وہ بادلوں کی تلاش میں دور تک گیا۔ گلی گلی گھومتا ہوا کچی کوئیا پہنچا۔ وہاں سے کچے رستے پر پڑلیا اور کھیت کھیت چلتا چلا گیا۔ مخالف سمت سےایک گھسیارا گھاس کی گٹھری سر پر رکھے چلا آرہا تھا۔ اسے اس نے روکا اور پوچھا کہ ’’ادھر بادل آئے تھے؟‘‘
’’بادل؟‘‘ گھسیارے نے اس تعجب سے کہا جیسے اس سے بہت انوکھا سوال کیا گیا ہو۔
’’ہاں بادل‘‘ اور جب گھسیارے کی حیرت میں کوئی کمی نہ آئی تو وہ اس سے مایوس ہوا اور آگے چل کر اس نے کھیت میں ایک ہل چلاتے ہوئے کسان سے یہی سوال کیا، ’’ادھر بادل آئے تھے؟‘‘
کسان کی سمجھ میں بھی یہ سوال نہ آیا۔ اس نے سٹپٹاکر کہا، ’’بادل؟‘‘
’’ہاں بادل۔‘‘
اصل میں وہ بادلوں کے متعلق ایسے پوچھ رہا تھا جیسے ڈھونڈنے والا راہ چلتے ہوؤں سے گم ہوجانے والے بچے کے متعلق پوچھتا ہے۔ شاید بادل بھی گمشدہ بچے تھے کہ وہ انھیں ڈھونڈتا پھر رہا تھا اور ہر راہ چلتے سے پوچھ رہا تھا مگر کسی نے اسے تشفی بخش جواب نہیں دیا۔
سب سے پہلے آج صبح اس نے اماں جی سے یہ سوال کیا تھا، ’’اماں جی، بادل کہاں گئے؟‘‘
’’کون کہاں گئے؟‘‘ اماں جی نے اس سے ایسے پوچھا جیسے اس نے بہت احمقانہ سوال کیا تھا۔
’’بادل۔‘‘
’’بادل۔۔۔ ارے تیرا دماغ چل گیا ہے، جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو، ناشتہ کر اور اسکول جا۔‘‘
اماں جی کے اس انداز بیان نے اس پر ایک ناخوشگوار اثر چھوڑا۔ اس نے بے دلی سے ہاتھ منہ دھویا، ناشتہ کیا اور کتابوں کا بیگ گلے میں ڈال سکول کے لیے گھر سے نکلا۔ مگر گھر سے نکلتے ہی اس کے ذہن میں پھر وہی سوال ابھرا، بادل کہاں گئے؟ اور اس کے ساتھ اسے رات کا وہ وقت یاد آیا جب اس نےبادل امنڈتے گرجتے دیکھے تھے۔ جب وہ سونے لگا تھا اس وقت آسمان بادلوں سے خالی اور ستاروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہوا بند تھی اور گرمی سے نیند نہیں آرہی تھی۔ اسےمشکل سے نیند آئی۔ پھر جانے کیا وقت تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ جو وقت بھی ہو اس کے لیے وہ آدھی رات تھی۔ دور آسمان پر بادل ایک گرج کے ساتھ امنڈ رہے تھے۔ بیچ بیچ میں بجلی چمکتی اور اس چمک میں وہ بادل بہت کالے کالے نظر آتے۔ اسے لگا کہ بہت زور کی بارش آئے گی۔ مگراس میں نیند کتنی خراب ہوتی۔ بس اسی اندیشے سے اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایسے ہوگیا جیسے اسے خبر ہی نہیں ہے کہ آسمان بادلوں سے بالکل خالی تھا اور صحن میں بوندیں پڑنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اسے پہلے تعجب ہوا۔ پھر افسوس ہوا۔ تعجب اس پر کہ بادل اتنے امنڈگھمنڈ آئے تھے اور برسے نہیں پھر گئے کہاں۔ افسوس اس پر کہ وہ سو کیوں گیا۔ جیسے وہ جاگتا رہتا تو بادل آنکھوں سے اوجھل نہ ہوپاتے اور پھر برس کر ہی جاتے۔ وہ بارش ہو جاتی تو موسم کی پہلی بارش ہوتی۔ مگر اس کے سوتے ہوئے بادل گھر کر آئے اور چلے گئے۔ بارش کی کوئی بوند نہیں پڑی۔ برسات کا موسم خالی گزرا جارہا تھا۔ اس نےچلتے چلتے ایک بار پھر آسمان کاجائزہ لیا۔ دور تک کوئی بادل نہیں تھا۔ خالی آسمان میں سورج عین اس کے سر پر چمک رہا تھا۔ وہ سکول کا راستہ چھوڑ کر کھیتوں میں نکل گیا۔
کھیتوں کے بیچ پتلی پتلی بٹیوں پر ہوتا ہوا وہ دور نکل گیا۔ دھوپ بہت تیز تھی۔ اس کا بدن پھکنےلگا، حلق خشک ہوگیا۔ کئی کھیت پار کرنے کے بعد گھنی چھاؤں والاایک پیڑ دکھائی دیا کہ اس کی چھاؤں میں کنواں چل رہاتھا۔ گویا ریگستان میں چلتے چلتے نخلستان آگیا۔ اس نے درخت کی چھاؤں میں پہنچ کر کتابوں کا بیگ ایک طرف رکھا۔ کنوئیں کے پاس پہنچ کر اس نے رہٹ سے نکلتے ہوئے پانی سے پیر دھوئے۔ ہاتھ منہ دھویا اور پھر جی بھر کر پانی پیا۔
منہ ہاتھ دھوکر پانی پی کر آنکھوں میں ٹھنڈک اور روشنی آئی۔ اب اس نے ارد گرد کاجائزہ لیا۔ کنوئیں کے پاس ہی ٹوٹے سے مونڈھے پر ایک بڑے میاں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ اس نے کئی مرتبہ بڑے میاں کی طرف دیکھا۔ کچھ کہنا چاہا مگر پھر ہمت چھوڑ بیٹھا۔ آخر اس نے ہمت باندھی اور بولا، ’’باباجی! ادھر بادل آئے تھے؟‘‘
بڑے میاں نے حقہ پیتے پیتے اسے غور سے دیکھا۔ پھر بولے، ’’بیٹا، بادل چھپ کر تو نہیں آئیں گے۔ جب گھر کر آئیں گے تو آسمان زمین کو پتہ چل جائے گا۔‘‘
’’مگر رات تو بادل آئے تھے اور کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔‘‘
’’رات بادل آئے تھے؟‘‘ بڑے میاں نے کچھ سوچا۔ پھر اونچی آواز سے اللہ دین سے مخاطب ہوئے، ’’اللہ دین رات بادل آئے تھے؟‘‘
اللہ دین بیلوں کو ہانکتے رکا۔ بولا ،’’میں تو جی رات کھاٹ پر پیٹھ لگاتے ہی سوگیا تھا۔ مجھے پتہ نہیں۔‘‘
پھر بڑے میاں بولے، ’’بیٹا! بادلوں کے خالی آنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں ایسے علاقے میں رہ چکا ہوں جہاں دس سال سے بارش نہیں ہوئی تھی۔‘‘
’’دس سال سے؟‘‘ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’ہاں دس سال سے، مگر بادل آتے تھے۔ میں جن دنوں وہاں تھا ان دنوں بھی ایک دفعہ بادل بہت گھر کے آئے تھے۔ مگر پانی کی ایک بوند نہیں پڑی۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔‘‘
’’عجیب بات کوئی نہیں۔ بارش اس کے حکم سے ہوتی ہے۔ اس کا حکم ہوتا ہے تو بادل برستے ہیں اس کاحکم نہیں ہوتا تو بادل نہیں برستے۔‘‘
