کہانی کی کہانی:’’ایک نوجوان کے نامکمل عشق کی داستان ہے۔ تنویر اپنی کوٹھی سے بارش میں نہاتی ہوئی دو لڑکیوں کو دیکھتا ہے۔ ان میں سے ایک لڑکی پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ ایک دن وہ لڑکی اس سے لفٹ مانگتی ہے اور تنویر کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنی منزل مل گئی ہے لیکن بہت جلد اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کسبی ہے اور تنویر مغموم ہو جاتا ہے۔‘‘
موسلا دھاربارش ہورہی تھی اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھا جل تھل دیکھ رہا تھا۔ باہر بہت بڑا لان تھا،جس میں دو درخت تھے۔ ان کے سبز پتے بارش میں نہا رہے تھے۔ اس کو محسوس ہوا کہ وہ پانی کی اس یورش سے خوش ہوکر ناچ رہے ہیں۔
ادھر ٹیلی فون کا ایک کھمبا گڑا تھا۔ اس کے فلیٹ کے عین سامنے یہ بھی بڑا مسرور نظر آتا تھا، حالانکہ اس کی مسرت کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس بے جان شے کو بھلا مسرور کیا ہونا تھا، لیکن تنویر نے جوکہ بہت مغموم تھا، یہی محسوس کیا کہ اس کے آس پاس جو بھی شے ہے، خوشی سے ناچ گارہی ہے۔
ساون گزر چکا تھا اور باران رحمت نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں نے مسجدوں میں اکٹھے ہوکر دعائیں مانگیں مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بادل آتے اور جاتے رہے، مگر ان کےتھنوں سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ ٹپکا۔
آخر ایک دن اچانک کالے کالے بادل آسمان پر گھر آئے اور چھاجوں پانی برسنے لگا۔ تنویر کو بادلوں اور بارشوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ اس کی زندگی چٹیل میدان بن چکی تھی جس کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ بھی کسی نے نہ ٹپکایا ہو۔
دو برس پہلے، اس نے ایک لڑکی سے جس کا نام ثریا تھا، محبت کرنا شروع کی۔ مگر یکطرفہ محبت تھی۔ ثریا نے اسے درخورِاعتنا ہی نہ سمجھا۔ ساون کے دن تھے،بارش ہورہی تھی۔ وہ اپنی کوٹھی سے باہر نکلا۔ جانگیہ پہن کر، کہ نہائے اور بارش کا لطف اٹھائے۔ آم بالٹی میں پڑے تھے۔ وہ اکیلا بیٹھا انھیں چوس رہا تھا کہ اچانک اسے چیخیں اور قہقہے سنائی دیے۔
اس نے دیکھا کہ ساتھ والی کوٹھی کے لان میں دو لڑکیاں بارش میں نہا رہی ہیں اور خوشی میں شور مچا رہی ہیں۔ اس کی کوٹھی اور ساتھ والی کوٹھی کے درمیان صرف ایک جھاڑیوں کی دیوار حائل تھی۔ تنویر اٹھا، آم کا رس چوستے ہوئے وہ باڑ کے پاس گیا اورغور سے ان دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔
دونوں مہین ململ کے کرتے پہنے تھیں، جو ان کے بدن کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ شلوار چونکہ لٹھے کی تھیں، اس لیے تنویر کو ان کے بدن کے نچلے حصے کے صحیح خدوخال کا پتہ نہ چل سکا۔
اس نے پہلے کسی عورت کو ایسی نظروں سے کبھی نہیں دیکھا تھا،جیسا کہ اس روز جب کہ بارش ہورہی تھی، اس نے ان دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔ دیر تک وہ ان کو دیکھتا رہا جو بارش میں بھیگ بھیگ کر خوشی کے نعرے بلند کر رہی تھیں۔
تنویر نے ان کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اس لیے کہ وہ طبعاً کچھ اس قسم کا لڑکا تھا کہ وہ کسی لڑکی کو بری نظروں سے دیکھنا گناہ سمجھتا تھا، مگر اس نے اس روز بڑی للچائی نظروں سے ان کو دیکھا۔ دیکھا ہی نہیں، بلکہ ان کے گیلے بدن میں انگارہ بن کر برمے کی طرح چھید کرتا رہا۔
