میں ۳۰ نومبر۱۸۳۵ء کو میسوری کے ایک گم نام گاوں فلوریڈا میں پیدا ہوا، ہمارا گاؤں سونفوس پر مشتمل تھا اورمیں نےاس کی آبادی میں ایک فی صد اضافہ کر دیا تھا، مجھے یقین ہے کہ مشاہیر عالم میں سے کسی نے بھی یہ کارنامہ ا نجام نہ دیا ہوگا، میرے خیال کے مطابق شکسپیئر بھی اپنے گاوں کے لئے اتنااہم نہیں تھا جتنا اہم میں ثابت ہوا۔میرا چچا جان اے کورنر بھی کسان تھا، وہ ہمارے گاوں سے چار میل دور رہتا تھا ، اس کے آٹھ بچے اور بارہ نیگرو غلام تھے ، وہ خوش رہنے والا انسان تھا۔ میں سال میں دوماد سے تین ماہ تک اس کے پاس رہتا تھا۔مہمان نوازی کا لطف میں چار سال سے بارہ سال کی عمر تک باقاعدگی سے اٹھاتا رہا۔ ان ایام کا ایک واقعہ مجھے اچھی طرح یادہے۔ان دنوں ہمارے پاس ایک غلام ہوتا تھا۔ اس کا نام سینڈی تھا، سینڈی ایک ہنس مکھ اور خوش باش لڑکا تھا وہ سارا دن ہنستا اور گاتا رہتا تھا، اس کے ہروقت گانے سے مجھے بہت کوفت ہوتی تھی، ایک دن میرا پیمانہ صبرلبریز ہوگیا اور میں والدہ محترمہ کے پاس گیا اور انہیں سینڈی کو خاموش کرانے کے لئے کیا ، وہ ایک گھنٹہ سے شور مچا رہا تھا میری بات سن کر والدہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے، انکے ہونٹ کپکیا ئے اور پھر بولیں: اسے گانے دو، اپنے والدین کا غم بھولنے کی خاطر گانا اس کے لئے بہت ضروری ہے۔کونٹی اسکول میرے چچا کے گھر سے تین میل کے فاصلے پرتھا۔اس میں تقریبا پچیس لڑکے اور لڑکیاں پڑھتی تھیں ، سب سے پہلے جب میں اسکول گیا تو میری عمر تقریبا سات سال تھی، ایک پندرہ سالہ لڑکی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں تمباکو استعمال کرتا ہوں ، میرے نفی میں جواب دینے پر اس کوحیرت ہوئی اور وہ دوسرے لڑکوں اور لڑکیوں کو بتانے لگی کہ یہ لڑکاسات سال کا ہونیکے باوجود تمباکو نہیں استعمال کرنا۔ مجھے اس لڑکی کی باتوں سے بہت شرم محسوس ہوئی اور بعدمیں میں نے تمباکو کو استعمال کرنے کی کوشش کی مگر اس نتیجہ میری بیماری کی صورت میں ظاہر ہوا۔۱۸۴۹ءمیں میری اور چودہ سال تھی اور ہم اس مکان میں رہتے تھے، جو پانچ سال پہلے ہمارے والد صاحب نے بنوایا تھا، اس مکان کے دوحصے تھے ایک نیا اور دوسرا پرانا ، دونوں حصوں میں ہماری رہائش تھی۔موسم خزاں میں میری بہن نے اپنے دوستوں کو مدعو کیا ، میری اس دعوت میں شمولیت صرف دس منٹ کی تھی اور وہ ایک کھیل میں تھی ۔جس میں مجھے ایک ریچھ کا کردارادا کرنا تھا، ساڑھے دس بجے مجھ سے کہا گیا کہ آدھے گھنٹے میں تیار ہو جاو، مگر میرے ارادے بدل چکے تھے ، میں نے بیڑکی بوتل لی اورایک غلام لڑکے سینڈی کو لے کر دوسری منزل کی طرف روانہ ہوگیا، دراصل میں ورزش کرنا چاہتا تھا ، اور میرے چھوٹے سے کمرے میں یہ ممکن نہیں تھا، میں نے ایک کمرے کا انتخاب کیا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ڈرامے میں حصہ لینے والی لڑکیاں میک اپ وغیرہ کرنے کے لئے اس کمرے میں آرہی ہیں ، جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دو