بڑے میاں کے اس بیان کے ساتھ ساتھ اس کے تصور میں پچھلی مختلف گھٹائیں امنڈ آئیں۔ وہ گھٹائیں جو گھٹاٹوپ اندھیرے کے ساتھ اٹھیں جیسے برس کر جل تھل کردیں گی۔ مگر بوند برسائے بغیر گزر گئیں۔ وہ گھٹائیں جو چند بے معنی سی بدلیوں کی صورت میں آئیں اور ایسی برسیں کہ نال تلیاں امنڈ آئیں۔
بڑے میاں نے تپتے آسمان کی طرف دیکھا۔ پھر بڑبڑائے، ’’موسم گزرا جارہا ہے پتہ نہیں اس کا حکم کب ہوگا۔‘‘
جواب میں وہ بھی بڑبڑایا، ’’مینہ برستا ہی نہیں۔ پتہ نہیں بادل آکے کہاں چلے گئے۔‘‘
’’بیٹا کیا برسے، برسے گا تو خبریں آنے لگیں گی کہ سیلاب آگیا۔ آسمان بخیل ہوگیا۔ زمین میں ظرف نہیں رہا۔ بارش ہوتی ہی نہیں۔ ہوتی ہے تو سیلاب امنڈ پڑتا ہے۔‘‘
بڑے میاں کی باتیں اس کی سمجھ میں کچھ آئیں کچھ نہ آئیں۔ وہ بیٹھا سنتا رہا۔ پھر اچانک اسے خیال آیا کہ بہت دیر ہوگئی ہے۔ کتابوں کا بیگ اٹھا، گلے میں ڈال اٹھ کھڑا ہوا۔
مٹی دھول اور دھوپ میں وہ دیر تک چلتا رہا۔ جن راستوں سے آیا تھا انہی راستوں پر لوٹ رہا تھا۔ دھوپ اب بھی تیز تھی۔ مگر جب وہ کچی کوئیا کے پاس پہنچا تو اسے لگا کہ ہوا میں ایک ٹھنڈی لکیر سی تیر گئی ہےاور قدموں کے نیچے مٹی کچھ سیلی سیلی ہے۔
بستی میں داخل ہوتے ہوئے اس نے دیکھا کہ رستہ یہاں سے وہاں تک گیلا ہے، درخت کہ اس کے جاتے وقت روز کی طرح دھول میں اٹے کھڑے تھے اب نہائے دھوئے نظر آرہے ہیں اور نالہ کہ پچھلی برسات کے بعد خشک چلا آرہا تھا، رواں ہوگیا ہے۔ خوشی کی ایک لہر اس کے اندر دوڑ گئی۔ اب اسے گھر پہنچنےکی جلدی تھی۔ وہ دیکھنا چاہتا تھاکہ اس کے صحن میں جو جامن کا پیڑ کھڑا ہے وہ کتنا ترو تازہ ہوا ہے۔
گھر پہنچ کر اس نے فضا کو بارش کے حساب سے بدلا ہوا پایا۔ جامن سے بہت سے پتے نیچے گرے پڑے تھے اور گیلی مٹی میں لت پت تھے۔ باقی درخت نہایا دھویا کھڑا تھا۔ اور اماں جی ایک آسودگی کے لہجے میں کہہ رہی تھیں، ’’اچھی بارش ہوگئی۔ اللہ تیرا شکر ہے۔ میراتو گرمی سےدم الٹنے لگا تھا۔‘‘
جامن کی ٹہنوں سے بوندیں ابھی تک ٹپ ٹپ گر رہی تھیں۔ وہ پیڑ کے نیچے کھڑا ہوگیا اور بوندوں کو اپنے سر پر اور اپنے گالوں پر لیا۔ اس کی نظر آسمان پر گئی۔ آسمان دھلا دھلا نظر آرہا تھا۔ اب وہاں کوئی بدلی نہیں تھی۔ اسے خیال آیا کہ وہ بادلوں کی تلاش میں دھوپ اور دھول میں کتنی دور تک گیا اور بادل اس کے پیچھے آئے اور برس کر چلے بھی گئے۔ اس خیال نے اسے اداس کردیا۔ بارش میں بھیگی ساری فضا اسے بے معنی نظر آنے لگی۔
مأخذ : گنی چنی کہانیاں
مصنف:انتظار حسین