چوں کہ میں صحافت کے پیشے سے متعلق ہوں، اس لیے میں نے کہانی لکھنے کے ’گر‘ بھی سیکھ لیے ہیں۔ چناں چہ ابھی حال ہی میں پیش آئے ہوئے واقعات کو میں کہانی کی سی ترتیب سے لکھنے کی کوشش کروں گا۔ یہ معذرتی بیان نہیں، بلکہ اعتراف ہے اس حقیقت کا کہ بہت ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کہانی کا سا لطف نہ آئے بلکہ پڑھنے کے بعد آپ کو افسوس ہو کہ یہ تحریر آخر آپ نے کیوں پڑھی؟ بہرحال سنیے!
اسکول کے زمانے کے بعد دوستوں کا ساتھ کالج میں بھی رہا۔ مگر کالج کی تعلیم سے فارغ ہوکر ہم بکھر گئے۔ اس کے باوجود جب کسی تقریب میں ہماری ملاقات ہوجایا کرتی تھی تو ہم پرانے دنوں کو شدت سے یاد کرلیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک تقریب میں اس سے ملنے کااتفاق ہوا۔ سمندر کے کنارے واقع وسیع لان پر شامیانہ لگاہوا تھا۔ دور دور تک رنگ و نور کو سلیقے اور ترتیب سے بکھیر دیا گیا تھا۔ امیرانہ ٹھاٹھ باٹ سے مہمانوں کی تواضع کی جارہی تھی۔ ایک میز پر وہ مجھے کئی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا نظر آیا۔ اس نے نہایت قیمتی پوشاک پہن رکھی تھی۔ اس کی کلائی پر بندھی گھڑی اور انگوٹھیوں میں جڑے ہوئے نگینے بیش قیمت تھے۔ وہ دور ہی سے مجھے دیکھ کر پہچان گیا اور اپنی جگہ پر کھڑے ہوکر اس نے دونوں بازو پھیلا لیے اور کہا، ’’کہاں ہو تم؟ بالکل نہیں بدلے۔ کیا حسین اتفاق ہے کہ تم سے ملاقات ہوگئی۔‘‘
معلوم ہوا کہ وہ سول انجینئرنگ اور آرکی ٹیکچر کی دو ڈگریاں لے کر پل سازی، عمارت سازی اور نہروں کے جال پھیلانے کے پیشے سے متعلق ہوگیا ہے اور اس کا شمار ریاست کے نہایت ہی معزز اور مقتدر لوگوں میں ہونے لگا ہے۔
ملاقات کے ہفتہ دس دن بعد میں اس کی دعوت پر اس پہاڑی مقام پر چلاآیا تھا جو شہر سے چار پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور وہاں بذریعہ کار یا ہیلی کاپٹر ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ اس مقام کااس نے اچھا سا نام رکھا تھا، جو اس کے اپنے خاندانی نام سے مشتق تھا۔
اس علاقے میں پہنچنے پر مجھے احساس ہوا کہ اس کی کوٹھی تک پہنچنے کا راستہ دشوار گزار اور پیچیدہ ہے۔ تین تو اونچے اونچے آہنی دروازے تھے اور ہر دروازے پر مسلح محافظ ادب سے تمام تفصیل معلوم کرلینے کے بعد اور اس تفصیل سے آگے کسی کو واکی ٹاکی پر باخبر کردینے کے بعد ہی وہ خود کار دروازے کھولتے تھے۔ آخری دروازے سے جب میں کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ کوٹھی کی تعمیر کسی لارڈ کے محل سرا کی طرح گوتھک طرز پر کی گئی ہے۔ کوٹھی کے سامنے وسیع لان تھا، جس کے کنارے کنارے سروکے درخت لگادیے گئے تھے۔ ان کو دیکھ کر محسوس یہ ہوتا تھاکہ وہ مجھ سے کہہ رہے ہوں کہ چپ کی انگلی لبوں پر رکھ لو۔
لان کے ہر طرف بڑی ترتیب اور توازن سے پھولوں کے تختوں کوآراستہ کیا گیا تھا۔ عین وسط میں ایک فوارہ چل رہاتھا اور اس جوش سے کہ پانی کی پھوار اس کے اطراف اگے ہوئے رنگا رنگ پھولوں پر پڑ رہی تھی۔ ان گھاس کے قطعوں کے درمیان موٹر کی رہ گزر بنائی گئی تھی۔ میں اس راہ سے کوٹھی کی برساتی (Portico) تک جاپہنچا۔ ایک دراز قد دربان نے قاعدے سے سلام کیا اور کار کا دروازہ کھول کر ایک جانب ہوگیا۔ میں نے کار کی چابیاں اس کے حوالے کردیں۔ شہر کے بڑے ہوٹلوں کے طریقے کے مطابق آپ کی کار کو پارک کرنے کا کام انہیں کے ذمے ہوتا ہے۔
