جنازے

0
182
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

میرا سر گھوم رہا تھا۔۔۔ جی چاہتا تھا کہ کاش ہٹلر آ جائے اور اپنے آتشیں لوگوں سے اس نامراد زمین کا کلیجہ پھاڑدے۔ جس میں ناپاک انسان کی ہستی بھسم ہوجائے، ساری دنیا جیسے مجھے ہی چھیڑنے پر تل گئی ہے، میں جو پودا لگادوں مجال ہے کہ اسے مرغیوں کے بےدرد پنجے کریدنے سے چھوڑدیں۔ میں جو پھول چنوں بھلا کیوں نہ وہ مری سہیلیوں کو بھائے۔ اور وہ کیوں نہ اسے اپنے جوڑے کی زینت بنالیں۔

غرض میرے ہر قول و فعل سے دنیا کو بیر ہوگیا ہے اور میری دنیا بھی کتنی ہے۔ یہی چند بھولے بھٹکے لوگ۔ دوچار سیکنڈ ہینڈ عاشق مزاج اور کچھ پھوڑ۔ لڑاکا اور فیشن پر مرنے والی سہیلیاں۔۔۔ یہ بھی کوئی دنیا ہے؟ بالکل تھکی ہوئی دنیا۔ میرے تخیلات سے کتنی نیچی اور دور۔۔۔ اور اب تو اس دنیا میں اور بھی دھول اڑنے لگی۔ معلوم ہوتا ہے قبل از وقت پیدا ہوگئی ہوں۔

تعلق جسے دنیا دیوانہ کہتی ہے وہ بھی اپنے وقت سے پہلے آیا تو حواس باختہ ہوگیا پھر میں کیا چیز ہوں۔۔۔؟ لیکن ایک زمانہ ہوگا۔ جب دنیا میری ہی ہم خیال ہو جائے گی۔ لوگ میری سنیں گے۔ اور کشور۔۔۔ کشور کے واقعہ نے تو مجھے بالکل نیم مردہ کردیا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ مری یہ چیخ پکار یہ پھڑکتا ہوا دل جس میں انسانی ہمدردی اور اخوت کا سمندر لہریں مار رہا ہے۔ جس کے خواب ملک کی بہتری کی نذر ہوچکے ہیں۔ جس کے جذبات مذہب اور انسانیت میں غرق ہیں۔۔۔ یہ سب کچھ بیکار بالکل بے کار۔۔۔ بیل گاڑی کی چوں چوں اور مریل گھوڑے کی ٹاپوں میں بھی تو اس سے زیادہ اثر ہے۔

’’یہ بھی کوئی دنیا ہے۔۔۔ یہ بھی کوئی دنیا ہے۔۔۔‘‘ میں کرسی پر جھوم رہی تھی۔

’’کس کی دنیا۔۔۔؟ میری۔۔۔‘‘ راحت اندر آکر تخت پر بیٹھ گئی۔

- Advertisement -

راحت۔۔۔ آپ نے چند موم کی پتلیوں کو تو دیکھا ہوگا۔ ننھی منی کھیل کود کی شوقین جن کا مقصد زندگی سے کھیلنا ہے۔ گڑیوں سے کھیلنا کتابو ں سے کھیلنا۔۔۔ اماں ابا سے کھیلنا۔۔۔ اور پھر عاشقوں کی پوری کی پوری ٹیم سے کبڈی کھیلنا۔۔۔ ابھی میرے بدنصیب بھائی کے ساتھ ٹینس کھیل کر آرہی تھی۔

’’تمہاری دنیا۔۔۔ راحت تمہاری دنیا تو ٹینس کے کوٹ پر ہے،‘‘ میں نے تلخی سے کہا۔

’’کون۔۔۔ میری۔۔۔؟ تمہارا مطلب ہے ضمیر؟ توبہ کرو۔ وہ تو تمہارا بھائی ہے! پر ہے چغد۔۔۔ معاف کرنا۔۔۔ اللہ کی قسم ایسے ہاتھ چلاتا ہے جیسے ٹینس کے بجائے فٹ بال کھیل رہا ہے اور پھر مزہ یہ ہے کہ اگر جناب کے ساتھ نہ کھیلو تو۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔ بس۔۔۔‘‘

