سورج جو نیزوں کی نوکوں پر کھڑا ہوکر اعلان کرتا ہے کہ پوری کائنات کو جلا کر ہی دم لوں گا۔ ہوا بھی یوں ہی آسمان اور زمین بھی سرخ ہوکر جب کالی ہو گئی تو وہ خود بھی جل کر سیاہ مائل ہو گیا۔ آسمان میں ستارے خاک میں دبی ہوئی چنگاریوں کی طرح چمک رہے تھے لیکن رنگ۔ او۔ بیل (Ring-O-Bell) ہوٹل روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ ٹیوب لائٹ کی ٹھنڈی روشنی ہوٹل میں بیٹھے لوگوں کو گرما رہی تھی ٹیبل اور چیرس کے درمیانی گیلریوں مکیں نیتا ادھر ادھر اسٹرپ کر رہی تھی۔ اس کے جسم کی تھرک کے ساتھ دیکھنے والوں کی گردنیں بھی تھرک رہی تھیں اور میزوں کے نیچے رکھے ہوئے تقریباً تمام پاؤں حرکت کر رہے تھے۔ ہر آنکھ اس کے کولھو اور پستانوں پر رکھی تھیں اور وہ ان سب کا بوجھ اٹھائے بڑی مستی میں رقص کر رہی تھی۔ جیسے ہی ٹیوب لائٹ اور بلبوں نے اپنے اپنے چہروں پر نقاب ڈالے ہوٹل میں سب نے سنا ’’کم آن ایور بڈی(Come on every body)۔‘‘ سب لوگ کرسی اور میزوں کے درمیان سے نکل چکے تھے۔ ہال کے اندھیرے کو سانسوں کی گرمی پگھلا رہی تھی۔ اور جب اندھیرا پگھل چکا تو لوگوں نے جسموں کی بو محسوس کی۔۔۔ لڑکیوں کے ہونٹوں کی ہلکی ہوتی ہوئی لپ اِسٹک دیکھی۔ کچھ مرد اپنی گردن، کچھ اپنے ہونٹ، کچھ اپنے رخساروں کو رومال سے رگڑ رہے تھے۔ اور وہ تنہا ریسٹورینٹ کے ایک کونے میں کھڑی تھی۔ اس کے سرد ہونٹوں پر لپ اسٹک ابھی گہری تھی۔
’’ہیو آئی ڈرنک (Have I drink) ‘‘
بائیں میز پر بیٹھے نوجوان نے پیک بنایا ’’اوہو یس (Oh Yes)‘‘
لڑکی نے پیگ غٹ غٹ پی لیا۔۔۔ اور میز کے دوسری طرف بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے سگریٹ لی ایک کش لے کر اس کے چہرے پر دھواں پھینک دیا۔ نوجوان نے اپنی آنکھوں کو بار بار بند کیا اور کھول دیا دونوں آنکھیں جن میں نشہ قید تھا۔۔۔ پانی بھر گیا۔
’’اوہ ساری شاید آنکھوں میں دھواں لگ گیا‘‘ لڑکی نے اس کے چہرے کے چاروں طرف ہاتھ ہلانا شروع کر دیا اور اس کے بائیں ہاتھ کو اپنی مٹھی میں دبا کر ’’چلو، باہر بیٹھیں گے۔۔۔ یہاں درمیان میں میز۔۔۔ اور شور ہے اور مجھے دیوار سے نفرت ہے‘‘
نوجوان اٹھا۔۔۔ دونوں باہر لان میں آگئے
’’آؤ۔۔۔ اشوک کے درخت کے نیچے سمنٹ کی کرسی پر بیٹھیں گے‘‘
لڑکے نے اشارہ کیا
’’نہیں‘‘
’’کیوں‘‘
’’اشوک، سکندر، اکبر یہ سب دکتیٹر تھے‘‘
’’تمہیں ہسٹری سے دلچسپی ہے‘‘ نوجوان کا استفہامیہ انداز
’’ہاں ہسٹری میرا سبجیکٹ رہا ہے مگر بڑابورنگ۔۔۔ مجھے بزرگوں سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے کہ زندگی بھر طوائفوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔۔۔ اور بڑھاپے میں رامائن کا پاٹھ کرتے ہیں‘‘ لڑکی نے کہا
