دوسرا شخص

0
349
urdu story
- Advertisement -

کلاڈیو پہلی مرتبہ جزیرے پر آیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رہائش کے سلسلے میں یہاں خاصی دشواری پیش آئے گی کیونکہ سیاحوں کی آمد کا موسم شروع ہو چکا تھا لیکن خوش قسمتی سے ایک معیاری ہوٹل میں اسے ایک کمرہ مل گیا جس کا کرایہ بھی نہایت معقول تھا ۔اس کے پاس سامان میں صرف ایک سوٹ کیںی تھا جس میں کپڑوں کے علاوہ ضرورت کی چند چیزیں بھی موجود تھیں۔ کمرے کا جائزہ لینے کے بعد اس نے سوٹ کںاص کھولا ۔ کپڑے نکال کر الماری میں سجائے ٹوتھ پیسٹ ، برش اور شیونگ کا سامان باتھ روم میں بنے ہوئے مخصوص شیلف پر رکھا ادرخالی سوٹ کیس کو الماری کے اوپر ٹکا کر بستر پر نیم دراز ہوگیا اور سگریٹ سلگا کر ہلکے ہلکےکشن لینے لگا۔ لانچ کا سفراگرچہ زیادہ طویل نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی بے حد تھکادینے والا ثابت ہوا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ سیرکی نیت سے ہوٹل سے باہر آ گیا۔ یہاں اس کا کوئی دوست ياصورت شناسا نہیں تھا۔ کشادہ اور بارونق سڑکوں پر چلتے ہوئے اسی بڑی شدت سے اجنبیت کا احساس ہونے لگا۔ہرطرف جوان اور ادھڑعمر جوڑے نظر آرہے تھے جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ٹہل رہے تھے۔ ان جوڑوں کو دیکھ کر اجنبیت اور تنہائی کا احساس کچھ اور بھی شدید ہوگیا۔ اس کی طرح کوئی ایک مرد اکیلا بھی نظر آجاتا لیکن کوئی عورت اب تک تنها نظرنہیں آئی تھی۔ وہ ریوڑ سے بچھڑے ہوئے جانور کی طرح منہ اٹھائے ادھر سے ادھر گھومتا رہا۔ اس کے چہرے پر اداسی اداروں پر ایک عجیب سی افسردگی طاری تھی۔ جبکہ یہاں ہر شخص کے چہرے پر شگفتگی اور رعنائی نظر آرہی تھی۔ اپنے قریب سے گذرتے ہوئے ایک نوجوان جوڑے کو دیکھ کر اس کے ذہین کو ایک جاٹک سا لگا ۔ اس کی ذہنی روبہک گئی صرف دوسال پہلے وہ بھی اسی طرح اپنی محبوبہ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے تفریح گا ہوں میں گھوما کرتا تھا لیکن تقدیرکو اس کی یہ خوشی ایک آنکھ نہ بھائی اور اس کا یہ رومانس جس طرح غیر متوقع طور پر شروع ہوا تھا اسی طرح اچانک ہی ختم بھی ہوگیا ۔ اس خیال کے ساتھ اس کی اداسی بڑھ گئی اوراسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے قریب سے گذرنے والا جوڑا اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہہ رہا ہو۔ہم دو ہیں اورتم اکیلے ہم اپنی منزل کی طرف گامزن ہیں اور تم وہ بھٹکے ہوئے مسافر ہو جو تو اپنی منزل کا نشان تک نہیں جانتا۔ ہماری زندگی کا بھلا کیا مقصد ہو سکتا ہے ؟ تم نے وہ کونج دیکھی ہے جو اپنی ہم جنسوں کی قطار سے بچھڑ گئی ہو؟یہ احساس کلاڈیوکے دماغ میں سنسناہٹ سی پدٹا کرنے لگا جس سے پیچھا چھڑانے کے لئے وہ ایک ریسٹورنت میں گھس گیا اورطلب نہ ہونے کے باوجود ویڑ کو کافی کا آرڈر دے دیا۔مگر تنہائی کے احساس نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا کو نٹر پر پہلے ہی سے ایک جوڑا موجود تھا۔کلاڈیو کن انکھیوں سے ان کا جائزہ لینے لگا۔ ادھیڑ عمر مرد کے چہرے پر روشنی اور آنکھوں میں کر ختگی تھی۔اسٹول پر بیٹھے ہوئے اس نے دونوں پیر لوہے کی راڈ پر ٹکا رکھے تھے اور مدہم لہجے میں باتیں کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چابیوں کے گچھے سے کھیل رہا تھا۔عورت کی عمر زیادہ سے زیادہ اکیس بائیس برس ہی ہوگی۔گہری رنگت ہونے کے باوجود جنس مخالف کے لیے اس میں خاص کشش تھی۔وہ مسکراتی تو اس کے دانت آبدار موتیوں کی طرح چمک اٹھتے آنکھوں میں صبح کے ستارے کی سی چمک اور چہرے پر زندگی کی رعنائیاں تھیں۔

کلاڈیو زیادہ دیر وہاں نہیں بیٹھ سکا۔کافی پیتے ہی اٹھا اور بل کی ادائیگی کے لیے کیش ڈیسک کی طرف بڑھنے لگا۔اس کی جوڑ کے قریب سے گذرتے ہوئے فرش پر چھنچھنا ہٹ کی آواز سن کر آواز سن کر اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔یہ سوچ کر کہ اس کی جیب سے کوئی سکہ گراہے ،کلاڈیو ادھر ادھر دیکھنے لگا۔اس سے دو قدم آگے فرش پر پانچ سو لیرے کا سکہ مرکری بلب کی روشنی میں چمک رہا تھا۔وہ جیسے ہی سکہ اٹھانے کے لئے جھکا کونٹر کے سامنے اسٹول پر بیٹھے ادھیڑ عمر مرد کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔معاف کرنا دوست! یہ سکہ میرے ہاتھ سے گرا تھا۔کلاڈیوکٹ کررہ گیا ۔شرم سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا وہ ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا۔ کیش ڈیکت پر بل ادا کیا اور کسی سے نظریں ملائے بغیر تیز قدم اٹھاتا ہوا ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا۔باہر آکر بھی وہ بدحواسی میں اس تیز رفتاری سے چلتا رہا جیسے کوئی ان دیکھی ملاتیں اس کا پیچھیا کر رہی ہوں بہت دور پہونچ کر وہ رکا، بے ریط تنفس پر قابو پانے کی کوشش کی اورراولنڈری کی طرف چل دیا۔ جو گائیڈبک کے مطابق جزیرے کا خوبصورت ترین مقام تھا۔یہ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا ایک تنگ سا راستہ تھاجس کے ایک طرف اولنڈر کی قدم جھاڑیاں تھیں جن میں سفید اور گلابی پھول کھلے ہوتے تھے۔ یہاں انہی جھاڑیوں کی بہتات کی سے اس علا نے کو اولنڈری کا نام دیاگیا تھا۔ جھاڑیوں کی طرف ہریں لیتا ہوا سمندر کانیلگوں پانی چمک رہا تھا اور دوسری طرف پام کے پودوں کی طویل قطار تھی۔ پام کے پیچھے نشیب میں سرسزتداری تھی ۔باغات کا ایک ہونے والاسلسل تھا جس میں کہیں کہیں خوبصورت مکان بھی نظر آرہے تھے ۔ راستہ ساتان تھا۔ یہاں پہونچ کر کلاڈیو کو ذہنی طور پر سکون ملا۔ کچھ دیر یہاں رک کر وہ تازہ ہوا میں لےبچ لمبے سانس لیتارہا پھر آگے چل دیا۔ راستے کا معائنہ کرتے اس کی نظریں دو منزلیں ایک عمارت پڑی۔ کی ان میں پرانے طرز کی بنی ہوئی سفید رنگ کی اس عمارت پلستر جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا تھا۔ پائیں باغ میں خودر وپوروں کی جھاڑیوں کی بہتات تھی۔جس سے یہ اندازہ لگایا جاسا ہ تھا مکین عمارت کی دیکھ باسل پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔اس عمارت کے گیٹ کے سامنے سے گزرتا ہوا چندگز تک پہونچا تھاکہ ایک آواز سن کر ٹھٹک گیا۔

