چیت کامہینہ تھا، لیکن وہ کھلیان جہاں اناج کے سنہرے انبار لگتے تھے، جان بلب مویشیوں کے آرام گاہ بنے ہوئے تھے۔ جن گھروں سے پھاگ اور بسنت کی الاپیں سنائی دیتی تھیں وہاں آج تقدیرکا رونا تھا۔ ساراچوماسہ گزرگیا پانی کی ایک بوند نہ گری۔ جیٹھ میں ایک بارموسلادھارمینہ برساتھا۔ کسان پھولے نہ سمائے۔ خریف کی فصل بودی، لیکن فیاض اِندرنے اپنا سارا خزانہ شاید ایک ہی بارلٹادیا۔ پودے اُگے بڑھے اور پھرسوکھ گئے۔ مرغزاروں میں گھاس نہ جمی۔ بادل آتے، گھٹائیں امڈتیں، ایسا معلوم ہوتا کہ جل تھل ایک ہوجائے گا مگروہ نحوست کی نہیں، آرزوؤں کی گھٹائیں تھیں۔ کسانوں نے بہت جب تپ کئے۔ اینٹ اورپتھردیویوں کے نام سے پج گئے۔ پانی کی امیدیں خون کے پرنالے بہہ گئے لیکن اندرکسی طرح نہ پسیجے۔ نہ کھیتوں میں پودے تھے۔ نہ چراگاہوں میں گھاس، نہ تالابوں میں پانی عجیب مصیبت کاسامناتھا۔ جدھر دیکھئے خستہ حالی افلاس اورفاقہ کشی کے دلخراش نظارے دکھائی دیتے تھے۔ لوگوں نے پہلے گہنے اور برتن گروی رکھے اورتب بیچ ڈالے۔ پھرمویشیوں کی باری آئی اورجب روزی کاکوئی سہارا نہ رہا تب اپنے وطن پرجان دینے والے کسان، بیوی بچوں کو لے لے کرمزدوری کرنے کونکلے۔ جابجا محتاجوں اورمزدوروں کی پرورش کے لئے سرکار کی جانب سے امدادی تعمیرات جاری ہوگئیں تھیں جسے جہاں سببھتاہواادھرجانکلا۔
شام کا وقت تھا۔ جادورائے تھکاماندہ خستہ حال آکرزمین پربیٹھ گیا، اور بیوی سے مایوسانہ لہجہ میں بولا، ’’درکھاس نامنجورہوگئی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ آنگن میں زمین پرلیٹ گیا۔ اس کا چہرہ زردتھا۔ اورآنتیں سکڑی ہوئی تھیں۔ آج دودن سے اس نے دانہ کی صورت نہیں دیکھی۔ گھرمیں جوکچھ اثاثہ تھا گہنے، کپڑے، برتن بھانڈے سب پیٹ میں سماگئے۔ گاؤں کاساہوکار نگاہِ عصمت کی طرح آنکھیں چرانے لگا۔ صرف تقادی کاسہاراتھا۔ اس کی درخواست دی تھی لیکن افسوس! وہ درخواست بھی نامنظور ہوگئی۔ امیدکا جھلملاتاہوا چراغ گل ہوگیا۔
دیوکی نے شہر کو ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوامڈآئے۔ شوہر دن بھرکاتھکا ماندہ گھرآیا۔ اسے کیاکھلائے۔ شرم کےمارے وہ ہاتھ پیردھونے کے لئے پانی بھی نہیں لائی۔ جب ہاتھ پیردھوکروہ منتظر اورگرسنہ اندازسے اس کی طرف دیکھے گا تو وہ اسے کیاکھانے کودے گی۔ اس نے خود کئی دن سے دانہ کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ لیکن اس وقت اسے جوصدمہ ہوا وہ فاقہ کشی کی تکلیف سے بدرجہازیادہ سخت تھا۔ عورت گھرکی لکشمی ہے۔ گھر کے آدمیوں کوکھلانا پلانا وہ اپنا فرض سمجھتی ہے اورخواہ یہ اس کی زیادتی ہی کیوں نہ ہو، لیکن ناداری اوربینوائی سے جوروحانی صدمہ اس کوہوتا ہے وہ مردوں کو نہیں ہوسکتا۔
