پولنگ بوتھ پربڑی بھیڑتھی، جیسے کسی فلم کاپریمئرہو۔ یہ لمباکیولگاتھا۔ پانچ سال پہلے بھی اسی طرح ہم نے لمبے لمبے کیولگائے تھے، جیسے ووٹ دینے نہیں سستااناج لینے جارہے ہوں۔ چہروں پر آس کی پرچھائیاں تھیں۔ کیولمبا سہی، پر کبھی تواپنی باری آئے گی۔ پھرکیاہے۔ وارے نیارے سمجھو۔ اپنے بھروسے کے آدمی ہیں۔ قسمت کی باگ ڈوراپنوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔ سارے دلدر دورہوجائیں گے۔
’’بائی دے بائی، اچھے توہو؟‘‘ میلی سی کاشٹہ باندھے ایک عورت نے پیلے پیلے دانت نکال کر میرا ہاتھ پکڑلیا۔
’’اوہوگنگابائی۔۔۔‘‘
’’رتی بائی، اوگنگا بائی دوسری تھی، مرگئی بے چاری۔‘‘
’’ارے۔۔۔ رے بے چاری۔۔۔‘‘ زن سے میراذہن پانچ سال پیچھے قلابازی کھاگیا۔
’’مالش کہ مٹھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مالش۔۔۔‘‘ رتی بائی نے آنکھ ماری، ’’سالی کوبہت منع بولا، پرنہیں سنا۔ تم کس کو دینگاووٹ بائی۔‘‘
’’تم کس کودوگی؟‘‘ ہم نے ایک دوسرے سے رسماً پوچھا۔
’’ہمارا جات والا کو، اپن کے گاؤں کاہے۔‘‘
’’پانچ سال ہوئے تب بھی تم نے اپنی جات والا کو دیا تھا ووٹ۔‘‘
’’ہائی بائی، پن وہ سالا کنڈم نکلا، کچھ نہیں کیا۔‘‘ رتی بائی نے منہ بسور کرکہا۔
’’اوریہ بھی تمہارا جات والا ہے۔‘‘
’’ہاں پن یہ ایک فرسٹ کلاس۔ ہاں۔ بائی دیکھنا اپن کاکھیت چھوٹ جائے گا۔‘‘
’’پھر تم گاؤں جاکر دھان کوٹا کروگی۔‘‘
’’ہاں بائی۔‘‘ رتی بائی نے اپنی چندھی آنکھیں پٹ پٹائیں۔
پانچ سال ہوئے، ہسپتال میں جب میری منی پیدا ہوئی تورتی بائی نے کہا تھا وہ اپنی جات والے کوووٹ دینے جارہی ہے۔ چوپاٹی پہ اس نے ان سے ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں وعدہ کیاتھا کہ اس کے ہاتھوں میں طاقت آتے ہی کایاپلٹ ہوجائے گی۔ دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ زندگی میں سے شہدٹپکنے لگے گا۔ آج، پانچ سال بعد، رتی بائی کی ساڑی پہلے سے بوسیدہ تھی۔ بالوں پر سفیدی بڑ ھ گئی تھی۔ آنکھوں کی وحشت دوچندہوگئی تھی۔ آج پھر چوپاٹی پرکیے ہوئے وعدوں کا سہارا لے کر وہ اپناووٹ دینے آئی تھی۔
’’بائی تم اس چھنال سے کائیکواتنابات کرتا۔‘‘ رتی بائی نے بیڈپین سرکاتے ہوئے اپنی نصیحتوں کادفتر کھول دیا۔
’’کیوں؟ کیا برائی ہے؟‘‘ میں نے بن کرپوچھا۔
’’ہم تمہارے کو بولانااوچھوکری ایک دم کھراب ہے۔ سال پکی بدماس۔‘‘ رتی بائی کی ڈیوٹی لگنے سے پہلے گنگا بائی نے بھی اپنی ڈیوٹی کے درمیان مجھے یہی رائے دی تھی کہ رتی بائی ایک دم لوفر ہے۔ اسپتال کی یہ دونوں آیائیں ہروقت کچرکچر لڑاکرتی تھیں۔ کبھی کبھی جھوٹم جھاٹاتک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ مجھے ان سے باتیں کرنے میں مزاآتاتھا۔
