جوالا مکھی

0
137
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جس پر فالج کا حملہ ہو ا ہے۔ اس بیماری میں اس کی بیوی اس کا بہت خیال رکھتی ہے۔ وہ بھی اس سے بہت محبت کرتا ہے۔ لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی کے ساتھ اس کے بڑے بھائی کے ناجائز تعلقات ہیں تو وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بیوی کی گردن کو دباکر، اس کی ناک کو پوری طرح چبا جاتا ہے۔

نہ معلوم کدھر سے عیدو کے اندر کا مرد جیسے تڑپ اٹھتا! آنکھوں میں رس سا چھلک پڑتا اور سیدھا ہوتے ہوتے ہونٹ خاتون کے رخساروں پر سے پھسلتے بیر بہوٹی سے ہونٹوں سے چکا جاتے اور نہایت چابک دستی کے ساتھ بھرے بھرے بدن کے گداز نقوش اور مخملی خطوط کے نشیب و فراز کا جائزہ لینے لگتے اور پھر بڑے زور سے بھینچ لیتے اور وہ جیسے کاٹھ کے شکنجے میں کس جاتی۔

یہی نہیں کہ خاتون ہی کا خون متھ ہو جاتا۔ عیدو کے ہونٹ بھی چپچپا کر دب سے جاتے۔ بیمار آنکھوں میں لال ڈورے اچھل جاتے، سانس تھرتھرا جاتی۔ گویا بھولا ہوا سبق یاد آ جاتا اور پچھلے پانچ سال کی رات شب برات اور دن عید کے ہنگاموں میں سے بس اتنی ہی استعداد باقی رہ گئی تھی جیسے سر کچلنے کے بعد سا نپ میں بل اور اینٹھ باقی رہتی ہے اور فالج کے مارے ہوئے عیدو کے اندر جیسے شہد کی صورت زہر لہراتا اور خاتون کو تو سچ مچ اس وقت سانپ ڈس لیتا۔۔۔!

بقول شخصے۔۔۔’’زندہ در گور، قبر میں پاؤں لٹکا ئے‘‘ زیر ناف کلیہ مفلوج۔۔۔نچلا دھڑ بے کار اور حرکت سے معذور اور کمر کے خاص اعضاء کو تو بالکل ہی مردہ کہیے۔ مگر بقیہ پوری ریڑھ تندرست تھی اور اوپر کا بدن بلکل صحیح پھر بھی خود اٹھ کر بیٹھ نہ سکتا تھا اور جب خاتون اٹھا کر بٹھا د یتی تو کھونٹا سا بیٹھا تو رہتا لیکن بس بیٹھا ہی رہ جاتا اور بغیر سہارے لیٹ نہ سکتا اور لیٹ کر بھی تختے کی طرح پڑا ہی رہتا اور بغیر تھوڑے سے سہارے کے پوری لاش کے ساتھ آسانی سے کروٹ بھی نہ لے سکتا تھا۔

اور خاتون جب کھانا لے کر آتی تو بالعموم رات کے کھانے کے بعد لٹاتے ہوئے سہارا دیتے وقت مفلوج عیدو میں ڈیڑھ سال پہلے والا شوہر جاگ پڑتا اور پھر وہ کر موجلی سرشام کی چھڑی مفت میں صبح تک پھنکتی رہتی۔۔۔ خاتون میں شوہر گدگداتا رہتا اور یہ بے خبر پڑا سوتا رہتا۔۔۔ چھ فٹا کوروں کا لٹھا سا کھڑا، چلتے پھرتے، کود تے پھا ند تے خوابوں میں گم، جب اس کے بیس گرہ سینے اور سولہ گرہ چوڑے پیٹ کے نیچے بھینسے کی طرح چبوترہ سی کمر تھی جس میں جمنا پارو کی طرح مضبوط دو ٹانگیں تھیں جمنا پارو بیل کی طرح مضبوط اور کاٹھیا واڑی گھوڑے کی طرح تند ٹانگیں جن کی دھمک کے مارے دھرتی پانی چھوڑتی اور پاتال تھرتھراتا۔۔۔ عیدو کو لیے لیے پھرتی اور عیدو تو خواب میں ہی عیدو ہوتا۔ مگر خاتون پر ساری رات جاگتے عیدو ہی عیدو سوار رہتا۔۔۔!

- Advertisement -

فالج گرنے کے بعد چھ سات مہینے تو علاج کی مصروفیت اور تندرستی کی امید رہی۔ پھر جب گاؤں اور قصبوں تک کے سب ویدوں، حکیموں اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو کچھ دنوں ابدی معذوری کا شدید احساس اور دائمی ناامیدی، سنگین قنوطیت سی طاری رہی مگر پھر حالات کے استقلال اور وقت کے مرہم نے صبر کی کیفیت پیدا کر دی اور مجبور حالت سے مطمئن ہوتے ہی بھولی باتیں یاد آنے لگیں۔ بے معنی سی رجوعیت نے عود کیا۔ پہلے دو ایک روز تو ذرا ڈرتے ڈرتے شروعات کی اور پھر یہ مہمل اختلاط اور پیار رات کے کھانے کے بعد کا معمول بن گیا۔

جیسے خود کو دھوکا دیتے ہوئے خاتون نے شروع شروع میں تو کچھ دنوں تک نہ معلوم کیوں شوہر کی دل شکنی کے لحاظ میں شاید باطل خود فریب سی امیدی میں اس جھوٹ موٹ کے کھیل کا ترکی بہ ترکی جواب دیا مگر اس کا جواب تو اس کا سوال ہی ہو سکتا تھا اور جب سرے سے سوال ہی غائب ہے تو جواب کیا ہو سکتا تھا جیسے کچھ اپنا منہ آپ ہی چڑھا کر رہ جاتی او ر اس کے گلابی رخساروں، پنکھڑی سے ہونٹوں پر جیسے کالا ناگ سر شام نہ معلوم کتنے پھن مار دیتا۔ اس کے سینے، بازوؤں اور پشت پر اور نہ معلوم کہاں کہاں مشعل سی پھر جاتی اور پھر پوری رات انگاروں پر کٹ جاتی۔ چٹ، چٹ، چٹاچٹ، کباب کی طرح چٹختے، بھنتے، سلگتے اور ایک مرتبہ اندر ہی اندر جھنجھلا کر ذرا سنجیدگی کے ساتھ شوہر کی اس طلب مجہول پر اعتراض کیا اور اس کا جواب مانگا تو عیدو ٹٹولتا ٹٹولتا دل سے اتر کر خاتون کی بات کا جواب تلاش کرتا پیٹ تک پہنچا۔ خیر یہاں تک تو شاید کچھ بازگشت جیسی آواز محسوس بھی ہوتی تھی۔ مگر ایک ذرا بڑھ کر کمر پر تو موت کا سناٹا تھا اور وہ مہمل چیز بھی معدوم تھی۔۔۔! اور مس اور بوسہ خواہ حقیقی ہو یا مجازی تحریک تو رکھتا ہی ہے اور یہ تونہ ’’یہ‘‘ ہوتا ہے نہ ’’وہ!‘‘ مگر اس بے چاری کے لیے تو کسی مد میں نہ ہوتے ہوئے بھی طوفان سا تند اور آگ سا تیز ہوتا اور بغیر کسی جواب کے عیدو اپنی حرکت سے باز آنے والا نہ تھا۔ اس شوخ بچے کی طرح جو تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکریاں پھیکط کر گول گول متلاطم لہروں کا تماشا دیکھتا ہے اور وہ بےچاری ہر رات جیسے پچھلے پانچ سال عیش کوشیوں اور شب باشیوں کے رد عمل سے دو چار ہو کر صبح کوخمار زدہ شرابی کی طرح اٹھتی جس کے پس منظر میں شراب کے سرو رکا بھی کوئی سراغ نہ ہوتا۔۔۔ خمار ہی خمار سر شام کا چڑھا صبح تک۔۔۔! اور صبح سے شام تک اعضاء شکنی اور پٹخن ہی پٹخن! ہمہ وقت جلن ہی جلن۔۔۔؟ پیاس ہی پیاس سارا دن! بھوک ہی بھوک تمام رات!