جس اثناء میں میں کوٹھی کے اونچے صدر دروازے سے اندر داخل ہوا، وہ میری کار لے جاچکاتھا۔ دروازے کے سامنے کسی قدر کشادہ اور بڑا ہی خوشنما ہال تھا، جس کے سنگ مرمر کے فرش نے اسے تقدس اور پاکیزگی عطا کردی تھی۔ وسط میں ایرانی قالین بچھا تھا اور جو فرنیچر تھا وہ چپ اینڈ ڈیل (Chip & Dale) کاتھا۔ اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ انگلستان ہی سے منگوایا گیا تھا۔ وہ ایک دبیز صوفے پر بیٹھا سگار پیتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ اور حسب سابق مجھے گلے لگاتے ہوئے بولا، ’’خوش آمدید۔‘‘
میں نے اسے مبارک باد دیتے ہوئے اس کی کوٹھی کی تعریف کی اور آبادی سے دورایسے غیرآباد مقام پر تن تنہا رہنے کے انداز کو بھی سراہا۔ اس نے بتایا کہ اس کے دو لڑکے ہیں اور دونوں نے امریکہ میں کمپیوٹر سافٹ ویر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرلینے کے بعد کیلی فورنیا میں بودوباش اختیار کرلی ہے۔ ان کی ماں اپنے بیٹوں کے ساتھ امریکہ میں ہی رہتی ہے۔ سال میں مہینے بھر کے لیے تینوں اس سے ملنے یہاں چلے آتے ہیں۔ جب اس کا دل تنہا رہتے رہتے گھبراجاتا ہے تو یہ ان سے ملنے امریکہ چلا جاتا ہے۔
سینٹر ٹیبل پر انواع و اقسام کے پھل اور کئی قسم کے مشروب رکھے ہوئے تھے۔ اس کے اشارے پر دور کونے میں کھڑے باوردی خادم قریب آئے اور اس نے مجھ سے پوچھ کر انار کا شربت پیش کرنے کو کہا۔ چند منٹوں میں انہوں نے شربت کٹ گلاس کے پیمانے میں لاکر میرے سامنے رکھ دیا۔
نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا واقعہ ایک دن پہلے ہی پیش آچکا تھا۔ ہم اس کے متعلق تبادلہ خیال کرتے رہے۔ وہ دہشت گردوں کے اس حملے سے سخت برہم تھا اور بار بار انہیں وحشی، انسان دشمن، بربریت پسند جیسے مذموم القاب سے نواز رہا تھا۔ میرا مطمح نظر اس سے مختلف تھا۔ میں نے اس واقعے کی شدید مذمت کردی تھی مگر اس کے سامنے یہ مسئلہ بھی رکھا تھا کہ کسی شخص کے ایسی دہشت گردانہ کارروائی کرنے کا آخر کیا سبب ہے؟ وہ کن حالات میں اس روش کو اختیار کرتا ہے؟ کیا جو سبب اپنی تخریب کاری کاوہ بتاتاہے، قطعی بے بنیاد اور بے اصل ہے، یا وہ ایک جنوین اور کھرے سبب کو اپنی زندگی کامقصد بناکر اپنے سر پر کفن باندھ کر اسے حاصل کرنے کاجتن کرتا ہے۔
اس نے کہا کہ، ’’قدرت نے بعض کوبعض لوگوں پر ترجیح ہی نہیں دی ہے بلکہ افضلیت بھی عطا کی ہے، چنانچہ جو اشخاص عام انسان کی ذہانت یاقابلیت سے پرے واقع ہوئے ہیں، ان کا ان تمام انسانوں پر مکمل تصرف حاصل کرلینا عمل ارتقاء کا منطقی ثمر ہے۔ اس نسبت سے پختہ عزم اور اعلی قوت رکھنے والوں کو تمام تر اختیارات اور آقا نہ مراعات کا ملنا از حد ضروری ہے۔‘‘
میں اس کے خیالات جان کر تھوڑا سا جھجک گیا۔ کیوں کہ وہ نطشے کے سوپر مین کا تصور پیش کر رہا تھا جو بگڑی ہوئی شکل میں فسطائیت کی صورت اختیار کرلیتا ہے، پھر اس کے مقلدین معاشی و معاشرتی طبقہ بندی کرواکر جارحانہ قومی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں۔
