کہانی کی کہانی:’’ملازمین کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور ان کے استحصال کی کہانی ہے۔ سیٹھ چھنا مل اپنے منشی چیلا رام کو شدید گرمی میں دسیوں کام بتاتے ہیں۔ چیلا رام دن بھر لو کی شدت اور بھوک پیاس برداشت کرکے جب واپس لوٹتا ہے تو چھنا مل اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کے ایک دوست آواگون کے مسئلہ پر اظہار خیال کر رہے ہوتے ہیں۔ سیٹھ چھنا مل چیلا رام کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دیتے اور وہ اپنے گھر لوٹ آتا ہے۔گھر کے باہر وہ چارپائی پر لیٹ کر اپنے پڑوسی کو دیکھنے لگتا ہے جو اپنے گھوڑے کو چمکار کر پیار سے مالش کر رہا ہے۔ چیلا رام کی بیوی کئی مرتبہ کھانا کھانے کے لئے بلانے آتی ہے لیکن وہ مسلسل خاموش محو نظارہ رہتا ہے۔ شاید وہ آواگون کے مسئلہ پر غور کر رہا ہوتا ہے، شاید وہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کا اگلا جنم گھوڑے کی جون میں ہو۔‘‘
سیٹھ چھنامل کا منیم چیلا رام صبح سے دوپہر کے بارہ بجے تک کوٹھی میں بہی کھاتے اور لکھنے پڑھنے کا کام کیا کرتا۔ اس کے بعد وہ رقمیں اگاہنے چلا جاتا۔ جون کی ایک دوپہر کو وہ اپنا کپڑے کا تھیلا لئے، جس میں وہ کاغذات وغیرہ رکھا کرتا تھا، سیٹھ کے کمرے کے سامنے سے گزرا۔ سیٹھ اس وقت گاؤ تکیے سے لگے بیٹھے پیچوان پی رہے تھے۔ انہوں نے چق کے اندر سے چلا کر کہا، ’’اے منیم جی! دیکھنا مال گودام جانا نہ بھول جانا۔ اور بنک میں روپیہ بھی سب جمع ہو جائے۔ اور ہاں وہ رجسٹریاں بھی تو ضروری ہیں۔۔۔ نسخہ اور کتابوں کی فہرست تو تم نے رکھ ہی لی ہوگی؟‘‘ چیلا رام نے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ اور وہ روانہ ہو گیا۔
اس کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔ ہاتھ پیر ابھی مضبوط تھے۔ معلوم ہوتا تھا، جوانی میں صحت بہت اچھی ہوگی۔ اس کا لباس گرمی سردی ہر موسم میں قریب قریب ایک ہی وضع کا تھا۔ کھدر کا کرتا۔ موٹی ململ کی دھوتی۔ چارخانے کے کپڑے کا کوٹ۔ سرپر سیاہ کرسٹی ٹوپی۔ پاؤں میں نری کا جوتا۔ چونکہ اسے دن بھر چلتے پھرتے رہنا پڑتا تھا، اس لیے یہ جوتا بوٹ چپل وغیرہ کی نسبت زیادہ پائدار ثابت ہوا تھا۔ اس جوتے نے شروع شروع میں اس کے پیروں کو بہت تکلیف پہنچائی تھی۔ مگر جب اس نے اس کے ٹخنوں اور پیروں کی انگلیوں پر سیاہ سخت سخت گٹے ڈال دیے تو تکلیف رفع ہو گئی۔
علاوہ ازیں ایک پرانا چھاتا جس کی موٹھ ہاتھی دانت کی اور فیشن ایبل بنی ہوئی تھی، اس کے لباس کا جزو بن گیا تھا۔ یہ چھاتا در اصل سیٹھ چھنامل کے بڑے لڑکے کا تھا، جس نے بہت دن ہوئے اسے ردی کرکے پھینک دیا تھا۔ سیٹھ کی نظر پڑ گئی۔ اپنے ہاں اس کا کوئی مصرف نہ دیکھ کر انہوں نے اپنے منیم کو دے دیا۔ مگر چیلا رام کو اس چھاتے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔ پہلے تو شاید سخت گرمی کے دنوں میں اسے بار بار دور دور کے کاموں پر بھیجتے ہوئے سیٹھ کو کچھ ہچکچاہٹ ہوتی ہوگی، مگر چھاتے کے دان کے بعد ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں رہ گیا تھا۔