یکایک اس کا بچہ سادھونیند سے چونکا اورمٹھائیوں کی صبر آزما خواہش سے بھرا ہوا آکرباپ سے لپٹ گیا۔ اس بچے نے آج صبح کوچنے کی روٹیوں کا ایک ٹکڑا کھایاتھا اور تب سے کئی باراٹھا اورکئی بار روتے روتے سوگیا۔ چاربرس کانادان بچہ، اسے مٹھائیوں میں اوربارش میں کوئی تعلق نہیں نظرآتاتھا۔ جادورائے نے اسے گود میں اٹھالیا اور اس کی طرف خطاوار نگاہوں سے دیکھا۔ اس کی گردن جھک گئی اور بیکسی آنکھوں میں نہ سماسکی۔
دوسرےدن یہ کنبہ بھی گھرسے نکلا جس طرح مرد کے دل سے غیرت اورعورت کی آنکھ سے حیانہیں نکلتی۔ اسی طرح اپنی محنت سے روٹی کمانے والا کسان بھی مزدوری کے کھوج میں گھرسے باہر نہیں نکلتا۔ لیکن فاقہ کشی! آہ توسب کچھ کرسکتی ہے۔ عزت اورغیرت، شرم اورحیایہ سب چمکتے ہوئے تارے تیری سیاہ گھٹاؤں کے پردہ میں چھپ جاتے ہیں۔
صبح کا وقت تھا۔ یہ دونوں غم نصیب گھر سے نکلے۔ جادورائے نے لڑکے کوپیٹھ پرلیا۔ دیوکی نے وہ بینوائی کی گٹھری سرپررکھی جس پرافلاس کوبھی ترس آتا۔ دونوں کی آنکھیں آنسوؤں سے ترتھیں۔ دیوکی روتی تھی۔ جادوخاموش تھا۔ گاؤں کے دوچار آدمیوں سے راستہ میں مڈبھیڑہوئی۔ مگر کسی نے اتنابھی نہ پوچھا کہ کہاں جاتے ہو۔ کسی کے دل میں ہمدردی باقی نہ تھی۔
سورج ٹھیک سرپر تھا جب یہ لوگ لال گنج پہنچے۔ دیکھا تومیلوں تک آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے، لیکن ہرایک چہرہ پرفاقہ کشی اورمصیبت کاایک دفترتھا۔ بیساکھ کی وہ جلتی ہوئی دھوپ، آگ کے جھونکے زورزور سے ہرہراتے ہوئے چلتے تھے اور وہاں ہڈیوں کے بے شمارڈھانچے، جن کے بدن پرلباس عریانی کے سواکوئی لباس نہ تھا، مٹی کھودنے میں مصروف تھے۔ گویا مرگھٹ تھا جہاں مردے اپنےہاتھوں اپنی قبرکھودرہے تھے۔
بوڑھے اورجوان، مرد اوربچے، سب کچھ اس بیکسانہ ہمت اور یاس سے کام میں لگے ہوئے تھے۔ گویا موت اورفاقہ کشی ان کے سامنے بیٹھی گھوررہی ہے۔ اس آفت میں نہ کوئی کسی کا دوست تھا، نہ ہمدرد، رحم اورشرافت اوراخلاق یہ سب انسانی جذبات ہیں جن کا خالق انسان ہے، قدرت نے جانداروں کوصرف ایک خاصیت عطا کی ہےاور وہ خودغرضی ہے۔ انسانی جذبات جوفارغ البانی کے سنگارہیں اکثربیوفادوستوں کی طرح ہم سے دغا کرجاتے ہیں لیکن یہ فطری خاصیت دم آخر تک ہماراگلانہیں چھوڑتی۔
آٹھ دن گزرگئے تھے۔ شام کا وقت تھا۔ کیمپ کاکام ختم ہوچکاتھا۔ کیمپ سے کچھ دورآم کاایک گھناباغ تھا۔ وہیں ایک پیڑ کے نیچے جادورائے اوردیوکی بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں ایسے خستہ حال تھے کہ ان کی صورت نہیں پہچانی جاتی تھی۔ وہ آزاد کاشتکار نہیں رہے۔ وہ اب فاقہ کش مزدور ہوگئے ہیں۔