سنیو رلارنزد..سنیو رلارنزد! وہ آگرچہ لارنزد نہیں تھا لیکن اسے یہ اندازہ لگانے کے لیے زیادہ مشکل پیش نہ آ ئی کہ پکارنے والا اسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔ اس نے پیچھے مر کر دیکھا۔ گیٹ کے جنگلے سے باہر نکلا ہوا ہاتھ اسی کو بلا رہا تھا۔سڑک پر اگر کوئی دوسرا راہ گیربھی ہوتا تو الھجن ہو سکتی تھی لیکن اب میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رکھی تھی کہ اس کو بلایا جارہا تھا۔ وہ واپسں مڑا اور گیٹ کے سامنے آ کر رک گیا ۔ اندرونی سمت ایک اڈھیرعمر عورت جنگلے سے گلے لگائی کھڑی تھی۔ فربی جسم نکلتا ہوا قد اور آنکھوں سے ابھرے ہوئے رخسار! اسے خوبصورتی میں قبول صورت ضرور کہا جاسکتا تھا ، اس نے قرب سے ہوئے ایک بلڈاگ کا پٹہ تھام رکھا تھا جو کلاڈیوکو اس طرح جبڑے چلا رہا تھا جیسے اس کے پوسٹمارٹم کی یاری کررہا ہوں۔ہیلو سینو لارنز! کیسے ہو؟ عورت آنکھیں مچمچا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ‘‘دیکھ ٹو مائیگر نے بھی تمہیں پہچان لیا ہے جب تم یہاں سے گئے تھے تو یہ اس وقت بچہ ہی تھا۔ اندر آجاو ۔تم اندازہ نہیں لگا سکتے میں کہ تمہیں دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوری ہے۔کلاڈ یو حیرت وتعجب کی ملی جلی نگاہوں سے ا س کی طرف دیےھہی لگا۔ اس عورت کو یقینا کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔ وہ اسے اس غلط فہمی سے آگاہ کرنا ہی نہیں چاہتا تھا کہ ایک فوری خیال کے تحت اس نے ارادہ بدل دیا۔ درہ یہاں اکیلا تھا اس کا کوئی واقف کا ریاشنا سانہیں تھا جس کے ساتھ وقت گزارسکتا۔ وہ سوچ رہا تھاکہ یہ غلط فہمی سے ایک ایسا ساتی فراہم کر دے جو اس کی تنہائی مٹا سکے کچھ ایڈو نچری سہی۔ اس دوران وہ ادیر عمر عورت گیٹ کھول کر اسے اشارہ کرتے ہوئے پورچ کی طرف چل پڑی تھی ۔ کلاڈیو بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ برآمدے سے گذرکر وہ داخلی ہال میں پہونچے جہاں بید کی تین چار کرسیوں کے سوا فرنیچر نام کی کوئی چینز نہیں تھی۔ ہال سے ہوتے ہوئے وہ ایک نیم تاریک نشست گاہ میں داخل ہوئے جس میں دو آرم چیزز اور ایک سیٹی بچھی ہوئی تھی۔ سیٹی کےکشنز پرکشیدہ کاری دالے غلاف چڑھے ہوئے تھے۔دیواروں پر مختلف مناظر کی تصویر نظر آرہی تھیں جنھیں غالبا كلنڈروں سے کاٹ کرچیاں کیاگیا تھا۔ ان میں سمندر کا منظر پیش کرتی ہوئی ایک آئل پینٹینگ بھی موجود تھی ۔ میز پر رکھے ہوئے لیمپ کے شیڈ کو موتیوں کی جھالر سے سجایا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ کبینٹ اور شلف پر چھوٹی چھوٹی لاتعداد چیزیں نظر آرہی تھی۔جنھیں سجاوٹ کے سے وہاں رکھا گیا تھا۔اڈھیر عمر عورت ایک کرسی میں دھنس گئی۔کتا بھی اس کے قریب فرش پر پاوں پھیلا کر بیٹھ گیا۔چند لمحے خاموشی وہی عورت کا سانس ابھی تک بےربط ہو رہا تھا۔وہ انپے آپ پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی۔

