شادی کے تحفے

0
138
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:شادی شدہ، تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار شخص کی محرومیوں اور نارسائیوں کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ دولہا بھائی تلاش روزگار کے سلسلہ میں کئی سال سے اپنے سسرال میں مقیم ہیں۔ غم روزگار سے نجات پانے کے لئے وہ کتابوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن ان کی ایک سالی ثروت اپنی اداؤں سے انہیں لبھا لیتی ہے اور وقتی طور پر وہ اپنی ذہنی الجھنوں سے نجات پا جاتے ہیں۔ شادی کے موقع پر سارے رشتہ دار ثروت کو تحفے دیتے ہیں لیکن اپنی بیوی کی حسرت ناک خواہش کے باوجود وہ ثروت کے لئے کوئی تحفہ خرید نہیں پاتے۔ ستم بالائے ستم جب ثروت سسرال سے واپس آتی ہے تو وہ دولہا بھائی کو اپنے کمرے میں بلا کر ایک ایک تحفہ دکھاتی ہے جو ان کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے۔ ڈبڈبائی آنکھیں لے کر وہ ثروت کے کمرے سے اٹھتے ہیں۔ آنسو ان کے کمرے کی چوکھٹ پر آکر گرتے ہیں اور دولہا بھائی کہتے ہیں، یہ تھے میرے تحفے، انہیں بھی میں ثروت کے سامنے پیش نہ کر سکا۔

اس کا مجھ سے پردہ تو نہیں تھا مگر میرے اور ثروت کے درمیان حجاب حائل تھا۔ گہرا حجاب۔ اس کی شادی ہونے والی تھی۔ اس بات نے شرم میں اور اضافہ کر دیا تھا، جیسے جھاڑیوں کے درمیان ہرن چھپ جائے اور پھر نمودار ہو، اسی طرح وہ سائبان میں چلتی پھرتی ہوئی، پایوں کی آڑ میں مجھے دیکھ کر روپوش ہو جاتی تھی اور کبھی دوڑ کر مچلتی ہوئی چوٹی کے ساتھ درد دیوار کی اوٹ میں غائب ہو جاتی۔ میں نے اسے بال سنوارتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اس کے سہاہ گہرے بال بڑے پیارے تھے۔ گھنے اور شاداب۔ جنگل کی طرح سکون آفریں۔

وہ اپنی کھوٹھری کی چوکھٹ پر اندر کی جانب رخ کئے نادان سی کھڑی ہو جاتی۔ اس کے آبشار نما بال اس کی پوری گردن اور بھری بھری پیٹھ پر اس طرح چھا جاتے، جیسے سنگ مرمر پر کائی جم گئی ہو۔ ثروت جانتی بھی تھی کہ میں کہیں سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں، تو بھی وہ انجان بنی ہوتی۔ دیر تک اپنی زلفوں کو اپنی نازک کمر کی طرح مچلنا اور بل کھانا سکھاتی رہتی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ یک بیک پیچھے مڑ کر دیکھتی۔ میری اس کی آنکھیں چار ہوتیں اور وہ شرماتی ہوئی، مسکراہٹ کی کلیاں کھلاتی ہوئی ساون کی ہوا کی طرح لہرا کر روانہ ہو جاتی۔

ایک روز میں گھر کی لائبریری میں بیٹھا ہوا دل بہلانے کو اردو رسالے اور کتابیں الٹ پلٹ رہا تھا۔ محض دل بہلانے اور پریشانیوں سے دو گھڑی کے لئے نجات حاصل کرنے کو۔ میں دو سال سے ملازمت کی تلاش میں سرگرداں پھر رہا تھا۔ میری شادی کو چار سال ہو چکے تھے اور اب بیکار رہنا میرے لئے دو بھر ہو رہا تھا۔ باپ اور سسر کی عنایتوں پر جئے جانا، دوسروں کے نزدیک اگر باعثِ ننگ نہ بھی ہو تو بھی میری روح کے لئے سوہان ضرور تھا، پھر باپ اور سسر بے چارے بھی کیا۔ وہ لوگ اپنے انتہائی خلوص کے باوجود بھی میری پوری مدد نہیں سکتے تھے۔ آج کل شرافت نبھانا بھی بہت کٹھن کام ہے۔ کالج کی تعلیم کا خرچ برداشت کرنے کے بعد والد صاحب میں بھی اب اتنا دم کہاں تھا کہ وہ میری بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرتے رہتے اور میرے سسر صاحب کو ابھی کئی اور لڑکیاں بیاہنی تھیں۔

