ٹیڑھا مکان

0
377
urud-story
- Advertisement -

جون ۱۹۶۵کا واقعہ ہے کہ میرے شوہر مارج نے مجھے نیویارک سے تار کے ذریعہ مطلع کیا کہ انہوں نے ایک پرانا وکٹورین طرز کا بنگکہ دریائے ہڈ سن کے کنارے خرید لیا ہے اور میں چار بچوں کے ساتھ جب بھی مناسب ہو وسکانس سے وہاں پہنچ جاوں ۔بچوں کے امتحانات ختم ہوتے ہی ان کے ہمراہ ۔پہلی پرواز سے نیویارک آگئی جارج ہوائی اڈے پر ہم لوگوں کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔سسٹم وغیرہ سے ہم لوگ نجات پاکر براہ راست اپنے مکان کی طرف چل دیے ۔راستے میں جارج نے مجھے بتایا کہ اس نئے مکان کی قیمت تقریبا چارلاکھ روپے تھی اور محل وقوع کے لحاظ سے اس کی قیمت زیادہ تو ہر گز نہیں بلکہ کم تھی جارج اس وقت نیویارک کی ۔ایک کنسٹرکشن کمپنی میں انجنیرتھے۔لیکن لطف کی بات یہ تھی ۔کہ خرید شدہ مکان انہوں نے مجھ سے قبل دیکھا تھا نہ اس میں رہائش اختیار کی راستے بھر ہم دونوں مکان کو آراستہ وپیراستہ بنانے کے منصوبے بناتے رہے ۔جارج کا ر چلا رہے تھے ۔میں اگلی سیٹ پر ان کے ساتھ بہٹھی تھی اور اور پچھلی نشست پر چاروں بچوں کا قبضہ تھا ۔نئے مکان میں منتقل ہونے پر ہم اس لیے بھی خوش تھے کہ اب ساراخاندان ایک جگہ ہی رہے گا۔آخرکارحب ہم اپنے مکان پر پہنچے تو مجھے بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ یہ مکان ٹیرھاہے۔ جارج کو میں نے اس جانب متوجہ کیا تو وہ ہنس کر ٹال گئے ۔ حالانکہ یہ سوفی صدی حقیقت تھی۔ لیکن مرداپنی غلطی مان لے توپھروہ مردہی کیا ہوا۔ تھوڑی دیر بعد ہم سب مکان کے اندر پہنچ کراس کا جائزہ لے رہے تھے معلوم ہوتا تھاکہ برسوں سے بے مکین پڑا ہے۔ اس دوران جارج نے کچھ کمپنیوں کو ٹیلی فون کیے اور تھوڑی ہی دیر ہیں مکان کے لان میں چہل پہل نظرآنے لگی ۔ کچھ لوگ بجلی نٹنگ کے لیے کچھ نلوں اور غسلخانوں میں پانی فراہم کرنے کے لیے اور بہت سے دوسرے فرنیچر قالین پردے اور دوسری چیزیں لیے آچکے تھے۔ ساتھ ساتھ پڑوس کے بچے بھی آگئے ۔ ان سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہ مکان تقریبا سات برس سے خالی پڑاہے ۔ بظاہر سب کو ہی یہ ترچھا اورٹیڑھا نظر آتا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مکان کا یہ خم اسے ہرگز نظر نہیں آتا جو اس کوخریدتا ہے۔مکان کے اندر باہر سے آئے کمپنیوں کے ملازم اپنے متعلقہ فرائض انجام دینے میں مصروف تھے اورہم سب بچوں کے ساتھ لان میں بیٹھےتھے۔ کہ ایک پلمبر نے آکر مطلع کیا کہ جس منزل پر وہ کام کررہاہے اس کی چھت پردھما چوکڑی کی آوازیں آرہی ہیں۔ بعض وقت اس نے کچھ ایسا محسوس کیا کہ جیسے کوئی چھت توڑنے کی کوشش کررہا ہو۔ جارج نے اگرچہ اس بات پریقین نہیں کیا لیکن وہ اس کے ساتھ ہو لیے بیس منٹ بعد جب وسیوں میں سے ایک گھر کی جانب سے بھیجی ہوئی چائے پی رہے تھے تو جارج نے آ کر بتایا کہ جس چھت سے یہ آوازیں آرہی تھیں وہ ایک بند کمرے کی چھت ہے ۔ کمرہ باہرسے بولٹ تھا۔ کھول کر دیکھا گیا تو وہاں کسی چیز کا نام ونشان تک نہیں تھا لیکن پلیمر برابر مصرتھا کہ اس کو ایسی کرخت اورہوفناک آوازیں سنائی دیں کہ وہ اپنے کوجی لگا کر نہیں کرسکتا تھا۔ پلمبرکے علاوہ کسی اور نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی ۔ جارج نے مجھے ہنستے ہوئے بتایا کہ بعض لوگ جوشور وغل میں کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں انہیں سکوت اورخاموشی کے عالم میں ایسی ہی آوازین سنائی دیتی ہیں ۔ یہ دراصل پلمبر کاواہمہ تھااور اس کے کان بج رہے تھے شام کو چار بچے جب سارا بنگلہ فرنش ہوگیا اور کمپنیوں کے ملازم اپنے اپنے بل دے کر روانہ ہو گئے تو ہم سب اطمینان اور سکون کے ساتھ اندرپہنچے اور یہ طے کرنے کے بعد کہ لڑکیاں کہاں رہیں گی اور لڑکے کن کمروں میں رہائش اختیار کریں گے ۔ ہم دونوں نے اپنے لیے پہلی منزل میں دو کمرے منتخب کیے اور پھراپنا مختصرسااسباب جو میں وسکانس سے لائی تھی اوروه جو جارج اپنے ہوٹل سے لائے تھے قرینے سے رکھ دیا۔اس ابتدائی کام کے دوران میں نے ایک عجیب بات یہ محسوس کی کہ ہمہ وقت کوئی نہ کوئی سایہ کی طرح میرے ساتھ لگا رہتا تھا ۔ صورت تو نظرنہیں آتی تھی لیکن اس کے قدموں کی چاپ برابر سنائی دیتی رہتی تھی لیکن میں نے اس واہمہ کا تذکرہ نہ جارج سے کیا اوربچوں سے ۔ ہم دونوں بہت دنوں کے بدملے تھے اورمیں ہرگزنہ چاہتی تھی کہ آج کی شب جارج کے ذہن ودل پر ایسا بوجھ ڈالوں کہ وہ اپنا سکون برباد کربیٹھے یا ہوش وخود سے ہاتھ دھولےرات کا زیادہ حصہ ہم نے جاگ کر گزارا۔ بہت سی باتیں بچوں کے مستقبل کے بارے میں ہوئیں اور بہت سے منصوبوں کے بارے میں بنائے گئے اور پھر ہم تھک ہارکر سو گئے۔على الصبح میری لڑکی سنتھیانے مجھے ناشتے پر بتایا کہ اس کے کمرے کی ایک کھڑکی اچھی طرح بولٹ کردئیے کھلتی اور بند ہوتی رہی۔ میں نے اسے اطمینان اور دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ عرصہ دراز سے یہ مکان بند رہا ہے اس لیے اس کے بولٹ اورسٹخنی خراب ہوسکتے ہیں اوربات آئی گئی ہوگئی۔اسی صبح کو جارج ناشتے کے بعد کارلے کر اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے اور بچے نیچے لان میں جا کر کھیلنے لگے۔ میں ایک بالکنی سے دریائے ہڈسن کے شاندار نظارے دیکھنے میں محوتھی کہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے بالکل نزدیک کوئی کھڑا ہے۔ حدیہ ہے کہ اس کے سانسوں کی ہوا میری گردن میں گدگدی کرتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ منظرکچھ اتنا جاذب اور دلکش تھا کہ میں نے اس جانب کوئی توجہ ہی نہ دی کہ میرے پاس کوئی کھڑا ہے ۔ میں دل کویہی دلاسہ دیتی رہی کہ میرے بچوں میں کوئی کھیل چھوڑکر میرے پاس آگیا ہو گا ۔ لیکن اچانک میں نے محسوس کیا کہ کسی نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ کہا۔ ڈارلنگ ! یہ مکان چھوڑدو۔ یہ آواز مدہم تھی اور اس میں کچھ جارج کے لب و لہجے کی رمق تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔ نہ میرے بچوں میں سے کوئی اورنہ جارج۔ ایک بارپھر اس منظر سے لطف اندوز ہونے کی خاطر اس وا ہمہ کوذہن سے چھٹکا کر اس جانب دیکھنے لگی۔ لیکن پہروہی سرگوشی ۔وہی گردن میں کسی کے سانس سے گدگدی کا احساس ہونے لگا تو میں نے وہاں سے ہٹ جانے کو ہی مناسب سمجھا لیکن اب جب میں نیچے کی منزل پر آنے کے لیے سیڈ ھیاں طے کررہی تھی تو مجھے کسی دوسرے کے قدموں کی چاپ برابر ستائی دیتی رہی۔ اس وا ہمہ کودورکرنے کے لیے جب میں کھڑی ہو جاتی تو وہ پراسرار آہٹ بھی سنائی نہ دیتیں اخر کا میں اپنے کمرے میں آکر مقدس کتاب کا مطالعہ کرنےلگی جارج شام کو واپس لوٹے تو میں نے انہیں صبح کے واقعہ سے مطلع کیا لیکن انہوں نے حسب معمول بنس کر ٹال دیا۔ تھوڑی دیر ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہئے۔اس طرح ایک ہفتہ گزر گیا اور میں برابران دیکھے قدموں کی چاپ اور کچھ دوسرے نظر نہ آنے والے ساپوں کی چہل پہل اور آہٹیں سنتی رہی۔ ایک دن مجھے سنتھيا نے بتایا کہ نہ جانے کون سی طاقت اسے روزانہ ٹھیک پانچ بجے بستر سے بیدار کر دیتی ہے۔ جب بھی وہ بیدار ہوتی ہے گھڑی ٹھیک پانچ بجاتی ہوئی نظر آتی ہے مجے معلوم تھاسنتھیا کی عادت صبح لیٹ اٹھنے کی ہے۔ اس ذیل میں سنتھیانے مجھے کچھ اور نہیں بتایا۔ بس یہی کہ کوئی اس کو ٹھیک پانچ بجے سوتے ہوۓ جگا دیتا ہے۔ایک روز میں سیڑھی پر چڑھ کر ایک تصور آویزاں کررہی تھی کہ مجھے پھر وہی آوازسنائی دی۔ڈارلنگ یہ مکان چھوڑ دومیں نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ لیکن اس بار خوف اور دہشت کا یہ عالم تھا کہ میرے پاؤں لرزنے لگے اور میں چیخ کر سیڑھی سے نیچے آگری۔ اس حادثے کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ زمین پر گرتے وقت کسی نے مجھے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔ اگر یہ واقعہ غلط تھا تو یہ کیسے ہوا کہ اوپر سے نیچے گرنے کے باوجود مجھے کوئی چوٹ نہ آئی اورنہ جسم کے کسی حصےمیں مجھے کوئی چھوٹ محسوس ہوئی۔ رفتہ رفتہ اس مکان میں رہتے ہوئے ہمیں دوسال ہو گئے۔ میرے اوسنتھیاکے علاوہ کسی کو کبھی ان پر اقرار اور آسیبی حادثات کا اتفاق نہیں ہوا۔ مگر مکان چھوڑ دینے کی درخواست سرگوشیوں اور کانا پھوسیوں کی آوازتقربیا ساٹھ بار میرے کانوں میں آچکی تھی۔ اس دن کئی مہمان ہمارے یہاں آئے اور ان میں سےایک عورت نے میرے اس واہمہ کی تائید کی کہ یہ مکان پر اسرار آہٹوں اور سرسراہٹوں سے بھرا ہوا ہے۔