ہتک

0
279
Urdu Stories Drama
- Advertisement -

فیڈان۔۔۔ پیالی اور پرچ بجانے کی آواز آئے جو آہستہ آہستہ قریب آتی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ہوٹل کے چھوکرے کی سیٹی کی آواز بھی آئے جو کسی فلمی دُھن میں ہو۔۔۔ بمبئی میں ہوٹل کے چھوکرے جو ہوٹل سے باہر چائے وغیرہ لے کر جاتے ہیں ’’باہر والے‘‘ کہلاتے ہیں یہ عموماً چائے کی خالی پیالی اور پرچ آپس میں بجایا کرتے ہیں کہ بلڈنگ کے رہنے والوں کو ان کی موجودگی کا علم ہو جائے اور وہ آرڈر دے سکیں) 

سوگندھی: اے باہر والا۔ 

باہر والا: آیا۔۔۔ آیا۔۔۔ (چند سیکنڈوں کے بعد) کیا لاؤں سوگندھی۔ 

سوگندھی: دو چائے لا ایک میں پانی کم ایک میں پانی زیادتی۔۔۔ اور دیکھ دو پان‘ ایک چونا سا دہ ایک دیسی کا لاتمباکو۔ 

باہر والا: بس ۔۔۔ 

- Advertisement -

سوگندھی: بس۔۔۔ جلدی آ۔۔۔ (چٹکی بجاتی ہے) 

(باہر والا پیالی اور پرچ بجاتا چلا جاتا ہے چند لمحات تک یہ آواز آتی ہے) 

مادھو: کیا نام ہے تیرا؟ 

سوگندھی: (ادا کے ساتھ) سوگندھی 

مادھو: سوگندھی۔۔۔ اور تیری اس کھولی میں جوبُری بُری باس آتی ہے۔ چھی چھی چھی ۔۔۔کیسے رہتی ہو تم یہاں؟ 

سوگندھی: لے دونا کوئی اچھا سافلیٹ 

مادھو: پرتیر ا دھندا تو یہی رہے گا۔۔۔ اس کی بُری باس تو آتی ہی رہے گی۔ 

۔۔۔ سوگندھی تیر انام اتنا اچھا ہے تو آپ بھی اتنی اچھی ہے پر تو یہ کیا دھندا کر رہی ہے۔۔۔ کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟۔۔۔ 

سوگندھی: اٹھارہ روپے اور میرا بھاڑا ہے دس روپے جس میں سے ڈھائی دلالی کے چلے جاتے ہیں۔ 

مادھو: لاج نہیں آتی تجھے اپنا بھاؤ بتاتے۔۔۔ جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کر رہی ہے اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں۔۔۔ چھی چھی چھی تیرا بھاڑہ دس روپے۔۔۔ اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلّالی کے باقی رہے ساڑھے سات۔۔۔رہے نہ ساڑھے سات؟ 

سوگندھی: ہاں ساڑھے سات۔ 

مادھو: ان ساڑھے سات روپوں میں تو مجھے ایسی چیز دینے کا (وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور۔۔۔اور (بنتا ہے) اور میں ایسی چیز تجھ سے لینے آیا ہوں ‘ جو میں تجھ سے لے ہی نہیں سکتا۔ 

سوگندھی: پھر تو آیا کس لیئے ہے؟ 

مادھو: آیا کس لیئے ہوں۔۔۔ (توقف کے بعد جیسے جواب سوچ رہا ہے) یہ بات ہی سوچ کہ آیا کس لیئے ہوں۔۔۔ بات تو یہ ہے کہ تونے آج تک کبھی سوچا ہی نہیں ہے (مجھے تو کوئی عورت بھی لے چلے گی۔ پر کیا میں تجھے جچتا ہوں۔ کیا یہ سوچنے کی بات نہیں؟۔۔۔ سوگندھی تو بہت بھولی ہے۔ 

پگلی تیر امیرا ناطہ ہی کیا ہے کچھ بھی نہیں۔۔۔ بس یہ دس روپے ہیں جن میں سے ڈھائی دلاّل لے جائے گا اور باقی اِدھر اُدھربِکھر جائیں گے۔۔۔ یہ دس روپے ہیں جو تیرے اور میرے بیچ میں بچ رہے ہیں تیرا من کچھ اور سوچتا ہے اور میرا من کچھ اور۔۔۔ 

سوگندھی: یہ تو کھری بات کہی تو نے ۔۔۔ 

مادھو: کیوں نہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری۔۔۔ 

پگلی دنیا میں روپیہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔۔۔ پریم کے دو سچے بول اگر تجھ سے کوئی بول جائے تو دیکھ کیا ہوتا ہے۔ تیرے جیون کا سب اندھیرا دُور ہو جائے گا۔۔۔ کیابھاڑا ہے اس کھولی کا؟۔۔۔ 

سوگندھی: (ایک دم چونک کر جیسے خیالات کی دنیا میں کھو گئی تھی ک۔۔۔ک۔۔۔ کیا کہا؟۔۔۔ 

مادھو: میں کہتا ہوں یہ دھندا چھوڑ۔۔۔ پونے میں حوالدارہوں ایشور کا دیا بہت کچھ ہے۔۔۔ مہینے میں ایک بار آیا کروں گا تین چاردن کے لیئے۔۔۔یہ ۔۔۔ یہ تیری ناک کو کیا ہو گیا ہے۔ اتنی لال کیوں ہے؟ 

سوگندھی: لال ہے کیا؟ 

مادھو: تجھے کیا پتا ہی نہیں۔۔۔ سچ ہے تجھے بتانے والا کون ہے تیری ماں ہوتی ‘ تیرا باپ ہوتا۔ تیرا۔۔۔ کہیں زکام نہ ہو جائے۔ تجھے ٹھہر۔ میں تیرے لیئے دوا لاتا ہوں۔۔۔ کوئی ڈاکٹر ہے آ س پاس ۔۔۔ 

سوگندھی: تم چنتا نہ کرو مادھو‘ یہ کچھ بھی نہیں‘ اپنے آپ ٹھیک ہو جاؤں گی۔ 

مادھو: کیا کہا۔۔۔ (توقف کے بعد) ارے۔۔۔ یہ ننگی تصویریں تو نے اپنے سرہانے کیالٹکار رکھی ہیں۔۔۔ چھی چھی چھی۔۔۔ بھئی میرے ہوتے یہ بالکل یہاں نہیں رہیں گی (تصویریں پھاڑنے کی آواز) ۔۔۔ میں تجھے اور تصویریں لا دوں گا۔۔۔(توقف کے بعد) اور یہ گھڑا۔۔۔ کتنا میلا ہے ‘ کب کا پانی بھرا ہے اس میں ۔۔۔ اور یہ چیتھڑے۔۔۔ یہ چندیاں۔۔۔ کتنی بُری باس آتی ہے ان سے؟۔۔۔ اُٹھا کر باہر پھینک ان کو تیر اجی نہیں گھبراتا۔ 