غرض میں غم روزگار کی گتھیاں سلجھانی چاہ رہا تھا اور الجھنیں اور زیادہ بڑھتی جا رہی تھیں۔ رسالوں اور کتابوں کے اوراق میں بےمعنی طور پر اس طرح الٹ رہاتھا، جیسے خزاں کی ہوا باغ میں آم کے پتے ادھر ادھر اڑاتی پڑاتی پھر رہی ہو۔ میں دل زندگی کا نشتر اور بےروزگاری کی چبھن محسوس کر رہا تھا۔ میرے جذبات کے دھارے بیزاری اور تلخی کی موت سے ملے ہوئے تھے۔ میں اسی حال میں تھا کہ میں نے سائبان میں ابلتی ہوئی شیریں زندگی کے قہقہے سنے۔ چند لڑکیاں گھنگھرو کی طرح ایک دوسرے سے الجھی ہوئی نغمہ آفریں تھیں۔ کچھ پیاری جھڑکیاں تھیں، کچھ طنر آمیز منت سماجت، کچھ حسین مسکراہٹیں اور کچھ ایسی ادائیں جن میں رقص، نغمہ اور تصویر کا جمال ملا جلا پایا جاتا تھا۔ ’’دولہا بھائی۔۔۔ یہ ہے ثروت۔۔۔ آپ ہی دوڑ کر آجائیے نا۔۔۔ اری ثروت! تو نخرے کیوں کرتی ہے؟‘‘ یہ نزہت کی آواز تھی۔

- Advertisement -

’’اوں اوں۔۔۔ مجھے چھوڑو۔۔۔ میں بگڑ جاؤں گی۔۔۔‘‘ ثروت نے نخرے کئے۔

’’چل بڑی بگڑنے والی آئی ہے۔ دولہا بھائی کو تکتی رہتی ہے اپنی کوٹھری سے اور یہاں آکر باتیں بناتی ہے۔‘‘ ثریا نے شوخ لہجے میں کہا۔

’’تو بڑی تکتی ہوگی دولہا بھائی کو۔ واہ میں کیوں تکوں۔۔۔ میں دولہا بھائی سے پردہ تھوڑا ہی کرتی ہوئی۔‘‘ ثروت منمنائی۔

’’تو پھر سیدھی ہو کر چلتی کیوں نہیں دولہا بھائی کے سامنے؟‘‘ ثریا بولی

’’تو مجھے چھوڑ دے۔ میری چوڑیاں گئیں۔‘‘ ثروت نے ناز کیا۔

’’لے چھوڑ دیا اب آ، لائبریری میں دولہا بھائی بیٹھے ہیں۔۔۔ دولہا بھائی بھی تو عجیب الو ہیں۔ دوڑ کر آ کیوں نہیں جاتے۔‘‘ نزہت اور ثریا نے ثروت کو چھوڑتے ہوئے ایک ساتھ کہا۔ دوسری لڑکیوں کی ہنسی کی آوازیں بھی گونج رہی تھیں۔۔۔ ٹھیک اسی موقعہ پر میں لائبریری سے سائبان میں آنکلا۔

’’لو میں آ گیا۔‘‘ میں نے کہا۔

چھپاک سے ثروت لڑکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ کر بھاگی یہ گئی وہ گئی، مگر جاتے جاتے ایک دفعہ مڑ کے پیچھے دیکھ ہی لیا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کا چہرہ لالہ گوں ہو رہا تھا۔ اس کا آنچل ناہموار تھا اور اس کی موٹی سی چوٹی آبرواں کے پلو میں الجھ کر کیچلی دار سیاہ ناگن کی طرح بل کھا گئی تھی۔ لڑکیاں عقد ثریا سے کہکشاں بن گئیں اور میں ایک شہاب ثاقب کی طرح ثروت کے تعاقب میں دو ڑ پڑا۔ نہ معلو م میرے احساس کی تلخی اور بے کیفی یک بیک دور کیسے ہوگئی۔ ہم لوگوں نے ثروت کو اس کی کوٹھری میں پکڑ پایا اور اس کے بعد ثریا نے اسے فریب دہی کی خوب خوب سزائیں دیں۔ ثروت کو سزا ہوئی ہو یا نہیں مگر مجھے تو دوڑ دھوپ کی فوری جزا مل گئی۔ میں نے ثروت کو جی بھرکے دیکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے بعد سے حجاب کہرے کی طرح غائب ہو گیا اور اب ثروت مہر درخشاں کی طرح میرے سامنے آیا کرتی تھی۔