لڑکیاں ایک پردے کے پیچھے ہو گئیں ان کے گاون کھونٹی پر ٹنگے ہوئے تھے، نہ میں نے ان پر کوئی توجہ دی اور سینڈی نے سینڈی نے دروازہ بند کر دیا روشندان سے چاندنی اندر آرہی تھی ، میں نے کپڑے اتارے اور مالش کرنے کے بعد بئیر پی کر ورزش شروع کر دی، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ پردے کے پیچھے دولڑکیاں کھڑی ہیں تو میں شرم سے مر جاتا مگر اس وقت میں جوش کے عالم میں تھا، بئیربھی اپنا کام دکھا رہی تھی، میں قلابازیاں کھارہا تھا ، اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہا تھا کبھی رقص کرتا کبھی سر کے بل کھڑا ہوتا۔ میں وہ تمام حرکتیں کر رہا تھا جو کوئی بھی شریف آدمی بئیر پینے کے بعد کر سکتا ہے ، بلکہ وہ حرکتیں بھی جو بئیربھی نہیں کراسکتی تھی آخر کارمیں سر کے بل کھڑا ہوگیا اور آرام کرنے لگا اور سینڈی مجھ سے باتیں کرے لگا ، میں ان کے مضحکہ خیز جواب دینے لگا۔
کچھ دیر بعد پردے کے پیچھے سے آوازیں سنائی دیں اور پھر میرا جوش ایک دم ختم ہوگیا اور میں بے جان ساہوکر پردے پرگرا پردے کے پیچھے ان دونوں کی چیخ نکل گئی، ایک لمحے بعد میں نے کپڑے اٹھائے اور کمرے سے نکل کر ایک تاریک گوشے کی طرف بھاگا، کپڑے پہن کر میں نے سینڈی کو روانہ کر دیا اور خود ایک جگہ چھپ گیا اب پارٹی ختم ہوگئی ، سب چلے گئے اور گھر والے سو گئے تومیں بوجل دل کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوا میرے سرہانے پر کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا، اس پر لکھاتھا۔تمہارے کرتب بہت اچھے تھے ، خوب بہت خوب میراخیال تھا کہ صبح کو اس واقعے کی خبر سارے گاؤں میں پھیل جائے گی میں بے حد پریشان تھا مر،یہ پریشانی وہم ثابت ہوئی اس واقعے کی خبران دو لڑکیوں میرے اور سینڈی کے درمیان رہی مگر جب بھی کوئی لڑکی مجھے مسکراکر سلام کہتی تو میرا دل کہتاکہ یہ ان دونوں میں سے ایک ہے، مگریہ راز نہ کھلا کہ وہ دونوں لڑکیاں کون تھیں؟جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت گاؤں کی سب سے خوبصورت لڑکی میری ولسن تھی میں اس کو حورسمجھتا تھا اورکبھی خیال بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ہو سکتی ہے، لیکن اس واقعے کے سینتالیس سال بعدمیں کلکتہ میں ایک لیکچر دینے کے لئے آیا۔ وہاں ایک ہوٹل میں میری اس سے ملاقات ہوئی ، ہم نے ماضی کی یادوں کو دہرایا ، اس وقت وہ دادی بن چکی تھی۔اور پھر اس کے منہ سے ایک ایسا فقره نکل گیا جس سے مجھےیقین ہوگیا کہ ان دو لڑکیوں میں سے ایک وہ تھی ۔ دوسری لڑکی کون تھی؟ میرے بے حد اصرارپر اس نے مجھے اس کا نام نہیں بتایا، یہ بات ہنوز میرے لئے ایک رازہے۔۱۸۴۷ء میں میرے باپ کا انتقال ہوگیا تو مجھےاسکول چھوڑ دینا پڑا میں نے ایک اخبار کورئیر میں ملازمت کرلی اس ملازمت سے مجھے سال میں کپٹروں کے دو جوڑے اور کھانے کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا، اوریان میرا بڑا بھائی تھا۔ وہ والد صاحب کے انتقال کے وقت کسی دوسرے شہر میں تھا، وہاں سے ہمیں کچھ رقم بھجواتا رہتا تھا مگریہ ہمارے گزارے کے لئے ناقافی تھی، اس لئے میری بہن پاملا نےبچوں کو پیا نو سکھا کر گھر کی کفالت شروع کی ۔دوسری طرف میں۔۔کورئیر۔۔ میں بلا تنخواہ ملازم تھا۔ اس دور کا ایک دلچسپ واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے، یہ موسم گرما کی ایک شاندار دو پہر تھی میں دفتر میں اکیلا تھا، میرے دوسرے ساتھی چھوٹی منانے ساحل پر چلے گئے تھے میں بہت بور ہورہا تھا، مجھے ایک بڑا سایکا ہوا سرخ سرخ تربوز مل گیا میں نے اس کو کھانا شروع کر دیا۔ جب صرف تربوز کاخول باقی رہ گیا تو اس کو دیکھ کر مجھے شرارت سوجھی ، میں اس وقت تیسری منزل پر تھا۔ میں نے گلی میں مناسب شکار کی تلاش شروع کر دی، جس کے سر پرتربوز گرایا جا سکے ۔ کافی دیرمجھے مایوسی ہوئی کیونکہ مناسب آدمی کوئی نہیں آرہاتھا پھر مجھے دور سے اپنا بھائی ہنری آتا ہوانظر آیا ، وہ آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ جب وہ عین کھڑکی کے نیچے پہنچا تو میں نے تربوزگرا دیا۔ میرانشانہ حیرت انگیز طور پر درست ثابت ہے اور تربوز کا خول اس کے سر کے اوپرگرا وہ اس اچانک افتادسے گھبرا کر گر پڑا۔ میں نے ہنستے ہوئے کھڑکی چھوڑ دی، اگر وہ مجھے دیکھ لیتا تو بدلہ لینے سے نہ چوکتا، میں نے سمجھا کہ وہ مجھ پر شک نہ کر سکا ہو گا ، یہ میری غلط فہی ہی ثابت ہوئی دوچار روزتک اس نے نےکچھ نہ کہا پر ایک دن اس نے لوہے کی زنجیر اٹھا کر اچانک اس زور سے میرے سر پر ماری کہ میرے سر پر ایک بڑا سا گو مڑاپڑ گیا ، میں شکایت لے کر والدہ کے پاس گیا تو کوئی سنوائی نہ ہوئی الٹا جھڑکیاں سننی پڑیں، کیونکہ ہنری ان کو اپنا واقعہ پہلے ہی سنا چکا تھا۔ میرا بھائی اوریان ۱۸۵۰ء کےلگ بگ ایک نیا رسالہ ہنی بال جنرل لے کر آیا اور مجھے ایک معقول تنخواہ پر اپنے رسالہ میں ملازم رکھا، یہ دوسری بات ہے کہ میری تنخواہ مجھے کبھی نہ ملی کچھ عرصےبعد کاروبار ٹھپ ہو گیا ، اوریان بے کارہوگیا تھا۔ خوش قسمتی سے اسے ایک علاقے نیواڈا کےگورنر کا سکریٹری بنادیا گیا میرے پاس آٹھ سوڈالر تھے۔ میں اپنے بھائی اور بھابی کے ہمراہ نیواڈا روانہ ہوگیا۔
نیواڈا میں ہم نے بہترین دن گزارے، اوریان گورنر کا سکریٹری تھا، گورنر اکثر سان فرانسکو چلاجاتا تھا، بعدمیں اوریان ہی قائم مقام گورنرہوتا، اوریان کی بیوی بہت خوش تھی، اس دوران ہم نے نیواڈامیں ایک خوبصورت گھر تعمیر کیا یہ اس علاقے کا سب سے خوبصورت اور عالی شان مكان تها۔حالات نے پھر پلٹا کھایا اور کچھ سیاسی وجوہات کی بناپر اوریان کو استعفےدیناپڑا، اب اس نے پھر وکالت شروع کر دی مگرپھر ناکام رہا کیونکہ وہ ایک غیر مستقل مزاج آدمی تھا۔ اس کے مواکلوں کو یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ ان کی وکالت کر رہا ہے یا ان کے مخالفین کی۔۱۸۶۳میں میں ورجینا کے، ۔۔انٹرپرائز۔۔