اس وقت سورج آسمان کے ٹھیک بیچ میں پہنچ گیا تھا۔ دیواروں کا سایہ گھٹتے گھٹتے اس قدر مختصر ہو گیا تھا کہ صرف ایک لکیر سی دکھائی دیتی تھی، جو بیچ بیچ میں ٹوٹتی ہوئی سڑک کے کنارے کنارے دور تک چلی گئی تھی۔ دھوپ کی تیزی اور شدت کا یہ حال تھا کہ آنکھیں خود بخود بند ہوئی جاتی تھیں۔ بند ہونے پر بھی پپوٹوں کے اندر سے اپنے اردگرد ایک سرخ سرخ اندھیرا سا گھومتا ہوا دکھائی دیتا رہتا۔ گو چیلا رام نےچھاتا تان رکھا تھا، مگر دھوپ چھاتے کے بوسیدہ کپڑے میں سے چھن چھن کر اس کے چہرے کی طرف یوں لپک رہی تھی جیسے کسی سرسامی کا گرم سانس۔
چیلا رام چھاتے کو ٹیڑھا کر کر کے اپنے سر اور سینے کو لو کے تھپیڑوں سے بچاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ کوٹھی سے کوئی دو سو قدم آگے نکل کر اس نے تھیلے کو چھاتے کی موٹھ میں لٹکا لیا، اور کوٹ کی جیب میں سے بیڑیوں کا بنڈل اور دیا سلائی کی ڈبیا نکالی، اور بیڑی سلگا کر سوچنے لگا کہ آج کے مختلف کاموں کو کس ترتیب سے انجام دوں کہ کم سے کم چلنا پڑے۔
اس روز اسے چھ اسامیوں سے رقمیں وصول کرنی تھیں۔ ان میں سے دو کے گھر تو زیادہ دور نہیں تھے۔ البتہ باقی چار شہر کے چار مختلف سروں پر رہتی تھیں۔ جب تک ان چھئوں سے روپیہ وصول نہ ہو جائے وہ بنک نہیں جا سکتا تھا اور بنک تین بجے کے بعد لین دین بند کر دیتا تھا۔ پھر بعض ضروری رجسٹریاں تھیں، جن کے متعلق سیٹھ نے تاکید کر رکھی تھی کہ انہیں آج ہی ڈاک میں بھیج دیا جائے۔ چونکہ ڈاک خانوں میں عموماً بھیڑ رہا کرتی ہے، اس لیے کم سے کم ایک گھنٹہ اس کے لیے چاہئے تھا۔ پھر اسے ریل کے مال گودام میں جانا تھا۔ گھنٹے سوا گھنٹے کا یہ کام بھی تھا۔ علاوہ ازیں سیٹھانی کے لیے نسخہ بھی بنوانا تھا۔ اور سیٹھ کے منجھلے لڑکے کے لیے جس نے چھٹی جماعت پاس کر لی تھی، کتابیں خریدنی تھیں۔
بھلا ہو چیلا رام کےنری کے جوتے کا۔ اس کے بیڑیوں کے بنڈل کا۔ اور ان پانی کی سبیلوں کا جنہیں کمیٹی نے بازاروں میں اور بعض نیک دل دکانداروں نے اپنی اپنی دکان کے پاس لگوا رکھا تھا کہ اس نے چھ بجتے بجتے سب کام نمٹا لیے۔ وہ سارے دارالسلطنت میں اس طرح گھوم گیا، جس طرح کوئی دور دراز ملک کا رہنے والا من چلا سیاح تھوڑے سے وقت میں کسی مشہور تاریخی شہر کے ایک ایک بازار کو دیکھنا اور ایک ایک سڑک پر سے گزرنا اپنے پر فرض کر لیتا ہے۔ جب لو زیادہ ستانے لگتی تو وہ دھیان بٹانے کے لیے بیڑی سلگا لیتا۔ جب بیڑی کے دھوئیں سے حلق سوکھ جاتا تو پیاؤ سے پانی پی لیتا۔ جب جوتے میں گرد بھر جاتی، یا وہ تپ اٹھتا تو کسی سائے والی جگہ میں کھڑے ہوکر جوتا جھاڑ لیتا اور اگر کوئی سرکاری نل قریب ہی ہوتا تو جوتا اتار کر پاؤں بھگو لیتا، جس طرح بعض دفعہ گاڑی بان گاڑی کے پہیوں کے گرم ہو جانے پر پانی ڈال کر انہیں ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔
جب وہ کوٹھی سے نکلا تھا تو اسے آج کے کام پہاڑ سے دکھائی دیتے تھے، مگر اب اسے خود حیرانی ہو رہی تھی کہ اس نے یہ سارے کام کس طرح انجام دے لیے اور پھر یہ کام سیٹھ کے حسب منشا خوش اسلوبی سے ہو گئے تھے۔ البتہ ایک آسامی نے اسے دیر تک ٹھہرائے رکھا تھا اور پھر رقم بھی نہیں دی تھی۔ اسی طرح نسخے بنوانے کے لیے بھی اسے کافی دیر کھڑا رہنا پڑا تھا۔ کیونکہ جس ڈسپنسری سے سیٹھ چھنا مل کا حساب تھا اس کا کمپونڈر چیلا رام کو پسند نہیں کرتا تھا، اور اس کا نسخہ عموماً سب سے آخر میں بنایا کرتا تھا۔ ہاں ڈاک خانے میں اسے اندازے سے بہت کم ٹھہرنا پڑا۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے ڈاک خانہ چنا ہی ایسا تھا، جس کے آس پاس آبادی نسبتاً کم تھی اور بہت سے لوگ اس کے وجود تک سے ناواقف تھے۔ مال گودام میں بھی اس کی جلد ہی خلاصی ہو گئی کیونکہ بلٹیاں ابھی نہیں آئی تھیں۔
جس وقت وہ سیٹھ کی کوٹھی کے قریب پہنچا، دھوپ میں وہ پہلے جیسی حدت تو نہیں رہی تھی، البتہ سڑکوں پر چھڑکاؤ کی وجہ سے ابخرات اٹھ رہے تھے، جس سے سخت حبس ہو گیا تھا۔ دور ہی سے اسے سیٹھ کے کمرے سے ہنسی ٹھٹھے کی آوازیں آتی ہوئی سنائی دیں، اور وہ دروازے کے باہر چق کے پاس پہنچ کر ٹھہر گیا۔ وہ ان آوازوں کو خوب پہچانتا تھا۔ ان میں ایک تو سیٹھ بانکے بہاری تھے، جو سیٹھ چھنا مل کے پڑوس میں ان ہی کی طرح مگر ذرا چھوٹے پیمانے پر ساہوکارہ کرتے تھے، اور سیٹھ کے دور کے رشتہ دار بھی ہوتے تھے۔ ان کا قاعدہ تھا کہ ہر روز چھ بجتے ہی اپنا کاروبار بند کر دیتے، اور سیٹھ چھنامل سے خوش گپیاں کرنے آموجود ہوتے۔ ان کے ساتھ عموماً ان کا ایک ٹھیکہ دار دوست بھی آیا کرتا۔ یہ شخص بڑا لطیفہ گو اور چرب زبان تھا، اور اپنی ان ہی خوبیوں کے باعث بڑے بڑے حکام تک اس کی رسائی تھی۔
علاوہ ازیں سیٹھ چھنامل کا بہنوئی جو ایک بےپروا اور آوارہ مزاج آدمی تھا اور جو دیوالیہ ہو چکا تھا، اور اب سیٹھ کے ٹکڑوں پر پڑا ہوا تھا، بڑے شوق سے ان خوش گپیوں میں حصہ لیا کرتا۔ خود سیٹھ جی بھی ان کے دلدادہ تھے، کیونکہ دن بھر اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھے یا سوتے رہنے سے وہ اکتا جاتے تھے۔ چنانچہ اس وقت کی یہ مختصر سی محفل گھر بیٹھے ان کے لیے تفریح کا سامان مہیا کر دیتی تھی۔ چیلا رام دو تین مرتبہ دروازے کے باہر کھڑے کھڑے کھانسا، مگر سیٹھ جی اپنے دوستوں کے ساتھ باتوں میں ایسے مشغول تھے کہ انہوں نے آواز نہ سنی۔ اس وقت سیٹھ بانکے بہاری کا ٹھیکہ دار دوست تناسخ کے مسئلے پر گفتگو کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا،
’’ہنسی مذاق کو چھوڑ کر آپ ذرا اس مسئلے پر بھی تو غور کیجیے۔ آج کل جس کو سنو یہی کہہ رہا ہے کہ اس کل جگ کے زمانے میں پاپ بہت بڑھ گیا ہےاور اب دنیا میں صرف مہاپاپی ہی بستے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو دنیا کی آبادی روز بروز کم ہوتی جانی چاہئے تھی، کیونکہ جب کوئی مہا پاپی مر جاتا ہے، تو آوا گون کی رو سے وہ دوبارہ انسان کے روپ میں جنم نہیں لیتا۔ بلکہ انسان سے گھٹیا درجے یعنی پشو پکشی کی جون دھارن کرتا ہے، اور اس طرح آج دنیا میں روز بروز انسان کم اور پشوپکشی زیادہ ہونے چاہئے تھے۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہے سیٹھ جی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کل جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ پاپ نہیں مہا پن ہے۔ اور جبھی تو ہم بار بار انسان کا روپ۔۔۔‘‘
