اندھی گلی
دونوں نے یکبارگی پلٹ کر دیکھا۔ کہرہ بہت تھا، کچھ نظر نہیں آیا۔ پھر انھوں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی مگر کچھ سنائی نہیں دیا۔ ’’یار کوئی نہیں ہے،‘‘ ایک نے دوسرے سے کہا اور پھر چل پڑے۔ مگر ابھی چار قدم چلے تھے کہ پھر ٹھٹھک گئے۔ ’’یار کوئی ہے،‘‘ قریب ہوتی ہوئی آہٹ کو انہوں نے سنا۔ پھر ایک ساتھ بھاگ کھڑے ہوئے۔ سڑک سے اتر کر کچے میں آئے جہاں تھوڑا نشیب تھا۔ اکا دکا جھاڑی اور ایک گھنا درخت۔ دونوں درخت کے پیچھے دبک کر بیٹھ گئے۔
کان اس آہٹ پر لگے ہوئے تھے جو قریب ہوتی جارہی تھی اور دل دھڑ دھڑ کر رہے تھے۔ پھر ارشد نے تھوڑا سر نکال کر دیکھا اور یکایک اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’یار وہ تو گدھا ہے۔‘‘ نعیم نے سڑک پر نظر ڈالی۔ ایک گدھا چلا جا رہا تھا۔ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولا، ’’گدھا بالکل آدمی کی طرح چلتا ہے۔‘‘ اسی دم اوپر سے ایک کٹار ارشد کے سامنے آکر گری۔ ’’ارے کٹار۔۔۔‘‘ اس نے اوپر درخت کی شاخوں پر نظر ڈالی جو کٹاروں سے لدی نظر آ رہی تھیں۔ ’’یار یہ تو املی کا پیڑ ہے۔‘‘ اس نے ایک ڈلا اٹھا کر کٹاروں سے لدی ایک شاخ پر تاک کر مارا اور کئی کٹاریں نیچے آپڑیں۔ اس نے شوق سے کٹاریں اٹھائیں۔ نعیم کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ’’کھاؤ یار۔‘‘
ارشد نے کھاتے کھاتے پھر یری لی۔ ’’بہت کھٹی ہیں۔‘‘ پھر کہنے لگا، ’’ان سے کیا بنے گا۔ کوئی پیٹ بھرنے کی چیز ہونی چاہیے بہت بھوک لگی ہے۔‘‘
یہ اس سفر میں بھوک کا پہلا اعلان تھا ورنہ کیسا کھانا ، کیسا پینا، کبھی پیدل چلتے ہوئے کبھی کشتی میں ڈولتے ہوئے کبھی گاڑی میں بیٹھے ہوئے، ان چنوں میں سے جو چلتے وقت جیبوں میں بھر لیے تھے ایک ڈیڑھ پھنکی ماری بغیر یہ سوچے ہوئے کہ بھوک ہے یا نہیں۔ اوپر سے پانی پی لیا۔ مگر اس وقت ارشد نے باقاعدہ بھوک محسوس کی اور اس کا اعلان کیا۔ جواب میں نعیم نے کوٹ کی دونوں جیبیں ٹٹولیں او رمٹھی بھر چنے نکالتے ہوئے کہا، ’’ابھی چنے باقی ہیں۔‘‘
ارشد اور نعیم دونوں نے پھنکیاں مار مار کے چنے کھائے۔ ارشد نے چنوں کے بیچ بیچ املی کا بھی استعمال کیا۔ جب جی بھر گیا تو ارشد نے اعلان کیا کہ ’’املی کے ساتھ چنوں کا بہت لطف آیا۔‘‘ پھر وہ املی کے پیڑ کو تکنے لگا جو اب تھوڑا اجالا ہونے کے ساتھ اپنی تفصیلات کے ساتھ نظر آنے لگا تھا۔ اسے جی بھر کر دیکھ لینے کے بعد اس نے ایک کیفیت میں آنکھیں بند کر لیں۔ یوں بیٹھا رہا جیسے دنیا و مافیہاسے بے خبر ہو گیا ہو۔ پھر آنکھیں کھولیں، ’’یارنعیم۔‘‘
نعیم نے اسے غور سے دیکھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’یارصفدر امام واپس محمد پو ر پہنچ گیا ہوگا۔‘‘
نعیم سوچ میں پڑ گیا۔ بولا، ’’مجھے تو شک ہی ہے۔‘‘
’’یاروہ ہمارے ساتھ آجاتا تو اچھا رہتا۔‘‘
’’میں نے اس سے کہا تھا کہ تم یا تو وہاں سے نکل کے نہ آئے ہوتے ، نکل آئے ہو تو نکل چلو۔ آگے جانے کی نسبت واپس جانے میں زیادہ خطرہ ہے۔‘‘
دونوں چپ ہو گئے پھر نعیم سوچتے سوچتے بولا، ’’میں نے تمہیں سنایا تھا نا کہ میرے بہنوئی کے ساتھ کیا گزری۔‘‘
’’ہاں تم مجھے بتا چکے ہو۔‘‘
’’اب میں بھی وہاں سے چلا آیا۔۔۔ وہ اکیلی ہو گی۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’میری بہن۔‘‘ نعیم کی آواز بھرا گئی اور آنکھ بھر آئی۔
ارشد اسے خاموش دیکھا کیا۔ پھر بولا، ’’یار اپنا تو کوئی رہا ہی نہیں جسے میں یاد کروں۔‘‘ وہ پھر املی کی اونچی شاخوں کو تکنے لگا۔ حافظہ نے آہستہ سے کروٹ لی اور اسے ایک ایک کر کے سب یاد آئے، وہ بھی جو مارے گئے اور وہ بھی جو لاپتہ ہو گئے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے۔ کتنی طویل بے حسی کے بعد ان کے دل حرارت سے اور آنکھیں نمی سے آشنا ہوئی تھیں۔
