ہم کالج کے پرانے ہال کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ لکڑی کی چوڑی پرانی سیڑھیوں پہ تھپ تھپ بے شمار قدموں کی چاپ تھی۔کتابیں کاپیاں ہاتھوں میں پکڑے، آگے پیچھے باتیں کرتے، ہنستے کھیلتے ہم چڑھے جارہے تھے۔ دگڑ دگڑ لکڑی کے تختوں پہ ہمارے قدم بج رہے تھے۔ پرانے ہال کمرے کی اونچی چھت اور دور دور کھڑی سیدھی دیواروں سے پلٹ کے ہماری سرگوشیاں، باتیں اور مسکراہٹیں گونج رہی تھیں۔ کہ ایک دم سے کوئی اونچی آواز میں چلایا۔
اے، پاؤں نہ رکھنا
دیکھنا
پاؤں کے نیچے نہ دے دینا اسے
ہر کوئی پاؤں سمیٹ کے جہاں تھا، وہیں کھڑا ہو گیا اور گردن جھکا کے پیروں کے آس پاس دیکھنے لگا۔ اونچی آواز سب نے پہچان لی۔ وہ ہمارے ایک پروفیسر تھے۔ ہمیں اردو پڑھاتے تھے، روز انہیں سنتے تھے، پہچاننے میں کیا دیر لگتی تھی۔
مگر یہ پروفیسر صاحب اس طرح چیخ کے کبھی پہلے بولے نہ تھے۔
یہ آج ایسی کیا انہونی ہو گئی۔
ہوا یوں کہ ہم میں سے کسی کی کاپی یا کتاب سے کاغذ کا ایک پاکستان کا جھنڈا پھسل کے گر گیا تھا۔ اس کے گرنے کی کوئی آواز تھوڑی آتی ہے۔ پھرسب خوش گپیوں میں چل رہے تھے، کسی نے دھیان ہی نہ دیا۔
کسی کو یہ تک پتہ نہیں تھا، کہ پیچھے پیچھے پروفیسر صاحب چپکے چپکے چڑھے آ رہے ہیں۔ جس وقت وہ کاغذ کا جھنڈا کسی کی کتاب سے کھسکا تو اس پر پروفیسر صاحب کی نظر پڑ گئی۔
بس وہ چیخ پڑے۔
خیر۔ جھنڈا کسی نے اٹھا لیا۔
پروفیسر صاحب اوپر آ گئے۔
ہم ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
ان کے چہرے پہ وہی ہمیشہ کی مسکراہٹ تھی۔ وہی دھیما پن، شائستگی اور ڈھیروں پیار۔
مجھے ذرا سی حیرت تھی،
چلو کچھ بھی ہوا،
لیکن پروفیسر صاحب کیوں یوں چلا اٹھے،
مجھ سے رہا نہ گیا۔
پروفیسر صاحب سے کہہ بیٹھا۔
سر، میں تو آپ کی آواز سن کے ڈر گیا تھا؟
ہاں، ڈرنے والی ہی بات تھی۔ وہ مسکراکے بولے۔
بات میری سمجھ میں نہ آئی۔
آپ کا خیال تھا، کوئی گر جاتا؟ میں نے زیر لبی کہا۔
کسی کے گرنے میں کیا مضائقہ ہے، وہ بےتکلف ہنس کر بولے۔ ان کی رگ ظرافت ایک دم سے پھڑکی، مگر اس لمحے کے ختم ہونے سے پہلے پہلے ان کے چہرے پہ وہی شانت اور سکون کی
لہروں کے بیچ ایک سنجیدہ سی نظر کوندی۔ میرے کندھوں پہ ہاتھ رکھ کے وہ کھڑے ہو گئے اور میری آنکھوں کے عین بیچ گیارہ ہزار وولٹ کے اونچے کھمبے کی شارٹ سرکٹ تاروں کے سپارک کی طرح مسکرا کے بولے،
پتہ ہے، کس پہ پاؤں آنے لگا تھا۔
میں تو پہلے سے جانتا تھا،
مگر ان کی آنکھوں سے لگے جھٹکے سے بدک گیا۔
ایک دن فرصت میں ان کو جا گھیرا، کلاس میں تو پڑھاتے تھے۔
ذاتی باتیں، قصے، کہانیاں کم سناتے تھے۔ میں نے ان کے دفتر میں جا پہنچا،
سر۔ آخر کوئی تو کہانی ہوگی،
جو آپ نے ابھی کہی نہیں۔
لیکن وہ آپ کی ان کہیوں سے اکثر کہی جاتی ہے۔
بولے، جھنڈے کی بات کر رہے ہیں آپ؟
