رحمان اور سلمان کی گھر واپسی ہو گئی یعنی مسلمان سے ہندو ہو گئے۔ اب ان کا نام راما نند اور ستیندر رکھا گیا۔ ایک مذہبی تقریب میں اگنی کے سامنے دونوں کو بیٹھا کر اشلوک پڑھائے گئے۔ گنگا جل کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ ماتھے پر تلک لگایا گیا اور پرساد کھلائے گئے۔ یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا تھا۔ رحمان اور سلمان جس علاقے میں رہتے تھے۔ وہاں زیادہ تر ہندوؤں کے مکانات تھے۔ صرف دو گھر ان لوگوں کا تھا۔ وہ بھی معمولی چھپر ڈال کر ایک آشیانہ بنا لیا گیا تھا۔ ٹین کا دروازہ تھا جو کھلنے کے ساتھ ہی ایسی آواز پیدا کرتا کہ آس پاس کے لوگ چونک جاتے۔ رحمان اور سلمان کبھی رکشہ چلاتے ‘کبھی مزدوری کرتے‘ کبھی کسی کے یہاں شادی بیاہ میں کام کرتے۔ اس طرح دو وقت کی روٹی کا انتظام ہو جاتا۔ رحمان کو صرف دو بیٹا تھا اور سلمان کی دو بیٹیاں۔ یہ لوگ کسی طرح زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہے تھے۔
گھر واپسی ایک دو دن کی کوشش کا نتیجہ نہیں تھا۔ شہر کے سوامی دواریکا پرساد کی انتھک کوشش کا نتیجہ تھا۔ وہ اکثر رحمان اور سلمان کے گھر آتا اور کہتا ذرا سوچو ہندوستان میں مسلمان کہاں سے آئے۔ پہلے سب ہندو تھے۔ انہیں زبردستی مسلمان بنایا گیا۔ سات سو سال تک مغلوں کی دور حکومت میں نہ جانے کتنے ہندوؤں کو مسلمان بنا دیا گیا۔ تمہارے بھی پوروج پہلے ہندو تھے۔ انہیں کسی طرح مسلمان بنایا گیا۔ اس لئے اب تم لوگ اپنے گھر واپس ہو جاؤ اور ہندو دھرم اختیار کرو۔ یہی تمہارا دھرم ہے۔ تم سناتن دھرم کے ماننے والے ہو۔ تمہارے خون میں ہندو کا خون ہے۔ اگر تم ہندو ہو جاؤگے تو ہمارے دیوی دیوتا تمہیں سورگ میں لے جائیں گے نہیں تو نرک میں دھکیل دئیے جاؤگے۔
رحمان اور سلمان کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ دواریکا پرسار کیا کہہ رہا ہے۔ وہ پڑھا لکھا تھا نہیں جو دونوں مذاہب کے فرق کو سمجھ پاتا۔ قرآن باقاعدہ پڑھا نہیں تھا۔ صرف دو چار آیتیں کسی طرح رٹ لیں تھیں اور جمعہ کے دن آذان ہوتے ہی مسجد میں داخل ہو جاتا اور پہلی صف میں جاکر بیٹھ جاتا۔ اس نے سن رکھا تھا جو آگے کی صف میں نماز پڑھتا ہے۔ خدا اس پر خاص مہربانی عنایت کرتا ہے۔
خدا کی ان پر خاص عنایت ہوئی یا نہیں۔ وہ آج تک نہیں سمجھ پایا لیکن نماز سے فارغ ہو کر جب مسجد سے باہر نکلتا ‘اپنے اندر قدرے سکون محسوس کرتا۔ چار خانے کی لنگی‘ گھٹنے تک کرتا اور سر پر دوپلی ٹوپی یہ لباس صرف جمعہ کے دن ہی وہ زیب تن کرتے۔ جمعہ کے دن یہ لوگ کام پر نہیں جاتے، صبح سے ہی نماز کی تیاری میں لگ جاتے۔ رگڑ رگڑ کر بدن کے میل کو صاف کرتے۔ دیر تک نہاتے رہتے اور خوشبو‘ سرمہ لگا کر مسجد کی طرف چل پڑتے۔