’’یہ میرے بھائی صاحب کی شان میں میرے منہ پر فرمایا جارہا تھا اگر میں بھی شہنشاہ اکبر کی طرح طاقتور ہوتی تو اس بے ایمان چھوکری کو انار کلی کی طرح دیوار میں زندہ چنوا دیتی۔۔۔ یہ پر فتن لڑکیاں بیوقوف لڑکوں کو خون کے آنسو رلواتی ہیں اور موت کی ہنسی ہنسواتی ہیں۔ اور پھر چٹ کہیں اور کسی کی ہو رہتی ہیں، مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ضمیر الو ہے اور رہے گا۔ کیا جناب کی تھرڈ کلاس پسند ہے۔ وہ لڑکی جس میں نام کو عقل نہیں جس میں نہ قوم کی ترقی کا جوش نہ قربانی کا جذبہ۔۔۔ نہ ملک کا پیار، جو، بی۔ اے کرنے کے بعد بھی نہ مرد کی اصلی فطرت کو سمجھی اور نہ عورت کے جذبات سے واقف۔۔۔

’’مگر آپ کو اس کی اتنی دلداری کیوں منظور ہے۔۔۔ آپ دوسروں سے کھیلیں۔۔۔ دیکھیں کون آپ کو روک سکتا ہے۔‘‘

’’بھئی واہ۔۔۔ روکے گاکون۔۔۔ پر اچھا نہیں لگتا اوہ۔۔۔ مجھے بے چارے پر رحم آتا ہے۔۔۔‘‘

دوسرے۔۔۔؟‘‘

’’خوب رحم آتا ہے اسے جیسے۔۔۔ جیسے دوسری کوئی نصیب نہ ہوگی۔‘‘ میرا خون کھول گیا۔۔۔

’’اے لو۔۔۔ ملے گی کیوں نہیں۔۔۔ یہ میں کب کہتی ہوں۔۔۔ مل جائے گی مل ہی جائے گی۔۔۔‘‘ راحت ہکلانے لگی۔

’’مل ہی جائے گی۔۔۔ اسے کمی نہیں۔ یہ تو۔۔۔ وہ بیوقوف ہے۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ یہ بات ہے جبھی تو میں کہتی ہوں۔۔۔‘‘ راحت خوشی سے چمکی۔

’’جبھی تو کیا۔۔۔‘‘ میں نے جل کر پوچھا۔

’’اے بھئی یہی کہ۔۔۔ بھئی مجھے نہیں۔۔۔ نہیں معلوم ہے کہ مجھ میں تمہاری جیسی عقل نہیں اور نہ مجھ سے بحث کی جائے۔۔۔ تمہیں یاد ہے کہ میں تو کوئی۔۔۔ بالکل۔۔۔ بھئی کبھی بحث کر ہی نہ سکی یہی تو بات ہے کہ ضمیر۔۔۔‘‘

’’ہاں کیا ضمیر۔۔۔‘‘ میں نے اس کی شکست سے خوش ہوکر کہا۔

’’یہی ۔۔۔ یہ مجھے ضمیر پر۔۔۔ یہی کہ بس خیال آتا ہے کہ وہ بے چارا۔۔۔‘‘

’’اوہو۔ تم کتنے فخر سے اسے بے چارا کہتی ہو۔۔۔‘‘ میرا منہ کڑوا ہوگیا۔

’’آج تو تم بے طرح بگڑ رہی ہو، کیا ہوا۔۔۔ کیا سعید نے ڈانٹا۔۔۔ ابھی سے اینٹھتا ہے۔۔۔؟‘‘

سعید کے نام سے میرے بدن میں پتنگے لگنے لگتے ہیں، آپ ایک اور راحت جیسی روح رکھنے والے انسان ہیں آپ نے کمال فرمایا کہ ایک دفعہ مجھ پر عنایت کی۔ کمال۔۔۔ میرے جواب سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا کیا حال ہوا ہوگا، پہلے تو ذرا متعجب ہوئے۔۔۔ پھر خوب متعجب ہوئے۔ اور پھر اور زیادہ ہوئے ،بعد میں سنا اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہوئے۔ ضمیر سے بولے کہ’’ میں انہیں غلط سمجھا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ شائد۔۔۔ مجھے ان پر ترس آیا تھا۔۔۔‘‘ خدا جانے یہ انہیں مجھ پر ترس کھانے کا کیا حق تھا اور کیسا ترس یہ مجھ پر آج تک واضح نہیں ہوا۔

لیجیے اتنا لمبا قصہ سعید کا ہی ہوگیا، وہ تو میں نے کہا نا کہ میں تو بات بھی کروں تو اس کو بھی گڑبڑا دیتے ہیں یہ دنیا والے۔۔۔