میں نے گفتگو میں لہجہ بگڑتے اور آواز بلند ہوتے ہوئے محسوس کیا تو موضوع بدل دینا مناسب خیال کیا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ اس کے خیالات سے مناسبت نہ رکھوں اور انہیں رجعت پسندانہ، آمرانہ یا عسکریت پسندانہ ٹھہراؤں تو وہ کہے گا کہ میں چوں کہ جمہوریت پسند واقع ہوا ہوں لہذا تاویلات، دوسرے لفظوں میں عذر بیجا پیش کر رہاہوں اور لغو وبے ہودہ باتوں کا رنگ چڑھا کر اس کی حق بات کو مشتبہ بنانے کی کوشش کر رہاہوں۔ چنانچہ میں نے پوچھا، ’’اچھا یہ بتاؤ تم نے یہ عمارت اس طرز کی کیوں بنائی، تم چاہتے تو اسے ماڈرن لک بھی دے سکتے تھے۔‘‘
وہ سمجھ گیا کہ میں چترائی سے موضوع گفتگو بدلنے کی خاطر یہ سوال کیا ہے۔ بہرحال اس نے مسکراکر جواب دیا، ’’شاید تم نہیں جانتے کہ مجھے قدیم اشیاء اور ٹھاٹھ باٹ کا اندازِ زندگی دونوں شروع ہی سے بہت عزیز رہے ہیں۔ یہ گوتھک طرز پر بنی عمارت ہے اور عمارت سازی کا یہ طرز ۱۲۰۰ عیسوی تا ۱۵۰۰ عیسوی کے عرصے میں مقبول رہا۔ اور تم تو جانتے ہی ہو کہ وہ بادشاہوں، امیروں، جاگیرداروں اور زمینداروں کے عروج کا دور تھا۔‘‘
ملازم نے اطلاع دی کہ کھانا میزپر چنا جاچکا ہے۔
اس نے کہا، ’’یہ باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی۔ تم واش روم میں جاکر فریش ہوجاؤ، تو کھانا کھالیں۔‘‘
اس کے ڈائیننگ روم کی آرائش کسی فائیو اسٹار کے بینکیٹ (Banquet) روم کی سی تھی۔ قسم قسم کے پکوان چاندی کی قلعی کیے گئے ظروف میں، جن کے نیچے روغنی چولہے روشن تھے، قرینے سے ٹیبل پر سجادیے گئے تھے۔
جب مجھے بتایا گیا کہ یہاں سے قریب ہی ایک جھیل ہے جس میں سامن مچھلیاں جن کی اوپری جلد زردی مائل اور گوشت گلابی رنگ کا ہوتا ہے، افراط سے پائی جاتی ہیں اور میرے لیے خاص طور پر شکار کرکے تازہ تازہ منگوائی گئی ہیں تو میں نے اس ڈش پر خاص توجہ کی۔ کھانے سے فارغ ہوکر کافی پینے کے لیے ہم پھر اسی وسیع ہال میں آگئے۔ اس نے بتایا کہ رات راگ راگنی اور رقص کا پروگرام رکھا گیا ہے، جو رات دیر تک چلتا رہے گا۔ لہٰذا میں ایک گہری نیند لے کر سفر کی تکان دور کرلوں اور شام ہونے تک چاق و چوبند ہوجاؤں۔
میں آپ کو رات کی سرگرمیوں کی تفصیل بتاکر بور نہیں کرنا چاہوں گا۔ کلاسیکی موسیقی اور کلاسیکی رقص کے اچھے فن کار اس نے بلوالیے تھے، جنہوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹوں پر محیط ٹھیٹ کلاسیکی گائیکی اور کلاسیکی رقص کے پروگرام پیش کیے۔
چوں کہ محفل میں سوائے ہم دونوں کے ان کے فن سے محظوظ ہونے والا اور کوئی نہ تھا۔ چنانچہ فن کاروں نے تمام ترتوجہ میزبان پر مرکوز رکھتے ہوئے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ وہ فن کی باریکیوں اور لطافتوں سے واقف تھا۔ وقفے وقفے سے صحیح مقام پر داد دیتا رہا اور مسرور و شادماں ہوکر وہ مزید جوش اور ولولے سے اپنے فن کے عمدہ سے عمدہ نمونے پیش کرتے رہے۔
دوسرا دن فیل مرغ اور خرگوشوں کے شکار کی نذر ہو گیامگر رات کو وہی نرتیہ اور سنگیت کی محفل رچائی گئی۔ اب کے میری فرمائش پر غزلیں گائی گئیں اور دادرا اور ٹھمری کی گت پر مجرے پیش کیے گئے۔
مجھے یہاں آئے ہوئے تین دن ہو چکے تھے اور آج مجھے واپس ہونا تھا۔ گو کہ اس کا اصرار تھا کہ میں اس کے یہاں کچھ دن اور رکوں مگر تمام آرام اور آسائشوں کے باوجود وہاں رکنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ بس کوئی آواز اندر سے کہتی سنائی دیتی تھی کہ، ’’بہت رہ لیے، اب چلو یہاں سے۔‘‘
