ساحلوں کے اس طرف

0
2755
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

شیری نے اخبار سامنے سے سرکا دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔ کھڑکی کی چوکھٹ کے قریب اس کے والدین کے اچھے دنوں میں اتاری گئی ایک تصویر میں اس کے والد اپنے سے کوئی پندرہ برس بڑی بیوی کے کمر میں ہاتھ ڈالے مسکرا رہے ہیں۔ گھنگریالے کھچڑی بالوں اور بھرے بھرے چہرے والے اس کے چالیس سالہ والد بھورے رنگے بالوں والی اس کی پچپن سالہ چاق و چوبند والدہ سے عمر میں کسی طرح کم نہیں لگ رہے تھے۔تمھیں پانے کے لیے شادی کی تھی میں نے۔۔۔ورنہ۔۔۔۔ ورنہ پاپا سے ڈیورس لینے کے بعد ہمیشہ ماما نے اس کے سوالوں کا یہ ہی جواب دیا تھا اور گردن کچھ ایسے خم کی تھی جیسے سارا قصور شیری کاہی ہو۔یوکڈ ہیوایڈ اپٹڈ اے چائلڈ ماما۔نو۔۔۔؟وہ بھی ماما کے ہی انداز میں گردن کو ہلکا سا جھٹکتی۔نو۔۔۔۔ماماسختی سے کہتیں۔ یا۔۔۔۔یوکڈ ہیواے۔۔۔۔اے ٹیسٹ ٹیوب بے بی ۔ٹین ایج سے تازہ تازہ باہر آئی شیری دھیرے سے کہتی۔ یو مائنڈ یوئراون بزنس او کے۔۔۔؟ماما سراٹھا کر اسے سیکنڈ بھر کو حیرت سے دیکھتیں۔ پھر ہونٹ ایسے بھینچ لیتیں جس سے شیری سمجھ جاتی کہ اب ماما کچھ دیر بات نہیں کریں گی۔مگر یہ سب کسی تناؤ بھرے ماحول میں نہیں ہوتا تھا، نہ ہی اس سے کوئی تناؤ پیدا ہوا کرتا۔ بس ایسی ہی گو یا معلوماتی قسم کی بحث ہورہی ہو۔۔۔۔پوئرپایا۔۔۔۔شیری کی نظریں چوکھٹ کے پاس سے اٹھ کر باہر چلی جاتیں۔۔اے وکٹم اوف فیمنزم۔۔اور اگر ان دنوں یہ دریافت۔۔یاایجاد۔۔وٹ ایور۔۔ہوئی ہوتی تو۔۔۔۔دس۔۔۔۔دس مائی ہاڈکورفیمنیٹسٹ مام۔۔شیری نے سر جھکا کر دوبارہ اخبار کے اس صفحے پر نظریں مرکوز کر لیں جو کچھ دیر پہلے خاصی دیر تک اس کی نظروں کے سامنے رہا تھا۔ کیا معلوم ایسا ہوا ہوکبھی۔۔۔آخر کروڑوں برس بوڑھی یہ دنیا کون جانے کس کی خطے میں کتنی کتنی بار اجڑی اور بسی ہے۔ ایسا ہوتو سکتا تھانا۔۔یا میں کچھ صدی بعد دنیا میں آئی ہوتی۔۔۔یا آنے والے وقتوں میں کبھی ایسا ہونا ہوتا۔۔۔میں بہت بعد میں جنم لیتی اور ۔ پھر کبھی اپنے پاپا کی بیٹی میں۔۔۔ اس وقت صرف ماما کی رہ گئی ہوتی۔۔۔اور پھر دوبارہ ایک نئی طرح کی یعنی اصل میں پرانی طرح کی دنیا بساتی۔۔۔اور مجھے اس کے صلے میں اتنی بڑی کامیابی کے بدلے۔۔۔میری ان بانہوں کو ٹیٹو کیا جاتا اور میرا اچیومنٹ ان پر درج ہوتا اور۔۔۔۔اور۔۔پھر۔۔اور میرے فوسلز کسی گلیشئر میں جیوں کے تیوں حالت میں صدیوں بعد پائے جاتے۔۔۔یعنی ماما کی بیٹی اور نانی کی نواسی اور پرنانی کی۔۔۔(اب جو بھی تھا)کسی مہم کے دوران اگر کسی گلیشئر میں دب جاتی۔۔۔پھر پتہ چلتا۔۔۔کہ میں نے اتنا بڑا کارنامہ کیا تھا۔