جارج کو میں نے کئی بار اس جانب متوجہ کرنے کی کو شش کی لیکن صرف ایکی دلیل ان کے سامنے ایک دلیل تھی کہ جب مکینوں کو ان ارواحوں سے کوئی گزنداور نقصان نہیں پہنچا تو اسے چھوڑنے یا گھرانے کی بظا ہر کوئی وجہ نہیں ہے۔ بہرحال ایک دن ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے نہ صرف ہمارے گھر میں بلکہ نیو یارک کے اعلی طبقوں میں ایک ہلچل مچادی ۔ بڑے بڑے سائنس دانوں کے کان کھڑے ہو گئے اور نیویارک کے ایک بہت بڑے بینک کے منیجر صاحب تو اس سے متاثر ہو کربےہوش ہو گئے۔بات یہ تھی کہ میں گھر میں تنہا تھی۔ بچے اسکول کالج گئے ہوئے تھے اور جارج ڈیوٹی پر اورمیں ان آہٹوں سے خود کو دور رکھنے کی وجہ سے مقدس کتاب کی ورق گردانی کر رہی تھی کہ مجھے دو صفحات کے درمیان ایک چیک نظر آیا جو بالکل اجلا اورنیانیا تھا – چیک جارج کے نام تھا اور اس پرکسی ہنری کے دستحط تھے۔چیک پر تحریرشدہ رقم چار لاکھ کچھ ہزار کے برابر تھی جو ڈالروں میں مرقوم تھی ۔ اور اس پر لکھی ہوئی تاریخ اسی دن کی تھی جس دن میں نے اسے پایا تھا۔ دو تین باتوں نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، ایک تو یہ کہ مقدس کتاب ہیری ذاتی ریک میں رہتی تھی اورجارج کا اس کو ہاتھ لگا نا ممکنات میں سے نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ جیسے ہی میں نے اس چیک کو ہاتھ میں لے کرپڑھنا شروع کیا وہی پراسرار آواز پھرکا نوں میں آنے لگی لیکن ایک اضافے کے ساتھ۔ڈارلنگ ! اب بھی اس مکان کونہ چھوڑا توپچھتاو گی۔ یہ آواز سنتے ہی میرے جسم میں کپکپی چھاگئی اور میں نے جارج کو فون کر کے فورا گھر آنے کے لیے کہا۔ایک گھنٹے بعدجارج کو میں نے وہ چیک دیا اور ساری رویداد سنائی – جارج اب سنجیدہ ہوچکےتھے۔ آخرکارہم دونوں متعلقہ بینک پہنچے اور اس کے مینجر کو وہ چیک دیا تو وہ تھوڑی دیرتک سوچنے کے بعد وہ کہنے لگا۔یہ چیک جاری کرنے والا تو دس سال پہلے مرچکا ہے۔ مگراس کی ایک وصیت یہ تھی کہ جب بھی کوئی ایسا چیک جس پرنیچے مکان کی قیمت تحریر ہوتو بلا کسی حجت کے اسے بنادیا جائے اور یہ حقیقت تھی کہ اس چیک پر ایسے الفاظ تحریر تھے مینجرنے کیشیر کو بلاکراسے وہ چیک تھماتے ہوئے کہا کہ اس کی رقم مسٹرجارج کو ادا کردی جائے اور یہ کہہ کراس پرغشی کا عالم طاری ہوگیا۔ دوسرے دن جب ہم اس مکان کو خالی کررہے تھے۔توچیک کی یہ داستان اخبارات میں شائع ہوچکی تھی اوران میں حیرت و استعجاب کے ساتھ یہ تحریرتها کہ چیک تحریر کرنے والا دس سال بیشتر مرچکا تھااور اس کی موت اسی ہڈسن کے بنگلے میں واقع ہوئی تھی۔جوہم نے خرید لیا تھا اس کے ساتھ ساتھ ایک اور روح فرسابات یہ تھی کہ مکان کی خرید وفروخت رجسٹری اور دوسرے اخراجات پر جورقم جارج نے صرف کی تھی وہ من و عن إس چیک کے ذریعہ ہم کو ادا کی گئی رقم کے برابرتھی۔

مصنف :ہیلن اکلے

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here