’’ہاں اپنے آپ کو دہراتے ہیں‘‘ نوجوان نے گردن ہلائی۔
’’میں نہیں چاہتی کہ میں بھی اتہاس کا کوئی سیاہ پنّا بن کر دیمک کی خوراک بنوں۔۔۔‘‘ اس نے سوئٹر کے اوپر کے دو بٹن کھولتے ہوئے نوجوان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
نوجوان نے دونوں بٹنوں کو لگایا اس کی چھنگلی انگلیاں لڑکی کی گردن کو چھو گئیں اور انگوٹھے گردن کے نیچے مس کر گئے۔۔۔ ’’سردی پڑ رہی ہے۔۔۔ دیکھو ستارے بھی ٹھٹر رے ہیں‘‘ نوجوان نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
لڑکی نے نوجوان کی آنکھوں کا تعاقب کیا ’’نہیں۔۔۔ سو رہے ہیں۔ اور اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ’’میری ہتھیلیاں جل رہی ہیں۔۔۔ اس نے جلدی سے اس کا ہاتھ اپنے دائیں رخسار پر رکھ لیا۔ اس کے سرخرخسار دہک رہے تھے۔ لان میں سردی پڑ رہی تھی۔۔۔ اشوک کے پتّے سُکڑ رہے تھے اور ٹیوب لائٹ ٹھٹھر رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں اس کے چہرے کو بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کا، اس کی ٹھوڑی کے درمیانی دائرے کا اور اس کی گردن کا کس (Kiss) کیا۔ لڑکی اس کی باہوں میں سمٹ گئی۔ بالوں میں بندھا رِوِن جو نیلے رنگ کا تھا نیچے گر گیا۔ لڑکی انتظار کرنے لگی۔
نوجوان نے اس کو اٹھایا اور اس کی گردن میں ڈال کر اپنی جانب جھٹکا دیا ’’میں تمہیں ایک لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے۔۔۔ وہ کیا کہے گا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ کبھی کبھی گناہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ میں نے پہلی بار، پہلا گھونٹ، پہلا کش لیا اور پہلا۔۔۔ کس(Kiss) کیا‘‘ نوجوان نے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
’’تمہاری آنکھیں بڑی گہری ہیں‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔ وہ بھی یہی کہتا تھا۔ یہ ادیب اور شاعر بھی مجھے بہت برے لگتے ہیں۔ یہ جب بھی بات کرتے ہیں۔۔۔ صرف مردوں کی کرتے ہیں۔۔۔ کبھی وہ ہمارے اندر بھی اترتے ہیں؟‘‘
’’وہ لڑکا بہت شریف ہے‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’اس لیے تو مجھے اچھا نہیں لگتا‘‘
’’اچھا نہیں لگتا‘‘ نوجوان نے تعجب کا اظہار کیا۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں اچھا ہے۔۔۔ اسی لیے میری چغلی کھائے گا میرے بیوروکریٹ باپ سے‘‘
’’بٹ آئی ایم ناٹ اے گڈ مین ( but, I am not a good man) ‘‘
’’سو آئی لائک یو مین (so, I like you man)۔۔۔ وہ لوگ جو سمندر کے کنارے بیٹھ کر لہروں کا کھیل صرف آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مجھے اچھے نہیں لگتے۔‘‘