نامی اخبار کے ادارتی عملے میں شامل ہوگیا اور زندگی کا نئے ولولوں سے آغاز ہوا۔ ان ایام میں اس علاقے میں ایک نیا کھیل بہت مقبول ہورہا تھا ۔ جب یہ کھیل دوسرے کھیل رہے ہوں تو دلچسپ ہوتا ہے مگر جب خود کھیلنا پڑے تو بے حد خطر ناک ہوتا ہےیہ کھیل‘‘ڈوئل لڑنا’’ تھا۔وہ آدمی جس نے جذباتی میں کسی کو زخمی نہ کیا ہویا خودزخمی نہ ہوا۔ بزدل سمجھاجاتاتھا اخبار کے عملے کے لوگ مجھے ایسی نظروں سے دیکھتے تھے جیسے میں مبالغے کی حد تک بزدل ہوں ، مجھے شرم محسوس ہوتی تھی، لیکن مجھے شرم سے زیادہ اپنی زندگی عزیزتھی لیکن پھر ایک دن وہ خطرناک و قت آہی گیا۔اخبار کے چیف ایڈیٹر مجھے قائم مقام چیف ایڈٹیربناکر ایک ہفتے کی چھٹی پرسان فرانسکو چلے گئے ، میں سمجھتا تھا کہ ایڈیٹر کا کام آسان ہی ہوتا ہے ایک اداریہ لکھ دیا اور بس، مگر جب پہلے دن میں اداریہ لکھنے بیٹھا تو کوئی بات ذہن میں نہیں آرہی تھی آٓخریاد آیا کہ کل لنکسپئیرکی سالگرہ ہے۔ میں نے انسائیکلوپیڈیا نکالا اور شکسپیر پر اداریہ لکھنا شروع کردیا۔مواد تو غم ہوگیا لیکن جگہ بھی باقی تھی ۔ جگہ کوبھر نے کے لئے میں نے شکسپیئر کارناموں کے ساتھ ایسے کارنامے بھی لکھنا شروع کردیئے جو اس نے نہیں کئے تھے ، بہر حال اداریہ تیار ہو گیا، یہ دوسری بات ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کے سر کے اوپر سے گزر گیا ہو۔ اگلے دن میں پھرمصیبت میں مبتلا تھا، اب کوئی شکسپیر بھی نہیں آتا تھا جس پراداریہ لکھوں، اب میں نے اخبار کی عمارت مالک مسٹرلیرڈ پر ایک اداریہ لکھنا شروع کر دیا اگلے دن میں اس انتظار میں تھا کہ مسٹرلیرڈ کی طرف سے ڈولل لڑنےچینج آجائے گا ۔کیونکہ یہ اس علاقے کی روایت تھی ۔ میرے ساتھی بہت خوش تھے۔ مگر میں اداس تھا جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ مایوس ہوتے گئے ۔اور میں خوش ہوتا گیا۔ اس کے بعد داراتی عملے نے یہ قرارداد پاس کی کہ مجھے مسٹر لیرڈ کو چیلنج کا پیغام بھجوانا چا ہیے ، میں ایسے کام کرنا نہیں جانتا تھا، چنانچہ میرے ایک ساتھی نے مخصوص زبان میں چیلنج کا پیغام لکھا اور میرے نائب اسٹیو کے ہاتھ روانہ کر دیا، اسٹیوواپس آگیا اور انتظار کرنے کے لئے کہنے لگا میرا دل گھبرا رہا تھا مگر میں اپنے ساتھیوں کے سامنے بہادر بنارہا اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی جواب نہ آیاتومیں مطمئن ہوتا گیا ، پھر ایک اور چیلنج بھجوایا گیا مگر کوئی جواب نہ آیا جب کوئی چیلنج بھیجنے کے بعد بھی کوئی جواب نہ آیا تو میں بہادر بن گیا اور جوش سے مغلوب ہو کر ڈوئل لڑ نے کے متعلق سوچنےلگا پھر میں نے سخت الفاظ میں چیلنج بھجوایا۔ اس دفعہ لیرڈنے چیلنج قبول کرلیا۔
