مردہ راکھ

0
181
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’محرم کے موقع پر ادا کیے جانے والی مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے کہانی کے کردار اپنے ماضی میں کھو جاتے ہیں، وہ وقت جو انھوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں کے ساتھ گزارا ہے اور تحت الشعور میں پڑی ہوئی یادیں مجسم ہوکر سامنے آنے لگتی ہیں۔ علم، گھوڑے، تازیے نظروں کے سامنے سے گزرتے جاتے ہیں۔‘‘

کہتے ہیں کہ اس برس سواری نہیں آئی تھی، یہ بڑا علم گم ہونے کے ایک سال بعد کا واقعہ ہے، بڑا علم پہلے گروی رکھا گیا تھا، پھر سونے کے کئی علم دے کر اسے عین نو محرم کو چھڑایا گیا، جب وہ سجا کر بلند کیا گیا تو دیکھا کہ وہ سرخ انگارہ ہو گیا ہے، سرخ انگارہ پنجہ پہلے بہت دیر تک تھراتا رہا۔ مولوی فرزند علی کا بیان ہے کہ اس سے خون بھی ٹپکا تھا، پھر جب زیارت کے وقت اسے عزاخانے سے باہر نکالا گیا تو علم بہت زور سے کانپا اور پھر تفضل کے ہاتھ میں خالی چھڑ رہ گئی۔ بس اس کے اگلے برس یہ واقعہ ہوگیا تو اس برس عزاخانوں میں سواری نہیں آئی تھی۔

عزاخانوں کی زینت تو اسی طرح ہوئی، علم سجے، جھاڑ فانوس اور ہانڈیاں روشن ہوئیں اور لوبان اور اگر بتیاں سلگائی گئیں اورتا شہ پارٹیاں چاند دیکھتے ہی نکل پڑیں مگر ایسا ہوا کہ تفضل جو ماتم کرنے، تاشہ بجانے اور تلواروں والے علم کو گردش دینے پر سب پر سبقت رکھتا تھا تھوڑی دیر میں اکتا گیا، پھر اختر بھی تھک گیاپھر تاشہ پارٹی ساری بکھر گئی۔ پھر امام باڑوں میں گشت کرنے والے کہ چاند رات کو رات گئے تک عزاخانوں میں گھومتے پھرتے تھے، اس خاموش فضا سے اداس ہوکر گھروں کو لوٹ گئے اور چاندرات اس برس شروع رات ہی میں سونی ہوگئی۔

دوسرے دن مولوی فرزند علی علموں کی زیارت کرکے آبدیدہ باہر نکلے اور بولے کہ’’امام کی سواری نہیں آئی۔‘‘ اس پر سب کے دل دھڑکنے لگے اور بہت وسوسے اور شک اور گمان پیدا ہوئے مگر کسی کو کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی، بس محمد عوض کربلائی نے جنہوں نے ایک سال کربلا میں محرم کیے تھے اور اپنی آنکھ سے دیکھا تھا کہ دس دن تک کربلا ویران رہی کہ امام کی سواری ہند کی طرف گئی تھی، ٹھنڈا سانس بھرا اور بولے، ’’اللہ ہم پر رحم کرے۔‘‘

پھر مجلسیں شروع ہوگئیں اور زیارتیں نکلنے لگیں اور چھ محرم کو علم نکلے، چاندی سونے کے جگمگاتے پنجوں والے رنگ برنگ پٹکوں والے اَن گنت علم اور ان کے آگے آگے دو تلواروں والا اونچا علم۔ تفضل خاصے فاصلے تک علم کو گردش دیتا ہوا چلا، مگر پھر اس نے علم دوسرے کے حوالے کر تاشہ گلے میں ڈال لیا، تاشہ اس نے بجایا مگر قمچیاں شاید دل سے نہیں چھیلی گئی تھیں کہ اس کا ہاتھ کسی طور نہ جما۔ پھر اس نے تاشہ اختر کے گلے میں ڈال دیا، تھوڑی دور چلا، پھر جلوس تمام ہونے سے پہلے ہی کٹ کر گھر واپس ہوگیا۔