’’ہونہہ۔۔۔ سعید کی ہمت۔۔۔ وہ ہی کیا چیز۔۔۔ اگر سعید ذرابھی خوش ہوتے تو مجھے یہ الفاظ کیوں استعمال کرنے پڑتے۔‘‘

’’اتا چوڑا، چکلا اور اونچا انسان اور تم۔۔۔ ’کچھ‘ کہتی ہو۔‘‘

’’انسان کی بڑائی چوڑے چکلے ہونے سے نہیں ہوتی عقل۔۔۔‘‘

’’اونہہ۔۔۔ آخر عقل مندہونے کی کیا ایسی مار ہے اور عقل مند میاں میں ایسے کیا لعل جڑےہوتے ہیں۔۔۔ بیکارمیں رعب گانٹھتا ہے اور پھر تم ہی کہتی ہو کہ مردوں کی حکومت نہ سہنی چاہیے میرے خیال میں ضمیر۔۔۔ بھئی نہ میاں ضرورت سےزیادہ عقل مندہوگا۔ نہ ہم کو دیا جائے گا۔‘‘

’’تم میں کاش ذرا سوچنے کی ہمت ہوتی۔۔۔ بحث کرنے لگتی ہو مگر۔۔۔ خیر یہ اس وقت مسعود کا کیا ذکر۔۔۔ میں تو کشور کو کہہ رہی ہوں۔‘‘

’’کون کشور۔۔۔؟‘‘

’’روفی والی۔۔۔‘‘

’’کون روفی۔۔۔؟‘‘

’’اللہ اتنا بننا۔‘‘

’’اونہہ تو گویا میں تمہاری کشورؤں اور رفیوں کے رجسٹر لیے ان کی مثنوی لکھا کرتی ہوں تمہارا مطلب کشور سے ہے۔۔۔ وہ روفی کشور۔۔۔؟‘‘

’’جی وہی۔۔۔ روئے نہ تو غریب کیا کرے۔۔۔ ہم عورتیں تو رونے کے لیے ہی پیدا ہوتی ہیں۔۔۔‘‘

یہ چندآخری الفاظ میں نے خود سے کہے اور ٹھنڈی سانس نہ روک سکی۔

’’ہاں رونےسےآنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے سارا گرد و غبار۔۔۔‘‘

’’اور تمہارا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔۔۔ جاؤ راحت! میں اس وقت تمہاری بدمذاقی سہنےکے لائق نہیں۔ جاؤٹینس کھیلو۔۔۔‘‘

’’ہوں ٹینس کھیلو۔۔۔ جیسے تمہارے بھیا کو آتی بھی بڑی ٹینس ہے۔ میں تو کوئی کہ چلو بھئی ہو آئیں ذرا آپ ہیں کہ۔۔۔‘‘ راحت برامان گئی۔

’’تو تم سمجھتی ہو میں بڑی خوش بیٹھی ہوں کہ تم مجھے آکر جلاؤ ایک تو تم بار بار ضمیر کو برا بھلا کہے جارہی ہو، آج ویسے ہی پریشان ہوں، کشور سے ملی تھی۔۔۔ تمہیں کیوں یاد ہوگی کشور۔۔۔ تم کوئی اس کی مثنوی تھوڑی ہی لکھ رہی ہو۔۔۔‘‘

’’ہاں ہاں پھر کیا ہوا۔۔۔؟‘‘

’’اس کی شادی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے طوفان کو دبایا کئی دن سے دبا رہی تھی۔

’’اچھا کب۔۔۔؟‘‘

راحت کو کشور کے دکھ سے سکھ نہ پہنچے گا تو کسے پہنچے گا۔ کشور ٹھہری میری دوست اور میں ضمیر کی بہن اور ضمیر، راحت کی زبردستی کے عاشق، میں نے ارادہ کر لیا کہ آج میں ہوں اور ضمیر، سور کہیں کا۔۔۔‘‘

’’کیا اسی مرگھلے سے تو نہیں ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ راحت ڈر گئی۔

یہ مرگھلا روفی کو کہا جارہا تھا۔۔۔ اور کیوں۔۔۔ وہ اس لیے کہ راحت اس کے اشعار سے نفرت کرتی تھی کیوں۔۔۔؟ کیونکہ بس تھی۔۔۔ فرماتی تھیں۔۔۔ ’’بہت بے ڈھنگے شعر کہتا ہے۔‘‘ اب شعروں میں نہ جانے ڈھیلے اور تنگ شعر کیسے ہوتے ہیں۔۔۔؟‘‘