جادورائے نے بچے کوزمین پرسلادیا۔ اسے کئی دن سے بخارآرہاہے۔ کنول سا چہرہ مرجھاگیا ہے۔ دیوکی نے اسے آہستہ سے ہلاکرکہا، ’’بیٹا آنکھیں کھولو۔ دیکھوسانجھ ہوگئی ہے۔‘‘
سادھو نے آنکھیں کھول دیں۔ بخاراترگیاتھا۔ بولا، ’’کیا ہم گھرآگئے ماں؟‘‘
گھرکی یادآگئی۔ دیوکی کی آنکھیں ڈبڈباگئیں۔ اس نے کہا، ’’نہیں بیٹاتم اچھے ہوجاؤگے توگھرچلیں گے۔ اٹھ کر دیکھوکیسااچھا باغ ہے۔‘‘
سادھوماں کے ہاتھوں کے سہارے اٹھا اوربولا، ’’اماں مجھے بڑی بھوک لگی ہے لیکن تمہارے پاس توکچھ نہیں ہے۔ مجھے کیا کھانے کودوگی۔‘‘
دیوکی کے کلیجہ میں چوٹ لگی۔ ضبط کرکے بولی، ’’نہیں بٹیاتمہارے کھانے کو میرے پاس سب کچھ ہے۔ تمہارے دادا پانی لاتے ہیں تومیں نرم نرم روٹیاں بنائے دیتی ہوں۔‘‘
سادھو نے ماں کی گود میں سررکھ دیا اوربولا، ’’اماں! میں نہ ہوتاتو تمہیں اتنادکھ نہ ہوتا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔ یہ وہی بے سمجھ بچہ ہے جو دوہفتہ پہلے مٹھائیوں کے لئے دنیاسرپراٹھالیتاتھا۔ افلاس نے اورفکرنے کیساتغیر کردیاہے۔ یہ مصیبت کے احساس کااثرہے۔ کتنادردناک، کتنادل شکن!
اسی اثنا میں کئی آدمی لالٹین لئے ہوئے وہاں آئے، پھر گاڑیاں آئیں، ان پرڈیرے اور خیمے لدے ہوئے تھے۔ دم کے دم میں وہاں خیمے کھڑے ہوگئے۔ سارے باغ میں چہل پہل نظرآنے لگی۔ دیوکی روٹیاں سینک رہی تھی۔ سادھو دھیرے دھیرے اٹھا اور حیرت سے تاکتا ہواایک ڈیرے کے نزدیک جاکرکھڑا ہوگیا۔
پادری موہن داس خیمہ سے باہرنکلے توسادھوانہیں کھڑا دکھائی دیا۔ اس کی صورت پرانہیں ترس آگیا۔ محبت کا دریاامڈآیا۔ بچہ کوگودمیں اٹھایا اور خیمہ میں لاکر ایک گدے دار کوچ پربٹھادیا۔ تب اسے بسکٹ اورکیلے کھانے کو دیئے۔ لڑکے نے اپنے بہترین زمانہ میں ان نعمتوں کی صورت نہ دیکھی تھی۔ بخارکی بے چین کرنے والی بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس نے خوب سیر ہوکرکھایا اورتب احسان مند نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پادری صاحب کے پاس جاکربولا، ’’تم ہم کو روزایسی چیزیں کھلاؤگے؟‘‘
پادری صاحب اس بھولےپن پرمسکراکربولے، ’’میرے پاس اس سے بھی اچھی اچھی چیزیں ہیں۔ اس پرسادھو رائے نے فرمایا اب میں روزتمہارے ساتھ رہوں گا۔ اماں کے پاس ایسی اچھی چیزیں کہاں ہیں۔ وہ تومجھے چنے کی روٹیاں کھلاتی ہیں۔‘‘
ادھردیوکی نے روٹیاں بنائیں اورسادھوکوپکارنے لگی۔ سادھو نے ماں کے پاس جاکرکہا، ’’مجھے صاحب نے اچھی اچھی چیزیں کھانے کودیں ہیں صاحب بڑے اچھے ہیں۔‘‘
دیوکی نے کہا، ’’میں نے تمہارے لئے نرم نرم روٹیاں بنائی ہیں آؤتمہیں کھلادوں۔‘‘
سادھوبولا، ’’اب میں نہ کھاؤں گا۔ صاحب کہتے تھے کہ میں تمہیں روزاچھی اچھی چیزیں کھلاؤں گا۔ میں اب ان کے ساتھ رہوں گا۔‘‘
