ڈنمارک کے جزیرہ فیونن کی سڑکوں پر گھومنے پھرنے والے لوگ روزانہ نیلے رنگ کا ایک چھوٹا سا ٹرک آتے جاتے دیکھتے ہیں۔ انہیں ڈرائیور کے برابرہی سیاہ رنگ کا ایک بڑا کتا بیٹھا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ اپنی متجسس نظروں سے ڈرائیور کو یوں تکتا ہے جیسے اس کی ہدایات غور سے سن رہا ہو۔ جزیرہ فیونن کے باشندے تعجب اور شوق سے پلٹ پلٹ کر اس ٹرک کو دیکھتے ہیں ۔بعض لوگ جو اسے پہلے سے پہچانتے ہیں ، وہ توصرف مسکرا کررہ جاتے ہیں لیکن نئے لوگوں کے لئے یہ خاصی حیرت کا باعث بن جاتا ہے جب وہ ٹرک کی پشت پرلٹکا ہوا ایک چھوٹا سا بورڈپڑھتے ہیں جس پر خوشنما حروف میں لکھا ہے سراغرساں کتے رولف کی خدمات آپ کے لئے حاضر ہیں۔ اگر خدانخواستہ آپ کی کوئی قیمتی شے گم ہوگئی ہے تو رولف اسے قلیل معاوضے پر تلاش کر کے آپ کی زحمت ختم کر سکتا ہے ، ہمیں اس فون نمبر پرمطلع کیجئے۔چنانچہ جلی ہندسوں میں رولف کا ٹیلی فون نمبر بھی درج ہوتا ہے۔ یہ بورڈ دراصل رولف کتے کا بزنس کارڈ ہے جس کی مدد سے وہ اپنا تعارف کرانے کے بعد کام حاصل کرتاہے۔ جیسا کہ بورڈ نے بتایا ، کتنے کا کام لوگوں کی کھوئی ہوئی چیزیں تلاش کرتا ہے جسے دو سات سال سے نہایت خوش اسلوبی اور مہارت سے سرانجام دے رہا ہے۔ رولف کے مالک کا نام سیونڈ اینڈرسن ہے جس کی زیر ہدایت کتا کام کرتا ہے۔ اس تمام عرصے میں کتا تقریبا ایک لاکھ پچاس ہزار پونڈ مالیت کی قیمتی اشیاء تلاش کر کے مالکوں کو واپس پہنچا چکا ہے۔ اس گم شدہ سامان میں بیش قیمت گھڑیاں سونے کے زیورات ، موتیوں کے ہار، کرنسی نوٹوں سے بھرے ہوئے بٹوئے بالوں میں لگانے والی قیمتی پنیں ، گائیں بطخیں مرغیاں اور کھوئے ہوئے کتے تک اس نے تلاش کئے ہیں ان تمام چیزوں کو کتے نے مختلف مقامات سے ڈھونڈا ، کہیں اسے پر ہجوم بازاروں میں گھومنا پڑا کبھی وہ پانی میں تیرکر چیزیں تلاش کرتارہا۔ زمین دوزسرنگوں میں بھی گیا، حتی کہ برف کے تودوں میں بھی اس نے سونگھ کر گمشدہ اشیا کا پتہ چلایا۔ اس کی ناک سراغ رسانی میں کافی مدد دیتی ہے۔
رولف کی عر صرف دس سال ہے اس کے مالک اور کاروبار کے ساتھی اینڈرسن نے ایک چھوٹے سے گاوں گلمیس برگ میں پہلے کباڑئیے کی دوکان کھول رکھی تھی لیکن جب رولف کا کاروبار چل نکلا ، اورسال بھرمیں اس کے پاس چھ ،سات سوگاہک آنے لگے تو اینڈرسن کی دکان بھی چمک اٹھی۔ اوراس کا کاروباروسیع ہوتا گیا ، اور اب اس نے دکان کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لئے ایک ملازم بھی رکھ لیا ہے کیونکہ اینڈرسن کاوقت تو زیادہ ترکتے کے ساتھ ہی مختلف مہمات میں صرف ہوتاہے۔اینڈرسن کے گھر میں جونہی ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے رولف مستعد ہوجاتا ہے۔ وہ بھونک کر اینڈرسن کو آگاہ کر تا ہے کہ جلدی سے ٹیلی فون سنو ٹیلی فون سننے کے دوران میں اگر اینڈرسن کے منہ سے گمشدہ بٹوے گھڑی ،قلم یا کسی اور شے کا نام نکل جائے تو پھر رولف کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔وہ ان تمام چیزوں کے ناموں سے خوب واقف ہوچکا ہے ٹیلی فون سننے کے بعد وہ دونوں کام سرانجام دینے کے لئے باہر نکل جاتے ہیں۔ راستے بھر اینڈرسن بار بار اس چیز کا نام زور زور سے دہراتا رہتا ہے تو کھوئی گئی ہے۔ اور جسے تلاش کرنے کا کام رولف کے ذمے ہے مثلا کسی کی گھڑی گم ہوگئی ہے تو اینڈرسن راستے بھر کتے کو گھڑی کے متعلق ہدایتیں دیتا جاتا ہے اور کتا سمجھنے میں کبھی غلطی نہیں کرتا بعض اوقات تو اسے گمشدہ چیز سمجھانے کے لئے ویسی ہی کوئی شے دکھائی بھی جاتی ہے ۔مثلا بٹوا کھویا گیا تو ویسا ہی بٹوا کتے کو دکھا دیا جا تا ہے اور کتا سمجھ جاتا ہے کہ اسے بٹوا تلاش کرتا ہے۔جب رولف اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں گمشدہ چیز ملنے کا امکان ہے تو کتے کی سراغرسانی شروع ہو جاتی ہے وہ پورے علاقے میں ہرگوشے اور ہر کونے کو سونگھتا اور دیکھتا بھالتا ہے زمین کا چپہ چپہ تلاش کرتا ہے اور آخر کار گمشدہ چیز کا سراغ لگالیتا ہے چیزیں اکثر ایسے مقامات سے ملتی ہیں ،جہاں انکے ملنے کا امکان ہی نہیں ہوتا تین سال پہلے کا واقعہ ہے، ایک مقامی مالدار تاجر کی گھڑی جنگل میں کہیں گر گئی۔ وہ اس روز جنگلی سور کا شکار کرنے جنگل میں گیا تھا۔ پہلے تو اس نے خودہی اپنی گھڑی تلاش کرنے کی کوشش کی ، لیکن جب ناکام رہا تو اینڈرسن کو ٹیلی فون کیا ۔ اس وقت تک سورج غروب ہوچکا تھا لیکن اینڈرسن نے بیٹری سنبھالی اور کتے کولے کرجنگل میں چلاگیا جنگل زیادہ وسیع نہیں تھا اور صرف ۱۶ سو ایکڑ کے رقبے میں پھیلا ہوا تھا مگر پھر بھی وہاں رات کے وقت ایک چھوٹی سی گمشدہ گھڑی کو تلاش کرنا کا رے دارد تھا لیکن کتے کا کمال دیکھئے کہ تین گھنٹے ہی میں اس نے نہ صرف گھڑی ڈھونڈھ لی بلکہ شکاری صاحب کی بندوق سے جو کارتوس نکلے تھے ان کے ایک درجن خول بھی اس نےلاکرسامنے ڈال دئیے۔ اسی طرح مویشیوں کی نمائش کے میدان میں ایک شخص کو اس زور کی چھینک آئی کہسونے کا نقلی دانت نکل کرگرپڑا۔ اس نے بہت تلاش کیا ، نہ ملا۔ آخررولف کوبلایا گیا کتے نے چند یی لمحوں میں سونے کادانت تلاش کرلیا حالانکہ سیکڑوں آدمی گھوم رہے تھے اور چھوڑا سا دانت ملنا محال نظر آتا تھا۔ ایک مرتبہ کسی کسان کا بٹوا کھیتوں میں گرگیا۔ اس میں ایک ہزارکراوں کے کرنسی نوٹ اور چند سکے بھی تھے۔ رولف نے نہ صرف بٹوا ڈھونڈھ کردیا بلکہ چند اور سکے بھی کھیتوں سے نکال کر دیتے جو خدا جانے کب کے وہاں پڑے تھے۔ موگنز پیڈرسن نامی ایک شخص کے پاس پرانے زمانے کی ایک قیمتی گھڑی تھی، جو اس کی دادی نے
