جون پوتیا نے پچاسوں بار فرشتہ اجل کو دھوکہ دے کر دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ موت کے خلاف میری جدو جہد، میں اس نے پانچ درجن ایسے لرزہ خیز حادثات کا تذکرہ کیا جن سے دوچار ہونے والا فولادی ٹینک بھی تہس نہیس ہوجاتا ، لیکن جون پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا، ہر بار وہ موت کے چنگل میں آنے کے بعد صاف صاف بچ نکلا، اس کی آپ بیتی کے مطالعہ سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طلسماتی انسان ہے یا کوئی ایسا انسان جو کوئی عظیم کرشمہ ساز ہو ۔عنفوان شباب میں جون پوتیا بلڈوزرچلانے پر مامورتھا یہی اس کا ذریعہ معاش تھا ، اور اسی بلڈ وزر چلانے کے دوران وہ اپنی زندگی میں پہلی با موت کے ایک ایسے حملے سے دو چار ہو کر بچ نکلا جسے معجزہ ہی قراردیا جا سکتا ہے، وہ میکسیکو کے ایک بڑے کاشت کار کا بیٹا تھا ، پتھریلی زمینوں سے چٹانوں کو پاش پاش کر کے نئی زمین بنایا کرتا تھا، ایک بار بلڈوزر چلتے ہوئے وہ ایک چٹانی علاقے سے گزر رہا تھاکہ ڈائنامیٹ کی ایک سلائی اس کے بلڈوزر کے نیچے آگئی دفعتا اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے اٹھاکہ آسمان کی میں طرف پھینک دیا، اور جب وہ زمین پر گرا تو اس کی ایک ٹانگ بے کار ہوچکی تھی، ڈائنامیٹ کی یہ سلائی اتنی طاقتور تھی کہ اس کے فولادی بلڈوزرا کو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کی شکل میں بدل کر رکھ دیا، فولا دی بلڈوزر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا، لیکن جون پوتیا سوائے ایک ٹانگ کھونے کے صحیح سلامت تها۔پینتالیس سال کی عمرکے جون پوتیا نے اپنے بارے میں چند انکشافات کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔میں تو ہم پرست ہوں ، میرے خیال میں موت کا بھیانک دیوتا میرا تعاقب کر رہا ہے ، اسی لئے میں نے اپنی مہمانتی زندگی پرکچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر موت مجھ پر حملہ آور ہوتی ہے تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، مجھے زندگی میں جدوجہد اور عمل سے جولگن تھی جو پیار تھا وہ اب خواب و خیال بن چکا ہے، فرشتہ اجل اب مجھے بسترراحت پرہی دبوچ سکتا ہے۔
لیکن جون پوتیا نے بستر پر بھی سکون اور اطمینان سے زندگی گزارنے کی بجائے بے پناہ جدوجہد وعمل کے مظاہرے کئے کئی بیویوں سے اس نے دو درجن نفوس کا اس دنیا کی برادری میں اضافہ کر دیا۔دس مرتبہ اسے بڑے موذی اور زہریلے سانپوں نے کا ٹا پہلی بار اس کا جسم ورم آلود ہوگیا تین ماہ ہسپتال میں گزارنے کے بعد جب وہ صحت یاب ہو کر جنگوں میں گھومنے نکلا اور دوسری بار ایک کو ڑیلے سانپ کا شکار ہوا، تو اسے ایسا محسوس ہوا گویا ایک بوتل شراب کا نشہ اس کے سر پر سوار ہے ، اسے نہ ہسپتال جانے کی ضرورت محسوس ہوئی نہ اس نے کسی بھی ڈاکٹر سے علاج کے لئے رجوع کیا ، پھر سانپوں کے زہر کا جیسے عادی ہوگیا۔ ۱۹۵۰ء میں بلڈوزر کا حادثہ اس کی ایک ٹانگ کولے بیٹھا تو اس کے مالک نے اسے ایک مصنوعی ٹانگ لگوادی بلڈوزر چلانا اس کے بس کی بات نہ رہی تو اس نے کارنارعلاقے کی پولیس میں نوکری کرلی ۔ یہاں بیرونی دنیا سے بڑے بڑے سیاح میکسیکو کے جنگلی علاقوں خصوصا آبشاروں کو دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعدادمیں آتے رہتے ہیں، ان بیرونی ممالک سے آنے والوں کے ذریعہ میکسیکو کے خزانے میں سیم وزر کا بیش بہا اضافہ ہوتا رہتا ہے، لیکن جنگلی علاقوں میں جرائم پیشہ لوگوں کی وارداتوں کا شکار ہو کر بعض سیاح پیسے پیسے کو محتاج ہوگئے ، ان کی حفاظت اور نگرانی کا ذمہ جان پوتیا نے کچھ اس طرح لیا جیسے وہ سرکاری پولیس کا ملازم نہیں بلکہ ٹھیکیدار تھا اپنی ایک مصنوعی ٹانگ کے باوجود وہ پہاڑی نالوں اور جنگلی دلدلوں میں مارا مارا پھرتا تھا، اور یہاں اسے کئی بارلٹیروں اور چوروں کی بندوقوں اور رائفلوں کی گولیوں کا تن تنہا مقابلہ کرنا پڑا، کسی فلیا ہیرو کی طرح اس نے ہر باران حملہ آوروں کے میگزین خالی کرا دیئے۔ اور انہیں قانون کے حوالے کر دیا ۔ گولیوں کی بوچھاروں سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی بارا سے ضربیں پہونچیں، لیکن یہ سب اتنی معمولی تھیں کہ ان کی مرہم پٹی وہ خود ہی کر لیتا تھا ۔
ایک روز وہ ایک ایسے جنگل میں گھوم رہا تھا جوگنجان ہونے کی وجہ سے دن میں ہی رات کا منظر پیش کرتا تھا۔ دور دور سے اسے ایک فائر کی آواز سنائی دی ،جس کی تفتیش کے لیے وہ فائر کی آواز کی سمت دوڑا، لیکن ایسی گھاٹی میں جا پڑا جو تین سو فٹ گہری تھی ، جو کچھ اس پربیتی وہ خود اس کے الفاظ میں سنئے۔‘‘اس گھاٹی میں پانی اورمٹی کے کیچڑ میں کچھ اس طرح گرا گویا میں نے کسی نرم بسترپرچھلانگ لگائی ہو اور میرےجسم پر کوئی چوٹ نہیں آئی لیکن میں کمرتک دلدل میں پھنس گیا، دلدل سے نکلنے کی پر کوشش مجھے کچھ اورہی اندردھکیل دیتی حتی کہ میراسارا جسم اس دلدل میں دفن ہو گیا،صرف گردن ہی زمین دوز ہونے سے بچ گئی، اب میں نے جسم کو حرکت دینے کی بجائے چیخنا چلانا شروع کر دیا، تقریبا بارہ گھٹے تک میں اسی حالت ہیں آہ و بکا کرتا رہا۔ مجھے ڈریہ بھی لاحق تھاکہ اگر موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تو میرا زنده بچ نکلنا نا ممکن نہیں موت میرے سامنے کھڑی تھی اور میں ہتھیار ڈال چکا تھا۔ لیکن میں چیخ چیخ کر امداد طلب کرتا رہا تھا بس یہی میری جدوجہد کا آخری سہارا تھا۔ آخر کار بارہ گھنٹےاسی عدب و اضطراب میں گزرنے کے بعد میری چیخیں کچھ بجلی لگانے والے مز دوروں کے کانوں تک پہونچیں جنہوں نے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی لگا تارمحنت و مشقت کے بعد ایک کرین کی مدد سے مجھے اس موت کے گڑھے سے نکال لیا جہان موت مجھے زندہ دفن کرنے آئی تھی لیکن اپنی مہم میں سرخ روئی حاصل نہ کرسکی۔