- Advertisement -

آٹھ محرم کو عجیب واقعہ ہوا، بڑے امام باڑے سے جب ذوالجناح برآمد ہوا تو زیارت کرنے والے حیران رہ گئے، دلدل کہاں گیا، پہلے یہ سوال آنکھوں میں کیا گیا، پھر سر گوشیوں میں ایک نے ایک سے پوچھا، ’’آخردلدل کہاں گیا؟‘‘ کچھ اس کے رنگ سے، کچھ یہ دیکھ کر کہ اس نے کئی مرتبہ دولتیاں پھینکی تھیں اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری نہیں تھے، سب نے جان لیا کہ یہ وہ گھوڑا نہیں ہے جو دلدل بنا کرتا تھا۔ مولوی فرزند علی نے روکھے لہجہ میں کہا، ’’وہ گھوڑا مر گیا؟‘‘

’’وہ گھوڑا مر گیا؟‘‘

’’دلدل مرگیا؟‘‘

’’دلدل؟ دلدل مرگیا؟ کون کہتا ہے؟‘‘

پہلے کسی کو یقین نہ آیا، مولوی فرزند علی نے کسی کو یقین دلانے کی کوشش بھی نہیں کی، لوگوں کو رفتہ رفتہ خود ہی یقین آگیا۔

انہیں ایک دم سے اگلی پچھلی ساری باتیں یاد آگئیں، انہیں وہ دن یاد آگیا، جب پہلی بار کسی نے آکر سنایا تھا کہ دلدل کے ساتھ کیا کچھ ہوا ہے، تراب علی متولی نے متولی بنتے ہی وہ کچھ کیا تھا کہ اب کسی کے دل میں ان کا ذرہ بھر احترام نہیں تھا، وقف کی مجلسوں سے تبرک کی رسم اٹھ گئی اور بڑے امام باڑے کے صحن میں بنی ہوئی وہ بھٹیاں اور تندور جو یکم سے گرم ہوجایا کرتے تھے، اب ٹھنڈے پڑے رہتے، اور صرف آٹھ کی شب کو اور عاشورہ کی سہ پہر کو گرم دکھائی دیتے۔ تراب علی متولی کہتے تھے کہ چیزیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں، میدہ تو کسی بھاؤ نہیں ملتا، مولوی فرزند علی تک جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے بہت سرد مہری کے لہجے میں کہا کہ’’کچھ چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں اور کچھ وقف کی آمدنی کم ہوگئی ہے۔‘‘

افضال حسین نے ٹکڑا لگایا، ’’ہاں کچھ وقف کی آمدنی کم ہوگئی ہے کچھ دوسری مدوں میں خرچ ہونے لگی ہے۔‘‘ مگر اس ساری بیزاری کے باوجود اس خبر پر کسی کو اعتبار نہ آیا، کوئی لاکھ بے ایمان ہوگیا ہو مگر یہ تو نہیں کر سکتا کہ دلدل کے دانے پانی میں بے ایمانی کرنے لگے، جس شخص نے دلدل پر ہنٹر پڑتے دیکھا تھا وہ یہ خبر سنا کر خود ہی چور بن گیا اور اعتبار نہ کرنے والوں کی برہمی سے ڈر کر اپنا بیان بدلتا چلا گیا اور آخر میں یہ کہہ کر چپ ہوگیا کہ ’’مجھے شک سا ہوا تھا، شاید غلط ثابت ہو۔‘‘ مگر شرافت نے پورے وثوق کے ساتھ اپنا بیان دیا۔ تفضل تاؤ کھاکر اسے مارنے کے لیے کھڑا ہوگیا، اور اس کے بعد سب کو یقین ہوگیا کہ شرافت وہابی ہوگیا ہے مگر اب وہ سب خبریں سچی نکلیں۔ مولوی فرزند علی پھر بھی کچھ نہیں بولے، بس انہوں نے ایک ہی فقرہ کہا، ’’جو شخص بڑا علم گروی رکھ دے اس سے کوئی بات بھی نہیں ہو سکتی۔‘‘