خاتون نوجوان تھی۔ غضب کی تندرست بلا کی حسین اور کل کی بات ہے اس کی نوجوانی، تندرستی، نسائیت اور زوجیت کے پورے پورے حقوق عیدو کندھے سے کندھا ملائے نہایت مستعدی کے ساتھ ادا کرتا رہا تھا۔ اچھے بھلے پر فالج گرا، اگر مر جاتا تو اس کا سوختہ نصیب جوان مٹی بھی سہارے لگ ہی جاتی اور کہیں نہیں تو چار پانچ برادر دو بول پڑھوا کر شبراتی سے ہی پلو باندھ د یتے گھر کے گھر ہی میں، اس سے کیا کہ شبراتی دو بچوں کا باپ تھا اور اپنی جورو کا خصم، تھا تو عیدو کا بڑا بھائی، باپ کی جائداد اور بھائی کی ناک کسی اور کے کیسے حوالے کر دیتا۔ مرے پار نہ بھرے پار۔ گھر کی بہو تھی۔ بیوہ بھاوج نہ سہی دوسری بیوی بنا کر بھرتا ہی مرتا اور اب اکیلا اپاہج بھائی کو چار پائی پر پڑے پڑے کھلا ہی رہا تھا اور پامردی سے اکیلا دھڑی بھر آٹا اور کھانے والے کنبے کو ذراسی آبائی زمین جوت کر پال رہا تھا۔ مگر خاتون تو سانپ کے منہ میں چھچھوندر تھی اور سانپ بھی گریا ٹوٹا۔۔۔ اور سانپ بھی نہیں مسلے ہوئے سنڈے کے پلے بندھی ہوئی۔۔۔ اور خاتون کی زندگی کا دھارا ہر شام چڑھتا رہا اور ہر صبح ابلتا رہا اور بہتا پانی تو اپنی سطح خود تلاش کرتا ہے۔۔۔ اور پستی میں سکون پا کر ہی دم لیتا ہے۔

کمر، ٹانگوں سے اپاہج عیدو کے حواس خمسہ بڑے ذکی الحس ہو گئے تھے۔ کوئی موسم ہو وہ باہر تو نکل ہی نہ سکتا تھا، جاڑا ہو یا گرمی معا لجین نے ہر موسم میں بند جگہ پر لپٹے لپٹائے پڑے رہنے کی ہدایت کر دی تھی۔ تھوڑا بہت علاج و معالجہ رسمی مالش ٹکور مستقل چلتی رہتی تھی۔ جاڑے کے بعد پہلی گرمی آنے پر خاتون نے اندر کوٹھری میں اس چار پائی کے برابر اپنی چٹائی بچھا لی اور بدستور وہیں لیٹتی رہی۔۔۔ مگر جیٹھ بیساکھ اور ساون بھادوں کی جلتی ابلتی راتوں میں وہ کیسے اندر سو سکتی تھی، پھر بھی شکایت نہ کی مگر عیدو کو خود ہی احساس ہو گیا اور اس نے اصرار کر کے اس کا بستر کوٹھری کے سامنے چھپر کے برآمدے میں لگوا دیا اور پھر جاڑوں میں برآمدے کے ایک گوشے میں اس نے اپنا پیال ڈال لیا اور یہ اس کی مستقل سونے کی جگہ ہو گئی اور برآمدے میں تو خاتون اور بھی چوکنی نیند سونے لگی۔ پھر اتنے عرصے میں شوہر کی نیند اور مرض کے مزاج کی بھی پوری محرم ہو گئی تھی۔

رات کے ہر حصے میں پہلی مٹھار پر مچھلی کی طرح تڑپ کر بستر سے نکل آتی اور شوہر کی پٹی سے آ کھڑی ہوتی، ایک دفعہ کوٹھری میں آ واز دینے کی نوبت آ جاتی تھی۔ مگر برآمدے میں تو جیسے پہلی سانس سن لیتی اور عیدو کے دماغ پر توفالج نہ گرا تھا۔ اسے تیمار داری اور خد مت کا شد ید احساس تھا۔۔۔ اس کے ساتھ اپنی زندگی کے پانچ سالہ ازدواجی دنوں کی چپقلشوں اور ہنگاموں کی یاد یں رنگین خوابوں کی طرح علیل خون میں گونتی تھیں۔ جیسے اسٹیج پر نغمہ ریزی کرتے ہوئے دو مغنی آہستہ آہستہ نغمہ ختم کر کے چلے جاتے ہیں اور، پھر بڑی دور سے میٹھی میٹھی مدھم نسائی آواز مرمریں سا معہ نوازی کرتی رہتی ہے اور اب! اب تو یک طرفہ نغمہ! دوسرا سر، کن سرا بھی نہیں، خاموش، گونگا!! اور آج! آج بھی اسے اس کی نوجوانی کے شدید تقاضے معلوم تھے اور وہ خاتون کے ہر پہلو کا آشنا تھا اور سچا محرم راز! اور اب تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے قہر گرانے کے ساتھ اللہ میاں نے اس کے حق میں فرشتہ رحمت بھی نازل کر دیا ہے اور پروگرام کی پہلی شق سے لے کر آخری شق تک رات کو بستر پر لیٹ کر سونے سے پیشتر روزانہ اس کی بند آنکھوں کے سامنے گھومتی، صبح ہی صبح پیشاب پاخانے کے برتن لے آنا اور بٹھا کر رفع حاجت کرانا، پھر تہمد کی گھنڈی لگا کر لٹانا اور پیشاب پاخانہ اٹھا کر لے جانا۔ تھوڑی دیر بعد گرم گرم دودھ کا پیالہ لے کر آنا اور پھر اٹھا کر ہاتھ سے پلانا۔