سوگندھی: رہنے بھی دو۔۔۔ 

مادھو: ارے کیا رہنے دوں۔۔۔ سالا ہر جگہ کچرا پڑا ہے۔۔۔ تجھے گھن نہیں آتی۔۔۔ کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟۔۔۔ 

سوگندھی: اٹھارہ روپے ۔۔۔ 

مادھو: پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کر دُوں گا۔۔۔ (توقف کے بعد) کوئی نوکر نہیں تیرے پاس۔۔۔ تیری کنگھی بھی ٹوٹی ہوئی ہے جبھی تو تیرے بالوں کا ستیاناس ہو رہاہے۔ کتنا دُکھ ہوتا ہے مجھے۔۔۔ یہی گھر جس کا تو ۔۔۔ کیا بھاڑا دیتی ہے تو اس گھر کا؟۔۔۔ یہی گھر جس میں جگہ جگہ کچرا پڑا ہے بڑا سُندر ہو سکتا ہے۔۔۔ ہو کیا سکتا ہے اب ہو گا۔۔۔ لو دیکھتی رہ کیا ہوتا ہے۔ پونے میں حوالدار ہوں۔ مہینے میں ایک بار آیا کروں گا تین چار دن کے لیئے یہ دھندا چھوڑ اور عزت آبرو کے ساتھ رہ۔۔۔ اور یہ سالا کُتّا؟۔۔۔ 

(کُتّا بھونکتا ہے) 

سوگندھی: چپ رہ۔۔۔ دیکھتا نہیں اپنا آدمی ہے۔ 

مادھو: پھانسی دے سالے کو۔۔۔ کھجلا کھجلا کو سالے نے ایک بال نہیں رکھا لنگ پر۔۔۔ بیمار ہے۔ تجھے بھی بیمار کرے گا۔ 

سوگندھی: پڑا رہنے دو یہیں۔۔۔ اچھا ہو جائے گا۔ 

مادھو: اچھا کیا ہو گا۔۔۔ تو کہتی ہے تو رہے سالایہیں اور بھی تو کئی ہیں تیری روٹیاں توڑنے والے۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ تیرا دل بڑا ہی اچھا ہے تو کسی جنور کو بھی دکھ نہیں دے سکتی۔۔۔پر مجھے بڑا دُکھ ہوتا ہے۔ جب سوچتا ہوں کہ آج تک کسی نے بھی تیرے اس گُن کو نہیں پہچانا۔۔۔ سوگندھی(بڑے پیار کے ساتھ) ۔۔۔سوگندھی۔۔۔ 

(نوٹ۔۔۔ سچ تو یہ ہے۔۔۔ کے ساتھ ہی عقب میں بہت سوفٹ (مجھے اس کے لیئے اردو میں کوئی لفظ نہیں مل سکا۔ 

موسیقی شروع ہو) 

مادھو : (عشق آلود لہجے میں) کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟ 

سوگندھی: اٹھارہ روپے! 

مادھو: پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کر دوں گا میری جان۔۔۔ 

سوگندھی: مادھو! 

مادھو: میں اب جاتا ہوں۔ پھر آؤں گا میری جان۔۔۔ 

(نوٹ:۔۔۔سوفٹ موسیقی جاری رہے۔۔۔ چند لمحات کے بعد ہولے سے دروازہ بھیڑنے کی آواز آئے۔ خیال رہے کہ یہ آواز اونچی نہ ہو موسیقی پھر بھی جاری رہے۔۔۔ چند لمحات کے بعد سوگندھی کے ذیل کے الفاظ اس موسیقی کے پردے پر سپرامپوز کیئے جائیں) 

سوگندھی: ایسا لگتا ہے کہ میں اس حوالدار کو برسوں سے جانتی ہوں۔ آج تلک کسی نے مجھے بتایا نہ تھا کہ میرا بھی ایک گھر ہے جو سورگ بن سکتا ہے۔ 

(سورگ کہہ کر اس کے تیقن میں تھوڑی سی لغزش آجاتی ہے) سورگ (فوراً ہی اپنے آپ کو یقین دلا کر)۔۔۔ ہاں ہاں سورگ۔۔۔ باس مارنے والے چیتھڑوں اور چند ننگی تصویریں۔ پیلے گھڑے اور میرے اُلجھے ہوئے بالوں کا آج تلک کسی نے خیال کیا تھا۔۔۔ (اپنے آپ کو مخاطب کرکے) سوگندھی۔۔۔ تجھ سے کبھی کیا کسی نے یہ کہا تھا دیکھ تو آج تیری ناک کتنی لال ہو رہی ہے۔۔۔ ٹھہرمیں تیرے واسطے دوا لاتاہوں۔۔۔ مادھو ضرور مجھ سے پریم کرتا ہے۔۔۔ 

پریم۔۔۔پریم۔۔۔ 

(ایک دم دروازہ کھٹکتا ہے۔۔۔ سوگندھی کی ہمسائی (ویسی ہی جیسی خود سوگندھی ہے) اندر داخل ہوتی ہے) 

ہمسائی: پریم۔۔۔پریم۔۔۔پریم۔۔۔ سالاجو کوئی بھی آتا ہے۔ وہ یہی کہتا ہے ’’میں تجھ سے پریم کرتا ہوں۔۔۔ سب جانتی ہوں یہ پریم کیا بلا ہے؟ 

سوگندھی: ہمارے باوا کا کیا جاتا ہے۔۔۔ بولنے دو جھوٹ ان کو ہم کب ان سے سچ بولتی ہیں۔ یہ دھندا ہی ایسا ہے ان کو جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ ہم کو بھی جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔۔۔ پرکانتا اس جھوٹے جیون میں ۔ اگر کوئی سچا بول سُنائی دے تو کتنا آنند آتا ہے۔ 

ہمسائی: سچا بول بھی تو سچا بول نہیں ہوتا۔ 

سوگندھی: نہ ہو۔۔۔ پرتھوڑی دیر کے لیئے آنند تو آجاتا ہے۔۔۔ کاغذ کے پھول میں اگر باس ہو تو میں اُٹھا کر اسے اپنے جوڑے میں لگا لوں۔۔۔ جنہیں سچے گہنے پہننے کو نہیں ملتے وہ جھول چڑھے جھوٹے گہنوں ہی سے اپنا من پر چالیتی ہے۔۔۔کانتا دنیا میں اگر جھوٹی اور سچی چیزوں کے ساتھ ساتھ ایسی چیزیں نہ ہوتیں جو تھوڑی دیر کے لیئیسچی معلوم ہوتی ہیں تو یہ جیون بہت ہی کٹھن ہو جاتا ہے۔ 