ثروت دن میں کئی بار میرے پاس آکر بیٹھا کرتی اور کبھی میں خود اس کی کوٹھری میں جا نکلتا۔ وہ مجھ سے بہت مانوس ہو گئی تھی اور میں اس سے کافی ہل مل گیا تھا۔ ثروت دیر دیر تک باتیں کرتی رہتی معمولی معمولی سی باتیں، بیکار بیکار سی باتیں، مگر ان باتوں میں بڑا رس ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ وہ ادنیٰ سی باتیں بہت ہی ضروری ہیں۔ اس کی آنکھیں بہت زیادہ خوب صورت نہ تھیں مگر بڑی، زندہ اور گویا آنکھیں تھیں۔ ان میں گلابی گلابی نازک ڈورے رگ گل کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ ان آنکھوں میں سکون پرور گہرائی تھی۔ میں اپنا درد و غم اس رسیلے ساگر میں غرق کر دیتا تھا مگر راکشش کی طرح اگر ایک غم کا سر کاٹ بھی لیا جائے تو اس کے سیکڑوں شاخسانے نکل آتے ہیں۔

میں جب ثروت سے علیٰحدہ ہو جاتا تو غم روز گار کے ہزاروں آرے دل پر چلنے لگتے لہذا میں کوشش کرتا کہ اکثر ثروت سے باتیں کروں اور اس کی تسکین بخش آنکھوں کے سایہ میں زندگی گذار دوں۔ میں یہ محسوس کرتا تھا کہ ثروت بھی مجھ سے باتیں کر کے خوش ہوتی ہے۔ اس کی حسین آنکھیں گفتگو کے وقت چمکنے لگتیں اور گلابی ڈوریاں سرخ ہو جاتیں۔ اثنائے گفتگو میں وہ یک بہ یک شرما بھی جاتی۔ اس کے اچانک اظہار حیا میں ایک خاص دل فریبی تھی۔

میری بیوی پردین بہت اچھی دلہن تھی۔ میں اسے بےحد چاہتا تھا اور وہ بھی مجھ سے والہانہ محبت کرتی تھی۔ ہم لوگ اچھی اچھی باتیں بھی کرتے تھے اور بہت سے امور میں باہم مل کر دل چسپی لیتے تھے مگر جب سے میری پریشانیوں کی سر حد نا امیدیوں سے جا ملی تھی، میں اپنی بیوی سے آنکھیں چرانے لگا تھا۔ میں اس کے پاس یہ محسوس کرتا تھا کہ میں ناکامیاب حیات ہوں۔ اس کے قرب سے میرے وقار کو ٹھیس لگتی تھی۔ میں ناکارہ ہوں اور اپنی بیوی کی کفالت نہیں کر سکتا۔ یہ خیال مجھے ستانے لگتا تھا۔ میری بیوی اس سریع الحسی کو اپنی نسائی جبلت سے محسوس کرتی تھی اور غمگسار انہ اندر ہی اندر گھلتی رہتی تھی۔ میں جب خوش نظر آتا تو وہ میری کمیاب خوشی کا خیر مقدم کرتی۔

میں ایک دو سال سے اپنے سسرال میں تھا اور سسرال کے رشتہ داروں سے کافی واقف ہو گیا تھا۔ اب کوئی انوکھا نہیں رہا تھا۔ سالے، سالیاں، سر ہجیں سبھی روزانہ کی چیزوں کی طرح پھیکی ہو چلی تھیں اور میری موجودہ مایوسانہ حالت میں تو کسی بات میں بھی مزہ نہیں ملتا تھا۔ سیر دریا، شکار، صحبتِ احباب، ناز نینانِ حرم کی چہلیں سب بےمزہ تھیں۔ لے دےکر اچٹتی ہوئی کتب بینی اور ادھوری مضمون نگاری رہ گئی تھی۔ میرا زیادہ وقت لائبریری میں گذرتا تھا یا بستر پر۔

ثروت کو میں نے پہلے پہل دیکھا تھا۔ میں نے جانا کہ اس کا نیاپن شاید میرے لئے سامان کشش ہے۔ ممکن ہے یہی ہو مگر مزید تجزیۂ حالات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ثروت میں کچھ ایسی باتیں بھی تھیں جو دوسروں میں نہیں تھیں، مثلاً اس کی سادگی اور یک گونہ دیہاتی پن۔ ان کے علاوہ چند اور ایسی معمولی خوبیاں جن کا اگر میں تذکرہ کروں تو آپ ہنس دیں گے کہ یہ باتیں بھی سامان کشش ہوتی ہیں، مگر اکثر یہی ناقابلِ بیان چھوٹی چھوٹی باتیں ہی دل موہ لینے والی ہوتی ہیں۔ ثروت حسین نہیں تھی لیکن اس کی اداؤں میں انھیں چھوٹے چھوٹے، سادہ مگر چمکتے ہوئے نشتروں کی ارزانی تھی۔