گھر واپسی کے بعد اس کے گھر لوگوں کی آمدورفت میں اضافہ ہو گیا۔ کوئی میٹھائی لے کر آتا ‘کوئی پرساد لے کر‘ کوئی کپڑے لے کر اور کوئی سو دو سو روپئے ان کی ہتھیلی پر رکھ جاتا۔ اب ان کی بیویوں کا نام گنگا اور شکنتلا ہو گیا تھا۔ اس طرح دونوں بیٹوں کا نام امریندر اور دھرمندر ہو گیا اور بیٹیوں کے نام رکمنی اور رادھا طے پایا۔ دواریکا پرساد پابندی سے ان کے گھر آتا۔ اندرا آواس یوجنا کے تحت اب اس کا گھر پختہ ہو گیا تھا۔ سرکاری نل لگ گئے تھے۔ چاروں بچوں کا سرسوتی شیشو نکیتن میں داخلہ ہو گیا تھا۔ جہاں کتاب کاپی ‘بستہ کے ساتھ یونی فارم بھی مفت مل گئے تھے۔ راشن کارڈ‘ لال کارڈ سب بن گئے۔ راشن کم قیمت پر ملنے لگے اور تمام سرکاری مراعات حاصل ہونے لگی۔ دونوں کے دن خوشحال اور زندگی بہتر ہو گئی۔ اب دونوں بھائیوں کو الکٹرانک رکشہ بھی مل گیا تھا۔ جس سے آمدنی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا اور گھر میں آرام و آرائش کی چیزیں دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنانے لگیں۔ اس کے باوجود اس محلے کا کوئی بھی ہندو اس کے گھر نہیں آتا اور نہ ہی اسے اپنے گھر بلاتا۔ شادی بیاہ یا کسی خاص تقریب میں دونوں کو دعوت نہیں دی جاتی۔ البتہ جب محلے میں رام کتھا یا گیتا کا پاٹھ ہوتا۔ محلے کی عورتیں گنگا اور شکنتلا کو بلا کر لے جاتیں۔ پاٹھ کے بعد پرساد لے کر گھر آ جاتیں۔ ہولی میں لوگ ان کے گھر آکر گلال ابیر لگا جاتے۔ کھانے کا سامان دے جاتے۔ دسہرا میں محلے کی لڑکیاں رکمنی اور رادھا کو راون ودھ دکھانے ضرور لے جاتیں۔
راما نند اور ستیندر جب کبھی آذان کی آواز سنتے۔ ان کے کان کھڑے ہو جاتے۔ ایسا لگتا کوئی مسجد کی طرف بلا رہا ہے اور پیش امام کی آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی۔
’’خدا نے فرمایا ہے‘ کافر جہنم میں جائیں گے اور مسلمانوں کے لئے کہا گیا ہے کہ جب ان کی موت ایمان پر ہوگی تو ان کے سارے گناہوں کو معاف کر دیا جائےگا اور جب تک حضرت محمدؐ اپنی امت کو جنت میں داخل نہیں کروائیں گے خود جنت میں نہیں جائیں گے۔‘‘
دونوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ جمعہ کے دن دونوں اپنے اندر ایک بیکلی ‘بے چینی سی محسوس کرتے۔ انہیں لگتا جیسے کچھ چھوٹ سا گیا ہے‘ کچھ ٹوٹ سا گیا ہے ‘کچھ بکھر سا گیا ہے لیکن جب موجودہ صورتحال کو دیکھتے تو لگتا آج ان کے پاس ایک بہتر زندگی ہے‘ ایک بہتر مستقبل۔