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہنے لگے، بیٹھ جاؤ، میں بیٹھ گیا۔
بولے، پتہ ہے، کچھ جانتے ہیں آپ اپنے جھنڈے کی قیمت؟
میں سوچ میں پڑ گیا۔
قیمت سوچنے لگے آدمی تو، کرنسی نوٹ ہی ذہن میں آتے ہیں میرے ذہن کا رخ پڑھ کے بولے،
بتا تو کوئی نہیں سکتا،
ایک دو نہیں، کروڑھا لوگوں کی یہ مشترکہ آبرو ہے۔ لیکن مجھ سے حقیر بندے نے،
اپنے حصے کی جو اس کی قیمت ادا کی ہے، وہ اپنا پورا کنبہ ہے۔
جی؟
میں بیٹھا بیٹھا اچھل کے کھڑا ہو گیا۔
بیٹھ جائیے۔
وہ عجیب طرح کی سرشاری سے لبریز ہو کے محبت سے مسکرا کے بولے۔
تھوڑی دیروہ چپ بیٹھے رہے، ان کے چہرے پہ مسکراہٹ کی لکیریں تھرکنے لگیں۔ ناک کے نتھنے ایکا ایکی میں پھڑپھڑائے، ان کا دائیاں گال کپکپایا، گردن کی وریدیں لمحہ بھر کو ابھریں اور انہوں نے ایک زور کا سانس اندر کھینچا اور بولے۔
پینتیس لوگ تھے۔
سبھی کو قدرت ایک جگہ لے آئی تھی۔
سب ہمارے گھر جمع تھے۔
ہمارا گھر پاکستان کی راہ میں تھا۔
حصار کے گھر کی بات کر رہا ہوں ،جو قریب کے رہنے والے تھے، وہ تو پہلے سے آئے ہوئے تھے، دور رہنے والے عزیزواقارب بھی پہنچ گئے۔
بھوانی، گرگاؤں، بدایوں، دلی اور لکھنؤ تک سے سب پہنچ گئے۔
ایک میرا بھائی تھا۔
وہ بولتے بولتے پھر رک گئے۔ رکے رکے مسکرائے، ان کی آنکھوں سے سسکیاں ابھریں، کہنے لگے، تمہاری عمر کا تھا، اٹھارہ سال سوا تین مہینے عمر تھی اس کی۔
ایک ماں تھی۔
انہوں نے پھر زور سے سانس باہر لیا، انہیں میرے بھائی کے بعد گولی لگی تھی۔ کوئی بیس پچیس منٹ بعد، میرا بھائی، ان کا جوان بیٹا ان کے سامنے تڑپتا مر گیا۔
آدھا صحن گھر کا میرے بھائی کے خون سے بھر گیا تھا۔
گردن میں گولی لگی تھی اس کے۔
ماں جی سینہ پیٹتی لپک کے باہر آ گئیں،
وہ تڑتڑ گولیاں برسا رہے تھے، ایک گولی ماں کے سر پہ بھی لگ گئی۔
کاش، ماں کو پہلے گولی لگ جاتی،
وہ اپنا بیٹا مرتا نہ دیکھتیں۔
وہ کہتے کہتے پھر چپ ہو گئے اور اپنے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کی پشت کو دانتوں میں دبانے لگے۔
میری بیوی بھی تھی۔
شادی کو چار سال ہوئے تھے۔
کم سنی کی شادی تھی۔ چھوٹی عمر کی تھی، بیوی سے زیادہ پریتم تھی،
چار سال کی کہانی ہیررانجھا کی داستان سی ہے۔
وہ بھی مر گئی۔ انہوں نے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے چہرہ جھکا لیا، پھر ایکا ایکی ہاتھ ہٹا کے بولے، پتہ نہیں ا س کے کہاں گولی لگی تھی۔
شاید بلم، چاقو کا کوئی گھاؤ لگا تھا اسے، وہ بیچاری ساڑھی کا پلو سنبھالتے سنبھالتے خون میں لت پت گر گئی۔
نازک سی تھی، پتلی سی، مر گئی۔
اس کی گود میں ہماری بچی تھی۔
دو سال کی۔
وہ پھر اپنے دانتوں میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگشت شہادت کا درمیانہ پپوٹا بھینچ کے بیٹھ گئے۔ اسی طرح ہاتھ منہ میں لیے لیے بولے۔
