چاندنی کا قتل

0
372
urud-story
- Advertisement -

سولہسالہ میلباور کانے گھنے بالوں نیلی آنکھوں گلابی رنگت اورمتوازن خدو خال کا جیتا جاگتا مجسمہ تھی۔۱۲اکتوبرکی چاندنی رات نے اس کے حسن کواور نکھاردیا تھا اور وہ اپنے دو دوستوں چارلس والٹن ا ورریڈلف اسٹاپر کے ساتھ اس متوالی اور پرکیف رات کو بٹر سویٹ روڈ پر فراٹے بھرتی ہوئی کارمیں بیٹھی ہوئی سوچ رہی تھی کہ خدا نے واقعی رات صرف محبت کرنیوالوں کیلئے بنائی ہے۔ہٹر سویٹ روڈ کے دونوں طرف کنارے کنارے گلاب کے پھولوں کی کیاریاں چاندنی میں بڑی خوب صورت نظرآرہی تھیں ہیس سالہ ریڈلف میلباجیسی خوبصورت کہٹر کے وجود سے پوری طرح لطف اندوز ہورہا تھا اور کبھی کبھی گیئر بدلتے وقت وہ اپنی محبوبہ کے کاندھے پرا پنا سر بھی رکھ دیتا تھا۔ دوسرا نوجوان چارلس والٹن ان دونوں کوکنکھیوں سے دیکھ کر کوئی نہ کوئی فقروچست کردینا تھا۔ اور رات کے سکوت کوکارکی آواز کے ساتھ تین نوجوانوں کے قہقہے توڑدیتے تھے۔ ریڈلف کو میلبایور سے بے پناہ محبت تھی اور چالس والٹن چونکہ ریڈلف کا گہرادوست تھا اس لیےجب میلبانےریڈلف کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اسے اپنی کار سے گھرچھوڑ آئے تو ریڈلف نے اس کیف سفرمیں اپنے عزیز دوست چارلس کو بھی شریک کرلیا اور اس بات پر میلبانے کوئی اعتراض بھی نہ کیا کار قراٹے بھرتی ہوئی ساوتھ بنڈ سے انڈیا نا کے چھوٹے سے قصبہ گرینگر کی طرف دوڑی جارہی تھی، اچانک چارلس والٹن نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ریڈلف وہ دیکھو سڑک کے کنارے ایک کارکھڑی ہے ریڈلف اورمیلبا بٹرسویٹ بروڈ کے مغربی کنارے پر کھڑی کار کو دیکھنے لگے جسکے پاس ہی ایک لمبا تڑنگا آدمی بھی کھڑا تھا۔ شاید اس کی کار خراب ہوگئی ہے اورا سے ہماری مدد کی ضرورت ہو گی ؟ چارلس نے خیال ظاہر کیا اور میلبا بورنے اسکی تائید کی لیکن ریڈلف نے جیسے ہی اس کے قریب پہنچ کر اپنی کاردکی اور اسے مدرکی پیش کش کی اس پراسرار آدمی نے اسکی کار پرگولیوں کی بوچھا کر دی، ماحول کا سکوت گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ٹوٹ گیا ، ریڈلف اور چارلس والٹن پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ایک گولی بالکل ریڈلف کی کنپٹی کے قریب سے نکل کر میا باکے گلے میں پیوست ہوگئی لیکن ریڈلیف کو اس وقت اس حادثہ کا قطعی علم نہ ہوسکا گھراہٹ میں اس نے گیئربدلا، اور ایسلیٹر پر پورا دباؤ ڈال کر وہاں سے بھاگ نکلا منزل مقصود پر پہنچ کر جب ریڈلف نے میلبا کو جھنجھوڑا، اس وقت اس کے پاوں تلے سے زمین نکل گئی۔ میلبامر چکی تھی ۔ ریڈلف کے ارمانوں کا خون ہو چکا تھا، اسکے مستقبل کا قلعہ مسمار ہوگیا تھا۔ ایک پراسرار قاتل نے گرعیگر کی سب سے خوبصورت لڑکی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا مگر میلباکوکیوں قتل کیا گیا، کیاریڈلف کے کسی رقیب نے یہ ہہیمانہ اقدام کیا کیسا معصوم میلبا نے کسی شخص کا دل توڑا تھا جسے بندوق کی گولی سے اس کی بے وفائی کا انتقام لے لیا۔ کیا چارلس دالٹن اس سازش میں شامل تھا؟خیر سویٹ روڈ پر چاندنی رات میں ایک معصوم لڑکی کے اس قتل کے واقعہ نے پورے امریکہ میں تہلکہ برپا کر دیا یوں تو امریکہ میں آئے دن قتل کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک سولہ سال معصوم لڑکی کو جس کا کوئی دشمن نہیں تھا جسے سب سے محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے سے جو کسی سرمایہ دار یابڑےسیاست دان کی بیٹی بھی نہیں تھی اورجس کارمیں وہ آ جا رہی تھی اس میں کوئی خزانہ بھی نہیں منتقل کیا جارہا تھا، کیوں قتل کیا گیا؟ یہ سوالات ہرشخص کے دل و دماغ میں تہلکہ مچائے ہوئے تھے۔ اور امریکی سراغر سانوں کے لیے قتل کی یہ واردات ایک ایسا معمہ بن گئی تھی جس کاحل بظاہرنا ممکن نظر آتا تھا۔قاعدہ کے مطابق میلباکے باپ مسٹربورنے ساوتھ بنڈ کے شیریف کو اپنی بیٹی کے دردناک قتل کی رپورٹ ٹیلی فون پر دیری۔ اور تھوڑی دیرمیں شیریف ہوسنسکی اپنے چیف ڈپٹی فرینک برگتر کے ساتھ گرینگر میں میلباکے مکان پرپہنچ گیا۔ اس نے پہلے دونوں نوجوانوں تفصیلی واقعات معلوم کئے پھر اس کارکا معائنہ کیاجس میں یہ قتل ہوا تھا۔ کار کے بائیں حصۃ میں گولیوں کے چھ نشانات کا مغورمعائنہ کرنے کے بعد ہو سنکی نے ریڈلف اور والٹن کو حفاظتی حراست میں لے لیا اوران کے ساتھ جاتے واردات پر جا کر بہت غور سے گرد آلود سڑک کو دیکھنا شروع کردیا جیسے وہ خاک کے ذردں میں قاتل کو تلاش کر رہے ہوں۔جائے وقوعہ پرچونشانات ملے ان سے شریف ہوسنکی اس نتیجہ پر پہنچاکہ قاتل کی کارمیں نئے ٹائرلگے ہوئے تھے اور گولیاں چلانے کے بعد وہ تیزی کے ساتھ بٹرسویٹ روڈ رسیدھے ٹکاگو کی جانب اپنی کارتیزی سے موڑ کر فرارہو گیا تھا۔ دونوں افسران پھر وہاں سے میلبا بور کے مکان پر واپس آئے انہوں نے مقتولہ کے والدین سے مقتولہ کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کیں اور ان دونوں نوجوانوں سے مزید سوالات کئے۔ ان نوجوانوں نے ایک بار پھرتمام واقعات تفصیل سے بیان کئے انہوں نے بتایا قاتل ایک لمبا تڑنگا شخص تھا۔اس کے شانے عام لوگوں سے زیادہ جوڑے تھے اسے ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کسی کوبھی یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم آج رات بٹرسویٹ روڈ سے گزریں گے رقابت کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ قاتل کسی اور کی تلاش میں تھا اور اس نے کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہمارے اوپر گولیاں چلائیں۔ اس کی کار پر الینوئس کی لائسنس پلیٹ ابتدائی سیلس کے بعد شریف دونوں نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کرساوتھ بنڈواپس آگیا اور انہیں سینٹ جوزف جیل میں بند کرنے کے بعد قاتل کے حلیہ اور کارکی لا ئسنس پلیٹ کے متعلق نشری پیغامات انڈريانا الینوئس اور دیگر نواحی ریاستوں کی پولیس کو ارسال کر دئے۔شیریف ہوسنکی کے لیے اس قتل کا اسرارحل کرنا وقارکا سوال بن گیا تھا۔ اخبارات اس قتل کے سلسلہ میں طرح طرح کے سوالات اٹھارہے تھے۔رائے عامہ پولیس کے خلاف ہورہی تھی، قاتل نے کوئی واضح سراغ نہیں چھوڑا تھا ہوسنکی کو یقین تھا کہ میلبا کے ہم سفر دونوں نوجوان بالکل بے گناہ ہیں تفتیش سے معلوم ہوا تھا کہ دونوں نوجوان شریف خاندان کے چشم وچراغ ہیں، اس لیے ہوسکتا ہے کہ قاتل وہاں کسی اور کا انتظار کر رہا ہو۔ اوران لوگوں کی مداخلت پرا سے کچھ شبہ ہوگیا ہو لہزا اس نے گولی چلادی ہو۔دوسرے روز صبح ہی شیریف کوخبرملی کہ ایک لاوارث کار جوچودہ روز پہلے چوری ہوئی تھی ساوتھ مین اسٹریٹ پر کھڑی ہوئی پائی گئی ہے۔ یہ کار دراصل انڈیانا اسٹیٹ پولیس کے بیٹرولین ہادرڈ ونٹرس کی تحویل میں تھی۔ اس میں ایک ریوالوراعشاریہ ۳۲ کا اورایک ریوالوراعشاریہ ۳۸ کا سبھی تھا اورا سے پیٹرولین کی عدم موجودگی میں کسی نے چرالیا تھا ہوسنکی فورا کار کے معائنہ کے لیے روانہ ہو گیا اور وہ معلوم کر کے اپنے گھر واپس آیا کہ اس کار کے ٹائر کے نشانات ان نشانات سے مشاہہ ہیں جو جائے داردات پر تھے۔ اس طرح اس پرسرا قتل میں استعمال ہونے والی کار پولیس کے قبضہ میں آگئی لیکن یہ کار کس نے چرائی تھی اور قاتل کون تھا؟اس سوال کا جواب ابھی تلاش کرنا تھا۔میلبا بور کے قتل کے تیسرے دن شیریف ہوسنکی نے اخبارات میں ایک اپیل شائع کی اور لوگوں کو دعوت دی کہ اس بھیانک قتل کی واردات کامعمہ حل کرنے میں دو پولیس کو تعاون دیں ۔ لوگوں سے یہ اپیل بھی کی گئی کہ اگر کسی کو ایسے حالات کا علم ہوجن میں اس قسم کی واردات ہو کبھی کبھی تووه پولیس کوطلع کریں۔ اخبارات اور ریڈیو کے ذریعہ پولیس کی ان اپیلوں کا خاطر خواہ نتیجہ بدھ کی صبح کو اس وقت برآمد ہوا جب شیریف ہوسنسکی کو کلے کنٹری، کنٹکی سے ایک دوشیزہ سارہ گارلینڈ کا ایک خط موصول ہوا سارہ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ یہ قتل غالبا اس کے باپ ڈیوی گارلینڈ نے کیا ہے میلبا کے قتل سے صرف ۵ دن قتل ڈیوی گارلینڈ اپنی بیوی کو قتل کرنے اور اپنی بیٹی سارہ کو سخت زخمی کرنے کے بعد شمالی انڈیانا کی طرف بھاگ گیا تھا ۔ سارہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ اخبارات میں قاتل کا جو حلیہ شائع ہوا ہے وہ اس کے باپ ہی جیسا ہے۔ شیریف ہوسنسکی نے فورا گارلینڈ کی گرفتاری کے لئے دائرلیس سے تمام پولیس تھانوں کو اطلاع دے دی اور حسن اتفاق سے دوسرے ہی دن ڈین ویل ستھرڈ میں گارلینڈ گرفتار کر لیا گیا۔ گارلینڈ نے صحت جرم سے انکار کیا۔ اس نے میلبا کے قتل سے اپنی لاعلمی کا بھی اظہار کیالیکن اس کی تلاشی لینے پر اس کے قبضہ سے ایک تو اعشاریہ ۳۸ کاریوالور برآمد ہوا، اور شاٹ گن بھی اس کی کار سے قبضہ میں لی گئی۔ اس کی کار میں کچھ کارتوس اور دوسرے ہتھیار بھی ملے ۔جب پولیس والوں نے گارلینڈ سے پوچھا کہ اگر وہ بے گناہ ہے تو پھراس کے پاس اتنے بہت سے ہتھیار کیوں تھے تو اس نے اپنی بیوی کوقتل کرنے اور اپنی بیٹی کو زخمی کر کے بھاگنے کا اعتراف کر لیا لیکن میلبا کے قتل سے قطعی لاعلمی کا اظہار کیا۔ ابھی گارلینڈ کی گرفتاری پر پولیس والے خوشی ہی منارہے تھے کہ انہیں ڈین ڈیل سے پولیس نے اطلاع دی کہ گارلینڈ کا بیان درست ہے ، اسطرح پولیس کو اپنی بیوی کا قاتل گارلینڈ تو مل گیا لیکن میلبا کا قاتل نہیں ملا اور پولیس والوں کی ساری خوشی کا فور ہوگئی ہوسنسکی کو ایک بار پھر ایسا لگا کہ معصوم میلبا کا قاتل گرفتارنہ ہو سکے گا مگر وہ مایوس نہیں ہوا۔اس نے دوسرے خطوط پر غور کرنا شروع کیا۔ اسی اثنار میں ایک کانسٹبل نے اسے ایک ایسے ڈاکٹر کے متعلق بتایا جوا سے گزشتہ شب پراسرار حالات میں ملا تھا۔کانسٹیبل نے بتایا یہ مشہور ڈاکٹرڈ گلاس روڈ پر اپنی کار پارک کئے سو رہا تھا جب اسے جگا کر میں نے پوچها کہ وہ یہاں کیوں سورہا ہے تو کوئی جواب دیئے بغیراس نے کاراشارٹ کی اور وہاں سے چلا گیا؟ کانسٹبل نے مزید کہا وہ کچھ گھبرا یا سا تھا۔ اور میرے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتا تھا، اسکی حالت مشتبہ تھی۔