’’مطلب‘‘ نوجوان نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’جب کہ میری آنکھیں جھیل جیسی گہری ہیں۔۔۔ اس نے کہا تھا۔ تو پھر نہ ڈوبنے کی وجہ۔‘‘
نوجوان مسکرایا۔۔۔ لڑکی بھی مسکرائی ’’ذرا سوچو وہ میری آنکھوں میں خواب سجانے کی بھی بات کرتا ہے۔۔۔ اور یہ بھی کہتا ہے تمہاری آنکھیں جھیل کی طرح گہری ہیں۔۔۔ تو پھر خواب ڈوب نہیں جائیں گے؟‘‘
نوجوان نے قہقہہ لگایا ’’ہاں خواب تو۔ پھر خواب ہوتے ہیں‘‘
’’کیا کہتا ہے تمہارا بیوروکریٹ باپ؟‘‘ نوجوان نے قدرے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’وہ کہتے ہیں زندگی تمہاری ہے۔ مگر سانسیں ہماری ہیں۔۔۔ اگربٹوارہ ہوا تو میرا جسم تو میرا ہی ہوا نا۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا‘‘
’’وہ لڑکا میرے بارے میں سوچے گا؟‘‘
’’وہ تم سے نفرت کر رہا ہوگا‘‘ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’وہ لڑکا سے نفرت کر رہا ہوگا‘‘ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’یہ اسی کا حق ہے۔ کیوں کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے‘‘
لڑکی کو ہنسی آگئی۔۔۔ نوجوان نے بھی اس کی ہنسی کا ساتھ دیا۔
لڑکی کے بال اس کی گردن پر رقص کرنے لگے۔۔۔ بالوں سے پرفیوم کی خوشبوپھوٹنے لگی۔ نوجوان نے اپنی ناک اس کے بالوں پر رکھ دی۔۔۔ لڑکی نے اپنی پیشانی نوجوان کی پیشانی پر رکھ دی۔
’’لڑکا اور کیا کہتا ہے؟‘‘
’’لڑکا نہ اپنے بارے میں کچھ کہتا ہے۔۔۔ نہ ہی میرے بارے میں۔۔۔ کچھ کہتا ہے توصرف کیٹس کے بارے میں۔۔۔ شیلے کو پسند کرتا ہے۔۔۔ اور کہتا ہے ٹیگور کی گیتانجلی‘‘ ۔۔۔ ملٹن کی پیراڈائز لاسٹ‘‘ دونوں عظیم کتابیں ہیں‘‘
’’ یہ کیٹس نے کہا تھا نہ بیوٹی اِز ٹو سی، ناٹ ٹوٹچ (Beauty is to see not to touch) نوجوان نے کہا۔
’’ہاں اچاریہ رجنیش نے کچھ اسی انداز میں دوسری بات کہی ہے‘‘ انسان جسموں سے گزر کر ہی ابدی حسن تک پہنچتا ہے۔۔۔ تب ہی انسان اور بھگوان کے درمیان کوئی انتر نہیں رہ پاتا۔۔۔
’’اچاریہ رجنیش تمہیں متاثر کرتا ہے‘‘ نوجوان کا استفہامیہ انداز۔۔۔
’’لڑکا جینس ہے‘‘
’’جینس تو فرائڈ بھی تھا اور اس سے پہلے واتسائن بھی۔۔۔ میراجی بھی کم جینس نہیں تھے‘‘
نوجوان مسکرایا ’’تم فہرست غلط بنا رہی ہو۔ کارل مارکس نے پیٹ تک کی بات کہی ہے۔ اور پیٹ کے بعد کی بات فرائڈ نے کہی ہے۔۔۔ ایم آئی رانگ‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’اوہ نو ڈارلنگ یو آر آبسیولیٹلی رائٹ (Oh no, darling, you are absolutely Right) اس طرح انسان کی تھیوری مکمل ہو گئی۔ اب کائنات کو تیسرے جینیس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور میرا بیورو کریٹ باپ تیسرا جینیس منوانے پر تُلا ہوا ہے‘‘ لڑکی نے غصّہ میں کہا۔ اور کہہ کر خاموش ہو گئی۔۔۔ چاروں طرف نظرڈالی۔۔۔ خاموشی پَر پھیلائے تھی۔۔۔ اس نے نوجوان کی خاموش آنکھوں میں جھانکا۔ ’’تم ہر درجہ میں فرسٹ پاس ہونے کی محنت کرو‘‘ لڑکی بولی۔