’’کیا وہ سالا سنکربھائی تھوڑی ہے، اس کا یارہے۔ سنگ سوتی ہے۔‘‘ گنگابائی نے بتایاتھا۔ رتی بائی کا میاں شولاپور کے پاس ایک گاؤں میں رہتاہے۔ تھوڑی سی زمین ہے۔ بس اسی سے چمٹا ہوا ہے۔ ساری فصل بیاج میں اٹھ جاتی ہے۔ تھوڑے سے روپئے اور رہ گئے ہیں، جوچندسالوں میں چک جائیں گے۔ پھر وہ اپنے بال بچوں کے پاس چلی جائے گی اور وہاں مزے سے دھان کوٹاکرے گی۔ گھرمیں مزے سے دھان کوٹنے کے خواب دونوں ایسے دیکھا کرتی تھیں جیسے کوئی پیرس کے خواب دیکھتاہو۔
’’مگر رتی بائی تم بمبئی میں پیسہ کمانے کیوں آگئیں؟ تمہارا میاں آجاتا تو ایک بات بھی تھی۔‘‘
’’ارے بائی وہ کیسے آتا؟ کھیت جوچلاتا۔ میرے سے کھیتی باڑی نہ سنبھلتی۔‘‘
’’اوربچوں کی دیکھ بھال کون کرتاہے؟‘‘
’’ہے ایک رانڈ میری۔‘‘ رتی بائی نے دوچار گالیاں ٹکائیں۔
’’دوسری شادی کرلی تمہارے میاں نے؟‘‘
’’اینہہ! سالادوسری کیاکرے گا، رکھیلی ہے۔‘‘
’’اور جوتمہارے پیچھے مالکن بن بیٹھی تو؟‘‘
’’کیسے بنے گی؟ مار مارکربھوسہ نہ بھردیں گے! بیاج نمٹ جائے، پیچھے چلے جائیں گے ہم۔‘‘
معلوم ہوا رتی بائی خوداپنی پسند کی ایک لاوارث عورت میاں اوربچوں کی خبرگیری پرچھوڑآئی ہیں۔ جب کھیت چھوٹ جائے گا توپھر گھرہستن بن کردھان کوٹنے چلی جائیں گی۔ رکھیلی کاکیاہوگا؟ اسے کوئی دوسرا میاں مل جائے گا، جس کی بیوی بمبئی میں پیسہ کمانے آئی ہوئی ہے اور بال بچے دیکھنے والا کوئی نہیں۔
’’اس عورت کامیاں نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہے نہیں تو۔‘‘
’’تووہ اس کے پاس نہیں رہتی؟‘‘
’’اس کے کھیت خردبردہوگئے۔ اس کامیاں کسان مزدور ہے مگرسال میں آٹھ مہینے چوری چکاری کرتاہے یابڑے شہروں کی طرف نکل جاتاہے، بھیک مانگ کر دن بتادیتاہے۔‘‘
’’اور بچے؟‘‘
’’ہیں نہیں تو۔۔۔ چاربچے ہیں یا تھے۔ ایک توبمبئی میں ہی کھیل رل گیا۔ کچھ پتانہیں کہاں گیا؟ چھوکریاں بھاگ گئیں، چھوٹا بچہ ساتھ رہتاہے۔‘‘
’’تم کتنا روپیہ گاؤں بھیجتی ہو رتی بائی؟‘‘
’’اکھاچالیس۔‘‘
’’تمہاری گذر کیسے ہوتی ہے پھر؟‘‘
’’ہمارا بھائی سنبھالتا ہے۔ وہی بھائی جس کے بارے میں گنگا بائی کہہ رہی تھیں کہ ان کا فرینڈ ہے۔‘‘
’’تمہارے بھائی کے بال بچے؟‘‘
’’ہیں نہیں تو۔‘‘
’’کہاں؟ گاؤں میں؟‘‘
’’ہاں پونا کے پاس ایک جگہ ہے۔ اس کا بڑا بھائی کھیتی سنبھالتاہے۔‘‘
’’یعنی تمہار ا بڑا بھائی۔‘‘ میں نے چڑانے کوپوچھا۔
