مجھے بدروح سے مقابلہ کرنا پڑا

0
333
urdu-story
- Advertisement -

میں جب بھیم تال کے ہوٹل پہونچا تو مجھے ہوٹل کے منیجر نے بتایا وہ لوگ آپ کی تلاش میں آئے تھے جو ایک روز ہوٹل میں قیام کرنے کے بعد رام نگرمنڈی واپس چلے گئے ہیں اور آپ کے نام ایک چیز دے گئے ہیں منیجر نے اتنا بتاکر دراز سے ایک لفافہ نکال کر میرے ہاتھ میں رکھ دیا۔میں نے خط پڑھا تو اس میں نواب علی خان نے لکھا تاگ کہ نواب علی ہم نے تمہارے یہاں ایک دن انتظار کیا لیکن تمہارے متعلق صحیح معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہم لوگ رام نگرمنڈی کے ریسٹ ہاؤس واپس جارہے۔تم بھی وہیں آجانا خط پڑھنے کے بعد میرے لئے اسکو اور بارہ سنگھے کو ر ام نگر منڈی تک لے جانا مسلہ بن گیا ۔ چونکہ میں جس جیپ میں بھیم تال آیا تھا اس کا ایک ٹائر پھٹ گیا تھا اور ٹائر بھیم تال میں ملنا ممکن نہ تھا۔ہیں نے مجبورا جیپ کے ڈرائیور کو بھیم متال بھیج دیا اورخود ہوٹل میں آرام کرنے کے لئے لیٹ گیا، دوسرے دن ڈرائیور ٹائر لےکر واپس آگیا اور میں رام نگرمنڈی کے لئے روانہ ہوگیا۔رام نگر منڈی کے ریسٹ ہاوس پہونچا تو وہاں نواب صاحبان کو نہ پاکر پریشان ہوگیا، ریسٹ ہاؤس کے ملازم نے بتایا کہ آج صبح سویرے قریب کی آبادی سے ایک شحص آیا تھا، جس نے خبر سنائی کہ آبادی کے قریب ترائی کے جنگل میں آدم خورشیرآگیا ہے، جس نے آبادی میں گھس کربھی حملے شروع کر دئے ہیں یہ خبر سن کر نواب صاحبان اس شخص کے ساتھ روانہ ہوگئے ہیں اور آپ کے لئے کہہ گئے ہیں جس وقت تک وہ لوگ نہ آئیں آپ یہاں قیام کریں یہ سن کر مجھے غصہ آگیا اور میں سوچنے لگا کہ یہ نواب صاحبان ذرابھی کسی کی پریشانی کا خیال نہیں کرتے اگر یہ لوگ آج کے بجائے کل چلے جاتے تو مجھے یہ پریشانی نہ ہوتی میں نے مجبورا ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا اور شہر سے دو آدمیوں کو بلا کر بھینسے اور بارہ سنگھے کی کلاتروا کر محفوظ کر لی، ریسٹ ہاؤس میں مجھے آئے چار دن گزر گئے لیکن ان لوگوں میں سے کوئی واپس نہ آیا جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا گیا مجھے چونکہ یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ لوگ کس طرف گئے ہیں اس لئے میں ان کے پاس بھی نہیں جاسکتا تھا۔

پانچویں دن میں اپنے کمرے میں سویا ہوا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اس وقت رات کے گیارہ بجے تھے میں گھبرا کر مسہری سے نیچے اتر آیا اور احتیاط کے طور پر میں نے دروازہ کھولنے سے قبل آواز دے کر معلوم کیا کہ کون آیا ہے؟ جواب میں ریسٹ ہاؤس کے بوڑھے ملازم نے مجھے اپنا نام لے کر بتایا تو میں نے دروازہ کھول دیا بوڑھا ملازم میرے سامنے بے حد پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا، میں نے اس سے رات گئے آنے اور اس کی پریشانی کی وجہ معلوم کی تو وہ بڑے خوفزدہ انداز میں کہنے لگا سید صاحب میری ایک ہی لڑکی ہے جسے میں نے انتہائی لاڈ پیار سے پرورش کیا ہے اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال ہے دو گھنٹے قبل وہ بالکل ٹھیک تھی، ہمارے سات رات کا کھانا حسب معمول کھایا اور اپنی کوٹھری میں سونے کے لئے چلی گئی اس کے بعد میں اور میری بیوی بھی سونے کے لئے لیٹ گئے ابھی ہم پوری طرح سوئے بھی نہیں تھے کہ اچانک شانتی کے رونے کی آواز آنے لگی میں نے بیوی سے کہا جائو ذرا دیکھو شانتی کیوں رو رہی ہے بیوی اس کے کمرے میں گیی مگر فورا واپس آگئی اور گھبرا کر کہنے لگی پتہ نہیں شانتی کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ زمین پر اندھے منہ پڑی ہے اور بے قراری سے رورہی ہے مجھے اپنی بیوی کی بات پر یقین نہ آیا اور میں خودشانتی کے کمرے میں پہونچ گیا،میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا شانتی جو میرے پہونچ پر اوندھے منہ پڑی تھی اچانک اپنی جگہ سے اٹھی اور مجھے کہنے لگی نکل جاؤ میرے کمرے سے باہر ورنہ میں تجھے قتل کردوں گی۔تو نے میری زندگی تباہ کرکے رکھ دی ہے میں نے شانتی کوتسلی دینے کی کوشش کی تو وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے ہاتھ اوپر اٹاے کر میری طرف لپکی ، اس کے انداز سے خوف ہوگیا کوٹھری سے باہرنکل آیا اور باہرکمرے کا دروازہ بندکر لیا کرفے کے اندر سے شانتی کے چیخنے کی آوازیں آتی رہیں میں نے کچھ دیرشانتی کے ٹھیک ہونے کا انتظار کیا اور جب اس کی چیخوں میں کمی نہ آئی تو مجبورا آپ کے پاس آگیا، خدا کے لئے میری مدد کریں، آپ سید لوگ ہیں اس وقت میری بیوی خوف کے مارے کوارٹر سے باہر کھڑی ہے، جلدی چلےں ہیں اس کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے وہاں جانا چاہیے یا نہیں۔

