کوئی چیز رکھی کے پیٹ پر پھر سے گری۔ رکھی کنمنائی اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی ۔ پھر ایک زیادہ وزنی چیز آ کر چھاتی پر گری اور ساتھ ہی ایک قہقہہ سنائی دیا۔ اب رکھی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے گلی کے نکڑ پر کلو کو دیکھا جس نے رکھی سے آنکھیں ملاتے ہی ایک مخش فقرہ چپکایا اور سڑک کی بھیٹر میں غائب ہو گیا۔رکہی نے اپنی چھاتی پر سے۔۔چیز۔۔اٹھائی۔ یہ چار کیلوں کا ایک گچھا تھا۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی رکھی کھل گئی اور بیتابی سے ایک کیلا چھیل کر منھ میں رکھ لیا اور دو تین بار ادھر ادھر منھ مار کر نگل گئی۔ پھر دوسرا کیلا چھیلا اور آدھا دانت سے کاٹ کر ذرا مزے لے کر کھانے لگی ۔ اتنے میں کچھ خیال آیا۔ جلدی سے رکھی نے اس طرح لیٹے لیٹے ادھر ادھر ٹٹولا تو ایک نارنگی ہاتھ لگی۔ نارنگی کو دیکھتے ہی اس کے دل کی کلی کھل گئی۔ دس بارہ روز بیمار رہنے کے بعد ایسا خراب منھ کا مزہ ہو جاتا ہے۔ ایسے موقع پر نارنگی کامل جانا ! رکھی سوچنے لگی کہ یہ کھٹی کھٹی نمک مرچ کے ساتھ کھائی جاتی تو ؟ مگر نمک مرچ اس وقت کہاں؟ مجبور رکھی نمک مرچ کو یاد کر کے ایک پھانک منھ میں رکھنے لگی اور اس کو خوب چٹخارے لے کر کھانے لگی۔ گھڑ گھڑ کرتی سامنے سڑک پر ٹرام نکلی۔ اس میں ایک صاف ستھری لڑکی سیاہ کنارے کی اجلی ساڑی باندھے بیٹھی تھی۔ اس کی نگاہ ادھر پڑگئی تو اس نے دیکھا کہ بغل کی پتلی سی گلی میں کچھ دور پر ایک دُکان کے آگے ایک تختہ سا نکلا ہوا ہے جو زمین سے بمشکل دوفٹ اونچا ہوگا۔ اس کے نیچے ایک میلی گندی، زرد عورت بڑے آرام سے لیٹی نارنگی کی پھانکیں کھا رہی ہے۔ چہرے پر ایسا اطمینان ہے گویادہ آبادی کے کنارے کسی پر سکون مکان کے ڈرائنگ روم میں صوفہ پر اطمینان سے لیٹی ہو ۔ لڑکی جب تک رکھی کو دیکھ سکی ، رکھی نے بھی اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالی، اس کی ساری اور صاف ستھری گردن کو ذرا غور سے دیکھا اور پھر بلا ارادہ اپنی گردن مل مل کر میل کی پتیاں چھڑانے لگی۔ رکھی اٹھ کر بیٹھ گئی اور انگڑائی کے لیے دونوں ہاتھ اوپر اٹھانا چا ہے مگر او پراتنی جگہ ہی نہ تھی ۔ رکھی نے ذرا بے چین ہو کر بدن کو ایک بل دیا اور جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ داہنی طرف پھینک دیے، پھر پیٹھ میں ایک بل دے کر انگڑائی لی، مگر فوراً ایک سسکی بھر کی سیدھی ہوگئی اور گھبرا کر پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ دیکھتی کیا ہے کہ اس کے سر کے کچھ بال چیچک کے سوکھے دانوں میں چپک گئے ہیں۔ پھر اس نے سر پر ہاتھ پھیرا تو سر کوچکٹا ہوا پایا۔میل تھا کہ بدن کو کھائے جارہا تھا۔ رکھی کچھ ایسی گھبرائی کہ بلبلا کر اپنے بل سے باہر نکل آئی، کھڑی ہوئی تھی کہ چکر آ گیا۔ اس نے جلدی سے دکان کے پڑے پکڑ لیے، پھر ذرا سنبھل کر پاس والے پل سے پانی پیا اور سوچنے لگی کہ کہاں چل کر نہانا چاہیے۔جب تندرست تھی تو صاف ساری لے کر دریا پر جاتی ، وہاں میلی ساری دھوتی تھی، پھر جی بھر کرنہاتی تھی۔
ادھر بارہ روز تک بیماری رہی ، اتنے دنوں تک میلی گندی پڑی رہی، پہلے بچہ ہوا، اس کا بندوبست کیا ہی تھا کہ چیچک نکلی، اس میں آٹھ روز تک پڑی رہی ۔ بیماری ایسی تھی کہ کسی کو بتا نہیں سکتی تھی۔ جو کوئی پوچھتا اس سے کہہ دیتی کہ بخار ہے، کونین کھا رہی ہوں۔ غنیمت ہوا کہ چیچک نے چہرے اور ہاتھوں پر قبضہ نہیں جمایا ورنہ جہاں پڑی تھی وہاں سے الگ نکالی جاتی اور جو بار آشنا تھے وہ الگ ساتھ چھوڑ دیتے۔باره روز بیمار رہی۔ اچھے لوگ ایسی بری عورت کے قریب کیا پھٹکتے، برے لوگوں نے اس کی خبر لی۔ پورن نے دُکان کے نیچے پڑے رہنے دیا۔ مہابیر، کلونے دودھ لا کر کھانے پینے کی خبر لی۔ خیر، برے دن کٹ گئے ۔ دو چار روز میں پھر گالوں پر رونق آجائے گی اور پھر وہی پارک کی تفریحیں ہوں گی اور نگاہوں کو رجھانا۔کہاں چل کر نہانا چاہیے؟ دریا اتنی دور ہے کہ اس کا خیال ہی فضول ہے، مہا بیر اور کلومزدوری پر گئے ہوں گے اور ان کے گھروں میں تالے پڑے ہوں گے ۔ وہ لوگ ہوتے بھی تو ان کے یہاں نہانے کی جگہ کہاں؟ وہ آپ نل پر نہاتے ہیں۔ چلونل گھٹ چلیں۔کارپوریشن کی طرف سے ایک بڑا سا غسل خانہ بنا تھا۔ رکھی اس کو نل گھٹ کہا کرتی تھی۔ اور کبھی کبھی جب دیر ہو جاتی تو دریا کے بجائے نہانے دھونے وہیں چلی جاتی تھی۔ اس وقت اسی طرف چلی۔ راستہ میں یہ سوچتی جاتی تھی کہ نہا کر پہنوں گی کیا۔ ایک ساری پہنے ہوئے ہوں اور اس کےجوڑ کی جو ساری تھی وہ بچے کے ساتھ گئی۔ رکھی ڈگمگاڈ گمگا کر چل رہی تھی۔ اگر نہانے کی تمنا اس کے سر پر ایسی مسلط نہ ہوتی تو شاید اس کو اٹھتے بھی برا لگتا، لیکن اس وقت تو یہ خیال دل میں گھسا ہوا تھا کہ اگر میں نہا ڈالوں تو میل، بیماری، کمزوری اور بدن کی بے رونقی سب کچھ دور ہو جائے، اور آج ہی پارک کے قابل ہو جاؤں۔ اس خیال نے اس کو ایسی ہمت دی کہ پاؤں کانپ رہے تھے مگر وہ آگے بڑھی چلی جاتی تھی۔ تھوڑی دور چلی تھی کہ بدن پر ایک دم سے چونٹیاں سی رینگتی معلوم ہوئیں۔ یہ کھجلی۔ وہ کھجلی ، سارے بدن میں کھجلی سارے بدن میں کھجلی ہی کھجلی تو بہ، یہ سب میل ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ اگر جلدی میل دور نہ ہوا تو مورچے کی طرح مرے بدن کی رنگت و روہت کھا جائے گا۔ رکھی کا نل گھٹ سامنے آ گیا کچھ لوگ کپڑے دھور ہے تھے۔ پانی کی بوندیں دیوار کے اوپر اڑ اڑ کر دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ موتی کی ایسی بوندیں، یہ سب میل صاف کر دیں گے، کہیں صابن بھی مل جاتا! رکھی اندر تھی ۔ ایک موٹی سی عورت اکڑوں بیٹھی آگے کی طرف جھکی کپڑے زمین پر پٹک رہی تھی، ایک چھوٹی سی لڑکی پاس بیٹھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صابن کا پھین اکٹھا کر کے ٹیلا بنارہی تھی، مگر ادھر یہ ٹیلا بنا کر اونچا کرتی اور ادھر پانی کی دو ایک بوندیں گر کر اس کی ساری محنت اکارت کر دیتیں۔ یہ پھر اپنے کام میں مشغول ہو جاتی۔ دوسرے کونے میں دو عورتیں بدن مل رہی تھیں، ایک طرف ایک لڑکی نہا کر صاف کپڑے پہن رہی تھی۔ رکھی نے اندر قدم رکھا تھا کہ سب نے فوراً اس کی طرف دیکھا اور سب نے بہت برا منھ بنایا۔ رکھی کی ہمت ان کی نگاہوں کو دیکھ کر کمزور پڑگئی۔ یہ نفرت کیوں؟ کیا یہ جانتی ہیں کہ میں کون ہوں؟ کیسے جانے لگیں؟ کوئی میرے ماتھے پر میرا پیشہ لکھا ہوا ہے؟ رکھی (موٹی عورت سے ) بہن ذرا میں نہالوں۔موٹی عورت نے پلٹ کر اس کی طرف بڑی تیز نظروں سے دیکھا اور پھر ہاتھ جھٹک کر بولی۔ بھاگ بھاگ ، ملیچھ، اس کے پاس سے بوکیسی آرہی ہے؟سب عورتیں ادھر ہی دیکھ رہی تھیں۔ ایک دم سے بول اٹھیں ۔ رے تیرے پاس کیسی بو آرہی ہے۔ الگ الگ۔ادھر سے جا۔دریا پرجا۔۔۔وہاں جا کر نہا۔جاتی ہے کہ نکالوں ۔ہٹ یہاں سے ہٹ ۔ اس کودق ہے، اس کی صورت تو دیکھو ۔موٹی عورت۔بنا پولس کے نہیں جائے گی۔ رکھی ان کی چاؤں چاؤں سے گھبراگئی۔ ایک کو جواب دینے لگتی کہ دوسری بھڑ جاتی۔ آخر کو رکھی کو غصہ آگیا۔ اس کے جی میں آ رہا تھا۔ کہ ان سب کا منہ نوچ لوں۔ بال خوب نوچ لوں اور بن پڑے تو کاٹ کھاؤں ! اتنے میں موٹی عورت اٹھی اور اس نے اپنی بچی کا بتایا ہوا صابن کے پھین کا ٹیلا ہاتھ میں لے کر رکھی کے منھ پر کھینچ مارا۔ رکھی کی آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگیں۔ اس نے گھبرا کر ساری کا پلو آنکھوں میں بھر لیا اور بڑی بے بسی سے چلانے لگی۔ دونوں عور تیں اور لڑ کی قہقہ مارکر ہنسیں۔ رکھی اچھی ہوتی تو ایسی آسانی سے تو نہ بھا گتی بلکہ موٹی عورت کو تو اس کے کیے کی سزادے ہی دیتی، مگر اب اسے بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ گھبرائی ہوئی باہر نکل آئی۔ آنکھوں میں ایسی تکلیف تھی کہ میل کچیل بنانا دھونا سب بھول باہر بھاگ آئی ۔ نل ول کو بڑی مشکلوں سے ایک آنکھ کھول کر ادھر ادھر دیکھا تو دوسوگز کے فاصلہ پر ایک نل تھا۔ رکھی دوڑ کر ادھر گئی۔ پانی سے آنکھوں کو خوب دھویا۔ جب ذرا آرام ملا تو کچھ سوچ کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ ایک دُکان پر ایک آدمی پنکھا منھ پر رکھ سورہا تھا۔ اس کے پاس ایک نو جوان سفید کرتا پہنے ہوئے بیٹا نیند بھری آنکھوں سے رکھی کو تک رہا تھا۔ کچھ دور ایک کپڑے والے کی دُکان پر ایک میاں صاحب دھوپ سے بچنے کو رومال منھ پر ڈالے کھڑے بھاؤ تاؤ کر رہے تھے۔ ان کے قریب رکشا والے پسینے اور میل میں سنے کھڑے تھے۔ رکھی نے دُکان والے نوجوان کو ایک بار دیکھا اور کچھ ارادہ کر کے اپنی ساری سمیٹی مگر پھر جھجکی۔ آخر جی کڑا کر کے ایک بارنل کے نیچے بیٹھ ہی گئی اور ایک ہاتھ سے کھٹکا دبایا۔ کمزوری کی وجہ سے کھٹکا اچھی طرح نہیں دبایا،مگر پھر بھی تھوڑا تھوڑا پانی اس کے سر اور پیٹھ پر گرنے لگا۔
نوجوان چلایا۔ ہا ئیں بائیں۔۔۔۔ہائیں ہا ئیں۔نوجوان کا باپ ( چونک کر چلایا) بازار میں نہائے گی۔ اری اوبے حیا کیا کرتی ہے۔اس سڑک پر شریف دُکان دار تھے۔ سب بے تحاشا چلانے لگے ۔ مستانی ہے مستانی ہےکپڑے کی دوکان کے میاں صاحب بھاؤ تاؤ چھوڑ چھاڑ ادھر دوڑ پڑے۔ پاس آ کر انھوں نے رکھی کی انگلیوں پر چھڑی ماری۔ رکھی کے ہاتھ سے تل کا کھٹکا چھوٹ گیا ہل بند ہو گیا۔اب انھوں نے رکھی کی پیٹھ میں چھڑی چھبوئی اور چلائے۔چل ہٹ سڑک پر سے۔ بڑی آئی ہے نہانے۔ نل کے گرد میلہ لگ گیا۔چھڑی کی نوک جیسے گڑی، رکھی نے تکلیف سے منھ کھول دیا، آنکھیں سکوڑ لیں اور منھ سے ایک چھوٹی سی چیخ نکل گئی مگر پھر فوراہی دانت بھینچ کر دونوں ہاتھوں سے نل پکڑ لیا اور جم کرو ہیں بیٹھ گئی۔بڑے میاں۔ ارے ہٹ ہٹ ارے ہٹتی نہیں ۔کیا کرنا چاہتی ہے۔کیا یہاں نہائے گی؟کلکتہ میں کتنی بے حیائی ہے۔ رام رام ۔اور ساری تو دیکھو کیسی مہین ہے۔ شکل چڑیلوں کی مزاج پریوں کا، آتی ہیں نہانے ۔بڑے میاں نے ہمت کر کے ایک بارزور سے چھڑی گڑوائی اور پھر ہار کر ہاتھ ڈھیلا کرلیا۔ رکھی نے پھر نل کا کھٹکا دبایا۔ یہ دیکھ کر رکشا والے جو مجمع کو چیر کر اندر آ گئے تھے، بولے۔کیا ہے کیا۔۔۔ نہا بھی لینے دیجیے۔نہا لینے دیجیے بیچاری کو ۔گرمی سخت ہے۔مجمع سے ایک نے آوازہ کسا۔چلو میرے گھر میں نہاؤ۔ ایسا غوطہ دوں۔۔۔۔!ایک صاحب تہمد باندھے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے ۔ ایک بار جوش میں آگے بڑھے۔ دیکھنے والے سمجھے کہ دو چار ہاتھ تو اس بے حیا عورت پر جھاڑ ہی دیں گے کہ اتنے میں پولس والا نہ معلوم کدھر سے اندر گھس آیا اور اس نے رکھی کا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے میں اس کو اپنی جگہ سے اٹھا مجمع کے باہر کر دیا اور پھر فاتحانہ انداز میں بولا۔نہیں ہٹتی تھی۔۔۔ ایک عورت کو نہیں بھگا سکتے ۔مجمع میں تالیاں، سیٹیاں بجنے لگیں۔ قہقہے اڑے اور آوازے کسے گئے ۔ رکھی ہارے جنرل کی طرح سر جھکائے پیٹھ سہلاتی آگے بڑھی۔اس نے پلٹ کر سپاہی کو دیکھ اور پھر تہمد والے شخص کو دیکھا۔ ان حضت کو تو اس نے پہچان لیا۔ ایک دن ان سے بھی دوستی رہ چکی تھی مگر رکھی کوان کا نام یاد نہیں تھاور نہ اس وقت پکار کر ذلیل کر دیتی۔ رکھی کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ لوگ کیسے ظالم ہوتے ہیں۔ ایسے ہی غیرت آتی تھی تو آنکھیں بند کر لیتے۔ مجھے تو نہا لینے دیتے، اور غیرت کیسی؟ میں ساری تو باندھے ہوئے تھی۔ یہی غیرت مند لوگ جب زنا نے گھاٹ پر عورتیں نہاتی ہوں تو آکر پر اباندھ کر بیٹھے ہیں اور خوب گھورتے ہیں۔ اس وقت غیرت نہیں آتی! رکھی کو اپنا بچپن یاد آنے لگا۔ اس کی ماں دو پہر کو اس کے لیے گڑیاں بناتی تھی اور شام کو پابندی سے نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہناتی تھی۔ اگر کپڑے کھیل کود میں میلے ہو جاتے تو بہت بگڑتی تھی۔ پھر رکھی کو اپنا بچہ یاد آیا جو بارہ دن ہوئے دو بجے رات کو پیدا ہوا تھا۔ بچارے نے ایک ہی بار کہ ہاؤں کیا تھا اور رکھی نے اس کا منھ، اس کی شخصی گردن اور اس کا سارا بدن اپنی ساری سے لپیٹ دیا اور پھر وہ پوٹلی ایک گلی میں لے جا کر نالے کا منھ کھول کر اندر ڈال دی۔ اس کام میں سونی نے بھی ہاتھ بٹایا اور کیوں نہ بٹاتی؟ اس کو بھی کسی نہ کسی دن رکھی کی مدد کیا ضرورت ہوگی یوں ہی لوگ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ہا۔ بچہ کا بچہ گیا اور ساری کی ساری ۔ اس وقت تو نہا کر پہننے کے کام آتی۔ سر اور پیٹھ کے بھیگ جانے سے نہانے کا شوق اور تیز ہو گیا بلکہ اب تو رکھی کو ایک طرح کی ضد آگئی کہ کچھ ہونہا کر پہننے کے کام اتی۔ چلو دریا چلوں لیکن وہ دور ہے۔ دور ہی سہی کیا ہوگا کیا۔ راستہ میں تھک کر گر پڑیں گے پھر جائیں گے اور اچھا ہے ایسی زندگی سے نجات ملے گی۔ ایک چائے کی دُکان پر کچھ بے فکرے بیٹھے قہقہے اڑارہے تھے۔ ان کو دیکھ کر رکھی سوچنے لگی کہ کاش ایسا ہوتا یہ لوگ پکارتے ۔ آرہاہا۔ کون جا رہا ہے؟ایک نظر ادھر بھی۔میں جواب تو نہ دیتی مگر اپنی لگاوٹ والی نگاہ مار دیتی اور پھر اٹھلاتی قدم پھینکتی آگے بڑھتی ۔ پھرکوئی کہتا۔ارے ذرا ادھر تو آجا۔ ارے بات تو سن ۔سن تو سہی، کوئی تجھے کھائے گا کیا؟میں پلٹ پڑتی اور کہتی ۔کیا غل مچارکھا ہے۔ میں جارہی ہوں دریا نہانے کیسی گرمی ہے۔ میل ہے کہ بدن کو کھائے جا رہا ہے۔چائے والا کہتا۔آؤ تو یہاں۔ یہاں نہا لو۔میں کہتی۔باتیں نہ بناؤ پھر خود ہی گنگنانے لگتی۔ہٹو جاؤ، باتیں نہ بناؤ۔چائے والا تمہاری جان کی قسم ۔ ادھر دیکھو مکان کے اندر حوض بنا ہے۔چائے والا مجھے کوخوشامد در آمد کر کے اندر لے جاتا تو وہاں سچ مچ ایک حوض ہوتا۔ پھر چائے والا مجھ کو ایک ساری لاکر دیتا۔ اب میں چائے والے سے باہر جانے کو کہتی مگر وہ نہ مانتا اور ضد کرتا کہ میں تو اندر ہی ٹھہروں گا۔ آخر بڑی خوشامد کے بعد باہر جاتا اور میں خوب نہاتی ، پھر بالوں میں کنگھی کرتی ہماری پہنتی ۔ رکھی سوچنے لگی کہ اگر یہ خواب پورا ہو جائے تو کیا کہنا۔ بدن کیسا ہلکا ہلکا ہو جائے، گویا دوبارہ زندگی مل جائے۔
سورج ڈوبنے پر تھا۔ اور پارک کی چہل پہل شباب پر تھی ۔ تال کے اُس پار چھوٹے چھوٹے بچے تیتریوں کی طرح ادھر ادھر اڑے اڑے پھر رہے تھے اور غل مچارہے تھے۔ ایک بچہ ایک کتے کو رسی پکڑے ٹہلا رہا تھا اور دوسرا کتے کی پیٹھ پر ببوکے کو سوار کر رہا تھا۔ ان کی آیائیں گھاس پر ٹانگیں پھیلائے آدھی لیٹی اور آدھی بیٹھی اپنی اپنی بک بک میں کھوئی ہوئی تھیں۔ وہاں سے دور پر دو تین نوجوان مرد اور عورتیں نمائشی کپڑوں میں لیٹے ایک دوسرے کو اپنے فقرے اور قہقہے سنا رہے تھے۔ دوسری طرف دس پندرہ سفید پوشوں کا مجمع تھا جس میں سے چار پانچ تال میں وضو کر رہے تھے۔ ایک مولوی صاحب تال کے پاس اپنے بارہ برس کے لڑکے کو لیے دوزانو بیٹھے نماز کے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک طرف ایک کانسٹیبل اکیلا وقت گزارنے کے لیے ٹہل رہا تھا۔ اس مجمع میں رکھی آنکلی ۔ اس نے اپنی منزل طے کر لی تھی۔ دریا قریب تھا۔ بندرگاہ پر کھڑے جہاز دکھائی دے رہے تھے۔ جہاز پر کام کرنے والی مشینوں کی چھپ چھپ اور قلیوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ دریا قریب تھا، لیکن پارک کی اس چہل پہل اور اس فراغت سے بھر پورسماں نے رکھی کو ایسا پکڑا کہ یہ تھکی ہاری تال کے کنارے بیٹھ گئی اور اپنے دونوں پاؤں گھٹنوں گھٹنوں پانی میں پھیلا دیے۔ نیلے تال کے اندر پھیلی ہوئی سبز ہیل کے بیچ بیچ شام کے سرخ بادلوں کا عکس تھا۔ تال ایسا دلکش تھا کہ بس جی چاہتا کہ دیکھتے ہی جاؤ، رکھی ذرا دیر تو کھوئی سی بیٹھی رہی پھر کچھ سوچ کر اس نے جلدی جلدی ادھر ادھر دیکھا اور چھم سے پانی میں اتر گئی۔ کانسٹیبل یہ دیکھ کر چلاتا ہوا دوڑا۔ نمازیوں نے غل مچایا۔ مولوی صاحب نے لاحول پڑھی اور آیائیں چونک کر کھڑی ہو گئیں۔ سپاہی گھبرایا ہوا تال کے کنارے دوڑ رہا تھا اور چلا رہا تھا۔ اری چالان ہو جائے گا، جیل میں ڈال کر سر اڈالی جائے گی ۔
وضو کرنے والوں کو بھی غصہ آ گیا۔ وہ کانسٹیبل کو ڈانٹنے لگے کہ اسے نکال، اسے نکال۔کانسٹیبل دیر سے یہ ارادہ کر رہا تھا مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نکالوں تو کیسے نکالوں۔رکھی اپنے اوپر یہ نہ دیکھ کر گھنٹوں پانی میں سینہ تان کر کھڑی ہوگئی ۔ جسم کے سارے اتار چڑھاؤ ساری پر اتر آئے ۔ بیماری نے چہرہ ضرور چوس لیا تھا مگر بدن کا کس بل بہت کچھ باقی تھا۔ خوش پوش نو جوانوں کو یہ دیکھ کر ساتھ کی لیڈیوں کے سامنے شرم آنے لگی۔ وہ لوگ ادھر پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو گئے۔ رکھی کے اس ناگہانی حملے سے سب حملہ آور ٹھٹک گئے ۔ رکھی کے ہونٹوں پر دن میں پہلی بار کامیابی ناچنے لگی ۔ اب اس نے دوسرا حملہ کیا۔ وہ بھیٹر کو بھول کر اطمینان سے ساری ہٹا کر بدن ملنے لگی ۔ آیاؤں نے بچوں کو کھینچا۔ مولوی صاحب نے اپنے لڑکے کو جو کٹکی باندھے ادھر تک رہا تھا چٹاخ سے ایک تھپڑ رسید کیا۔ وہ بھوں بھوں رونے لگا۔ وضو کر نے والوں نے گردنیں جھکالیں اوروضو پھر سے شروع کیا۔ پولس والا اس عورت کو پاگل سمجھ کر خاموشی سے اس کی حرکتیں دیکھنے لگا۔ رکھی حملہ آوروں کی پسپائی دیکھ کر بہت خوش ہوئی مگراس کو ھر کا لگا ہواتھا کہ کہیں یہ کانسٹیبل اور ساتھیوں کو بلا کر مجھے پکڑوانہ دے اس لیے وہ جلدی جلدی نہائی اور فتح یاب ہو کر نکل آئی۔ بدن پر ساری چپکی ہوئی تھی اور رکھی اٹھلاتی اپنا پسندیدہ گیت راجہ جانی رے گاتی ایک طرف کھڑی ہوئی۔ پولس والا سوچتا ہی رہا کہ اس پاگل کو پکڑوں یا نہ پکڑوں۔ مردگھوم گھوم دیکھ رہے تھےکہ کہیں یہ لگی ایسا تو نہیں کرتی کہ اپنی ساری نچوڑ کر سوکھنے کو پھیلا دے۔
مصنف:حیات اللہ انصاری