں گا۔
خانساماں مرغی والے کی رہائی کا مطلب خوب سمجھتا تھا۔ وہ روز صابر سے لڑتا کہ اس کا بھی حصہ لگائے مگر صا بر ایسا معصوم بن جاتا جیسے کچھ جانتا ہی نہیں۔ تھک ہار کر خانساماں خوشامد پر اتر آیا، ’’دیکھ صابر بال بچوں والا ہوں، اب تجھے کیا بتاؤں، زبان سے نہیں نکال سکتا۔ دو بیویاں ہیں، نو بچے۔ جانے کم بخت و ہ عیسنی کہاں سے آگئی تھی میرے گلے پڑنے۔ جوانی کا نشہ تھا جو اس سے بھی نکاح کر بیٹھا۔ روپے روز میں کیا گزارا ہوگا۔ تجھ سے پہلے جو نوکر آئے، وہ سب آدھا آدھا کرتے تھے۔‘‘
’’وہ کوئی اور الو کی کان ہوں گے دلاور، میرا نام صا بر ہے۔‘‘ وہ دل ہی دل میں سوچ کر خوش ہو تا۔ اب کیسی خوشامد پر اترآیا ہے۔ کیسا جھوٹا ہے۔ پکا مکان بنوالیا ہوگا۔ سات سال سے کام کر رہا ہے۔ ’’کیا کروں خانساماں، دکاندار اب پہلے جیسا نہیں رہا۔‘‘ صا بر بڑی معصومیت سے خانساماں کو یقین دلاتا۔ ایسی شکست تو خانساماں کو کبھی بھی نہ ہوئی تھی۔ آیا، مالی اور دوسرے کام کرنے والے سبھی اس کے حکم پر ناچتے تھے۔ اب کل کے چھوکرے نے اسے نچامارا ہے۔ بیگم کے ڈر سے کچھ نہ کرپاتا۔ مارے غم کے اٹواٹی کھٹوالی لے کر پڑگیا۔ اس نے سوچا، ذرا بیگم کو پتہ بھی تو چلے۔ دوچار دن کھانا نہ ملا تو طبیعت صاف ہوجائے گی۔ پکوائیں اپنے صابر سے۔
صابر ایسا چالاک کہ خانساماں کے لیٹتے ہی فٹافٹ کھانا پکانے لگا۔ خانساماں کو پکاتے دیکھ کر تھوڑا بہت سیکھ گیا تھا۔ پھر بھی وہ بات کہاں، اس کے باوجود بیگم نے دوچار لقمے کھاکر تعریف کردی۔
’’اگر خانساماں مرجائے تو تو اچھا پکالے گا۔‘‘ بیگم نے ہنس کر کہا اور صا بر نے ممنونیت سے دانت نکال دیے۔ اسے احساس تھا کہ بیگم سے کھایا نہیں گیا۔ آٹھ دس دن خانساماں یوں ہی پڑا رہے تو اس سے زیادہ اچھا نہ پکالے تو جب کی بات۔ شام کو بیگم صاحبہ نے خانساماں کو اپنے کمرے میں طلب کیا اور جب وہ آیا تو رنگ پیلا ہونے کے باوجود مرض دو رہوگیا تھا۔ کھاٹ کھڑی کرکے جی جان سے مرغی پکانے لگا۔ دوسرے دن اس نے صا بر سے روپیہ بھی نہ مانگا اور بڑے پیار سے بولا تو صا بر کی مارے حیرت کے بری حالت ہوگئی۔ صا بر نے روپیہ دیا تو غصہ سے ڈانٹنے لگا، ’’ابے رکھ اپنے پاس، اتنا بھی خیال نہیں کہ تیری منگنی ہوچکی ہے۔ شادی کے لیے جمع کراؤ۔ ضرورت پڑے تو مجھ سے لے لیجیو، تو کوئی غیر ہے۔‘‘
صابر نے زبردستی روپیہ اس کی جیب میں ڈال دیا۔ اس دن سے لڑائی جھگڑا ختم ہوگیا۔ خانساماں اس سے اپنی اولاد کی طرح سلوک کرتا۔ ایک دن خانساماں نے اسے مشورہ دیا کہ بیگم خوش ہیں تو لگے ہاتھوں تنخواہ بڑھوالے۔ دلاور کو تو تنحواہ کاکبھی خیال ہی نہ آیا تھا۔ نہ اس نے تنخواہ مانگی۔
’’یار میں تو نہ کہوں گا، کیا رکھا ہے تنخواہ میں؟‘‘