’’اگر فرسٹ پاس ہوتا تو میں ایک اچھا انسان ہوتا۔۔۔ تھوڑی دیر وقفہ کے بعد۔ میرا گناہ کرنے کو جی چاہتا ہے‘‘
’’میرا بیوروکریٹ باپ کہتا ہے‘‘ وہ لڑکا ہمیشہ فرسٹ آتا ہے۔ یقیناً کسی دن افسر بنے گا۔ یعنی بیوروکریٹ۔۔۔ اینڈ آئی ہیٹ نیپولین، ہٹلر، مسولینی۔۔۔‘‘ لڑکی نے نوجوان کے قہقہہ کا ساتھ دیا۔۔۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دیکھتے رہے یہاں تک کہ دور تک ابدی حسن کی تلاش میں نکل گئے۔ جہاں بھگوان حسین ہوتا ہے۔۔۔ کائنات حسین ہوتی ہے۔ اور بھگوان اور انسان میں کوئی انتر نہیں ہوتا۔ انسان بھگوان ہوتا ہے۔۔۔ انسان حسن ہوتا۔ صرف انسان۔۔۔ حسن۔۔۔ حسن۔۔۔ انسان۔۔۔ حسن۔۔۔
نوجوان دو سال بعد ہندوستان واپس ہو رہا تھا۔ اپنے دیش کی سوندھی سوندھی مٹی کی سُگندھ کے احساس سے ذہن ایک عجیب طرح کی فرحت و تازگی محسوس کر رہا تھا۔ وہ زیرِلب مسکرایا اور سامان پیک کرنے میں مصروف ہو گیا۔ میز پر رکھی ہوئی البم پر نظر گئی جس میں جرمنی کے خوبصورت لمحات قید تھے۔ باتھنگ کاسٹیوم میں ملبوس دو شیزہ کے ہاتھ پاؤں پر انگلی پھیری۔۔۔ جو چکنے اور دبیز تھے اسے لگا جیسے تصویر مسکرانے لگی۔۔۔ ’’ تم انڈیا جا رہا ہے‘‘
’’یس‘‘ دو روزقبل اس نے کہا تھا۔
’’ام بی چلے گا‘‘ دو شیزہ ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی بولنے لگی تھی۔
’’تمہاری آنکھیں سمندر کی طرح نیلی اور گہری ہیں‘‘ اس نے گفتگو کا پہلو بدلا۔
’’تم نے سائنٹ سے مرتا آدمی دیکھا۔۔۔ ام نے دیکھا۔۔۔ اس کا پور باڈی نیلا پڑ جاتا ہے‘‘
’’میں مایوسی پسند نہیں کرتا۔ زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو خوشی۔۔۔ چاہے وہ ایک لمحہ کی ہو‘‘
’’ام نے تمہارے ساتھ بوت ٹائم ویسٹ کیا‘‘
’’نو ڈارلنگ قیمتی بنایا‘‘
دوشیزہ مسکرائی۔ اور پھر اتنے زور سے ہنسی کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔۔۔
’’ڈونٹ بی سیڈ۔۔۔ انٹرٹین دی لائف (Don`t be sad Darling, entertain the life) ‘‘ اس نے دو شیزہ کو گلے سے لگایا اور اس کی کمر تھپتھپائی۔
نوجوان نے البم بندکی اور اسے بیگ میں رکھا۔۔۔ آنسوؤں کے دو قطرے اس کی آنکھوں میں آگئے۔ اچانک بھیگی ہوئی نگاہیں کر یم کلر کے سوئٹر پر مرکوز ہو گئیں اسے یاد ہے ہندوستان چھوڑتے وقت وہی لڑکی اسے ایر پورٹ سی آف کرنے آئی تھی۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔۔ اور میری ماں تو بے حال تھی۔۔۔ ’’بیٹے یہ سوئٹر اسی لڑکی نے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے، تمہارے لیے‘‘ ماں نے زور دے کر کہا۔