میں بے چینی سے چار پائی پر کروٹیں بدلتارہا،آخرچار بجے میرے ساتھی آئے اور شہر سے ایک میل دور ایک ویران مکان میں میں نے نشانہ بازی کی مشق شروع کردی ، ایک تختے پر ایک نشان بنایا گیا، میں نے احتیاط سے نشانہ لیا اور گولی چلادی ، مگرگولی تختے سے کئی گزر اوپر لگی پھر میں گولیاں چلاتا رہا مگر کوئی گولی نشانے پر نہ لگی۔کچھ فاضلے پرگولیوں کے پلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ غالبا لیرڈ بھی مشق کر رہا تھا۔ اگر وہ آکر مجھے دیکھ لیتا تو پھروه مجھ سے لڑنے کے لئے بے چین ہو جاتا کیونکہ میری ایک گولی بھی نشانے پر نہیں لگی تھی کچھ دیر بعد اچانک ایک چھوٹا سا پرنده جویقینا چڑیا سے بڑا نہیں تھا، مکان میں داخل ہوا ، اسٹیو نے جلدی سے اپناریوالوزنکالا اور نشانہ لے کر گولی چلا دی، اگلے ہی لمحے پرندہ نیچے گر رہا تھا۔ ہم بھاگ کر پرندے کی طرف بڑھے اسی لمحے لیرڈ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا، ہم پرندے کے نزدیک پہنچ گئے اور اس کو دیکھنے لگے لیرڈ بھی پرندے کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ لیرڈ کے ایک ساتھی نے دریافت کیا کہ پرندہ کس نے مارا ہے؟ میرے جواب دینے سے پہلے ہی اسٹیو بول پڑا۔ اس کو مسٹر مارک ٹوین نے نشانہ بنایا ہے۔وہ آدمی بولا ، ونڈرفل، پرندہ کتنی دورتھا؟ اسٹیوفورا بولا ، کوئی تیس گزدور تھا۔لیرڈ کا اچہرہ زرد ہورہا تھا، لیرڈ اپنے ساتھیوں کولے کر ایک طرف چلا گیا ، اور پھر کچھ دیر بعد مجھے ایک پیغام وصول ہوا کہ لیرڈر ڈوئل لڑنے کے پروگرام کو منسوخ کر کے گھر جا چکا ہے میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور گھر آکر سوگیا۔ ہمارے ڈوئل لڑنے کی خبر سارے شہر میں مشہور ہو چکی تھی، ان دنوں دوئل لڑنے کے خلاف قانون نیا نیا بنا تھا، شہر کا گورنر میرا دوست تھا اس نے ہمیں بھیجی کہ اگر ہم دو سال جیل میں نہیں رہناچاہتے تو فورا شہر چھوڑ دیں، اگلے دن علی الصبح میں شہر چھوڑرہاتھا اس واقعہ کے بعد میں نے بھی ڈوئل کا چیلنج نہیں بھیجا، بلکہ اگر کسی نے مجھے بھوایا بھی تو میں نے نظر انداز کر دیا۔
نیواڈا چھوڑنے کے بعد میں مارنیگ کال کے لئے رپورٹر کے طور پر کام کرنے لگا، سان فرانسسکو کے اس اخبارکی تمام خبریں صرف میں ہی لکھتا تھا ، سارا دن تھانے عدالتوں وغیرہ میں گھومنے پھرنے سے اتنا مواد اکٹھا ہو جاتا کہ اخبار کے لئے خبریں بن جاتیں، میں بنیادی طور پر ایک سست آدمی ہوں پر کام کرنا میرے لئے مصیبت تھا، ایک فرماں بردار اورہونہار سالڑکا ان دنوں دفتر میں ملازم تھا، میں نے اس کو اپنا کام دینا شروع کردیا، آہستہ آہستہ وہ سارا کام خود کرنے لگا اور میں سارا دن گپیں ہانکتا رہتا ، ایک دن اخبار کا مالک برنر مجھے ایک کونے میں لے گیا اور بولا، مسٹر ٹوین،میرا خیال ہے کہ اب آپ استعفے دے دیں، آپ میری بات سمجھ رہے ہیں مسٹر برنرکا لہجہ بہت شائستہ تھااور وہ مجھے یوں سمجھارہے تھے جیسے میں بچہ ہوں ، میں نے استعفے دے دیے، اس طرح میں نے باعزت طورپر یہ ملازمت بھی چھوڑ دی، مگرآج بھی میں یہ سوچ کر افسردہ ہو جاتا ہوں کہ زندگی میں ایک دفعہ کسی نے برطرف بھی کیا تھا۔