ثروت کی شادی کو اب گنے ہوئے چند دن رہ گئے تھے۔ مہمان آنے شروع ہو گئے تھے۔ گھر میں زندگی اور شادمانی دوڑ گئی تھی۔ میں کہ زیادہ تراپنا وقت الگ تھلگ ہی گذارا کرتا تھا، اب حجرے سے باہر نکل آیا تھا۔ عام دل چسپیوں کی کشش سے نہیں بلکہ ثروت کی جادو نگاہیوں کے اثر کے ماتحت۔ ہم لوگوں کے درمیان ایک بہت ہی لطیف یگانگی کا احساس تھا۔ آپ کہیں گے جنسیات! جی ہاں جنسیات مگر جنسی اپیل کی بہت سی سطحیں ہوتی ہیں۔ دنیا میں کون سا جذبہ، کون سی خواہش ایسی ہے جس کا نفسیاتی تجزیہ آپ کو جنسیات تک نہ پہنچا دے۔ میں جیٹھ کے جھلسے ہوئے پودے کی طرح تھا۔ بارش کا ایک ننھا سا قطرہ بھی میرے لئے امرت سے کم نہ تھا۔

عورت زندگی کی سب سے بڑی رحمت ہے۔ اگر عورت کی فردوس بہ کنار نگاہوں کے ایک گوشے میں بھی زندگی کی لڑائی سے تھکے ہوئے مرد کو تھوڑی سی جگہ مل جائے تو وہ اس کے لئے نعمت سرمدی ہے۔ عورت کی صرف ایک نظر التفات، ایک ہلکی سی یگانگی، ایک حقیر سی توجہ بھی کمھلائی زندگی کے لئے سامان شگفتگی ہے، مگر زندگی کے اتھاہ ساگر میں عورت کی مسکراہٹ بھی سورج کی کرنوں کی طرح سطح سے تھوڑی ہی نیچے جاسکتی ہے۔ اس کے بعد تاریکیاں اور ایک سنجیدہ گہرائی۔

ثروت میرے لئے بہار کی ہوا کی طرح گذر جانے والی ایک لطیف و نازک لہر تھی، جس نے میرے احساسات کو گدگدایا اور بس، مگر دوسری لڑکیوں نے اس سے زیادہ کچھ محسوس کیا۔ میں ان کے تخیل کو کیا کروں!

’’ثروت بہت خوب صورت ہے دولہا بھائی؟‘‘ ایک دفعہ ایک لڑکی نے خاص تیور سے دریافت کیا۔ ایک صاحب نے طنز سے فرمایا، ’’ نئی سالی کے سامنے پرانے لوگوں کو کون پوچھتا ہے؟‘‘ میں ان سوالوں کا جواب کچھ اس طرح دیتا، ’’آپ لوگ شادی کے ہنگاموں میں الجھی ہوتی ہیں۔ بتایئے باتیں کس سے کروں۔ الٹی بات! آپ لوگوں نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے یا میں نے؟‘‘ میں نے لڑکیوں کو آپس میں بھی چہ میگوئیاں کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ میری بیوی کو اس چھیڑ چھاڑ میں بہت لطف آتا تھا۔ ایک دفعہ وہ کہنے لگی، ’’آپ کی سب سالیاں اور سرہجیں آپ سے بگڑی ہوئی ہیں۔ ثروت پر فقرے کسے جاتے ہیں۔‘‘ میں ہنس دیتا۔

’’ثروت بھی اپنی بڑی بہن سے اکثر میری ہی باتیں کرتی، آج دولہا بھائی سے یہ باتیں ہوئیں، آج انھوں نے یہ کہا، آج یہ ہوا وہ ہوا۔‘‘

’’تو دولہا بھائی کے لئے پاگل ہو رہی ہے۔‘‘ ریحانہ ٹالتی ہوئی مسکراکر کہتی۔

’’نہیں دولہا بھائی بہت اچھے ہیں آپا، آپ تو ان سے ناحق پردہ کرتی ہیں۔ وہ بڑے ملنسار ہیں اور پھر باتیں کتنی بنانی جانتے ہیں۔۔۔‘‘