وقت پنکھ لگا کر اڑتا رہتا ہے۔ امریندر اور دھرمیندر کالج کی تعلیم حاصل کرکے نوکری کے لئے تگ و دو کرنے لگے۔ رکمنی اور رادھا کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ دواریکا پرساد اکثرو بیشتر آتا رہتا اور سیاسی مٹینگوں یا مذہبی تقریب میں انہیں ساتھ لے جاتا اور وہاں موجود لوگوں سے ملاتا کہ دیکھو کس طرح ان کی گھر واپسی ہو گئی ہے۔
ستیندر کو اب اپنی بیٹی کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ وہ رشتہ لے کر کئی ہندو گھرانے میں گیا لیکن سب نے انکار کر دیا کہ تمہاری برادری کیا ہے۔ تمہارا گوتر کیا ہے۔ اس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ کو کس گوتر کا بتاتا۔ تھک ہار کر وہ دواریکا پرساد سے ملا کہ رکمنی کی شادی کیسے ہوگی۔ کوئی بھی ہندو یہاں تک کہ ہریجن بھی شادی کرنے کو تیار نہیں ہے۔
دواریکا پرساد نے سمجھایا۔ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کہاں کہاں لوگ مسلمان سے ہندو ہوئے ہیں۔ ان ہی میں سے کسی لڑکے سے تمہاری بیٹی کی شادی کروا دوں گا لیکن کئی سال گزر جانے کے بعد بھی وہ کوئی رشتہ لے کر نہیں آیا۔ اتنے سالوں میں راما نند کے دونوں بیٹے نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اب راما نند کو بھی اپنے بیٹے کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ وہ بھی کئی جگہ رشتہ لے کر گیا لیکن سبھی نے منع کر دیا۔ سبھی گوتر کی بات کرتے اور ان دونوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس گوتر کا بتائیں۔ وہ خود کو برادری کے کس خانے میں رکھیں۔ سورن ذات میں یا ہریجن ذات میں۔
وقت رکنے کا کب نام لیتا ہے۔ دونوں بھائی تھک ہار کر ایک دن سر جوڑ کر اس مسئلے پر غورو فکر کے لئے بیٹھ گئے۔ ستیندر نے راما نند سے کہا——
’’بھیا !میرے نزدیک اس مسئلے کا ایک ہی حل نظر آتا ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’امریندر کے ساتھ رکمنی کی شادی کر دی جائے۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہے ہو۔ ہندو ریتی رواج کے مطابق دور کے بھائی بہنوں میں بھی شادی نہیں ہو سکتی۔ یہ لوگ تو چچیرے بھائی بہن ہیں۔‘‘
’’لیکن اس کے علاوہ کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہے۔‘‘
’’لوگ کیا کہیں گے کہ بھائی بہن میں شادی کر دی۔ دھرم کا تو خیال رکھنا ہی پڑےگا۔‘‘
’’لیکن دھرم والے ہمارا کہاں خیال رکھ رہے ہیں۔ آپ کا بیٹا برسر روزگار ہے‘ میری بیٹی پڑھی لکھی سندر ہے لیکن کوئی بھی شادی کرنے کو تیار نہیں۔‘‘