’’تم اسے مرگھلا کہتی ہو۔۔۔ لیکن کشور کے دل سے پوچھو۔‘‘

’’کشور تو سداکی سڑن ہے۔‘‘

’’بس راحت زیادہ مت بنو۔۔۔ تم سے زیادہ۔۔۔‘‘

’’اے ہے معاف کرو۔۔۔ باز آئی میں تمہاری کشور کے قصہ سے ختم بھی کرو۔۔۔‘‘ راحت منہ بناکر ٹانگیں سکیڑ کر لیٹ گئی۔

’’تمہیں معلوم ہے کہ وہ مرجائے گی۔۔۔ مگر روفی کے سوا کسی سے شادی نہ کرے گی اور اماں کہتی ہیں کہ میں تو شوکت سے کروں گی۔۔۔‘‘

’’اے ہے بڑھیا شادی کر رہی ہے۔۔۔‘‘ راحت چونک کر اٹھی۔۔۔ ’’تمہیں خدا کی قسم۔۔۔‘‘

’’اوہو۔۔۔ اوہو۔۔۔ جیسے کچھ اترانے میں بھی مزا ہے۔ کشور کی شادی کا ذکر ہے اور بننے لگیں۔۔۔‘‘

’’ارے۔۔۔ میں سمجھی۔۔۔ خیر۔۔۔ پھر۔۔۔؟‘‘

’’کشور کہتی ہے کہ زہر کھا لوں گی مگر روفی کے سوا۔۔۔‘‘ باوجود ضبط کے مرا گلا گھٹ گیا۔

’’ارے۔۔۔ کہتی ہے کہ زہر کھالوں گی مگر روفی کے سوا۔۔۔‘‘ باوجود ضبط کے مرا گلا گھٹ گیا۔

’’ارے۔۔۔ مگرکون سا زہر کھائے گی۔۔۔ میرے خیال میں سائنائیڈ ٹھیک رہے گا۔۔۔‘‘

’’راحت کاکلیجہ اور لوہے کا دل اسی کو کہتے ہیں۔۔۔ ساتھ کھیلے ساتھ بڑھے، ساتھ اسکول گئے اور پھر کالج۔۔۔ مگر اس بے حس گوشت کے لوتھڑے کو۔۔۔‘‘ افوہ۔۔۔ میرا خون پھر کھول گیا۔

’’چپ رہو بے رحم! کاش بجائے انسان کے خدا تمہیں ایک چٹان بناتا جس پر۔۔۔ جس پر۔۔۔‘‘ مجھے کوئی پر معنی لفظ ہی نہ ملا۔ تمہاری بے رخی دوسروں کو دکھ نہ پہنچاتی۔۔۔ ذراسوچو بے قصور کشور نے تمہارے ساتھ کیا بدی کی ہے، اس نے تمہیں کیا دکھ پہنچایا وہ جو ایک معصوم چڑیا سے بھی معصوم ہے۔ وہ جس نے سر جھکا کر دنیا کے دکھ سہہ لیے اور سہہ رہی ہے وہ جسے اس کی ظالم ماں دولت اور شہرت کی بھینٹ چڑھا رہی ہے جو سرلٹکائے راضی برضا قربان گاہ کی طرف جارہی ہے۔‘‘

میری زبان کے ساتھ ساتھ عمدہ عمدہ جملے تیزی سے جارہے تھے۔ جس نے قصائی کے سامنے گردن ڈال دی ہے اور خاموش اس کی چھری کی دھار کو دیکھ کر اپنا ہی خون جلا رہی ہے۔ تم بھی اسے دوباتیں کہہ لو۔ مگر دور ہوجاؤ میری آنکھوں سے جاؤ راحت۔۔۔‘‘

’’اے ہے توبہ۔۔۔ ماشاء اللہ تم بڑی بدمزاج ہو۔۔۔‘‘ راحت ڈر کر سکڑ گئی۔

’’ایسا میں نے کیا کہہ دیا۔‘‘

’’تم نے کیا کہا۔۔۔ اور اوپر سے یہ بھی پوچھنے کی ہمت ہے، تم اس کی موت پر ہنس رہی ہو اس کا خون ہو رہا ہے۔ تم ہنس رہی ہو۔ وہ مرغ بسمل ہو رہی ہو اور تم ہنس رہی ہو۔ ۔۔ اس کی لاش۔۔۔ ہاں اس کی لاش پر تم دانت نکال رہی ہو۔۔۔‘‘ مجھے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ سوائے ایک معصوم کے جنازے کے۔۔۔‘‘