اچانک ٹھیکہ دار کی نظر دروازے پر پڑی، اور وہ بات کرتے کرتے رک گیا اور پھر سب کی نظریں دروازے کی طرف اٹھ گئیں۔ چیلارام سے زیادہ دیر تک دروازے کے باہر کھڑا نہ رہا جا سکا تھا اور وہ ایک اضطراری حرکت کے ساتھ چق اٹھا کر اندر داخل ہو گیا تھا۔ اس وقت اس کی حالت بہت ابتر ہو رہی تھی۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں، اور صورت سے عجب ہونق پن سا برس رہا تھا۔ اس کی کڑبڑی مونچھیں، پلکیں اور بھویں گرد سے اٹی ہوئی تھیں اور آنکھیں ایسی سرخ ہو رہی تھیں گویا دکھنےآئی ہوں۔ دن بھر دھوپ اور لو کے تھپیڑے کھا کھا کر اس کے چہرے کی رنگت ایسی سیاہی مائل سرخ ہو گئی تھی، جیسے مرگھٹ کے اس مردے کی جس کے چہرے کے پاس لکڑیوں کی آنچ پہلے پہل پہنچنی شروع ہوئی ہو۔
اس کی کرسٹی ٹوپی کا کنارہ بھیگا ہوا تھا، اور اس کی بغلوں سے اس قدر پسینہ بہا تھا کہ کوٹ کی آستین چھاتی سے لے کر کہنیوں تک تر تھیں۔ علاوہ ازیں اس کی دھوتی پر جابجا کیچڑ کی چھینٹیں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ اس وقت اس قدر بےجان معلوم ہوتا تھا کہ ہر لحظہ یہ گمان ہوتا، اب گرا کہ اب گرا۔ یہ دیکھ کرکہ اس کے آنے سے گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے اور سب لوگ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں، وہ کچھ گھبرا سا گیا، مگر پھر اس نے آگے بڑھ کر تھیلا فرش پر رکھ دیا، اور اس میں سے کتابیں، سیٹھانی کا نسخہ، دوا کی شیشی، رجسٹری اور بنک کی رسیدیں اور دوسرے کاغذات وغیرہ نکال نکال کر سیٹھ کے سامنے رکھنے لگا۔ وہ بلٹیوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ سیٹھ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے اسے روک دیا اور کسی قدر ملائمت سے کہا، ’’منیم جی! اس وقت تو تم گھر جاؤ۔ صبح دیکھا جائےگا۔‘‘
چیلا رام کا گھر سیٹھ کی کوٹھی سے کوئی دو میل کے فاصلے پر تھا۔ جس وقت وہ گرتا پڑتا گھر پہنچا، خاصی شام ہو چکی تھی۔ گھر پہنچتے ہی اس نے دھوتی کے سوا سب کپڑے اتار ڈالے اور مکان کے باہر احاطہ میں نکل آیا۔ اس کے دروازے کے پاس دیوار کے سہارے ایک کھٹیا کھڑی تھی۔ اس نے کچھ نہیں دیکھا کہ یہ کس کی ہے۔ جھٹ وہیں بچھا اس پر بے سدھ ہو کر گر پڑا۔ شاید اس کی بیمار بیوی نے، جو چولھے کے پاس بیٹھی رسوئی بنا رہی تھی، اس سے کچھ کہا تھا۔ مگر اسے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ کیا کہا گیا۔ اس کی چھوٹی لڑکی آکر اس کی ٹانگوں سےلپٹ گئی تھی۔ شاید اس نے اسے درشتی سے پرے ہٹا دیا تھا، یا شاید وہ خود ہی سہم کر پرے ہٹ گئی تھی۔
