حرام زادی اگر زیادہ بکواس کی تو ایسی سزا دوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھے گی ۔ ایس ۔ ایچ۔ او ۔ چودھری یدھویرسنگھ نے گرج کر کہا۔کیا۔ کیا سزا دوگے؟ ذرا میں بھی تو سنوں۔ چاندنی نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر براہ راست چودھری یدھویر سنگھ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تیز آواز میں پوچھا۔ دس سپاہی بھیج دوں گا رات میں تیرے گھر جو صبح تک تجھے ریپ کریں گے۔یدھویرسنگھ کے لہجے میں صرف دھمکی ہی نہیں تھی، کچھ کر گزرنے کا ارادہ بھی بڑا واضح تھا۔ سن،حرام کے جنے،چاندنی اسی طرح کمر پر ہاتھ رکھے ہوئے چودھری یدھویر سنگھ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔میں تو بری عورت ہوں۔بھیج دے دس سپاہی میرے اوپر۔۔۔میرا کچھ بھی نہیں جائے گا۔ لیکن میں نے اگر دس غنڈے تیرے گھر بھیج دیے اور انہوں نے اگر تیری بیوی اور تیری چودہ برس کی بہن کو رات بھر ریپ کیا تو تیرا کیا جائے گا۔؟یہ ضرور سوچ لینا۔؟بڑی ننگی گالی دہاڑ کر چودھری یدھویر سنگھ چاندنی کی طرف بڑھے، مگر سپاہیوں نے انہیں روک لیا۔نہیں۔حضور۔انہوں نے دھیرے سے کہا:اس کے منہ مت لگیے،بے حد ننگی عورت ہے۔
آپ آئیے۔۔۔؟اےچھوڑو تم لوگ اسے سمجھاؤ چاندنی نے سپاہیوں کو للکارا،لگا کے تو دیکھے مجھے ہاتھ شام تک وردی نہ اتروا دی تو چاندنی میرا نام نہیں۔سپاہی زبردستی ایس۔ ایچ۔ او۔ صاحب کو ان کے کمرے میں کھینچ لے گئے ۔ پانچ مہینے پہلے ایک سب انسپکٹر نے چاندنی کو ایک تھپڑ مار دیا تھا۔ چاندنی نے اپنا جمپر سامنے سے پھاڑ ڈالا بال بکھرالیے اور اسی حالت میں ناری سرکشا سمیتی کے دفتر چلی گئی۔ وہاں سے ناری سرکشا سمیتی کی پریزیڈنٹ سکریٹری اور دس والنٹیرز کو لے کر شاہ عالم روڈ پہنچ گئی جہاں اردو، ہندی اور انگریزی میں شائع ہونے والے سارے ہی اخبارات کے دفتر تھے۔ سبھی اخبارات کے دفتر میں پھٹے جمپر اور بکھرے ہوئے بالوں میں فوٹو کھینچوائے،سب انسپکٹر کی زیادتیوں کی شکایت کی۔ تب تک وہاں ناری نکیتن اور مہلا اتھان کی والنٹیرز بھی آگئیں۔ پچپن عورتوں کا قافلہ سب انسپکٹر مہیپال اور پولیس کے خلاف نعرے لگاتا ہوا مرکزی ہوم منسٹر کی کوٹھی کی طرف پیدل ہی روانہ ہو گیا۔ ہوم منسٹر کی کوٹھی پر پہنچنے سے پہلے پہلے دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے تقریباً پچاس ممبر قافلے میں شریک ہو گئے تھے کیوں کہ قافلے نے راستہ ہی وہ اختیار کیا تھا جس پر ان دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے دفتر تھے۔ چاندنی پھٹے ہوئے جمپر،نیم برہنہ جسم اور بکھرے ہوئے نہیں بلکہ بکھرائے ہوئے بالوں کے ساتھ قافلے میں سب سے آگے تھی ۔نعرے وغیرہ دوسرے لوگ لگا رہے تھے۔ ہوم منسٹر صاحب نے سب انسپکٹر مہیپال کومعطل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