راما نند خاموش ہو گیا۔ کافی دیر تک سوچتا رہا اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس مسئلے کا صرف اور صرف یہی حل ہے اور امریندر کی شادی رکمنی کے ساتھ ہو گئی۔ اس نے محلے کے تمام لوگوں کو دعوت دی۔ سبھی نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ بھلا بھائی بہن میں بھی شادی ہوتی ہے۔ ہم لوگ ایسی شادی میں شرکت نہیں کریں گے۔ تھک ہار کر راما نند اپنے پرانے مسلم دوستوں کو دعوت دی۔ سبھی شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شادی بہ حسن خوبی انجام پا گئی۔ رکمنی ایک گھر سے نکل کر بغل والے گھر میں اپنے چچا کے گھر آ گئی۔ سب کچھ دیکھا بھالا ‘سوچا سمجھا‘ جانا پہچانا کچھ بھی تو نیا نہیں تھا۔ اس گھر میں تو اس کے بچپن گزرے تھے۔
پہلی رات جب امریندر رکمنی کے کمرے میں آیا تو دیکھا۔ وہ زار وقطار رو رہی ہے۔ اس نے رونے کا سبب پوچھا تو رکمنی نے صرف اتنا کہا ——
’’اس طرح کی شادی تو مسلمانوں میں ہوتی ہے بھیا۔‘‘
پیاسی ہے زمیں، پَیاسا آسماں
دروازہ کھولتے ہی نشی اپنی نوکرانی منکی پر برس پڑی——
’’یہ کوئی آنے کا وقت ہے۔ بچوں کو اسکول جانا ہے۔ صاحب کو دفتر اور مجھے کالج۔ میں ادھر دیکھ رہی ہوں تمہارے اوپر چربی کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی ہے۔دیکھو اگر کام کرنا ہے تو صبح چھ بجے آ جاؤ، نہیں تو کام چھوڑ دو۔ بہت کام کرنے والی مل جائے گی۔‘‘
’’مالکن کا بتاؤں۔ میرا آدمی روج دارو پی کر آتا ہے اور رات بھر گالی گلوج، مار پیٹ کرتا رہتا ہے۔ اسی واسطے جرا بھور میں آنکھ لگ جانے کے کارن دیر ہو جاتی ہے——‘‘ منکی اپنی صفائی پیش کرتی ہے۔
’’دیکھو وہ ہم نہیں جانتے کہ تمہارے گھر میں کیا ہوتا ہے ‘ہم کو تو اپنا کام چاہئے۔ تمہیں ہر مہینے دو سو روپیہ دیتے ہیں‘ کھانا دیتے ہیں پھر کام بھی مجھے پورا چاہئے——‘‘ نشی کی آج تیوری چڑھی ہوئی تھی۔
’’ٹھیک ہے مالکن اب وکت پر آئیں گے‘‘—— منکی خاموش رہنا ہی بہتر سمجھی۔
’’اچھا جاؤ اور جلدی جلدی سارا کام نپٹاؤ۔‘‘
’’جی مالکن!‘‘
ابھی نشی پلٹ کر دوسرے کمرے کا رخ کرنے ہی والی تھی کہ اُس کے شوہر راجیش نے بغل والے کمرے سے آواز دی——
’’نشی!‘‘
’’جی ابھی آئی‘‘—— نشی راجیش کے کمرہ میں پہنچ گئی۔
’’ذرا دیکھو تو میری ٹائی کہاں ہے‘‘—— راجیش رومال سے چشمے کو صاف کرتا ہوا بولا۔
’’وہ تو سوٹ کے ساتھ ہی تھی‘‘—— نشی وارڈروپ کھولتی ہے اور تلاش کرنے لگتی ہے۔
’’یہ رہی اِدھر گری ہوئی تھی۔‘‘
راجیش شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر ٹائی باندھتا ہے——
’’آج دفتر میں ایک میٹنگ ہے اس لئے دیر سے لوٹوں گا۔‘‘
’’اور بچے؟‘‘
’’بچوں کو تم گاڑی سے لے لینا‘‘—— راجیش بریف کیس اٹھاتا ہوا باہر نکل جاتا ہے۔
راجیش ایک کمپنی میں مینجر ہے اور نشی ایک کالج میں لکچرر۔ ان کے دو بچے بھی ہیں۔