توتلی توتلی زبان میں، ایک ایک لفظ کا جملہ کہتی تھی۔ اسے انہوں نے تھری ناٹ تھری سے مارا تھا۔
ان کا ہاتھ ایک دم سے یہ کہتے ہوئے جھٹکے سے نیچے گرا۔
اتنا بڑا دھماکہ ہوا تھا۔
پہلے انہوں نے میری بیگم کی گود سے بچی چھینی۔ بچی نے ایک چیخ ماری اور بازو کھولے کھولے ماں کی طرف تکتی ہوئی دور ہوتی گئی، پھر انہوں نے اسے اٹھا کے فرش پہ پھینک دیا۔
اور پھر
فرش پہ گری ہوئی
ننھی سی دو سال کی بچی پہ تھری ناٹ تھری سے فائر کیا۔
دھماکہ تو ہونا تھا۔
ان کے چہرے کے پٹھے پھر لرزنے لگے۔
گردن میں سانس کی نالی میں جیسے کوئی کنکر آ گیا، ان کے سینے میں ہوا کو راستہ نہ ملا۔ انہوں نے پھر زور سے ایک سانس اندر کھینچا۔ پھر تھوڑی دیر سر جھکائے بیٹھے، اپنا سانس درست کرتے رہے، پیروں میں پہنے جوتوں کے کونوں کو آپس میں ملا ملا کے چھوڑتے رہے۔ پھر سر اوپر اٹھایا اور بولے۔
اور بہت لوگ تھے، کنبے کے۔
میری خالہ تھیں۔
انکے میاں، میرے خالو۔
ان کا بیٹا،
ایک ہی بیٹا تھا ان کا، میرے چھوٹے بھائی جتنا۔
ایک ان کی جواں بیٹی۔
بس دو ہی بچے تھے ان کے
کوئی بھی نہیں بچا۔
ایک ان کی ہونے والی بہو تھی۔
وہیں میرے نانا تھے۔
ان کے بچے بھی۔
میرے ماموں۔
وہیں کہیں یہ ایک جھنڈا بھی تھا۔
بس یہ انہوں نے بچا لیا۔
خود نہ بچ سکے۔
اک اک کرکے مر گئے۔
سارے مار دئیے انہوں نے۔
پورا گھر ان کی لاشوں سے بھر گیا۔
بھائی صحن میں ادھڑا پڑا ہے، ماں اس کی لاش پہ اوندھی گری ہوئی ہے۔
ڈیوڑھی میں بیوی کا جسم ساڑھی میں چھپا مرا پڑا ہے۔
دہلیز کے پاس بیٹی کے جسم کے لوتھڑے ہیں۔
ڈیوڑھی میں خالہ مری پڑی ہے۔
چار قدم پہ خالو کی لاش ہے۔
پاس ہی کہیں ان کے بیٹے، بیٹی اور بہو کی لاشیں ہیں۔
نانا ایک طرف گرا مرا ہوا ہے۔
کئی ماموں کٹے پڑے ہیں۔
پینتیس لوگ تمہیں کیسے گنواؤں، انہیں بولتے بولتے سانس چڑھ گیا۔
انہوں نے تیز تیز دو تین سانس لیے، پھر ایک گہرا سانس سینے میں بھرکے، اسے لرزتے ہوئے جھٹکوں سے لیتے ہوئے بولے۔
انہوں نے پھر لاشوں کو کھینچ کھینچ کے اکھٹا کرنا شروع کر دیا تھا۔
ایک دوسرے کے اوپر اناج کی بوریوں کی طرح مرے لوگوں کے ڈھیر لگا دئیے اور وہ سر سے پاؤں تک کچھ کچھ کہتے کانپنے لگے۔
کچھ دیر تک ان کا جسم کپکپاتا رہا،
کوئی بات انکے ہونٹوں پہ تڑپتی رہی۔
پھر ایکا ایکی ان کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔
ذبح ہوئے ہوئے قربانی والے جانور کی کوئی بچی ہوئی چیخ جیسی آواز میں وہ بولے۔
پھر، انہوں نے
انہوں نے ساری لاشوں پہ تیل چھڑک کے آگ لگا دی۔
شرشر کرکے سب کے جسم جلنے لگے۔
میری ماں،
بھائی،
بیوی،
بچی
سب
میں خود انہی لاشوں کے انبار میں پڑا تھا،
پتہ نہیں کہاں کہاں زخم تھے۔
خون میں بھرا، بےہوش، بے سرت پڑا تھا۔
کچھ جل گیا جسم میرا بھی۔
پتہ نہیں کب آگ بجھی،
کب میں اٹھا،
خدا جانے کیسے لاشوں میں پڑا سانس لیتا رہ گیا۔
بچ گیا۔
وہی جھنڈا اٹھا کے ادھر آ گیا۔