ہمسائی: یہ تو آج کیسی باتیں کر رہی ہے؟ 

سوگندھی: کوئی چھیڑ گیا ہے میرے سُر کے تار۔۔۔ روم روم میں نیند سی رچ گئی ہے۔۔۔ آ۔۔۔میری گود میں آجا۔۔۔ تجھے لوری دے کر سُلاؤں۔۔۔ 

کانتا: مستک تو نہیں پھر گیا تیرا۔ 

سوگندھی: (اور زیادہ پیار کے ساتھ) ۔۔۔کانتا۔۔۔ آ۔۔۔ میری گود میں آجا میں تیرے کان کو ہولے ہولے تھپتھپاؤں گی۔۔۔ دھیرے دھیر ے لوری دُوں گی۔۔۔ تو بھی سو جائے گی اور میں بھی سو جاؤں گی۔۔۔ آ۔۔۔ 

لوری: 

صاف کٹوری سی آنکھیں چشمے گنگاجل کے 

کیوں دکھ دیتی ہے نندیا کو نین رسیلے مل کے 

سوجا۔۔۔سوجا 

سو جا میری ننھی ننھی بھولی بھالی کانتا 

نندیا نگری میں دیکھے گی سندر سپنے کل کے 

اب سوجا ۔۔۔سوجا 

وہ آکاش پہ کالی بدلی ڈول رہی ہے کب سے 

تارے چھم چھم ناچ رہے ہیں چاندا بھرا ہے جب سے 

سو جا۔۔۔ سوجا 

سوجا میری ننھی منی بھولی بھالی کانتا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نوٹ: لوری ختم ہو تو ساز تھوڑی دیر ہولے ہولے بجتے رہیں۔ پھر سو جائیں۔ 

دوسرا منظر 

(میونسپل کمیٹی کے داروغہ صفائی نے شراب پی رکھی ہے اپنے کام سے فارغ ہو چکا ہے اور گھر جانے کا ارادہ کر رہا ہے سوگندھی بھی نشے میں ہے مگر اس کی زبان میں لکنت نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے نشے کو لب ولہجہ سے ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرے داروغہ کی زبان میں لکنت ہو مگر پروڈیوسراس بات کا خاص خیال رکھے کہ وہ اس لکنت کو بقدر کفایت استعمال میں لائے۔ 

سوگندھی: سیٹھ بہت پلا دی تم نے۔۔۔ سردرد کے مارے پھٹا جا رہا ہے۔۔۔ داروغہ (ہنستا ہے) بام لگائی بام۔۔۔ میرے سر میں جب زیادہ پینے سے درد ہوا کرتا ہے تو میری بیوی مجھے بام ہی لگایا کرتی ہے۔۔۔ سارے ماتھے پر یہ تیز تیز باس والی چپڑ دیا کرتی ہے اور میں سو جایا کرتا ہوں۔۔۔ میری بیوی بڑی اچھی ہے سوگندھی۔۔۔ بڑی اچھی ہے۔۔۔ مجھے اس سے بہت محبت ہے۔۔۔ ہاں تو بام لگاؤ بام۔۔۔ بام ۔۔۔ سُنا بڑی اچھی ہے میری بیوی۔۔۔ یہ سالا کُتّا کیا کر رہا ہے تیرے پلنگ کے نیچے۔ 

(کُتّا بھونکتا ہے) 

سوگندھی: چُپ کر بے۔۔۔ میرے سر میں درد ہوتا ہے 

داروغہ: میں منسی پالٹی کا داروغہ ہوں۔۔۔ ایسا کُتّا گولی سے ماردینا چا ہیئے۔ گولی سے۔۔۔ میرے پاس دونالی بندوق ہے۔۔۔ کسی دن سالے کو ڈھیرکر دُوں گا۔۔۔ اچھا میں جاتا ہوں۔۔۔ میری بیوی میری راہ دیکھ رہی ہوگی۔ 

(اُٹھتا ہے اور لڑکھڑا کر گرنے لگتا ہے کرسی سے اس کی ٹکر لگتی ہے) 

(کُتّا بھونکتا ہے) 

داروغہ: (کتے کو ڈانٹتا ہے) اے۔۔۔ چپ۔۔۔ بام لگا بام۔۔۔ اور بام لگا کے سوجا۔۔۔ خبردار جوبھونکا۔۔۔ سوجا۔۔۔ (ہنستا ہے) میری بیوی بڑی اچھی ہے۔۔۔ جب ۔۔۔ جب میں زیادہ پی جایا کرتا ہوں تو میرے ماتھے پر بھی بام لگایا کرتی ہے۔۔۔ پر آج تو میں نے زیادہ نہیں پی۔۔۔ کیوں سوگندھی۔۔۔ کیا زیادہ پی ہے۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ سالاتیرا طوطا کیسا ہے۔۔۔(طوطے کو مخاطب کرکے) ارے۔۔۔ گردن کہاں ہے تیری۔۔۔(ہنستا ہے) سوگندھی یہ کیسے جانور پال رکھے ہیں تو نے۔۔۔ (ہنستا ہے) سالاکُتّاہے تو اس کے بدن پر ایک بال نہیں۔ سالا یہ طوطا ہے تو اس کے پر ہی نہیں۔۔۔ (ہنستا ہے) اس کی گردن کہاں ہے؟ 

سوگندھی: سو گیا ہے۔۔۔ آواز سے یہ معلوم ہو جیسے وہ اپنے آپ سے اور داروغے سے تنگ آگئی ہے اپنے آپ سے اس لیئے کہ اس کے سر میں درد ہے اور داروغے سے اس لیئے کہ وہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا)۔ 

دراوغہ: (ہنستا ہے دونوں سو رہے ہیں۔۔۔ ( کُتّے کو سیٹی بجا کر بُلاتا ہے)۔۔۔ سچ مچ سو گیا ہے۔۔۔ اچھا ۔۔۔ اچھا تو میں اب جاتا ہوں۔۔۔میں تیرے پاس اور ٹھہرتا سوگندھی پر مجھے اپنی بیوی کا خیال ہے۔۔۔ میرا انتظار کر رہی ہوگی۔۔۔ بام لگا بام اور سوجا۔۔۔ سوجا میری جان۔۔۔ 