میں نے اسی وقت سوئٹر پہن لیا۔ اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ خالی خالی آنکھوں میں سینکڑوں خواب نظر آئے۔۔۔ چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔۔۔ بھیگی ہوئی آنکھوں میں سرخ ڈورے بن گئے تھے۔ میں سوچنے لگا شاید سوئی نہیں۔ شاید روئی ہو۔ ممکن ہے شراب کا گھونٹ بھر لیا ہو۔ یا کوئی ایسی بے خودی ہو جس کا اظہار عورت زبان سے کم، آنکھوں سے زیادہ کرتی ہے‘‘
’’میں جلد لوٹ آؤں گا‘‘ ماحول کی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
’’میں انتظار کروں گی‘‘ لڑکی نے چونکتے ہوئے کہا۔ اور پیٹ پر سوئٹر کی چٹکی بھرتے ہوئے کہا ’’اسی کو پہن کر ہندوستان واپس لوٹوگے‘‘
نوجوان نے دوبارہ بیگ کھولا۔ کپڑے الٹ پلٹ کئے۔ سوئٹر اس سے آنکھ مچولی کرنے لگا۔ اس نے اپنے بدن پر نظر ڈالی۔۔۔ سوچنے لگا سوئٹر چھوٹا ہوگیا۔ سوئٹر اٹھایا گلے میں باندھ لیا ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی’’وہاں کا وہیں چھوڑ کر آنا‘‘۔۔۔ یہ خیال آتے ہی اسے ہنسی آگئی۔۔۔ ’’جسم میرا فربہ ہو گیا ہے لایا کمزور تھا‘‘۔۔۔ اپنے آپ سے کہا۔
وفا اور جفا کی بحث سے ذہن کو جھٹکا۔۔۔ اسے یاد آیا ایر پورٹ سے جہاز نے جب اڑان بھری تھی۔ لڑکی ہاتھ ہلا رہی تھی آسمان کی جانب اڑان بھرتے جہاز پر نگاہیں جمی ہوئی تھیں۔۔۔ نظر کی حد ختم ہونے تک ہاتھ سائے کی طرح ہوکر غائب ہو گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر میری آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔
میں اس وقت ان آنسوؤں کا مطلب نہیں سمجھ پایا تھا۔۔۔ اور نہ ہی اس دو سال کے عرصہ میں مجھے اس بارے میں کوئی خیال آیا۔ اور اب دو سال کے بعد میں نے اس کریم کلر کے سوئٹر کو گلے میں کیوں باندھ لیا ہے۔۔۔ کیوں؟
اچانک اس کی آمد پر دالان میں بیٹھی ہوئی اس کی ماں چونک گئی اور دیکھتی رہ گئی۔ زبان گنگ ہو گئی، جہاں بیٹھی رہ گئی۔ رفتہ رفتہ ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسے پھیلنے لگی جیسے خاموش سمندر پہ کوئی معمولی سی لہرکروٹ لیتی ہے۔۔۔ ماں بڑی نقاہت سے اٹھی بیٹے کی پیشانی کو چوما۔۔۔ نوجوان نے ماں کو سینے سے لگا لیا۔۔۔ ماں کے چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں عمر کے ماہ وسال کا شمار کر رہی تھیں۔ مگر ماں کی عمر ہی کیا ہے؟ صرف دو سال پہلے ماں اتنی بوڑھی نہیں تھی۔ اس کی انگلیاں بالوں کو کریدنے لگیں سینکڑوں چاندی کے تار اسے نظر آئے۔ اس نے ماں کا چہرہ اوپر اٹھایا۔۔۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ انگوٹھوں ککے پوروں سے آنسو صاف کئے اور چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کی۔۔۔ چند لمحے خاموشی رہی۔ ماں نے نظر بھر کر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا جب سوئٹر کی آستینوں پر نظر گئی جو گلے کے سامنے لٹک رہی تھی۔