دوپہر تک ایک دوبار پیشاب کرانا اور وقت، وقت پر کروٹ بدلوانا، پھر دوپہر کو شوربے یا دال میں گلی ہوئی روٹی لے کر آنا اور کھڑے ہو کر کھلانا۔۔۔ سہ پہر تک دو مرتبہ پھر پیشاب کرانا اور چار کروٹیں بدلوانا اور پاؤں کمر پر مالش کرنا۔ سر میں تیل ڈال کر کنگھی کرنا۔ جمعہ کے جمعہ گرم پانی ناندھ بھر کر لانا اور روٹی کے گالوں سے تمام بدن پر پجارا پھیرنا۔ سر میں پڑا اور کھلی ڈال کر صفائی کرنا اور نہ معلوم کیا کیا کرنا۔ جتنی ’’کریں‘‘ تھیں سب بیوی ہی کے ذمے تھیں اور شوہر کے سر ایک بھی نہیں اور شاید انہی ’’کروں‘‘ کے شدید احساس سے اس کے ٹھنڈے خون میں رات کے کھانے کے بعد لہر سی اٹھتی اور اس کے ہاتھ خاتون کے بدن پر ناچنے لگتے اور ہونٹ رخساروں پر پھسل کر ہونٹوں سے جا چپکتے۔۔۔ نہ معلوم کیوں؟ اور عیدو فلاسفر تو تھا نہیں آدمی تھا، آدمی بھی ایک چہارم اور تین چہارم مٹی کا تودا۔ اگر چہارم بھی آدمی نہ ہوتا اور سب کا سب میی کا تو داہی ہوتا تو بھی کہتے ہیں کہ مٹی کا تودا بھی احساس کر لیتا ہے۔ لیکن اس چہارم آدمی میں ہی پورے چار آدمیوں کی حس تھی اور تین چوتھائی مٹی کا تودے میں بچھو کے ڈنک جیسی سوزش! وہ خوب سمجھتا تھا کہ وہ اس کی روزی کا خود کفیل نہیں، اس کو بڑے بھائی کی محنت سے ملتی ہے۔ اس کی نوجوانی کے لہراتے جذ بات کا کفیل نہیں اور شاید اس کی کفالت کسی پر نہیں ہے جو روزی سے زیادہ شدید تقاضا ہے اور وہ بھرا بھر جوانی چوکڑی بھولی ہرنی ہے ریت کے ٹیلوں میں گم! جسے اپنا راستہ یاد نہیں، بس جستیں ہی جستیں اور تلاش ہی تلاش مقد ر ہے۔۔۔ اور ماگھ پوس کی ایک یخ بستہ اندھیری رات میں خدمت اور تیمارداری کے احسان کی چٹان کے تلے دبے بیمار و نزار عیدو کی خلاف معمول آنکھ کھل گئی۔

کوٹھری کے دروازے کا ایک کیواڑ بند تھا، دوسرا آدھا کھلا ہوا تھا۔ سامنے برآمدے میں پیال پر خاتون کا بستر تھا، اور جیسے پیال پر اٹھنے کی سر سراہٹ ہوئی اور پھر برآمدے کی دہلیز پر سایا سا جاتا معلوم ہوا اور سائے کی حرکت سے عیدو نے اندازہ لگایا کہ خاتون اٹھ کر باہر گئی اور صحن میں دوسری جانب ایک اور سایا بڑھا اور کہرے اور دھوئیں کی ڈولتی ہوئی متحرک کالی چادر میں لپٹے ہونے کے باوجود اس نے بڑے بھیا کے سائے کو پہچان لیا اور سمجھ گیا کہ شبراتی اپنی کوٹھری سے باہر نکل آیا۔ صحن میں دونوں سائے جمع ہو گئے۔ سامنے کوٹھار کا دروازہ تھا اور جیسے دونوں کوٹھار کی جانب بڑھے اور کوٹھار کی زنجیر اور کیواڑ کھلنے کا مخصوص کھٹکا، جس سے ارد گرد کے کان بچپن سے خوب مانوس تھے اور پھر خواہ کتنے ہی آہستہ کیواڑ بند ہوئے مگر اس کی چرخ چوں تو عیدو کے کانوں میں، پوتڑوں میں پڑی تھی۔۔۔ اور عیدو کی کوٹھری اندھیرے کو چیرتی، صحن کے اندھیرے کو پھاڑتی کوٹھار کے کیواڑوں کو توڑ کر اس پار کی تاریکیوں میں سب کچھ دیکھ رہی تھی اور اندر گرمی کی نمی اور نمی سے جیسے ناک کو ٹسوے پر محسوس ہو رہی تھی، برسات کی سیلن سی، بدبو، بھکراند۔۔۔ گویا اسکرین پر دو کھیلتی مورتیں، زندہ! ایک جان اور دو قالب، رونگٹا رونگٹا، متحرک ہی متحرک، گرم ہی گرم، گرم اور نم اور اسے ایک جھر جھری سی محسوس۔۔۔ ماگھ پوس کی ملی جلی رات میں لوکی سی جھر جھری۔۔۔! مگر وہ تو حرکت سے بھی معذور تھا، گرمی سے بھی محروم۔۔۔ مگر ناک کے ٹھنڈے ٹسوے سے لے کر ناک تک سنسناہٹ ہو گئی۔۔۔ جیسے کوئی چیز بڑی تیزی سے رینگتی چلی گئی۔ سن۔ سن سنا نانا۔ سائیں۔۔۔! علیل خون میں جوار بھاٹا سا اٹھا اور کنارے دور کہیں آدھے راستے پہنچ کر مندھا گیا۔۔۔ لیکن دل تو مفلوج نہیں تھا اور دماغ بھی تندرست تھا اور دل نے خون کی موٹی دھاریں صاف کر کے دماغ کی جانب اندھا دھند پھینکنی شروع کیں۔۔۔ اور دماغ نے تجزیہ کیا اور ایک لہر سیدھی نیچے کو بڑھی مگر کمر کے پتھریلے بند سے ٹکرا کر واپس آئی اور جیسے رد عمل میں سرسراتے ناگوں کی طرح لہراتی دماغ کی جانب لپکی اور سینے میں سے گزرتے ہوئے لہراتے سانپ کتراکر جیسے دل کے کسی سوراخ میں جا چھپے اور پھر خون صاف ہو کر سلامت روی کی چال چلنے لگا۔ چند منٹ میں پوری ایک کتاب دل و دماغ کے مجاولے پر مرتب ہو کر سینے کے صندوق میں محفوظ ہو گئی۔

