ابھی گھاس کی اوس بھی نہیں سوکھی تھی کہ سگنی ٹپک پڑی۔ گھٹنوں تک دھوتی چڑھائے، ننگے پیروں میں نم دھول اور گھاس پھوس بھرے، سر پر گٹھری اٹھائے، ٹھٹھرتی ہوئی۔
’’ٹھنڈ میں جان دینی ہے کیا رے سگنی؟‘‘
الاؤ میں ہاتھ سینکتے ہوئے میں نے پوچھا تو سگنی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ وہ بھی گٹھری ایک طرف کر الاؤ کے پاس بیٹھ گئی اور بجھتی ہوئی آگ کو زندہ رکھنے کے لیے اس میں پتیاں ڈالنے لگی۔
’’اتنے سویرے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ اطمینان سے کھاپی کر آنا چاہیے تھا۔‘‘ میں نے سمجھانے ہی کے انداز میں یہ بات کہی لیکن سگنی کو لگا کہ میں بہانہ بنارہا ہوں۔ شاید اسی لیے وہ میرا منھ تکنے لگی اور ڈرتے ڈرتے ہی اس کے منھ سے کچھ نکل بھی گیا۔
’’کورٹ کچہری کا معاملہ ہے سرکار، آپ نے نہیں کہا تھا کہ سویرے جلدی تیار ہو جانا۔‘‘ اس کی بات سے میں نے اس کی حالت کا اندازہ آسانی سے لگا لیا۔ یہ سمجھنے میں مجھے دقت نہیں ہوئی کہ سگنی جمعدار سے ملنے کے لیے بےچین ہو رہی ہے۔
میں نے سن رکھا ہے کہ سگنی اور جمعدار کا ساتھ بچپن کا ہے۔ سگنی کے باپ فودار نٹ کے کوئی بیٹا نہیں تھا، اس لیے وہ جمعدار ہی کو اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ جمعدار کے باپ کے کئی بیٹے تھے، اس لیے اس نے جمعدار کو فودار کے سپرد کر دیا تھا۔ فودار نٹ جمعدار اور سگنی کو لے کر اپنے دھندے پر جایا کرتا تھا۔ تب وہ چھوٹے تھے اور آپس میں بھائی بہن جیسا ہی رشتہ رکھتے تھے لیکن بڑے ہونے پر ان میں دوسری طرح کا رشتہ ہو گیا۔ تب فودار نے جمعدار اور سگنی کا بیاہ کر دیا۔
لوگ کہتے ہیں کہ سگنی اپنے زمانے کی بہت خوب صورت لڑکی تھی۔ خاص طور پر اس کی نکیلی ناک اور چھیریری کاٹھی پر نٹانے کے سارے نوجوان مرتے تھے مگر وہ کسی کو ٹھینگا نہیں سمجھتی تھی۔ سنا ہے ایک بار کسی من چلے نے اسے کچھ کہہ دیا تھا تو سگنی نے وہ پتھر کھینچ کر مارا تھا کہ اس کی آنکھ پھوٹتے پھوٹتے بچی اور گالیاں تو بے شمار دے ڈالیں۔ اس واقعے کے بعد پھر سگنی کو چھیڑنے کی ہمت کسی نے نہیں کی اور اس کا راستہ صاف ہو گیا۔ اب وہ جمعدار کے ساتھ مزے سے زندگی گزارنے لگی۔
روکھا سوکھا کھانا اور موٹا جھوٹا پہننا، اسی میں دونوں خوش تھے۔ لیکن بہت خواہش ہونے کے باوجود ان کے ہاں کوئی بیٹا نہیں ہوا۔ ایک بیٹی تھی، جو جوان ہوئی تو بیاہ دی گئی۔ اب پھر وہ اکیلے ہو گئے۔ اس پر بھی جمعدار ناامید نہیں ہوئے تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ ان کے ہاں کوئی بیٹا ضرور ہوگا، کیوں کہ ایک جیوتشی نے انہیں بتایا تھا کہ ان کی قسمت میں بیٹے کا سکھ لکھا ہے لیکن ان کی امید اس وقت ختم ہو گئی جب ایک دن بہلا پھسلاکر ان کی نس بندی کر دی گئی۔
