چوتھا کھونٹ

0
188
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کے شہزادے کی طرح اسے کسی نے چوتھے کھونٹ جانے کو منع نہیں کیا تھا اس نے تو خود ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ چوتھے کھونٹ نہیں جائے گا۔ شاید اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ چوتھا کھونٹ خطرناک ہے اور یہ بات وہ وہاں جائے بغیر جان گیا تھا۔ ہاں تجربے نے اسے یہ ضرور بتا دیا تھا کہ چوتھے کھونٹ جانے پر گٹھیاں ہی نہیں ملتی ہیں جو بھولے بھالے شہزادے کو بہکا کر سیدھی راہ سے بھٹکا کر گمراہ کر دیتی ہیں بلکہ بھولی بھالی سیدھی سادی سادہ لوح روحیں بھی ملتی ہیں جن سے آنکھ ملاتے ہوئے بھی دل لرزنے لگتا ہے۔ اس نے تو نو عمری سے ہی کھائی کھیلی عورتوں کو برتا تھا اس کے نزدیک عورت کے دو ہی روپ تھے ایک جو اس کی ماں، خاندان کی دوسری عورتوں کا جو گھر کی چہار دیواری میں رہتی تھیں اور ان کی زندگی اس میں ہی محدود تھی مردوں کی زندگی سے بالکل الگ ۔ یا پھر ان سوسائٹی گرلز کا جو اس کے حسن، رتبے اور پیسے سے مرعوب ہو کر ان سےمرعوب ہو جاتیں اور اس کے ساتھ وقت گزارتیں جن سے وہ وقتی طور پر ملتا اچھا وقت گزارتا اور بھول جاتا پھر کبھی وہ ان سے ٹکراتا تو کبھی پہچانتا اور کبھی نہیں اور بعض صورتوں میں وہی اس سے کترا جاتیں۔اس کو اس صنف کی تھوڑی دیر کی رفاقت چاہیے تھی صرف جسمانی رفاقت۔ اس سے زیادہ کی اسے ضرورت نہیں تھی۔ اس کو صرف ایک عورت کے ساتھ اپنا دائمی رشتہ جوڑنے کے خیال سے ہی جھر جھری آجاتی۔ اس کی نظروں میں روتی جھینکتی طرح طرح کی ڈیمانڈ ز کرتی شک وشبہے میں مبتلا، سر جھاڑ منہ پہاڑ بیوی گھومنے لگتی۔ یا پھر پڑھی لکھی میک اپ سے لپی پتی قیمتی ساڑھیوں اور زیوروں میں ملبوس خواتین کا خیال آتا جو صرف سماج میں دکھاوے کے لیے اپنے شوہروں کے ساتھ بحیثیت بیوی کے رہتی تھیں۔ اور دوستیاں دوسرے مردوں سے کھلے بندوں یا ڈھکے چھپے طور پر کرتیں اور دوستی میں ہر حد کو پھلانگ جاتیں۔ اس نے سوچا تھا وہ کبھی شادی نہیں کرے گا۔ اسی لیے وہ ہمیشہ مزے لے لے کر شادی شدہ لوگوں پر مزاحیہ فقرے کستا۔ شادی کا ذکر استہزائیہ انداز سے کرتا۔ اسے اپنا۔۔کنوارپن۔۔نہ صرف عزیز تھا بلکہ وہ اس پر نازاں تھا۔ اور اس کا موقعہ موقعہ سے اظہار کرنے سے بھی نہ چوکتا اور اس کے نزدیک سیدھا اور صحیح راستہ یہی تھا کم از کم وہ سمجھتا یہی تھا۔ صحیح اور غلط کی تفسیر تو ہر انسان اپنی پسند کے مطابق ہی کرتا ہے۔ اور اس میں تو اپنی فوقیت کا احساس بچپن سے تھا۔ اس کی انا بچپن سے ہی سرکشی پر آمادہ رہتی۔ اس نے اسے بغاوت پسند اور مہم جو بنادیا تھا۔ وہ خاندان میں اپنے عادات واطوار کے لحاظ سے بالکل الگ تھا۔ اس نے ورثے میں ملی اخلاق کی پاسداری خاندانی نجابت کو ہمیشہ حقارت سے دیکھا تھا۔ وہ اگر بزرگوں کے بتائے راستے پر چلتا تو کیا اس جگہ پر ہوتا جہاں آج ہے؟۔۔۔ناممکن آج اس کے پاس دولت بھی ہے، عزت بھی شہرت واقتدار بھی اور یہ سب کچھ ہے تو عزیزوں کی محبت بھی ہے اور دوستوں کی دوستی بھی۔ عام لوگوں کی عقیدت واحترام بھی۔