اسے دی تھی۔ پیڈرسن کی گیارہ سالہ لڑکی نے ایک روزیہ گھڑی دیکھ لی اورضد کی کہ میں اس کے ساتھ کھیلوں گی۔ پیڈرسن نے گھڑی لڑکی کو دے دی لیکن بعد میں پتہ چلاکہ لڑکی کے باہر میدان جہاں گھاس کا ایک بہت بڑا ڈھیر پڑا تھا۔ وہیں گھڑی گم کردی ہےتقریبا پچاس بچے گھڑی کو اس گھاس کے ڈھیر میں دھونڈتے رہے۔ انہوں نے ساری گھاس چھان ماری لیکن گھڑی نہ ملی،دوسرے روز پولیس اپنا سراغرساں کتا لے کرآئی لیکن وہ بھی ناکام رہا پھر ایک اورکتا منگوایا گیا، اس سے بھی کچھ نہ ہوا۔ اس بات کو نودن گزر گئے پیڈرسن رولف کے سپردیہ کام کیا۔ رولف نے موقع پر پہنچتے ہی گھاس کے ڈھیر کو نظر انداز کر کے ادھرادھر۔۔ تفتيش۔۔ شروع کر دی۔ گھاس کے ڈھیر سے کچھ فاصلے ہی پر ایک چھوتا سا گڑھا تھا اور گھڑی اس میں پڑی ہوئی تھی۔ رولف منٹوں میں گھڑی تلاش کر کے مالک تک پہنچا دی۔ بات دراصل یہ ہوئی کہ کسی بچے نے تھوڑی سی گھاس اٹھا کر اس گھڑھے میں ڈال دی تھی، اورگھڑی بھی اسی گھاس میں تھی لیکن کسی نے گڑھے میں دیکھنے کی طرف توجہ کی۔ایک کسان ایرکنی خشک گھاس جمع کرنے کی مشین اپنے کھیت میں چلا رہا تھاکہ اس کا بٹوا گرگیا، اس نے بہت ڈھونڈاھا بٹوا نہ ملا۔آخررولف کوبلایا گیا۔ رولف نے ایرکسن کے کھیت کی طرف کوئی توجہ نہ کی ، بلکہ باڑ پھلانگ کردوسرےدو کھیتوں کو پار کر کے تیسرے کھیت میں جا پہنچا۔ جہاں گھاس کاٹنے کی مشین کھڑی تھی۔ رولف نے اسی مشین کے ایک حصے میں پھنسا ہوا بٹوا نکال لیا۔ ایرکسن کے پڑوسی کسان مشین اس سے مانگ کر لائے تھے۔ اوربٹوا اسی میں پھنسا ہوا وہاں تک پہنچ گیا تھا۔
رولف اکثر گمشدہ چیزیں بھی پالیتا ہے جن کے متعلق چیزوں کے مالکوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کھوچکی ہیں۔ ایک مرتبہ سکاوٹوں کا ایک گروہ گاوں میں رات بسر کرنے آیا۔ گھاس کے میدان میں بنی ہوئی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں انہیں ٹھہرایاگیا ۔ دوسرے روزان میں سے کسی کا بٹوا کھویا گیا۔ بارہ تیرہ اسکاوٹوں نے اسے تلاش کیا لیکن ناکام رہے۔ آخررولف کوزئمت دی گئی۔ اس عجیب وغریب سراغرساں کتے نے چشم زون میں نہ صرف بٹواپالیا بلکہ دوسری کئی چیزیں بھی تلاش کردیں جن میں چارٹار چیں چار قلم کوٹ کا ایک بٹن ، ایک منہ سے بچانے والی سیٹی اور ایک جوتا وغیرہ شامل تھے۔ایک مرتبہ توبڑا ہی د لچسپ واقعہ پیش آیا۔ رولف کو ایک گمشدہ گھڑی تلاش کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ کافی دیر کی جستجو کے بعد بھی گھڑی نہ ملی۔ اینڈرسن باربار کتے کو دھمکاتا تھا کہ گھڑی تلاش کرو ، لیکن گھڑی نہ ملی۔ آخر نہایت ناراض ہوکراینڈرسن نے رولف سے کہا۔ تمہیں گھڑی لانی ہی پڑے گی ۔ یہ سنتے ہی کتا ایک طرف کو چل پڑا، اور چند لمحہ بعد ہی فاتحا نہ انداز میں وہ ایک گھڑی منہ میں دبائے ہوئے واپس آ گیا۔ کتے کے پیچےب پیچےت ایک نیم برہنہ شخص اسے گالیاں دیتا ہوا آ رہا تھا ۔قریب آکر ایڈرسن سے کہنے لگا۔