تھپڑ مارنے کے چھ گھنٹے کے اندر اندر سب انسپکٹر مہیپال کی وردی اتر گئی تھی۔ امن کالونی کے تھانے کے تمام سپاہیوں کو یہ قصہ معلوم تھا۔ کیوں نہ معلوم ہوتا؟سب انسپکٹر مہیپال اس تھانے میں تعینات تھے۔ لیکن چودھری یدھ ویر سنگھ کو اس قصے کا علم نہیں تھا، اسی لیے وہ اس حد تک چلے گئے تھے۔ اندر لے جاکر چار سپاہیوں نے انہیں چاندنی کے بارے میں بتایا۔حضور دھندا نہیں کرتی۔ مہینے میں بس چار پانچ اچھے مالدار گاہکوں سے معاملہ کرلیتی ہے۔ وہ گا ہک بھی اس کے مستقل گاہک ہیں۔ اپنے ان مستقل گاہکوں کے علاوہ کسی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتی۔ اس کے یہ مستقل گاہک کافی پیسے والے لوگ بھی ہیں اور کافی پہنچ والے بھی۔
ویسے کیا کرتی ہے یہ عورت؟چودھری صاحب نے پوچھا۔پاپڑ بناتی ہے۔ایک سپاہی نے بتایا مگر یہ بہت ننگی عورت ہے۔ اس کے منہ لگنے نہیں۔ ارے جناب اس نے تو پرائم منسٹری کو چھٹی لکھی ہوئی ہے کہ اگر اسے کوئی حادثہ پیش آجائے یا کبھی غیر قدرتی طریقے سے اس کی موت ہو جائے تو سمجھ لیا جائے کہ اس میں اس کالونی کے پورے تھانے کا ہاتھ ہے۔ میں اکیلی عورت ہوں، پاپڑ بنا کر اپنی روزی کماتی ہوں۔تھانے والے مجھ سے دھندا کروانا چاہتے ہیں کہتے ہیں ہفتہ دو ۔ میں انکار کرتی ہوں تو ہاتھ پیر توڑ دینے کی جان سے ماردینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس چٹھی کی کاپیاں اس نے ناری سرکش سمیتی،ناری نکیتن،مہلا اتھان اور ہر بڑے نیتا کو دی ہوئی ہیں۔ کمشنر صاحب کے احکامات ہیں کہ اس عورت سے کبھی بھی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ اگر ان تک شکایت پہنچ گئی کہ آپ نے چاندنی کو بلوا کر گالی گلوچ کی ہے یا اسے دھمکایا ہے تو حضور آپ مصیبت میں پڑ جائیں گے۔ ابھی تو آپ کا یوں بھی چل رہا ہے۔چودھری یدھ ویر سنگھ سناٹے میں آگئے۔ وہ ابھی نئے نئے ایس ۔ایچ۔او۔ بنے تھے۔
پہلی پوسٹنگ امن کالونی کے تھانے میں ہوئی تھی۔وہ ہوا یہ تھا کہ ایک گمنام خط ان کے پاس آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ امن کا لونی میں چاندنی نام کی ایک عورت کھلے عام دھندا کرتی ہے۔ اسے روکا جائے کیوں کہ اس سے کالونی کی لڑکیوں پر خراب اثر پڑے گا۔ بہتر یہ ہوگا کہ چاندنی نام کی اس بری عورت کو کالونی سے ہی نکال دیا جائے۔چودھری یدھ ویر سنگھ تجربہ کار تو تھے ہی۔ چاندنی کے بارے میں تھانے میں ہی کچھ پوچھ گچھ کرنے کے بجائے انہوں نے اسے تھانے بلوالیا ۔ الزام سنتے ہی چاندنی ہتھے سے اکھڑ گئی۔ کہاسنی ہوئی گرما گرمی ہوئی اور بات اس حد تک بڑھ گئی کہ: انہوں نے اسےحرامزادی کہا، اس نے انہیں حرام کا جنا کہہ ڈالا۔ ان کی دس سپاہیوں والی دھمکی کا تو اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔مگر اس کی دس غنڈوں والی دھمکی اب تک چودھری یدھویر سنگھ کے دل میں دھڑک رہی تھی۔دوسرے سپاہیوں نے سمجھا بجھا کر چاندنی کو تھانے سے چلتا کر دیا۔ اٹھائیں انتیس برس کی اچھے ہاتھ پیروں، گوری رنگت، بڑی بڑی آنکھوں، خوبصورت گول چہرے، بڑے متناسب جسم اور بڑی دلکش شخصیت والی چاندنی سے کوئی نہیں الجھتا تھا۔ پتلی پتلی بے حد خوبصورت انگلیوں،چھوٹے سے دہانے اور لمبی گردن والی چاندنی ایک بری عورت کی حیثیت سے جانی جاتی تھی۔
بڑبڑی بھی، بدتمیز بھی اور بد تہذیب و بدزبان بھی۔ اگر کسی نے کبھی کچھ کہہ دیا، کوئی ریمارک پاس کر دیا، تو اس کی شامت آجاتی تھی۔ اپنے مستقل گاہکوں کے علاوہ اس نے کبھی کسی کو منہ نہیں لگایا تھا۔ کسی دل جلے نے ہی نئے ایس۔ایچ ۔ او کوگمنام خط لکھ دیا تھا۔تھوڑا بہت پڑھی لکھی تھی لیکن جب بدزبانی پر اتر آتی تھی تو فاحشہ سے فاحشہ عورت کو ہی نہیں، فاحش سے فاحش مرد کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ کسی نے اگر کبھی بدزبانی یازبان درازی کی ہمت کر لی تو چاندنی کا ہاتھ چل جاتا تھاسبھی اس سے ڈرتے تھے۔کالونی کا کوئی آدمی کبھی اس کے پاس نہیں آتا تھا۔ نہ اچھے کام سے، نہ برے کام سے۔ ایک دن کچھ لوگوں نے کالونی کی مسجد کے پیش امام سے کہا کہ چاندنی کو سمجھا ئیں کہ وہ دھندا کرنا بند کر دے پہلے تو پیش امام صاحب راضی نہیں ہوئے مگر پھر جب لوگوں نے بہت اصرار کیا تو پہنچ گئے۔چاندنی کے دو کمروں کے چھوٹے سے گھر پر۔ چاندنی پاپڑ بیل رہی تھی ۔ امام صاحب کو دیکھتے ہی گڑبڑا کر کھڑی ہو گئی۔ ہاتھ جوڑ کر اور سر کو جھکا کر بولی۔نمستے مولبی صاحب۔آئیے آئیے پلیز بیٹھے۔
اس نے پلنگ کی طرف اشارہ کیا جس پر صاف سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ جیتی رہو،کہہ کر امام صاحب پلنگ پر بیٹھ گئے۔مولبی صاحب چاندنی بالکل ایک خادمہ کی طرح بولی: آپ نے کاہے کو تکلیف کی، مجھے بلوالیا ہوتا۔کوئی بات نہیں۔امام صاحب بڑی شفقت کے ساتھ بولے،میں نے کہا میں ہی مل آؤں اپنی اس بیٹی سے۔بہت بہت شکریہ مولبی صاحب چاندنی سراپا تشکر نظر آنے لگی ۔آپ کے آنے سے میرا گھر پوتر ہوگیا کہہ کر وہ امام صاحب کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی ۔ چاندنی بیٹی میں تو چاہتا ہوں کہ تیری زندگی پوتر ہوجائے بالکل آسمان کی چاندنی کی طرح ۔ امام صاحب کی آواز میں بڑی پرخلوص اپنائیت تھی۔ چاہتی تو میں بھی ہوں مولبی صاحب پر میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟چاندنی ٹھنڈی سانس لے کر بولی۔کوشش تو کرو، اللہ مددکریگا ۔ امام صاحب نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بڑی شفیق آواز میں کہا۔نظریں جھکا کر چاندنی نے کہا آپ کا اللہ تو ضرور مدد کرے گا۔میں ہی کوشش نہیں کر پاؤں گی۔ کیسے کوشش کروں! میری اپنی مجبوریاں ہیں۔ آٹھویں جماعت تک پڑھی ہوں،کوئی نوکری دے بھی تو کیا دے، اور کیوں دے؟ میں کرہی کیا سکوں گی؟ گھروں میں جھاڑو برتن کر کے بھی اگر ہزار بارہ سومہینہ کما لیا تو اس سے بھی کیا ہوتا ہے۔؟پاپڑ بنا کر مہینے میں زیادہ سے زیادہ پانچ سوکمالیتی ہوں۔ اس مکان کا کرایہی پانچ سوروپیہ مہینہ ہے۔ لکھیم پور میں ماں ہے۔ قریب قریب اندھی ہے دو چھوٹی بہنیں ہیں، دو چھوٹے بھائی ہیں۔
آدمی لوگ سوچتے نہیں ہیں ۔ دھڑا دھڑ بچے پیدا کرتے چلے جاتے ہیں ہم پانچ بہن بھائیوں کو چھوڑ کر پتاجی مرگئے، چلے گئے ۔ میں وہاں یوپی کے اس چھوٹے سے شہر میں رہ کر کیا کر لیتی؟ کیسے قریب قریب اندھی ماں ، دو بہنوں اور دو بھائیوں کو پالتی؟اس لیے یہاں چلی آئی۔ مہینے میں چار پانچ بار دھندا کر لیتی ہوں۔ آٹھ دس ہزار مل جاتے ہیں۔ دونوں بہنیں بھی پڑھ رہی ہیں اور دونوں بھائی بھی خوب محنت سے پڑھ رہے ہیں۔ بڑے ہونہار ہیں۔ ہر سال چاروں فرسٹ پوزیشن لاتے ہیں۔اپنی اپنی کلاس میں۔چاروں کچھ نہ کچھ بن جائیں گے۔ پھر میں دھندا کرنا بند کر دوں گی۔ابھی اگر بند کردوں گی تو چاروں کی زندگی برباد ہو جائے گی۔میرے بھائی جج بننا چاہتے ہیں،غنڈے بدماش بن جائیں گے،مجرم بن جائیں گے۔ میری بہنیں جو ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں ،مریض بن جائیں گی، دھندا کرنے لگیں گی۔بھائیوں کو جج اور بہنوں کو ڈاکٹر بنانے کے لیے مجھے کچھ دن دھندا کرنا پڑے گا۔
اللہ تجھے اپنی امان میں رکھے بیٹی ۔ امام صاحب نے ہاتھ اٹھا کر چاندنی کو دعادی اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے چلے گئے تھوڑی دیر بعد نیرج آ گیا۔ گورا، بیضوی سا چہرہ، گہری کالی آنکھیں،چھوٹے گول گول بال، خوب گھنے ابرو، چھ فٹ کے آس پاس قد،تگڑاتندرست جسم، چوبیس پچیس برس کی عمر کافی متاثر کن شخصیت تھی ۔ جسم پر سفید پتلون اور سفید قمیض ۔اسے دیکھتے ہی چاندنی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ تو پھر آگیا؟ چاندنی کالہجہ بڑا خراب تھا۔ ہاں آ گیا نیرج مسکرا کر بولا۔۔۔اور ایک بات بتاؤں میں آتا ہی رہوں گا۔ آخر میں تمہارا کیا بگاڑتا ہوں؟ کبھی تو سیدھے منہ بات کیا کرو نیرج کے لہجے میں شکایت تھی۔ سن جس دن غصہ آ گیا تو پٹ جائے گا میرے ہاتھ سے۔چاندنی بڑی سنجیدگی سے بولی کئی بار منع کر چکی ہوں ۔ کالج کی پڑھائی کررہا ہے۔ کرتارہ،اور انسان بن جا۔ تم میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کرو چاندنی ۔ نیرج کے لہجے میں التجا تھی۔ بغیر کوشش کیے ہی تیری مجبوری میری سمجھ میں آتی ہے۔ چاندنی سر ہلا کر بولی:پھر اس نے تیز آواز میں کہا۔آخری بار تجھ سے کہہ رہی ہوں کہ یہاں سے چلا جا، اور دوبارہ اگر آگیا تو یہ سمجھ کر آنا بڑی بے عزتی کر کے نکالوں گی یہاں سے چل پھوٹ ۔آخر مجھ سے ہی ایسی کیا نفرت ہے؟۔