یہاں کی ہر چیز ویسی ہی ہے جیسی تم چھوڑ کر گئے تھے اتنے برس بیت جانے کے باجود یہاں کی کسی چیزمیں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اور میرا خیال ہے کہ تم بھی ویسے ہی ہو۔ ذرابھی نہیں بدلے۔ہاں! میرے اندر بھی کرئی تبدیلی نہیں آئی۔ کلاڈیو نے نیم مسکراہٹ سے جواب دیا۔ وہ یہ جاننے کے لئے متجسس تھا کہ اس عورت کے کہنے کے مطابق دہ آج سے کتنا عرصہ قبل یہاں رہائش پذیر تھا۔میں ذرا بھی تو نہیں بدلا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تو ہے کہ مجھے یہاں سے گئے ہوئے زیادہ عرصہ بھی تو نہیں ہوا۔تین سال ! عورت نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا یہ میرے لئے خاصی طویل مدت ہے۔ مجھ جیسی عورت کے لیے تویہ عرصہ تین صدیوں کے برابر ہے ۔ لیکن تم جیسے جوان اور صحت مند آدمی یقینا اسے خاطر میں نہیں لائیں گے۔ مگر تمہیں شاید معلوم نہیں کہ ایلا جب بھی مجھے ملتی ہے مجھ سے تمہارے بارے میں ضرور پوچھتی ہے۔’’ کلاڈیو کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی ۔ تو اسکی کہانی میں کسی دوسری عورت کا بھی وجود تھا۔ ایلاخوبصورت نام تھا ۔ اور عین ممکن ہے وہ اپنے نام ہی کی طرح چست وجوان اور پرکشش بھی ہو۔؟ کیا ایلا اب بھی مجھے یاد کرتی ہے ؟اس نے متجسس لہجے میں پوچھا ۔ عورت نے عجیب سی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا وہ ان نگاہوں کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا ۔ یادکرنا تو ایک سالفظ ہے ۔ میرے خیال میں وہ جس انداز میں تمہارا ذکر کرتی ہے اس کے لئے پرستش کا لفظ نہایت مناسب رہے گا ۔ کلاڈیو کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔اس عور غلط فہمی سے اس امکان کو کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔کہ وہ حسین ایلا کا قرب حاصل کرنے کے لئے لارنز جگہ لے سکتا تھا۔ میں بھی وہ لہجے میں سوز پیدا کرتے ہوئے بولا ‘‘ایلا کو دل کی گہرائیوں سے جاہتا ہوں اورتین سال کے اس وقےی میں ایک لمحے کو بھی اسے فراموش نہیں کرسکا۔’’یہ ہاں کہتے ہوئے کلاڈیو کو یوں محسوس ہو اور جیسے واقعی اس سے بچھڑنے کا افسوس ہوا اور اسے دیکھنے کے لئے فراموش رہا ہوں۔ اگر ایلا سے اتنی ہی محبت تھی تو تمہیں فورا واپس آجا نا چاہیے تھا۔ تم کیا جانو تمہارے جانے کے بعد اس نے اپنی کیا حالت بنالی تھی۔وہ دن انپے کمرے میں روتی رہی۔اس کا کھانا پینا تک حرام ہو چکا ہو۔وہ بھی کسی بھٹکی ہوئی روح کی طرح ٹہلتی رہتی میں تو ڈر گئی تھی۔ کہ وہ ذہنی توازن نہ کھو بیٹھے۔بہرحال سب سے پہلے میں یہ جاننا چاہوں گی کہ تم نے اس پر یہ ظلم کیوں کیا؟اسے چھوڑتے ہوئے تمہیں اس پر ذرا بھی رحم نہیں آیا تھا۔؟‘‘میں نے اس پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن صورت حال میں برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔’’ کلاڈیو نے اندھیرے میں بھوڑتے ہوئے جواب دیا۔عورت چند لمحے کسی قسم کے خیالوں میں رہی۔پھر گہرا سانس لیتی ہوئے بولی۔ممکن ہے ایسا ہی ہو۔مجھے یقین ہے اس رات تم لوگوں کے درمیان کوئی خاص بات ہوئی ہوگی۔کیونکہ دوسری صبح آیلا کی سوجھی ہوئی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔جیسے وہ ساری رات روتی رہی ہوں۔