زندگی بالکل اس طرح گزر رہی تھی جس طرح وہ چاہتا تھا۔ مگر مادھوی نے اس کی زندگی میں آکر عجب اتھل، پتھل مچادی۔ جب وہ اس سے ملاتو یہی سوچا تھا کہ وہ بھی ان لاتعداد عورتوں میں سے ایک ہے جو اس کی زندگی میں آئیں اور چلی گئیں۔ اس نے جب ہزار بار کے دہرائے فقرے اور حربے مادھوی پر آزمائے تو وہ بھی اس کی بانہوں میں کھینچی چلی آئی اور اسے اپنے اتنے قریب پا کر اسے محسوس ہوا کہ وہ کھائی کھیلی عورت نہیں تھی اسے تعجب بھی ہوا کہ اتنی بڑی عمر کی ملکوں ملکوں گھومی اعلی تعلیم یافتہ میوزک کی ماہر عورت اور۔۔۔اور۔۔۔کمال ہے! وہ ایک لمحے کو ٹھٹکا اور سوچنے لگا کہ وہ اس معصوم اور سادہ دل عورت کے دروازے کو جواب تک اس نے بند کر رکھے ہیں وانہ ہونے دیے۔ وہ بھولی اور سیدھی عورت جو اپنی عمر کی تیسری دہائی پوری کر رہی تھی جو اس میدان میں بالکل نئی تھی اس نے اس کے کھو کھلے اور بے معنی فقروں اور اشاروں کنایوں کو خوبصورت معنی پہنا دیے تھے اس نے اس میں وہ سب خوبیاں تصور کر لی تھیں جن کا اس میں شائبہ بھی نہیں تھا۔ اس نے اس کی مورتی اپنے دل کے خالی سنگھاسن میں بٹھا لیا تھا۔ وہ بہت سٹپٹایا۔ اور چار دن کو وہ اس کے شہر کی میوزک کنسرٹ میں آئی تھی مگر وہ اس کی خاطر ایک ہفتہ کے لیے رُک گئی۔ اس کے ایک رفیق کی حیثیت سے وہ اس سے ملنے گیا تھا مگر پہلی ملاقات ہی میں وہ اسے اپنا دل دے بیٹھی ۔ پھر انہوں نے تقریباً یہ دن ساتھ ہی گزارے۔ وہ اپنے مداحوں کی بھیڑ کو چھوڑ کر اس کے پاس آجاتی اپنے سارے پروگرام اس کے بنائے ہوئے پروگراموں کی وجہ سے کینسل کر دیتی۔ چاندنی راتوں میں لمبی ڈرائیو، ڈرامے فلم، رات گئے وہ اس کے ساتھ رہتا۔ اس کے لیے تو یہ خاص بات نہ تھی مادھوی جیسے اپنے آپ میں نہیں تھی اور جب وہ اس سے رخصت ہونے لگی تو اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے آنکھوں میں آنسو تھے اور کوشش کے باوجود بھی خود کو اداس ظاہر نہیں کرپا رہا تھا۔ اس نے مادھوی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ سرد تھا۔ اور مادھوی چلی گئی۔ وہ اپنے کاموں اور تفریحوں میں مشغول ہو گیا اور مادھوی شرما اس کے ذہن سے یکسر فراموش ہوگئی۔ ایک ہفتہ بعد اس کا تھینک یو کا کارڈ آیا تو اس نے اسے پڑھا اور کاغذات کے انبار میں ڈال دیا۔ مگر مادھوی کے خط، فون پیام سلام آتے رہے۔ اس نے کسی کا جواب نہیں دیا وہ جواب دیتا بھی کیا وہ ان خطوط میں جن خیالات کا اظہار اس کے بارے میں کرتی وہ ان کے قابل خود کو نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے جذبات کی اس کے یہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ پھر اس کی زندگی میں عورتوں کی کوئی کمی تو نہیں تھی۔ مگر مادھوی کیسے خوبصورت خط لکھتی تھی ایک دفعہ اس نے اس سے کہا تھا تم سنگر نہیں شاعر لگتی ہو ۔ کبھی کبھی وہ اس سے مل آتا کبھی بھولے بھٹکے فون کر لیتا۔ وہ اس کی آواز سن کر کھل جاتی اسے دیکھ کر پھولی نہ ساتی۔ اس کے ساتھ رہتی تو لگتا کہ اسے دونوں جہاں کی نعمتیں حاصل ہیں۔ اور وقت گزرتا رہا۔ اور وقت کے ساتھ مادھوی کی دیوانگی اور وار فٹتگی بھی۔ اس کی زندگی کا وہ محور ہو گیا۔ اس کی ہر بات اس سے شروع ہوتی اور اس پرختم۔ اور پھر دھیرے دھیرے اس نے خود میں ایک تبدیلی محسوس کی ۔ اب مادھوی اسے یاد آتی اس کے والہانہ پن سے چاہنے کی ادا اس کے پتھر دل کو موم کرنے لگتی۔ اور وہ گھبرا جاتا۔ اسے عجیب لگتا کہ کوئی اسے یوں چاہے بغیر کسی بدلے اور مطلب کے۔ مادھوی کو یہ یقین تھا کہ وہ اس کی زندگی میں پہلی عورت ہے جسے اس نے چاہا ہے سراہا ہے ورنہ عورتیں اس کی چاہت میں دیوانہ رہتیں مگر وہ ان کو لفٹ ہی نہ دیتا۔ یہ مادھوی تھی کہ اس نے اس پتھر دل کو رام کر لیا تھا جس نے بے جان مورت میں محبت کے جذبات پیدا کیے تھے ۔ مادھوی اس نے اپنی فرضی مجبوریاں بیان کرنا شروع کر دیں جو ان دونوں کے در میان دیوار بن گئی تھی۔ مگر مادھوی اسے اس دیوانگی سے چاہتی رہی اور اس کے ہر دکھ کو اپنا لینا چاہتی تھی جو اس کی ہر تکلیف کو بانٹنا چاہتی تھی اور اس دیوانگی کے چرچے اس کے حلقے میں بھی ہونے گے۔ اور پھر تو وہ گھبرا گیا۔ اور اس نے اپنی صفائی دینی شروع کر دی۔ اس کی اس دیوانگی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ نہ اس کی طرف سے کوئی پہل ہوئی نہ وہ اسے صرف دوستی کے سوا کچھ دے سکتا ہے۔ اس نے مادھوی کو فراخ دلی سے اس دوستی کو دینے کا اقرار بھی کیا جو بھی کبھی ملنے، مصیبت میں مدد دینے کی حد تک تھی۔ مادھوی اس پر بھی راضی تھی۔ وہ کہتی تھی محبت میں شرطیں نہیں ہوتی ہیں میں نے تم کو چاہا ہے ارن مجھے تمہاری تھوڑی دیر کی رفاقت بھی سالوں پر بھاری لگتی ہے۔ یہی نہیں تمہارا خیال ہی مجھے زندگی گزارنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اران تم وہ پہلے اور آخری مرد ہو جس میں میں نے اپنے آئیڈیل کو پایا ہے۔ مگر اسے نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ اب وہ کبھی ان جانے ان چاہے یہ سوچنے لگتا ہے کہ کیوں نہ مادھوی کو وہ ہمیشہ کو اپنا بنالے۔ یہ احساس ہی کتنا پر سکون ہے کہ کوئی ہمارا صرف ہمارا ہے جو ہماری ہدایات کو پسند کرتا ہے، ہماری پرواہ کرتا ہے، چھوٹے چھوٹے آرام کا جو ہماری محبت اور خدمت اور شدھا میں خود کو کار دینا چاہتا ہے جو ہماری ہر ادا کو پیار سے نہارے، ہر بات کو سچ جانے ، جو ہمارے جھوٹ کو بھی سچ تصور کرے مگر یہ سب تو ہے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو پھر اسے اپنا بہت سا وقت مادھوی کو دینا ہوگا۔ اپنے کاموں کا حساب بھی ان دوستیوں کا جواز بھی۔ وہ منہ سے کچھ نہ کہے مگر اس کی آنکھیں اس سے ہر ہر فعل کا حساب مانگیں گی ۔ تو تو اسی لیے تو وہ کہتا ہے کہ وہ بھول کر چوتھے کھونٹ آ گیا ہے ان جانے ان چاہے۔ اور چوتھے کھونٹ آ کر اسے لگ رہا ہے کہ راستہ بھٹکانے والی کٹنیاں ہی نہیں ہوتیں۔ بھولی بھالی سادہ لوح عورتیں بھی ہوتی ہیں شریف، پاکباز، نیک دل، نیک سیرت، دل وجان سے چاہنے والی ۔ اپنی محبت میں سب کچھ کھو دینے والی۔

مصنف:صغر مہدی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here