سوگندھی: سو جاؤں گی سیٹھ۔ 

داروغہ: بام لگا بام۔۔۔ بڑی اچھی چیز ہے(بنتا ہے) ماتھے پر لگتی ہے تو ایسا معلوم ٹین کا پترا چڑھا دیا ہے کسی نے ۔۔۔ ٹین ٹھنڈا ہوتا ہے نا۔۔۔ (کتے سے) اے خبردار جواب بھونکا گولی سے اُڑا دُوں گا۔۔۔ میں کہیں زیادہ تو نہیں پی گیا۔۔۔ دونالی بندوق ہے میرے پاس۔۔۔ اس سالے طوطے کی گردن کہاں ہے۔۔۔ سوگندھی۔۔۔ سوگندھی۔۔۔ طوطے کی گردن کہاں ہے؟ 

سوگندھی: (نشے کی حالت میں ) گردن۔۔۔گردن۔۔۔ 

داروغہ: سالی گردن ہی غائب ہے۔۔۔ سوگندھی میں جاتا ہوں۔۔۔ بھئی مجھے دیر ہو رہی ہے میری بیوی انتظار کر رہی ہوگی۔ 

سوگندھی: اچھا 

داروغہ: سالی گردن ہی غائب ہے۔۔۔ کہاں گئی؟۔۔۔ اِدھر بھی نہیں۔۔۔ اُدھر بھی نہیں۔۔۔ حد ہو گئی ہے۔۔۔ سوگندھی تو بام مل بام۔۔۔ تیرا سر دُکھ رہا ہے۔۔۔ میری بیوی میرے ماتھے پر یہی دوا ملا کرتی ہے۔۔۔ روپے لے لیئے ہیں ناتو نے۔۔۔ سوگندھی۔۔۔سوگندھی۔۔۔ 

سوگندھی: (درد کی تکلیف کے ساتھ) کیا چیز ہے سیٹھ! 

داروغہ: روپے لے لیئے نا تو نے 

سوگندھی: روپے۔۔۔ روپے۔۔۔ ہاں لے لیئے۔۔۔ مجھے۔۔۔ 

مجھے نیند آرہی ہے۔ 

داروغہ: سوجا۔۔۔ بام مل اور سوجا۔۔۔ میں جاتا ہوں۔۔۔ میری بیوی میری راہ دیکھ رہی ہوگی۔۔۔ بڑی اچھی ہے۔۔۔ سالی گردن ہی غائب ہے۔۔۔ اے۔۔۔اے ۔۔۔اچھا میں جاتا ہوں۔۔۔تو سوجا۔۔۔ پردروازہ بند کر لیجیؤ اندر سے۔۔۔ 

سوگندھی: اچھا؟ 

داروغہ: دروازہ بند کر لیجیؤ اندر سے۔۔۔ ہیں؟ 

سوگندھی: اچھا! 

داروغہ: سالی گردن ہی غائب ہے۔۔۔ حد ہو گئی ہے(یہ کہتا ہوا وہ مائیکروفون سے دور ہوتا جاتا ہے۔ آخر میں دروازہ کھولنے کی آواز (دروازہ بند کر لیجیؤ اندر سے سوگندھی) دروازہ اندر سے بند کر دیا جاتا ہے) 

سوگندھی: (تھکے ہوئے لہجے میں) موا جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔۔۔ اور ۔۔۔ اور میرا سردرد کے مارے پھٹا جا رہا ہے۔۔۔ بام ۔۔۔ بام مل ہی لوں (شیشی پر سے ٹین کا ڈھکنا اُتارنے کی آواز)۔۔۔ ماتھے پر سچ مچ ٹین کا پترا جڑ دیا گیا ہے۔۔۔ دو بج گئے۔ (ہولے ہولے سو فٹ موسیقی شروع ہو تی ہے) اف ۔۔۔ ف۔۔۔ سر میں کتنا درد ہے۔۔۔ پر آنکھیں پھر بھی نیند سے بوجھل ہو رہی ہیں۔۔۔ 

(نوٹ: چند لمحات تک بیک گراؤنڈ میوزک جاری رہے) پھر ہولے ہولے تحلیل ہو جائے۔ اس کے بعد چندسیکنڈوں تک مکمل خاموشی طاری رہے۔ صرف سوگندھی کے غیر ہموار سانسوں کی آواز آئے۔۔۔ اس کے بعد بہت دُور سے دستک کی آوازسُنائی دے۔۔۔ وقفہ ۔۔۔ پھر دستک کی آواز آئے۔ اب کی دفعہ کچھ اونچی۔۔۔ سوگندھی خواب میں کچھ بڑبڑائے۔۔۔ اب کے دستک کی آواز ایک دم اونچی ہو جائے۔ سوگندھی دفعتاً ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھے۔ 

سوگندھی: کون ہے۔ (وقفہ) کوئی بھی نہیں۔۔۔ 

(دروازے پر دستک ہوتی ہے)۔ 

سوگندھی: (اپنے آپ سے ) کون ہے ۔۔۔ (اُٹھتی ہے قدموں کی چاپ ۔۔۔۔۔۔پھر دروازہ کھولنے کی آواز) ۔۔۔ کون رام لال۔ 

رام لال: (بھنچی بھنچی آواز میں) تجھے سانپ سُونگھ گیا یا کیا ہوا تھا۔ ایک کلاک سے باہر کھڑا دروازہ ٹھوک رہا ہوں۔ تو کہاں مر گئی تھی(آواز دبا دبا کر) اندر کوئی اور تو نہیں! 

سوگندھی: (نیم غنودگی اور نشے کی حالت میں) نہیں! 

رام لال: (آواز بلند کرکے) پھر تو نے دروازہ کیوں نہیں کھولا۔۔۔ بھئی یوں دھندا ہو چکا۔۔۔گھوڑے بیچ کے سو جاتی ہو۔ کوئی باہر کھڑا کھڑا سُوکھ جائے۔۔۔۔۔۔سالا۔۔۔ اب تو میرا منہ کیا دیکھتی ہے(دروازہ بھیڑنے کی آواز)جھٹ پٹ یہ دھوتی اُتار اور وہ اپنی پھولوں والی ساڑھی پہن ‘ پوڈرووڈر لگا اور میرے ساتھ چل با ہر موٹر میں ایک سیٹھ بیٹھے تیرا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ چل چل‘ ایک دم جلدی کر۔۔۔ 

سوگندھی: (بیمار آوازمیں) رام لال ‘ میرا جی اچھا نہیں! 