’’اوہ۔۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ اللہ کا واسطہ چپ ہو جاؤ اچھی ذرا بجلی جلادو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔‘‘ راحت پیلی پڑگئی۔

’’تم سمجھتی ہو کہ تمہارے اوپر اس کا کچھ اثر نہ ہوگا۔ تم ہنستی ہی رہو گی اس کی موت پر۔۔۔ مگر یاد رکھو راحت۔۔۔ کشور تمہیں نہیں چھوڑے گی! وہ مرجائے گی۔۔۔ مگر کیا وہ تم سے سوال نہ کرسکے گی۔۔۔ اس کی روح۔۔۔‘‘

’’ہائے بجلی جلاؤں میں۔۔۔ اچھی بہن میرا دم نکل جائے گا۔‘‘

راحت بزدلوں کی طرح چلائی اور جلدی سے اپنے پیر تخت کے اوپر رکھ لیے گویا تحت کے نیچے سے کشور کی روح ابھی سے اس کے پیر کھینچ رہی ہے۔

’’تم اس کو بچاؤ۔۔۔ بچاؤگی۔۔۔ تم اس کی مدد کرو گی۔۔۔‘‘ میں نے ایک مسمیریزم کا تماشہ کرنے والے کی طرح کہا۔

’’ہاں۔۔۔ مگر بجلی۔۔۔‘‘ راحت کانپ رہی تھی۔۔۔ ’’ہاں۔۔۔ اب۔۔۔‘‘

’’تم اس کی ماں کو مجبور کروگی کہ وہ اس کے قتل سے باز آئے۔‘‘

’’مگر وہ ۔۔۔ وہ تو۔۔۔ بہن ان کی ماں سے ڈر لگتا ہے مجھے۔ میری آواز کی نرمی سے اس کی گئی ہوئی ہمت واپس آگئی۔‘‘

’’میں اور تم اس کی ماں کو مجبور کریں گے کہ وہ کشور کو زندہ دفن نہ کرے۔۔۔‘‘

’’ہاں تم کرنا۔۔۔ ریحانہ تم بہت بہادر ہو۔۔۔ تم۔۔۔ تم واقعی بہت زبردست ہستی ہو۔ تم انسانیت کا بہترین مجسمہ ہو۔ ریحانہ اگر ہماری قوم میں ایسی ہی چند لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو ہم غلام کیوں رہیں اور اب تم بجلی جلادو۔۔۔ میں زمین پر نہیں اتروں گی میرا جوتا بھی تو نہ جانے کدھر ہے۔۔۔‘‘ وہ کانپتی ہوئی آواز میں ایک بھٹکے ہوئے راستہ سے واپس لوٹ رہی تھی۔

’’ہم اس سے لڑیں گے۔ اور یہ قربانی نہ ہونے دیں گے۔۔۔‘‘ میں نے اپنے آپ کو ایک طیارے پر سے بم گراتے محسوس کیا جن کے شعلے شوکت اور کشور کی ماں کو نگل رہے تھے۔ مگر۔۔۔ وہ کشور خود جو اپنی ماں سے لڑے نا۔۔۔ ایسی ننھی ہے کیا۔۔۔‘‘

’’وہ خود لڑے۔۔۔ مجھے پھر جوش آیا۔۔۔ وہ پڑھی لکھی ہے، ہے تو کیا ہے۔ راحت وہ مشرقی عورت ہے۔۔۔ وہ بے شرمی نہیں لادسکتی۔۔۔ وہ کہہ چکی ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے وہ زبان ہلائے بغیر جان دیدے گی۔۔۔ تم جانتی ہو وہ سدا کی کمزور دل ہے۔۔۔‘‘

’’تو بہن۔۔۔ میں کون سی پہلوان ہوں۔۔۔‘‘ راحت اور کونے میں دبک گئی۔

’’تم ہو یا نہ ہو۔۔۔ مگر میں کروں۔۔۔ میں خود کروں گی۔۔۔ راحت اب تک میں تمہیں بے رحم ہی سمجھتی تھی۔۔۔ اب معلوم ہوا کہ تم بزدل بھی ہو۔ چوہے سے ڈرجانے والی لڑکیاں۔۔۔ یہی تو ہماری قوم کی غلامی کی ہی ذمہ دار ہیں۔۔۔‘‘

’’اوہو۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔‘‘ شکست خوردہ آواز میں کہا گیا۔