ماں نے سمجھالڑکاہنسی کررہاہے۔ اسے چھاتی سے لگاکربولی، ’’کیوں بیٹا ہم کوبھول جاؤگے۔ میں تمہیں کتناپیارکرتی ہوں؟‘‘
سادھو طفلانہ متانت سے بولا، ’’تم تومجھے روزچنے کی روٹیاں دیتی ہو۔ تمہارے پاس توکچھ نہیں ہے۔ صاحب مجھے کیلے اورآم کھلائیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھرخیمہ کی طرف بھاگااور رات کو وہیں سورہا۔
پادری موہن داس کا وہاں تین دن قیام رہا۔ سادھودن بھرانہیں کے ساتھ رہتا۔ صاحب نے اسے میٹھی میٹھی دوائیں دیں۔ اس کا بخار بھی جاتا رہا۔ وہ بھولے بھالے کسان صاحب کودعائیں دیتے۔ بچہ چنگاہے اورآرام سے ہے۔ صاحب کوپرماتما سداسکھی رکھے۔ انہوں نےبچہ کی جان رکھ لی۔
چوتھے دن رات ہی کوپادری صاحب نے وہاں سے کوچ کیا۔ اورصبح کودیوکی اٹھی تو سادھوکا بھی وہاں پتہ نہ تھا۔ دیوکی نے سمجھا کہیں ٹپکے ڈھونڈنے گیاہوگا۔ اس نے جادو سے کہا، ‘’للویہاں نہیں ہے۔ اس نے بھی یہی کہا کہیں ٹپکےڈھونڈتاہوگا۔‘‘
لیکن جب سورج نکل آئے اورکام پرچلنے کا وقت آپہنچا، تب جادورائے کوکچھ اندیشہ ہوا۔ اس نے کہا، ’’تم یہیں بیٹھی رہنا۔ میں ابھی اسے لئے آتاہوں۔‘‘
اس نے قرب وجوار کےسب باغ چھان ڈالے اور دس بجتے بجتے ناکام لوٹ آیا۔ سادھو نہ ملا۔ دیوکی نے زارزاررونا شروع کیا۔
پھر دونوں اپنے لال کی تلاش میں نکلے۔ طرح طرح کے وسواس دل میں آتے تھے۔ دیوکی کوپورا یقین تھا کہ صاحب نے اس پرکوئی منتر ڈال دیا لیکن جادو کواس مظنّے کے تسلیم کرنے میں کچھ خفیف ساشک تھا۔ بچہ اتنی دورانجان راستہ پراکیلے نہیں جاسکتا۔ تاہم دونوں گاڑی کے پہیوں اورگھوڑے کی ٹاپوں کے نشان دیکھتے چلے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ایک سڑک پر آٖپہنچے۔ وہاں گاڑی کے بہت سے نشان تھے۔ اس خاص لیک کی تمیزنہ ہوسکی۔ گھوڑے کی ٹاپ بھی ایک جھاڑی کی طرف جاکر غائب ہوگئی۔ امید کا سہاراٹوٹ گیا۔ دوپہرہوگیاتھا۔ دونوں دھوپ کے مارے بے چین، مایوسی سے نیم جان ہوگئےتھے۔ وہیں ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے۔ دیوکی بلاپ کرنے لگی اور جادونے غمگساری کافرض ادا کرناشروع کیا۔
جب ذرادھوپ کی تیزی کم ہوئی تو دونوں پھر آگے چلے لیکن اب امید کے بجائے مایوسی ساتھ تھی گھوڑے کے ٹاپ کے ساتھ امید کا دھندلانشان غائب ہوگیاتھا۔
شام ہوگئی جابجا مویشی موت کے انتظار میں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ یہ دونوں مصیبت کے مارے ہمت ہارکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اسی درخت پر فاختہ کاایک جوڑابسیرا لئے ہوئے تھا۔ ان کا ننہا سا بچہ آج ایک شکرے کے چنگل میں پھنس گیاتھا۔ دونوں دن بھر بے چین ادھرادھر اڑتے رہے۔ اس وقت ہمت ہارکر بیٹھ رہے۔ مایوسی نے تشفی دی۔ امیدمیں اضطراب اوربیکلی ہے، مایوسی میں تشفی وتسکین۔ دیوکی اور جادوکی مایوسی میں بھی امید کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ اسلئے وہ بے چین تھے۔