کھٹکے پر کان چونکے، کوٹھار کے کیواڑ کھلے اور بیوی اور بھائی کے سائے پھر صحن میں کا نپتے ہوئے معلوم ہوئے، پیال کے تنکے بھن بھنائے اور خاتون کا سایا سامنے بستر میں دبک گیا اور معذور مفلوج کے اندر سوال ابھرے اور اند رہی اندر جواب مل گیا۔ ’’ہوں! جنس کا جائزہ لینے گئے ہوں گے بھاوج جیٹھ کو ٹھار میں۔۔۔‘‘ مگر آدھی رات جنس کے جا ئز ے کا کون سا وقت ہے؟۔۔۔ ہونہہ! نہیں نہیں چور کا شبہ ہوا ہوگا۔۔۔ چوہوں کے کھٹکے پر۔۔۔ ہوں، اونہ۔۔۔ اور اس نے آنکھیں بھی بند کرلیں اور لحاف میں منہ بھی ڈھک لیا اور آنکھ بند کرتے ہی صبح کی پیشاب پاخانے سے لے کر نگاہ سوتے وقت کے دودھ کٹورے تک پہنچ گئی اور پھر زور سے بڑھ کر ہفتوں، مہینوں اور سالوں تک پیچھے دیکھتی چلی گئی اور الٹی چل کر پھر اور پھر آگے گئی تو زندگی کا روزگار تھا، تاریک اور لامحدود اور اس کا کنارہ تو آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود کہیں دور دور دکھائی نہ پڑا، خاتون یا معذوری کا سہارا، بڑھاپے کی ٹکد اور بیماری کی دوا۔۔۔ اور عیدو د یہاتی، دل اور مجبوری میں سمجھوتا کرا کر سو گیا اور صبح کو بالکل مطمئن اٹھا، جیسے شیر خوار بچہ بیدار ہوتا ہے ماں کے ہاتھوں کا تھپکا میٹھی لوری پر گہری بے خبر نیند سو کر۔۔۔اور سورج کی پہلی کرن کے ساتھ تو جیسے اس پر ساتوں طبق روشن ہو گئے۔ خاتون حسب معمول پیشاب پاخانے کا برتن لے کر آئی، اپنی معذوری اور بیماری۔۔۔اس کی خدمت اور تیمارداری۔۔۔اور پھر جیسے رات کے واقعات کا ہلکا سا سایا سا دماغ کے پردے پر منعکس ہوا اور فوراً ہی معدوم ہو گیا۔۔۔خاتون کی بھربھراتی جوانی۔۔۔شبراتی کی جاں فشانی۔۔۔جواپنے بل پر اکیلا ذراسی آبائی زمین کے سہارے پورے کنبے کا بار اٹھائے ہوئے ہے۔۔۔ اور سب سے زیادہ خود اس کا اپنا بار، چارپائی پر پڑے پڑے! اور وہ اور خاتون دونوں اسی پر تولدے ہوئے ہیں۔۔۔ اور سمجھوتہ راسخ تر ہو گیا۔ بارٹل گیا۔۔۔ ادھار چک سا گیا۔۔۔ دن کا دن چڑھ گیا اور رات اترتا ہوا قرض صبح کے صبح پاک!

بہار کی ایک نم ناک خنک صبح کو عیدو کی آنکھ جیسے کسی شور پر کھلی۔۔۔ چڑ۔ چڑ۔ چڑا چڑ چھت سے دو چرونٹے لڑتے ہوئے چا رپائی کے برابر زمین پر آ گرے اور گتھ گئے اور چڑیوں کے دو جوڑے ہمیشہ سے چھت میں رہتے تھے اور عیدو کی تنہائی کے رفیق تھے اور عیدو ان میں سے ہر ایک کی جبلت کا پورا محرم اور دن کے سنسان گھنٹوں میں ان کے مشاغل دیکھ دیکھ کر وقت کاٹتا اور دل بہلاتا تھا، دو تین روز سے بڑے چڑے کی چڑیا غائب تھی۔ شاید کسی اور چڑے کے ساتھ چلی گئی تھی یا باز شکرے نے جھپٹ لی تھی اور چھوٹے چڑے کی چڑیا اس وقت محو ناز تھی۔ نیچے پہنچ کر دو منٹ پھدک پھدک کرچونچ پنجوں سے چلتی رہی پھر کشتی ہونے لگی۔ کبھی یہ اوپر کبھی وہ۔۔۔ کچھ دور پر چڑیا بیٹھی دیکھتی رہی جیسے نتیجے کی منتظر، چارپائی پر پڑا عیدو دیکھتا رہا شاید نتیجے سے باخبر۔۔۔ اور جیسے دونوں چڑوں کے خون کا جوش عیدو کے سینے میں سنسنایا، چڑیوں کا دل کا دل گردن سے رینگ کر کمر کی جانب بڑھتا محسوس ہوا۔۔۔ مگر آگے تو راستہ بند تھا جیسے کچھ اپنا تھا ہی نہیں، گویا کسی اور کے، شاید شبراتی کے کمر، کولہے، رانیں، پنڈلیاں فٹ تھیں اور اوپر نیچے میں ربط نہ تھا اور جب اس نے گردن اٹھا کر د یکھا تو چھوٹا چڑا شکست کھاکر فرار ہو رہا تھا اور دوسری نگاہ ڈالی تو سامنے کھو نٹی پر بڑا چڑا اس چڑیا کے ساتھ اختلاط کر رہا تھا۔۔۔ عیدو نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔ یہ تو گردن سے لے کر دم تک پورے گریوں والا بھی شکست کھا گیا۔۔۔! اور شکست کھانے کی قوت تو تھی اس میں! اور یہاں تو یہ بھی نہیں۔۔۔شکست کھا کر بھی شکست کے لیے اسے کسی کی مدد درکار ہے۔ پاؤں سے لے کر کمر تک افتاں و خیزاں نگاہ چڑھی اور جیسے رونگٹے رونگٹے پر ٹھوکر کھاتی کمر پر پہنچ کر چاروں خانے چت جا پڑی، آنکھیں بند ہو گئیں، ذرا دیر میں بھاوج کی گرج اور بیوی کی چنچناہٹ پر کان چونکے، صحن میں دونوں لڑ رہی تھیں۔