اس کے بعد میری زندگی کا سب سے اہم دور شروع ہوامیں نے اپنی زندگی کا بطورلیکچرار آغاز کیا، تھا من کئی تھیٹروں کا مالک تھا، اس نے ایک دن مجھ سے کہا اب حالات سازگار ہیں ، تم اس میدان میں کامیاب ہو سکتے ہو، میں نے تجویز قبول کرلی اور میرے لیکچر کا اعلان کردیا گیا، ایک دن ٹھیک۸ بجے میرا لیکچرشروع ہونا تھا، جب میں ہال میں پہنچا تو صرف ایک آدمی میرالیکچر سننے کے لئے موجودتھا اور اس سے میں واقف نہیں تھا۔میرے دوسرے لیکچر میں تقریبا پندرہ ہزار لوگوں نے شرکت کی ، ابتدائی وقت بہت مشکل سے کٹا ،میں نے ایک واقعے کو تین دفعہ دہرایا تو لوگ اس میں موجود اصل مزاحیہ نکتے کو سمجھ سکے او روہاں قہقہوں سے گونج اٹھا۔میں کیلی فورنیا کے تمام شہروں اورنیواڈا میں لیکچر دینے کے بعد سان فرانسسکو آگیا اور یہاں صرف دو دفعہ لیکچر دیا۔ میں جنوری ۱۹۶۷ء کو نیویارک آیا ، یہاں میری ملاقات سان فرانسسکو کے ایک دوست چارلس ایچ ویپ سے ہوئی، اس نے مجھے اپنی ایک کہانی چھپوانے کا مشورہ دیا ، یہ کہانی کچھ زیادہ مواد کے ساتھ ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوئی تھی ، میں مسودہ لے کر ایک پبلشنگ کمپنی کے ڈائرکٹر کے پاس گیا ، اس نے مشورہ پڑھے بغیر واپس کردیا کہ یہ ناقابل اشاعت ہے، میں بہت بد دل ہوگیا ویب نے میری ہمت بندھائی اور اس نے یہ کتاب خود شائع کی کتاب کافی مقبول ہوئی، کچھ عرصے بعد مجھے امریکن پبلشنگ کمپنی کے مسٹر بلس کی طرف سے ایک خط موصول ہوا اس کے مطابق وہ میری کسی نئی کتاب پر پانچ فی صدرالٹی اور مسودہ ملنے پر دس ہزار ڈالر پیشگی دینے کے لئے تیار تھے۔
ایک دفعہ میرے پاس پیسے ختم ہو گئے۔مجھے تین ڈالر کی ضرورت تھی ،میں گھر سے باہر نکلا اور گھنٹہ بھر گلیوں میں پھرتا رہا مگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئی ، آخر میں ایک نئے ہوٹل میں جا کر بیٹھ گیا ، کچھ دیر بعد ایک خوبصورت کتاآکر میرے پاؤں چانٹے لگا، میں بھی کتے کو پیار کو پچکارنے لگا ، کچھ دیر بعد جنرل مائلر ہوٹل میں داخل ہوا، وہ اس علاقہ کا ہیروتھا کتے کو دیکھ کر وہ میرے نزدیک آگیا اور بولا، بہت خوبصورت کتا ہے، کیا تم اسے فروخت کرتا چاہتے ہو؟ میں حیران رہ گیا ، وہ کتے کو میری ملکیت سمجھ رہا تھا ۔میں نے کہا: ہاں۔کتنے میں بیچو گے ؟ جنرل نے دریافت کیا ۔۔ تین ڈالر۔۔جنرل حیران رہ گیا، پھروہ بولا تین ڈالر؟ میرا خیال ہے کہ یہ کتا معمولی نہیں ہے، اس کی قیمت پچاس ڈالر سے کم نہ ہوگی، اگر یہ میرا ہوتا تو میں اسے سوڈالرمیں بھی فروخت نہ کرتا وہ اپنی تم اپنی قیمت پر نظر ثانی کر سکتے ہو میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ نہیں تین ڈالر یہی اس کی قیمت ہے اچھا اگر تم اصرار کرتے ہوتو یہ لو کیا یہ کہہ کر جزل نے مجھے تین ڈالر دیئے اور کتا لے کر روانہ ہو گیا۔کچھ دیر بعد درمیانی عمر کا ایک آدمی ہوٹل میں داخل ہوا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا میں نے اس سے پوچھا کیا آپ کتا تلاش کر رہے ہیں؟ وہ آدمی بہت افسردہ تھا، میری بات سن کر اس کے منہ پر رونق آ گئی، وہ جلدی سے بولا کیا آپ کوعلم ہے کہ وہ کہاں ہے؟۔