رام لال: بیڑی ہے کوئی تیرے پاس۔۔۔ (ایک دم چونک کر) کیا کہا۔۔۔جی اچھا نہیں‘۔۔۔ سالا جی اچھا نہیں تھا تو پہلے ہی کہہ دیا ہوتا۔۔۔ 

سوگندھی: وہ بات نہیں رام لال۔۔۔ ایسے ہی میرا جی اچھا نہیں۔۔۔بہت پی گئی۔۔۔ 

رام لال : عیش کرتی ہو عیش۔۔۔ تھوڑی بچی ہو تو لا ہم بھی اپنا گلا تر کر لیں۔ 

سوگندھی: بچائی ہوتی تو یہ موا سر میں درد ہی کیوں ہوتا۔۔۔ (التجا کے ساتھ) دیکھ رام لال وہ سیٹھ جوباہر موٹر میں بیٹھا ہے اسے یہیں لے آ۔ 

رام لال: بھئی واہ۔۔۔ جنٹلمین آدمی ہے۔ یہاں آنے سے گھبراتا ہے تو آدمی آدمی تو پہچان لیا کر بھئی واہ۔۔۔ 

سوگندھی: کہہ دے گھر میں نہیں ہے۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ 

رام لال: میں سب جانتا ہوں تو یہ نخرے کیوں کر رہی ہے۔۔۔ وہ سالا پونے کاحوالدار جب سے تیرے پاس آنے لگا ہے تیرا مزاج ہی بگڑ گیا ہے۔۔۔سات سال سے یہ دھندا کر رہا ہوں۔۔۔ تم چھو کر یوں کی ساری باتوں کی مجھے خبر رہتی ہے۔۔۔ سالی اپنا دھن برباد نہ کر۔۔۔ تیرے انگ کے کپڑے بھی اُتار کر لے جائے گا یہ تیرا پونے کا حوالدار۔۔۔ کیا دیتا ہے تجھے! سالا مفت میں عیش کر رہا ہے۔۔۔ 

سوگندھی: تو اس کی بات چھوڑ۔۔۔ میں چلتی ہوں تیرے ساتھ۔۔۔ 

رام لال : تجھے اس سالے نے منع کیا ہو تو مت جا۔ 

سوگندھی: مناہی کسی بات کی نہیں۔۔۔ مجھے کچھ روپوں کی ضرورت ہے۔۔۔ ساتھ والی مدراسن اپنے ملک میں جارہی ہے ۔ بیچاری کے پاس ایک دھیلا بھی نہیں۔ بہت دکھی ہے۔۔۔ اپنے خرچ کے لیئے تو میرے پاس روپے ہیں۔ پراس کے لیئے بھی تو کچھ کرنا ہے۔۔۔ چل۔۔۔ 

رام لال: یوں سرجھاڑ منہ پھاڑ ساتھ چل پڑے گی۔۔۔ ذرا منہ پر چھینٹا مار‘ پوڈر ووڈر لگا۔ اپنی وہ پھولوں والی ساڑھی پہن۔۔۔ 

سوگندھی: اچھا۔۔۔ 

(چند لمحات کا وقفہ۔۔۔ رام لال فلمی دھن میں سیٹی بجاتا ہے) 

رام لال: پہلے تین تصویریں تھیں اب چار ہو گئیں۔۔۔ یہ سالا ضرور وہ تیرا پونے کا حوالدار ہو گا۔۔۔ واہ رے میرے حوالدار ۔۔۔ ایسا لگتا ہے توپ کے منہ کے سامنے بیٹھا ہے(ہنستا ہے) چل جلدی اب ۔۔۔ یہ تو تیر ا منسی پالٹی کا داروغہ ہے۔۔۔ اور یہ وہ بیڑی والا سیٹھ۔۔۔ سالے نے آج تک ایک بیڑی نہیں پلائی۔۔۔ اور یہ۔۔۔ جلدی کر سوگندھی۔۔۔ ارے واہ۔۔۔ یہ پھولوں والی ساڑھی تجھ پر خوب پھبتی ہے۔۔۔ لوٹ پوٹ ہی ہو جائیں۔۔۔ ہمارے سیٹھ تجھے دیکھ کر۔۔۔ چل اب چل۔۔۔ 

سوگندھی: ٹھہر۔۔۔ میں ایک ڈونگا پانی کا پی لوں۔۔۔ پیاس لگتی ہے۔ 

(گھڑے میں ڈونگا ڈالنے اور پانی پینے کی آواز) 

سوگندھی: آگ سی لگ رہی ہے سینے میں 

رام لال: کمتی پیا کر۔۔۔ چل اب۔۔۔ 

سوگندھی: چل 

(دونوں چلتے ہیں۔۔۔ دروازہ کُھلنے کی آواز۔۔۔ پھر قدموں کی چاپ۔ قدموں کی چاپ چند لمحات آتی رہے اس پر ذیل کے مقالے کا کچھ حصہ سپرامپوز کیا جائے) 

سوگندھی: پچھلا پہر ہے رات کا۔ 

رام لال: کوئی پہر ہو اپنا کام ہے جانا۔۔۔ کیوں؟ 

سوگندھی: ٹھیک ہے۔ 

رام لال: وہ موٹر کھڑی ہے نکڑ پر۔ 

سوگندھی: میرا جی اچھا نہیں۔۔۔ ہوا میں برانڈی کی باس آرہی ہے۔ 

رام لال: موٹر کی سیر کرئے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ لے تو اب یہاں کھڑی ہو جا۔۔۔ میں بات کر لوں۔ 

(صرف رام لال کے قدموں کی چاپ) 

رام لال: سیٹھ آگئی۔۔۔ ایک دم اچھی چھو کری ہے‘ ہنسنے کھیلنے والی ‘ تنگ کرئے تو میرا ذمّہ ۔۔۔ بلاؤں۔۔۔ (ذرا آواز بلند کرکے) سوگندھی ادھر۔ آسیٹھ بُلاتے ہیں۔ 

(صرف سوگندھی کے قدموں کی چاپ) 

رام لال: بیٹری جلا کے دیکھ لو سیٹھ! 

(بیٹری جلانے کی آواز) 

سیٹھ: یہ چھوکری لایا ہے تو۔۔۔ (انتہائی نفرت کے ساتھ) اونہہ۔۔۔ ڈرائیور چلو۔۔۔ 

(ایک دم انجن سٹارٹ ہوتا ہے۔ موٹر ایک لمبا سانس لیتی ہے اور یہ جاوہ جا۔ چند لمحات تک موٹر کے چلنے کی آواز آتی رہے) 

سوگندھی: یہ کیا ہوا؟ 

رام لال: (ہولے سے) پسند نہیں کیا تجھے۔ 

سوگندھی: پسند نہیں کیا مجھے؟ 

رام لال: ہاں۔ 

سوگندھی: (ایک دم دوڑتی ہے۔ دیوانہ وارچِلاتی ہوئی) سیٹھ۔۔۔ اوسیٹھ۔۔۔ سیٹھ۔۔۔ ذرا موٹر روک اپنی ۔۔۔ موٹر روک اپنی ۔۔۔سیٹھ۔۔۔ (آواز میں التجاسی پیدا ہو جاتی ہے) سیٹھ۔۔۔ ذرا موٹر روک اپنی۔۔۔ 

رام لال: کیا ہو گیا تجھے سوگندھی! 