دور پہاڑوں کے پیچھے سے سورج اوپر اٹھ آیا تھا۔ آسمان کی وہی کیفیت تھی جو عموماً ایسے پہاڑی مقامات پر صبح کے وقت ہوا کرتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا کسی کنوارے بدن کی طرح جسم کو چھو رہی تھی۔ فرصت کے ساتھ ساتھ ایک سنسنی خیز کیفیت کا بھی احساس ہو رہا تھا۔ وادی میں چرواہا ڈھور ڈنگر لیے ابھی ابھی آیا تھایا وہ پہلے ہی سے وہاں موجود تھا؟ کیوں کہ دھند تو سورج کی آمد پر گھڑی دو گھڑی پہلے چھٹی تھی۔
’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ اس نے قریب آکر پوچھا۔
’’قدرت کا انتظام۔ سب کے لیے چارے پانی کا بندوبست ہے۔ دیکھو بادام کے اس درخت پر بنے اس گھونسلے کو۔‘‘ میں نے میز پر رکھی ہوئی دوربین دیتے ہوئے اسے کہا۔ ایک سیاہی مائل نیلا پرندہ اپنے نوزائیدہ بچوں کو اپنی چونچ میں چارہ نرم کرکے کھلا رہا تھا۔
میں نے سوچا، یہ منظر دیکھ کر وہ خوش ہوا ہوگا۔ اور وہ ہوا۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا، ’’کیا بات ہے میرے خدا!‘‘
آٹھ دس خچروں پر گھریلو ضروریات اور بار برداری کا سامان رکھا ہوا تھا۔ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس بچے بھی خچروں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چند نفوس ان کے آگے پیچھے پہاڑی راستے پر چلے جا رہے تھے۔
میں نے کہا، ’’قدرت کی گود میں لہکتے چہکتے بچے کیا سوچا کرتے ہوں گے؟‘‘
’’اور ہم ان کے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ۔‘‘ اس نے سوال مجھ ہی سے کردیا۔ پھر کہنے لگا۔
’’کیا سوچا جاسکتا ہے، ان کے متعلق؟ بڑے ہوں گے تو ڈھور ڈنگر چرائیں گے یا ملکی اور غیرملکی سیاحوں کا سامان ڈھویا کریں گے۔ اور کچھ کامن مچلے گا تو بڑے شہروں کا رخ کرجائیں گے۔ پہاڑی لوگ ہیں، محنتی، جفاکش، چست، پھرتیلے، چھریرے بدن کے، اتنا بوجھ اٹھالیتے ہیں کہ خدشہ ہوتا ہے کہ بیٹھ ہی نہ جائیں اور ہاں یہ پیدائشی لڑاکا ہوتے ہیں۔ جنگ جوئی ان کی فطرت میں شامل ہے۔‘‘
اس نے ٹی وی چلادیا۔ سی این این کے چینل سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر بذریعہ مسافر بردار طیارہ حملے کی وہی خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ ہم تین دنوں سے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہی خبریں دیکھ رہے تھے۔ البتہ بعض مناظر بدلے ہوئے ہوتے مگر بعض بار بار پیش کیے جارہے تھے۔
میں جس شخص کا مہمان تھا، وہ میرے بچپن کا دوست ضرور تھا لیکن میں اسے بہت کم جانتا تھا۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق آپ کا زیادہ معلومات حاصل کرلینا مشکل ہوتا ہے اور اگر کوشش بھی کی جائے تو بڑی واجبی سی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں کیوں کہ یہ لوگ اپنے گردامارت کا، اونچی عمارتوں کا، بڑی اور قیمتی سواریوں جیسے رولس اور مرسیڈیز کا، عربی گھوڑوں اور یونیفارم میں ملبوس چوکیداروں کا ایک ایسا حصار قائم کردیتے ہیں کہ اسے توڑ کر ان تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مصداق ہوجاتا ہے۔ ظاہر تو وہ یہی کرتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ زمین پر مقیم ہیں لیکن وہ آسمان کی بلندیوں پر ہوتے ہیں۔ وسیع اختیارات کے حامل ہونے سے ان میں نمرود کا سا دعویٰ کرنے کا خبط پیدا ہوجاتا ہے۔