منکی کے وقت کا سورج بوڑھا ہو چلا تھا۔ وہ وقت کے سورج کی تیز دھوپ میں برسوں سے تپ رہی تھی۔ اس کی زندگی میں کوئی درخت سایہ دار نہ تھا۔ اس کا شوہر کارو ایک تاڑ کے درخت کی مانند تھا جو کسی کو سایہ نہیں دیتا۔ وہ دن بھر اِدھر اُدھر چھوٹے موٹے کام کرتا اور شام کو لوٹتا تو دارو کی دکان پر ضرور جاتا۔ دارو پیتا اور گھر لوٹ کر منکی کو مارتا پیٹتا۔ کبھی منکی کا لایا ہوا کھانا کھا کر یا کبھی بغیر کھائے ہی سو جاتا۔ منکی اول تو دن بھر نشی کے یہاں کام کرتی، پھر رات کو شوہر کی اذیت سہتی!—— اس کے دو بچے تھے ایک سات سال کی بیٹی پارو اور ایک بیٹا جو ایک سال کا ہو گیا تھا—— منکی صبح اٹھتے ہی نشی کے گھر کام کے لئے چلی جاتی تب اُس کی بیٹی پارو ہی اس بچے کی دن بھر دیکھ بھال کرتی۔ آدھا کیلو دودھ گوالہ دے جاتا جس میں کچھ پانی ملا کر دن بھر پلاتی رہتی۔ منکی رات کا بچا ہو اباسی کھانا جو چھوڑ جاتی اسے کھا کر گزارہ کرتی۔ پھر رات کو ماں کھانا لے کر لوٹتی تو کھاتی اور سو جاتی۔
دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ منکی اپنے کام میں مشغول تھی۔ نشی صوفے پر بیٹھی کوئی رسالہ پڑھ رہی تھی۔ آج اس کی کلاس نہیں تھی۔ راجیش دفتر گیا ہوا تھا اور بچے اسکول۔ اسی پل پارو بلکتی ہوئی بچے کو لے کر گھر میں داخل ہوئی اور سیدھے ماں کے پاس پہنچ گئی۔ وہ پہلے بھی کئی دفعہ ماں کے ہمراہ اس گھر میں آچکی تھی۔ منکی اپنے بچے کی آواز پہچان گئی اور کچن سے باہر آئی——
’’کیا ہوا پارو؟‘‘
’’ماں آج دودھ والا نہیں آیا۔ ببوا صبح سے رو رہا ہے۔‘‘
’’اوہ! اس گوالہ پر آپھت ٹوٹے۔ بچے کا بھی کھیال نہیں کرتا۔ اب کیا کریں۔‘‘
منکی بچے کو گود میں لے کر چھاتی سے لگا لیتی ہے اور اپنا دودھ پلانے کی کوشش کرتی ہے مگر اس کی چھاتی میں بھی دودھ نہیں اتر رہا تھا۔ وہ کھاتی ہی کیا تھی۔ بس دوپہر کا کھانا۔ رات کے کھانے میں تو اس کی بیٹی اور اُس کا شوہر بھی شریک ہو جاتا۔ بس دو ایک نوالہ کھا کر ہی رہ جاتی—— اس کا بچہ کسی صورت نہیں بہلتا ہے۔ وہ روتا ہی جاتا ہے۔ مُنکی پریشان ہو جاتی ہے کہ کیا کرے۔ اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے کہ دودھ خرید کر بچے کو پلا سکے، وہ تڑپ اُٹھتی ہے۔ بالآخر وہ نشی کے پاس جاتی ہے——
’’مالکن میرا بچہ بھوک سے بلک رہا ہے۔ آج دودھ والا نہیں آیا ہے۔ تھوڑا سا دودھ دے دیجئے۔ آپ کی بڑی کرپا ہوگی۔‘‘
نشی منکی کو بہ غور دیکھتی ہے۔
’’منکی تم تو جانتی ہو کہ میرے یہاں فاضل دودھ نہیںآتا۔ اتنا ہی آتا ہے جتنا خرچ ہوتا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ میں کہاں سے دوں۔‘‘
’’مالکن آپ دیکھئے نا تھوڑا بہت اس بچے کے لئے نکل ہی آئےگا۔‘‘
’’کہہ دیا نا، نہیں ہے۔ تم خواہ مخواہ ضد کر رہی ہو‘‘—— نشی نے ناگواری سے کہا۔ منکی نے خاموشی میں ہی بہتری سمجھی مگر بچہ کے لئے کچھ کرنا بھی تھا‘ وہ نشی سے بولی——