سوگندھی: (اپنے خیال میں)۔۔۔ چلا گیا۔۔۔ میرے منہ پر تھوک کر چلا گیا۔ مجھے پھٹکار کر دُھتکار کر چلا گیا۔ 

رام لال: میرا وقت بھی خراب کیا سالے نے۔ 

سوگندھی: (اپنے خیال میں) او نہہ ۔۔۔ یہ چھوکری لایا ہے تو۔۔۔ یہ چڑیل۔۔۔ یہ چھچھوندر۔۔۔ اونہہ۔۔۔ 

رام لال: چل۔ اب گھر چل۔ 

سوگندھی: اونہہ۔۔۔ دس روپے اور یہ چھوکری۔۔۔خیر کیا بُری ہے۔۔۔ 

رام لال: چل اب ہٹا اس قصے کو۔ 

سوگندھی: رام لال ایک بار تو اس سیٹھ کو پکڑ کر میرے سامنے لے آ۔۔۔ ایک بار پھر وہ بیٹری کی روشنی میرے منہ پر مارے اور اونہہ کرئے ۔۔۔ میں اس کا منہ نوچ لوں۔۔۔ اس کے سر کا ایک ایک بال اکھیڑ ڈالوں۔۔۔ ٹانگوں سے پکڑ کر موٹر کے باہر گھسیٹ لوں اور دھڑا دھڑ مکے مارنا شروع کر دُوں اور جب تھک جاؤں۔۔۔(ہانپنا شروع کر دیتی ہے) جب تھک جاؤں تو۔۔۔ تو رونے لگ جاؤں۔۔۔ 

رام لال: کیا ہو گیا تجھے! 

سوگندھی: (رونی آواز میں) یہ سچ ہے کہ میرا وہ پہلا سارنگ روپ نہیں رہا جب مجھے کوئی چنتا نہیں تھی اور میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی پر۔۔۔ پرمیری جوانی بالکل تو نہیں ڈھل گئی۔۔۔ میں ایسی بُری تو نہیں ہو گئی کہ لوگ میرے منہ پر تھوک دیں۔۔۔ 

رام لال: تجھے بُرا کس نے کہا ہے۔ 

سوگندھی: (غصے کے ساتھ) تیرے اس موٹروالے سیٹھ نے) ایک دم گالی دیتے دیتے رک جاتی ہے۔۔۔ جی چاہتا ہے ایسی گالی دُوں۔ ایسی گالی دُوں۔ پر گالی دینے سے کیا ہو گا۔۔۔ میرے سامنے ہو تو میں اس سے صرف ایک بات کہوں۔۔۔ کپڑے پھاڑ کر اس کے سامنے کھڑی ہو جاؤں ۔ اور کہوں۔۔۔ کیا کہوں کیا نہ کہوں۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ میرے سارے سر میں اس کی ‘‘اونہہ۔۔۔۔۔۔ نے ہلچل مچا دی ہے۔۔۔(توقف)۔۔۔ میں نے اس کا کیا بگاڑا تھا جو اس نے میرا اپمان کیا۔۔۔ 

(موٹر کا انجن پھڑ پھڑاتا ہے ایک لخطے کے لیئے) 

سوگندھی: موٹر آگئی۔۔۔ 

رام لال: یہ تو سامنے والی دوکان کابورڈ کھڑکا ہے۔ تیرے کان ‘ بج رہے ہیں۔ 

سوگندھی: (ہولے ہولے) میرے کان بج رہے ہیں۔۔۔ سچ مچ میرے کان بج رہے ہیں۔ مجھ میں کیا بُرائی ہے رام لال۔۔۔بتا۔۔۔ میں نے آج تک کسی بری شکل والے کو اپنے گھر سے دُھتکارا ہے؟۔۔۔ میرے بستر پر۔ میرے ہاتھوں پر۔۔۔ میرے منہ پر لوگ الٹیاں کرتے رہے ہیں۔۔۔ مجھے گھن آتی تھی۔ پر میں نے کبھی ان کو معلوم نہیں ہونے دیا۔ 

رام لال: بھئی میں چلا۔۔۔(قدموں کی چاپ) 

سوگندھی: موٹر ایک بار پھر آجائے۔۔۔ صرف ایک بار ۔۔۔ سیٹھ میرے منہ پر بیٹری کی روشنی مارے۔۔۔ مجھے دُھتکارے۔۔۔ پر تھوڑی ہی مہلت دے کہ میں اسے جواب تو دے سکوں۔ 

سوگندھی: (خود ہی بولے مگر بالکل دوسرے ہی لہجے میں ایسا معلوم ہو کہ اس کا ناطق وجود بول رہا ہے) ۔۔۔ کیا جواب دے گی تو۔۔۔ایک بار پھر آئے۔۔۔ ایک بارپھر آئے۔۔۔ یہ کیا رٹ لگا رکھی ہے تو نے۔۔۔ چل گھر چل۔۔۔ ٹھنڈے پانی کا ایک ڈونگاپی اور بام مل کے سوجا۔۔۔ سیٹھ اور اس کی موٹر کی ایسی تیسی۔۔۔ 

سوگندھی: (خود) سیٹھ اور اس کی موٹر کی ایسی تیسی۔۔۔ پر۔۔۔ پر 

(موٹر کا انجن پھڑپھڑاتا ہے) 

سوگندھی: یہ کیا۔ 

سوگندھی: (اس کا ناطق وجود) کچھ بھی نہیں۔۔۔ تیرے کان بج رہے ہیں۔۔۔ چل گھر چل۔ پگلی۔۔۔ کسی کے کہنے سے آدمی بُرا تھوڑی ہو جاتا ہے۔ 

سوگندھی: (خود) بات تو سچی ہے۔۔۔ کسی کے کہنے سے آدمی بُرا تھوڑی ہو جاتا ہے۔ 

سوگندھی: (ناطق وجود) ۔۔۔یاد رہے پچھلے کرسمس میں احمد آباد کا ایک لونڈا تیرے پاس آکے ٹھہراتھا۔۔۔ اس کا بٹوا کہیں گُم ہو گیا تھا۔۔۔ تو نے اس کے دس روپے واپس دے دئیے تھے۔۔۔ 