’’تم ان مقامی لوگوں کو اپنے یہاں ملازم کیوں نہیں رکھ لیتے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں نے ایسا ہی کیا تھا۔‘‘
’’واقعی!‘‘ میں نے حیرت کااظہار کیا۔
’’ہاں! تم میری کوٹھی کے اطراف جتنے چوکیداروں اور محافظوں کو دیکھ رہے ہو، وہ مقامی لوگ ہی ہیں۔ مگر اب وہ اس قدر مہذب ہوگئے ہیں کہ ان پر مقامی ہونے کا شبہ تک نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے یقین نہ کرتے ہوئے سوال کیا۔
’’مطلب یہ کہ میں نے انہیں رہنے کے لیے پختہ مکانات بنوادیے ہیں۔ انہوں نے شادیاں کرلیں ہیں اور ان کے بچے ہوچکے ہیں۔ وہ اسکول جانے لگے ہیں۔ یہ رات میں ان کو کہانیاں سناتے ہیں، اپنی بیویوں کے ساتھ شہر جاکر سوداسلف لاتے ہیں۔ ان میں سے بعض ساز بجانے لگ گئے ہیں اور بعض رقص بھی کرنے لگے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جب مجھ پر حملہ ہوگا تو کیایہ مجھے بچا پائیں گے۔‘‘
’’تمہارے ذہن میں یہ خیال کیوں آیا؟‘‘
’’اس لیے کہ ابھی چند روز پہلے ایک نوجوان کوٹھی کے عقب سے میری خواب گاہ میں داخل ہونے کے لیے پائپ پر چڑھ رہا تھا کہ پکڑا گیا۔ انہوں نے اس کی گوشمالی کی، ڈانٹا ڈپٹا اور اسے چھوڑ دیا۔ جب یہ بات مجھے بتائی گئی تو میں اسے گرفتار نہ کرنے پر بہت برہم ہوا اور مزید بازپرس نہ کرنے پر میں نے انہیں خوب لتاڑا۔‘‘
’’تو انہوں نے کیا جواب دیا؟‘‘
’’کیا کہتے؟ بس منہ بسور کر رہ گئے۔ جب مزید ڈانٹ پلائی اور ملازمت سے الگ کردینے کا خوف دلایا تو بولے، صاحب! اچھے گھرانے کالڑکا تھا۔ روزی روزگار سے نہ تھا۔ دو دن کے فاقے سے تھا۔ چنانچہ چوری کرنے کی نیت سے یہاں آیا تھا کہ پکڑا گیا۔‘‘
’’انہوں نے صحیح کیا، ایک بے کار نوجوان سے ایسی ہی ناعاقبت اندیشانہ حرکتوں کے سرزد ہوجانے کا امکان رہتا ہے۔ وہ اس سے زیادہ کیا کرتے؟‘‘
’’کیا کرتے؟‘‘ اس نے کسی قدر خفا ہوکر کہا، ’’تم بھی عجیب باتیں کر رہے ہو! ارے وہ اپنی ابتدائی ذہنی حالت میں ہوتے تو اسے ختم کردیتے اور اس کی لاش میرے سامنے پیش کرتے۔‘‘
’’تو پھر انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟‘‘
’’کیا بتاؤں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ دراصل مجھے، انہیں اتنی سہولتیں ہرگز دینی نہیں چاہیے تھیں۔‘‘
’’پھر اب؟‘‘
’’سوچ رہاہوں مجھے نئے ملازم رکھنے چاہیے۔‘‘
’’کیا تمہارے یہاں مزید اسامیوں کی گنجائش ہے؟‘‘
’’ہاں! میں ایک علاقے میں اس سے بھی بڑی کوٹھی بنارہا ہوں۔ پہاڑی علاقہ ہے۔ منظر بلندی سے بڑا ہی خوشنما نظر آتا ہے۔ چوں کہ خطرے کا زیادہ امکان ہے، اس لیے محافظ بھی ’گرگانِ اجل‘ قسم کے ہونے چاہیے۔ میری کوشش ہوگی کہ میں ان کو محض بنیادی ضروریات بہم پہنچاؤں اور ان تمام اشیاء اور لوازمات سے دور رکھوں جو ہم تہذیب یافتہ لوگوں کی زندگی کے لازمی اجزاء اور عناصر ہیں۔‘‘
مجھے محسوس ہوا کہ مدتوں پہلے ایک اندھیرے غار سے نکل کر کسی بندر نے چاند کی طرف ایک بڑی سی ہڈی کھینچ ماری تھی، آج وہی ہڈی آفاقی بلندیوں سے دھیرے دھیرے غار کی جانب واپس آرہی ہے۔