’’بیٹے اکیلے ہی آئے ہو‘‘ ماں نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ ماں۔۔۔‘‘ چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے’’ماں تم نے کہا تھا اپنے دیش کی مٹی بڑی سوندھی ہے اس کی سُگندھ یاد رکھنا۔۔۔ لیکن چند روز پہلے‘ خط میں لکھا تھا۔۔۔ ’’اکیلے مت آنا۔۔۔ ایسا کیوں لکھا۔۔۔؟‘‘
ماں نے نظریں چراتے ہوئے کہا ’’ہاں بیٹے عورت مرد کے بغیر بڑی کمزور ہوتی ہے۔۔۔ تم بہت چھوٹے تھے جب تمہارے باپ مجھے چھوڑ گئے۔۔۔ ان کے بعد ٹوٹ گئی تھی میں۔۔۔ اب جبکہ تم پورے مرد ہو گئے ہو۔۔۔ تو میں تم کو اپنی طاقت سمجھتی ہوں۔۔۔ جب تم چلے گئے تھے۔۔۔ تو میں اکیلی پڑ گئی تھی۔۔۔ کمزور ہوگئی تھی۔۔۔ جب انسان کی طاقت چلی جاتی ہے۔۔۔ تو بات کا وزن بھی گھٹ جاتا ہے‘‘ ماں نے سرد آہ بھری۔
چند لمحہ ماں اٹھی اور کچن سے چائے بنا کر لائی اور میز پر رکھ دی۔۔۔ اس میں سے بھاپ نکل کر ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنا رہی تھی۔۔۔ بیٹے ٹھنڈی ہو جائے گی‘‘۔۔۔ میری طرف بڑے غور سے دیکھا۔۔۔ گلو گیر آواز میں بولی ’’اس ایک جینیس لڑکے سے شادی کر لی‘‘ آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑ لگ گئی۔
نوجوان ماں کے آنسوؤں کی طرف توجہ کیے بغیر ہنسا۔۔۔ زور زور سے ہنسنے لگا اس کے قہقہوں کی گونج میں ماں کی رندھی ہوئی آواز، ماں کی روتی ہوئی آنکھیں اور ماحول کی ناخوسگواری ڈوب گئی۔۔۔ اور جب وہ ابھرا تو سوچنے لگا۔۔۔ ’’میں نے دو سال کے عرصہ میں، ہندوستان کی تیس سالہ زندگی سے کہیں زیادہ عشق کئے ہیں۔۔۔ لیکن یہ بات میں ماں کو کیسے سمجھاؤں عورت کمزور نہیں ہوتی بلکہ مرد کی شکتی ہوتی ہے۔۔۔ برہما کی شکتی سچی، وشنو کی طاقت لکشمی، شنکر کی قوت پاروتی۔۔۔‘‘
’’ماں‘‘ اس نے حواس درست کرتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں‘‘ ماں نے چونکتے ہوئے کہا
’’اس میں رونے کی کیا بات ہے ؟۔۔۔ تو نے ابھی کہا عورت کی طاقت مرد ہوتا ہے۔ مرد جس قدر بیوروکریٹ ہوگا عورت اتنی ہی طاقت ور ہوگی۔۔۔ وہ لڑکی ایک بیورو کریٹ باپ کی بیٹی اور بیورو کریٹ کی بیوی ہے۔۔۔ پھر کیوں کر کمزور ہوئی ؟۔۔۔ اور۔۔۔ ماں۔۔۔ اب میں آگیا ہوں نا۔۔۔ تیرا بیٹا۔۔۔ تیری طاقت۔۔۔ تو یہ کیوں سوچتی ہے کہ تو کمزور ہے؟۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر نوجوان آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب گیا۔
مصنف:احمد رشید