’’دھت۔ او ہمارا بھائی کائے کوہوتا۔ کیابائی تم ہمارے کوسالاچھنال سمجھتا ہے۔ ہم گنگا بائی سری کانہیں ہے۔ معلوم مہینے میں چاردن سے جاستی کسی کے ساتھ نہیں پٹتی۔ بائی کوئی پھٹاپرانا کپڑا ہوتو اس بدماس کومت دینا، میرے کو دینا ہاں!‘‘
’’رتی بائی۔‘‘
’’ہاں بائی۔‘‘
’’تمہارا بھائی، تم کو مارتاہے؟‘‘
’’سالاگنگا بائی بولاہوئیں گا۔ نہیں بائی جاستی نہیں مارتا۔ کبھی کبھی پیے لاہوتاتومارتا۔ سوبائی لاڈبھی کرتانا۔‘‘
’’لاڈ بھی کرتاہے؟‘‘
’’کرتا نہیں تو۔‘‘
’’مگررتی بائی تم اسے بھائی کیوں کہتی ہوکمبخت کو؟‘‘
رتی بائی ہنسنے لگیں، ’’بائی ہمارے میں ایسا نیچ بولتے۔‘‘
’’مگررتی بائی چالیس روپیہ پگارملتی ہے توپھردھندا کاہے کوکرتی ہو؟‘‘
’’پن کیسے پورا پڑے۔ پانچ روپیہ کھولی کا بھاڑا کے تین روپیہ لالہ کا۔‘‘
’’یہ لالہ کوکا ہے کودیتی ہے۔‘‘
’’اکھاچالی کاعورت لوگ دیتاہے، نہیں تونکال دیوے۔‘‘
’’دھندا جو کرتی ہو اس لیے؟‘‘
’’ہاں بائی۔‘‘ رتی بائی کچھ جھینپ گئیں۔
’’اورتمہارا بھائی کیا کرتاہے؟‘‘
’’بائی بولنے کا بات نئیں، ہاں دارو کا دھندا بڑا کھوٹادھندا ہے۔ جوپولیس کوپیسہ نہیں بھرے سوتڑی پار یعنی بمبئی سے شہربدر۔‘‘
’’ہاں بائی۔‘‘
’’اتنے میں نرس نے آکررتی بائی کوڈانٹا، ‘‘ کیابیٹھی باتیں مٹھار رہی ہے۔ چل جانمبر ۱۰ میں۔ بیڈپین پڑا ہے۔‘‘ رتن بائی اپنے میلے دانت نکوستی بھاگیں۔
’’آپ کیا ان لوفر عورتوں سے گھنٹوں باتیں کیاکرتی ہیں۔ آپ کوآرام کی ضرورت ہے ورنہ پھر بلیڈنگ شروع ہوجائے گی۔‘‘ نرس نے بچی کوپنگوڑے سے نکال لیا اور چلی گئی۔
شام کوگنگا بائی کی ڈیوٹی تھی۔ بغیر گھنٹی بجائے خودہی آن دھمکیں۔
’’بیڈپین مانگتا بائی۔‘‘
’’نہیں گنگا بائی، بیٹھو۔‘‘
’’رانڈ ششٹربوم مارے گی۔ کیا بولتی تھی تمہارے کو؟‘‘
’’کون سسٹر؟ بولتی تھی آرام کرو۔‘‘
’’ششٹر نہیں، آؤ رتی بائی۔‘‘
’’کہتی تھی پوپٹ لال گنگا بائی کوخوب مارتا ہے۔‘‘ میں نے چھیڑا۔
’’ارے اوسالا ہمارے کو کیا مارے گا۔‘‘ گنگا بائی میرے پاؤں پرہولے ہولے مکیاں مارنے لگیں۔
’’بائی میرے کوجوتا چپل دینا کوبولاتھا، دیونا۔‘‘
’’لے جاؤ۔ مگریہ توبتاؤ، تمہارے میاں کی چٹھی آئی؟‘‘
’’آئی نہیں تو۔‘‘ گنگا بائی نے فورا چپل پرہاتھ مارا، ‘‘ سالاششسٹر نے دیکھ لیا توبوم مارے گی۔ بوت کھٹ کھٹ کرتی ہے۔‘‘
’’گنگا بائی۔‘‘
’’ہاں بائی۔‘‘
’’تم اپنے گاؤں کب واپس جاؤگی؟‘‘
گنگا کی چمکیلی آنکھیں دورکھیتوں کی ہریالی میں کھوگئیں۔ اس نے ٹھنڈی سا نس بھری اور بڑی دھیمی آوازمیں بولی، ’’رام کرے اب کے فصل دھڑے کی ہوجاوے، بس بائی پھر اپن چلاجائے گا۔ گئے سال باڑآگئی، سارا دھان کچراہوگیا۔‘‘
