سکینہ علی باقر دنیا کے کئی ممالک میں اپنے بیٹے کی سالگرہ مناتے ہوئے اس بار ہندوستان آئی تھی اور اب یہاں وہ اپنے بیٹے کی سالگرہ کی تقریب منانے کی تیاری کر رہی تھی۔
میں نہیں جانتی کہ سکینہ علی باقر کون ہے؟ میں کبھی اس سے نہیں ملی۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ہر سال کسی نہ کسی ملک میں جا کر کسی اچھے ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں کچھ دن قیام کرنے کے بعد اپنے بیٹے کی سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیوں کرتی ہے؟ مجھے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اس نے میرا نام اور پتہ کہاں سے فراہم کیا؟ پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ ادب کے ناطے سے ہی کسی کے ذریعہ میرا نام اور پتہ معلوم کرکے دعوتی کارڈ مجھے بھیج دیا ہو۔
کارڈ کے ساتھ جو سلپ منسلک تھی اس پر ان تمام ممالک کے نام درج تھے جن میں وہ ہندوستان آنے سے پہلے اپنے بیٹے کی سالگرہ منا چکی تھی ان میں جرمنی، آسٹریلیا، انگلینڈ، آئرلینڈ اور ایشیا کے کئی ممالک چین اور جاپان بھی شامل تھے۔ کارڈ دیکھ کر میرا تجسس جاگنا لازمی تھا۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ کوئی اکیلی عورت اپنے وطن سے دور مختلف ممالک ہر سال جاتی ہے اور اپنے بیٹے کی سالگرہ کا اہتمام کرتی ہے۔۔۔!!!
شام ہونے پر میرے شوہر حسن جاوید جب دفتر سے لوٹے تو میں نے انھیں کارڈ دکھا کر تقریب میں اپنی شرکت کی خواہش کا بھی اظہار کر دیا۔ اگرچہ میرے شوہر اس تقریب میں جانے کے فیصلے سے متفق نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی ذہنی طور پر ایب نارمل خاتون معلوم ہوتی ہے جو ملک ملک گھمکڑی کرتی ہوئی اپنے بیٹے کی سالگرہ منانے کی حماقت میں مبتلا ہے۔ لیکن واقعہ ایسا حیران کن تھاکہ میں اس تقریب میں شریک ہونے سے اپنے آپ کو روک نہیں پائی۔ رات میں،’’راج بہادر گوڑ‘‘ جو مشہور و معروف اہل قلم ہیں اتفاق سے میرے گھر تشریف لائے تو میں نے متجسّس انداز میں سکینہ علی باقر کا بھیجا ہوا کارڈ انھیں دکھایا اور تقریب میں شرکت کا اپنا ارادہ بھی ظاہر کر دیا۔ گوڑ صاحب نے ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ کارڈ کو دیکھے بغیر میز پر ڈال دیا، کہنے لگے۔۔۔
’’یہ دعوت نامہ میرے پاس بھی آ چکا ہے۔ ایک فون بھی آیا تھا جس پر کچھ اہل قلم حضرات کے ایڈریس اور فون نمبر بھی مانگے تھے۔ میں نے ہی تمہارا ایڈریس نوٹ کروایا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم اس طرح کی تقریب ضرور اٹینڈ کروگی۔‘‘
تھوڑی دیر بعد میں نے اٹھ کر کافی بنائی۔ ہم تینوں یعنی میں زہرہ آفریدی میرے شوہر جاوید اور راج بہادر گوڑ صاحب کافی کے سپ لیتے ہوئے حالات حاضر ہ پر تبصرہ کرتے رہے۔ اتحادی فوجوں نے عراق پر حملہ کر دیا تھا اور زبردست بمباری کی جا رہی تھی۔ دیر تک ہم اتحادی فوجوں کی اس بربریت پر غصہ، نفرت اور ملامت کا اظہار کرتے رہے۔ ہوتے ہوتے گفتگو پھر سکینہ علی باقر کی طرف مڑ گئی۔