حالانکہ بوسنسکی کے لیے کانسٹبل کی فراہم کرده اس اطلاع میں کوئی کشش نہیں تھی پھربھی ڈوبتے کو تنکے کاسہارا کافی ہوتا ہے اوراکثر اسی قسم کی غیر اہم کڑیاں قاتلوں کا سراغ لگانے میں غیر معمولی طور پر مدد معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیےاس نے اس ڈاکٹر کو فورا طلب کر لیا اوربعد کے گھنٹوں میں اس سے سخت جرح کی گئی لیکن ہرسوال کے جواب میں ڈاکٹریہی کہتا کہ اسے اس – قتل کے متعلق کچھ بھی نہیں معلوم ریڈلف کو ڈاکٹر کی شناخت کے لیے طلب کیا گیا اور اس نے ڈاکٹر کو بقور دیکھنے کے بعد کہا۔میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ قاتل یہی ہے۔ لیکن یہ شخص بالکل ایسا ہی ہے جیسا قاتل تھا۔ ریڈیف کے بیان نے ڈاکٹر کومشکوک ضروردیا لیکن ہوسنسکی کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں تھا جسکی بنا پر ڈاکٹر کوقاتل ٹھہرایا جا سکتا ہوسنسکی اب مایوس سا ہوگیا تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری ڈاکٹرکوحراست میں لینے کے بعد ایک بارپھراس نے اخبارات اورریڈیو کے ذریعہ عوام سے اپیل کی کہ ودمیلبا بور کے بہیمانہ قتل کا سراغ لگانے،میں پولیس کی مدد کریں۔میلبا کے قتل کو پورے آٹھ دن کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن قاتل ابھی تک انہیں جاسکا تھا۔ اخبارات پھر پولیس کیخلاف حاشیہ آرائی کر نے لگے تھے اور ایک بارپھر پولیس پر عوام کا اعتمار متنرلزل ہورہا تھا شیریف بوسنسکی کے لیے زاتی طور پر یہ ایک بڑی الجھن کا سبب تھا۔ اب تک جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا ان پریقینی طور پرمیلبا کے قتل کا الزام نہیں ثابت کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے ہوسنسکی کی پریشانی جائزہی تھی۔۲۱ اکتوبر کو شیریف ہوسنسکی اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا میلبا کے قتل کے متعلق ہی غور کر رہا تھا کہ ایک نوجوان عورت اس کے کمرہ میں داخل ہوئی، اس نے کہا میرانام مسزہاکس ہے۔ وہ بولي جسنے میلبا بورکوہلاک کیا میرے لیے تھی اوراس کا قاتل لارنس میکارتھی ہے جومجھے قتل کرنا چاہتا تھا ہوسنسکی ہکا بکا مسز ہاکنس کو دیکھنے لگا اس نے مسز ہاکنس کوبیٹھنے کا اشارہ کیا اور تھوڑے توقف کے بعد اسنے تفصیلی گفتگو شروع کردی۔لارنس میکارتھی کون ذات شریف ہیں؟ وہ کرامپٹاون روڈ پر میری عمارت میں کرایہ دار ہے۔میلبا کے قتل سے ایک ماہ پہلے مجھے میکارتھی کی سرگرمیوں پر شبہ ہو گیا تھا اس لیے میں نے چھپ چھپ کر اس کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا شروع کر دیا میں نے جب معلوم کر لیا کہ وہ میری عمارت کو غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتا ہے اور چوری کی کاریں لاکر ان کے پرزے وغیرہ نکال کر چور بازار میں فروخت کرتاہے تومیں نے اس سے عمارت خالی کرنے کوکہا لیکن میرے اس مطالبہ نے میکارتھی کو تش زیر پاکردیا وہ غصہ سے بھڑک اٹھا اور اس نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے اس کا رازکسی کو بتایا تو اگر وہ خود مجھے قتل نہ کرسکا تو اس کے ساتھی مجھے ضرور قتل کر دیں گے۔ اب وہ مجھپر نظررکھنے لگا۔ اس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اسے اپنی نقل وحرکت کے متعلق تمام تفاصیل بتایا کروں۔