صاحب! آپ کے اس موذی کتے نےمجھے بے حد پریشان کیا ہے۔میں اس وقت کپڑے پہن رہا تھا اور میری گھڑی میزپرپڑی تھی ، جب اس بد ذات کتے نے دروازے سے جھانکا اورمیرے روکتے روکتے گھڑی منہ میں دبا کر بھاگ نکلا لائیے ، گھڑی واپس کیجئے اور کتے کو براہ کرم باندھ کر رکھئے۔کتے کی ذہانت اور سراغرسانی کی داستانیں جب میرے كانوں تک پہنچیں ، تومیں نے خیال کیا کہ شاید یہ بھی ہانزکرسچین اینڈرسن کی پریوں کی کہانیوں سے چرائی گئی ہیں۔ بہرحال یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ رولف کے آقا اینڈسن کاکوئی تعلق پریوں کی کہانیوں والے اینڈرس سے نہیں ہے سوائے اسکے کہ وہ پیدا وہیں ہوا تھا ،قصبہ اوڈنس میں جو اینڈرسن کے گاوں سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔ میں اس سے ملاقات کے لئے گیا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک منزلہ مکان میں رہتا ہے۔ گول چہرے والا موٹا تازہ شخص ہے عمر کوئی پچاس کے لگ بھگ ہوگی انہوں نے میری بڑی خاطر تواضع کی۔ کھانے کے دوران میں ہم رولف کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔جو قریب ہی بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کبھی کبھی وہ فضا میں غیرمرئی اشیا کو گھورنے لگتا اس وقت مجھے کتے کی نظریں نہایت پراسرار معلوم ہونے لگتی تھیں۔ بیک وقت وہ مضطرب اور پرسکون دکھائی دیتا تھا۔اسی اثنا میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ، کتا جھپٹ کرفون کی طرف گیا اور جب تک اینڈرسن ریسیور کان سے لگائے رہا ،کتا اس کے قریب ہی کھڑا رہا۔ پھر میں نے اینڈرسن کو کہتے سنا۔کیا کہا، بٹوا کھوگیا ہے؟ پانچ سو کر اون کے نوٹ تھے اس میں اچھا میں رولف کولے کرآتا ہوں کامیابی توخدا کے ہاتھ میں ہے۔ میں یقینی طور کچھ نہیں کہے سکتا۔انڈرسن نےمجھے بھی اس مہم پر چلنے کی دعوت دی۔ ایک گھنٹے بعد ہم پرشہر فریڈرسیا کے نزدیک ایک پارک میں پہنچے جہاں زراعتی مشینری فروخت کرنے والی کمپنی کے ایک ایجنٹ جین سن سے ملاقات ہوئی۔اسی پارک میں سفیدے کے درختوں کے جھنڈ میں دس روز قبل جین سن کا بٹوا گر گیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک سیکڑوں ہزاروں لوگ ادھر سے گزر چکے تھے اور ایک بار بارش بھی ہوئی تھی ۔ آدھ گھنٹے تک رولف اس علاقے میں گھوم پھرکر بٹوے کوڈھونڈھتا رہا۔ کھی وہ کسی طرف جاتا اور کبھی واپس آکر دوسری طرف چلاجاتا لیکن بٹوا نہ ملا۔ مایوس ہو کر ہم پارک کے ایک اور حصے میں گئے۔ جہاں بارش کی وجہ سے زمین دلدلی ہوگئی تھی۔ رولف چپے چپے کو بے چینی سے سونگھتا ہوا چکرلگارہا تھا۔ اینڈرسن بار بار اس کی ہمت بندھاتارہا۔ دفعتہ ایک کھائی میں کود کررولف نے تیزی سے نرم زمین کھودنی شروع کردی جب یہاں کچھ نہ ملا تو وہ چند فٹ آگے بڑھ کر پھرپنچوں سے زمین کھو دنے لگا اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چھلانگ مارکراوپر چڑھ آیا۔ فخرسے تنی ہوئی گردن اٹھا کر اس نے اپنے آقا کو دیکھا اور منہ میں دبا ہوا نٹوا اس کے قدموں میں لاکر رکھ دیا۔