تین دن تک یہ دونوں اپنے کھوئے ہوئے لال کی تلاش کرتے رہے۔ دانہ سے بھینٹ نہیں۔ پیاس سے بے چین ہوتے توپانی کے دوچارگھونٹ حلق کے نیچے اتار لیتے۔ امید کے بجائے مایوسی کا سہارا تھا۔ ہمت کے بجائے بے ہمتی کاساتھ، اشک اورغم کے سواکوئی زادِراہ نہیں۔ کسی بچے کے پیروں کے نشان دیکھتے تو ان کے دلوں میں امیدوبیم کاایک طوفان سااٹھ جاتا۔
لیکن ہرایک قدم انہیں منزلِ مقصود سے دورلئے جاتا تھا۔
اس واقعہ کوچودہ سال گزرگئے۔ اورمتواتر چودہ سال ملک میں رام کاراج رہا۔ نہ کبھی اندر نے شکایت کاموقع دیا اورنہ زمین نے۔ امڈی ہوئی ندی کی طرح انبارخانے غلہ سے لبریزتھے اجڑے ہوئے گاؤں آبادہوگئے۔ مزدورکسان ہوبیٹھے اورکسان جائیداد کی تلاش میں نظریں دوڑانےلگے۔
وہی چیت کے دن تھے۔ کھلیانوں میں سنہرے اناج کے پہاڑکھڑے تھے۔ بھاٹ اوربھکاری کسانوں پر دنیاکی نعمتوں کی بارش کرتےنظرآتےتھے۔ سناروں کے دروازے پرسارے دن اورآدھی رات تک گاہکوں کاجمگھٹ رہتاتھا۔ درزی کو سراٹھانےکی فرصت نہ تھی۔ اکثر دروازوں پر گھوڑے ہنہنارہےتھے اوردیوی کے پجاریوں کوبدہضمی کامرض ہوگیاتھا۔
زمانہ نے جادورائے کے ساتھ بھی مساعدت کی۔ اس کے گھر پراب بجائے کھپریل کے پکی چھت ہے۔ دروازے پرخوش قامت بیلوں کی جوڑی بندھی ہوئی ہے۔ وہ اب اپنی بہلی میں سوارہوکر بازارجایاکرتا ہے۔ اس کا جسم اتنا سڈول نہیں ہے۔ پیٹ پرفارغ البالی کاخاص اثرنظرآتاہے اوربال بھی سفید ہوچلے ہیں۔ دیوکی کا شماربھی گاؤں کی بڑی بوڑھی عورتوں میں ہوتا ہے اورنسوانی مناقشات میں اکثر اس کےفیصلے ناطق سمجھے جاتے ہیں، جب وہ کسی پڑوسن کے گھرجاتی ہے تووہاں کی بہوئیں خوف سے تھرتھرانے لگتی ہیں۔ اس کی نگاہ ِتیزاورزبان شعلہ ریز کی سارے گاؤں میں دھاک بندھی ہوئی ہے۔ مہین کپڑے اب اسے نہیں بھاتے۔ لیکن گہنوں کے بارے میں وہ اتنی کفایت شعارنہیں ہے۔
ان کی زندگی کادوسراپہلو اس سے کم روشن نہیں ہے۔ ان کے دو اولادیں ہیں۔ لڑکا مادھوسنگھ اب کھیتی باڑی کےکام میں باپ کی مددکرتاہے۔ لڑکی کا نام شیوگوری ہے۔ وہ اب ماں کے ساتھ چکی پیستی ہے اورخوب گاتی ہے۔ برتن دھونا اسے پسندنہیں، لیکن چوکالگانے میں مشاق ہے۔ اس کی گڑیوں کاکبھی بیاہ سے جی نہیں بھرتا۔ آئے دن شادیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ہاں ان میں کفایت کاکامل لحاظ رکھا جاتاہے۔
گم گشتہ سادھو کی یادابھی تک تازہ ہے۔ اس کا ذکر اکثرآتاہے اورکبھی بغیررلائے نہیں رہتا۔ دیوکی کبھی کبھی دن دن بھراس لاڈلے بیٹے کی سدھ میں بے قرار رہتی ہے۔