’’گنگابائی تمہارے میاں کوتمہارے دوستوں کے بارے میں پتاہے؟‘‘ میں نے کریدا۔
’’کیا بات کرتاتم بائی۔۔۔‘‘ گنگا بائی گم سم ہوگئی۔ اسے کچھ جھینپ سی معلوم ہورہی تھی۔ انہوں نے فورا بات پلٹی، ’’بائی تمہارے کودوچھوکری ہوگیا، سیٹھ گسہ کرے گا نا؟‘‘
’’کون سیٹھ؟‘‘ میں نے چکراکرپوچھا۔
’’تمہارا پتی، دوسری سادی بنالے گا تو؟‘‘
’’وہ دوسرا شادی بنائے گا توہم بھی دوسرا شادی بنائے گا۔‘‘
تمہارے لوگ میں ایسا ہوتا! اے بائی ہم سمجھا تم کوئی اونچاجات کا ہے۔‘‘
مجھے ایسا معلوم ہواگنگابائی اونچاجات والا کامذاق اڑارہی ہیں۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ گنگا بائی سمجھ جائیں مگر ان کا خیال تھاکہ دوسری لڑکی کی پیدائش پرضرورمیری شامت آئے گی۔ اگرسیٹھ میری ٹھکائی نہ کرے توسخت تھرڈکلاس سیٹھ ہے۔
اسپتا ل میں پڑے رہناقیدتنہائی سے کچھ کم نہیں۔ دوگھنٹے شام کوملنے جلنے والے آجاتے، باقی وقت گنگا بائی اوررتی بائی سے گپیں مارنے میں کٹ جاتا۔ اگراسپتال میں یہ دونوں نہ ہوتیں تو شایددم ٹوٹ جاتا۔ دونوں معمولی سی رشوت لے کرایک دوسرے کے بار ے میں الٹی سیدھی باتیں بتایاکرتیں۔ ایک دن میں نے رتی بائی سے پوچھا، ’’رتی بائی تم مل میں کام کرتی تھیں، کیوں چھوڑدیا؟‘‘
’’ارے بائی سالا مل میں بڑالفڑاتھا۔‘‘
’’کاہے کالفڑا؟
’’اے بائی ایک توکام ایک دم بھاری، یہ بھی چلتا، پربائی دومہینہ کے بعدچھٹی کردیتے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’دوسرا بائی لوگ کورکھتے۔‘‘
’’بھئی وہ کیوں؟‘‘
’’کارن یہ کہ اگر پکاچھ مہینہ ہوجائے توفیکٹری لاجولاگوہوجاوے۔‘‘
اوہو سمجھی۔ یعنی ہردوسرے تیسرے مہینے نیااسٹاف بدلتارہتاہے۔ اگرمستقل ہوجائے ایک کاریگر توفیکٹری کے مطابق اسے بیماری کی چھٹی، زچگی کی چھٹی لینے کا حق مل جاتاہے، اس لیے ہردومہینے کے بعدادل بدل کرد ی جاتی ہے۔ سال میں ایک مزدور کی مشکل سے چار مہینے آمدنی ہوتی ہے۔ باقی کے دن گاؤں واپس لوٹ جاتی ہیں۔ جن کی اتنی حیثیت نہیں، وہ دوسری ملوں کے چکرکاٹتی ہیں۔ بعض سڑی گلی بھاجی ترکاری کی ڈھیریاں لگاکر فٹ پاتھ پربیٹھ جاتی ہیں۔ فٹ پاتھ پراپنی اپنی جگہ کے لیے خوب گالی گلوچ ہوتی ہے۔
بغیرلائسنس کے بیچتی ہیں، اس لیے کچھ نکڑ کے سپاہی کوکھلاناپڑتاہے۔ اس پربھی کبھی کوئی ان جانا افسرآجاتاہے۔ بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ کچھ پکڑی جاتی ہیں اور واویلا کرتی ہیں۔ پولیس تھانہ لے جائی جاتی ہیں۔ مطلع صاف ہوتے ہی پھر چیتھڑا بچھاکر دکان سجالیتی ہیں۔ کچھ اور بھی چالاک ہوتی ہیں۔ جھولی میں چارچھ نیبو، دوچاربھٹے پکڑے بازار میں ایسے گھومتی ہیں جیسے خودخریدار ہیں۔ مگر پاس سے گذرنے والے سے چپکے سے کہتی ہیں، ’لوبھیا بھٹالیو، ایک ایک آنہ۔ ‘ اوربکری ہوجاتی ہے۔