تب سے ان کی صحت خراب رہنے لگی اور انہیں ایسا لگنے لگا کہ اب وہ نہیں بچیں گے۔ چنانچہ آخری عمر میں بیٹی سے ملنا انہوں نے ضروری سمجھا اور ایک دن گھر سے چل پڑے۔
لیکن وہ کیا جانتے تھے کہ ایسا ہو جائےگا۔
’’ارے سرکار، ہم جانتے کہ ایسا ہو جائےگا تو ہم کاہے کو جانے دیتے۔‘‘ سگنی آہ بھر کر کہتی اور سسکنے لگتی ہے۔ میں اسے کیسے دلاسادوں؟ سوچتا ہوں اور سوچتا ہی رہ جاتا ہوں۔
ایک روز شام کو سگنی کو خبر ملی کہ جمعدار شہر میں بھیک مانگنے کے جرم میں گرفتار ہو گئے ہیں اور جیل میں بند ہیں۔ سگنی کو اس بات پر اعتبار ہی نہیں آیا۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ ان کو کمی کس چیز کی ہے جو بھیک مانگیں گے؟ نہ، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہاں، کپڑا وہ ضرور پھٹا پرانا پہنے رہتے ہیں، ہوسکتا ہے اس لیے شک ہو گیا ہو اور سگنی بس میں بیٹھ کر شہر پہنچ گئی۔
لیکن خبر جھوٹی نہیں تھی۔ زندگی میں پہلی بار اپنا اعتبار جھوٹا لگا۔ اب وہ کیا کرے؟ عورت ذات، اس پر گنوار۔ کچھ لوگوں سے ملی تو بغیر پیسے کے کسی نے بات ہی آگے نہیں بڑھائی۔ سگنی لاچار ہوکر چلی آئی۔
لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ جمعدار کو جیل سے چھڑاکر رہےگی، اس نے اپنا ارادہ برملا ظاہر کر دیا اور گاؤں بھر سے مدد مانگی مگر سگنی کا ساتھ کوئی کس امید پر دیتا؟ جو لوگ کبھی سگنی کی گالیاں کھاکر نہال ہو جاتے رہے ہوں گے، آج وہ اس کا جھریوں بھرا پوپلا منھ دیکھ کر چڑ جاتے ہیں۔ سگنی اب نام کی سگنی رہ گئی ہے۔
پھر بھی اس کے تیور وہی ہیں۔ مگر وقت کی بات ہے! یہ وقت تیور دکھانے کا نہیں ہے۔ اس لیے شاید جب پہلی بار سگنی مجھ سے ملنے آئی تھی تو اس کے تنے ہوئے چہرے سے بھی لجاجت ٹپکی پڑتی تھی۔
’’سرکار اب آپ ہی سہارا ہیں نا۔۔۔‘‘ اتنا کہتے کہتے سگنی غیرمتوقع طور پر روپڑی تھی۔ اپنے زمانے میں کسی کو کچھ نہ سمجھنے والی ایک عورت میرے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر میں بہت زیادہ مضطرب ہو گیا اور کسی بھی طرح جمعدار کو چھڑانے کا میں نے عزم کر لیا۔
جب ہم شہر پہنچے، دو پہر ہو گئی تھی۔ کچھ وقت ضروری معلومات میں نکل گیا اور درخواست پر جب بھکشک کرم شالا (محتاج خانہ) نامی اس دنڈ شالا (جیل) کے نگراں سے ہم رپورٹ لکھوانے گئے توقریباً شام ہو چکی تھی۔ نگراں محترم نے اپنا کام کل پر ٹال دیا اور ہم رات گزارنے کی تدبیر سوچنے لگے۔
’’تو کہاں رہےگی رے سگنی؟‘‘