تفضل جلوس کے ساتھ دور تک چلا گیا، لیکن وہ تاشہ نہ بجا سکاکہ آج اس کے بازو کل سے بھی زیادہ دکھ رہے تھے، اسے رہ رہ کر دلدل کا خیال آتا، سفید دھوپ سا جسم، بالا قد، اونچی تنی ہوئی گردن، چھوٹی چھوٹی گامچیاں، گول گول سم، کسی ہوئی چمکتی جلد جس کی تہہ میں پارا دوڑتا معلوم ہوتا۔ برس کے برس آٹھ کی صبح کو گلی گلی ٹاپوں کی پر رعب آواز سنائی دیتی اور پھر بڑے امام باڑے کے پچھلے والے احاطے میں نیم کی چھاؤں میں دھوپ سے بنی ہوتی ایک مخلوق کھڑی دکھائی دیتی اور بچّے دور دور کی گلی سے آتے اور نیم سے دور کھڑے ہوکر اسے حیرت سے دیکھتے۔ ’’تفضل بھائی یہ دلدل ہے؟‘‘ کوئی بچّہ حیرت سے بے قابو ہوکر آخر سوال کر بیٹھتا۔

’’ہاں دلدل ہے۔‘‘ اور انہیں دور کھڑے رہنے کی ہدایت کر کے پھر اس کی آرائش میں مصروف ہو جاتا۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد کنوتیاں ہل اٹھتیں، رانوں کی مچھلیاں تڑپتیں، اور نتھنوں اور تھوتھنی سے نکلتے ہوئے سانس کی آواز بلا وجہ تیز ہو جاتی اور بچّے سہم کر پیچھے ہٹ جاتے اور ایک مقدس رعب پر طاری ہو جاتا اور پھر کوئی بچّہ چپکے سے کسی سے پوچھتا، ’’یہ دلدل ہے؟‘‘ اور کوئی دوسرا ثقاہت سے جواب دیتا، ’’ہاں دلدل ہے۔‘‘

اور جب سرخ دھبوں والی اور تیروں سے چھدی ہوئی چادر عمامہ، ڈھال تلوار اور پھولوں کے گجروں سے سج کر وہ عزاخانے میں جاتا تو سچ مچ دلدل بن جاتا۔ اس کے جسم میں ایک ہلکا سا رعشہ دوڑ گیا، کہاں گیا وہ گھوڑا، اور اختر نے بڑھ کر تلواروں والا علم اس کے ہاتھ میں تھما دیا، اس نے محض فریضے کے طور پر اسے تھاما۔ پھر وضع داری کے طور پر اسے گردش دینے لگا، اس کے بازو دکھ رہے تھے، علم کو وہ پوری شدّت سے نہ گھما سکا۔ پھر اس نے علم کو ہتھیلی پہ رکھا اور دیر تک لیے کھڑا رہا، یہاں تک کہ جلوس کے بہت سے لوگ اس کے گرد جمع ہوگئےاور اسے داد اور حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگے، اس کا حوصلہ بحال ہوتا جا رہا تھا۔

اس بلند علم کو دانتوں میں تھاما اور پیچھے ہاتھ باندھ گردن پیچھے کی طرف ڈال زمین پہ پاؤں جما کر کھڑا ہوگیا، سارا جلوس اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا، اس کے دانتوں میں علم تھا اور اس کی نظریں اس کی تلواروں پر جمی تھیں مگر اسے فوراً احساس ہوا کہ دانتوں کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اور علم جھکتا جا رہا ہے۔ اس نے چاہا کہ پیچھے بندھے ہوئے ہاتھ کھول کر علم کو سنبھالے مگر وہ اپنے جسم کو حرکت نہ دے سکا، اسے لگا کہ اس کے بازو نہیں ہیں اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا آنے لگا۔

گرتے ہوئے علم کو اختر نے تھاما، تفضل پسینے میں نہا گیا اور جسم اس کا ٹوٹے پتے کی طرح لرز رہا تھا، پسینے میں نہایا ہوا دھڑکتے دل اور کانپتے جسم کے ساتھ وہ تھوڑی دور چلا، آہستہ سے جلوس سے باہر نکل آیا، جلوس کو امنڈتا پھیلتا چھوڑ کر ہارے ہوئے سپاہی کی مثال گھر کی طرف چلا، اس احساس کے ساتھ کہ اس کے بازو ضعف سے نڈھال ہیں اور اس کے دانت ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔ اس رات بہت ہراس رہا، امام باڑوں میں مجلسوں سے پہلے اور بعد وہ لوگ جن کا گھوڑا مر گیا تھا سرگوشیوں میں، اونچی آوازوں میں بہت باتیں کرتے رہے، وسوسے اور شک ظاہر کیے گئے مگر واضح طور پر یہ کوئی نہیں بتا سکا کہ یہ واقعہ اصل میں کیا ہوا ہے۔ بس ان لوگوں کو جن کا گھوڑا مر گیا تھا، ایک دھندلا دھندلا سا احساس تھا، کہ ان کے اندر کوئی جیتی جاگتی چیز تھی کہ آج مر گئی ہے۔