تنویر کی عمر اس وقت بیس برس کے قریب ہوگی۔ ناتجربہ کار تھا۔ زندگی میں اس نے پہلی مرتبہ جوان لڑکیوں کے شباب کو گیلی ململ میں لپٹے دیکھا،تو اس نے یوں محسوس کیا کہ اس کے خون میں چنگاریاں دوڑ رہی ہیں۔ اس نے ان لڑکیوں میں سے ایک کو منتخب کرنا چاہا۔ دیر تک وہ غور کرتا رہا۔ ایک لڑکی بڑی شریر تھی۔ دوسری اس سے کم۔ اس نے سوچا شریر اچھی رہے گی جو اس کو شرارتوں کا سبق دے سکے۔ یہ شریر لڑکی خوبصورت تھی، اس کے بدن کے اعضا بھی بہت مناسب تھے۔ بارش میں نہاتی جل پری معلوم ہوتی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے تنویر شاعر بن گیا۔ اس نے کبھی اس طور پر نہیں سوچا تھا۔ لیکن اس لڑکی نے جس کا کرتہ دوسری کے مقابلے میں بہت زیادہ مہین تھا، اس کو ایسے ایسے شعر یاد کرادیے جن کو عرصہ ہوا بھول چکا تھا۔
اس کے علاوہ ریڈیو پر سنے ہوئے فلمی گانوں کی دُھنیں بھی اس کے کانوں میں گونجنے لگیں اور اس نے باڑ کے پیچھے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ وہ اشوک کمارہے۔۔۔ دلیپ کمارہے۔۔۔ پھر اسے کامنی کوشل اور نلنی جیونت کا خیال آیا۔۔۔ مگر اس نے جب اس لڑکی کی طرف اس غرض سے دیکھا کہ اس میں کامنی کوشل اور نلنی جیونت کے خدوخال نظر آجائیں تو اس نے ان دونوں ایکٹرسوں پرلعنت بھیجی۔ وہ ان سے کہیں زیادہ حسین تھی۔ اس کے ململ کے کرتے میں جو شباب تھا، اس کا مقابلہ اس نے سوچا، کوئی بھی نہیں کرسکتا۔
تنویر نے آم چوسنے بند کردیے اور اس لڑکی سے جس کا نام پروین تھا، عشق لڑانا شروع کردیا۔ شروع شروع میں اسے بڑی مشکلات پیش آئیں، اس لیے کہ اس لڑکی تک رسائی تنویر کو آسان نہیں معلوم ہوتی تھی۔ پھر اسے اپنے والدین کا بھی ڈر تھا۔ اس کے علاوہ اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ اس سے ملتفت ہوگی یا نہیں؟ بہت دیر تک وہ انہی الجھنوں میں گرفتار رہا۔۔۔ راتیں جاگتا۔۔۔ جھاڑیوں کی پست قد جھاڑ کے پاس جاتا مگر وہ نظر نہ آتی۔ گھنٹوں وہاں کھڑا رہتا،اور وہ بارش والا منظر جو اس نے دیکھا تھا، آنکھیں بند کرکے ذہن میں دہراتا رہتا۔
بہت دنوں کے بعد آخر اس کو ایک روز اس سے ملاقات کا موقع مل گیا،وہ اپنے باپ کی کار میں گھر کے کسی کام کی غرض سے جا رہا تھا کہ پروین سے اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ وہ کار اسٹارٹ کر چکا تھاکہ ساتھ والی کوٹھی میں سےتنویر کے خوابوں کی شہزادی نکلی۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ موٹر روک لے۔
تنویر گھبرا گیا۔۔۔ ہر عاشق ایسے موقعوں پر گھبرا ہی جایا کرتا ہے۔ اس نے موٹر کچھ ایسے بینڈے انداز میں روکی کہ اس کو زبردست دھچکا لگا۔ اس کا سر زور سے اسٹیرنگ وہیل کے ساتھ ٹکرایا، مگر اس وقت وہ شراب کے نشے سے زیادہ مخمور تھا۔ اس کو اس کی محبوبہ نے خود مخاطب کیا تھا۔ پروین کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک تھپی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے سرخ مسکراہٹ سے کہا، ’’معاف فرمائیے گا، میں نے آپ کو تکلیف دی۔ بارش ہو رہی ہے، تانگہ اس دور دراز جگہ ملنا محال ہے، اور مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا۔ آپ میرے ہمسائے ہیں اسی لیے آپ کو یہ زحمت دی۔ ‘‘تنویر نے کہا، ’’زحمت کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ میں تو ۔۔۔میں تو۔۔۔‘‘ اس کی زبان لڑکھڑا گئی، ’’آپ سے میرا تعارف تو نہیں لیکن آپ کو ایک بار دیکھا تھا۔‘‘ پروین اپنی سرخ مسکراہٹوں کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی اور تنویر سے پوچھا، ’’آپ نے مجھے کب دیکھا تھا۔‘‘ تنویر نے جواب دیا، ’’آپ کی کوٹھی کے لان میں۔۔۔ جب آپ۔۔۔ جب آپ اور آپ کے ساتھ ایک اور لڑکی بارش میں نہا رہی تھی۔‘‘ پروین نے اپنے گہرے سرخ لبوں میں سے چیخ نما آواز نکالی، ’’ہائے۔۔۔ آپ دیکھ رہے تھے؟‘‘