پڑوس کے گھر میں ٹی وی پر کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ کوئی گلوکار بڑی سریلی آواز میں نغمہ سرا تھا۔ اس کی آواز اور نغمے کے بول ترنگوں کے ذریعہ ہم تک پہنچ رہے تھے۔ میں نے کہا کہ آدمی اپنی سرشت میں ملک الموت بھی ہے اور مسیحا بھی۔ جب اس کی سرشت کا شیطان جاگتا ہے تو وہ آبادیوں اور بستیوں کو تحس نحس کرکے زندہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارتا چلا جاتا ہے اور جب یہ شیطان سو جاتا ہے تو زندگی بخش نغمے ہوا کی لہروں پر تیرتے ہوئے اچھی زندگی اور راحت کی امیدیں بکھیرنے لگتے ہیں۔
گوڑ صاحب نے میری بات سے اتفاق کیا اور کہنے لگے کہ ’’یہ شیطان خود بخود نہیں جاگتا اسے کوئی نہ کوئی منصوبہ، غرض، ہوس، تکبر یا حرص جیسا کوئی جذبہ ہی جگاتا ہے۔ یہ اخلاقیات کے زوال کا زمانہ ہے جس میں ہم جی رہے ہیں۔‘‘
میرے شوہر جو کافی دیر سے خاموش تھے گفتگو کے بو جھل پن کو بھانپ کر بات کو پھر سکینہ کی طرف لے آئے اور پوچھنے لگے کہ۔۔۔
’’اس کے پیچھے کون سا جذبہ ہو سکتا ہے کہ سکینہ علی باقر پچھلے تمام سالوں سے ہر برس کسی نئے ملک میں جاتی ہے اور وہاں ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، موسیقاروں اور مصوروں کو جمع کرکے اپنے بیٹے کی سالگرہ کی تقریب کرتی ہے۔‘‘
گوڑ صاحب نے بات آگے بڑھائی اور کہنے لگے۔۔۔
’’کل میں کارڈ میں لکھے پتے پر حیات ریذیڈینسی گیا تھا۔ میں نے وہاں ہوٹل کے مینیجر سے اس غیرملکی عورت کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ فی الحال لان میں بیٹھی ہے۔ اطلاع بھیجی تو مجھے بلا لیا گیا۔ میں نے لان میں پہنچ کر دیکھا کہ قریب پینتیس چھتیس سال کی ایک خوبصورت عورت لان میں بیٹھی ہوئی ہے اور وہ وہی ہے جوہر سال اپنے بیٹے کی سالگرہ کی تقریب الگ الگ ممالک میں مناتی ہے۔ سکینہ علی باقر اردو نہیں بول سکتی تھی۔ وہ صرف عربی میں بات کرتی رہی اور اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی دوسری خاتون شستہ اور آسان انگریز ی میں ترجمہ کرکے یہ بتاتی رہی کہ سکینہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ وہ خاتون شاید سکینہ علی باقر کی ترجمان تھی۔ میری خواہش تھی کہ اس لڑکے سے ملوں جس کی سالگرہ منائی جانے والی تھی۔ پوچھا تو سکینہ علی باقر کے دو لفظی جواب کو اس کی ترجمان نے ہم تک پہنچایا۔
’’نہیں ہے۔۔۔!‘‘
یہ جواب اتنا غیر واضح تھا کہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اس وقت کہیں گیا ہوا ہے۔ یا کتنی دیر میں آنے والا ہے؟ سکینہ علی باقر سے مزید استفسار مجھے ٹھیک نہیں لگا۔ اس بیچ سکینہ علی باقر نے چائے کا آڈر دے دیا تھا۔ ویٹر چائے لے آیا۔ چائے کے دوران میں نے کئی بار سوچا کہ کم از کم بچے کا نام تو معلوم کر ہی لوں کیونکہ کارڈ میں سب کچھ تھا لیکن بیٹے کا نام نہیں تھا۔ پوچھا تو سکینہ کا پھر وہی غیر واضح جواب تھا۔۔۔
’’کوئی نام نہیں ہے‘‘ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ راج بہادر گوڑ صاحب کی باتیں سن کر مجھے بھی حیرانی ہو رہی تھی کہ سکینہ کے بیٹے کا کوئی نام نہیں ہے۔ تجسس کا جذبہ اور شدید ہو گیا۔