ہاں چند منٹ پہلے وہ یہیں تھا، اگر تم چاہوتومیں تمہارے لئے اسے تلاش کر سکتا ہوں پر اس کے عوض مجھے کچھ چاہیے۔وہ بولا کتنی رقم؟ تین ڈالر میں نے کہا، میں تمہیں دس ڈالر بخوشی دینے کو تیار ہوں اس آدمی نے اقرار کرتے ہوئے کہا، مگر میں نے صرف تین ڈالر لئے اور جنرل کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا، جنرل کتاواپس کرنے پر آمادہ نہیں تھا، مگر جب میں نے بتایا کہ یہ میرا نہیں ہے تو اس نے مجھ سے لڑتے ہوئے کتا واپس کر دیا۔ میں نے تین ڈالر اس کو واپس کر دیئے اور لاکر اس کے مالک کے حوالے کردیا فروری ۱۸۷۰ء میں میری شادی مس اولیویا ایل لنگڈن سے ہوگئی ، میں نے اس کو سب سے پہلے،۱۸۶۷ کے موسم گرما میں ایک جہاز پر دیکھا تھا۔ اس وقت اس کی عمربائیس سال تھی آنے والے دسمبر میں نیویارک میں ہماری دوسری ملاقات ہوئی وہ بیک وقت لڑکی اور عورت تھی، اور اپنی زندگی کے آخری دن تک لڑکی اور عورت رہی۔
اس وقت اس کی عمر سولہ سال تھی ،جب وہ برف پر گرنے سے نیم مفلوج ہوگئی، اس کے دو سال اب تک وہ بستر نہ چھوڑسکی، ماہرسے ماہر ڈاکٹر سے علاج کروایا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ان دنوں ایک عطائی ڈاکٹر نیوٹن کی امریکہ میں بہت شہرت تھی اس کے علاج سے کئی مریض معجزانہ طورپر صحت یاب ہوچکے تھے۔نیوٹن بلایا گیا اس نے دیکھا کہ نوجوان لڑکی بستر پر لیٹی ہوئی ہے اور ہلنے جلنے سے معذور ہے۔نیوٹن نے کھڑکیاں کھول دیں اور پھر دعائیں پڑھنے لگا، اس کے بعد اس نے لڑکی کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور کہا؛میری بچی اب تیںو اٹھنا چاہیے۔اہل خانہ نے نیوٹن کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی کیونکہ جب بھی اس کو اٹھانے کی کوشش کی جاتی تھی ، وہ بےہوش ہو جاتی تھی، اس نے اہل خانہ کی طرف توجہ نہ دی اور آہستگی سے لڑکی کو اٹھاکر بٹھادیا ، کئی منٹ تک وہ آرام سے بیٹھی رہی، پھرنیوٹن نے کہا: اب ہمیں چلنا چاہیے ، وہ اس کو بستر سے باہر لے آیا اور فرش پر وہ اس کے سہارے چلنے لگی۔ جب وہ کئی قدم چل چکی تو نیوٹن واپس آیا اوراہل خانہ سے مخاطب ہوا :میں نے اپنی پوری کوشش کرلی ہے، یہ ساری زندگی کبھی بھی دو سو گز سے زیادہ نہیں چل سکے گی۔ نیوٹن کو علاج کی فیس کے طور پر پندرہ سو ڈالر دیے گئے مگر نیوٹن کی یہ پیش گوئی کہ وہ دو سوگز سے زیادہ نہیں میں سکے گی غلط ثابت ہوئی، بعد کے سالوں میں وہ تھکن کے بغیر ایک میل بھی چل لیتی تھی کئی سالوں بعد میری نیوٹن سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ اس کے علاج کا راز کیا ہے اس نے جواب دیا کہ وہ خود بھی نہیں جانتا، اس کا خیال ہے کہ ایک برق اس کے جسم سے نکل کر مریض کو شفا دیتی ہے۔