ایک میٹھے سے شور نے دونوں کو چونکایا، ’’طوطے‘‘ بے ساختہ ارشد کی زبان سے نکلا۔ آنکھیں کہ ابھی ابھی آنسوؤں سے لبریز تھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ طوطوں کی شور کرتی برات املی پر اتری۔
ارشد طوطا کتری کٹاروں کو ٹپ ٹپ گرتے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے بے ساختہ دو انگلیاں دانتوں تلے زبان کے نیچے دبا کے زور سے سیٹی بجائی اور طوطے بھرا کر اڑ گئے۔ دودھیا فضا میں ایک سبز لکیر دور تک کھنچتی چل گئی۔ ’’بس اب چلنا چاہیئے۔‘‘
دونوں املی کے نیچے سے نکل کر پھر سڑک پر آگئے۔ ارشد نے خاموش سڑک پر دور تک نظر ڈالی۔ حیران ہوا، کمال ہے۔ سڑک ذرا بھی تو نہیں بدلی ہے۔‘‘
’’یار کتنی دور ہے اب تمہارا گھر،‘‘ نعیم بولا۔
’’تم نے پیلی حویلی تو دیکھی ہو گی۔‘‘
’’پیلی حویلی؟‘‘ نعیم نے ذہن پر زور ڈالا۔ ’’نہیں، بات یہ ہے میں تو گاؤں سے سائیکل پر سیدھا سکول آتا تھا اور سیدھا واپس چلا جاتا تھا۔ شہر میں نے زیادہ نہیں دیکھا۔‘‘
’’اچھا۔۔۔؟ اچھا خیر یوں سمجھو کہ پہلے سیٹھ کی بغیا آئے گی۔ پھر لال مندر۔ پھر اونچا کنواں۔ اونچے کنوئیں سے آگے اوپر کوٹ ہے۔ اوپر کوٹ سے آگے بساطیوں کی گلی ہے۔ بساطیوں کی گلی سے نکلو تو پیلی حویلی ہے۔ بساطیوں کی گلی تو تم نے دیکھی ہو گی؟‘‘
’’بساطیوں کی گلی؟‘‘ نعیم پھر سوچ میں پڑ گیا۔ ’’یار دیکھی ہو گی مگر بہت دن ہو گئے۔ کچھ یاد نہیں آرہا۔ بس ایک دھندلا دھندلا سا نقشہ ذہن میں ہے۔‘‘
’’مگر مجھے تو ایک ایک گلی، ایک ایک نکڑ یاد ہے۔‘‘
’’تم بیچ میں آتے رہے ہو گے۔‘‘
’’نہیں یار،‘‘ ارشد افسوس کے لہجہ میں بولا۔ ’’جاکر ایک دفعہ بھی نہیں آیا۔ کئی دفعہ ارادہ کیا مگر پاسپورٹ ہی نہیں بن سکا۔۔۔ آنا تو اس طریقہ سے لکھا تھا۔‘‘
’’یہی میرے ساتھ ہوا۔ خیر پاسپورٹ سے اپنے گھر آتے ہم کیا اچھے لگتے تھے۔‘‘
’’اور اس طرح اچھے لگ رہے ہیں۔۔۔ وہاں سے مجرموں کی طرح مفرور ہوئے اور اب یہاں چوروں کی طرح داخل ہو رہے ہیں۔‘‘
نعیم اس بات پر ٹھٹھکا۔ ’’یار کسی نے پہچان لیا تو؟‘‘
’’تمہیں کون پہچانے گا؟ گاؤں سے چلے سکول۔ سکول سے نکلے پھر گاؤں میں۔‘‘
’’مگر تم تو پہچانے جا سکتے ہو۔‘‘
’’میں۔۔۔نہیں یار۔۔۔ کون پہچانے گا جب میں یاں سے چلا ہوں تو، تو میں بھی نہیں پھیلی تھیں۔ اب یہ حال ہے کہ ایک دن شیو نہ کروں تو لگتا ہے کہ چیونٹیوں نے انڈے دے ڈالے ہیں ۔ اب تم خود سوچ لو،‘‘ اس نے اداس لہجہ میں کہا۔ ’’مجھے یہاں اب کون پہچانے گا۔‘‘
ایک شخص دھوتی باندھے ایک ہاتھ میں گڑوی لیے دوسرے سے دانتوں میں مسواک کرتا پیچھے سے چلتا آیا اور برابر سے گزر گیا۔ دونوں ٹھٹھک کر کھڑے ہوگئے۔ ’’کون تھا یہ آدمی؟‘‘
’’پتہ نہیں کون تھا؟‘‘ نعیم نے تشویش بھرے لہجہ میں کہا، ’’اس کے قدموں کی ذرا بھی آہٹ نہیں سنائی دی۔‘‘
’’کیا وہ ہمارے پیچھے پیچھے آ رہا تھا؟‘‘
’’لگتا تو یہی ہے اور پتہ نہیں کہاں سے پیچھے لگا چلا آ رہا تھا؟‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہماری باتیں سن لی ہیں۔‘‘
’’پھر مارے گئے۔‘‘
دونوں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ آنکھوں میں خوف اور پاؤں سوسومن کے جیسے زمین نے قدم پکڑ لیے ہوں۔
’’یار ارشد!‘‘ بالآخر نعیم بولا،‘‘ آگے جانے میں خطرہ ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پلٹ چلیں۔‘‘
ارشد سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا، ’’تھوڑی دور چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ آدمی کرتا کیا ہے؟‘‘