’’دفع ہو پھر اپنے دولہا بھائی کے پاس۔ مجھے کام کرنے دے۔ ابھی درجنوں شلو کے پر گوٹ ٹانکنے کو پڑے ہیں اور اس ہفتہ میں تیری برات آ رہی ہے۔‘‘ ریحانہ آپا ثروت کو بناوٹ کے غصے کے ساتھ جوا ب دیتیں۔ ثروت کو مایوں بٹھا دیا گیا تھا۔ اب اس سے ملنے کا بہت کم موقع ملتا، پھر بھی شام کو جب لڑکیاں اور مہمان بی بیاں دوسری انگنائی میں گیت گانے میں مشغول ہو جاتیں تو ثروت اپنی بڑی بہن کے لڑکے کو بھیج کر مجھے مردانہ سے پختہ آنگن مین بلوا بھیجتی اور کہتی کہ ہر شخص مشغول ہے، اکیلے طبیعت نہیں لگتی، باتیں کیجئے۔

ثروت کی شادی کے دن بہت ہی قریب آ گئے۔ ایک روز میری بیوی نے رکتے رکتے کہا، ’’سبھی رشتے دار عورتیں مانجا دے رہی ہیں۔ میں تو خیر اپنی ہی کوئی نئی ساری اور دوسرے کپڑے دے دوں گی۔۔۔ مگر مرد عزیز بھی تو ثروت کو شادی کے تحفے دیں گے۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ رک گئی اور میرے سامنے تاریکیوں کے حلقے مگر مچھ کے کھلے ہوئے جبڑے کی طرح نظر آنے لگے۔۔۔۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس سے اٹھ کر چلا آیا اور اس روز سارا دن چڑ چڑا رہا۔ دو تین بار لوگوں سے معمولی معمولی باتوں کے لئے الجھ پڑا۔ خارجی حالت کے کھردرے پن سے زیادہ میری داخلی کیفیت متلاطم ہو رہی تھی۔ عین نخلستان کے اندردم لیتے ہوئے میں نے باد سموم کی ایک تیزلپٹ محسوس کی۔

اب ثروت کا خیال بھی میرے لئے محرومیوں اور ناکامیوں کا اشارہ تھا۔ اف! بیسویں صدی کا نوجوان کتنی تمنائیں، کتنے ارمان اپنے دل میں رکھتا ہے، ان میں اکثر آرزوئیں گھٹ گھٹ کر دم توڑتی جاتی ہیں اور جو پوری بھی ہوتی ہیں دہ کچلا کچلا کر اور مسلا مسلا کر پوری ہوتی ہیں۔ میں دن بھر ایک وحشی بن جانے کی خواہش میں گھلتا، کھولتا، پگھلتا اور منجمد ہوتا رہا۔ میں سوچتا تھا کہ اگر جائز تمنا ؤں کے گرد بھی زنجیروں پڑ ی ہوئی ہیں، اگر معصوم خواہشوں کی گردن میں بھاری بھاری سلیں ہوں تو پھر دنیا کسی ستارہ تخریب سے ٹکرا کیوں نہیں جاتی۔ زلزلہ صرف بہار اور کوئٹہ میں کیوں آتا ہے، سارے عالم میں یک بیک زلزلہ کیوں نہیں آ جاتا۔

شام کو ثروت کا بلا وا آیا۔ میں نہیں گیا۔ اس نے کئی بار بلوا بھیجا۔ میں نے ہر بار انکا رکیا۔ رات کو مجھے نیند بہت دیر میں آئی اور جب آئی بھی تو خیالات کو بہت بھیانک روپ دیتی ہوئی آئی۔ دوسرے دن میرے سر میں درد تھا اور دل و روح میں اس سے زیادہ۔ دن کو ایک ہفتہ کے انتظار کے بعد والد صاحب کا کارڈ ملا جس میں انھوں نے اپنی مجبوریوں کا اظہار کیا تھا۔ اب میری ناامیدی مکمل ہوگئی اور شادی کے تحفہ کا خیال ہزاروں آرزوؤں کے ساتھ مدفون ہو گیا۔ دو پہر اور سہ پہر کو میں فلم کے ستاروں کا تصویری البم دیکھتا رہا۔ ایک ایک ستارے کی نوک پلک کا بہت ہی گہرا جائزہ لیا اور آج ایک ایسے صاحب سے اس کے متعلق تبادلۂ خیال کیا جن کو میں کبھی منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ اس شام کو میں غیرمعمولی طور پر خوش و خرم اور ہنسوڑ تھا۔ یہاں تک کہ میں نے بذلہ سنجی کے علاوہ سوقیانہ مذاق کو رواہی نہیں رکھا بلکہ اس کی بہتات کر دی۔