’’سچ بتاؤ کشور۔۔۔ وہ میرا مطلب ہے راحت!کبھی میرے دل میں اپنی جنس کی برتری کا خیال بھی آتا ہے۔۔۔ کبھی یہ بھی سوچتی ہو کہ ہم کب تک ظالم مردوں کی حکومت سہیں گے۔۔۔ کب تک وہ ہمیں اپنی لونڈیاں بنائے چار دیواری میں قید رکھیں گے۔۔۔ کب تک یوں یہ ہم دبے مار کھاتے رہیں گے۔۔۔ بتاؤ بولو۔۔۔‘‘ مجھ پر پھر جوش سوا رہورہا تھا۔

’’سوچا کیوں نہیں۔۔۔ سوچتی ہی ہوں۔‘‘

’’کیا سوچتی ہو۔۔۔ ذرا بتاؤ کیا سوچتی ہو۔۔۔‘‘

’’یہی کہ بھئی ۔۔۔ یہی سوچا کرتی ہوں کہ اب۔۔۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں سوچتی اور بھلا سوچوں بھی کیا۔۔۔‘‘

’’یہی سوچو یہی، کہ کس طرح تم اپنی قوم اور ملک کے لیے قربانی کر سکتی ہو۔ کس طرح تم اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتی ہو۔ اٹھو راحت ! ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔۔۔ یہ تمہارا ٹینس بھلا قوم کو کیا بلندی پر لے جا سکتا ہے۔۔۔‘‘

’’بلندی۔۔۔؟‘‘ راحت نے خاموشی کو توڑا۔۔۔ ’’ریحانہ مجھے آج یقین ہوگیا کہ واقعی تم کچھ ہو۔ تم۔۔۔ میں تمہیں جھکی اور کج بحث کہاکرتی تھی مگر آج۔۔۔ معاف کردو۔۔۔ معاف کردو۔۔۔ تم کہو میں تم۔۔۔ تمہارا کہنا مانوں گی۔ بتاؤ۔۔۔ میں کل ہی اپنا ریکٹ توڑ دوں گی۔۔۔ کیوں توڑدوں؟ اور میں ضمیر ۔۔۔ اسے بھی۔۔۔ میں اب ٹینس ہی نہیں کھیلوں گی۔ میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔ میں اس سے کہہ دوں گی کہ اب تم اس خیال کو چھوڑو اور اب تمہیں اب انگوٹھی کے ڈیزائن تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘راحت کے لہجہ میں رقت اور پشیمانی بھری تھی۔

’’مجھے تم سے یہی امید تھی۔۔۔ میں کل کشور کے پاس جاؤں گی اور اسے یقیناً اس شکرے کے پنجے سے نجات دلاؤں گی۔۔۔ تم چلو گی۔۔۔ کیوں چلوگی نا۔۔۔؟‘‘

راحت کچھ نیم مردہ اور پریشان سی چلی گئی۔ برآمدے میں، میں نے اسے ضمیر کے شانے پر سر رکھے سسکیاں بھرتے دیکھا۔ نہ جانے وہ کیا بڑبڑا رہے تھے۔ اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔‘‘ وہ نہ جانے کسے کہہ رہی تھی۔

رات میرے لیے لمبی اور اندھیری تھی۔ مگر وہ مجھے ایک روشن ستارا نظر آرہا تھا۔۔۔ یہ میری قوت فیصلہ تھی جو میری ہمت بڑھا رہی تھی، میں کشور کو بچاؤں گی۔۔۔ میں ایک معصوم چڑیا کو شکرے کے خوفناک پنجوں میں سےنکال لاؤں گی۔‘‘

شوکت کو اپنی دولت کا گھمنڈ ہے۔ اپنی صورت پر ناز ہے اور تعلیم پر اکڑتا ہے۔ یہ سب کچھ دھرا رہ جائے گا۔

سہ پہر کو راحت اور میں کشور کے یہاں پہنچ گئے۔۔۔ اوہ۔ کشور کو دیکھ کر میرا دل مسل کر رہ گیا۔۔۔ وہ مجھے عجیب گھبرائی اور کھوئی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ مجھے نظر بھر کر نہ دیکھ سکتی تھی شاید ان آنسوؤں کو وہ بے کار چھپانے کی کوشش کر رہی تھی جو خون بن کر اس کے رخساروں پر دمک رہےتھے۔ گو اس کی آنکھیں خشک تھیں وہ ایک شنگرنی رنگ کی ساڑھی پہنے آئینے کے سامنے جوڑے میں پنیں لگا رہی تھی۔ اسے اس بھڑکیلے لباس میں دیکھ کر میں سہم گئی کہ ستی ہونے کی تیاریاں ہو رہی ہیں مگر اب میں آگئی تھی۔۔۔ میں نے پیار سے اس کی ٹھوڑی چھوئی اور وہ ایک مردہ سی ہنسی میں ڈوب گئی۔

