ڈُگڈُگی

0
130
Urdu Afsana Stories
- Advertisement -

شہرکے نکڑ پر ڈُگڈُگی بج رہی تھی۔ لوگ ایک ایک کرکے ڈُگڈُگی بجانے والے کے ارد گرد جمع ہوتے جا رہے تھے۔

ڈُگڈُگی بجانے والا سر سے پیر تک ایک مخصوص قسم کے لباس میں ملبوس ایک لحیم شحیم آدمی تھا ۔اس کے سر اور داڑھی کے بال تماشائیوں کے بال سے مختلف تھے۔ رنگ برنگ کے گول گول پتھروں سے بنی ایک لمبی مالا اس کے گلے میں لٹک رہی تھی۔ تقریباً سبھی اُنگلیوں میں رنگین پتھروں کے نگ کی انگوٹھیاں تھیں۔ ایک ہاتھ میں ایک پرکشش ڈُگڈُگی تھی جو مسلسل رقص کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ میں چمچاتی ہوئی بانسری جس کے منھ والے سوراخ کے ذرا نیچے سرخ رنگ کے پھندنے لٹک رہے تھے۔

ڈُگڈُگی والے نے ایک جھٹکے کے ساتھ ڈُگڈُگی بند کر دی۔ ’’ہاں تو قدردان! آپ نے سانپ اور نیولے کی لڑائی کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا۔ آج ہم آپ کو آنکھوں سے دکھائےگا کہ سانپ اور نیولے کی لڑائی کیسی ہوتی ہے؟ نیولا کس طرح سانپ کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے؟—اورپھر ان ٹکڑوں کو ایک جڑی کی مدد سے کس طرح جوڑ دیتا ہے؟——قدردان یہ انوکھی لڑائی ہم آپ کو دکھائےگا اور ضرور دکھائےگا۔

لڑائی دکھانے سے پہلے ہم ہندو بھائی سے پرارتھنا کرتا ہے کہ وہ ایک بار پریم سے بولیں——شنکر بھگوان کی جے—— جے۔ اے،ے،ے،ے،ے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’جے‘‘کی آواز آس پاس کے ماحول میں گونج گئی۔

’’اور اپنے مسلمان بھائی سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ایک بار دل سے نعرہ لگائیں——نعرۂ تکبیر——اللہ ہواکبر۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔اللہ ہواکبر کی صدائیں بلند ہوکر چاروں طرف پھیل گئیں۔

- Advertisement -

لوگوں کی بھیڑ دگنی ہو گئی۔

ڈُگڈُگی والے نے بانسری کو منھ سے لگا لیا اور ڈُگڈُگی والے ہاتھ کو زور سے جھٹکا دے کر آہستہ آہستہ ہلانے لگا۔

ڈُگ ،ڈُگ،ڈُگ،ڈُگ—ڈُگ—ڈُگ

اُس کے ساتھ بانسری بھی ڈُگڈُگی کی سنگت کرنے میں مصروف ہو گئی۔

ڈُگڈُگی والا بانس کی کھپچیوں سے بنی ہوئی ایک پٹاری کا پھیرا لگانے لگاجس میں ٰسانپ بند تھا۔ چند پھیروں کے بعد بانسری کی آواز بند ہو گئی۔ ڈُگڈُگی بجتی رہی۔ پھر ڈُگڈُگی کھنک کھنک کر خاموش ہو گئی۔

’’دیکھیے قدردان! ہوشیار ہو جائیے۔ اَب ہم سانپ کو نکالےگا۔‘‘

ڈُگڈُگی والا پٹاری کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ لوگوں کے بےتاب نگاہیں پٹاری پر مرکوز ہو گئیں۔

چند لمحے بعد اس نے پٹاری کا ڈھکن ذرا سا اوپر اٹھا دیا۔

مجمع سے کئی گردنیں آگے کو جھک گئیں۔

’’ہاں، تو قدردان !یہ سانپ وہ نہیں جسے آ پ دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ سانپ سائیبر یا کے جنگل میں رہتا ہے۔ یہ ایک وی چتر سانپ ہے۔ اس کے کئی منھ اور کئی سر ہیں۔ اس کے ایک سر پر ایک خوبصورت ساتاج بھی ہے ——اچھا تو لیجیے اب ہم ڈھکن کو اُٹھاتا ہے۔