سوگندھی: (انتہائی بیچارگی کے ساتھ) اس سمے کوئی مجھ سے کہہ دے ’’سوگندھی۔۔۔۔۔۔تو تو بہت اچھی ہے۔‘‘ 

سوگندھی: (ناطق وجود) کسی کے کہنے نہ کہنے سے کچھ پتا نہیں ہوتا سوگندھی۔۔۔۔۔۔ توہے ہی اچھی۔۔۔۔۔۔چل اب گھر چل۔۔۔ 

سوگندھی: (خود) چل۔ اب گھر چل۔۔۔ 

(چند لمحات تک قدموں کی چاپ۔۔۔ دروازے کی کنڈی کھڑکھڑاتی ہے) 

سوگندھی: (حیرت سے) یہ تالا کس نے کھولا؟ 

(دروازہ کھولتی ہے) 

سوگندھی: ۔۔۔کون۔۔۔مادھو۔ 

مادھو: (ہنستا ہے)۔۔۔ آج تو نے میرا کہامان ہی لیا۔۔۔(فجر کی سیر تندرستی کے لیئے بڑی اچھی ہوتی ہے(ہنستا ہے) ہر روز اسی طرح سیر کو جایا کرئے تو تیری ساری سُستی یوں دُور ہو جائے‘ یوں (چٹکی بجاتا ہے) ۔۔۔وکٹوریہ گارڈن تک تو ہو آئی ہوگی تو۔۔۔ کیوں؟(ہنستا ہے) 

سوگندھی: میں آج تیری راہ ہی دیکھ رہی تھی۔ 

مادھو: (ہنستا ہے)۔۔۔ ہنستے ہنستے تھوڑا سا چونک کر) میری راہ دیکھ رہی تھی تو۔۔۔ تجھے معلوم تھا کہ میں آج آنے والا ہوں۔ 

سوگندھی: (مسکراکر) میں نے رات تجھے سپنے میں دیکھا تھا۔۔۔ اُٹھی تو کوئی بھی نہیں تھا۔ سوجی نے کہا چلو کہیں باہر گھوم آئیں۔۔۔ اور۔۔۔ 

مادھو: (کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ) اور میں آگیا۔۔۔ بھئی وہ کسی نے کہا ہے کہ دل کو دل سے راہ ہے ایک دم ٹھیک ہے۔۔۔ یہ سپنا تو نے کب دیکھا تھا۔ 

سوگندھی: چار بجے ہوں گے۔ 

مادھو: اور میں نے ۔۔۔ میں نے کتنے بجے دیکھا تھا۔۔۔ ہاں دو بجے۔۔۔ جیسے تو پھولوں والی ساڑھی۔۔۔ ارے بالکل یہی ساڑھی پہنے میرے بازو میں کھڑی ہے۔۔۔ تیرے ہاتھوں میں ۔۔۔ کیا تھا تیرے ہاتھوں میں۔۔۔ہاں تیرے ہاتھوں میں روپوں سے بھری ہوئی تھیلی ہے۔ 

سوگندھی: تھیلی؟ 

مادھو: ہاں تھیلی۔۔۔ تو نے یہ تھیلی میری جھولی میں رکھ دی اور کہا’’مادھو تو چنتا کیوں کرتا ہے۔۔۔ ارے لیتا کیوں نہیں تیرے میرے پیسے کوئی دو ہیں۔۔۔ یہ سُن کر سوگندھی تیری جان کی قسم‘ ایک دم ٹکٹ کٹا کے ادھر چلا آیا۔۔۔ کیا سناؤں۔ بڑا لفڑا ہو گیا ہے بیٹھے بٹھائے ایک کیس میں پھنس گیا ہوں۔ 

سوگندھی: کیس؟۔۔۔ (گھبراکر) جیل ویل کا توڈر نہیں۔ 

مادھو: بیس تیس روپے ہوں تو انسپکٹر کی مٹھی گرم کرکے چھٹکارا مل سکتا ہے۔۔۔ لیٹ جا آرام سے۔۔۔ تیرے پیر دبادوں ۔ سیر کی عادت نہ ہو تو تھکن ہو ہی جایا کرتی ہے۔۔۔ ادھر میری طرف پیر کرکے لیٹ جا۔ 

سوگندھی: تو مٹھی چاپی چھوڑما دھو۔۔۔ میرا تو دل دھک دھک کرنے لگا ہے۔ 

ساری بات سُنا مجھے بیس تیس کیا سو پچاس بھی خرچ ہو جائیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔ واپس کب جائے گا تو۔۔۔ 

مادھو: دوپہر کی گاڑی سے۔۔۔ زیادہ دینے کی ضرورت نہیں۔۔۔ پچاس میں کام چل جائے گا۔ 

سوگندھی: سولے جا۔۔۔ 

مادھو: سو؟ 

سوگندھی: ہاں ہاں۔۔۔ ادھر ہٹ مجھے اُٹھنے دے۔ 

(وقفہ) 

سوگندھی: پچاس کہے تھے ناتو نے۔ 

مادھو: (ہنستا ہے) تصویروں کے پیچھے چھپا کے رکھا ہے مال۔۔۔(ہنستا ہے) 

(سوگندھی کھل کھلا کے ہنستی ہے۔۔۔ تیز اور نوکیلی ہنسی) 

مادھو: (گھبراہٹ کے ساتھ) کس کا فوٹو دیکھ کر تو ہنستی ہے اس زور سے 

سوگندھی: اس کی ۔۔۔منسی پالٹی کے اس داروغہ کی۔۔۔ مادھوذرا تھوبڑا تو دیکھ اس کا ۔۔۔کہتا ہے ایک رانی مجھ پر عاشق ہو گئی تھی۔۔۔(انتہائی نفرت کے ساتھ) ۔۔۔ اونہہ۔۔۔(فریم کیل سمیت اکھاڑ لیتی ہے۔۔۔ پھر فرش پر دے مارتی ہے شیشہ ٹوٹنے کی آواز) رانی بھلگن کچرا اٹھانے آئیگی تو میرے اس راجہ کو بھی لے جائے گی اپنے ٹوکرے میں (میٹھی ہنسی) 

مادھو: کھسیانی ہنسی‘ ہی ہی ہی۔۔۔ 

سوگندھی: (دوسرا فریم کیل سمیت اکھاڑتی ہے) اس سالے کا یہاں کیا کام ہے۔ 

۔۔۔بھونڈی شکل کا کوئی آدمی یہاں نہیں رہے گا۔۔۔ کیوں مادھو؟(فریم زمین پر پٹک دیتی ہے) 

مادھو: کھسیانی ہنسی) ہی ہی ہی۔۔۔ 

سوگندھی: اور یہ گھن چکر۔۔۔ اور۔۔۔ 

مادھو: (کھسیانی ہنسی) ۔۔۔ میرافوٹو۔ 

سوگندھی: (ایک فریم اکھیڑتی ہے پھر دوسرا) 

مادھو: ہائیں! 