اس کی دائیں آنکھ کے قریب نیل بھی نظر آرہا تھا۔ میرا خیال تم نے اسے پیٹا ہوگا۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا مردوں کا شیوہ نہیں۔کلاڈ یو کے جسم پر چیونٹیاں سی رینگے لگیں۔ وہ بےچینی سے پہلو بدلتے سوچنے لگا کہ لارنز ونامی اس شحص نے اس کی پٹائی بھی کی تھی جبکہ خود اس نے زندگی میں کسی شحص کو چھوا تک نہیں تھا۔وہ لہجے میں الجھن پیدا کرتے ہوئے بولا۔‘‘ میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ صورت حال میری برداشت سے باہر ہوچکی تھی۔’’بڑھیا چند لمحے خالی خالی سی نظروں سے خلا میں گھورتی رہی پھر قدرے تلخ لہجے میں بولی۔تمہیں اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ اس طرح راہ فرار اختیار کر لے اچھا نہیں کیا تھا۔اگر ایلا کے سینے میں بھی شوخ اور چخیل لڑکیوں کی طرح جذبات کی گری ہوتی تو وہ انپی فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے غیرمردوں کے سہارے ڈھونڈ لیتی لیکن خوش قسمتی سے وہ عمر کی ایسی حد کو پہونچ چکی ہے۔جہاں عورت محبت کی زندگی کا آخری رومانس سمجھتی ہے۔ان حالات میں ایک بیوہ عورت کے لیے زندگی گذارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔مزید برآں جو ان بیٹے کی آوارگی اور بدچلنی صورت حال کو مزید بگاڑ دیتی ہے۔میں اس بات کو دہراوں گی کہ تم نے اسے چھوڑ کر اچھا نہیں کیا تھا۔

کلاڈیو نے ایک بار پھر بے چینی سے کرسی پر پہلو بدلا اورکھڑکی سے باہر درختوں کی جھومتی ہوئی شاخوں کو دیکھنے لگا۔ یہ سوچ کرہی اس کا دل ڈوبنے لگا کہ ایل کوئی جوان عورت نہیں تھی بلکہ یہ طے تھا کہ عمر میں د لارنز وسے بڑی تھی جس کا ایک عدد جوان بیات بھی تھا ۔ اور جو اتفاق سے آوارہ اور بد قماش بھی تھا ۔ یہ وضاحت بھی ہوگئی ، کہ لارنزو۔ایلا کا شوہر نہیں دوست تھا۔ وہ لہجے میں ناگواری سی پیدا کر تے ہوئے بولا۔‘‘میرے خیال میں یہ عمروں کا تضاد ہی تھا کہ جس نے مجھے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا ۔’’عورت ڈوری سے بندھے ہوتے ٹوٹے فریم والے چشمے کو صاف کرنے لگی ۔ کلاڈیو نے فور ًا ہی محسوس کر لیاکہ اب اس کے چہرے سے وہ نرمی اور ملاحت غائب ہوچکی تھی جو شروع میں نظر آئی تھی ۔ بالآخر وہ قدرے درشت لہجے میں بولی ۔سینورلارنزد!عمروں میں فرق کے بارے میں یہ بات تمہیں اس وقت سوچنا چائیے تھی جب تم نے ایلا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ تمہارے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ تم محبت کی بنا پر نہیں بلکہ کسی ذاتی مفاد کیلئے اس کی طرف بڑھ رہے ہو۔ ایلا دولت مند تھی اور تم کوڑی کوڑی کو محتاج۔یہ توطے شدہ بات ہے کہ آج کے دور میں کسی کی دوستی کو بے لوث نہیں سمجھا جاسکتا۔صورت حال اب اس نہج پر پہونچ چکی تھی کہ کلاڈیو کے لئے لارنزد کی پوزیشن کا دفاع کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ لارنزد کے دفاع کا مطلب تھا کہ وہ خود اپنا دفاع کرتا۔ وہ احتجاجی لہجہ اختیار کر تے ہوئے بولا۔