ان سے ترکاری خریدنا گویاہیضے کی پڑیاں خریدناہے۔ جوذرا کم خوش نصیب ہوتی ہیں وہ بھیک مانگنے لگتی ہیں۔ دوڑتے بھاگتے دھندا بھی کرتی جاتی ہیں۔ اپنی دانست میں سولہ سنگھار کیے منہ میں بیڑا دبائے یہ لوگ نیم تاریک ریلوے اسٹیشن کے آس پاس ٹہلاکرتی ہیں۔ گاہک آتاہے، کچھ اشارے کنائے ہوتے ہیں۔ سوداپٹ جاتاہے۔ یہ گاہک عموماً اترپردیش کے گھرچھوڑکر آئے ہوئے دودھ والے یابے گھر بے در مزدور ہوتے ہیں، جن کی بیویاں گاؤں میں ہوتی ہیں یاازلی کنوارے جن کاگھر باربھی گندی گلیاں اورفٹ پاتھ ہیں۔
صبح گنگا بائی اوررتی بائی میں باقاعدہ برآمدے میں فری اسٹائل کشتی ٹھن گئی۔ رتی بائی نے گنگا بائی کا جوڑا کھسوٹ ڈالا اور اس کے جواب میں گنگا بائی نے رتی بائی کا منگل سوتر توڑڈالا۔ منگل سوتر۔۔۔ کالی پوتھ کا باریک سا کنٹھا۔۔۔ رتی بائی کے سہاگ کی نشانی۔ رتی بائی ایسے بھوں بھوں کرکے روئیں جیسے انہیں بیوہ کردیاہو۔ لڑائی کی بنیادروئی کے ٹکڑے تھے جومریضوں کے زخموں کی رطوبت پونچھ کرپھینکے جاتے ہیں، یازچاؤں کے استعمال کی روئی۔ میونسپلٹی کا حکم ہے کہ یہ روئی احتیاط سے جلادی جائے مگر معلوم ہوارتی بائی اورگنگا بائی چپکے سے یہ روئی نکال کردھوکر، پوٹلی باندھ کرلے جایاکرتی تھیں۔ چونکہ آج کل تعلقات کچھ زیادہ کشیدہ تھے، گنگابائی نے ہیڈ سے شکایت کردی۔ رتی بائی نے گالیاں دیں جوہاتھا پائی میں تبدیل ہوگئیں۔ دونوں نکال دی جاتیں مگر ہاتھ پاؤں جوڑے توہیڈنے بات دبادی۔
رتی بائی ذرا عمر والی اوربھینس ہی تھیں۔ گنگا بائی نے ان کی خوب ٹھکائی کی۔ دوپہر کوسوجی ہوئی ناک لیے بیڈپین رکھنے آئیں تومیں نے پوچھا، ’’رتی بائی اس گندی روئی کاکیا کرتی ہو؟‘‘
’’دھوکے سکھالیتے ہیں۔ ایک دم صاف ہوجاتی ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھرروئی والے کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں۔‘‘
’’کون لیتاہے یہ جراثیم بھری روئی؟‘‘
’’میٹرس والا، جوصاحب لوگ کافرنیچر کاگدا بناتاہے۔‘‘
اف! میرے جسم پرسوئیاں کھڑی ہوگئیں۔ ایک دفعہ میں نے بیت کے صوفے کی روئی دھنکوانے کو نکلوائی توکالی سیاہ۔ تو وہ یہی زخموں کی روئی تھی۔ اللہ! میری بچی کا گدا بھی ایسی روئی کا ہے۔ میری پھول سی بچی اوریہ جراثیم کے ڈھیر۔ ہائے گنگا بائی تمہیں خدا سمجھے!