مجھے اس طرح یہاں خاموش کھڑا دیکھ کر بوڑھا۔ اچانک جھک کر میرے پیروں پر اپنا سر رکھدیا اور روتے ہوئے۔ کہنے لگا سید صاحب میری بچی کو بچا لیجئے ورنہ میں پاگل ہوجاؤ گا میں بوڑھے کی خوشامد سے مجبور ہو کر اس کے ساتھ کوارٹر پر پہونچ گیا بوڑھے کی بیوی کواٹر کے دروانے پرکھڑی خوف سے بری طرح کانپ رہی تھی مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنا دوپٹہ اپنے سر پر ڈال لیا اور ایک طرف کو کھڑی ہوگی میں بوڑھے کے ساتھ کوارٹر میں داخل ہوگیا، چھوٹے سے صحن سے گزر کر ہم ایک کوٹھری کے دروازے کے سامنے پہونچ کر بولے غلام نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بتایا کہ شانتی اسی کوٹھری کے اندر ہے اس وقت کوٹھری کے اندر سے کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی میں نے ہمت کر کے کوٹھری کا دروازہ کھول دیا اور اندر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا، کوٹھری میں چونکہ اندھیرا تھا اس لیے مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں نے صحن سے چراغ لے لیا اور کوٹھری کے دروازے پر کھڑے ہو کر چراغ آگے کرکے کوٹھری کے اندر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا میں یہ دیکھ کر سکتہ میں آگیا کہ ایک نوجوان لڑکی بالکل ذہمی حالت میں زمین پر بیٹھی ہوئی ہے۔اس کے سر کے بال اس کے چہرے پر لہرار ہے ہیں اور وہ جھوم جھوم کر بھجن گا میں نے شانتی کہہ کر اسے آواز دی لیکن اس نے اس کی آواز پر کوئی توجہ نہ دی۔اور اسی طرح جھوم جھوم کر گاتی رہی اور میں اس وقت اس مشکل میں مبتلا ہوگیا تھا کہ ایک نوجوان کی بالکل برہنہ حالت میں کوٹھری میں بیٹھی ہے تو میں اس کے پاس کیسے جاوں ؟ میں نے بوڑھے ملازم کی بیوی سے کہا۔آپ اندر چلی جاؤ اور شانتی کو کپڑے پہنا دو لیکن اس کے بعد میں اس سے بات کر لوں گا لیکن شانتی کی ماں کو ٹھری میں جانے کو نہ ہوئی اس کے بعد میں نے بوڑھے ملازم سے کہا کہ تم ہی جاؤ اور شانتی کو زبر دستی کپڑے پہنا دو لیکن اس نے بھی وہاں جانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ سید صاحب اس وقت میری ہی تو جان کی دشمن بنی ہوئی ہے وہ پہلے ہی کہہ رہی ہے کہ ہے کہ میں تمہیں جان سے مار دوں گی ایسے میں اگر میں اس کے پاس گیا تو پتہ نہیں یہ میرا کیا حشر کرے گی۔میں نے دونوں سے ناامید ہونے کے بعد کو کھٹری میں جانے کا فاصلہ کیا ۔ حالانکہ اس وقت خوف سے میں خودبھی کانپ رہا تھا، مجھے بوڑھے اور اس کی بیوی پر بہت رحم آرہا تھامیں نے بوڑھے کو اپنے پاس بلا کر اس سے کہاکہ تم چراغ لے کر دروازے پر کھڑے ہو جاؤ میں اندر جا کر شانتی کو باہر لانے کی کوشش کرتا ہو۔