’’واہ کیوں نہیں رکھا ہے، مجھ سے تو بیگم صاحبہ جب بھی خوش ہوتی تھیں دوتین روپے بڑھوالیتا تھا۔ بیس روپے مہینہ تو کراہی لے، پانچ مہینے کے پکے سو بن جایا کریں گے۔ تو تو بچہ ہے۔ تجھے ابھی پیسے کی پروا نہیں ہوتی، مجھے تو تیری فکر کھائے لیتی ہے۔‘‘ سورپے کی بات سمجھ میں آنے والی تھی۔ اس نے سوچا کہ ضرور کہہ دے گا۔ شادی میں جاتے جاتے ڈیڑھ سو تو بن جائیں گے۔ برادری کو کھلانے کے لیے دام نکل آئیں گے۔ زردے کی دیگیں چڑھوائے گا۔
رات کو صابر کھانا کھلارہا تھا اور موقعہ کی تلاش میں تھا کہ بیگم نے خود ہی ایسی بات چھیڑدی، ’’آیا کہتی تھی تیری منگنی ہوگئی ہے؟‘‘
’’جی بی بی جی۔۔۔‘‘ صابر نے نظریں جھکادیں، ’’عید کی دس تاریخ کو شادی ہوگی۔‘‘
’’پھر تو تو بڑا خوش ہوگا۔۔۔‘‘ انہوں نے صا بر کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھا، ’’چھٹی آٹھ دن سے زیادہ کی نہ ملے گی۔‘‘
’’اسے بھی لے آؤں گا، آپ کی خدمت کرے گی۔ تنخواہ تھوڑی ہے بی بی جی، شادی کے بعد گزارہ کیسے ہوگا۔‘‘
’’ہوں!‘‘ بیگم نے ایسی لمبی کرخت ہوں کی کہ صابر کا گلا تک خشک ہوگیا۔ ’’تنخواہ کم ہے، گزارہ کیسے ہوگا۔‘‘ انہوں نے صابر کو کھاجانے والی نظروں سے اس طرح گھورا کہ سارا جسم زیر و زبر ہوکر رہ گیا۔ ’’وہ کرسی چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
برتن اٹھائے جب وہ باورچی خانے میں پہنچا تو خانساماں چہرہ دیکھتے ہی تاڑ گیا، ’’کہہ آیا تنخواہ کے لیے، کتنے روپے بڑھائے؟‘‘ صابر کا بس چلتا تو خانساماں کی بوٹیاں نوچ ڈالتا، ’’ابھی میں نے بات نہیں کی۔‘‘ وہ صاف جھوٹ بول گیا۔ بھلا وہ کیوں بتاتا کہ اس کی کیا گت بنی۔ دل ہی دل میں دعائیں کر رہا تھا کہ بیگم زیادہ ناراض نہ ہو۔ اس کی اور اس کے باپ دادا کی توبہ جو اَب کبھی تنخواہ بڑھانے کی بات کرے۔ وہ تو چھٹیوں سے پہلے کی تنخواہ بھی نہ مانگے گا، چاہے اس کی اماں زیادہ روپوں کی فرمائش کر کرکے مرجائے۔ خانساماں اس کے صاف جھوٹ کو تاڑ گیا، ’’تو بات کرے یا نہ کرے، میں پینتیس روپے پر آیا تھا، بڑھوا بڑھواکر ساٹھ روپے کرلیے۔‘‘
’’کرلیے ہوں گے، مجھے تو کہتے شرم آتی ہے۔ وہ مالک ہیں، جب دل چاہے گا تو خود ہی تنخواہ بڑھادیں گی۔‘‘ صابر نے ایسی ہماہمی سے کہا کہ خانساماں بھی چکمے میں آگیا۔
’’مت کر بات، میرا کیا بگڑتا ہے تیری فکر ہوتی ہے تو کہہ دیتا ہوں۔ اپنی مرضی کا مالک ہے تُو تو۔‘‘
دوسرے دن بیگم نے سودے پر خانساماں کی ڈیوٹی لگادی۔ مہینہ ختم ہونے میں ہفتہ باقی تھا۔ صابر کلیجہ تھام کر رہ گیا۔ بیگم کی ناراضگی آخر رنگ لاکر رہی۔ خانساماں بے حد خوش تھا۔ بازار جاتے جاتے صابر کا کلیجہ نوچ گیا، ’’بیٹا تو نے اچھا ہی کیا جو تنخواہ بڑھانے کی بات نہیں کی۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ صابر نے کوئی جواب نہ دیا۔ جھاڑن اٹھاکر کمرہ صاف کرنے چلا گیا، ’’کوئی بات نہیں اسے خدمت کرنی آتی ہے۔ بیگم کو راضی کرلے گا۔‘‘
