پھولوں کی طلب میں تھوڑا سا آزار نہیں تو کچھ بھی نہیں
خود آ کے جو الجھے دامن سے وہ خار نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہو دن کی فضاؤں کا سرگم یا بھیگتی راتوں کا عالم
کتنا ہی سہانا ہو موسم دل دار نہیں تو کچھ بھی نہیں
کیوں اہل ستم کا دل توڑیں پھر شہر میں چل کر سر پھوڑیں
صحرائے جنوں کو اب چھوڑیں دیوار نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہر موج بلا اک ساحل ہے گرداب ہی اپنا حاصل ہے
یہ کشتئ دل وہ قاتل ہے منجھدار نہیں تو کچھ بھی نہیں
کیا میٹھے بول سناتے ہو کیا گیت انوکھے گاتے ہو
کیا نغموں پر اتراتے ہو جھنکار نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ نام و نمود کی خواہش کیا یہ علم و فن کی نمائش کیا
اپنا تو عقیدہ ہے یہ سحرؔ معیار نہیں تو کچھ بھی نہیں
شاعر:ابو محمد سحر