بوڑھے نے لززتے کانپتے ہاتھوں میں چراغ لے لیا اور اسکے دروازے پر کھڑا ہو گیا، میں نے دروازے پر کھڑے ہوکر شانتی کا اچھی طرح جائزہ لیا، چراغ کی ہلکی ہلکی روشنی میں وہ پر اسرار لگ رہی تھی، میں نے اپنے جوتے آہستہ سے درواز کے پاس اتار دیے۔پھر اچانک بجلی کی سی تیزی کے ساتھ شانتی کی پشت تک پہونچ گیا اور اپنے دونوں ہاتھ تیزی سے بڑھاکر اسے پکڑ لیا اور فوراً ہی ایک زور دار جھٹکا دے کر اسے زمین پر گر الیا یہ سب کچھ چند سیکنڈ میں ہوگیا، شانیف ایک جھٹکے کے ساتھ زمین پرگری لیکن اس نے اچانک اپنے سر کے بالوں کو پوری طاقت سے ایک طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعدمیں نے یہ محسوس کرلیا کہ شانی کے بال چھوٹ گئے،بال ہاتھ سےچھوٹتے ہی، مجھے یقین ہوگیا کہ اب شانین مجھ پر حملہ کردے گی، اس خیال کے آتے ہی پوری تیزی کے ساتھ کو ٹھری سے باہرنکل آیا اور جلدی سے دروازہ باہر سے بند کر دیا، کوٹربی کا دروازہ بند ہوتے ہی شانتی کے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں، میں نے پلیٹ کر دیکھا تو شانتی کے ماں باپ کوارٹر سے باہر بھاگ چکے تھے اور میں تنہاصحن میں کھڑا ہوا تھا، مجھے ان لوگوں پر بہت غصہ آیا اور میں سوچنے لگا کہ یہ لوگ کس قدرخودغرض ہیں کہ انہیں میر ذرا بھی خیال نہیں آیا۔ابھی میں واپسی کا ارادہ ترک کر ہی رہا تھا کہ اچانک شانتی کی کوٹھری کی کنڈی خود بخود کھل گئی اور دروازہ چوپٹ کھل گیا ،یہ دیکھ کر میرے لیے وہاں ٹھہرنا مشکل ہوگیا اور میں گھبرا کر کواٹر سے باہر نکل آیا جہاں شانتی کا بوڑھا باپ اور اس کی ما ں کھڑے تھے ۔وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے سید صاحب آ پ باہر کیوں آگئے میں انہیں کیا جواب دے سکتا تھا میں نے صرف اتنا کہا کہ شانتی پر کسی بدروح کا اثر ہے اس کا علاج صرف کوئی پیر فقیر ہی کر سکتا ہے تم کسی پیر کو تلاش کرو تا کہ تمہیں اس مشکل سے نجا ت مل جائے شانتی کا باپ بڑے مایوسانہ انداز میں کہنے لگا سید صاحب میں غریب آدمی ہوں یہ لوگ تو بڑی بڑی رقمیں طلب کرتے ہیں میرے پاس تو اتنا بھی نہیں ہے کہ میں کسی فقیر کو کرایہ دے کر ہی لے آوں۔ابھی ہمارے درمیان یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ شانتی قاعدے سے کپڑے پہن کر باہر آگئ اور حیرت سے ہمیں دیکھتے ہوئے بولی ماتا جی آپ یہا ں کیوں کھڑی ہیں، خیر تو ہے کیا کوئی خاص بات ہے ؟ ہم تینوں اس کی یہ بات سن کر حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ چند منٹ قبل اس کی حالت بالکل مختلف تھی اور اب وہ خود بھی گزرے ہوئے حالات سے بے خبر انپی ماں سے باہر کھڑے ہونے کی وجہ معلوم کر رہی تھی میں نے آگے بڑھ کر شانتی سے کہا، بیٹی چند قبل تیں معلوم ہے کہ تم نے اپنے گھروالوں کوکس قدر پریشان کیا ہے جس کی وجہ سے تمہارا باپ مجھ کو بلا کر لے آیا ہے۔شانی حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگی اور بولی آپ کون ہیں؟ اور یہ کیا کہہ رہے ہیں، میں اپنی کوٹر۔ی میں آرام سے سو رہی تھی، مجھے خبر نہیں کہ میں نے کس کو اور کیسے پریشان کیا اس کے بعد میں شانتی کی طرف سے اطمینان کر کے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوگیا اور جیسی ہی ریٹی ہاؤس کے لان میں پوںنا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ لان کے ایک طرف تیز روشنی ہورہی ہے اور وہاں دس بارہ افراد جمع ہیں میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا وہاں پہونچ گیا، میں نے دیکھا کہ نواب حمید اللہ خاں اور نواب افتخار علی خاں کے ساتھ دس بارہ افراد کھڑے ہیں اور درمیان میں ایک لمبا چوڑا شیر پڑا ہوا ہے، مجھے دیکھتے ہی نواب افتخار علی خان ذرا تلخ لہجے میں کہنے لگا، نواب علی تم نے تو ہم لوگوں کو پریشان کرڈالا، تمہاری تلاش میں بھیم تال گئے، وہاں بھی تم نہ ملے یہاں واپس آئے تو تم غائب تھے، اس وقت تم کہاں سے آرہے ہو؟ خیریت تو ہے میں نے جب انہیں شانتی کا واقعہ سنایا تو ان میں سے کوئی شخص بھی میری بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا اس کے بعد میں نے ان لوگوں کو بھنسیے اور بارہ سنگھے کی کھال دکھائی تو وہ لوگ خوش ہو گئے نواب حمید اللہ خاں کی ہد ایت کے مطابق شیر کی کھال اتاری گئی اور ہم لوگ شانیت کے واقعہ پر بحث مباحثہ کرنے لگے۔