’’ڈرتی کیوں ہو۔۔۔‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔

مگر وہ نظر بچا گئی۔۔۔ اور ناخونوں کی پالش کی شیشیاں نکال کر اپنی ساری پررکھ کر موزوں رنگ چھانٹنے لگی۔

’’جو کچھ ہونا تھا ہوگیا۔۔۔ میری قسمت۔۔ راحت یہ ٹھیک ہے؟‘‘ اس نے راحت کو ایک شیشی دکھائی۔

’’کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ تم جو چاہو گی۔۔۔ وہی ہوگا۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ تمہاری مرضی کے بغیر تمہیں اس بے پسند کی شادی کی آگ میں جھونکے۔‘‘

وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔ اور جلدی سے ناخن رنگنا شروع کردیے۔

’’تم ڈرتی کس سے ہو۔۔۔‘‘ وہ اور بھی گھبرائی۔۔۔ ’’میری بات سنو کشور۔۔۔‘‘

’’چھوڑو ریحانہ ان باتوں کو ہاں یہ تو بتاؤ وہ تمہاری کتاب۔۔۔‘‘

’’میری کتاب تو ڈالو چولہے میں۔۔۔ اور تم یہ بتاؤ آخر تمہاری والدہ؟‘‘

’’جانے بھی دو۔۔۔‘‘ اس نے جلدی سے بات کاٹی۔۔۔ ’’ہاں راحت وہ تمہارے ٹینس کا کیا حال ہے۔۔۔‘‘ اس نے میرے پاس صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔

’’ٹینس۔۔۔ ٹینس۔۔۔ تم۔۔۔ وہ اب۔۔۔ خیر بتاؤ۔ کہ شوکت کہاں ہیں۔۔۔‘‘ راحت نے پوچھا اور کشور کا رنگ تمتما اٹھا۔

’’ہاں۔۔۔ وہ شوکت صاحب کہاں ہیں۔۔۔ ذرا مجھے ان سے بھی دو دو باتیں کرنی ہیں۔۔۔ بے رحم انسان۔۔۔ اگر انسان کہلانے کے۔۔۔‘‘

’’ہٹاؤ بھی ریحانہ۔۔۔ جو میری قسمت میں لکھا تھا۔۔۔‘‘ وہ ڈر کر اور بھی گھبرائی۔

مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ کشور کس سے ڈری تھی۔ گھبرا گھبرا کر وہ برابر والے کمرے کی طرف ایسے دیکھتی تھی گویا اب کوئی شیر اس میں سے نکل کر اسے پھاڑ کھائے گا۔۔۔

شوکت۔۔۔ میراجی چاہا اسے ۔۔۔ نہ جانے دوں، نہ جانے کیا کروں؟ یہ معصوم لڑکی کے دل میں اس نے نہ جانے کیا دہشت بٹھادی تھی۔ کہ وہ اس کے ذکر ہی سےگھبرا جاتی تھی۔۔۔ میرا ارادہ اور بھی مستقل ہوگیا۔ فولاد کی سی سختی آگئی۔۔۔ میں نہ صرف کشور ہی کو بچاؤں گی۔ بلکہ میرا ہاتھ دور دور پہنچ کر ہزاروں بیکس لڑکیوں کو پناہ کے احاطے میں لے لے گا، راحت کی طرح ساری کی ساری لڑکیاں قوم کی داسیاں بن جائیں گی اور پھر پھر ہندوستان آزاد ہوجائے گا۔ آزاد۔۔۔

’’کشور چھ بجنے میں صرف پانچ منٹ،‘‘ قریب کے کمرہ سے ایک بھاری سی مردانہ آواز آئی اور کشور سر سے پیر تک لرز گئی۔ وہ جھپٹ کر سنگھار میز کے قریب گئی۔۔۔ میں سمجھ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ دراز کھولے اور سم قاتل اس کے ہونٹوں سے گزرے میں پہنچ گئی۔ اور اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس کی ساری کا پلو گر گیا اور وہ بے طرح گھبرا گئی۔

’’کشور۔۔۔ اتنی بزدلی۔۔۔ جانتی ہو خود کشی۔۔۔‘‘

’’اونہہ۔۔۔ میں تو بٹوہ نکال رہی ہوں۔۔۔ بیٹھو ریحانہ میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتی۔۔۔‘‘