ہماری منگنی کی تاریخ۴فروری۱۸۶۹ تھی منگنی کی انگوٹھی صاف اور بھاری سونے کی تھی، اس کے اندر ہماری منگنی کی تاریخ درج تھی، ایک سال بعد میں نے یہ انگوٹھی اس کی انگلی سے اتاری اور اس پرا شادی کی تاریخ ۴ فروری۷۰ ۱۸ء کندہ کروا دی، اس کے بعد یہ انگوٹھی اس کے ساتھ ہی دفن کر دی گئی۔ہمارا پہلا بچہ۷نومب۱۸۷۰ء کو پیدا ہوامگر بائیس مہینے زنده رہا ہماری پیاری بچی سوزی ۱۹ مارچ۱۸۷۲ کو پیدا ہوئی۔ میری یہ بچی بہت پیاری اور ذہین تھی، اس نے میری سوانح عمری بھی لکھی تھی ، جس میں تعریف کے ساتھ ساتھ جائز تنقید بھی کی تھی۔کچھ عرصہ بعد میں نے اپنی کتابیں خود شائع کرنا شروع کر دیں، کیونکہ مسٹربلس نے میری کتابوں پر مجھے معاوضہ نہیں دیا تھا۔ میں نے ادارے کا انتظام اپنے ایک دورکے بھتیجے ویبسٹر کے سپرد کر کر دیا تھا، اس نے پہلے پہل بہت اچھی طرح کام کیا ، لاکھوں کا بزنس کیا گیا، ہمارے ادارے سے جنرل گرانٹ کی یادداشتیں بھی کتابی شکل میں شائع ہوئیں اس کتاب نے امریکہ میں تہلکہ مچا دیا تھا ، آہستہ آہستہ ہمارا اداره ترقی کرتا گیا، اس کا مکمل انتظام ویبسٹر کے سپرد تھا، اس کی حماقتوں کے سبب ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ادارہ تباہ ہوگیا ہم پینسٹھ ہزار ڈالر کے مقروض ہو گئے۔ آخر میں اپنی بیوی اور بچی سمیت دنیا کے سفر پر روانہ ہوا، مختلف ملکوں میں لیکچر دےکردولت کمائی اور قرض اداکیا، کچھ رقم ہمارے پاس بچ گئی ۔اپنی گزشتہ تصنيف وتخلیق کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو ایسا کوئی وقت نظر نہیں آتا جبکہ میرے دماغ میں دوتین کتابیں نہ ہوں ، یہ کتابیں عام طور پرنامکمل ہوتی ہیں میں نے اکثردیکھا ہے، اگر میں آرام نہ کروں تو بہت سی کہانیاں نصف لکھنے کے بعدآگے بڑھنا ناممکن ہوجاتا ہے ، ایسا ہی موقع اس وقت یا جب میں ٹام سائر نصف مکمل کر چکا تھا، اس کے بعد کہانی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا، میں کئی دن کی کوشش کرتارہا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا میں جانتا تھا کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی مگراس کو مکمل کرنا مشکل ہوگیا تھا، مجھے معلوم تھا کہ میرا خام مال کاذخیرہ ختم خالی ہو چکا ہے، میں نے مسودہ الماری میں رکھ دیا دو سال ہی میں نے مسودہ نکالا، آخری باب پڑھا اور کچھ کتاب مکمل کر دی میں نے ایک نکتہ دریافت کیا تھا کہ جب ایک خاص موضوع کے متعلق انسان کے دماغ میں خام مال ختم ہو جائے تو مزید نہیں لکھا جا سکتا، اس موضوع کو چھوڑ دیں، سوتے ہوئے یادوسرے کام کرتے ہوئے آپ کا دماغ اس کمی کو پوراکرے گا اورآپ دوبارہ لکھنے کے قابل ہو جائیں گے ، میری اکثر کتابوں میں ایسے وقت آئے ہیں جب میں کہانی کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہوں ، ایسی صورت میں میں وہ کتاب بند کر دیا ہوں اور دو تین سال بعد وہ کام کر لیتا ہوں ، اس دوران میرا دماغ اپناخام مال حاصل کر چکا ہوتا ہے۔
میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارچکا ہوں، اب چراغ سحری ہوں کسی لمحے گل ہو جاؤں گا ، میں کب مرتا ہوں اس کا انحصار میری طاقت پر ہے ، طاقت جواب ختم ہو رہی ہے۔