میں نے ریسٹ ہاؤس کے بوڑھے ملازم کو بلا کر اس کی زبانی بھی ان لوگوں کو شانی کا واقعہ سنایا پھر بھی وہ لوگ کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے میں اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگا کہ ایک بار پراشانتی پر اسی قسم کا اثر ہوجائے تاکہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں،دوسرے دن ہم لوگ روانگی کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اچانک ریسٹ ہاؤس کا بوڑھا ملازم گھبرائے ہوئے انداز میں آیا اور مجھ سے کہنے لگا سیدصاحب ثانی کی ایک بار پرت وہی ہوگئی ہے اس نے اپنی کوٹر ی اندر سے بند کر رکھی ہے اس طرح چخیں مار رہی ہے، یہ سن کر میں خوش ہوگیا اور میں نے نواب صاحبان سے کہا آپ لوگوں کو میری بات پر یقین نہیں آتا اب آپ خود چل کر دیکھ لیں۔ ان دونوں کو ساتھ لے کر شانی کے پاس پوینچ گیا، کوٹرخی اندر سے بند اور اس میں سے شانتی کی خوفناک چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ جنہیں سن کر وہ دونوں حضرات بری طرح خوفزد ہوگئے میں نے آگے بڑھ کر کوٹرکی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو نواب صاحبان بری طرح گھبرا گئے اور میرا ہاتھ پڑخ کر اپنی طرف کھینچ لیا، میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس قدر خوف زدہ نہ ہوں میں آپ تک شانتی کو نہ آنے دوں گا، آپ کھڑے ہو کر اس کی حالت تو دیکھ لیں لیکن نواب صاحبان اس بات پر تیار نہ ہوئے ابھی میں انہیں تسلیاں دینے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اچانک کوٹھری کا دروازہ کھلا اور شانتی اپنے سر کے بال نکال کر باہر نکل آئی اس وقت اس کی حالت اس قدر خوفناک تھی سب اسے دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے اسے صحن میں کھڑے ہو کر گاتے ہوئے رقص شروع کردیا، شانتی اس طرح ناچ رہی تھی اس کے جسم کا ہر حصہ بل کھا رہا تھا۔ہم سب خوف کے عالم میں اس طرف کھڑے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے،دیکھتے ہی دیکھتے عروج پر پہونچ گیا پھر اچانک شانتی زمین پر بڑے زور سے گر پڑی، اور بے ہوش ہوگئی،اور شانتی کے ماں باپ جو خوفذدہ تھے اس کے پاس جانے کے لیے تیار نہ تھے میں نے ہمت کر کے اسے بمشکل تمام زمین سے اٹھایا اور پڑی ہوئی چارپائی پر لٹا دیا،اس وقت شانتی کا پورا جسم کانپ رہا تھا، میں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھنٹیے مارے اور وہ ہوش میں آگئی اور جلدی جلدی اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے بیٹھ گئی اس حالت دیکھ کر نواب صاحبان نے میری بات پر یقین کرلیا اور شانتی کے باپ کو شانتی کے باپ کو کچھ رقم دیتے ہوئے اس کو فوری طور پر اسے کسی پیر فقیر کو دکھایا جائے اس طرح وہ لوگ رام منڈی روانہ ہوگئے۔

- Advertisement -

مصنف :سید نواب علی

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here