’’جو بڑا علم گروی رکھ دے پھر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘ مولوی فرزند علی کی اس بات پر سب چپ ہوگئے، افضال حسین نے آہستہ سے کہا، ’’سچ ہے۔‘‘ اور وہ دس کی شب تھی اور بڑا علم نکلنے کا وقت قریب آچلا تھا، اندر بڑے امام باڑے میں لوگ جمع ہورہے تھے، اور احاطہ میں الاؤ گرم تھا، اور تاشے سنکتے تھے۔ اختر بولا، ’’سنتے ہیں کہ وہ اصلی علم تھا۔‘‘

محمد عوض کربلائی کہنے لگے، ’’اصلی ہی سمجھو، یوں تو اصلی علم جو فرات کے کنارے ملا تھا وہیں رہا، آج بھی موجود ہے۔‘‘ محمد عوض کربلائی کے جسم کو ہلکا سا رعشہ آگیا، اور آواز گہری ہوتی چلی گئی، ’’چھوٹے حضرت کی ضریح مبارک پر سجا ہے، سبحا ن اللہ کیا دبدبہ ہے۔‘‘ رعب اور احترام سے سب کے سر جھک گئے۔ محمد عوض کربلائی پھر بولے، ’’وہ علم اس علم سے مس کی ہوئی چاندی سے تیار ہوا تھا، اسے بھی اصلی ہی سمجھنا چاہیے مگر اب وہ کہاں ہے، ہماری بد بختی کہ ہم اصلی علم سے سر فراز ہوئے اور اسے ہم نے کھو دیا۔‘‘ اختر نے تاشے کو انگوٹھا بجا کر دیکھا اور پھر آگ کے سامنے کر دیا، پھر کہنے لگا، ’’آج اگر وہ بڑا علم ہوتا۔۔۔ جب اس وقت اتنا جلال تھا تو آج تو قہر ہی ٹوٹ پڑتا۔‘‘

اس پر افضال حسین نے جھر جھری لی اور بولے، ’’معجزے کے دن کی بات کرتے ہو میں موجود تھا، اس وقت میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، سرخ انگارہ ہوگیا تھا اور سورج کی طرح کانپتا تھا، عجب جلال کا عالم تھا، کہتے ہیں، خون بھی ٹپکا تھا۔‘‘ پھر سب کے سر جھک گئے، تفضل نے خاموشی سے ایندھن کا ایک بکٹ لیا، اور الاؤ میں ڈال دیا، الاؤ سے لپٹیں اٹھنے لگیں۔ مولوی فرزند علی درد بھری آواز میں بولے، ’’اب رہ کیا گیا۔۔۔ اب کیا رہ گیاہے، نیکیاں روگرداں ہوگئیں، اور حق پر عمل نہیں ہوتا، اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا، سچ فرمایا تھا آپ نے، بہت سچ فرمایا تھا۔‘‘ مولوی فرزند علی کی آواز رقت سے کانپنے لگی تھی۔ تفضل مولوی فرزند علی کی صورت تکنے لگا، اس نے جنبش کی کہ جیسے کچھ کہنا چاہتاہو مگر پھر اس نے اپنے تاشے کا رخ بدلا اور الاؤ پر نظریں جمادیں۔

’’کیوں صاحب یہ وقف علی الاد لاد ہے کیا؟‘‘ افضال حسین نے سوال کیا۔ مولوی فرزند علی نے خشک لہجہ میں کہا، ’’آگے تو وقف علی الاد لاد تھا۔‘‘

’’صاحب بے ایمانی کی بھی حد ہوتی ہے۔‘‘ افضال حسین کہنے لگے، ’’آگے بڑے علم پر شیر مال تقسیم ہوا کرتے تھے اور دودھ کے شربت کی سبیل لگتی تھی۔ شیرمال تو پچھلے برس ہی بند ہوگئے تھے، اب کے خالی پانی کا شربت رہ گیا، پچھلے برس میدہ مہنگا تھا، اب کے کہتے ہیں کہ دودھ کا توڑا ہے۔‘‘