شروع شروع میں تو مکالمے گول گول رہے مگر وہ دونوں کے مکالمے اچھی طرح سمجھتا رہا اور لفظ لفظ کی وضاحت اس کے دماغ میں گونجتی رہی، مگر وہ یہی سمجھے رہا کہ د یورانی جٹھانی کی روایتی، تو، تو، میں، میں ہے۔۔۔ اونہہ! گھریلو۔۔۔ دال، آٹے، چاول، گڑ، تیل، گھی کے گرد گھومتی ہوئی لڑائی جیسی گھر گھر میں ہوا کرتی ہے اور اس نے آنکھیں بند کرکے د بیز رضائی بھی منہ پر ڈھک لی اور خیر آنکھیں تو بند کیے بند بھی ہو جاتی ہیں، مگر یہ کان! یہ کان کم بخت تو ہر وقت کھلے ہی رہتے ہیں اور سات تہوں میں دباؤ لاکھ انگلیاں ٹھونسو، ظالم سنتے ہی رہتے ہیں اور عیدو کے کان تو جیسے اس کے دماغ کے اندر کی آوازوں سے پنپنا پنپنا کر بھاوج کا کہا سن رہے تھے اور عیدو کی آنکھیں تو اندھیرے میں بھی دیکھتی تھیں۔ کھلی بند یکساں اور اندھیرے کوٹھار میں اور بھی زیادہ اور بھی واضح۔۔۔!یہ تو روز روشن تھا! اور بھاوج قیاس اور شبہے پر کہہ رہی تھی مگر عیدو کے کان بھی سن رہے تھے اور آنکھیں بھی دیکھ رہی تھیں۔۔۔ اور سمجھی سمجھائی کو کیا سمجھا نا اور اس نے تو دل تک کو سمجھا لیا تھا، خاتون کے طلائی مکھن سے چکنے چکنے ہاتھ جن میں سہاگ کی چوڑیاں جھنجھناتی ہیں وہ برف کی چوٹی سا سینہ ہے جس میں لاوا بھڑ بھڑاتا ہے، ریشم کی پوٹ سی کمر جس میں مچھلیاں سی تڑپتی ہیں اور انھیں کے بل پر کھڑی ہو کر وہ اس کے کیچوے جیسے وجود کو پالتی ہے اور کیچوا تو نہ سن سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے۔۔۔ اور پھر کمر ٹوٹا کیچوا تو رینگنے کا بھی اہل نہیں ہوتا، تو وہ پھر کیوں دیکھے اور کیوں سنے۔

مگر کمر ٹوٹا اندھا، بہرا کیچوا تو سب سنتا رہا اور سب کچھ ہوتا رہا اور سب کچھ ہوتا رہا اور دیکھتا بھی رہا۔

’’ہوں چھنال۔۔۔! تیرا تو اللہ نے چھین لیا اور تونے مجھ پر ہاتھ صاف کیا۔۔۔ دن دہاڑے۔‘‘

’’چپ، چھنال ہو گی تو، آئی بڑی تہمت دھرتی۔‘‘ خاتون نے بڑی مشکل سے جھینپ دبا کر کہا۔

’’اچھا رنڈی، تہمت! کیا میں اندھی ہوں؟ اور تو تو اندھلا گئی ہے آگ میں بیسوا۔‘‘ جیسے شبراتی کی بیوی کے منہ سے یکے بعد دیگرے شعلے ہی شعلے نکل پڑے۔

’’چل ستر خصمی۔۔۔‘‘ خاتون نے سنبھلتے ہوئے جیسے کسی اور کے حلق، سے نکالا۔

’’جاجا چھنال! چوری اور سینہ زوری بات کرنے کے قابل ہے تو بھی۔‘‘ دروزاے پر شبراتی کی مٹھارسن کے مدھم آواز میں کہا۔

’’چھنال تویا میں، آئی بڑی کوئی وہ بن کے۔‘‘ شبراتی کی چاپ سن کر خاتون نے روہانسی آواز میں کہا۔۔۔

اور اتنے میں شبراتی کی شیر جیسی گرج سنائی دی، جس کے لوہے کی لاٹ سے قد میں بھینسے کی طرح مضبوط اور کاٹھیا واری گھوڑے کی طرح تند پڑی ہوئی ٹانگیں لگی تھیں، جن کی دھمک کے مارے دھرتی پانی چھوڑتی اور پاتال تھراتا تھا۔ جو سب کا کفیل تھا اور ہر بات کا اہل۔۔۔ اور کمر ٹوٹا کیچوا بھی تو اسی کی اہلیت کے بل پر بلبلایا کرتا تھا۔

شبراتی کی گرج پر خاتون سہم کر چپکی ہوئی، شبراتی کی بیوی ایک دو دفعہ چیخی چلائی اور پھر بیل ہانکنے کے ہنٹر کے ڈنڈے (آر) کی آواز سنائی دی اور براتی کے دونوں بچوں کی چیخ پکار اور بیوی کی آہ وبکا ذرا دیر بس شور ہی شور! اور پھر ڈنڈا پیٹنے کی دھما دھم اور پھر مدھم شور! اور پھر مکمل خاموشی۔

اور یہ روزانہ کا نہیں تو اٹھواڑے میں چار دن کا معمول بن گیا اور ہمیشہ شبراتی کا ڈ نڈا بیچ بچاؤ کراد یتا اور جب شبراتی کھیت پر ہوتا اور لڑتے لڑتے صبح سے دو پہر کو خاتون عیدو کے لیے دودھ روٹی لے کر آتی تو عیدو کی آنکھیں اس سے چار نہ ہوتیں، گردن جھکائے ہی جھکائے کٹورا لے لیتا اور ایک دم سڑوپ جاتا جیسے جرا چرا ڈ را ڈ را سا اور کھاپی کر بغیر رسمی ہوں، ہاں کر کے لیٹ جاتا اور آنکھیں بند کر لیتا، مبادا خاتون کہیں آج کی لڑائی کی بات چھڑی دے۔۔۔

اور بات تو کوٹھار سے نکل کر پہلے شبراتی کی بیوی کی کوٹھری میں پہنچی تھی اور جب وہاں شبراتی کا ا گھوری، استر، جوتا ختم نہ کر سکا تو نکل کر صحن میں ناچنے لگی اور اس ناچ کو شبراتی کا ڈنڈا بھی نہ روک سکا اور سب گھر والوں نے حتی کے ذہین اور تیز گوش قسم کے پڑوسیوں تک پہنچ چکی تھی البتہ عیدو کے منہ در منہ نہ پہنچی تھی، مگر سب کو یک گونہ حیرت ہوئی اور سب سے زیادہ عیدو کو، بات تو بدستور چلتی رہی مگر شبراتی کی بیوی خاموش ہو گئی اور چھ مہینے روز روز کی چخ چخ اور دھائیں دھائیں کے بعد اس کی یہ سکون کی کیفیت حیرت زدہ تھی۔ حتی کہ اب شبراتی کے کوٹھری سے بھی یہ بھوت چڑیل کے چیخنے کی آوازیں نہ آتیں۔

شبراتی کی بیوی کی پہاڑ سی اٹل نسائیت کا بڑا اقتصادی مصلحت کے ساتھ سمجھوتا ہوا، اگرچہ ان کی عورت والی جبلت اندر ہی اندر لا وے کی طرح پکتی رہی مگر خارجی طور پر پر سکون سا رہا اور مصلحت کا پلہ تو ہمیشہ سے بھاری رہا ہے اور وہ بھاری بھرکم پن کے ساتھ سب کچھ برداشت کرتی رہی جیسے کسی خاص مطمح نظر کے تحت خونی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ کر بھی اندھی رہی اور لالچ تو اندھا کر د یتا ہے اور بہرا اور گونگا بھی اور آبا ئی زمین سے تو بڑی محبت ہوتی ہے اور شبراتی نے آبائی زمین داری کا سبز باغ اس کے دونوں لڑکوں کے حق میں دکھایا اور عیدو اور خاتون کو نکال د ینے سے آدھی زمینداری نکل جانے کا خطرہ ظاہر کیا۔۔۔ اور زن، زر، زمین کے روایتی جذبات پر زمین کا لالچ غالب آیا اور اولاد کے مستقبل کے لیے مامتاؤں نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔

مگر آج آثار شدید تھے جیسے چھیوں مہینے کے شور آج ایک دم صحن میں پھٹ پڑے تھے۔ خاتون تو خیر علیحدہ تھی۔ آج منہ در منہ اور اس کی بیوی میں ہو رہی تھی اور خلاف معمول شبراتی ڈھیلا اور بیوی تنی ہوئی تھی۔۔۔ تھوڑی تو تو، میں میں کے بعد شبراتی کی بیوی گلے میں رسی ڈال کر چھپر کے شہتیر میں لٹکے لگی۔ بچوں نے دوڑ کر شور مچایا اور چوپال سے اٹھ کر شبراتی اندر بھاگا اور خیریت گزری کہ وقت پر آ گیا اور ابھی لٹکنے نہ پائی تھی کہ گلو خلاصی کر کے پکڑ لیا، تو دیواروں سے زور زور سے سر ٹکرانے لگی اور آج پہلی مرتبہ شبراتی نے اپنا ڈ نڈا کلر محسوس کیا پھانسی اتارتے گلے پر ڈ نڈا تو ڈ نڈا تلواریں بھی کٹھل ہو جاتی ہیں اور شبراتی نے ہمیشہ لات سے اتارنے والا بھوت بات سے اتارنا چاہا اور پھانسی کے پھندے سے نکلی ہوئی عورت کے رونگٹے رونگٹے سے زخمی شیرنی کی سی چنگاریاں چٹخ پڑیں اور شبراتی کے ’’کیوں کیوں، کیا بات ہے! کے رسمی سوال جواب میں جیسے چھ مہینے کی سیکڑوں خاموش عورتیں جاگ پڑیں۔‘‘ تو نہیں مانتا کیا بات ہے! تیری وہ ہوتی سوتی تو سب جانتی ہے نگوڑی چھنال نے تجھے یہ نہیں بتایا پانچ مہینے بیت گئے بیسوا کو اور تو تو میری چھاتی پر سال بھر سے دکھ دکھا تے مونگ دل رہا ہے۔ مٹا چھنالا کہیں کا مکار!‘‘

’’اور پانچ مہینے بیت گئے، سن کر تو ایک دفعہ شبراتی اچھل پڑا کچھ کہتے بن نہ پڑی، سٹ پٹا کر سبھلا، چور ضرور تھا مگر کوتوال سے ساز باز کیا ہوا چور تھا۔ ڈھٹائی کے ساتھ بولا۔

’’جھوٹ بالکل جھوٹ بکتی ہے۔‘‘

’’میں جھوٹ بکتی ہوں۔ کل سب پر کھل جائےگا اور دور کیوں جاؤ اپنی اس نگوڑی بیسوا سے پوچھ لو اور پوچھ بھی کاہے کولو، دیکھ لو نا! وہ سامنے کھڑی ہے چھنال، مٹکا سا پیٹ لیے‘‘۔۔۔ اور خاتون مظلومیت کے انداز میں پگھے کی آڑ پکڑنے لگی جیسے کوئی پھنسا ہوا چور۔۔۔ اور کن انکھیوں سے اس جانب دیکھ کر شبراتی اچھی طرح سنبھل گیا اور ڈھٹائی کے ساتھ بولا،

’’تو ہی سچی! چل! تو کیا بات ہے!‘‘

اور جیسے شبراتی کی بیوی کے نتھنوں سے سانپ پھنکار پڑے، ’’چل چھنالے، مکار، جھوٹے، فریبی اور سال بھر سے مجھے دم دلا سے دے رہا ہے، بتا تیرے میرے بچا کیا بات ہوئی تھی جو میں سال بھر سے منہ سے ے بیٹھی بھیتر بھیتر پھنک رہی ہوں اور تو گل چھرے اڑا رہا ہے۔‘‘

’’کیا بات ہوئی تھی؟‘‘ شبراتی نے اپنے ڈھیلے انداز کو جھٹکے دار لہجے سے سہارا دیتے ہوئے کہا۔

’’ہوں۔۔۔‘‘ اور جیسے سر سے پاؤں تک ناگنیں ہی ناگنیں لہرا پڑیں۔ ادب، لحاظ، تمیز، میاں بیوی سب رشتے کٹ ہی گئے تھے جواب طلبی ہی جواب طلبی تھی۔ ’’آج کیسا بہرہ بنتا ہے، موا مکار سال بھر سے مجھ رنڈیا کو دم دلا سے دے رہا ہے کہ باپ کی سب جائیداد تیرے لڑکوں کو ملےگی اور میری آنکھوں میں تکلے گھونپ گھونپ کر سامنے۔۔۔‘‘

’’تو کیا عیدو باپ کا بیٹا نہیں،‘‘ ڈھٹائی اور عذر لنگ کے سہارے جیسے شبراتی نے بات بدلنی چاہی۔

اور جیسے شکاری کتا خرگوش کو بھنبھوڑ کر پھینک دیتا ہے ’’چل چل دور رہو مت بنو! جھوٹے، سب معلوم ہے، کون کون حرامی باپ کا ہے اور تو کیا جانےگا زانی کار، حرامی بچے! تیری اماں چھنال کو بھی معلوم تھا حلال کیا ہوتا ہے، مٹے چھنالے! نگوڑے پاپی! موئے کتے! اب بتا جو تونے سال بھر سے مجھے دم دلا سے دیے۔‘‘ اور سوتیا ڈاہ کا جوالا مکھی بھڑبھڑاکر لاوا اگل رہا تھا۔ مگر سال بھر کی ڈھیل میں شبراتی کی ڈھٹائی چٹان کی طرح بےحس اور اٹل ہو گئی تھی، کچھ شوخی اور بےحیائی کے ملے جلے انداز میں کہتا ہوا باہر نکل چلا گیا ’’خیر یہی سہی‘‘ مجھے اس سے کیا، مرے تو تینوں کو ملےگی۔‘‘