اب تم بولو، میں اس جھنڈے کو گرتا دیکھوں تو چیخ بھی نہ ماروں۔
کمرے میں خاموشی سناٹے کی طرح گونجنے لگی۔
نیو بلاک میں بنا، پروفیسروں کے دفتروں کے ہجوم میں ان کا چھوٹا سا کمرہ خاموشی سے بھر گیا۔
انہوں نے ایک دم سے اپنی کرسی ہلائی، میز کے قریب کی اور میز کے اوپر ایک کونے پر پڑے پیتل کے اسٹینڈ پہ لگے پاکستان کے جھنڈے کو آہستگی سے ہاتھ لگاتے ہوئے، بولے، اتنا سا جھنڈا تھا۔
پتہ نہیں وہ کہاں سے لے آیا تھا۔
یہ تو مخملی سے کپڑے کاہے، وہ عام سے کپڑے کا تھا۔
پتہ نہیں کس کے دوپٹے سے پھاڑ کے بنایا تھا۔
سارادن وہ اس جھنڈے سے کھیلتا رہتا، جدھر جاتا، جھنڈا ساتھ۔
اس پہ چاند تارا کاغذ کا لگا تھا، سفید کاغذ کا،
گوند سے چپکاہوا۔
پتہ نہیں وہ بچہ کن کا تھا۔
انہی عزیزوں میں سے کسی کا تھا۔
سبھی قریبی رشتے دار تھے۔
سبھی اس بچے سے ایک جتنا پیار کرتے تھے۔
وہ بچہ بھی انہی لاشوں میں تھا۔
اتنی چھوٹی سی لاش تھی اس کی، کملائے ہوئے پھول جیسی
جب سب لاشوں کو آگ لگ گئی، تو اس بچے کا جسم بھی جلنے لگا۔
پہلے ا س کے کپڑے جلے تھے۔
اس کا جھنڈا بچ گیا۔
اس نے جھنڈا اپنے قد سے اوپر کہیں دروازے کی کھونٹی میں پھنسایا ہوا تھا۔
وہ بچ گیا۔
خود وہ جل گیا۔
چھوٹا سا بچہ تھا،
برتھ ڈے کیک کی موم بتی جتنا
کسی نے پھونک بھی نہ ماری
سارا پگھل گیا۔
اس کی چھوٹی بہن پھونک مارنے آ گئی تھی۔
اس سے بھی چھوٹی بہن تھی۔
اسے پتہ نہیں لاشوں کے ڈھیر میں گرے کیسے ہوش میں آ گئی۔ ہوش تو تھوڑی تھوڑی مجھے بھی آگ لگنے کے بعد آ گئی تھی۔ مگر مجھ سے اٹھا نہ گیا۔
وہ بچی اٹھ کے اپنے بھائی کے پاس آ گئی،
بھائی کی لاش جل رہی تھی۔
بچی، ہاتھ مار مار کے بھائی کے کپڑوں کی آگ بجھانے لگی۔ آگ بجھاتے بجھاتے اپنی توتلی زبان میں کہنے لگی،
بھائی اتھو،
اتھ جاؤ
آپ کے کپڑوں کو آگ لگ گئی ہے۔
یہ کہتے کہتے، اس بچی کے کپڑوں کو بھی آگ لگ گئی۔ مٹی کا تیل تو پہلے ہی اس پہ انہوں نے چھڑکا ہوا تھا۔ وہ اگربتی کی طرح چلاتی، چیختی گھومتی تڑپتی مر گئی۔
سارے مر گئے۔
میں پتہ نہیں کیوں بچ گیا۔
زخم تھے، جسم جلا ہوا بھی تھا۔
اسی شہر کے ہسپتال کے ایک کمرے میں پھر لٹا دیا گیا۔
مجھے یاد ہے، وہ رات،
وہ کچھ سوچ کے، میز پہ دونوں بازو ٹیک کے بیٹھ گئے۔ ہاتھ دونوں پھیلا کے انہوں نے اپنے چہرے کے دونوں طرف رکھ لیے اور بولے۔
چاندنی رات تھی وہ۔
وارڈ کے باہر کھلا میدان تھا۔
سارا میدان نظر آ رہا تھا۔
چاندنی اس میں کفن کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔
میرے بستر کے ساتھ، ایک کھڑکی تھی۔
کھڑکی سے سب نظر آتا تھا۔
اچانک باہر، کسی ٹرک کے آنے کی آواز آئی۔
پھر ٹرک کی ہیڈ لائیٹس چاندنی سے بھرے صحن پہ لہرائیں۔
تھوڑی دیر بعد ٹرک سامنے کے میدان میں آکر کھڑا ہو گیا۔
عجیب ہیبت ناک سا لمحہ تھا وہ۔