’’اگلے برس چینی نہیں ملے گی، شکر کا شربت ہوگا۔‘‘ اختر نے تلخ لہجہ میں کہا۔

’’اگلا سال کس نے دیکھا ہے۔‘‘ محمد عوض کربلائی بولے۔ ’’وقف کی ساری جائداد گروی پڑی ہے، جانے کیا انجام ہو، بڑے امام باڑے میں اب عزاداری ہوگئی، اسے غنیمت جانو، اگلے سال کیا خبر ہے، عزاداری ہو، کیا خبر ہو نہ ہو۔‘‘ مولوی فرزند علی کہنے لگے، ’’سب نیتوں کا پھل ہے، آگے کیا مہنگائی نہ ہوئی تھی، آصف الدولہ کے زمانے میں کیسا کال پڑا تھا، اسی زمانے میں لکھنؤ کے بڑے امام باڑے کی نیم رکھی گئی، سخت کال پڑا تھا، خلقت میں تیراہ تیراہ پڑ گئی، مگر لکھنؤ میں کوئی بھوکا نہیں مرا۔‘‘

’’صاحب ان دنوں کال کا زمانہ بھی اچھا خاصہ ہوتا تھا۔‘‘ محمد عوض کربلائی ٹھنڈا سانس بھر کر بولے، ’’اور نواب آصف الدولہ کی رعایا پروری کی کیا بات ہے جس کو نہ دیں مولا اس کو دیں آصف الدولہ۔‘‘

’’تفضل نے الاؤ کے سامنے کیا ہوا تاشہ اپنی طرف کھینچا اور انگلیوں سے بجا کردیکھا، شرافت امام باڑے سے تیزی سے نکل آیا، ’’علم اٹھنے والا ہے، تاشے والے حضرات تیار ہو جائیں۔‘‘ اور دور ہی دور گیٹ کی طرف جاکر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا، گیٹ سے ماتمیوں کی ایک ٹولی تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی داخل ہوتی اور الاؤ کے پاس سے گزرتی ہوتی امام باڑے میں چلی گئی۔ مولوی فرزند علی اٹھ کھڑے ہوئے، ’’آخر بول تو سن ہی لینے چاہئیں، اب مرثیہ ختم ہورہا ہے۔‘‘

تفضل نے اپنا تاشہ پھر الاؤ کے سامنے کر دیا، اس نے بکٹ بھرا ایندھن الاؤ میں ڈالا اور بھڑک اٹھنے والے شعلوں سے اس کے رخسار تمتما اٹھے، اس کا تاشہ گرم ہونے میں اب بھی ایک آنچ کی کسر باقی تھی، باقیوں نے تاشے گلے میں ڈال لیے تھےاور کوئی قمچی سے، کوئی انگوٹھے سے، کوئی انگشت شہادت کو دہراکر کے اپنے اپنے تاشے کو ٹھونک بجا رہا تھا۔ تاشوں کی ان مدہم آوازوں سے فضا میں ایک گونج پیدا تھی، تلواروں والا علم آپہنچا تھا، اور اختر نے کئی بار اسے گردش دی اور کئی بار ہتھیلی پر رکھ کر بلند کیا، تفضل تاشے سے بے خبر ہو کر گردش کرتے تلواروں والے علم کو دیکھتا رہا۔ پھر اسے جھر جھری آئی، تاشے الگ رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اختر کے ہاتھ سے علم لے کر مٹھی میں تولا، پھر دونوں مٹھیوں میں تھام کر بلند کیا، پھر آہستہ آہستہ دو تین بار گردش دی، پھر اسے تیزی سے گھمانے لگا، دیکھتے دیکھتے احاطہ لوگوں سے بھر گیا تھا اور ایک دبے دبے شور سے فضا گونجنے لگی تھی۔