سر شام ثروت نے کہلا بھیجا کہ آ ج بھی نہیں آئیےگا؟ آسمان پر تارے چھٹکے اور زنان خانہ سے گیتوں کی جھنکار اٹھی۔ میں ثروت سے ملنے چلا۔ اب وہ کوٹھری میں مایوں بیٹھی تھی مستقل طور پر۔ میں کوٹھری میں داخل ہوا اور ذرا جھجکا۔ ثروت کے پہلو سے پیوند ایک نئی کمسن سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔

’’آئیے دولہا بھائی! یہ میری ممیری بہن فرحت ہے۔ آپ کو دیکھنے کو دیر سے بیٹھی ہے۔‘‘ ثروت نے مجھے جھجکتا دیکھ کر کہا۔

’’بہت خوب! میں حاضر ہوں، دیکھئے فرحت صاحبہ مجھے!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے ذرا شوخی کی اور فرحت سے قریب پلنگ پر بیٹھ رہا۔ فرحت ثروت کے دوسرے پہلو کی طرف جاکر چمٹ گئی۔

’’کیوں دولہا بھائی! کل تو آپ بہت خفا تھے۔ فرحت کل ہی آئی ہے اور کل ہی سے آپ سے ملنے کے لئے بے چین ہے۔‘‘ ثروت نے اپنی مدھ بھری آنکھوں کا رس میری آنکھوں میں انڈ یلتے ہوئے کہا۔

’’فرحت مجھے کیا جانیں؟‘‘ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔

’’اور میں جو چاہتی ہوں آپ کو!‘‘ ثروت نے جواب دیا۔

’’تو پھر یہ فتنہ آپ کا پھیلایا ہوا ہے؟‘‘ میں نے احساس پندار کے ساتھ کہا۔

’’آپ لوگ ابھی سے مجھے بھلا رہے ہیں؟ کل آپ کو کتنی دفعہ بلایا تھا۔ آپ نے ہر بار مایوس کیا۔‘‘ ثروت کی آنکھوں کے سمندر میں موتی چمکنے لگے۔ شادی کے دنوں میں ایک ہندوستانی لڑکی موم کی طرح پگھلی رہتی ہے۔ اس کی آنکھیں اگر میکے کی محبت میں ہر وقت ساون بھادوں کا سماں نہ بھی کریں تو ان کی لا محدود وسعتوں میں بن برسے ہوئے بادل ہر گھڑی مچلتے ضرور رہتے ہیں۔

’’ثروت تم رونے لگیں۔ کل میری طبیعت اچھی نہیں تھی، اس لئے نہ آیا۔‘‘ میں نے ثروت کو چپ کراتے ہوئے کہا۔ ثروت کچھ دیر تک روتی رہی۔

’’تو میں چلا ثروت! میں باتیں کرنے آیا ہوں اور تم رو رہی ہو؟‘‘ میں نے پلنگ پر سے اٹھتے ہوئے جھوٹ موٹ کی دھمکی دی۔ ثروت نے آنسو پونچھ ڈالے اور چپ ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے بہت سی دل چسپ باتیں کیں اور خوب خوب ہنسی رہی۔

ثروت ڈھیلے ڈھالے جو گیار نگ کے کپڑے میں ملبوس شفق کی دیوی معلوم ہور ہی تھی اور اس کا کا ہیدہ چہرہ شفق بہ کنار ہلال کی نزاکتوں کا آئینہ دار تھا۔ اس کے کھلے ہوئے بال کی لٹیں اس کے سینہ و شانہ پر اس طرح بکھری ہوئی تھیں جیسے افقِ رنگین پر سرمئی بادل کے ٹکڑے ایک خوابناک فضا پیدا کر رہے ہوں۔ وہ ابٹنے کی خوشبو سے بسی ہوئی تھی۔ کسم اور بیلے کے پھول کی مہک کے ساتھ زعفران کی خوشبو مشام جان کو معطر کر رہی تھی۔

’’تم انار کلی کو شرمار ہی ہو ثروت!‘‘ میں نے متاثر ہوتے ہوئے کہا۔

’’آپ کو بھی میں انار کلی بنا دوں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے ثروت نے بہت سا ابٹنا میرے چہرے پر مل دیا۔ اس کی آنکھوں میں جرأت طلب شرارت مچل رہی تھی۔ میں دعوت نگاہ کو قبول کر کے بدلا لینا ہی چاہتا تھا کہ ایک چھپا کے نے مجھے بےوقوف سا بنا دیا تھا۔ فرحت نے مجھ پر رنگ کی بے پناہ بوچھار کی تھی۔ میں شرابور ہو گیا اور کچھ اس ناگفتہ بہ انداز میں کہ فوراً میں مردانے کی طرف بھاگا۔