یہ دیکھو، میں پیسے لایا ہوں۔نیرج نے سوسو کے نوٹ پتلون کی جیب سے نکال کر اس کی طرف بڑھائے ۔ پورے پانچ ہزار ہیں۔سب لےلو ۔ جاتا ہے یا کچھ شروع کروں؟چاندنی کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آواز اونچی۔اچا نک نیرج کو غصہ آ گیا۔ ناز برداریوں کا عادی تھا، گھر میں سب ایک آواز پر چلتے تھے ۔ اس نے نوٹ پتلون کی جیب میں رکھے اور چاندنی کو شعلہ بار نگاہوں سے گھورتا ہوا چلا گیا۔چاندنی سر جھٹک کر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی، پھر اٹھ کر فرج کھولا، ایک گلاس پانی پیا، اور آکر پھر پاپڑ بیلنے گی۔تقریباً ایک گھنٹے تک وہ سر جھکائے پاپڑ بیلتی رہی۔ اپنے کام میں اور کام کے ساتھ ساتھ اپنے خیالوں میں وہ اتنی محوتھی کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ نیرج کب کمرے میں داخل ہوا۔ وہ تو اس وقت چونکی جب اس نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ سر گھما کر دیکھا۔ نیرج دروازہ بولٹ کر رہا تھا۔ چاندنی کے ہاتھ رک گئے مگر وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔ دروازہ بولٹ کر کے نیرج اس کی طرف گھوما۔ اس کے چہرے پر نگاہیں پڑتے ہی چاندنی کو اندازہ ہو گیا کہ اس کے ارادےخطرناک ہیں۔نیرج کے ارادے واقعی خطر ناک تھے۔ اس نے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا، چاقو نکالا اور پھر ایک ڈراؤنی کڑ کڑاہٹ کے ساتھ چاقو کھل گیا۔ چاندنی کے چہرے پر دہشت یا خوف کا تو ذکر ہی کیا، ہلکی سی گھبراہٹ یا تشویش تک نہیں تھی۔
ویسے ہی بیٹھی رہی اور نیرج کے چہرے پر نظر جمائے رہی۔اٹھو میڈم، کپڑے اتاردو، اور بیڈ پر لیٹ جا۔ نیرج دانت پر دانت جما کر بولا اس کا لہجہ اس کے خطرناک ارادے کا اظہار کر رہا تھا۔ چاندنی اسی طرح بیٹھی رہی۔ تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا؟ نیرج درشت آواز میں بولا گٹ اپ،اور اگر منہ سے کوئی چیخ پکار نکلی تو آنتیں باہر کر دوں گا۔ سر سے کفن باندھ کر آیا ہوں۔چاندنی اسی طرح بیٹھی رہی۔ اس کے چہرے پر ایسے تاثر نظر آنے لگے تھے جیسے اسے نیرج پر ترس آرہا ہو۔پھر اس سے پہلے کہ نیرج کچھ اور کہتا،چاندنی نرم آواز میں بولی:نیرج یہ چاقو بند کر کے جیب میں رکھ لے اور میری بات سن میں تو بری عورت ہوں۔تیرے ساتھ لیٹ جاؤں گی۔لیکن تو اتنا برانہ بن۔اس عورت کے ساتھ مت لیٹ جس کے ساتھ تیرا باپ لیٹتا ہے۔
مصنف:اقبال انصاری