دونوں آہستہ آہستہ دبے پاؤں چلے۔ گڑوی والا آدمی اچھی خاصی دور نکل گیا تھا۔ وہ آگے آگے اور یہ پیچھے پیچھے سہمے سہمے ڈرے ڈرے سیٹھ کی بغیا کے پاس پہنچ کر وہ سڑک سے اترا اور بغیا میں مڑ گیا۔ ارشد تیز قدم اٹھا کر بغیا کے گیٹ پر پہنچا۔ وہاں کھڑے ہو کر وہ گڑ وی والے آدمی کو دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ درختوں میں اوجھل ہو گیا۔ گڑوی والے آدمی کا حد نظر تک تعاقب کر کے نگاہیں واپس آئیں اور اٹھ کر ایک اونچے درخت کی شاخوں پر مرکوز ہو گئیں۔ اس نے انگلی فضا میں لہرائی ،’’یار نعیم‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وہ دیکھ، کیتھے۔‘‘
نعیم کی نگاہیں بھی اس اونچے درخت پر جا ٹکیں جو سفید سفید گول گول کیتھوں سے لدا کھڑا تھا۔
’’یار اس درخت سے میں نے بہت کیتھے توڑے ہیں،‘‘ ارشد بولا۔
’’کیتھے کا درخت اپنے گاؤں میں اس سے بھی اونچا ہے۔ اور اس پر بہت کیتھا لگتا تھا۔‘‘
دونوں کھڑے رہے اور اونچی شاخوں میں سفید کر مچ کی گیندوں جیسے کیتھوں کو لہراتے دیکھتے رہے۔ ایک کوا کائیں کائیں کرتا ا ن کے اوپر سے گزرا چلا گیا۔ ارشد جیسے خواب سے واپس آ گیا ہو۔ ’’اچھا یار چلیں،‘‘ اور دونوں کے قدم خود بخود آگے کی طرف اٹھتے چلے گئے۔
’’یارکمال ہے یہ درخت ویسا کا ویسا ہی کھڑا ہے۔‘‘
’’کیتھے کی عمر بہت ہوتی ہے،‘‘ نعیم نے کہا۔
’’عمر کی بات کرتے ہو تو پھر پیلی حویلی چلووہاں میں تمہیں دکھاؤں گا کہ پیڑ کی عمر کتنی ہوتی ہے۔ باہر کے احاطہ میں ایک بڑھ ہے اس کی ڈاڑھی زمین کو چھو رہی ہے۔ ہمارے بڑے ابا کہا کرتے تھے کہ مہاتما بدھ کے زمانے کا پیڑ ہے۔‘‘
’’پھر تو بہت عمر ہو گی۔‘‘
’’ہاں بہت پرانا ہے اور اتنا گھنا کہ ٹیکا ٹیک دوپہری میں بھی اس کے نیچے اندھیرا رہتا تھا۔‘‘ اور ارشد کے قدم غیر شعوری طور پر تیز تیز اٹھنے لگے۔
’’تمہارے بڑے ابا زندہ ہیں؟‘‘
’’نہیں وہ تو جب ہم یاں پر تھے تب ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔‘‘
’’پھر اب پیلی حویلی میں کون ہے؟‘‘
’’پیلی حویلی میں اب کون ہے؟‘‘ وہ ٹھٹھک گیا۔ سوچتا رہا۔ پھر بولا، ’’ہاں یاد آیا جب ہم یاں سے چلے تھے تو پیلی حویلی میں ننھی اماں کو بٹھا دیا تھا اور ننھی اماں ہلنے والی نہیں، جمی بیٹھی ہوں گی۔‘‘
’’یار اب کتنی دور اور چلنا ہے؟‘‘
’’بس آگئے ہیں۔ یہ اوپر کوٹ ہے۔ یہاں سے نکل کر بساطیوں کی گلی ہے۔ بساطیوں کی گلی سے نکلتے ہی سامنے پیلی حویلی ہے۔‘‘ اور ارشد کے قدم پھر تیز تیز اٹھنے لگے۔
اجالا اب اچھا خاصا ہو گیا تھا مگر سورج نے ابھی اپنی صورت نہیں دکھائی تھی۔ اوپر کوٹ کی دکانیں ابھی بند پڑی تھیں۔ مگر لالہ گوری شنکر نے دوکان کھول لی تھی۔ جھاڑ پونچھ کر رہے تھے۔ لالہ گوری شنکر اور ان کی دوکان میں لگی ہوئی اکلوتی تصویر دونوں ہی نے اسے متعجب کیا۔ کمال ہے لالہ گوری شنکر جیسے تب تھے ویسے ہی اب ہیں اور یہ تصویر تو وہی پرانی ہے۔ اجودھیا سے کالے کوسوں نرجن بن میں بھٹکتے ہوئے دوبن باسی ستیا کی سنگت سے محروم جسے بن نے نگل لیا۔ ’’لالہ جی نمستے،‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور پھر وہ ٹھٹھک گیا۔ ارشد اور نعیم دونوں کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے۔ لالہ نے جھاڑن سے زنگ لگے ٹین کے ڈ بے، پیپے اور مٹکیاں جھاڑتے جھاڑتے بے تعلقی سے اسے دیکھا، نمستے کہا اور اپنے کام میں لگ گئے۔ ارشد اور نعیم دونوں نے اطمینان کا سانس لیا اور آگے بڑھ گئے۔ مگر پھر ارشد کچھ اداس ہو گیا۔ میں سودا ہمیشہ لالہ کی دوکان سے خریدتا تھا، دن میں کئی کئی پھیرے لگاتا تھا اور ہر پھیرے پر لبھاؤ لے کر جاتا تھا۔ اب لالہ مجھے پہچانتا ہی نہیں۔
اوپر کوٹ سے نکلتے نکلتے اس نے دیکھا کہ اکا دکا دوکان اور بھی کھل گئی ہے۔ سفید ڈاڑھی والے صادق عطار کو تو اس نے دور ہی سے پہچان لیا تھا مگر احتیاط سے گزرا کہ آنکھیں چار نہ ہوں۔ ویسے صادق عطار نے اسے گزرتے ہوئے دیکھا ضرور تھا مگر ناآشنایا نہ نظروں سے۔