’’مالکن ہم ابھی گھر جاتے ہیں۔ ببوا کے لئے دودھ کا انتجام کریں گے۔ واپس آکر باکی کام نپٹا لیں گے‘‘—— اور وہ نشی کا جواب سنے بغیر ہی باہر نکل گئی۔
صبح صادق کی پہلی کرن جب مندروں کے کلس پر پڑی تو جیسے دھوپ نے گنیش جی کی مورتی کو پیاس کا احساس شدت سے دلایا۔ ان کے ہونٹ سوکھے دکھائی دئیے تو بھگتوں سے دیکھا نہ گیا۔ وہ سب دودھ کا گلاس لے لے کر ایسے دوڑے جیسے واقعی گنیش جی صدیوں سے پیاسے ہیں اور آج وہ اپنی ساری پیاس بجھا کر ہی دم لیں گے۔ لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ گنیش جی کے ہر مندر میں بھگتوں کی لائین لگ گئیں۔
جب یہ خبر نشی تک پہنچی تو وہ بھی دودھ کا گلاس لے کر مندر دوڑی۔ راجیش ابھی تک سویا ہوا تھا۔ نشی دودھ پلا کر لوٹی تو راجیش کو جھنجھوڑ کر جگایا۔
’’تم ابھی تک سور ہے ہو۔ یہاں چمتکار ہو گیا۔ گنیش جی دھرتی پر اتر آئے ہیں اور دودھ پی رہے ہیں۔‘‘
راجیش جاگ گیا——‘
’’کیا بکتی ہو؟‘‘
’’ارے اٹھو تو گنیش جی دودھ پی رہے ہیں، جاؤ تم بھی جاکر پلا آؤ۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ تمہارا وہم ہے یا کسی کی سیاست ہوگی۔‘‘
’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو خود پلا کر دیکھ لیجئے‘‘—— نشی راجیش کو یقین دلانا چاہتی ہے۔
’’چلو کوشش کرنے میں کیا حرج ہے‘‘—— راجیش بھی دودھ کا گلاس لے کر چل پڑا۔
ابھی راجیش گھر سے نکلا ہی تھا کہ منکی آ گئی۔
’’منکی تم نے سنا، گنیش جی دودھ پی رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں مالکن سنا تو ہے، میرے محلے میں بھی کئی عورتوں نے جاکر گنیش جی کو دودھ پلایا ہے۔‘‘
’’تم نے پلایا کہ نہیں؟‘‘
’’مالکن ہم گریب لوگ کہاں سے پلائیں گے؟ بچہ کو تو پینے کھاتر دودھ ملتا نہیں۔ اب گنیش جی بھی دودھ پینے لگے تو دودھ کا اکال پڑ جائےگا۔‘‘
’’ارے تو اس کی فکر چھوڑ اور جلدی سے گنیش جی کو دودھ پلا کر آ۔‘‘
’’مالکن میرے پاس دودھ نہیں ہے۔ آج بھی گوالہ ابھی تک دودھ نہیں دے گیا ہے!‘‘
’’میں دیتی ہوں‘‘—— نشی کچن میں جاتی ہے اور گلاس میں بھر کر دودھ لا کر دیتی ہے۔
’’جا جلدی جا! کہیں گنیش جی کا پیٹ بھر نہ جائے اور دودھ پینا بند نہ کر دیں‘‘—— نشی منکی کو گلاس تھماتے ہوئے بولی۔
منکی بھی گلاس لے کر تیزی سے باہر نکل پڑی۔ اس کے تیز قدم مندر کی طرف اٹھ رہے تھے مگر دھیان اپنے بچے کی طرف تھا۔ اگر آج بھی دودھ والا نہیں آیا تو پھر میرا بچہ——؟
اس کے قدم رکنے لگے——‘
گنیش جی کو پلانے کے لئے مالکن کے بھی کچن میں دودھ نکل آتا ہے، مگر میرے بچے کے لئے؟
منکی رک گئی ’اس نے ایک نظر مندر کی طرف جاتی ہوئی بھیڑ کو دیکھا‘ کچھ سوچا‘ اور پھر دھیرے سے اپنے گھر کی طرف مڑ گئی——!
مصنف:احمد صغیر