’’یہ گستاخی میں نے ضرور کی۔۔۔ اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
پروین نے ایک ادا کے ساتھ اس سے پوچھا؛ ’’آپ نے دیکھا کیا تھا؟‘‘
یہ سوال ایسا تھا کہ تنویر اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا،آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گیا، ’’جی کچھ نہیں۔۔۔ بس آپ کو۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ دو لڑکیاں تھیں جو بارش میں نہا رہی تھیں اور۔۔۔ اور خوش ہو رہی تھیں۔۔۔ میں اس وقت آم چوس رہا تھا۔‘‘ پروین کے گہرے سرخ لبوں پر شریر مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’آپ آم چوستے کیوں ہیں۔۔۔ کاٹ کر کیوں نہیں کھاتے؟‘‘
تنویر نے موٹر اسٹارٹ کر دی، اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس سوال کا جواب کیا دے، چنانچہ وہ گول کر گیا، ’’آپ کو میں کہاں ڈراپ کر دوں۔‘‘
پروین مسکرائی‘ آپ مجھے کہیں بھی ڈراپ کر دیں، وہی میری منزل ہو گی۔‘‘
تنویر نے یوں محسوس کیا کہ اسے اپنی منزل مل گئی ہے، لڑکی جو اس کے پہلو میں بیٹھی ہے، اب اسی کی ہے لیکن اس میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ اس کا ہاتھ دبائے، یا اس کی کمر میں ایک دو سیکنڈ کے لیے اپنا بازو حمائل کر دے۔
بارش ہو رہی تھی، موسم بہت خوشگوار تھا، اس نے کافی دیر سوچا موٹر کی رفتار اس کے خیالات کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی گئی۔ آخر اس نے ایک جگہ اسے روک لیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا، اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ پیوست کر دیے۔۔۔ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ کوئی بہت ہی لذیذ آم چوس رہا ہے۔ پروین نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ لیکن فوراً تنویر کو یہ احساس بڑی شدت سے ہوا کہ اس نے بڑی ناشائستہ حرکت کی ہے اور غالباً پروین کو اس کی یہ حرکت پسند نہیں آئی، چنانچہ ایک دم سنجیدہ ہو کر اس نے کہا، ’’آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘
پروین کے چہرے پر یوں خفگی کے کوئی آثار نہیں تھے لیکن تنویر یوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اس کے خون کی پیاسی ہے۔
پروین نے اسے بتا دیا کہ اسے کہاں جانا ہے۔۔۔ جب وہ اس جگہ پہنچا تو اسے معلوم ہوا وہ رنڈیوں کا چکلہ ہے۔۔۔ جب اس نے پروین کو موٹر سے اتارا تو اس کے ہونٹوں پر گہرے لال رنگ کی مسکراہٹ بکھر رہی تھی۔ اس نے کولہے مٹکا کر ٹھیٹ کسبیوں کے انداز میں اس سے کہا، ’’شام کو میں یہاں ہوتی ہوں۔۔۔ آپ کبھی ضرور تشریف لائیے۔‘‘
تنویر جب بھونچکا ہو کر اپنی موٹر کی طرف بڑھا تو اسے ایسا لگا کہ وہ بھی ایک کسبی عورت ہے جسے وہ ہر روز چلاتا ہے، اس کی لال بتی لپ اسٹک ہے جو پروین نے ہونٹوں پر تھپی ہوئی تھی۔
وہ واپس اپنی کوٹھی چلا آیا۔۔۔ بارش ہو رہی تھی۔۔۔ اور تنویر بیحد مغموم تھا۔۔۔ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ س کی آنکھوں کے آنسو بارش کے قطرے بن کر ٹپک رہے ہیں۔
مأخذ : کتاب : منٹو نقوش
مصنف:سعادت حسن منٹو