دوسرے روز ثروت کی برات آ گئی۔ گھر باہر بڑی رونق تھی۔ ہر طرف لباس و زینت کی نمایش ہو رہی تھی۔ زنان خانے میں دن کو ہر سو قوس قزح کے رنگوں اور طاؤسانہ اداؤں کی دل فریبیاں ناز فرما رہی تھیں۔ نوجوان تیتر یاں گھڑی گھڑی لباس تبدیل کر کے اپنی ہوا باندھ رہی تھیں۔ رات آتے ہی گھر کا گھر سلمٰی ستارہ کی زرکار ساریوں سے روکش کہکشاں بن گیا۔ ہر نو خیز پھلجھڑی تھی، ہرجوان لڑکی چھٹتا ہوا انار اور ہر عورت مہتابی۔ میں اس رنگ و نور کی جلوہ سامانی کے دیکھنے میں محو تھا کہ ایک گوشہ میں میری بیوی سست اور مضمحل کھڑی ہوئی نظر آئی۔ وہ پایہ سے لگی ہوئی کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر میرا دل دھک سے ہو گیا۔ میں سب کچھ سمجھ گیا۔ اب یہ جلوے میرے لئے جلوۂ طور نہ تھے بلکہ آتش نمرود تھے۔ میری بیوی صبح سے اسی ایک لباس میں تھی۔ کاسنی رنگ کی کامدانی کی ایک پرانی ساڑی۔ اس کی گرگابی بھی بہت ہی مفلوک الحال تھی اس کی ہمجولیاں کپڑے پر کپڑے بدل رہی تھیں اور یہ پرانی کتاب کی جلد کی طرح بے رونق معلوم ہو رہی تھی۔

اف! میں اس منظر کی تاب نہ لا سکا اور فوراً گھر کے ایک دور افتادہ گوشے میں جاکر کھری پلنگ پر لیٹ رہا۔ یہ بڑی رونق رات تھی مگر میں کسی تقریب میں شریک نہ ہوا اور رات کا کھانا بھی نہیں کھایا۔ میں ایک روح فرسا بےاحساسی کے عالم میں رات پھر کروٹیں بدلتا رہا۔ ذہن پر ایک سرد تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ دل ایک خاموش اذیت، ایک افسردہ درد محسوس کر رہا تھا۔ صبح ہوئی۔ آج ثرورت رخصت ہونے والی تھی۔ دس بجے تک مرد عزیز اپنے تحائف کے ساتھ اس سے ملنے زنان خانہ میں گئے۔ میں نہ گیا میرے پاس کیا تھا؟ غم، وحشت اور احساس ناداری کا تحفہ!

ثروت رخصت ہو گئی اور پانچویں دن سنا کہ واپس بھی آ گئی۔ یہ پانچ دن کس طرح بیتے ہیں، میں نہیں بتا سکتا۔ ثروت سے چھوٹنے کا غم؟ جی نہیں میں تو یہ چاہتا تھا کہ ثروت واپس ہی نہ آئے۔ میں اس سے آنکھیں چار کرنی ہی نہیں چاہتا تھا، مگر ثروت آئی۔ شاید ثروت نے سسرال سے واپس آتے کے ساتھ ہی مجھے بلا بھیجا تھا مگر میں ایک ہفتہ تک اس سے نہیں ملا۔ خدا جانے کیونکر میں خود بہ خود ایک مرتبہ ملنے چلا گیا۔ وہ اپنے عروسی کمرے میں چیزوں کی درستگی میں مشغول تھی۔

’’اللہ! آپ آخر آ گئے ملنے مجھ بد نصیب سے دولہا بھائی!‘‘ ثروت نے شکوہ سنجانہ مسرت کے ساتھ میرا خیر مقدم کیا۔

’’خدا نہ کرے تم بد نصیب ہو؟ بد نصیب تو میں ہوں ثروت!‘‘ میں نے جواب دیا

’’آپ کیوں خفا ہیں مجھ سے دولہا بھائی؟ آپ مجھے رخصت کرنے بھی نہیں آئے تھے۔ میں مجمع میں آپ کی آواز کی منتظر تھی۔ میری آنکھیں بند تھیں مگر جی چاہتا تھا کہ آنکھیں کھول کر دیکھوں کہ آپ ہیں یا نہیں۔‘‘ ثروت نے بڑی مایوسی سے کہا۔

’’کوئی وجہ نہیں، یونہی میں نہیں آیا، یو نہی۔ ثروت مجھے خود معلوم نہیں میں کیوں نہیں آیا۔۔۔‘‘ میں چاہتا تھا کہ اس بارے میں باتیں نہ ہوں۔