بساطیوں کی گلی میں داخل ہوتے ہوئے اس نے اعلان کیا کہ ’’لو بھئی اب گھر آگیا۔ اس گلی سے نکلتے ہی پیل حویلی ہے۔‘‘ اس گلی میں چلتے ہوئے اس نے اپنے لمبے لمبے قدم اٹھائے جیسے بس دو ڈگوں میں گلی کو پار کر جائے گا۔ نعیم کو کئی بار کسی قدر دوڑ کر اس کے برابر آنا پڑا۔ گلی سے مڑتے ہوئے اس نے اعلان کیا کہ ’’سامنے جو دو مزلہ عمارت نظر آئے گی بس وہی پیلی حویلی ہے۔‘‘
گلی سے مڑکر جب باہر نکلا تو اس نے ایک شوق بھری نظر ڈالی اور ٹھٹھک گیا، ’’ارے۔‘‘
’’کیوں، کیا ہوا،‘‘ نعیم نے اس کی حیرت کو دیکھتے ہوئے ایک تجسس کے ساتھ پوچھا۔ جب ارشد کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا تو اس نے اس طرف غور سے دیکھا جس طرف ارشد کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ یہاں سے وہاں تک خالی میدان، جہاں تہاں پڑی ہوئی پرانی چھوٹی اینٹوں کے ڈھیر۔ ایک طرف بے تکے طریقے پر کھڑا ہوا کسی ڈھئی ہوئی دیوار کا ایک کونہ جس پر کوئلے سے وکٹوں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ ’’تمہاری پیلی حویلی کہاں ہے؟‘‘
’’یہی تو میں سوچ رہا ہوں،‘‘ ارشد بڑ بڑایا۔
’’تم غلط تو نہیں آ گئے؟‘‘ نعیم سوچتے ہوئے بولا۔
’’غلط؟ نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ چپ ہو کر حیرت بھری نظروں سے خالی میدان کو دیکھتا رہا۔ بڑ بڑایا، ’’حد ہو گئی۔‘‘ سامنے سے ایک شخص کو جثے میں چوڑا چکلا تھا اور ڈاڑھی اس کی گھنی تھی اور کرتا پہنے ہوئے تھا چلا آ رہا تھا۔ ارشد تیزی سے اس کی طرف لپکا، ’’سنیے جناب، یہاں پیلی حویلی تھی، وہ کہاں گئی؟‘‘
’’پیلی حویلی؟‘‘ ڈاڑھی والا آدمی رکا۔ پھر بولا، ’’اچھا اچھا پیلی حویلی۔ میاں وہ تو بہت دن ہوئے ڈھے گئی۔‘‘
’’ڈھے گئی۔۔۔ اچھا؟‘‘
’’ہاں اور کیا۔ اب اس میں رہ کیا گیا تھا۔ کھنڈر کھڑا تھا۔ برسات نے زور باندھا تو اڑ اڑا دھم کر کے نیچے آ رہی۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ ارشد کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کہے۔ پھریکا یک بولا، ’’اورننھی اماں؟ وہ کہاں گئیں؟‘‘
’’ننھی اماں؟ کون ننھی اماں؟‘‘
’’ننھی اماں۔ وہ بڑی بی جو پیلی حویلی میں رہتی تھیں۔‘‘
’’اچھا وہ بڑی بی جو ذرا سنکی سی تھیں۔ آپ لوگ ان سے ملنے آئے تھے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
نعیم تیزی سے آگے آیا اور اس نے ارشد کے بیان کو ناکافی جان کر ایک قابل قبول بیان دینے کی کوشش کی، ’’مولانا بات یہ ہے کہ ہمارا تو بمبئی میں کاروبار ہے۔ کاروباری سلسلہ سے پٹنہ جا رہے تھے۔ رستے میں اتر پڑے کہ ننھی اماں سے ملتے چلیں۔ وہ ہماری رشتہ کی نانی ہوتی ہیں۔ یعنی ہماری نانی اماں کی خلیری بہن ہیں۔ پیلی حویلی کا پتہ ہمارے پاس تھا۔‘‘
’’عزیز، پیلی حویلی ڈھے گئی اور بڑی بی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔؟ مرگئیں۔۔۔؟‘‘ ارشد کے منہ سے نکلا۔
’’ہاں۔ اور ان کے مرنے کے بعد پیلی حویلی ایک شرنارتھی کو الاٹ ہو گئی تھی۔ وہ کاروبار کے چکر میں پٹنہ چلا گیا۔ ایک دفعہ آ کر ملبہ صاف کرا گیا۔ اس کے بعد اب تک اس نے خبر ہی نہیں لی ہے۔‘‘
’’اچھا تو ہماری پیلی حویلی شرنارتھی کو الاٹ ہو گئی تھی،‘‘ ارشد سوچتے ہوئے بولا۔ آگے کچھ کہنا چاہتا تھا کہ نعیم نے جلدی سے کہا، ’’اچھا مولانا آپ کا شکریہ،‘‘ اور ارشد کو پکڑ وہاں سے پلٹا۔ چلتے ہوئے سرگوشی میں کہا، ’’اب یہاں سے جلدی سے نکل چلو۔‘‘ اور اس کے قدم تیز تیز اٹھنے لگے۔
’’اتنے گھبرانے کی کیا بات ہے؟‘‘ ارشد بولا۔
نعیم نے ارشد کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ تیز چل رہا تھا اور اس کی وجہ سے ارشد کو بھی تیز چلنا پڑ رہا تھا۔ ’’اب کس طرف مڑنا ہے؟‘‘ موڑ پر پہنچ کر نعیم نے سوال کیا۔