شام ہوگئی تھی۔ بیل دن بھرکے تھکے سرجھکائے چلے آتے تھے۔ پجاری نے ٹھاکر دوارے میں گھنٹہ بجانا شروع کیا۔ آج کل فصل کے دن ہیں روزپوجا ہوتی ہے۔ جادورائے کھاٹ پر بیٹھے ناریل پی رہےتھے۔ شیوگوری راستہ میں کھڑی ان بیلوں کوکوس رہی تھی جو اس کے عالیشان محل کی ذرابھی عزت نہ کرکے اسے روندتے چلے جاتے تھے۔
ناقوس اورگھنٹہ کی آواز سنتے ہی جادورائے چرنامرت لینے کے لئے اٹھے کہ یکایک ایک شریف صورت، خوشرونوجوان بھونکتے ہوئے کتوں کودھتکارتا۔ بائیسکل کو ہاتھوں سے دھکیلتا ہواان کےسامنے کھڑا ہوگا اورجھک کران کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ جادورائے نے غور سے دیکھا اور تب دونوں لپٹ گئے۔ مادھو بھوچک ہوکر بائیسکل کودیکھنےلگا۔ شیوگوری روتی ہوئی گھرمیں بھاگ گئی اوردیوکی سے بولی دادا کو صاحب نے پکڑلیاہے۔ دیوکی گھبرائی ہوئی باہرآئی۔ سادھواسے دیکھتے ہی اس کے پیروں پرگرپڑا۔ دیوکی لڑکے کوچھاتی سے لگاکر زار زار رونے لگی۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں اوربچے جمع ہوگئے۔ میلہ سا لگ گیا۔
سادھو نے کہا، ’’ماتا جی اورپتاجی! مجھ بدنصیب سے جوکچھ قصورہواہے اسے معاف کیجئے۔ میں نے اپنی نادانی سے خودبہت تکلیفیں اٹھائیں اور آپ کو بہت دکھ دیا لیکن اب مجھے اپنی گود میں لیجئے۔‘‘
دیوکی نے رو کرکہا، ’’جب تم ہم کو چھوڑکربھاگے تھے توہم لوگ تمہیں تین دن تک بے دانہ بے پانی ڈھونڈتے رہے۔ جب نراس ہوگئے تو اپنے نصیبوں کوروکربیٹھ رہے۔ تب سے آج تک کوئی ایسا دن نہ گیا ہوگا کہ تمہاری سدھ نہ آئی ہو۔ روتےروتے ایک جگ بیت گیا اب تم نے جاکے خبرلی ہے۔ بتاؤ بیٹا اس دن تم کیسے بھاگے اور کہاں جاکر رہے۔‘‘
سادھو نے ندامت آمیز انداز سے جواب دیا، ’’ماتا جی اپنا حال کیاکہوں میں پہررات رہے آپ کےپاس سے اٹھ کربھاگا۔ پادری صاحب کے پڑاؤ کاپتہ شام ہی کوپوچھ لیاتھا۔ بس پوچھتاہوا دوپہر کو ان کے پاس پہنچ گیا۔ صاحب نے مجھے پہلے سمجھایا کہ اپنے گھرلوٹ جاؤ لیکن جب میں کسی طرح نہ راضی ہوا توانہوں نے مجھے پونا بھیج دیا۔ میری طرح وہاں سیکڑوں لڑکےتھے۔ وہاں بسکٹ اور نارنگیوں کا کیا ذکر۔ اب مجھے آپ لوگوں کی یادآئی اورمیں اکثرروتا۔ مگربچپن کی عمرتھی۔ دھیرے دھیرے انہیں لڑکوں میں ہل مل گیا۔ لیکن جب سے کچھ ہوش ہوا ہے اوراپنا پرایاسمجھنے لگاہوں تب سے اپنی نادانی پر ہاتھ ملتا رہا ہوں۔ رات اور دن آپ لوگوں کی رٹ لگی ہوئی تھی۔ آج آپ لوگوں کودعا سے وہ مبارک دن دیکھنا نصیب ہوا۔ بیگانوں میں بہت دن کاٹے۔ بہت دنوں تک اناتھ رہا۔ اب مجھے اپنی سیوا میں رکھئے۔ مجھے اپنی گود میں لیجئے۔ میں محبت اورپیارکا بھوکا ہوں۔ مدتوں سے مجھے یہ نعمت نہیں میسر ہوئی۔ وہ نعمت مجھے دیجئے۔‘‘
گاؤں کے بہت سے بزرگ جمع تھے۔ بوڑھے جگن سنگھ بولے، ’’توکیوں بیٹا تم اتنے دنوں پادریوں کے ساتھ رہے انہوں نے تم کوبھی پادری بنالیا ہوگا۔‘‘