اور شبراتی کے پیٹھ پھیرتے ہی چھتوں اور چھڑیوں پر گلہریوں اور چھپکلیوں کی طرح چپکی پڑوسنیں صحن میں اتر آئیں اور بات تو سب کی سب نہ جانے کب سے جانے پڑی تھیں، آج نیا شگوفہ کھلا تھا، نیچے آتے ہی تجاہل عارفانہ سے دو طرفہ سوالات جوابات کا روغن چھڑکا اور بھٹیاں پھر بھڑک اٹھیں، ایک ہنسوڑ پیہم قہقہے لگا رہی تھی، دوسری مسخری ہنسنے پر مخصوص سنجیدگی سے ڈانٹ رہی تھی، تیسری بول پڑی، ’’گھر بیٹھے آیا پوتا، بویا نہ جوتا۔‘‘ کوئی ٹھنڈی پنچائیتن بولی پڑی، ’’بویانہ جوتا کیوں بوا؟ اس کا تو سات ہاتھ کا خصم بیٹھا ہے۔‘‘ جب تک ایک بڑ بوڑھی نے لقہا دیا ’’بیٹھا کہاں ہے بہن لیٹا ہے جبھی تو۔۔۔!‘‘ اور آنکھ مار کر شبراتی کی بیوی کی جانب اشارہ کیا اور شبراتی اور عیدو کی بیویاں غراتی بلیوں کی طرح لڑتے لڑتے غٹ پٹ سی ہو گئیں۔ یہ لپکی وہ سہمی اور برآمدے میں ہٹی اور بات ’’ڈرگس ڈران‘‘ سے بڑھ کر ’’لٹیل پوائنٹ‘‘ پر پہنچ گئی، د نا دن ہونے لگی، برآمدے کی د ہلیز پر پہنچ کر شبراتی کی بیوی بڑے تڑاخ کے ساتھ بولی ’’نہیں آج تو بوا کو چھوڑوں گی۔‘‘ اتنی پنج بیبیوں کے سامنے منہ پہ بیسوا چھنال بارہ تالی سے!‘‘ اور پھر زہر کا گھونٹ بھر کہا، ’’بتا چھنال بتا! یہ کہاں سے لائی؟ رنڈی!‘‘ اور ایک دم برآمدے میں بڑھی، خاتون بے چاری دو قدم پیچھے ہٹی اور عیدو کی کوٹھری کے دروازے پر پہنچ گئی۔ عیدو تو بڑی دیر سے سب کچھ خاموش پڑا سن رہا تھا اور یہ تو عورتوں کی لڑائی تھی۔

دھڑمار اپاہج کیا بولتا! لیکن جب بڑھتے بڑھتے اس کے بستر تک پہنچے گئی تو کمر کو لہے ہی تو مفلوج تھے۔ زبان، حلق پر تو لقوا نہ گرا اور شبراتی کی بیوی نے جس وقت ایک قدم چوکھٹ کے اندر بڑھا کر منہ سے ایک شعلہ سا نکالا، ’’نہیں آج کہلوا کر چھوڑوں گی چھنال سے، بول کسی اپنے نکمے کا نہیں ملا تو میرے کا رکھ لیا، ایسی لات مروں گی جو پل سے نکل کر جا پاڑے،‘‘ تو جیسے عیدوکے اس کولہے سے اس کولہے تک کرنٹ نے شاک مار دیا۔ وہ بجلا کر جاگ پڑا۔ سیلی بارود کے تو دے پر انگارا سا آ پڑا، منہ سے غلیظ دھواں نکلا اور گویا کمر کا مفلوج گریا چٹاخ سے بولا ’’تو بھی نکما کہتی ہے سیتی ستا! ذرا گریبان میں منہ ڈال کر تو دیکھ! ابھی تو عیدو کی آنکھیں کھلی ہیں کہے تو بال بال بین کر رکھ دوں۔ سب بھول گئی نیک بخت!‘‘ اور پھر مخصوص انداز میں لہجہ بدل کر کہا، ’’اس کا خیر آج شبراتی کا ہے پھر میں نکما نہ ہوتا تو تیرے دونوں کہاں سے آتے؟ کچھ یاد ہے، کل کی سی تو بات ہے۔۔۔‘‘

ادھر عد و کے ڈھیر میں سے گویا دو مردوں نے تن کر بیوی کو پاک دامنی کی چادر میں ڈھانپ لیا۔ ادھر خاتون سینہ د ند ناتی بر آمدے میں آ پڑی اور شبراتی کی بیوی ایک دھکے سے الٹ کر باہر صحن میں جا پڑی، آواز حلق میں بند ساری اکڑفوں ڈھیلی غصہ کافور، یا تو لال بھبھوکا ہو رہی تھی، یا پیلی پٹکا پڑ گئی، آنکھیں اپنے آپ جھک گئیں اور کڑی سی چاٹنے لگی۔ جیسے عیدو نے اس کے سر گو سے بھرے ہوئے دو گھڑے دھڑ سے ٹکرا کر پھوڑ د یے۔۔۔ اور خاتون صحن میں پنچ بیبیوں میں گرج رہی تھی۔۔، ’’لے حیا دار جب تو نہیں اب کھا پھانسی۔۔۔! لونڈے گھیرنی بڑی ناک والی ہے تو لٹک جا۔۔۔‘‘ اور حقارت کے ساتھ ہونٹ پچکا پچکا کر پڑوسنوں سے داد طلب کر رہی تھی، جب تک ذہین تیز پڑوسنیں بات لے اڑیں۔

’’ہے ہے بیبیو! برا زمانہ ہے۔‘‘

’’چودھویں صدی ہے چودھویں! حرام حلال ہے حلال حرام!‘‘

’’ارے جس کا باپ زندہ اسے کون حرامی کہے!‘‘

’’اور بوا کسی کے کہے کوئی حرامی ہو جاتا ہے؟‘‘

’’اے لو بہن وہ تو پچھلی پولیں کھول رہا ہے اور اب تو معلوم ہے گور میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے۔‘‘

’’ہاں بیبیو! اللہ جانے تین برس تو منہ پر مونچھیں رکھوائے کنوارا ہتھیار بھاوج کے کولہے لگا کھاتا رہا تھا۔‘‘

’’ہوں بہن! تین چار برس بھر کے کمائی کھائی تو برے جیون برے حوالوں کہیں جا کر چوتھے برس بیاہ منگنی کی بات اٹھائی۔‘‘

’’ہاں ہاں سو اس وقت سب سمجھے، د یور کے مال کمائی حصہ بانٹ کے مارے بسورتی ہے۔،

’’ہاں بی بی ہم بھی یہی سمجھے تھے مال کھا رہی ہے کنوارے د یور کا اس لیے بیاہ منگنی نہیں پلٹنے دیتی، لو آج گل کھلا!‘‘

’’کچھ مت کہو بیبیو توبہ کرو توبہ! چودھویں صدی ہے چودھویں، شیطان موا پلک مارتے ہی ڈگاتا ہے۔‘‘

’’اور دیکھ لونا آج اس بے چاری خصم والی پہ کیسے دندنا دندناکر چڑھ بیٹھتی تھی اور اپنی سب بھول گئی نطفہ لپک!‘‘

’’دھوئی دھائی چندا سی۔‘‘

’’کیوں نا زمانہ سیدھا ہے آج، مسٹنڈے خصم والی جو ہے لمبی ناک ہے اور چندا سے بیٹوں کی اماں ہے، (قہقہہ لگایا)۔

