کوئی چہرہ تر و تازہ نہیں ہے
گلوں پہ گرد ہے غازہ نہیں ہے
بظاہر امن ہے گلیوں میں لیکن
کھلا کوئی بھی دروازہ نہیں ہے
عذابوں کی صعوبت جھیلتا ہوں
گناہوں کا تو خمیازہ نہیں ہے
مجھے سکوں سے تولا جا رہا ہے
مری قیمت کا اندازہ نہیں ہے
ظفرؔ اس دور میں بھی جی رہا ہوں
ابھی بکھرا یہ شیرازہ نہیں ہے
شاعر:ظفر نسیمی