اس کے گرد ایک ہجوم جمع ہو چلا تھا۔ کسی کی نظر اس کی توانا مٹھیوں پر تھی، کوئی گردش کرتی چمکتی تلواروں کو تکتا تھا، اس کا خون ہوتا جا رہا تھا، اس نے علم کو اور تیزی سے گھمانا شروع کیا، پھر رفتہ رفتہ ارد گرد کا شور اس کے ذہن سے محو ہونے لگا، وہ شور، وہ لوگ، وہ دمکتا الاؤ، الاؤ پر گرم ہوتے تاشے اور نقارے، کبھی کبھی آہستہ سے بج اٹھنے والا جھانجھ، سب کچھ اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا، وہ تھا اور اس کے ہاتھوں میں گردش کرتا ہوا علم اور علم کی بلندی پر اندھیرے میں چمکتی گھومتی وہ تلواریں، اس نے یک بیک ہاتھ روکا اور تلواریں آپس میں لڑ کر جھنجھنا اٹھیں، پھر اس نے اپنا بازو سیدھا کیا اور ہتھیلی پھلا کر اس پر علم ٹکا لیا، ہتھیلی پر علم رکھے دیر تک کھڑا رہا۔ پھر علم کو بلند کیا اور چھڑ کو دانتوں میں داب کر کھڑا ہوگیا، اس نے ہاتھ پیچھے باندھ رکھے تھے اور قدم زمین پر جمے ہوئے تھے اور گردن پیچھے کی طرف ڈال کر منہ آسمان کی طرف اٹھا رکھا تھا۔

احاطہ میں بھرے ہوئے لوگ، ان کی باتیں، ان کا شور، امام باڑے سے آتی ہوئی مرثیے کی آواز، سب کچھ اس کے ذہن سے محو ہوگیا تھا، اس نے جانا کہ وہ زمین اور آسمان کے درمیان پھیلے ہوئے اندھیرے کے بیچ اکیلا کھڑا ہے، اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور آہستہ آہستہ لرزتی تلواروں کی چمک اس کی آنکھوں میں پھیلتی اور اندھیرے میں گم ہوجاتی۔ اس کا جبڑا دکھنے لگا تھااور سانس تیز ہوگیا تھا، دفعتاً اسے خیال آیا کہ میرے بازو کہاں ہیں، بازو میرے کہاں گئے اور اس نے علم کی چھڑ کو اور زیادہ مضبوطی سے دانتوں میں جکڑ لیا، اور اس کی کنپٹی گرم ہوتی چلی گئی، اور آنکھوں میں اندھیرا آگیا۔

’’علم نکل آیا ہے۔‘‘ ایک آواز جیسے دوسرے عالم سے آئی ہو، اس کے کان میں پڑی اور وہ اور دور نکل گیا، جلتے خیموں کی آگ ٹھنڈی ہوچلی تھی، ہاں کوئی کوئی ٹوٹی طناب اب تک دہکتی تھی اور جہاں تہاں انگارے سرخ آنکھوں کی مثال چمکتے تھے، اور جب ہوا کا لشکر صحرا کی ریت کو روندتا ہواآتا تو کوئی ادھ جلا خیمہ بھڑک اٹھتا اور لشکر کے گزر جانے پر پھر تھک کر بیٹھ جاتا۔

لٹے ہوؤں کا قافلہ کس طرف ہے، رات آگئی اور سب سوکر ناپید ہوگئے اور زبانیں ساکت ہوگئیں اور وہ شخص جو ہتھکڑی اور زنجیر سمیت بیچ دشت میں سربسجود ہے، ناتواں جسم کھجور کی مانند لرزتا ہے اور پیاسی زبان پر دعا جاری ہے، اے مرے معبود! تیرے آسمانوں کے ستارے ڈوبتے جاتے ہیں اور تیری مخلوق کی آنکھیں نیند میں ہیں، اور سلاطین نے اپنے دروازے بند کر لیے اور باہر پہریدار کھڑے کردی۔ جب اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو پایا کہ وہ اکیلا کھڑا ہے۔

الاؤ ٹھنڈا ہو چلا تھا اور احاطہ خالی پڑا تھا، کیا علم نکل آیا ہے، اس نے ارد گرد نظر دوڑائی، وہ وہاں امام باڑے کے اندر چلا، اندر مختلف کونوں میں رکھے ہوئے گیس ایک یکساں کیفیت کے ساتھ سَن سَن کر رہے تھے اور ان کے آس پاس پروانوں کی ڈھیریاں بن گئی تھیں، امام باڑہ خالی تھا اور بچھی ہوئی چاندنی میں جا بجا بڑی بڑی سلوٹیں پڑ گئی تھیں۔ سیہ پوش منبر کے قریب ایک شخص تن تنہا مقفل عزا خانے کی دہلیز پر سر رکھے زارو قطار رو رہا تھا، ہچکیوں سے بار بار لرز اٹھنے والے جسم کو وہ خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا، پھر دبے پاؤں باہر نکل آیا۔