میرا ٹھکانا تو ایک دوست کے ہاں تھا لیکن سگنی کے بارے میں پوچھ لینا میں نے اپنا فرض جانا۔ ویسے میں ڈر رہا تھا کہ کہیں وہ میرے ساتھ ہی چلنے کی ضد نہ کرے، ورنہ گڑبڑ ہو جائےگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
’’ہمارے لیے آپ فکر نہ کریں۔‘‘ اس نے اس طرح حل پیش کیا کہ میں بالکل بےفکر ہو گیا۔ صبح اسٹیشن کے مسافرخانے میں اس نے ملنے کا وعدہ کیا۔
دوسرے دن صبح صبح میں اسٹیشن پہنچ گیا اور یہ دیکھ کر حیرت میں پڑگیا کہ سگنی مسافرخانے کی ایک دیوار سے لگ کر ایک بورا بچھائے اور ایک گدڑی اوڑھے لڑھکی پڑی تھی۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے یقین ہی نہیں ہوا کہ یہ عورت جب سج دھج کر محلے ٹولے میں نکلتی رہی ہوگی تو من چلوں کے کلیجے ہل جاتے رہے ہوں گے۔ مگر اس بےیقینی کے ساتھ اس کی ہمت کے لیے میرے دل میں احترام بھی پیدا ہو گیا کہ اپنے بوڑھے شوہر کو جیل سے رہا کرانے کے لیے یہ کیسی تکلیف سہہ رہی ہے۔
مجھے دیکھتے ہی سگنی اپنا بستر لپیٹ کر کھڑی ہو گئی۔
’’چلیں۔‘‘ اس نے ایسے انداز میں مجھ سے چلنے کے لیے کہا گویا وہ بہت پہلے سے چلنے کا انتظار کر رہی ہے اور چلنے ہی کے لیے شہر آئی ہے۔
’’جمعدار ولد ننھئی، یہی کیس ہے نا؟‘‘ اہل مد نے مجھ سے پوچھا تو میں نے ہامی بھر دی۔
’’نگران صاحب نے اس کیس میں رپورٹ لگائی ہے کہ یہ آدمی خلاف قانون بھیک مانگتے ہوئے پکڑا گیا ہے، اس لیے اسے سخت سزاملنی چاہیے۔ ایسی حالت میں یہ چھوٹ نہیں سکتا۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے محرر کو آنکھ ماری اور میرے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ باہر بیٹھی سگنی سے میں کیسے کہوں گا کہ جمعدار چھوٹ نہیں سکتے۔ تب ہی محرر نے میرے کان میں ایسی بات کہی جسے کچہری کی زبان سمجھنے والے ہی سمجھ سکتے تھے۔ میں نے کچہری کی زبان سے ملاقات نہیں کی تھی، پھر بھی اپنے عزم کو پورا کرنے کے لیے میں نے جیب میں سے پانچ کا نوٹ نکال کر اہل مد کی جیب میں ڈال دیا۔
’’ٹھیک ہے، جائیے۔ ایک ہزار کا مچلکہ اور ایک ہزار کی ضمانت کا کاغذ تیار کر لیجیے۔ کام ہو جائےگا۔‘‘ اہل مد نے یہ بات اس طرح کہی کہ میں اچانک خوش ہو اٹھا لیکن ضمانت کی بات سے مجھے الجھن ہونے لگی۔
’’صرف مچلکے پر نہیں ہو سکتا؟‘‘ میں نے تقریباً گڑگڑاتے ہوئے پوچھا تو اہل مد نے انکار کر دیا اور دوسری فائل دیکھنے لگا۔ میں باہر آ گیا۔
’’ضمانت؟‘‘ سگنی کا چہرہ ضمانت کے نام سے مرجھا گیا۔ کون کرے گا ضمانت؟ یہ سوال اس کی آنکھوں میں تیرنے لگا۔
’’ضمانت میں کروں گا۔‘‘ میں نے اپنا فیصلہ سنایا تو سگنی کا پوپلا منھ خوشی سے کھل اٹھا لیکن محرر نے اعتراض کر دیا۔
’’آپ کو شناخت کون کرےگا؟‘‘
’’کچھ دے دلاکر نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’کوئی بھی وکیل سو سے کم پر تیار نہیں ہوگا۔‘‘