ارشد نے ارد گرد نظر ڈالی، کچھ الجھا، ’’یہ کون سی جگہ ہے۔‘‘ پھر پوچھا، ’’ہم بساطیوں والی گلی ہی سے آئے ہیں؟‘‘
’’بساطیوں والی گلی۔۔۔؟ بساطیوں والی گلی ہی ہوگی۔ مجھے تو یہاں کی پہچان نہیں ہے۔‘‘
ارشاد نے پھر ارد گرد نظر ڈالی۔ پریشان ہو کر بولا، ’’پتہ نہیں کون سی گلی میں نکل آئے ہیں۔‘‘ پھر سوچ کر بولا، ’’خیر کوئی بات نہیں۔ آگے چلتے ہیں۔ خود پتہ چل جائے گا کہ ہم کہاں ہیں۔‘‘
دونوں چلتے رہے۔ پھر ارشد رک کر کھڑا ہو گیا۔ ’’یار پتہ نہیں چل رہا کہ ہم کہاں ہیں؟‘‘
’’ہم رستہ بھول گئے ہیں،‘‘ نعیم نے کہا۔
ارشد نے نعیم کو غصے سے دیکھا، ’’یہاں کے رستے میرے کھوندے ہوئے ہیں۔‘‘
سامنے اک چائے کی دوکان کھلی تھی۔ چولھا گرم تھا اور چائے دانی کی ٹونٹی سے سفید سفید بھاپ نکل رہی تھی۔ ’’آؤ چائے پیتے ہیں،‘‘ نعیم نے کہا۔
’’پیسے؟‘‘ ارشد نے سوال اٹھایا۔
’’وہ بھی ہو جائیں گے۔‘‘
دونوں چائے کی دوکان میں داخل ہو کر الگ ایک کونے میں جا بیٹھے۔ تپائی پہ بیٹھے ارشد نے دوکان کے در و دیوار کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ کوئی نئی دوکان کھلی ہے۔ پہلے تو تھی نہیں۔‘‘
ایک میلے کچیلے لڑکے نے چائے کا آرڈر لیا اور بنی بنائی چائے کی دوپیالیاں لاکر رکھ دیں۔ ارشد جو گلی کے رخ بیٹھا تھا چائے پیتے پیتے چونکا، ’’وہ شخص جا رہا ہے۔‘‘
’’کون شخص؟‘‘
’’جس سے ہم نے پیلی حویلی کے بارے میں پوچھا تھا۔‘‘
’’اچھا وہ مولانا۔۔۔؟ چلا گیا؟‘‘ نعیم نے تشویش سے پوچھا۔
’’ہاں ابھی گزرا ہے۔‘‘
’’اس نے ہمیں تو نہیں دیکھا تھا؟‘‘
’’نہیں اس نے ادھر دیکھا ہی نہیں۔‘‘
نعیم کسی سوچ میں پڑ گیا۔ پھر چائے پیتے پیتے بولا، ’’واقعی اس نے ہماری طرف نہیں دیکھا تھا۔‘‘
’’میرا خیال تو یہی ہے کہ اس کی نظر ہم پر نہیں پڑی۔ تمہیں کیا شک ہوا ہے؟‘‘
’’یار مجھے شک یہ ہے کہ اس شخص کو ہم پر شک پڑ گیا ہے۔‘‘
’’تم نے کیسے جانا؟‘‘
’’بات یہ ہے کہ تم تو اس وقت اپنے ہوش ہی میں نہیں تھے۔ میں اس شخص کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ اس نے تمہیں بڑے غور سے دیکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس نے تمہیں پہچان لیا تھا۔‘‘
’’مجھے؟‘‘ ارشد سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا، ’’نہیں یار۔ جن دوکانداروں سے میں سودا خریدتا رہا ہوں انہوں نے مجھے نہ پہچانا تو یہ شخص جسے میں جانتا ہی نہیں مجھے کیسے پہچان لیتا؟‘‘
’’ممکن ہے یہ میرا محض و ہم ہو،‘‘ نعیم نے مذبذب سے لہجہ میں کہا۔
’’ہاں، یہ محض تمہارا وہم ہے۔‘‘
دونوں چپ ہو گئے اور خیالوں میں کھو گئے۔ پھر ارشد بولا، ’’خیر تھا تو وہ مسلمان ہی۔ اسے شک ہوا بھی ہو گا تو طرح دے جائے گا۔‘‘
نعیم نے ارشد کو تعجب سے دیکھا۔ ’’تم اب بھی مسلمان پہ اعتبار کرتے ہو۔‘‘
’’ہاں‘‘
’’اتنا کچھ دیکھنے اور سننے کے بعد بھی؟‘‘
ارشد چپ ہو گیا۔ سوچتا رہا۔ پھر بولا، ’’میں اس واقعہ کو کچھ اور طرح سے دیکھتا ہوں۔‘‘
’’کس طرح؟‘‘
’’مسلمان ہونے کے باوجود ہمارے اور ان کے درمیان فاصلہ بہت تھا۔ زبان کا فاصلہ، تہذیب کا فاصلہ۔ ہم نے اس فاصلے کو پاٹنے اور انہیں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ نہ انہوں نے ہمیں جانا نہ ہم نے انہیں پہچانا۔‘‘
نعیم تلخ سی ہنسی ہنسا ،’’ہابیل قابیل تو ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ان کی زبان ایک تھی۔ ان کی تہذیب ایک تھی، پھر کیا ہوا؟‘‘
ارشد لاجواب ہو گیا۔ نعیم کو خاموش تکتا رہا۔ پھر اچانک بولا، ’’مجھے خیال پڑتا ہے کہ میں اسے جانتا ہوں۔‘‘
’’کسے؟‘‘
’’اسے ،مولوی کو۔‘‘
’’اچھا؟‘‘
’’ہاں، مجھے کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کہ میں نے اسے دیکھا ہے۔۔۔ ہاں بالکل ۔۔۔ اسے تو میں دیکھتا رہا ہوں۔ مسجد کے برابر والے مکان میں رہتا تھا۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ نعیم سکتہ میں آگیا۔