ہمارے سب کے منہ سے خوشی کا نعرہ بلند ہوا۔ انتہائی حیرت انگیز کارنامہ تھا تین لاکھ مربع فٹ کے علاقے میں جہاں درختوں کے گھنے جھنڈ کھڑے ہوں، ایک کتے کا دلدلی زمین پر دس روز پہلے کا گمشدہ بٹوا اس طرح تلاش کرلیناکس قدر تعجب کا باعث بن سکتا ہے ؟ آخر میں نے یہ سوال اینڈرسن سے پوچھ ہی لیا کہ آخر کتے کو کس طرح پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں چیز وہاں پڑی ہے اس نے جواب دیا کہ اس کا راز کتے کی ناک میں پوشیدہ ہے جو خود بخود گمشدہ چیزوں کی بوسونگھ کران کا سراغ لگا لیتی ہے۔ اینڈرسن نے رولف کاتعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میں نے اسے اپنے والد سے لیا تھا۔ ان کے پاس اسی نسل کے پانچ پلے اور تھے لیکن ان میں رولف کا سربڑا اور سونگھنے کی حس بہت تیز تھی۔ چنانچہ اسے میں نے لے لیا۔ جب یہ پانچ ماہ کا تھا تو اس نے پہلا کارنامہ دکھایا میرے ایک پڑوسی کا بٹوا گم ہوگیا تھا۔ وہ اس نے تلاش کر کے دیا۔ اسی وقت میں نے سوچاکہ اگررولف کو تربیت دی جائے تووہ اچھا سراغرساں ثابت ہوسکتا ہے میں نے ایک سال تک اس پر خوب محنت کی۔ آخریہ اس قابل ہوگیاکہ گمشدہ چیز تلاش کر کے لوگوں تک پہنچا دے۔ گویا اس نے سراغرسانی کو بطور پیشے کے اپنا لیا۔ اور خوب کام چل نکلا۔ یہاں تک کہ مجھے ایک ٹرک خریدنا پڑا مختلف نوعیت کے کاموں کے لئے فیسیں بھی مقرر کی گئی ہیں۔ پہلے پہل میں نے یہ مشغلے کے طور پر شروع کیا تھا، لیکن کام بڑھ گیا تو معاوضہ بھی لینے لگا۔
اینڈرسن کے گھر میں اول تو کبھی کوئی چیز گم ہوتی ہی نہیں۔ اگر ہوبھی تورولف بغیرحکم کے چیزیں تلاش کر کے ان کو مناسب جگہ پر رکھ دیتا ہے۔ جوتوں کے تسمے گھڑیوں کے فیتے، کوٹ کے بٹن، سوئیاں، چھوٹے چھوٹے سکے اور برتن وغیرہ کبھی ادھر سے ادھر نہیں پاتے۔ اینڈرسن نے کہا۔ دیکھےھ میں ابھی آپ کو تماشا دکھاتا ہوں ۔ اس نے آواز دے کردوسرے کمرے سے کتے کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ وہ قریب ہی بیٹھ جائے کتے کے آنے سے پہلے ہی اینڈرسن نے میز سے ایک چمچہ اٹھاکرفرش پر ڈال دیا تھا۔ کتا آیا اور ہمارے قریب ہی بیٹھ گیا ہم باتوں میں مصروف رہے جونہی اس کی نظر چمچے پر پڑی، وہ اٹھا، منہ میں چمچہ دبایا۔ اور اگلے پنجے میزپر رکھ کر چمچہ منہ سے نکا لکرمیزپررکھدیا۔مجھے پتہ چلا کہ بعض سرکاری مقدمات میں بھی رولف کو بطورگوه عدالتوں میں پیش کیاگیا چونکہ اس نے چوری کے مال کا بھی سراغ لگایا تھا۔ پولیس افسران اس کے کارناموں کو دیکھ کر نہایت حیران ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کتے میں جوخصوصیات ہیں وہ نہایت ہی عجیب ہیں، کتے اور اس کے مالک میں بڑاگہرا قلبی اور ذہنی تعلق ہے۔ اگر اینڈرسن ذہنی یا جسمانی طورپرتھکا ہوا ہوتوكتا بھی کاہل ہوجاتا ہے خوداینڈرسن کو یقین ہے کہ اگروہ مستعدی سے اپنا کام کر سکتا ہے۔بعض اوقات جبکہ رولف کسی مہم میں ناکام رہتا ہے تو اینڈرسن کی پریشانی کی حد نہیں رہتی۔ وہ اپنا چین اور آرام حرام کر کے بار بار اسی جگہ گھومتا رہتا ہے جہاں گمشدہ چیز تلاش کرنی ہے۔