محرر کی بات سے مجھے راحت ملی۔ میں سگنی کے پاس گیا، جو دھوپ میں بیٹھی ہونے پر بھی تقریباً کانپ رہی تھی۔
’’تمہارے پاس کتنے پیسے ہوں گے؟‘‘ یہ سوال حالانکہ میں نے بہت ہی انکسار سے کیا تھا مگر جس وقت وہ اپنی کمر سے میلی کچیلی تھیلی نکال کر مڑے تڑے نوٹ تھمانے لگی تو مجھے لگا کہ میں نے اس کے ساتھ بےحد برا سلوک کیا ہے۔
سگنی کی تھیلی میں کل ساٹھ روپے تھے۔ میں نے انہیں محرر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
’’اس سے زیادہ اب بےچاری کے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ اتنے میں کچھ کرا سکیں تو اس کے لیے بھگوان سے بڑھ کر ہوں گے۔‘‘ میں نے یہ بات اتنی عاجزی کے ساتھ کہی کہ محرر نے کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا اور سب کچھ اس نے ٹھیک کر دیا۔
جمعدار کو ضمانت پر رہا کرنے کا کام بھکشک کرم شالا کے نگراں کے پاس پہنچ چکا ہے۔ میں پیڑ کے نیچے کرسی پر بیٹھا وہاں کا حال دیکھ رہا ہوں۔ سگنی کو اندر نہیں جانے دیا گیا ہے، اس لیے وہ گیٹ کے باہر ہی دیوار سے ٹک کر بیٹھی ہوئی ہے۔ نگراں صاحب نے ابھی کاغذ پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔
اچانک کچھ اور بھکاری وہاں گرفتار ہوکر آ گئے ہیں۔ ان کے سامان کی تلاشی لی جارہی ہے۔ ان میں ایک بوٹ پالش والا اور دو بلڈ ڈونر بھی ہیں۔ ’’ان لوگوں کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘ میں مشورہ دیتا ہوں تو مجھے سمجھایا جاتا ہے کہ یہ بہانہ باز ہیں، اس حلیے میں یہ جیب کاٹتے ہیں۔ اسی وقت ایک پرانا بھکاری قیدی مجھے دھیرے سے بتاتا ہے کہ معائنہ ہونے والا ہے، کوٹا بھی تو پورا کرنا ہے۔ نئے بھکاریوں میں ایک جوڑا بھی ہے۔ ان میں شوہر کا وارنٹ جاری ہوا ہے اور بیوی کا نہیں، اس لیے بیوی کو گیٹ کے باہر کر دیا گیا ہے۔ وہ باہر رو رہی ہے، شوہر اندر رو رہا ہے۔ ویسے تو سارے قیدی چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں کے اندر نالے میں بند ہیں مگر جو کام کاج کے لیے کھلے ہوئے ہیں، وہ تماشا دیکھنے پہنچ جاتے ہیں۔
جمعدار آج چھوٹ رہے ہیں، یہ خبر سنتے ہی ان کے کئی ساتھی میرے پاس آ گئے ہیں۔ ان میں وہاں کے چپراسی میاں بیوی بھی ہیں۔
’’جمعدار تو کل ہی سے بخار میں پڑے ہیں۔‘‘ چپراسی کی بیوی مجھے بتاتی ہے۔