’’سناؤ شادی کا تجربہ کیسا رہا؟ نئے لوگوں سے ملاقات ہوئی؟ اچھے لوگ تھے؟‘‘ میں نے موضوع گفتگو بدلتے ہوئے کہا۔

’’آپ سے اچھے نہیں۔‘‘ اس نے ایک پر معنی حجاب کے ساتھ جواب دیا۔

’’آیئے دولہا بھائی آپ کو چیزیں دکھلاؤں۔ میرے مصرف کی چیزیں سب میرے ساتھ واپس چلی آئی ہیں۔ دولہا بھائی غیر جگہ عزیزوں کی دی ہوئی چیزیں بھی کتنی پیاری معلوم ہوتی ہیں۔ ہر تحفہ مجھے عزیزوں کی یاد دلا رہا تھا مگر میں اکثر دیکھ دیکھ کر روتی تھی۔۔۔ آپ مجھے بے وقوف کہیں گے، ہے نا؟ میں آپ کو ہر وقت یاد کرتی تھی۔ آپ مجھے یاد کرتے تھے؟‘‘ ثروت آج اتنی بہت سی باتیں کر رہی تھی اور میری زبان پر مہر سی لگی ہوئی تھی۔

’’بولتے کیوں نہیں آپ؟ یہ دیکھئے، یہ سنگار کیس احمد بھائی نے دیا ہے۔ یہ ہے ان کا نام لکھا ہوا، اچھا سا ہے نا؟‘‘ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ بکس سے دوسری چیزیں نکالنے لگی۔

’’دیکھئے اس بکس میں سلائی کا سٹ ہے اور اس میں کروشیا اور کشیدہ کاری کے کام کا سامان، اور یہ دیکھئے یہ کشیدہ کاری کی مشین ہے۔۔۔ دولہا بھائی سب نے اپنا اپنا نام چھوٹے چھوٹے کارڈ پر لکھ کر لٹکا دیا ہے۔۔۔ یہ ایررنگ رہی دولہا بھائی! یہ محمود بھائی کی دی ہوئی ہے۔۔۔ اور یہ دیکھئے، اف میں تھک گئی کتنی ساری چیزیں ہیں۔۔۔ وہ تو بکس کی تہہ میں ہے۔۔۔ ایر رنگ ہے نا بہت پیاری سی؟ میں آپ کو ایک اور بہت ہی اچھی سی چیز دکھلاتی ہوں۔۔۔‘‘

ثروت اپنا ایک بکس الٹ پلٹ رہی تھی اور میں اپنے تخیل کے تاریک خلا میں ارمانوں کی لاشوں کو دانت نکالے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ تحفہ۔۔۔ تحفہ۔۔۔ زندگی کے ہاتھ میں موت کا تحفہ۔۔۔ سرمایہ کے ہاتھ میں بیکاری اور ناداری کا تحفہ۔۔۔ سماج کے ہاتھ میں فخر بیجا کا تحفہ۔۔۔ ملایا نہ مذہب کے ہاتھ میں غلط تسکین کا تحفہ۔۔۔ تحفہ۔۔۔ تحفہ۔۔۔ محبت کے ہاتھ میں نفرت کا تحفہ۔۔۔

’’یہ دیکھئے مل گیا دولہا بھائی، کتنا قیمتی نکلس ہے، ہے نا؟ مجھے لوگ کتنا چاہتے ہیں؟‘‘ ثروت کی آنکھوں میں مسرت اور غرور کی چمک تھی۔ میں اس وقت ثروت کی آنکھوں سے نفرت کر رہا تھا۔ ان کی چمک خنجر کی چمک معلوم ہوتی تھی اور ان کے سرخ ڈورے خنجر کے پھل پر جما ہوا خون۔

’’کیوں دولہا بھائی آپ کی کیا حالت ہے؟‘‘ ثروت نے چونک کر کہا۔

’’کچھ۔۔۔‘‘ میری زبان نہ کھل سکی۔ دل میں شدید درد و کرب کا احساس ہوا۔ سینہ کا آتش فشاں آنکھوں کے شگاف سے پگھلے ہوئے لاوے کی طرح آنسو بن کر امڈ آیا تھا۔ میں اپنی ڈبڈ بائی آنکھوں کو ثروت کی نظروں سے بچا کر کمرہ سے باہر نکل آیا۔ در پر پہنچ کر میرے آنسو ابل آئے اور چوکھٹ کی خاک میں چند قطرہ ہائے اشک مدفون ہو گئے۔

یہ تھے میرے تحفے۔۔۔ انھیں بھی میں ثروت کے سامنے پیش نہ کر سکا۔

مصنف:اختر اورینوی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here