سادھو نے سر جھکاکرکہا، ’’جی ہاں یہ توان کا دستور ہی ہے۔‘‘
جگن سنگھ نے جادورائے کی طرف دیکھ کر کہا، ’’یہ بڑی کٹھن بات ہے۔‘‘
سادھوبولا، ’’برادری مجھ سے جوپرائشچت کرائے گی میں اسے شوق سے پورا کروں گا۔ مجھ سے جو کچھ برادری کا اپرادھ ہوا ہے نادانی میں ہوا ہے لیکن میں اس کی سزا بھگتنے کے لئے تیارہوں۔‘‘
جگن سنگھ نے پھر جادورائے کی طر ف کنکھیوں سے دیکھا اور دوراندیشانہ انداز سے بولے، ’’ہندو دھرم میں ایسا کبھی نہیں ہواہے۔ یوں تمہارے باپ اور ماں چاہے تمہیں اپنے گھرمیں رکھ لیں۔ تم ان کے لڑکے ہو مگربرادری کبھی اس کام میں شریک نہ ہوگی۔ بولوجادورائے کیاکہتے ہو۔ کچھ تمہارے من کی بات بھی تو معلوم ہو۔‘‘
جادورائے بڑے دبدھے میں پڑا ہوا تھا۔ ایک طرف تو اپنے پیارے بیٹے کی محبت کھینچتی تھی۔ دوسری طرف برادری کا خوف دامنگیرتھا جس لڑکے کےلئے روتے روتے مدتیں گزرگئیں آج وہی سامنے کھڑا آنکھوں میں آنسو بھرے کہتا ہے، ’’پتا جی مجھے اپنی گودمیں لیجئے۔ اورمیں پتھر کے دیوتا کی طرح خاموش بیٹھا ہواہوں۔ افسوس! ان بے رحم بھائیوں کوکیا کروں۔ کیسے سمجھاؤں۔‘‘
لیکن ماں کی ممتا نے زورمارا۔ دیوکی سے ضبط نہ ہوا۔ اس نے بے باکی سے کہا، ’’میں اپنے لال کواپنے گھر میں رکھوں گی۔ اورکلیجہ سے لگاؤں گی۔ اتنے دنوں کے بعد ہم نے اسے پایاہے۔ اب اسے نہیں چھوڑسکتی۔‘‘
جگن سنگھ تیزہوکر بولے، ’’چاہے برادری چھوٹ جائے۔‘‘
دیوکی نے بھی تیزہوکر جواب دیا، ’’ہاں چاہے برادری چھوٹ جائے۔ لڑکے بالوں ہی کے لئے آدمی برادری کی آڑپکڑتاہے۔ جب لڑکا ہی نہ رہا توبرادری ہمارے کس کام آئے گی۔‘‘
اس پر ٹھاکرلال آنکھیں نکال کربولے، ’’ٹھکرائن برادری کی خوب مرجاد کرتی ہو۔ لڑکاچاہے کسی راستہ پرجائے لیکن برادری چوں نہ کرے۔ ایسی برادری کہیں اورہوگی۔ ہم صاف صاف کہے دیتے ہیں کہ اگریہ لڑکا تمہارے گھر میں رہا تو برادری بھی بتادے گی کہ وہ کیا کچھ کرسکتی ہے۔‘‘
جگن سنگھ کبھی کبھی جادورائے سے قرض دام لیا کرتے تھے۔ مصلحت آمیز لہجہ میں بولے، ’’بھابھی برادری یہ تھوڑے ہی کہتی ہے کہ تم لڑکے کوگھر سے نکال دو۔ لڑکا اتنے دنوں کے بعدگھرآیاہے۔ ہمارے سراورآنکھوں پر رہے۔ بس ذرا کھانے پینے اورچھوت چھات کابچاؤ رہناچاہئے۔ بولوجادوبھائی اب برادری کوکہاں تک دباناچاہتے ہو۔‘‘
جادورائے نےسادھو کی طرف سائلانہ انداز سے دیکھ کر کہا، ’’بیٹا تم نے ہمارے ساتھ اتنا سلوک کیاہے وہاں جگن بھائی کی بات اورمان لو۔‘‘
سادھو نے کسی قدرناملائم لہجے میں کہا، ’’کیا مان لوں۔ یہی کہ اپنوں میں غیربن کر رہوں۔ ذلت اٹھاؤں۔ مٹی کا گھرابھی میرے چھونے سے ناپاک ہوجائے۔ نہ ! یہ میری ہمت سے باہرہے۔ میں اتنا بے حیا نہیں ہوں۔‘‘