’’وہ کچھ چھپا رہی تھی مجھ سے۔۔۔ بہت کچھ۔۔۔‘‘

’’کشور تیار ہوچکو۔۔۔‘‘ وہ کریہہ اور بھرائی ہوئی آواز پھر گونجی اور کشور اور بھی پریشان ہوگئی۔۔۔ میں جانتی تھی اس وقت اس کی کیا حالت ہوگی جس طرح سولی پر چڑھانے سے پہلے خوفناک گھڑیال بھیانک آواز میں گنگناتا ہے۔ اسی طرح یہ آواز۔۔۔ پھر آئی۔

’’اور لیلا رام کے یہاں بھی تو جانا ہے،‘‘ اور پھر ایک سیٹی شروع ہوگئی۔

’’ذرا ٹھہرو ریحانہ میں ابھی آئی۔‘‘ میں نے اسے روکنا چاہا۔ لیکن راحت نےمیرا ہاتھ روک دیا۔

’’ریحانہ کیا ہے۔ تم بالکل ہی بچہ ہو۔۔۔ سنو تمہیں نہیں معلوم کہ۔۔۔‘‘

میں نےاب اس کی بات ایک نہیں سنی۔ پاس کےکمرے سے وہی گڑگڑاتی آواز قہقہہ لگارہی تھی۔ دبے ہوئے گہرے قہقہے اور کشور گویا سسکیاں لے رہی تھی۔ باریک اور دبی ہوئی آئیں۔۔۔

’’لا حول و لا قوۃ۔۔۔‘‘ وہ موٹی آواز سے بولی۔

’’سنو تو۔۔۔ سنو تو۔۔۔‘‘ کشور کی پریشان آواز آئی۔ وہ اس مردود کی التجائیں کر رہی تھیں پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی کسی کو پکڑ کر گھسیٹ رہا ہو اور وہ خوشامد کرے جان کنی میں۔۔۔ پناہ مانگے اور پھر اور بھی گھٹی گھٹی آواز آنے لگی گویا کوئی زبردست درندہ کشور کو بھنبھوڑ رہاہو۔ میری کنپٹیاں پھڑپھڑانےلگیں۔ نسیں کھچ گئیں۔۔۔ اور ہاتھ اکڑ گئے۔ وہ وقت آن پہنچا تھا۔ میں ایک دم کھڑی ہوگئی۔

’’ہیں ہیں ریحانہ کیا کرتی ہو۔۔۔‘‘ راحت نے مجھے روکا۔

’’کشور۔۔۔ میری کشور۔۔۔‘‘ میں بیساختہ چیخ پڑی اوردوسرے لمحے دروازے کا پردہ الگ ہوگیا۔ اور تھوڑی دیر کے لیے میری ساری طاقتیں سلب ہوگئیں، بیچوں بیچ کمرے میں ایک الماری سے ذرا ہٹ کر شوکت کے بھیانک اور ظالم بازوؤں میں ایک مردہ چڑیا کی طرح کشور نڈھال ہو رہی تھی اور وہ۔۔۔ یہ سمجھ لیجیے کہ کبوتر کو آپ نے کبھی بچے کو دانہ بھراتے دیکھا ہے۔ بس بالکل ویسے ہی۔۔۔ بالکل اسی طرح۔۔۔ دوسرے لمحے شوکت تو سرکھجا کھجا کر پاس ٹنگی ہوئی تصویر میں رنگوں کی آمیزش دیکھ رہے تھے اور کشور جلدی جلدی اپنا بٹوہ کھول اور بند کررہی تھی۔ آنکھیں جھکی ہوئی تھیں اور چہرہ لال تھا۔

’’یہ۔۔۔ یہ شوکت ہے ریحانہ۔۔۔ شوکت۔۔۔‘‘ کشور کہہ رہی تھی۔

جب میں برآمدے میں سرلٹکائے لڑکھڑائے قدموں سے واپس ہو رہی تھی تو میں نے ضمیر کو ایک لمباسا پارسل لیے دیکھا اور اس میں سے اس کے لیے نیا ریکٹ نکال رہا تھا۔ وہ خود اپنی انگلی پر انگوٹھی کی چمک دیکھنے میں غرق تھی ،وہ ہنسے۔

مگر میرے کان میرے جسم سے دور کہیں موت کا سا نغمہ سن رہے تھے اور میری آنکھیں فضا میں ہزاروں جنازوں کے جلوس گزرےدیکھ رہی تھیں۔

مأخذ : چوٹیں

مصنف:عصمت چغتائی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here