’’کیا سوچنے لگے؟ تمہاری برادری کے لوگوں میں یہ مادہ، قدرت کچھ زیادہ ہی مقدار میں ودیعت کردیتی ہے۔ ویسے تمام صحافی، امانت کے طور پر سپرد کی گئی اس صلاحیت کا پوری طرح فائدہ نہیں اٹھاتے۔‘‘
میں نے کہا، ’’ابھی ابھی جو بات میرے ذہن میں گردش کر گئی ہے، اس سے اگر تمہیں واقف کرادوں تو تم خفا ہوئے بغیر نہ رہ سکو۔ بہرحال! میں تمہیں ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ نہیں جانتا کہ اس کاتعلق موجودہ کیفیات سے کس قدر ہے۔‘‘
سیب میز پر سے اٹھاکر اس نے واقعہ سننے پر اپنے آپ کو آمادہ کرلیا۔
’’سناؤ!‘‘ اس نے دانتوں سے سیب کترتے ہوئے کہا۔
’’یہ ان دنوں کی بات ہے جب زمینداروں کو اپنے کسانوں پر مکمل تصرف حاصل تھا اور وہ ان سے جیسا چاہتے ویسا ہی سلوک کرتے۔ مثال کے طور پر ایک اشتہار،
’’ایسا عمدہ کنبہ، جو شاید ہی کبھی فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہو، ایک کسان، اس کی بیوی، (جو خوب اچھا کھانا پکانا جانتی ہے ) ان کی سن بلوغت کو ابھی ابھی پہنچی لڑکی اور ایک دراز قد مضبوط جسم کے اٹھارہ سالہ لڑکے پر مشتمل ہے۔ یک جاہ بھی فروخت ہوسکتا ہے اور علیحدہ علیحدہ کرکے بھی۔ خریدار کی جیسی بھی خواہش۔۔۔‘‘
’’تمہیں ممکن ہے یہ سن کر افسوس ہو کہ اس کنبے کے تمام افراد بچھڑ بچھڑ کر بک گئے۔‘‘ یہ سن کر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا پھر رسان سے بولا، ’’زمینداروں کی تاریخ میں میں نے کہیں یہ پڑھا تھا کہ ایک دور ایسا گزرا ہے کہ ان دنوں گھوڑا سو روپے میں بک جاتا تھا اور کسان پینتیس روپے میں!‘‘
میں نے کہا، ’’انہوں نے زمینداروں کے مظالم بھی بہت سہے۔‘‘
’’ایسے ایسے روح فرسا، جان لیوا اور دہشت ناک مظالم کہ جن کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں!‘‘
میں نے ذرا رک کر اس کی طرف دیکھا، پھر بولا، ’’اس دور میں پیش آیا ایک گانو کا واقعہ یاد آتا ہے کہ کسی تالاب کے پاس کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ ان میں زمیندار کا بیٹا بھی تھا۔ کسی بات پر کسان کے لڑکے اور زمیندار کے لڑکے میں تکرار ہوگئی۔ ہاتھا پائی کی نوبت آئی۔ کسان کے لڑکے نے پتھر اٹھایا اور بلاسوچے سمجھے لڑکے کو مار دیا۔ لڑکے کو گہری چوٹ آئی، نتیجے میں اس کی پیشانی سے خون بہنے لگا۔ لڑکا دوڑ کر گھر گیا اور اس نے اپنے باپ سے شکایت کی۔ اس کے باپ نے سہ پہر میں گانو کے تمام لوگوں کوایک میدان میں جمع ہونے کاحکم دیا، جب وہ سب جمع ہوگئے تو اس نے کہا کہ جس لڑکے نے میرے بیٹے کو پتھر مار کر صبح زخمی کردیا تھا وہ سامنے آئے، لڑکا ماں باپ کے پیچھے دبک کر کھڑا تھا۔ باپ نے اُسے مجمع کے سامنے کرتے ہوئے زمیندار سے معاف کردینے کی التجا کی، زمیندار نے کہا کہ اگر ایسی خطائیں معاف کرتا رہوں تو تم میرا جینا دوبھر کردوگے۔
پھر اس نے لڑکے کے تمام کپڑے اپنے آدمیوں سے کہہ کر اتروالیے اور اسے ننگا کردیا۔ سارے گانو والے منھ میں کپڑا ٹھونسے بھیگی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ زمیندار نے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’دیکھ لے تو جتنا تیز دوڑ سکتا ہے دوڑ اور جہاں چھپنا چاہے جاکر چھپ جا۔۔۔‘‘ اس کے بعد زمیندار نے اپنے ماتحت کو اشارہ کیا، وہ قریب ہی کھڑی ایک بندگاڑی کے پاس گیا اور اسے کھولا۔ گاڑی میں سے ڈراؤنی شکل کے دو شکاری کتے نکل آئے جن کی بانچھیں آخری گوشوں تک کھینچی ہوئی تھیں۔ آنکھیں انگارہ ہوئی جارہی تھیں اور وہ اپنے پنجے زمین پر جھاڑ رہے تھے۔