خانساماں سودا لے کر آیا تو صابر نے ڈیڑھ روپے کا مطالبہ کردیا۔ وہ بھی تو بیس پچیس دن ڈیڑھ روپیہ روز دیتا تھا۔ صابر کے مطالبے پر خانساماں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ’’ابے مجھ سے مانگتا ہے۔ اب تک تیرے جیسے بہت آئے، سب نے حصہ دیا ہے، لیا کسی نے نہیں۔‘‘
’’وہ کوئی اور ہوں گے جو تیری خوشامد کرتے ہوں گے۔‘‘ صابر بھی اکڑگیا۔
’’بیگم سے شکایت کردی تو اندر کرادیں گی، میرے سر نہ چڑھ۔‘‘ خانساماں نے مونچھیں اچکائیں۔
’’چل چار چھ آنے تو بھی دے دیا کر دلاور، کیوں جھگڑتا ہے، بیگم کو پتہ چلا تو غریب کو نکال دیں گی۔ تجھے پتہ ہے وہ لڑائی جھگڑا پسند نہیں کرتیں۔‘‘ آیا نے بڑی مکاری سے صلح کرانی چاہی۔
’’میں لڑ رہا ہوں کہ یہ خواہ مخواہ فساد کرتا ہے۔‘‘ خانساماں اور بھی بپھرا، ’’میں تو یہی چاہتا ہوں کہ بیگم تک بات نہ پہنچے۔‘‘
’’جا جا، بیگم سے سوبار کہہ دے۔ نوکری جائے گی تو سب کی جائے گی۔ میں انہیں بتادوں گا کہ اس نے مجھے یہ کام سکھایا تھا اور پھر حصہ لگاتا تھا۔ مفت کے روپے تجھے ہضم نہ ہونے دوں گا۔‘‘
وہ بھی جانتا تھا کہ بیگم کے پاس شکایت لے کر کوئی نہ جاسکے گا۔ خانساماں ایک دم زچ ہوگیا۔ صابر تو ٹیڑھی کھیر تھا۔ ذرا رعب نہ پڑا۔ اسے تو اس خیال ہی سے خوف آتا کہ بیگم کو حصے بخرے والی بات معلوم ہو۔ وہ تو ایسی اصول کی پکی کہ ذرا سی گڑبڑ برداشت نہ کرے۔
’’بس بیٹا۔ تیرا سارا پتہ چل گیا۔ میں تو تجھے آزما رہا تھا کہ دیکھیں، مجھے باپ سمجھتا بھی ہے کہ نہیں۔ یہ لے ڈیڑھ روپیہ اور بھی جتنے روپوں کی ضرورت ہو لے لے، تیری شادی پر میری پائی پائی کام آجائے تو میں خوش ہوں گا۔‘‘ صابر نے کچھ نہ کہا مگر ڈیڑھ روپیہ جیب میں ڈال لیا۔ ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے تھا کہ باتوں میں آکر واپس کردیتا۔
بیگم نے کئی ہفتے صابر سے بات بھی نہ کی۔ آخر بیگم کو چپ توڑنا پڑی۔ ایسی محنت سے کام کرتا کہ ان کا دل بھی پسیج ہی گیا۔ آہستہ آہستہ وہ پھر خوش ہوگئیں مگر جیسے ہی خانساماں کی باری ختم ہوئی تو ہفتے کے لیے مالی کی ڈیوٹی لگ گئی۔ مالی کو دوسرے تیسرے مہینے صرف ہفتے کی ڈیوٹی ملتی۔ ویسے بھی وہ رات دن کام کرنے والا نہ تھا۔ دوچار گھنٹے باغیچے کو سنوارتا اور پھر دوسری کوٹھیوں میں چلا جاتا۔ اب صابر بے چینی سے اپنی باری کا انتظار کررہا تھا۔ مالی سے تو لین دین بھی نہ تھا۔ پورا ہفتہ سوکھا ہی گزرگیا۔ شادی کے دن قریب آرہے تھے۔ ماں ہر خط میں بڑی فراخ دلی سے چیزوں کی فرمائش کرتی رہتی، وہ بھی بس یہ سمجھ رہی تھی کہ بیٹا ہنڈی پر بیٹھا ہے۔