’’پھر آج پونچھ جڑ سے لی اس لنجے نے!‘‘

اور شبراتی کی بیوی کٹی پتنگ کی طرح ڈولتی اپنے کوٹھارے میں چلی گئی اور بڑے زور سے پٹخ کر کیواڑ بند کر لیے اور کیواڑوں کے دھما کے پر سب پڑوسنوں نے ڈراپ سین والا قہقہہ لگایا اور جو کچھ باقی رہ گیا تھا، وہ بڑ بڑاتی اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔

شام کو خاتون کوٹھری میں آئی عیدو پر چھائی ہوئی سی، جیسے بیساکھ جیٹھ کی گرمیوں میں پیچ در پیچ آکاش بیل شاداب ہوکر گو بند کی صورت چڑھی ہوئی سوکھے سوکھے چو سے ہوئے درخت کی مٹھرائی مٹھرائی پتیوں اور اینٹھی اینٹھی روڑی بےجان سی شاخوں کو ڈھانپے ہوتی ہے۔ قدم مٹھی بھر کھنچا ہوا سا، سینہ پیٹ سے آگے ابلا پڑتا اور پیٹ سینے سے آگے جاتا تھا اور کولہوں پر تو جیسے دو دنبیوں کی چکتیاں، تھل تھلا کر کپڑوں سے باہر نکلی پڑتی تھیں۔ عیدو نے اوپر سے نیچے تک بھانپا، دائیں سے بائیں تک پرتا اور وہ خاتون کے جوڑ جوڑ، بند بند کا آشنا تھا، پانچ سالہ محرم راز اور تین سالہ رفیق حیات۔۔۔ اندر سے باہر تک دیکھ کر اندازہ کیا کہ خاتون بند توری کی طرح پھول رہی ہے۔

اینڈتی اکڑتی، لال لال بیر بہوٹی جیسے پھل سے لدی ہوئی۔۔۔ گلابی رخساروں پر برسات کی شفق پھوٹ پڑی ہے اور پنکھڑی سے ہونٹوں پر یا قوت کی چھوٹیں تڑپ رہی ہیں اور سراپے میں بجلی سی لہرا لہرا جاتی ہے، بشرہ کا ہرنی جیسا مخوبص انتشار اطمینان اور سکون سے بڑھ کر بانکپن اور استغنا تک پہنچ رہا ہے جیسے ابھی ابھی نیند سوکر دو چار انگڑائیاں لے کر آ کھڑی ہو۔

عیدو نے کچھ عجیب سی نگاہ ڈالی اور خاتون نے آنکھوں ہی آنکھوں میں الھڑپن سے جواب دیا مگر جیسے اس کا جواب الٹا ہو کر اس کے منہ پر پڑا۔۔۔ اور عیدو نے نہ معلوم کیا سوچ کر بال کی نوک سے لے کر پاؤں کی انگلی تک نشیب و فراز کا جائزہ لیا اور اپاہج نظریں والوں کے گھونگھر سے نکل کر چمکتی پیشانی سے پھسلتی رخساروں اور ہونٹوں کے پیچ و خم میں ناچتی آہستہ آہستہ صراحی دار گردن سے گھوم کر اترتی اور سینے کی گولائیوں اور بازوؤں کے اتار چڑھاؤ میں چکرا گئیں اور وہاں سے قلابازی کھا کر کمر کولہوں کے گداز میں پنستی لڑکھڑاتی رہیں اور پھر! بھٹک بھٹکا کر جب پیٹ کے ’’پر معنی‘‘ ڈھلاؤ پر پہنچیں تو جم کر رہ گئیں بہترسی پھسلائیں ٹس سے مس نہ ہوئیں اور عیدو نے د یکھا کہ خاتون انگیٹھی سی دہک رہی ہے۔ انگارے ہی انگارے بھرے اور جیسے جوہڑ کے گدلے پانی کو شفق کا عکس چمکا دیتا ہے اور عید و کی علیل آنکھوں کے دھند لے آئینے پر خاتون کی تمام سرخیاں مچل پڑیں۔۔۔ اور اس وقت تو عیدو کے لیے دودھ ملائی لےکر آئی تھی۔

تمام دن لڑائی کی بھینٹ چڑھا تھا، نہ دو پہر چولہا گرم ہوا تھا، نہ اب۔۔۔ گھر بھر میں کسی کے منہ پراڑ کر کھیل نہ گئی تھی۔ صبح کا ایک کو آرا دودھ پے عیدو تمام دن یوں ہی پڑا تھا۔۔۔ شام کا دودھ دوہ کر شبراتی خاموشی کے ساتھ رکھ کر باہر چلا گیا تھا اور وہ تو اٹوائی کھٹوائی لیے اندر پڑی تھی۔ خاتون نے چپکے سے دودھ گرم کیا۔ جلدی جلدی دو روٹیاں پکائیں اور کھانڈ ملاکر ملیدا کیا اور دودھ میں ڈال کر لے آئی۔۔۔ کٹورا برابر تپائی پر رکھا اور معمول کے مطابق اٹھنے کو سہارا دینے کے عیدو پر جھکی اور ایک گردن کے پیچھے دوسرا کمر کے نیچے ڈال کر حسب معمول سہارا دیا اور سہارا دیتے وقت دونوں کے چہروں میں تین چار انچ کا فاصلہ رہ جایا کرتا تھا اور آنکھ ایک دوسرے سے بھڑ سی جایا کرتی تھی اور عیدو کی آنکھوں میں تو شعلے سے لپک اٹھے۔ نتھنے پھول گئے، کنپٹیاں پھڑک گئیں اور بیمار، مفلوج، اپاہج بستر مرگ کی ارزل ترین سطح سے اچک کر زندگی کی ان ہیبت ناک بلندیوں تک جا پہنچا جہاں ملک الموت کے بھی پر جلتے ہیں، عیدو کے اندر کا مرد پھٹا، ٹائم بم کی طرح تند اور تلوار کی طرح تیز تین سال کی معذوریوں اور مصلحتوں اور سمجھوتوں کا تھپکا مرد! اور بیٹھ کر سیدھے ہوتے ہوتے غوں، غاؤں، غپ!! خاتون کا سر عیدو کے ہاتھوں کے شکنجے میں تھا اور پتلی کھڑی ناک جبڑوں میں! اور جیسے عیدو کے جبڑوں میں نونہاروں کا زور سمٹ آیا تھا اور خاتون کے ہونٹوں پر اس کی تھوڑی کی ڈاٹ لگ گئی تھی، بےچاری کی چیخ بھی منہ سے باہر نہ نکل سکی اور جب کچ کچ گاجر کی طرح چبا کر پوری ناک نگل گیا تو خاتون کا چہرہ گرفت سے اپنے آپ آزاد ہو گیا۔

مصنف:ابوالفضل صدیقی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here