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ وارڈ کے اندر اور باہر عجیب طرح کا سناٹا تھا۔
ٹرک رکا اس کا انجن بندہوا تو خاموشی جسم میں ابلنے لگی۔
دو چار ہسپتال کے عملے کے لوگ ٹرک کے پیچھے گئے۔
کھڑک کر کے ٹرک کے پیچھے کا آہنی تختہ کھلنے کی آوازآئی۔
پھر خاموشی بڑھ گئی۔
ٹرک کی لائیٹس بند ہو گئیں۔
چاندنی دھیرے سے پھر کفن کی چادر لیے صحن میں آلیٹی۔
ہولے ہولے چاندنی کا منظر نظر آنے لگا۔
ٹرک کے پیچھے گئے، ہسپتال کے عملے کے لوگ، ٹرک کے اندر سے کچھ مردہ جسم اٹھا اٹھا کے زمین پہ لٹانے لگے۔
میرا سانس رکنے لگا۔
ایک ایک کر کے پوری پینتیس لاشیں انہوں نے چاندنی میں، کھلے آسمان کے نیچے لٹا دیں۔
میں پہچان گیا تھا۔
وہ میرا پورا کنبہ تھا۔
پھر میرے وارڈ کے کمپاؤنڈر نے بھی تصدیق کر دی وہ سب میرے کنبے کی لاشیں تھیں۔
میرا سارا کنبہ، میرا پورا خاندان ہسپتال کے مردہ خانے کے بند کمرے کے باہر کچی زمین پہ مردہ پڑا تھا۔
میری ٹانگوں میں مجھے سہارنے کی طاقت نہیں تھی۔
میں اٹھا نہیں۔
وہیں کھڑکی سے لگا، چپکا لیٹا رہا۔
پھر۔ وہ ٹرک بھی چلا گیا۔
وہ ہسپتال کے عملے کے لوگ بھی چلے گئے۔
وارڈ کے اکا دکا زخمی بھی سو گئے۔
بس ایک چاند میرے ساتھ جاگتا رہا۔ ا سکی چاندنی مجھے جگاتی رہی جس کی کفن جیسی سفید روشنی میں میرے کنبے کی بے کفن لاشیں پڑی تھیں۔
اچانک، اس چاندنی میں، وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے اور پھر دونوں ہاتھوں کو میز پہ رکھ کے اس پہ سر رکھ دیا۔ ان کے جسم میں، سر سے پاؤں تک پھر لرزا بھر گیا۔ کچھ دیر تک ان کا بدن کپکپاتا رہا۔
پھر ہاتھوں میں اسی طرح سردئیے ہوئے لرزتے سانسوں سے وہ بولے۔
ادھر باہر کوئی دیوار تھوڑی تھی۔
سب لاشیں میرے پیاروں کی کھلی پڑی تھیں۔
میری ماں،
میری بیوی،
بیٹی
میرا بھائی،
میرے سارے خاندان کے لوگ سب کے جسم میدان میں پھینکے ہوئے تھے۔ اوپر چاندنی تھی۔
اور کوئی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔
رات پتہ نہیں کتنی باقی تھی۔
اچانک،
ایک طرف سے کتوں کا پورا غول آ گیا۔
وہ سارے کتے میرے کنبے کی لاشوں کی طرف جا رہے تھے۔
پتہ نہیں،
کتوں کے لاشوں پہ پہنچنے سے پہلے میں بے ہوش ہوا یا بعد میں۔
صبح تک مجھے ہوش نہیں آیا۔
اگلے دن شام کو کہیں میرے اوسان بحال ہوئے تو مجھے بتایا گیا، کہ میرے سارے کنبے کے لوگوں کو ایک گڑھا کھود کے دفنا دیا گیا ہے۔
لو، میرے پیارے بیلا، یہ میری کہانی ہے۔ پروفیسر صاحب نے میز سے سر اٹھا لیا اور پھر میز پہ پڑے جھنڈے کے چاند تارے پہ ایسے پیار سے انگلیاں پھیرنے لگے، جیسے اس کے اندر اپنے سارے کنبے کے جسموں کا لمس ڈھونڈ رہے ہوں۔ پھر میری طرف سر اٹھا کے بولے، یہ آپ کیا سنتے سنتے نوٹس لے رہے ہیں!
میں نے کاغذ پہ قلم روک کے سر اٹھایا،
میری آنکھ سے ایک آنسو ٹپک کے میرے لکھے لفظوں پہ مل گیا۔
کچھ لکھے لفظ پھیل گئے۔
مصنف:ابدال بیلا