جمعدار کو دیکھے بہت دن ہو گئے ہیں، اس لیے دیکھنے کی خواہش شدید ہو اٹھی ہے۔ تالا کھلتا ہے تو ایک دوسرا قیدی نکلنے کی کوشش کرتا ہے، جس کو تیزی سے اندر دھکیل دیا جاتا ہے۔ تب جمعدار نکلتے ہیں۔ دیکھ کر کسی کھیت میں گڑی اس لکڑی کی یاد آ جاتی ہے جسے کرتا پہنا دیا جاتا ہے اور آنکھ ناک بناکر اوپر ہانڈی رکھ دی جاتی ہے۔ بدن پر خاکی قمیص ہے اور مٹ میلا پاجامہ۔ سر پر پھٹا پرانا انگوچھا بندھا ہے، پیروں میں ربر کے بےحد ٹوٹے ہوئے جوتے۔ وہ لنگڑاتے ہوئے چل رہے ہیں۔ جمعدار کی آنکھیں پھاٹک کی طرف لگی ہیں جس کے باہر سگنی بیٹھی ہے، جس کے دل میں پتا نہیں کیا کیا بھرا ہے۔
’’جاؤ جمعدار، اب ایسا کام مت کرنا اور یہاں کے کپڑے اتاردو۔‘‘ اچانک وہاں کے ماسٹر کہے جانے والے ایک صاحب حکم دیتے ہیں اور جمعدار فوجی جوان کی طرح حکم بجا لانے کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں۔ وہ پہلے قمیص اتارتے ہیں۔ میں ان کی ننگی پیٹھ دیکھتا ہوں اور نظریں زمین پر گاڑ دیتا ہوں۔ پھر وہ پاجامہ کھولنے لگتے ہیں۔
’’پہنوگے کیا جمعدار؟‘‘
ماسٹر پوچھتے ہیں تو جمعدار سر پر بندھے انگوچھے کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ بولتے کچھ نہیں۔ صرف زبان منھ میں الٹتی پلٹتی رہتی ہے۔ وہ پاجامہ اتار کر انگوچھا لپیٹ لیتے ہیں جس کے چھیدوں میں سے ان کا انگ انگ جھانک رہا ہے۔ میری نظریں پھر زمین پر گڑ جاتی ہیں۔
’’چلیں بابوجی!‘‘ جمعدار کہتے ہیں تو میں چونکتا ہوں۔
’’بہن، کہا سنا معاف کرنا۔‘‘ جمعدار چپراسی کی بیوی سے کہتے ہیں تو وہ پھوٹ پڑتی ہے۔ آنسو جمعدار کی آنکھوں سے بھی نکل پڑتے ہیں۔
آگے جمعدار چل رہے ہیں، ننگی پیٹھ، چھدرا انگوچھا لپیٹے، لنگڑاتے ہوئے۔ پیچھے میں۔
’’تمہارے اپنے کپڑے کیا ہوئے جمعدار؟‘‘ میں پوچھتا ہوں تو وہ بتاتے ہیں کہ سب چھین لیا گیا تھا۔ چلتے وقت مجھے صرف ایک جھولا دیا گیا تھا جس میں کیا کیا تھا، میں نہیں دیکھ سکا تھا۔
جمعدار گیٹ سے باہر ہوئے تو لگا کہ میں نے اپنا عہد پورا کر دیا ہے اور یہ بات جمعدار سے کہہ بھی دی۔
’’جمعدار، اب تو تم رہا ہو گئے۔‘‘
’’کیسی رہائی بابوجی؟‘‘
یہ بات تڑاق سے میری کنپٹی پر لگی اور میں تلملا اٹھا۔ جمعدار نے اس رہائی کو رہائی کی شکل میں قبول نہیں کیا، یہ جان کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میں دیر تک اس پھاٹک کی طرف دیکھتا رہا جس کے اندر لمحہ بھر پہلے تک جمعدار بنے تھے۔ مڑا تو دیکھا کہ وہ سگنی سے لپٹ کر رو رہے ہیں۔
ایک بار پھر چھیدوں والے انگوچھے کے اوپر نکلی جمعدار کی ننگی پیٹھ اور جھکی کمر میری آنکھوں میں پھر گئی، جو مجھ سے پیسے لے کر یا شاید پیدل گھر تک پہنچیں گے اور وہاں رہائی کے لیے قرض لیے گئے پیسوں کو ادا کرنے میں ان کی کمر اور جھک جائےگی، پیٹھ اور ننگی ہو جائےگی۔
اور لگا کہ سامنے جیل کا ایک اور گیٹ تیزی سے ابھر رہا ہے جس کے قانون سے رہا ہونا جمعدار نامی مخلوق کے لیے آسان نہیں ہے۔
مأخذ : ہندی کہانیاں
مصنف:عبدل بسم اللہ