اس نے ڈھکن کو ذرا اور اوپر اٹھاکر اپنی آنکھیں پٹاری کے اندر ڈال دیں۔ لوگوں کی گردنیں آگے کو جھک گئیں۔

’’کیا؟ ——ابھی نہیں؟‘‘

’’قدردان ناگ راج کا کہنا ہے کہ وہ ابھی موڈ میں نہیں ہیں۔‘‘

اور اس نے ڈھکن کو گرا دیا۔

’’بچہ لوگ ذرا زور سے تالی بجاؤ تاکہ ناگ راج مست ہوکر موڈ میں آ جائیں۔‘‘

تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے آسمان دہلنے لگا۔

تالی بجانے والوں میں کچھ لوگوں کے علاوہ چھوٹے بڑے سبھی لوگوں کے ہاتھ رکے تو ڈُگڈُگی والے نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں، کچھ زیادہ مزا نھیں آیا۔ ذرا اور زور سے بجائیے۔‘‘

اِس بار پہلے سے زیادہ زور کی گڑگڑاہٹ ہوئی

بھیڑ اور بڑھ گئی

بانسری بجاتا ہوا ڈُگڈُگی والا ایک تھیلے کے پاس جاکر رُک گیا۔ بانسری کو روک کر اس نے ڈُگڈُگی والے ہاتھ کو تین بار مخصوص انداز سے جھٹکا دیا اور تینوں بارایک خاص طرح کی آواز نکال کر ڈُگڈُگی خاموش ہو گئی۔ اس نے ڈُگڈُگی زمین پر رکھ دی اور تھیلے کامنھ سرکاکر اپنا ایک ہاتھ اس میں ڈال دیا۔

لوگوں کی نظریں تھیلے میں داخل ہونے کی کوشش میں مصروف ہو گئیں۔ چند لمحے بعد ڈُگڈُگی والے کا ہاتھ تھیلے سے جب باہر آیا تو مٹھی بند تھی۔ اس نے مٹھی کو آسمان کی طرف لے جاکر کھول دیا۔ رنگین پتھروں کے کئی چوکور ٹکڑے اُچھل کر زمین پر آ گرے۔

زمین سے ایک پتھر اٹھاکر ڈُگڈُگی والے نے ہتھیلی پر رکھ لیا۔

’’قدردان! آپ اسے دیکھ رہے ہیں ؟——یہ آپ کو پتھر معلوم ہو رہا ہوگا۔

لیکن قدردان! یہ پتھر نہیں، یہ ایک بہومولیہ وستو ہے۔ ایک بیش بہا چیز ہے۔ اس میں اَن گنت گنڑ چھپے ہوئے ہیں۔ اس کے بہت سارے فائدے ہیں۔

آپ جاننا چاہیں گے یہ کیا چیز ہے اوراس میں کیا کیا گنڑ ہیں؟ تو قدردان! ہم آپ کو بتائےگا اور اس کا فائدہ بھی دکھائےگا لیکن ابھی نہیں پہلے ہم آپ کو سر پر تاج والے سانپ اور نیولے کی لڑائی دکھائےگا۔‘‘

اس نے ڈُگڈُگی کو پھر اسی مخصوص انداز سے جھٹکا دیا اور آہستہ آہستہ ہاتھ ہلاتا ہوا نیولے کی طرف بڑھ گیا۔

’’ہاں، تو بھائی نیولے راجہ! لڑائی شروع ہو جائے۔‘‘

ڈُگڈُگی والا نیولے سے مخاطب ہوا۔

کیا ——؟ نہیں؟ لیجیے صاحب یہ ابھی منع کر رہے ہیں۔

’’کیوں؟ کیا دودھ پئیں گے؟‘‘

’’قدردان! یہ پہلے دودھ پینا چاہتے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ ہم آپ کو پہلے دودھ پلائےگا۔‘‘