جادورائے کولڑکے کی یہ سخت گیری ناگوارگزری۔ وہ چاہتےتھے کہ اس وقت برادری کے لوگ جمع ہیں ان کے سامنے اس طرح سمجھوتہ ہوجائے۔ پھر کون دیکھتا ہے کہ ہم اسے کس طرح رکھتے ہیں۔ چڑھ کربولے، ’’اتنی بات تو تمہیں ماننی ہی پڑے گی۔‘‘
سادھورائے اس پہلوکو نہ سمجھ سکے۔ باپ کی اس بات میں انہیں بے دردی کا رنگ نظرآیا۔ بولے، ’’میں آٖپ کا لڑکا ہوں آپ کے لڑکے کی طرح رہوں گا۔ آپ کی محبت اور شفقت کی آرزو مجھے یہاں تک لائی ہے۔ میں اپنے گھرمیں رہنے آیاہوں اگریہ ممکن نہیں ہے تو میرے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ جتنی جلد ہوسکے یہاں سے بھاگ جاؤں جن کے خون سفید ہوگئے ہیں ان کے درمیان رہنا فضول ہے۔‘‘
دیوکی نے روکر کہا، ’’للومیں تمہیں اب نہ جانے دوں گی۔‘‘
سادھو کی آنکھیں بھرآئیں لیکن مسکراکر بولا، ’’میں توتیری تھالی میں کھاؤں گا۔‘‘
دیوکی نےاس کی طرف مادرانہ شفقت سے بھری ہوئی آنکھیں اٹھائیں اور بولی، ’’میں نے تو تجھے چھاتی سے دودھ پلایاہے۔ تومیری تھالی میں کھائے گاتو کیا۔ میرا بیٹا ہی تو ہے، کوئی اورتو نہیں ہوگیا۔‘‘
سادھوان باتوں کوسن کر متوالا ہوگیا۔ ان میں کتنا پیار۔ کتنا اپناپن تھا۔ بولا، ’’اماں آیا ہوں تو میں اسی ارادہ سے تھا کہ اب کہیں نہ جاؤں گا لیکن برادری نے میرے سبب سے تمہیں ہیٹا کردیا تو مجھ سے نہ سہاجائے گا۔ مجھ سے ان گنوار جاہلوں کا غرور برداشت نہ ہوگا۔ اس لئے اس وقت مجھے جانے دو۔ اب مجھے جب موقع ملے گا تمہارے درشن کرنے آیا کروں گا۔ تمہاری محبت میرے دل سے نہیں مٹ سکتی۔ لیکن یہ غیرممکن ہے کہ میں اس گھر میں رہوں اورالگ کھانا کھاؤں اورالگ بیٹھ کر۔ اس لئے مجھے معاف کرنا۔‘‘
دیوکی گھرمیں پانی لائی۔ سادھوہاتھ منھ دھونے لگا۔ شیوگوری نے ماں کا اشارہ پایا تو ڈرتے ڈرتے سادھو کے پاس گئی۔ مادھو نے ادب سے ڈنڈوت کی۔ سادھو نے پہلے ان دونوں کوتعجب سے دیکھا۔ پھراپنی ماں کو مسکراتے دیکھ کر سمجھ گیا۔ دونوں لڑکوں کوچھاتی سے لگایا اور تینوں بھائی بہن پریم سے ہنسنے کھیلنے لگے۔ ماں کھڑی یہ پاک نظارہ دیکھتی تھی۔ اورامنگ سے پھولی نہ سماتی تھی۔
جلپان کرکے سادھو نے بائیسکل سنبھالی۔ اورماں باپ کے سامنے سرجھکاکر چل کھڑا ہوا۔ وہیں جہاں سے وہ بیزار ہوکرآیاتھا۔ اسی دائرے میں جہاں سب بیگانے تھے۔ کوئی اپنا نہ تھا۔
دیوکی پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی اورجادورائے آنکھوں میں آنسوبھرے۔ جگر میں ایک اینٹھن سی محسوس کرتا ہوا سوچتا تھا۔ ہائے! میرالال یوں مجھ سے الگ ہوا جاتاہے۔ ایسا لائق اورہونہار لڑکا ہاتھ سے نکلا جاتا ہے اورصرف اس لئے کہ ہمارے خون اب سفیدہوگئے ہیں۔
مأخذ : پریم چند : افسانے
مصنف:پریم چند