آج چونکہ جوتاچلاتھا، رتی بائی بھری بیٹھی تھیں۔ گنگا بائی چونکہ ذرانسبتًا جوان تھیں، رتی بائی انہیں اپنے سے زیادہ گناہگار سمجھتی تھیں۔ کچھ دن پہلے سے انہوں نے رتی بائی کاخاصا مستقل گاہک بھی توڑلیاتھا۔ وہ تمام پیٹ جوگنگا بائی وقتا فوقتا ضائع کراتی رہی تھیں، نالے میں جوجیتا جاگتا بچہ چھوڑآئی تھیں، جوآنول نال منہ پرڈال دینے کے بعد بھی سسکتارہا۔ صبح نالے کے پاس ایک خلقت جمع تھی۔ اگررتی بائی چاہتی توصاف پکڑادیتی گنگا کو، مگراس راز کو اپنے سینے میں چھپائے رکھا اور گنگا بائی کا دیدہ دیکھو، فٹ پاتھ پر بیٹھی کچے بیر اورامرودکی ڈھیریاں بیچتی رہی۔
’’رتی بائی کوئی گڑبڑسڑبڑہوجاتی ہے اس دوستی میں توتم ہسپتال کیوں نہیں چلی جاتیں؟‘‘
’’کائے کوجاوے اسپتال؟ ہمارے میں بہت بائی لوگ ہے، ڈاکٹر کامافک، ایک دم فسٹ کلاس۔‘‘
’’دوائی دیتی ہیں کوئی؟‘‘
’’اورکیا، فسٹ کلاس دوائی دیتی، مٹھی بھی چلتی ہے پن مالش ایک دم اچھی۔‘‘
’’یہ مٹھی اورمالش، کیابلاہوتی ہے؟‘‘
’’بائی تم نہیں سمجھے گا۔‘‘ رتی بائی ذرا شرماکے ہنسنے لگیں۔
میرے ڈسٹنگ پاؤڈر کے ڈبے پروہ کئی دن سے منڈلارہی تھیں۔ جب میرے لگاتیں، ذراسا ہتھیلی پر ڈال کراپنے کلوں پر رگڑلیتیں۔ میں نے سوچا ان کا منہ کھلوانے کے لیے یہ ڈبہ کافی ہوگا۔ میں نے ڈبہ پیش کیاتو بوکھلاگئیں۔
’’نہیں بائی ششٹرمارڈالے گی۔‘‘
’’نہیں مارے گی۔ میں اس سے کہہ دوں گی مجھے اس کی بوپسندنہیں۔‘‘
’’چہ۔ ارے کیاایک دم فسٹ کلاس باس مارتاہے۔ ارے بھائی تمہارا تومستک پھریلا ہے۔‘‘
بڑے اصرار کے بعدرتی بائی نے مجھے مالش اورمٹھی کی تفصیل بتائی۔ ابتدائی دنوں میں مالش کارگرہوتی ہے۔ فسٹ کلاس ڈاکٹرکامافک۔ ’’بائی‘‘ مریضہ کوزمین پرلٹاکرچھت سے لٹکتی ہوئی رسی یا کسی لاٹھی کے سہارے اس کے پیٹ پرکھڑی ہوکرخوب کھوندتی ہے۔ یہاں تک کہ آپریشن ہوجاتاہے۔ یااسے دیوارکے سہارے کھڑا کرکے بائی پہلے اپنے سرمیں خوب کنگھی کرکے کس کے جوڑا باندھ لیتی ہے۔ پھرچلوکڑواتیل سرپرڈال کرمریضہ کے پیروں کومینڈھے کی طرح ٹکراتی ہے۔ سخت جان محنت مزدوری کرنے والی بعض نوجوان عورتوں پر اس کا بھی کبھی کبھی کچھ اثر نہیں ہوتا، تب مٹھی کی نوبت آتی ہے۔ بے دھلے گندے میل بھرے ناخنوں والے ہاتھ کوتیل میں ڈبوکرجسم میں سے دھڑکتی ہوئی جان کو توڑکرنکال لیاجاتاہے!