ہفتہ ختم ہوا تو سودے پر صابر کی ڈیوٹی لگادی گئی مگر بیگم کادل ابھی اس کی طرف سے شاید پوری طرح صاف نہ ہوا تھا۔ پہلے ہی کہہ دیا کہ ایک مہینے تک تو سودا لائے گا۔ دوسرے مہینے خانساماں۔ اس نے سوچا چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ راضی تو ہوئیں۔ اس مہینے رانی کے سب کپڑے بنوالے گا۔ سنار کا کام کرانے کے بدلے میں اسے ایک ننھا سا سونے کا ٹیکہ اور پیروں کے لیے چاندی کی پائل مل گئی تھی۔ ان چیزوں کو اس نے ایسے خاموشی سے چھپا رکھا تھا کہ کسی کو ہوا تک نہ لگنے دی۔
دکانداروں نے اس بار صابر کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ خانساماں کی ہزار شکایتیں کیں۔ صابر نے بھی ان کے ساتھ مل کر اچھی طرح دل کی بھڑاس نکالی۔ انہیں بھڑکایا بھی کہ اب وہ حرام زادہ آئے تو مفت میں نہ کھلاؤ پلاؤ۔ اس کی فوں فاں سے مت ڈرو۔ اس بار صابر نے خانساماں کو حصہ دینے سے صاف انکار کردیا۔ خانساماں نے بہت سمجھایا، خوشامدیں کیں مگر صابر کا دل نہ پسیجا۔ بس آیا کو دونی دے دیا کرتا۔ وہ بھی خانساماں کی آنکھ بچاکر لیا کرتی۔ صابر جب سودا لاتا تو خانساماں اسے حیرت سے دیکھتا، ’’کتنا کمالایا ہے ماں کے لال؟‘‘
’’بس یہی پانچ چھ روپے ہوں گے۔‘‘ اسے جلانے کے لیے صابر چار کے چھ کردیا کرتا۔ خانساماں کو اس کی ذات سے نفر ت ہوجاتی۔ منہ پھیر کر سودا اٹھالیتا اور دل ہی دل میں صابر کو گھنی گھنی گالیاں دیتا۔ یہ کم بخت تو اس کے لیے عذاب بن گیا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوا تھا کہ خانساماں ہوکر وہ صرف ایک مہینے سودا لائے۔ اس کا بس چلتا تو اسے کہیں جیتا جیتا گاڑ آتا۔ کیسے بدذات آدمی سے پالا پڑگیا تھا۔ کچھ کرتے نہ بن پڑتی۔
رمضان کے مہینے میں خا نساماں کی ڈیوٹی لگ گئی تھی۔ صابر اس بار بہت للچایا۔ رمضان کے مہینے میں سودا بھی بہت آتا اور روپے بھی دس کے بارہ ہوگئے تھے مگر اب تو اس کی باری بھی نہیں آنی تھی۔ جو کمانا تھا سو کمالیا۔ عید کی چار تاریخ کو چھٹی پر جانا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ چار پانچ دن سے زیادہ گاؤں نہ ٹھہرے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خانساماں اس کے خلاف بیگم کو بھڑکائے۔ اسے تو اس کی صورت سے ایسی نفرت ہوئی تھی کہ دیکھ کر جوڑی چڑھتی مگر خانساماں جانے کس ہڈی کا بنا ہوا تھا۔ رمضان شروع ہوتے ہی صابر سے بولنے چالنے لگا۔ رات کو اسے ایک گلاس دودھ بھی دے دیا کرتا، ’’لے پی لے نہیں تو سارا دن پیاس لگے گی۔‘‘
صابر چپکے سے گلاس غٹار لیتا۔ اب تو وہ خود بھی اس سے لڑنا نہ چاہتا تھا۔ وہ چھٹی پر جارہا ہے۔ کیا فائدہ کہ پیٹھ پیچھے اس کا برا چاہے، اس وقت تو بناکر رکھنی چاہیے۔ جب چھٹی سے واپس آئے گا تو پھر ساری کسر نکال لے گا۔