دونوں ایک خوف کے عالم میں ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ پھر نعیم نے چپکے سے کہا، ’’یہاں زیادہ دیر بیٹھنا ٹھیک نہیں۔‘‘ اور جیسے ارشد اشارے کا منظرے تھا۔ دونوں دفعتاً اٹھ کھڑے ہوئے۔
گلی سے وہ تیز چلے۔ موڑ مڑ کر سڑک پر آ گئے۔ اس کشادہ سڑک پر آ کر انہیں یوں لگا جیسے وہ خطرے سے نکل آئے ہیں۔ ان کی مضطرب چال میں ایک اطمینان کی کیفیت پیدا ہوتی چلی گئی۔ گلی پیچھے رہ گئی تھی۔ اس ہموار اور چوڑی سڑک پروہ مطمئن چل رہے تھے۔ پھر نعیم نے سادگی سے پوچھا اور اس توقع کے ساتھ کہ جواب اثبات میں آئے گا، ’’یہ وہی سڑک ہے نا؟‘‘
’’کونسی سڑک؟‘‘ ارشد ٹھٹھک گیا۔
’’جس سڑک سے ہم آئے تھے۔‘‘
ارشد نے سڑک کو دور تک ایک حیرت کے ساتھ دیکھا، ’’یہ کونسی سڑک ہے۔‘‘
’’چلے رہیں تو اچھا ہے۔‘‘ نعیم کے رکے ہوئے قدم پھر اٹھ گئے۔
دو رویہ ایک ہی رنگت اور ایک ہی ڈیزائین کے ایک منزل والے مکان دور تک پھیلے دیکھ کر نعیم نے کہا، ’’مجھے تو لگتا ہے کہ یہ کوئی نئی کالونی ہے۔‘‘
’’نئی کالونی تو ہے مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ سڑک کونسی ہے۔‘‘
’’سڑک بھی شاید نئی ہو۔‘‘
ارشد ایک حیرت کے عالم میں چلتا رہا۔ پھر کھڑا ہو گیا۔ ’’یار یہ سڑک میرے قدموں کو لگتی نہیں۔ تم نے ٹھیک کہا۔ یہ کوئی نئی سڑک بنی ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پلٹ چلیں۔ جو سڑک قدموں کو نہ لگی ہو اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ پتہ نہیں کہاں لے جائے۔‘‘
دونوں پلٹے، جس رستے آئے تھے اسی رستے واپس چلنے لگے۔ نعیم بولا، ’’کسی سے رستہ پوچھ لیں؟‘‘
’’یہ تو سڑک نئی تھی اس لیے مجھے اٹکل نہیں پڑی باقی تو یہ سب رستے میرے کھوندے ہوئے ہیں۔‘‘ ارشد اعتماد سے قدم اٹھاتے ہوئے موڑ مڑا۔ اب وہ دونوں ایک گلی میں تھے۔ دو رویہ دو منزلہ اور سہ منزلہ مکان۔ چو بارے کچھ اتنے بوسیدہ کہ اب گرے اور اب گرے، کچھ نئے نئے رنگ کیے ہوئے، ڈیوڑھیاں لکڑی کی بھاری کواڑوں والی، ڈیوڑھی میں دروازے کے دائیں باتیں پتھر کی چوکیاں بنی ہوتیں، چوکیوں میں طاق کہ دھوئیں سے سیاہ پڑ گئے تھے اور کسی کسی طاق میں بجھا ہوا دیولا رکھا ہوا، گرد اس کے سیندور بکھرا ہوا۔ ’’یار، یہ تو ہندوؤں کی گلی ہے۔‘‘ اور نعیم نے ارشد کی تشویش کا جواب بے اعتنائی سے دیا۔ ’’اب ہمارے لیے اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ گلی ہندوؤں کی ہے یا مسلمانوں کی۔‘‘ پیچھے کوئی دھم سے کودا اور دونوں کے دل اچھل کر حلق میں آ گئے۔۔۔
’’کوئی نہیں یار، بندر ہے۔‘‘ دوسرےہی لمحہ دونوں نے اطمینان کا سانس لیا اور ایک دوسرے کا حوصلہ بندھایا۔ اجڑے اجڑے بالوں والی موٹی سی بندریا بچے کو سینے سے چمٹائے گلی کو عبور کر رہی تھی۔ ایک جھپک میں نالی کے سہارے چڑھ کر منڈیر پر پہنچی اور منڈیر کو پھلانگ کر غائب ہو گئی۔ بندریا کو دیکھ کر سانس میں سانس آیا مگر دل تھے کہ دھڑکے جارہے تھے۔ اس کنارے سے اس کنارے تک گلی خالی پڑی تھی۔ چوبارے بھی اورچھجے بھی۔ قدم کہ اب تک تیز تیز اٹھے تھے اب کسی قدر لرز رہے تھے اور آہستہ اٹھ رہے تھے۔ عقب میں دور کہیں دروازہ زور سے کھلا۔ کلیجے پھر منہ کو آ گئے۔ مگر اب ان میں پیچھے مڑ کر دیکھنے کا حوصلہ نہیں تھا۔ پاؤں تھے کہ سوسومن کے ہو گئے تھے اور گلی پھیل کر کسی ڈراؤنے جنگل کا بے انت رستہ بن گئی۔
بے انت ڈرؤانی گلی سے لشٹم پشٹم نکلے تو سانس میں سانس آیا۔ بھری مشک کے ساتھ ایک سقے کو موڑ والے گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر ارشد نے سمجھ لیا تھا کہ اب مسلمانوں کی گلی شروع ہو گئی ہے۔ اس کے قدم اطمینان کے ساتھ اٹھنے لگے۔ یہ گلی ایسی لمبی نہیں تھی۔ چار قدم چلے ہوں گے کہ ختم ہو گئی اور اس طرح کہ آگے ایک کچی پکی دیواررستہ روکے کھڑی تھی۔ ’’یار یہ تو اندھی گلی ہے،‘‘ اور وہ پلٹ پڑے۔