پندرہ منٹ تک وہ آنکھیں بند کیے کھٹیا پر بےحس و حرکت لیٹا رہا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ اس کے حواس بجا ہونے شروع ہوئے، اور اس کے ساتھ ہی اسے اپنے جسم کے مختلف حصوں خصوصاً پنڈلیوں اور کمر میں اینٹھن اور میٹھا میٹھا سا درد محسوس ہونے لگا اور وہ آہستہ آہستہ کراہنے لگا۔ وہ کبھی اس کروٹ لیٹتا اور کبھی اس کروٹ۔ کبھی ٹانگوں کو اکڑا کر سخت کر لیتا اور پھر آہستہ سے انہیں چھوڑ دیتا۔ کبھی شانوں کو زور سے سکیڑ کر سر کو پیچھے ڈال دیتا، کبھی پنڈلیوں کو رانوں سے ملا کر بھینچ لیتا، کبھی ہاتھوں کو اندر کی طرف موڑتا، کبھی پیروں کے پنجوں کو پھیلا کر سیدھا کرتا۔ اور ان حرکات سے جب کبھی اس کا کوئی جوڑ خود بخود چیخ اٹھتا تو اسے بہت آرام محسوس ہوتا۔ یوں لوٹنے پوٹنے سے اس کی طبیعت اور بھی سنبھل گئی، اور اسے نیند آگئی۔ مگر وہ زیادہ دیر نہیں سویا تھا کہ اپنے سرہانے کچھ شور سن کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
اس کا ہم سایہ رولودن بھرتا نگا چلانے کے بعد واپس آ چکا تھا۔ تانگے میں سے گھوڑے کو کھول لیا گیا تھا اور زین اور ساز اتار کر صرف ایک رسی اس کے گلے میں ڈال دی گئی تھی، جسے رولو نے پکڑ رکھا تھا۔ اور ایک مالشیا کپڑے کی ایک گدی زور زور سے اس کی کمر اور پچھلی ٹانگوں پر رگڑ رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا، اس کام میں مالشئے کا کافی زور لگ رہا ہے، کیونکہ ہر رگڑ کے ساتھ اس کے منہ سے بے ساختہ ’’ہوں‘‘ نکل جاتی تھی۔ خود رولو کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا، جس سے وہ گھوڑے کی گردن ، بغلوں اور پیٹ پر سے پسینہ پونچھتا جاتا تھا۔ رسی کا جو حصہ گھوڑے کے گلے میں پڑا ہوا تھا، اس میں پیتل کے نکل کئے ہوئے چھوٹے چھوٹے گھنگھرو بندھے ہوئے تھے۔ گھوڑا بار بار پھنکارتا، اپنا سر بے چینی سے اوپر کو جھٹکتا اور ہر بار یہ گھنگھرو اندھیرے میں چاندی کی سی چمک دکھلاتے ہوئے زور سے بج اٹھتے۔ گھوڑا رہ رہ کر اپنی ا گلی ٹانگوں کے سم بھی زمین پر مار رہا تھا۔ کبھی کبھی تو وہ بھڑک کر زور زور سے ہنہنانے اور دولتیاں بھی جھاڑنے لگتا۔ ایسے موقع پر رولواسے چمکارتا اور کہتا، ’’بس بس۔ میرے بیٹے۔ میرے لعل۔‘‘
چیلا رام کچھ دیر تک دلچسپی سے یہ ماجرا دیکھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے کروٹ بدل لی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس کی بیوی نے کوٹھری میں سے چلا کر کہا، ’’بھوجن کر لو۔‘‘ چیلا رام نے کچھ جواب نہ دیا۔ آنکھیں بند کیے چپ چاپ پڑا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیوی نے اب کے دروازے میں کھڑے ہوکر کہا، ’’بھوجن کبھی کا تیار ہو چکا ہے۔ اب اندر آ جاؤ نا!‘‘
چیلا رام اب بھی خاموش رہا۔ وہ کیا سوچ رہا تھا؟ کیا وہ آواگون کے مسئلے پر غور کر رہا تھا؟ کیا وہ یہ چاہ رہا تھا کہ اب کے جب وہ مر جائے تو اس کا جنم گھوڑے کی جون میں ہو۔۔۔
مأخذ : کلیات غلام عباس
مصنف:غلام عباس