اس نے تھیلے کے پاس رکھی ہوئی دودھ کی پیالی کو اٹھاکر نیولے کے پاس رکھ دیا۔

’’قدردان! گھبرائیے نہیں، بس چند ہی منٹ بعد ہم آپ کو لڑائی دکھائےگا۔‘‘

اس نے بانسری منھ سے لگالی۔

سپیرا بین بجا———بین بجا————ناچوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی مدھر دھن بانسری سے نکلنے لگی۔

’’جی ہاں! اس پتھر کے بارے میں بھی بتائےگا اور اس کا فائدہ بھی دکھائےگا۔‘‘

مجمع میں کھڑے ایک شخص کی طرف اس نے اپنی توجہ مبذول کر دی۔

’’ہاں، ہاں، ابھی بتائےگا۔‘‘

اس نے ایک پتھر خلامیں اچھال کر ہتھیلی پر روک لیا۔

’’قدردان! ہم نے بتایا تھا کہ یہ پتھر نہیں ہے۔ ایک بہومولیہ وستو ہے، ایک بیش بہا چیز ہے۔ اس میں اَن گنت گنڑ چھپے ہوئے ہیں——لیجیے ہم آپ کو اس کاگنڑ بتاتا ہے۔

گنڑ نمبر ایک ——اگر کسی کو زہریلاسے زہریلا سانپ نے کاٹ لیا ہو ——یہ پتھر تریاق کاکام کرےگا۔ جس جگہ سانپ نے کاٹا ہو اس پتھر کو پانی میں ڈبو کر وہاں رکھ دیجیے۔ یہ چپک جائےگا اور اس وقت تک چپکا رہےگا جب تک شریر میں زہر ہوگا۔ جب یہ پتھر اس جگہ کو چھوڑ دے تو سمجھنا شریر سے زہر نکل چکا ہے۔

گنڑ نمبر دو ——کسی آدمی کو بچھونے ڈنک مار دیا ہو اور وہ آدمی زمین پر دہا ڑیں مار مارکر لوٹ رہا ہو آپ اسے پتھر پر رگڑ کر چپکا دیں، سارا زہر منٹوں میں غائب اور لوٹ پوٹ آن کے آن میں ختم ——

گنڑ نمبر تین ——

مجمع سے ایکے دکے لوگ نکل کر جانے لگے ——

قدردان! جائیے نہیں——ابھی کھیل دکھائےگا——آپ کھیل دیکھ کر جائیےگا۔ آپ کو بہت مزا آئےگا۔ لیجیے ہم ابھی دکھاتا ہے——

ڈُگڈُگی بجاتا ہوا وہ نیولے کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے نیولے کی رسی ڈھیلی کر دی۔ نیولا پٹاری کے قریب پہنچ کر چکر کاٹنے میں مصروف ہو گیا۔ ڈُگڈُگی والا پٹاری کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ڈُگڈُگی جھٹکے کے ساتھ کھنکی اور خاموش ہو گئی۔

اس نے پٹاری کا ڈھکن اٹھاکر اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ لوگوں کی گردنیں ایک بار پھر آگے کی طرف جھک گئیں۔

کچھ توقف کے بعد ادھ کھلی پٹاری سے اس نے جب اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اس میں کتھئی رنگ کے سانپ کی بل کھاتی ہوئی ایک دم تھی۔

قدردان! یہ سانپ بہت خطرناک ہے۔ اس کے کاٹے ہوئے آدمی کو صرف ایک چیز بچا سکتی ہے اور وہ ہے یہ فقیری دوا۔

اس نے پتھر کے چوکور ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔

جس بھائی کو شبہ ہو اور وہ آزمانا چاہتے ہوں وہ ہمارے پاس آ جائیں۔ ہم اس سانپ سے ان کو کٹوائےگا اور اس فقیری دوا کی مدد سے زہر کو منٹوں میں زائل کر دےگا۔

ہے کوئی ہمت والا! ہے کوئی جواں مرد! ہے کوئی بہادر نوجوان تو نکل کر سامنے آئے اور اس فقیری دوا کو آزما کر دیکھے۔

کوئی نہیں ہے۔ خیرک وئی بات نہیں۔ ہم ابھی آپ کو اس کا ایک نمونہ دکھاتا ہے۔

سانپ کے دم کو چھوڑ کر وہ تھیلے کے پاس آ گیا اور تھیلے سے اس نے ایک سرخ رنگ کی ٹکیہ نکال لی۔