تمام گانو والوں کے ساتھ ساتھ لڑکا بھی سمجھ گیا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ وہ سب رونے لگے۔ زمیندار نے اپنا حکم دہرایا کہ لڑکا جان بچاکر وہاں سے بھاگ جائے۔
لڑکے نے بھاگنا شروع کردیا۔ جب کافی دور نکل گیا تو زمیندار کے اشارے پر اس کے ماتحت نے لڑکے کے کپڑے کتوں کو سنگھاکے پھر انہیں پٹوں کی گرفت سے آزاد کردیا۔ یہ بات تم سے کہنے کی نہیں کہ ان کتوں نے کچھ ہی منٹوں میں اس لڑکے کی تکا بوٹی کردی۔‘‘
واقعہ سن کر اس نے کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ اس رویہ پر میں ذرا دیر کے لیے تذبذب میں پڑگیا۔
اس کے کہنے پر میرا توشہ باندھ دیا گیا تھا۔ ملازم اسے لاکر میز پر رکھ گیا تھا۔
میں نے کہا، ’’تو میں چلوں۔‘‘
اس دوران ہم مکمل ناشتہ کرچکے تھے۔ وہ نیپکن سے منھ پونچھتا ہوا بولا، ’’آؤ میں تمہیں اپنے شوق اور مزے کی کچھ چیزیں اور دکھاتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا، ’’میں نے تمہاری کوٹھی میں جو چیزیں دیکھ لی ہیں، کیا یہ ان سے مختلف ہیں؟‘‘
اس نے کہا، ’’بالکل مختلف، کیوں کہ وہ کوٹھی میں نہیں بلکہ اس سے کچھ فاصلے پر ہیں۔‘‘
میں نے کہا، ’’جانے سے پہلے لاؤ انہیں بھی دیکھ لوں۔‘‘
جب ہم ایک خاص دروازے سے کوٹھی سے باہر نکلے تو میں نے دیکھا کہ جیپ ہی کی شکل کی ایک چھوٹی موٹر وہاں کھڑی تھی۔ وہ ڈرائیوینگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور میں اس کی بغل میں جابیٹھا۔
دس پندرہ منٹ کا سفر طے کرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ ہم کسی چڑیاگھر کے سے احاطے کے باہر کھڑے ہیں۔ چڑیا گھر کا خیال مجھے یوں آیا کہ لوہے کے جنگلوں کے اندر ایک دوسرے سے قدرے فاصلے پر پنجرے رکھے ہوئے تھے جن سے جنگلی جانوروں سے منسوب ایسی مخصوص قسم کی بو آرہی تھی جیسی سرکس کے خیمے کے عقب سے اٹھا کرتی ہے اور ہوا کے ساتھ ہم تک چلی آتی ہے۔
وہ تقریباً درجن بھر پنجرے ہوں گے۔ جن میں شیر، باگھ اور تیندوے بند تھے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کل رات ہی اس نے ایک باگھ پانچ لاکھ روپے میں حکومت کے فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ سے باقاعدہ دستاویزات بنواکر خریدا ہے۔
ان کارکھوالا وہاں موجود تھا۔ سرخ و سفید رنگت، سنہرے بال، بالا قد اور کسرتی بدن کا ایک شخص بڑے سے لگن میں سے گوشت کے بوٹے پنجروں میں ڈال رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے لگن فرش پر رکھ دیا اور قریب ہی لگے ہوئے نلکے سے ہاتھ دھوکر ہماری جانب دوڑا چلا آیا۔ ان دونوں کے درمیان اس باگھ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔
وہ کہہ رہاتھا کہ، ’’لمبائی میں ۹فٹ سے کسی طرح کم نہیں اور قید کردیے جانے پر بہت بپھرا ہوا ہے۔ بار بار دہانہ پھاڑ کر کبھی دہاڑتا، تو کبھی غراتا ہے۔ آنکھیں دیکھو تو سرچ لائٹ کی طرح دہکتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
اس نے مجھ سے کہا، ’’کیا تم اسے قریب سے دیکھنا چاہو گے؟‘‘ میں نے کہا، ’’ضرور دیکھیں گے، مگر ابھی نہیں۔ گرمی بڑھ رہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم لوٹ چلیں، کیوں کہ مجھے بھی گھر واپس ہونا ہے۔‘‘