تاریخ مقررہ پر میں اور گوڑ صاحب حیات ریذیڈنسی پہنچے۔ شام ڈھل رہی تھی، لان میں تقریب کا اہتمام بڑے سلیقے سے کیا گیا تھا۔ بڑی بڑی میزیں ماکولات اور مشروبات سے آراستہ تھیں۔ درمیان میں ایک بڑا ساکیک رکھا تھا جس کے ٹھیک سامنے سکینہ علی باقر اور اس کی برابروالی کرسی پر اس کی ترجمان عندیہ اسفہانی بیٹھی تھی۔ (یہ نام مجھے بعد میں ایک شخص سے پوچھنے پر معلوم ہوا) رفتہ رفتہ سبھی مہمان آتے جا رہے تھے۔ ہندی، اردو اور انگریزی کے کئی بڑے دانشور اس تقریب میں موجود تھے۔ ابھی تقریب کے آغاز میں کچھ دیر تھی۔ میری حیرت اس وقت اور بڑھ گئی جب میں نے کسی غیر ملکی بچے کو وہاں نہیں دیکھا۔ سکینہ کی بغل والی کرسی خالی تھی۔ لگتا تھا کہ یہ اس بچے کے لیے مخصوص ہے جس کی سالگرہ کی یہ تقریب ہے۔ سکینہ علی باقر کے چہرے سے ایسا کرب نمایاں تھا جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ وہ آنے والے مہمانوں سے مختصر تعارف کرنے کے بعد ان کے استقبال میں سر جھکا کر ایک غمزدہ مسکراہٹ کے ساتھ خاموش ہو جاتی۔
تبھی ایک ہلکی ماتمی دھن پر سکینہ نے حسب دستور کیک کاٹا مدعو حاضرین نے تالیاں بجائیں اور تقریب انجام کو پہنچی۔ سکینہ نے اس مختصر پروگرام کے تعلق سے ضروری ہدایات دے دی تھیں۔ مدعو حضرات کھانے پینے میں مصروف تھے لیکن حاظرین میں ایک تجسّس تھا کہ وہ بچہ کہاں ہے جس کے لیے اس تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے؟
سکینہ علی باقر نے عربی میں مہمانوں کو مخاطب کیا جس کو عندیہ اصفہانی نے انگریزی میں ہم تک پہنچایا۔ سکینہ نے اپنے تخاطب میں کہا تھا۔۔۔
’’۱۹۹۱ ء میں میں نے خیمہ الامر یہ چھوڑ دیا تھا۔ یہ سانحہ اس وقت کا ہے جب امریکی فوجوں نے عراق پر پہلی بار حملہ کیا تھا۔ ہمیں بغداد کے قدیم وضع کے رہائشی محلہ سے ہٹاکر سرکاری محافظین نے اس خیمے میں یہ سوچ کر پہنچا دیا تھا کہ پناہ گزینوں کے اس خیمے پر جنگی طیارے حملے نہیں کریں گے ۔بہت سے افراد کھانے پینے کے علاوہ ضروریات کا تھوڑا بہت سامان ساتھ لیے اپنے گھروں میں تالے لگا کر خیموں میں آ گئے تھے۔ میرا شوہر علی باقر جو مجھے بہت پیار کرتا تھا میرے لیے بہت پریشان تھا کیونکہ مہاجرت کی زندگی کا اسے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ مجھے اس کے مقابلے کم ہر اس تھا کیونکہ علی باقر میرے ساتھ تھا اور مجھے اس کی ہمراہی اور نگہبانی پر بھروسہ تھا۔
جب ہم خیمہ الامر یہ پہنچے تو شام ہو چکی تھی اندھیرا بڑھ رہا تھا اور اندھیرے کے ساتھ موت کا خوف بھی ،کیونکہ خطرے کا سائرن بجتے ہی بغداد کی ساری بتیاں بجھا دی گئی تھیں۔ دشمن فوج کے طیارے فضا میں چنگھاڑ رہے تھے اور عراق کے جانبازوں نے انھیں نشانہ بنانے کے لئے اپنی توپوں کے دہانے کھول دیے تھے۔ بموں کے پھٹنے کی آوازیں اور عمارتوں کے منہدم ہونے کا شور خیمے میں صاف سنائی دے رہا تھا۔ آگ کی لپٹیں فضا میں لپلپاتی ہوئی خوفناک منظر پیش کر ر ہی تھیں۔۔۔ دوسری رات آنے تک ہم خطرے میں زندہ رہنے کی عادت ڈال چکے تھے۔ علی باقر رات گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی قصہ چھیڑ دیتا۔ بموں کے دھماکے گونجتے تو وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتا اور کچھ دیر بعد چھوڑ ے ہوئے قصے کا سلسلہ پھر شروع کر دیتا۔ یہ میری شادی کا دوسرا سال تھا اور میں پہلی بار ماں بننے والی تھی۔۔۔‘‘