’’قدردان! اس ٹکیہ کو ہم اس گلاس میں ڈالتا ہے۔اس نے پانی سے بھرے ہوئے گلاس میں ٹکیہ ڈال دی۔

’’قدردان! دیکھیے یہ پانی خون ہو گیا۔ اس کا رنگ خون کی طرح بالکل سرخ ہے۔ اب اس گلاس کو ہم اس پٹاری میں رکھےگا اور سانپ اس میں اپنا منھ ڈالےگا اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کا رنگ کیسا ہو جاتا ہے؟‘‘

اس نے گلاس کو پٹاری کے اندر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس نے پٹاری سے گلاس کو باہر نکالا توخون کا رنگ کالا ہو چکا تھا۔

’’قدردان! جس شخص کویہ سانپ کاٹ لیتا ہے اسی طرح اس کا خون کالا ہو جاتا ہے۔ اب ہم آپ کو اس فقیری دوا کاکمال دکھاتا ہے۔‘‘

اس نے ایک پتھر کا ٹکڑا اٹھا کر گلاس میں ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گلاس کے پانی کا رنگ پھرخون میں تبدیل ہو گیا۔

’’قدردان! دیکھا آپ نے اس فقیری دوا کا کمال۔ یہ تو اس کا صرف ایک کمال ہے۔ ایک گنڑ ہے۔ ایسے ایسے تو اس میں بیسیوں گنڑ چھپے ہوئے ہیں۔ اس کے چند اور فائدے ہم آپ کو بتاتا ہے ———

کسی کو مرگی کا دورہ پڑ گیا ہو۔ آپ اس ٹکیہ کو اس آدمی کی ناک کے پاس لے جائیں فوراً ہوش میں آ جائےگا اور اگر مرگی کا مریض اسے اپنے پاس رکھے تو اسے کبھی دورہ نہیں پڑےگا۔

اِسی طرح کسی کو پرانا سے پرانا بواسیر ہو، اور لاعلاج بن چکا ہو۔ آپ اس دوا سے صرف ایک ہفتہ سیکائی کریں مسہ گل کر راکھ ہو جائےگا۔

قدردان! اس کے اور بہت سے فائدے ہیں جن کا ذکر اس پمفلٹ میں تفصیل سے چھپا ہوا ہے۔‘‘

اس نے پمفلٹ اٹھاکر ایک ایک کے ہاتھ میں تھما دیا۔

’’قدردان! اتنے سارے گنڑ اس فقیری دوامیں موجود ہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہوگی، لیکن نہیں———قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔ بالکل مفت ہے۔ فقیر کی دی ہوئی چیز ہے۔ اس کا دام کچھ بھی نہیں ہے۔ہاں فقیر کے نیاز کے لیے ایک معمولی سی رقم بطور چندہ ضروری لی جاتی ہے اور وہ معمولی سی رقم ہے———ایک روپیہ ———صرف ایک روپیہ— ——ایک روپیہ ———ایک روپیہ———ایک روپیہ———جس کسی بھائی کو ضرورت ہو آواز دے کر مانگ سکتے ہیں۔‘‘

’’ایک ٹکیہ مجھے، ایک ٹکیہ مجھے،دو مجھے، ایک۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔

’’ابھی دیا۔ ابھی دیتا ہے قدردان! ابھی آیا سرکار۔ آپ کو بھی دیا۔۔۔۔۔۔‘‘

کچھ دیر بعد ڈگڈُگی والا روپے گننے میں مصروف تھا۔

تقریباً آدھے سے زیادہ لوگ جا چکے تھے۔ شاید وہ اس سے پہلے بھی ڈُگڈُگی کی آواز پر جمع ہو چکے تھے اور کچھ لوگ اس انتظار میں ابھی ٹھہرے ہوئے تھے کہ ڈُگڈُگی والا اپنا وعدہ پورا کرےگا یعنی تاج والے سانپ اور نیولے کی لڑائی ضرور دکھائےگا۔ غالباً یہ لوگ ڈُگڈُگی کی آواز پر پہلی بارجمع ہوئے تھے۔ ————

(مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 181)

مصنف:غضنفر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here