اس نے مسکراکر گردن ہلائی اور واپسی کے لیے گاڑی موڑلی۔ رکھوالا دیر تک ہماری جانب ہاتھ ہلاکر الوداع کہتا رہا۔
میں نے پوچھا، ’’کیا تم نے انہیں کسی مصرف یا مقصد کے تحت پاس رکھا ہے یا شوقیہ طور پر؟‘‘
اس نے میری طرف دیکھے بغیر، نگاہیں سیدھے راستے پر مرکوز رکھتے ہوئے جواب دیا، ’’اس کا مصرف تو سردست کچھ نہیں۔ البتہ انہیں سدھاکر اپنا مطیع اور فرماں بردار بنانا ہی میرا مقصد ہے۔‘‘
’’کیا یہ آسانی سے درندگی سے کنارہ کرلیں گے اور بے ضرر جانوروں سے ہوجائیں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں ہوں گے؟ کیا تم نے سرکس میں انہیں رنگ ماسٹر کے اشارو ں پر انوکھی حرکتیں کرتے اور کرتب دکھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘
’’دیکھا تو ہے لیکن اس کے لیے ایک ماہر کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ دورانِ تربیت جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ آسانی سے آدمی سے مانوس نہیں ہوتے۔ ان کو حیوانی جوش سے خالی کرنا یا ان کی تیزی، طراری کو دبادینا کوئی معمولی بات نہیں۔‘‘
یہ سن کر وہ ذرا سا مسکرایا اور اب کی بار بھی نظریں ونڈ اسکرین ہی پر قائم رکھتا ہوا بولا، ’’میں نے اپنے آرکی ٹیکچر اور انجینئرنگ کے کسی پروجیکٹ ہی کے روپ میں اس معاملے کو دیکھا ہے، چنانچہ اس کی تکمیل میں بھی کسی کوتاہی کا امکان باقی نہیں رکھا۔ ممکن ہے تمہیں یہ سن کر حیرت ہو کہ ایک غیرملکی سدھانے والے سے میری خط و کتابت ہو رہی ہے۔ اس کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کے مطالبے پر گفت شنید ہوچکی ہے، بس اسے ہندوستان کی آب و ہوا کے راس نہ آنے کا اندیشہ ہے۔ میں نے اسے یقین دلایا ہے کہ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں کا موسم بارہوں مہینے معتدل رہتا ہے۔‘‘ اس کا جواب سن کر میں سوچ میں پڑگیا۔
ایک طرف تو وہ درندو ں کو سدھانے کے منصوبے بنارہا تھا اور دوسری طرف اپنے ملازموں اور محکوموں میں درندوں کے سے اوصاف ذائل ہوجانے پر تشویش میں مبتلا تھا۔
یا تو اس کی کل بگڑ چکی ہے یا پھر اس کے دماغ میں کسی قسم کا سودا سما گیا ہے۔
میں نے اس سے رخصت لیتے ہوئے دوبارہ آنے کا وعدہ کرلیا۔ جب میں اپنی کار میں اس کی کوٹھی سے کافی دور نکل آیا تو میں نے گاڑی سڑک کے ایک کنارے پر روک دی اور اپنی بازو کی سیٹ پر رکھے ہوئے اس کی جانب سے دیے گئے تحفے کاریپر کھولنے لگا۔
اس وقت مجھے خیال آیا کہ ہو نہ ہو اس میں میرے لیے کوئی پرفیوم، گھڑی یا ایسی کوئی قیمتی چیز ملفوف ہوگی۔
تحفہ کھل کر سامنے آیا تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی۔
اس میں الگ الگ لفافوں میں اس کی تصویریں، بعض اہم پروجیکٹوں کااحوال، بالکل نئی نوٹوں پر مشتمل دس ہزار روپے کا بنڈل او رایک خط موجود تھے۔ خط میں لکھا تھا ممکن ہے مجھ سے متعلق جب تم کچھ لکھنا چاہو تو یہ چیزیں تمہارے کام آئیں۔
میں نے اگلے ہی ہفتے اس کی شخصیت اور کارناموں پر محیط ایک رائٹ اپ تیار کردیا جس میں قارئین کی خصوصی توجہ اور کشش کے لیے کافی تصویریں اس کے ساتھ لگادیں مگر میں نے کہیں پر ان درندوں کا ذکر نہیں کیا جو اس کی ملکیت میں تھے۔
مأخذ : جہاز پر کیا ہوا
مصنف:انور قمر