ابھی تم نے کہا تھاکہ جس گولی نے میلبابور کی جان لی وہ تمہارے لیے تھی اس سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟میں ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں مسٹر ہوسنسکی میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ جب سے مجھے اس کی خلاف قانون حرکتوں کا علم ہوا تھا، اس وقت سے وہ مجھپرکڑی نگاہ رکھتا تھا۔ اور ۱۲ اکتوبر کو جب اسے یہ معلوم ہوا کہ میں اپنے کچھ رشتہ داروں سے ملنے کے لیے مچی گان جارہی ہوں تو اسنے مجھے اپنے سفرکی تمام تقاصیل بیان کرنے پر مجبور کر دیا تھا میں نے اسے بتایا تھا۔ کہ میں بٹرسویٹ روڈ سے جاوں گی اس دن بھی اسنے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے اسکا۔راز فاش کیا تو وہ مجھے موت کے گھاٹ اتار دیگا اسلئے مجھے اپنی جان کاشدید خطرہ محسوس ہوا۔ اور میلیاکے قتل نے تو یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ اس چاندنی رات میں بٹرسویٹ روڈ پر میرے انتظارمیں تھا۔ اگر عین وقت پر میں نے اپنا سفرملتوی نہ کر دیا ہوتا تومیلبا کی بجائے میرا قتل ہوا ہوتا مسز ہاکنس کے بیان کو بغور سننے کے بعد شریف نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر میکارتھی کے ماضی کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے ایف بی آئی سے رابطہ قائم کیا اسے معلوم ہوا کہ۔میکارتھی ایک خطرناک مجرم ہے کیلی فورنیا پولیس کو اس کی تلاش تھی۔۱۲ اکتو برکی رات سے پہلے بھی وہ ایک قتل کر چکا تھا۔ کیلی فورنیا میں جب وہ صرف ۱۹ سال کا تھا اس وقت اس نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کوبڑی بے رخمی سے قتل کر کے لوٹ لیا تھااس قتل کے جرم میں اسے ۱۵سال قید کی سزا ہوئی تھی اور کوبنٹن جیل میں وہ قید کاٹ رہا تھا لیکن پیرول پر رہائی حاصل کرنے کے بعد وہ ڈیٹورائٹ آگیا تھا جہاں اسے ایک کار چرانے کے جرم میں ۱۲سال کی سزا ملی تھی جیل سے نکلنے کے بعد اسنے ایڈورڈزآٹووائس میں ملازمت کر لی تھی لیکن ایک بار پھر اسے ایک کارچرانے کے جرم میں سزا دی گئی تھی جیل سے پھررہا ہونے کے بعد وہ مسزہاکنس کا کرایہ داربن گیا تھا۔ان تفاصیل کے علم میں آنے کے بعد میکار تھی کی تلاش كاسلسلہ شروع ہو گیا شیریف ہوسنسکی اور اسکے معاونین نے ا میلبا بور کے مبینہ قاتل کی تلاش میں دن رات ایک کر دئے اسی اثارمیں مشتبہ ڈاکٹر اورمقتولہ کے دونوں نوجوان ساتھیوں کورہا کردیا گیا اور عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ پولیس نے قاتل کوتلا ش کرنے میں ناکام ہونے کے بعد کیس داخل دفتر کر دیا ہے ۔ یہ تاثراس لیے دیاگیا تاکہ میکار تھی جو پولیس کی سرگرمیوں کا قریبی مطالعہ کر رہا تھا۔ دھوکہ کھا جائے اور یہی ہوا بھی۔ پولیس نے اسے سنت جازف کاونٹی میں میشا داکہ کے ایک پٹرول پمپ پر اچانک گرفتارکرلیا ۔اور جب شریف ہوسنسکی نے اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانکا تواسے یقین آگیا کہ مسنرہاکنس کے اس سے خوفزدہ ہونےکا سبب اسکی خوفناک آنکھیں تھیں میکارتھی نے اعتراف جرم کر لیا لیکن اسنے کہا میں نے غلط فہمی میں ایک معصوم لڑکی کا خون کیا میں مسنرہاکنس کو قتل کرنا چاہتا تھا اسکی گرفتاری کے بعد شمالى انڈیانا کے شہریوں کو اطمینان ہو گیا کہ اب بٹرسویٹ روڈ پرموت کادیوتا ان کے لیے خطرہ نہیں بنے گا۔

مصنف :وارن فنٹن

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here