(سوگندھی دونوں فریم فرش پردے مارتی ہے) 

مادھو : ہنسنے کی کوشش کرتا ہے) اچھا کیا۔۔۔ مجھے یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔ 

(ہنسنے کی کوشش کرتا ہے) 

سوگندھی: (بالکل بدلے ہوئے لہجہ میں) تجھے اپنا فوٹو پسند نہیں تھا۔۔۔ یہ اپنی صورت تو بہت پسند ہوگی 

(مادھو ہنسنے کی کوشش کرتا ہے) 

سوگندھی: یہ تیری پکوڑا ایسی ناک۔۔۔ یہ تیرا بالوں بھراما تھا۔۔۔ تیرے سوجے ہوئے نتھنے۔۔۔ یہ تیرے مڑے ہوئے کان۔۔۔ یہ تیرے منہ کی باس یہ انگ کامیل۔۔۔ بڑا سندر جوان ہے ناتو۔۔۔ پونے میں حوالدار ہے۔۔۔ مہینے میں دو تین دن میرے ہاں آتا ہے۔۔۔ 

مادھو: (جھڑک کر) سوگندھی۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تو نے پھراپنا دھندا شروع کر دیا ہے۔۔۔ دیکھ اب کے تجھ سے آخری بار کہتا ہوں۔۔۔ مان جا میرا کہنا نہیں تو پچھتائے گی۔۔۔ عزت آبرو کے ساتھ رہ۔۔۔ اس مہینے کا خرچ پونا پہنچتے ہی تجھے منی آرڈر کر دوں گا۔۔۔ کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟ 

سوگندھی: اٹھارہ روپے بھاڑا ہے اس کھولی کا اور دس روپے بھاڑا ہے میرا(مادھو کے انداز میں)۔۔۔ اور جیسا تجھے معلوم ہے ڈھائی روپے دلال کے باقی رہے ساڑھے سات۔۔۔ رہے نا ساڑھے سات۔۔۔ پگلے تیرا میرا نا طہ ہی کیا ہے‘ کچھ بھی نہیں۔۔۔ بس یہ دس روپے ہیں جو تیرے اور میرے بیچ میں بچ رہے ہیں۔۔۔ آدونوں مل کر کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری۔۔۔ کیا بھاڑا ہے یہاں سے پونے کا ۔۔۔ یہ تیری ناک اتنی لال کیوں ہو رہی ہے اور یہ تو نے اپنے بالوں کا کیا ستیاناس کر رکھا ہے۔ 

مادھو: سوگندھی۔ میری ٹوپی۔۔۔ 

سوگندھی: تو ٹوپی کہتا ہے اسے ۔۔۔ یہ تو چیتھڑا ہے۔۔۔ کتنی باس مارتا ہے۔ اٹھا کے باہر پھینک اس کو۔۔۔ 

(ٹوپی گرنے کی آواز) 

مادھو: سوگندھی۔۔۔ 

سوگندھی: کیا بھاڑا ہے یہاں سے پونے کا۔۔۔ ایشور کا دیابہت کچھ ہے پونے میں حوالداری چھوڑ۔۔۔ کیا تجھے یہ دھندا کرتے لاج نہیں آتی۔۔۔۔۔۔یہاں میرے یہاں عزت آبرو کے ساتھ رہ۔۔۔ کیا بھاڑا ہے یہاں سے پونے کا؟ 

مادھو: سوگندھی۔ 

سوگندھی: سوگندھی کے بچے تو آیا کس لیئے ہے یہاں۔۔۔ ماں رہتی ہے تیری اس کھولی میں جو تجھے پچاس روپے چپکے سے دے دے گی یا تو کوئی ایسا گھبروجوان ہے جو میں تجھ پر عاشق ہو گئی ہوں۔ کمینے کُتّے مجھ پر رعب گانٹھتا ہے۔۔۔بھِک منگے تو اپنے آپ کو سمجھ کیا بیٹھا ہے۔۔۔ چو راُچکے۔۔۔ لفنگے۔۔۔ شہدے۔۔۔ بدمعاش۔۔۔ 

مادھو: (دب کر) سوگندھی۔ کیا ہو گیا ہے تجھے؟ 

سوگندھی: تیری ماں کا سر۔۔۔ اُلو کے پٹھے تو ہوتا کون ہے مجھ سے یہ پوچھنے والا۔ نکل یہاں سے۔۔۔ دُور ہو جا میری نظروں سے۔۔۔ 

( کُتّا بھونکنا شروع کرتا ہے) 

مادھو: م ۔۔۔ م۔۔۔ میری ٹوپی۔ 

سوگندھی: پڑی رہنے دے یہیں ۔ خبردار جو تو نے اُٹھائی۔۔۔ تو پونا پہنچ میں اسے منی آرڈر کر دُوں گی (ہنسنا شروع کر تی ہے۔۔۔ بے تحاشا۔۔۔ کتا اس ہنسی کا ساتھ دیتا ہے اور زور زور سے بھونکتا ہے۔۔۔ چند لمحات کے بعد بھونکتا بھونکتا وہ ما ئیکروفون سے دُور ہو جاتا ہے۔ جیسے وہ مادھو کے پیچھے پیچھے باہر چلا گیا ہے۔ سوگندھی کی تھکی ہوئی ہنسی کی آواز آتی ہے جو فوراً ہی سسکیوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ سوگندھی پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتی ہے۔ 

سوگندھی: (سبکیو ں کے ساتھ اپنے کُتّے کو پچکارتی ہے) پچ پچ پچ ۔۔۔ موتی۔۔۔ آ میرے جانی آجا۔۔۔ آجا۔۔۔آسو جائیں۔۔۔(لوری کا میوزک شروع ہوتا ہے۔۔۔ سوگندھی کُتّے کو لوری دیتی ہے۔۔۔ لفظ ادا نہیں کرتی صرف ہوں ہوں کرکے لوری کا انترہ اور استھائی گاتی ہے۔۔۔ 

(آہستہ آہستہ فیڈ آؤٹ) 

مأخذ : کتاب : منٹو کے ڈرامے اشاعت : 1942

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here