اس مہیب اور خوفناک گڑھے سے نکلنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرا جوڑجوڑ ٹوٹ چکا ہے۔ نمونیہ کا شکار ہو کر میں اس قید سے نجات پا کر اسپتال میں چھ ماہ تک پڑارہا۔ ۱۹۵۰ء سے ۔ ۱۹۴۰ء کے دس برس کے دوران مجھ پرتقریبا دودرجن ایسے واقعات اور حادثات گزرے جن سے جان بر ہونا شاید میرے علاوہ کسی اور انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ جابر اور ظالم انسانوں کی رائفلوں سے نکلی ہوئی گولیاں میرے جسم کو چھوتی ہوئی کئی بار نکل گئیں، حیوانات میں سانپوں چھپکلیوں اور گرگٹوں نے مجھے کاٹا، ایک بار ایک شیر نے مجھ پر حملہ کرنے کے لئے جست لگائی لیکن وہ مجھ پر ٹوٹ پڑنے کی بجائے کچھ دور گرا، میں نے اپنی بندوق سنبھالی اور ایک درخت پرچڑھ کر جان بچائی۔
میکسیکوکی پولیس غیر ممالک سے آنے والے سیاحوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش میں مصروف تھی ۔اسی ایک کوشش کے دوران مجھے اس ہوائی جہاز میں بیٹھنا پڑا جو فضا سے ان ڈاکووں اور لٹیروں کے ٹھکانوں کی تصویریں لے رہا تھا، اتفاقا اس جہاز کے پیٹرول ٹینک میں آگ لگ گئی ہوا بازوں نے جب نجات کا کوئی دوسرا راستہ نہ دیکھا تو انہوں نے جہاز سے پیرا شوٹ کے ذریعے جھلانگ لگانے کا فیصلہ کیا کل ملا کر ہم چھ آدمی تھے ، سب کے سب پیراشوٹ کے ذریعے جہاز سے کوڈ پڑے اور ہوائی جہاز فضاوں میں کسی آتش بازی کے گولے کی طرح جل کر زمین پر آ رہا۔ میرے علاوہ تمام ساتھی آرام سے زمین پر اتر آئے، لیکن میرا پیڑا شوٹ ہوا میں کھل نہ سکا اور میں بے سہارازمین پر آگرا، اس حادثے نے میری دوسری ٹانگ کو قضا کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا لیکن اس ٹانگ کے نقصان کے باوجود میرے سبھی ساتھی اس پر متحیر تھے کہ میں کس طرح اور کیوں کر زندہ بچ گیا۔حاد ثے آخر حادثے ہی ہوتے ہیں، ان سے دو چار ہو کر فنا ہو جانا اور موت کے منہ سے صاف بچ نکلنا ہی ممکنہ نتائج ہوتے ہیں لیکن پے در پے ساٹھ بلکہ ستر حادثات میں اگرچہ سب کے سب رونگٹے کھڑے کردینے والے اور خوفناک تھے لیکن ان حادثوں سے جن کا ذکر میں کرنا چاہتا ہوں کس طرح بچ نکلا،یہ میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔۱۹۶۵ میں موسم گرما کے دوران جب سان انیٹن آبشار کے گرد ہزاروں سیاح جمع تھے پولیس نے ایک پتھریلے علاقے میں دو کاروں کا تعاقب کیا، ان دو کاروں میں سے ایک لٹیروں کی کار تھی اوردوسری امریکہ کے ایک کھرب پتی یہودی کی لا سیل تھی جس کا لٹیرے تعاقب کر رہے تھے۔ میں بھی اسی علاقے کا گشت کر رہا تھا، اب یہ کام میرے لئے وقت طلب ہو چکا تھا، میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں رہا تھا جو کسی نہ کسی حادثے کاشکار ہونے سے بچ نکلا ہو اور میری دونوں ٹانگیں میری ہی زندگی میں زمین میں دفن کردی گئی تھیں ، لکڑی کی ٹانگوں سے سارے جسم کا بوجھ سنبھال کر چشتی اور تیزی سے اپنے کارہائے منصبی کا انجام دینا بظاہر ناممکن تھا، لیکن میکسیکو پولیس کے چیف میرے کارناموں سے سے اتنے متاثر تھے کہ انہوں نے پنشن پر سبکدوش نہیں کیا رات بھیگ چکی تھی، چاند پورے شباب پر تھا، جگہ جگہ چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ لیکن دور ویہ اونچے اور سربلند اشادرنے کہیں کہیں تاریکی پھیلا دی تھی ، آخرکار ایک سہ راہے پر جہاں میں کھڑا تھا یتنوں کاریں اس طرح ٹکرا گئیں کہ ان کے درمیان ایک تکون مثلث بن گیا۔ صرف اتنی گنجائش باقی تھی جس پر میں کھڑا تھا۔ تینوں کاریں اور ان کے انجن ایک دوسرے سے میں گتھ گئے اور درمیان میں کسی کرشمہ ساز کی طرح میں کھڑا رہ گیا کہ میراکوئی بال بھی بیکا نہیں ہو سکا میں کیسے بچ گیا، مجھے معلوم نہیں۔
اسی آبشار میں جوسان انین میں واقع تھا، ایک سیاح نہانے بناتے ڈوب گیا ، اسے ڈوبے ہوئے دو گھنٹے ہو چکے تھے، اس لئے اس کے زندہ رہنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا، نہ ایسے حادثات میں مداخلت میرے فرائض منصبی میں داخل تھی ، اس کے باوجود جب مجھے لوگوں نے ڈوہنے والے شخص کے بارے میں رپورٹ دیتے ہوئے اس جگہ کی نشاند ہی کی جہاں وہ ڈوبا تھا میں عقل وخرو اور ہوش و حواس کھوبیٹھا اور نہ جانے کس طرح میں اس کی لاش کو نکالنے کے لئے ندی میں کود پڑا تیرتے ہوئے اس جگہ پہونچنے کی کوشش میں مجھے سخت ترین وقتوں کا سامنا کرنا پڑا، پانی روز کے ساتھ آبشار کےذریعے بہہ رہا تھا۔ میں بھی پانی کے تیز بہاو کی زومیں آکرآبشارکے پانی کے ساتھ نیچے بہتا چلا گیا، آبشار کے اوپراور نیچے سینکڑوں تماشائی کھڑے تھے، اور میری درد ناک موت کے منتظرتھے۔ یہ لوگ صرف سرد آہیں بھرنے اور رنج وغم کا اظہار کرنے کے علاوہ کربھی کیا سکتے تھے، نہ ان میں سے کسی نے میری زندگی کی دعائیں مانگیں،نہ خود میں نے دعا مانگنے کی کوشش کی، ایک فرلانگ کی بلندی سے ایک آبشار کی تیز دھاروں کےساتھ پتھریلی اور سنگلاخ چٹانوں پر گر کر کوئی فولادی مشین بھی تباہ و برباد ہونے سے نہیں بچ سکتی ، تو پھر گوشت پوست کے انسان کی کیا اہمیت ہو سکتی تھی۔ موت کے چنگل میں میں آکرمیں نے توبہ اور استغفارکو ہی مناسب سمجھا، دعا کا ایک لفظ بھی میرے ذہن میں نہیں آیا، لیکن میں پانی کی ایک تیزدھار کے ساتھ اس گہرے گڑھے میں جا پڑا جوآبشارکی دھاروں نے اپنی قوت سے کھود لیا تھا، اس گڑھے میں پہونچنے کے بعد میں نے نلی سے اوپر آنے کی دو تین بارکوشش کی لیکن ہربار کسی نہ کسی پانی کے تیز ریلے نے مجھے پانی کی تہ میں پہونچا دیا ، میرے اوسان ابھی تک قائم تھے ، لیکن ہاتھ شل ہو چکے تھے تیرنے کی قوت سلب ہوچکی تھی، ایک منٹ کی جدوجہد کے بعد میں کس طرح سطح آب پر آگیا یہ شاید فرشتہ حیات کو ہی معلوم ہو گا آج بھی ان دونوں واقعات کی یاد آ جاتی ہے تو بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