کیفیت اس کی عجیب تھی جیسے وہ وجد میں چلتا ہو، گلیوں کے اندھیرے اجالے میں سڑکیں، مکان، دیواریں سب چیزیں اسے بدلی بدلی نظر آرہی تھیں جیسے ہیں بھی اور نہیں بھی ہیں۔ مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے گمان گزرا کہ اذان ہو چکی ہے اور اب نماز ہوا چاہتی ہے۔ آج تو صف بہت لمبی ہوگی، جگہ ملنی مشکل ہے، اس نے تیزی سے قدم بڑھائے اور عجلت سے مسجد میں داخل ہوا، مسجد خالی پڑی تھی، ہاں ایک شخص بیچ صحن میں کھڑا انگلی اٹھائے آہستہ آہستہ کچھ پڑھ رہا تھا، وہ بہت حیران ہوا، نماز ہوچکی یا اب ہوگی؟ لوگ کہاں ہیں؟ ذہن پر زور ڈالنے کے بعد اسے یاد آیا کہ یہ شب عاشورہ ہے اور اعمال پڑھنے والوں کو کربلا میں ہونا چاہئے، مگر یہ کون شخص تھا جو مسجد میں اکیلا اعمال پڑھ رہا تھا۔ اس نے اس وقت جلدی میں اس شخص کو پہچاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی، بس اس کی پشت ہی دیکھ سکا تھا۔

گلی مڑ کر وہ یکایک اجالے میں آگیا، گیس کی روشنی میں ایک تعزیہ جگر جگر کر رہا تھا، اکیلے تعزیے کے پاس رکھے ہوئے اگر داں کی بتیاں، کچھ لمبی کچھ آدھی پونی، سب ٹھنڈی، اور چاندنی پر کھیلوں بتاشوں کی ڈھیر ی سے پرے بکھری ہوئی اکا دکا کھیلیں۔ برابر میں بیٹھا ہوا شخص دیوار سے پیٹھ لگائے سو رہا تھا، تعزیےکو دیکھتا ہوا وہ آگے نکل گیا اور پھر اندھیرے میں چلنے لگا، اس لمبی گلی میں اندھیرا تھا، دوکانیں سب بند تھیں، کسی کسی بند دوکان کی بتّی جلتی تھی، جیسے غلطی سے جلی رہ گئی ہو، چاند آسمان پر نہیں تھا، آسمان کے اندھیرے میں بہت سے ستارے جھلملا رہے تھے، دور دور پڑے ہوئے بڑے بڑے ہوئے ستارے، گڈ مڈ ہوتے چھوٹے ستارے، جیسے کوئی سر پٹ دوڑتا گھوڑا دور نکل گیا۔ اور اس کے سموں سے نکلی ہوئی چنگاریاں اندھیرے میں اڑتی رہ گئی ہیں، اسے یاد آیا کہ آگے بڑا علم نکلتے نکلتے تڑکا ہو جایا کرتا تھا، اب کے بڑا علم پہلے نکل لیا یا عاشورہ کی شب لمبی ہو گئی ہے۔

اگلا موڑ مڑتے ہوئے اس کے کان میں مرثیے کی آواز آئی، اس خاموشی میں یہ آواز اسے بہت عجیب لگی، ماتم مرثیہ کرتے کرتے شہر بھر کا دفعتاً خاموش ہوجانا، پھر اس خاموشی سے الم انگیز نسوانی آوازوں کا ابھرنا، شور اور خاموشی کے اس دو رنگے پن نے اس پر عجب اثر کیا کہ اس کاجی بیٹھنے لگا، پھر اسے بہت سے آہستہ آہستہ اٹھتے ہوئے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کالے برقعے اوڑھے کئی عورتیں چپ چاپ اس کے برابر سے گزر کر ایک مکان میں داخل ہوگئیں جس کا دروازہ کھلا تھا اور اندر مرثیہ پڑھا جا رہا تھا۔

جب رات عبادت میں بسر کی شہ دیں نے، اس آواز نے دور تک اس کا تعاقب کیا، پھر وہ موڑ مڑا اور اس لمبی کشادہ سڑک پر نکل آیا جہاں عمارتیں اکا دکا تھیں اور دو رویہ درختوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔ اسے اس وقت خیال آیا کہ وہ گھر پیچھے چھوڑ آیا ہے اور کربلا کے راستے پر جاتا ہے مگر کربلا میں اس وقت اعمال پڑھنے والے چند بوڑھوں کے سوا کون ہوگا اور اس خیال سے اس کے قدم ڈھیلے پڑنے لگے۔