عموما ًآپریشن پہلے وارمیں کامیا ب ہوجاتاہے۔ بائی اناڑی ہوتوکبھی صرف ایک ہاتھ ٹوٹ کر آجاتاہے، کبھی گردن آتی ہے، کبھی جسم کا وہ حصہ بھی گھسیٹا چلاآتاہے جسے اندر ہی رہناتھا۔
مالش سے بہت زیادہ موتیں نہیں ہوتیں۔ ہاں عموماًمریضہ مختلف امراض کاشکارہوجاتی ہے۔ جسم جگہ بے جگہ سوج جاتاہے۔ مستقل گھاؤ بن جاتے ہیں جورستے رہتے ہیں۔ بخاررہنے لگتا ہے اورپھر اللہ کی دی ہوئی موت بھی آنے والے کوآہی جاتی ہے مٹھی سخت نازک موقعوں پر استعمال کی جاتی ہے۔۔۔ جان پرکھیل کراورعموما ًبائی لوگ جان پرکھیل جاتی ہیں۔ جوبچ رہتی ہیں، کچھ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتیں، کچھ چندسال گھسٹ کرختم ہوجاتی ہیں۔
اوررتی بائی نے کہا ہمیں سزا ہے ان بدقماش عورتوں کی۔ مرنا تو ہے چاہیے ان کو۔
مجھے بڑے زور سے قے ہوئی اور رتی بائی جوچٹخارے لے لے کرسنارہی تھیں، بوکھلاکربھاگیں۔ سنسان خاموش ہسپتال میں مجھے وحشت ہونے لگی۔ یا خدا انسان کوجنم دینے کی اتنی بھیانک سزا۔ میں نے غنودگی میں ڈوبتے ہوئے سوچا۔
خوف سے میرے حلق میں کانٹے پڑگئے۔ رتی بائی کی کھینچی ہوئی تصویروں میں تخیل نے رنگ بھرا، پھر جان ڈال دی۔ کھڑکی کے پردے کاسایہ دیوار پر ہل رہاتھا۔ دیکھتے دیکھتے سایہ گنگا بائی کی مالش زدہ، خون میں نہائی ہوئی لاش کی طرح تڑپنے لگا۔ ایک بھیانک میلے ناخنوں والاآہنی شکنجہ دماغ میں مٹھی بن کراترگیا۔ ایک وار میں ننھی ننھی انگلیاں، ڈھلکی ہوئی گردن خون میں غلطاں وپیچاں۔ میرا دل ودماغ! میں نے چیخناچاہا، کسی کوپکارنا چاہا مگرحلق سے آوازنہ نکلی۔ میں نے گھنٹی کا سوئچ دبانے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگرجنبش نہ ہوئی۔
اسپتال کی خاموش فضا میں جیسے کسی مقتول کی چیخیں یکایک گونج اٹھیں۔ یہ چیخیں میرے کمرے سے آتی تھیں، جنہیں میں نے نہیں سنا۔ میں نے وہ بھی نہیں سنا جومیری زبان سے ان جانے میں نکل رہا تھا۔
’’کوئی برا خواب دیکھا ہوگا۔‘‘ نرس نے مجھے مارفیاکاانجکشن دے دیا۔ میں نے بہت کہناچاہا، ‘‘ نرس مجھے مارفیانہ دو۔ وہ دیکھو سامنے گنگا بائی کی مالش زدہ، خون میں نہائی لاش صلیب پر چڑھی تڑپ رہی ہے۔ اس کی چیخیں میرے دماغ میں پیچ کش کی طرح دھنستی چلی جارہی ہیں۔ دورکہیں نالے میں دم توڑتے ہوئے بچے کی سسکیاں ہتھوڑے کی ضربوں کی طرح میرے دل پرپڑرہی ہیں۔ میرے اعصاب پرمارفیا کاپردہ نہ ڈالو۔ رتی بائی کو پولنگ بوتھ جاناہے۔ نئے منسٹر اس کی جات والے ہیں۔ اب بیاج چک جائے گا اورمزے سے دھان کوٹے گی۔ یہ نیند کی چادرمیرے دماغ پر سے سرکادو۔ مجھے جاگنے دو۔ گنگا بائی کے جیتے جیتے خون کے دھبے سفید چادرپر پھیلتے جارہے ہیں۔ مجھے جاگنے دو۔‘‘
میزکے سامنے بیٹھے ہوئے کلرک نماشخص نے میرے بائیں ہاتھ کی انگلی پرنیلی روشنائی کا ٹیکہ لگایاتو میں جاگ پڑی۔
’’ہمارا جات والے کے ڈبے میں ڈالنا۔‘‘ رتی بائی نے مجھے ہدایت کی۔
رتی بائی کے جات والے کا ڈبہ۔۔۔ ایک لحیم شحیم مٹھی بن کر میرے دل ودماغ سے ٹکرایا اور میں نے اپنی پرچی اس ڈبے میں نہیں ڈالی۔
مصنف:عصمت چغتائی