علی باقر نے بتایا کہ ’’حملہ آوروں نے بغداد کو اس سے پہلے بھی کئی بار نشانہ بنایا ہے۔ ہم عراقیوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ ہم دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا پرانا مرکز ہیں، لیکن انسانی تہذیب کے اس عظیم مرکز کو تباہ کرنے میں کسی حملہ آور نے کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ ہلا کو بھی ایک بار کثیر فوج لے کر بغداد پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس نے بغداد پر چڑھائی کی اور اپنی خونخوار فوجوں کو حکم دیا کہ جو ذی نفس سامنے آئے اسے تہ تیغ کر دو۔ بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ہلا کو فوج کو حکم دیتا رہا کہ۔۔۔
’’مارو‘‘ اور ’’مارو‘‘ تبھی فوج کے ایک عہدے دار نے ہلا کو کے سامنے حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ حاضری کی اجازت ملنے پراس نے ہلاکو کو بتایا کہ۔۔۔
’’جہاں پناہ بغداد کی ایک ویران مسجد میں چار درویش جو نہایت خستہ حالت میں ہیں آپ کے حق میں بد دعا کر رہے ہیں۔‘‘
ہلاکو نے یہ سن کر وحشیانہ قہقہہ لگایا اور حکم دیا کہ ان درویشوں کو فوراََ حاضر کیا جائے۔
سپاہی گئے اور ان درویشوں کو گرفتار کر لائے۔ ہلاکو نے پوچھا۔۔۔
’’کیا تم مسجد میں بیٹھ کر ہمارے لیے بد دعا کر رہے تھے؟ بولو کیا کہہ رہے تھے تم؟‘‘ ان درویشوں میں سے ایک نے جرأت کی اور ایک قدم ہلا کو کی طرف آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔۔۔
’’ہم اﷲ سے التجا کر رہے تھے کہ جیسے ہلاکو نے خلق خدا کو تباہ کیا ویسا ہی تباہی والا انجام اس کا بھی ہو۔‘‘ ہلاکو نے سنا تو قہقہہ لگا کر بولا
’’اگر تمہاری بد دعا سے ہلا کو تباہ بھی ہو گیا تو اس سے کیا ان ماؤں کی گودیں بھر جائیں گی جن کے بچّوں کو میرے لشکر ی اپنے نیزوں پر اچھال کر موت کی نیند سلا چکے ہیں؟ کیا بوڑھوں کو ان کی اولادیں اور بیواؤں کو ان کے سہاگ واپس مل جائیںگے؟‘‘
یہ کہہ کر ہلا کو نے پھر ایک وحشیانہ قہقہہ لگایا اور کہنے لگا۔۔۔
’’کمزور قومیں یہی کرتی آئی ہیں جو تم کر رہے تھے ہلاکو تباہ ہو بھی گیا تب بھی وہ تباہی اب تک ہوچکی تباہی کا بدل نہیں ہوگی۔۔۔‘‘
’’علی باقر نے ہلا کو کا واقع سنایا ہی تھا کہ خیمہ الامریہ کے قریب زبردست بم دھماکہ ہوا۔ آس پاس کے خیموں میں کہرام مچا۔ کئی عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے میرا شوہر باقر بھی موت کی نیند سو گیا اور میں بد نصیب بچ تو گئی لیکن اسقاط حمل کا شکار ہوئی۔ کئی دن امدادی ہسپتال میں گزارنے کے بعد جب صحت کچھ بحال ہوئی تو خیمے سے باہر نکلی اور ایران ہوتے ہوئے افغانستان کی راجدھانی کابل پہونچی۔ ‘‘
سب لوگ پوری توجہ سے سکینہ علی باقر کی آپ بیتی سن رہے تھے اور دم بخود تھے۔ وہ اس واردات کو بیان کرتے ہوئے خوف سے لرزنے لگی تھی۔
سکینہ علی باقر کہہ رہی تھی۔۔۔
’’اس تباہی میں جن ماؤں کی اولادیں کام آئیں، جن کے شوہر موت کا لقمہ بنے، جن کی بہنیں بیوا ہوئیں ان کے پاس کم از کم ان کی نشانیاں تو ہیں، ذہن میں ان کے چہروں کا تصور تو محفوظ ہے، یادداشت میں ان کے نام تو محفوظ ہیں لیکن میں۔۔۔؟؟؟ مجھے تو اس سے بھی محروم کر دیا گیا۔ پچھلے کتنے سالوں سے میں اسی بچے کی سالگرہ منا رہی ہوں جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوا، جس کا میں کوئی نام تک نہ رکھ سکی۔ جس کو میں اپنی گود میں لے کر چوم بھی نہ سکی مجھے اس کے لمس کے احساس کا کوئی تجربہ نہ ہو سکا۔ میرے پاس تو اس کی کوئی نشانی بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کی نیند سو گیا۔ کیا یہ مہذب دنیا کے ماتھے پر ’کلنک‘ نہیں ہے۔۔۔؟
مصنف:افشاں ملک