کربلا کی طرف جاتے ہوئے مرثیے کا وہ بول پھر یاد آگیا، اس کے یاد آنے پر اس کا دھیان دور دور گیا، اسے اپنے بڑے ابّا یاد آئے کہ اب منوں مٹی کے نیچے دبے پڑے تھے، ہر شب عاشورہ کو کس سوز سے یہ مرثیہ پڑھا کرتے تھے، پھر اور مرثیے اور نوحے یاد آئے جو تخصیص کے ساتھ اس رات کو پڑھے جاتے تھے۔ وہ مرثیے اور نوحےاب کیوں سننے میں نہیں آتے؟ ان کےپڑھنے والے کہاں چلے گئے! اور اس نے سوچا کہ اب شبِ عاشورہ کتنی خاموش اور ویران گذرتی ہے۔ چلتے چلتے مرثیے کا وہ بول پھر اس کے ذہن میں گونجنے لگا۔ جب رات عبادت میں بسر کی شہ دیں نے۔

پھر اسے اس رات کے اور مرثیے اور نوحے یاد آنے لگے، اس کے کان جیسے بجنے لگے، مختلف بول، آوازیں اور دھنیں گڈ مڈ ہوکر ذہن میں گونجنے لگیں، لگا کہ وہ ان آوازوں میں بہتا جا رہا ہے، اس کا عالم کچھ وہ ہو چلا تھا جب رقت کے عین ہنگام میں ماتم کرتے کرتے اسے غش آجاتا اور منہ اور سینہ پر چھڑکے ہوئے کیوڑے کی مہک کے ساتھ کانوں میں ماتم اور نوحے اور تاشے کی مدھم آوازیں خلط ملط ہوکر اس طور آتیں جیسے وہ کسی دوسری دنیا میں پہنچ کر انہیں سن رہا ہو۔

اب ان آوازوں سے اس کا رواں رواں جھنجھنا رہا تھا، وہ ان آوازوں میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا، جیسے اس کی ذات انہیں آوازوں اور ان کے اِرد گرد بنے ہوئے منظروں اور کیفتوں کا مجموعہ ہو، جیسے اس کی ذات آگ برساتی دہکتی کربلا ہو، اور اس نے کربلا میں قدم رکھتے ہوئے سوچا کہ سب مجھی پر گزری ہے، بازو بھی میرے ہی قلم ہوئے ہیں اور زنجیریں بھی مجھے ہی پہنائی گئی ہیں، اور کربلا سے دمشق تک پیدل بھی مجھے ہی چلنا ہے، اور بیچ دشت میں دہ سر بسجود رہا تا آنکہ اس کی ریڑھ کی ہڈی بکھرنے لگی اور آنکھوں کے ڈلےباہر آنے لگے، اور اشکوں سے آراستہ پلک قریب ہوا کہ جھڑ جائیں اور خیموں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی، خیموں کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی اور ٹوٹی ہوئی طناب اور مردہ راکھ گزرے ہوئے کارواں کے نشان، تب اس نے سجدے سے سر اٹھایا اور قافلہ کے ہمراہ پر خار تپتی راہوں پر اتنی دور گیا کہ پاؤں اس کے ورم کر گئے اور تلوے لہو لہان ہوگئے اور ہڈیاں گرمی سے جل گئیں ’’دعا ہو رہی ہے۔‘‘ محمد عوض کربلائی نے آہستہ سے اس کا بازو ہلا دیا۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا، دعا پڑھنے والوں کی مختصر سی صف کربلا کے ایک گوشے میں کھڑی تھی، محمد عوض کربلائی کے سر میں کچھ خاک کچھ تنکے بکھرے ہوئے تھے، خاک سب کے سروں میں تھی، افضال حسین کے سر میں بھی، مولوی فرزند علی کے سر میں بھی، مولوی فرزند علی کی انگشت شہادت فضا میں بلند تھی اور دوسرے ہاتھ میں کتاب تھی جس سے وہ عربی میں دعا پڑھتے جاتے تھے، وہ اٹھ کر دعا پڑھنے والوں کی صف میں شامل ہوگیا۔

مأخذ : انتظار حسین کے سترہ افسانے

مصنف:انتظار حسین

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here