چار تاریخ کو صابر کی ایک ہفتے کی چھٹی منظور ہوگئی۔ سامان باندھ کر تیار ہونے لگا تو خانساماں منہ بسورنے لگا او رپھر آنکھوں پر انگوچھا رکھ کر رونے لگا، ’’تیرے بغیر جی نہ لگے گا بیٹا۔ جلدی آئیو۔‘‘ صابر اپنے سلوک پر شرمندہ ہوگیا اور خانساماں کی محبت پر جی جان سے ایمان لے آیا، ’’بس چار دن میں آجاؤں گا خانساماں، میرا کہا سنا معاف کرنا، اب ہمیشہ تیری خدمت کروں گا۔‘‘ صابر بھی رنجیدہ ہوگیا۔
’’تنخواہ لے لی؟‘‘ خانساماں نے آنسو پونچھ کر پوچھا۔ اگر زیادہ روپوں کی ضرورت ہو تو کچھ مجھ سے بھی لے لے۔ خوب دھوم سے شادی کیجیو۔‘‘
’’ابھی تو نہیں مانگی، جاتے وقت بیگم آپ ہی دے دیں گی۔ مجھے مانگتے ہوئے برا لگتا ہے۔‘‘
’’لے تو بھی حدکرتا ہے، بڑے آدمیوں کو ایسی باتیں کہاں یاد رہتی ہیں۔ چلتے وقت یاد دلادیجیو۔ اور دیکھ جلدی آجائیو، میں اکیلے میں گھبراؤں گا۔‘‘
دوپہر کو جب وہ جانے لگا تو بیگم کو سلام کرنے گیا۔ اور پھر نظریں جھکاکر کھڑا ہوگیا۔
’’جاؤ ہفتے کے بعد ضرور آجانا۔‘‘
’’اس سے بھی پہلے آجاؤں گا بی بی جی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ بیگم نے خوش ہوکر کہا، ’’اب جاؤ ٹھاٹ سے شادی کرو۔‘‘ بیگم نے ہنس کر اسے دیکھا۔
’’اور بی بی جی تنخواہ۔۔۔؟‘‘
’’تنخواہ۔۔۔؟‘‘ لیٹی ہوئی بیگم اس طرح بلبلا کر اٹھ گئیں جیسے بستر میں بچھو آگیا ہو۔
’’حرام زادہ۔‘‘ پھر وہ زور سے چیخیں، ’’خانساماں۔‘‘ خانساماں ایسی جلدی سے آگیا جیسے کہیں پاس ہی کھڑا ہو۔ ’’تم نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا؟ پہلے تنخواہ بڑھانے کی بات کی تو میں نے معاف کردیا تھا اور اب۔۔۔‘‘ مارے غصے کے وہ سرخ بھبھوکا ہو رہی تھیں۔
’’سب بتادیا تھا، بی بی جی شریر آدمی ہے، کہتا تھا کہ محنت کرتا ہوں تو تنخواہ بھی لوں گا۔‘‘ خانساماں بڑا مسکین نظر آرہا تھا۔
’’لے جاؤ اس پاجی کو، خبردار جو اب یہاں آیا، شادی کرنے جارہا ہے ورنہ کہیں کا کہیں بھجوادیتی حرام خور کو۔‘‘
خانساماں نے صابر کو شانے سے پکڑ کر کھینچا۔ اس پر تو جیسے غشی سی طاری تھی۔ آنکھوں تلے ایسا گہرا اندھیرا کہ کچھ سجھائی نہ دیتا۔ خانساماں اسے کھینچتا ہوا باہر لے گیا، ’’بیٹا ہم سے اڑتے تھے۔ اس نے ایک خوفناک قہقہہ لگایا۔ مل گئی تنخواہ؟ ہم نے سات سال میں کبھی تنخواہ نہیں مانگی، اب دوڑ جا سالے ہم سے بناکر رکھتا تو سب سمجھادیتے، اب دفع ہو۔‘‘ اس نے صابر کو باورچی خانے سے دھکادے کر نکال دیا اور اتنے زور زور سے قہقہہ لگانے لگا کہ بھاگتے ہوئے صا بر کو محسوس ہوا جیسے بہت سے بھوت اس کا پیچھا کر رہے ہوں۔ وہ تو مارے خوف کے اپنا بکس اٹھانا بھی بھول گیا تھا۔
مأخذ : ٹھنڈا میٹھا پانی
مصنف:خدیجہ مستور