میں نے کسی ذاتی مفاد کے لئے ایلا کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا تھا۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ میری وجاہت سے متاثر ہوکر ایلا خود میری طرف مواجہ ہوئی تھی۔ اسے جب تک میرے اندرکشش محسوس ہوئی میں اس کی آنکھوں کا تارا رہالیکن جذبات سرد پڑتے ہی اس نے بے حسی اور عدم کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ گویا وہ خود مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی۔‘‘نہیں’’ بڑھیا نیف میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔بلکہ یہ ہے کہ تم اس امریکی عورت میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ میں تو ایلا کے برابر ہی تھی لیکن اس سے زیادہ دولتمند اور تم پر بے تحاشہ خرچ کر رہی تھی جس روز تم غائب اس دن بھی آخری مرتبہ تمہیں اس عورت کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔یہ بہتان ہے۔ میں کیا امریکی عورت کے ساتھ نہیں گیا تھا۔کلاڈیو نے لارنزو پر عائد کئے جانے والے اس الزام تردمد کی۔

- Advertisement -

لیکن آخری مرتبہ تم اسی کے ساتھ دیکھے گئے تھے۔ اسے محض اتفاق کہا جا سکتا ہے۔ اس امر یکی عورت میری کوئی وابستگی نہیں تھی محض سرسری سے تعلقات تھے اگر یہ اتفاق تھا تو تم اسے کیاکہو گے ؟ وہ عورت ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑ کی کے قریب میز کے سامنے پہونچ گئی۔کلاڈیو گہری نظروں سے اس کی حرکات کا جائزہ لے رہا تھا۔عورت نے میز کی دراز کھولی ۔ کچھ دیر تک اس میں رکھے ہوئے کا غذات کو الٹ پلٹ کرتی رہی پھر ایک کاغذ نکال کر دوبارہ کرسی میں دھنس گئی اور کاغذ کو اپنی ران پر پھلاتے ہوئے بولی۔اب بتاو! کیا یہ بھی اتفاق تھا کہ اس روز تم میرا بل ادا کےا بیرر صبح منہ اندھیرے چوروں کی طرح اس گھر سے چلے گئے تھے بعد میں ایلا سے میں نے اس بل کی ادائیگی کا مطالعہ کیا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ پہلے ہی تم پر خاصی رقم خرچ کر چکی ہے۔ اور اب تمہارے نام پر کسی کو ایک لیربھی دینے کو تیار نہیں۔ میں اس معاملے میں ایلا کو کوئی الزام نہیں دوں گی ۔ جب تم اسے فریب دے کر چلے گئے تھے تو اسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ تمہارے قرضے چکاتی پھرتی ۔ پھر جب میں نے تمہارے خلاف پولیس میں رپورٹ لکھوانے کا ارادہ کیا۔ تو محبت کی ماری ایلا نے منع کر دیا۔ تمہاری بے وفائی کے باوجود وہ تمہیں اسی طرح چاہتی تھی۔ بہرحال، پھر میں نے اس بل کی ادائیگی کا تقاضہ نہیں کیا اب کیا تم اس بل کو بھی مخص ایک سبق کا نام دو گے۔؟ عورت نے ڈوری سے بندها ہوا موٹے عدسوں والا منہ آنکھوں پر فٹ کیا اور جھک کر کاغذ کو بہت قریب سے دیکھنے لگی اس کی اس حرکت سے کلاڈیو پر یہ انکشاف ایا کہ اس کی بنائی اس حد تک کمزور تھی کہ اسے لارنزو سمجھ کر ایک لمحہ کے لیے اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوا کہ اگر اس عورت نے چہرہ اٹھاکر اس کی طرف دیکھ لیا تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، عورت نے چشما اتار لیا تو جو اس کی گود میں گر پڑا۔ کلاڈیو یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کھیل کہ اب اس نہج پر پہونچ چکا تھا کہ وہ بڑھیا کو حقیقت حال سے آگاہ نہیں کر سکتا تھا اسے تو اس کی وضاحت کر دینا چاہیے تھی جب بڑھیا نے اسے زوکی حیثیت سے شناخت کیا تھا اب اگر وہ بل کی ادائیگی پیچھنے کے لئے اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کرتا تو نہ صرف اس کے فریب پر دکھ ہوتا بلکہ اس کھیل کا سارا مزه پیدا ہو جاتا جسے اس نے محض کھیل سمجھ کرہی شروع کیا تھا۔ اس کو ممکن تھا کہ بل کی ادائیگی سے بچنے کے لئے اگر وہ لارنزو کو انے سے انکار کر دیا تو بڑھیا اپے سے باہر ہوکر اس کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرا دیتی ۔ اگر وہ بل ادا کردیتا تو اسی طرح اسے کچھ رقم سے ہاتھ تو دهونا پڑیں گے۔ مگر نیزو کے بارے میں کچھ اور دلچسپ انکشاف ہونے کی کوئی توقع تھی۔ویہی باتیں سوچ رہا تھا اور بڑھیا کہہ رہی تھی۔

یہ تمہارا آخری ہفتے کابل ہے اگرچہ بڑی رقم نہیں لیکن تم جانتے ہی ہو کر میرا اور میری بیٹی کی گذرا اوقات کا وصیلہ مکان ہے جس کے کمرے ہم کرایہ پر اٹھا د یتے ہیں اور اس کے لئے چھوٹی سے چھوٹی رقم بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔لائو بل مجھے دیدو میں ادائیگی کر دیتا ہوں۔۔۔یہ لو۔بڑھیا نے ایک لمحہ ضائع کئے بیرٹبل اس کی طرف بڑھا دیا۔کلاڈیو بل لے کر دیکھنے لگا رقم واقعی زیادہ نہیں تھی گویا اس مزاق کی جو سزا مل رہی تیا د ہ زیادہ سخت نہیں تھی اس نے پرس میں سے مطلوبہ رقم نکال کر بڑھیا کے حوالے کردی۔ رقم ہاتھ میں آتے ہی بڑھیا کی بانچھیں کھل اٹھیں اور چہکتے ہوئے بولی۔اب پتہ چل گیا کہ تم واقعی کھرے آدمی ہو۔ تمہارے بارے میں جتنی بھی افواہیں سنی تھیں، مجھے یقین ہے کہ ان میں کوئی حقیقت نہیں تھی لیکن اپنی یہ بات پھر دہراونگی کہ تم نے یہاں سے جاکر اچھا نہیں کیا تھا۔زندگی میں ایسی باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔کلاڈیو کتاے ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ایک منٹ سینو رلارنزو۔۔۔بڑھیا نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اس مرتبہ اس کا لہجہ نہایت معقول تھا۔جب تم یہاں سے فرار ہوئے تھے تواپنی کچھ چیزیں چھوڑ گئے تھے جنھیں میں نے اب تک سنبھالے رکھا ہے؟ اس نے کمرے کے کونے میں ایستادہ الماری کھوئی ایک پارسل نکالا اور کلاڈیو کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی ۔ میرا خیال ہے اس میں دو انڈروئیرا در موزوں کے دو جوڑے میں کام آجائیں گے ۔ کلاڈیوکے چہرے پر دھند سی چھا گئی اس نے پارسل لے لیا اور بڑھیا کے پیچھے پیچھے دروازے کی طرف چل پڑا۔میرا خیال ہے۔ بڑھیا پورچ میں پہونچ کر بولی ۔ بہتر ہوگا کہ تم ایلا سے مل لو وہ سوریشو اسکوائر میں کہیں رہ رہی ہے تلاش کروگے تو اس کا پتہ مل جائے گا۔ کلاڈیو نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کا شکریہ اداکیا اور گیٹ سے باہر نکل گیا۔ اس نے ابھی چند گز کا فاصلہ طے کیا تھا کہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے پیکیٹ کا کاغذ پھٹ گیا۔ سنبھالنے کی کوشش کے باوجود دونوں انڈروئیر اور موزے نیچے گر گئے ۔ کلاڈیو نے میلے چکٹ موزوں جس سے اس کا دماغ پھٹا جارہا تھا اس کے چہرے کے تاثرات ہر لمحہ بدل رہے تھے کچھ دور جانے کے بعد وہ اس بدبعدار پارسل سے پیچھا چھڑانے کے لئے ادھر ادھر دیکھےے لگا۔ سڑک کے کنارے ایک جگہ گھنی جھاڑیاں دیکھ کر اس نے پارل پھینکنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ سامنے سے ایک جوڑے کو آتے دکھ کر اس نے ارادہ بدل دیا اور پارسل کوبغل میں دبائے اور انڈرویرا کی طرف دیکھا اور انھیں اٹھانے کی بجائے ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذبھی پھینک کر آگے چل دیا لیکن ابھی وہ چند قدم سے زیادہ نہیں چلا ہوگا کہ عقب سے ایک آواز سنائی دی۔۔۔سینو! تمہاری کچھ چیزیں گرگئی ہیں۔

کلاڈیو نے مر کر دیاھا۔ ایک عورت ایک دکان کے آہنی گیٹ کی سلاخوں کے پیچھے کھڑی گرے ہوئے کپڑوں کی طرف اشارہ کر رہی تھی ۔ کلاڈیو کے منہ سے گہری سانس نکل گئی اس نے جھک کر چکیی سے موزے اور انڈروئیر اٹھا کر کاغذ میں لپیٹے اور آگے چل دیا۔کاغذ پٹ جانے کی وجہ سے انڈروئیر اور موزوں سے بڑی ناگوار بو اٹھ رہی تھی۔ چوروں کی طرح ان لوگوں سے نظریں بچاتا ہوا آگے چلتا اب اسے اپنی حماقت پر بڑی شدت سے تائو آرہا تھا۔ اس کی غلط فہمی سے شخصیت بدلنے کا یہ مذاق اسے خاصا پڑا تھا۔تقریبا نفڈ میں آگے جانے کے بعد اس نے ایک پھر ادھر ادھر دیکھا اور موقع پاکر پیٹ جھاڑہوں میں دیا اس کے ساتھ ہی اس نے اس طرح اطمینان کا سانس تھا جیسے بہت بڑے بوجھ سے نجات مل گئی ہو۔اس واقےا کے تین دن بعد اتفاق سے وہ پرن اسی سڑک سے گذرا۔ شام کا اندھرےا پھیل رہا تھا ۔ اسی مکان کے گیارج کے سامنے سے گذرتے ہوئے آواز سن کر ٹھٹک گیا۔۔۔سینو رلارنزو! سینو رلارنزو گیٹ کی سلاخوں کے پیچھے دہی بڑھیا کھڑی اسے اشیا سے اپنی طرف بلا رہی تھی ۔ کلاڈیو گیٹ کے قریب پہونچ گئی۔ہیلوسینو لارنزور! کیسے ہو؟عورت آنکھیں محمچچا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اندر آجار تم اندازہ نہیں لگا سکےن کہ تمہیں دیکھ کر کس قدر خوشی ہورہی ہے۔کلاڈیو نہ چاہنے کے باوجود گیٹ میں داخل ہوگیا پورچ میں پوکنچ اس کے قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ بڑھیا ایک کرسی میں دھنس گئی۔اور پھر وہی کہانی ہونے لگی۔جو تین روز پہلے سن چکا تھا۔ کلاڈیو کا دماغ بھوک سے اڑ گیا اسے یہ سمجھنے میں دیرنہ لگی کہ اگر وہ مزید چند منٹ یہاں بیٹھا تو اسے نہ صرف لارنز و کابل اداکرنا پڑے گا بلکہ بدبودار موزے اور انڈروئیر یا اسی قسم کی کسی اور چیز بوجھ بھی برداشت کرنا پڑے گا ۔ بڑھیا ایلا کے مصاء کی داستان سنارہی تھی اس کی محویت سے فائدہ اٹھائے۔ کلاڈیو آہستگی سے اٹھا اور دبے قدموں چلتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا وہ اپنے ذہن میں اس دوسرے شخص کا خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دراصل اس بڑھیا کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔

مصنف :ایڈورڈ،ایل،پڑی

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here