اندھی گلی سے نکلتے نکلتے ارشد رک کر کھڑا ہو گیا، ’’یار نعیم۔‘‘
’’ہاں؟‘‘
’’یار میں واقعی رستہ بھول گیا ہوں۔‘‘
دونوں بے بسی کے ساتھ ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ پھر نعیم بولا ، ’’پھر کسی سے پوچھ لیں۔‘‘
’’ہاں اب کسی سے پوچھنا ہی پڑے گا،‘‘ ارشد نے شکست خوردہ آوازہ میں کہا۔
دور سے ایک شخص کو آتے دیکھ کر ارشد نے کہا، ’’اس سے پوچھتے ہیں۔‘‘ اور وہ اس کی طرف تیزی سے لپکا۔ مگر جب وہ شخص قریب آیا تو ارشد نے اسے غور سے دیکھا اور ٹھٹھک گیا۔ گزرتے ہوئے شخص نے بے اعتنائی سے دیکھا اور گزرا چلا گیا۔
’’رک کیوں گئے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ نعیم نے پوچھا۔
’’یار، مجھے کچھ شک ہوا کہ ہندو ہے۔‘‘
موڑ مڑے تو ایک مکان کے آگے چبوترے پر ایک بھاری بھرکم شخص تنگ موری کا پائجامہ اور سفید ململ کا کرتا پہنے مونڈھے پر بیٹھا حقے کی نے منہ میں ڈالے اردو کا اخبار پڑھ رہا تھا۔ ارشد نے اسے دیکھ کر اطمینان سا محسوس کیا اور آہستہ سے کہا، ’’اس سے پوچھتے ہیں۔‘‘
’’اس سے مت پوچھنا،‘‘ نعیم نے سرگوشی میں کہا۔
پھر دونوں چبوترے کے قریب سے ایک بے اعتنائی کے سے انداز میں گزرے۔ دور نکل کر ارشد نے پوچھا،’’تمہیں کچھ شک ہوا تھا؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’پھر تم نے خواہ مخواہ مجھے روک دیا۔ میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مسلمان ہے۔‘‘
’’اسی لیے میں نے تمہیں منع کیا تھا۔‘‘
ارشد نعیم کا منہ تکنے لگا۔ پھر ایک دکھ کے ساتھ کہا، ’’پھر یار کس سے پوچھیں۔‘‘ اور دونوں ایک بیچارگی کے ساتھ ایک دوسرے کی صورت تکنے لگے جیسے اس بھری زمین میں وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔
’’چلتے رہنا چاہیئے،‘‘ عقب میں قدموں کی آہٹ سن کر نعیم نے کہا۔ اور پھر دونوں چل پڑے۔
ارشد چلتے چلتے بیچ رستے میں کھڑا ہو گیا۔ ارد گرد کو دیکھتے ہوئے بولا، ’’یار یہ محلہ تو میرا دیکھا ہوا ہے۔‘‘
’’اچھا؟‘‘
’’ہاں،‘‘ ارشد نے ارد گرد پھر ایک آشنایا نہ نظر ڈالی۔ ’’ہاں بالکل یہاں تو میں بہت آیا ہوں۔۔۔ ٹال؟۔۔۔ ارے یہ ٹال اب تک موجود ہے۔۔۔ اچھا؟‘‘ سامنے ٹال میں ایک طرف لکڑیاں چیری جا رہی تھیں۔ قریب میں مونڈھے پر کرتےمیں ملبوس ایک چوڑا چکلا شخص بیٹھا تھا جس کی انھیں صرف پشت نظر آ رہی تھی۔ مونڈھے کے برابر موٹے سے منہ والا ایک سفید کتا بیٹھا ہوا۔
’’یار، یہ آدمی کون ہے؟‘‘ نعیم مونڈھے والے آدمی کو دیکھ کر چونکا۔
’’کون ہے؟‘‘ ارشد چکرایا۔
’’یہ وہی مولوی تو نہیں ہے؟‘‘
’’مولوی؟‘‘ ارشد نے ایک خوف بھری نظر پھر اس چوڑی چکلی پشت پر ڈالی۔ ادھر کتا ان دونوں کو دیکھ کے آہستہ آہستہ غرایا اور ایک دم سے کھڑا ہو گیا۔ دونوں بجلی کی تیزی کے ساتھ پلٹے اور اس طور چلے جیسے بھاگ رہے ہوں۔
دم بھر کے لیے رکے، کان لگا کر سنا۔ کئے کی غصیلی آواز یوں آئی جیسے یہیں کہیں ہو۔ پھر تیز قدم اٹھنے لگے۔ ایک گلی سے دوسرے گلی میں۔ دوسرے گلی سے تیسری گلی میں۔ کتے کی غصیلی آواز گلی گلی ان کا تعاقب کر رہی تھی۔
اس گلی میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک پھاٹک ادھ کھلا ہے اور اندر بھس سے بھرا ایک چھکڑا کھڑا ہے۔ انہوں نے آگے پیچھے نظر ڈالی کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ گلی میں کوئی تھا ہی نہیں کہ دیکھتا۔ وہ آہستہ سے اندر داخل ہوئے اور بھڑے کواڑ کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔
انہوں نے کان لگا کر سنا۔ کتے کی آواز معدوم ہو چکی تھی۔ اب خود ان کے سانس کی آواز اتنی تیز تھی کہ انہیں لگا کہ پوری گلی ان کے سانس کے شورے سے گونج رہی ہے۔ پھر انہوں نے ڈرتے ڈرتے باہر جھانک کر دیکھا اور کسی کو نہ پاکر باہر نکلی آئے۔ دو قدم بڑھ کر ٹھٹھکے۔ دیوار رستہ روکے کھڑی تھی۔ ’’ارے ہم تو پھر اسی اندھی گلی میں آ گئے۔‘‘
واپس ہوتے ہوئے ان کی نظر اس ٹاٹ کے پردے والی ڈیوڑھی پر جا پڑی جس کے آگے پینٹری بچھائے ایک کالی رنگت والی موٹی عورت صبح کی دھوپ سینک رہی تھی اور اس کی تیز نظریں ان پر جمی ہوئی تھیں۔ ان کا دل دھک سے رہ گیا۔ یہ عورت کب سے یہاں بیٹھی ہے۔ کیا اس نے ہمیں چھپتے اور نکلتے دیکھ لیا ہے مگر وہ اس کے قریب سے یوں گزرے جیسے انہیں اس گھورتی ہوئی عورت کے وجود کا بالکل احساس نہیں ہے۔ کافی دور جاکر ارشد نے مڑکر ایک نظر ڈالی اور پھر سیدھا چلنے لگا۔ گھورتی آنکھیں ان کا بدستور تعاقب کر رہی تھیں۔
موڑ مڑ کر ایک نے دوسرے کو دیکھا۔ ’’جاتے ہوئے تم نے اس عورت کو دیکھا تھا؟‘‘
’’نہیں،‘‘ ارشد نے جواب دیا۔
’’پتہ نہیں کب سے ہمیں دیکھ رہی تھی؟‘‘ نعیم بڑ بڑایا۔
چلتے چلتے انہیں احساس ہوا کہ پیچھے گلی میں کوئی عورت زور زور سے بول رہی ہے۔ انھوں نے ایک خوف کے ساتھ تیزی سے قدم اٹھائے اور یوں چلے جیسے بھاگ رہے ہوں۔ قدم ان کے آگے کی طرف اٹھ رہے تھے اور کان پیچھے کی طرف لگے ہوئے تھے۔ ایک غصیلی آواز ان کا تعاقب کر رہی تھی۔ پھر اکادکا کھلتے دروازے کی آواز۔ عورتوں اور مردوں کی ملی جلی مبہم آوازیں۔ اور انھوں نے سچ مچ بھاگنا شروع کر دیا۔
’’ارے یہ تو ہم پھر وہیں آ گئے۔‘‘ انھوں نے تعجب سے ارد گرد دیکھا۔ وہی خالی میدان، ایک سمت میں پرانی ککڑیا اینٹوں کا ملبہ سمٹا ہوا، ایک طرف ڈھئی ہوئی دیوار کا وہی خستہ کنارہ جس پر کوئلے سے وکٹوں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ اب میدان میں دھوپ پھیل چکی تھی۔ کچھ لڑکے جمع تھے اور سر گرمی سے کرکٹ کھیل رہے تھے۔
ارشد میدان میں جہاں تہاں پڑے ملبے کو احتیاط سے دیکھنے لگا۔ شکستہ دیوار تک گیا۔ غور سے اسے دیکھا۔ واپس ہوا۔ ادھر ادھر دیکھتا ہوا، کچھ ڈھونڈتا ہوا۔
’’کیا دیکھ رہے ہو یار۔ بس یہاں سے چلے چلو۔‘‘
’’دیکھ رہا ہوں کہ وہ پیڑ کہاں گیا؟‘‘
چلتے چلتے ٹھٹھکا۔ ایک کٹے ہوئے پیڑ کی جڑنے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ بڑ بڑایا، ’’یہ بھی کٹ گیا۔‘‘ پھر نعیم سے مخاطب ہوا، ’’نعیم، یہ تھا وہ بڑھ جس کی میں بات کر رہا تھا۔‘‘ پھر اسے تکتے تکتے وہیں پسر گیا۔ ’’یار تھک گئے بیٹھ جائیں ذرا۔‘‘
نعیم نے تامل کیا، پھربولا، ’’میں اس عورت سے ڈرا ہوا ہوں، یہاں سے نکل چلنا چاہیے۔‘‘
ارشد نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ ارد گرد کے منظر میں گم تھا۔ دھوپ اب اچھی خاصی نکل آئی تھی۔ کہرہ چھنٹ چکا تھا۔ مگر ہوا میں خنکی تھی۔ وہ دھوپ سینک رہا تھا او رمیدان میں پھیلے منظر کو دیکھ رہا تھا، اینٹوں کے ڈھیر کو، ٹوٹی دیوار کو، کرکٹ کھیلتے لڑکوں کو۔ یہ منظر دیکھتے دیکھتے وہ آہستہ سے لیٹ گیا۔ دھوپ میں نہاتی ہوئی فضا کو اور روشن آسمان کو چت لیٹا دیکھا کیا۔ پھر اس کی آنکھیں مندنے لگیں۔
نعیم نے ہر آتے جاتے آدمی کو ایک اندیشہ کے ساتھ دیکھا۔ ہر مرتبہ اس کے گزر جانے کے بعد سوتے ہوئے ارشد کو دیکھا۔ کئی مرتبہ کھانسا کھنکارا۔ اس طور ارشد کی آنکھ نہ کھلی تو اسے ٹہوکا۔ ارشد نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔ نعیم کو دیکھا۔
’’دن اچھا خاصا چڑھ چکا ہے۔ اب یہاں سے جلدی نکلنا چاہیے۔‘‘
ارشد نے جواب میں آنکھیں ملیں۔ ایک لمبی جماہی لی، پھر دھوپ سے جگماتے آسمان کو دیکھنے لگا۔ دھوپ سے جگمگ کرتے آسمان کو دیکھتے دیکھتے پپوٹے پھر بوجھل ہونے لگے، ’’یار دھوپ آج بہت اچھی ہے۔‘‘ اور نیند سے بھری آنکھیں پھر مندتی چلی گئیں۔
مصنف:انتظار حسین