کوئی غلط تو نہ ہوتا یہ۔۔۔ایسا ہوناممکن بھی تو ہے۔۔شیری اٹھ کر کھڑکی کے قریب آگئی اور تصویر میں اپنے والد کے چہرے کو ہاتھ سے چھوا ایسے کہ والدہ کے چہرے سے انگلی تک چھو نہ سکے۔مگر کیا معلوم مجھے ایسا کرنے دیا جاتا۔۔۔یا کرنے دیا جائے۔۔۔یا۔۔۔۔یا۔۔۔۔یا پھر ایسا کرنے کو ایک گناہ یا جرم یا بغاوت گردان کر۔۔۔مجھے مجھے۔۔۔نہیں۔۔۔پاپا پچھلے مہینے ہاسٹل آئے تھے تو سمجھایا تھا کہ منفی خیالات دل میں نہیں لانے چاہئیں۔۔۔۔ہےنا پاپا۔۔۔اٹ ازنٹ رونگ۔۔۔نو۔۔۔؟ اگر مجھے یہ موقعہ ملتا تو آپ تو جانتے ہیں نا اپنی ایڈونچرس بیٹی کو۔۔۔شیری کہیں دور د یکھنے لگی۔مگر پھر سچ مچ وہی ہوا جو شیری نے تصور کیا تھا کہ برسہا برس بیت گئے اور کسی کو وقت کی اس تیزی کا اندزہ ہی نہ ہوا۔ بنی نوع انسان وقت کے تعین کو عشروں، صدیوں اور ہزاروں سے تعبیر کر کے لاکھوں کروڑوں برس کا حساب لگا کر خوش ہو جاتا ہے اور وہاں کائنات میں ایسی باتیں پلک جھپکنے سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتیں۔اور پلک جھپکنے میں سینکڑوں برس بیت جاتے ہیں۔اور پلک جھپکنے میں سینکڑوں برس بیت گئے تھے۔شیری کا تصور سچ کے اس درجہ قریب ہو جائے گا، اس نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔ شیری کے کانوں میں کسی پرندے کی چہچہاہٹ پڑی تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ایک ریت کا ذرہ اس کی آنکھ میں گھس آیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو مسلنے لگی اور کافی دیر اس عمل میں مصروف رہنے کے بعد اس نے آنکھیں پوری طرح واکیں ۔ نیلا ہٹ مائل سرمئی سے آسمان پر بظخ کے رنگ اور ساخت کا ایک پرندہ اڑہا تھا مگر اس کی چونچ بطخ سے کچھ کم چٹپی تھی اور سرے تک پہنچتے نوکیلی اور خمدار ہو جاتی تھی ۔ آسمان بھی الگ سا لگ رہا تھا۔ جیسے ہر چیز پر ہلکے ہلکے بادلوں کا سایہ ہومگر پھر بھی ہر شے حسین اور روشن ہو، اور اس پرندے کی آواز بھی بطخ ایسی نہیں تھی کہ جیسے آرے سے کوئی لکڑی چیر رہا ہو، بلکہ بڑی سریلی تھی۔ جیسے بچوں کے لیے بنائی گئی پلاسٹک کی سیٹیاں ہوتی ہیں۔ شیری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ اٹھ بیٹھی۔ اس نے اتنا بڑا پرندہ پہلے کبھی اتنی لمبی اڑان بھرتے نہیں دیکھا تھا۔ پرندہ اڑتے اڑتے اس کی داہئی جانب اونچے اونچے بے شمار درختوں کی طرف چلا گیا تو وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ سامنے دور دور تک ریت ہی ریت تھی اور بائیں جانب نیلا نیلا وسیع سمندرسکون سے کہیں جارہا تھا۔ اس نے سر جھکا کر خود کو دیکھا۔ اس کا لباس تار تار تھا اور بدن ریت اور کیچڑ سے لت پت تھا۔ یہ سب اس نے ایک سیکنڈ کے کسی حصے میں دیکھا۔ اس کے حلق سے چیخ نکل گئی۔ اسے یاد آیا کہ وہ سمندر کے اوپر اڑرہی تھی جب اس کے چھوٹے سے جہاز میں تکنیکی خرابی پیدا ہوگئی تھی۔ اسے جہاز کو کریش لینڈ کرنا پڑ رہا تھا۔ کنارا بہت دور تھا مگر وہ اچھی پیراک تھی۔ اس نے بڑی خود اعتمادی سے ایک ہی سیکنڈ میں یہ فیصلہ لیا تھا، کہ وہ جہاز کا رخ کنارے موڑ کر پانی میں کود جائے گی اور اس نے ایک سیکنڈ سے کم وقت میں ایسا ہی کیا تھا، مگر نہ یہ وہ ساحل تھا اور نہ یہ جگہ اس کی پہچان کی۔ ملبے کا بھی کوئی نام ونشان نہیں آرہا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنی کلائی کی طرف دیکھا۔ کلائی پر ایک گہرا زخم تھا اور سنہری کلائی کی ناک جلد کے اندر لگا رابطے والا آلہ چوٹ لگنے سے خراب ہو کر بند پڑا تھا۔ لباس اور جسم میں کوئی ٹرانسمیٹ سلامت نہیں تھا، مگر سر کے اندر کچھ شور سا سنائی دے رہا تھا۔ شاید دماغ کے اطراف نسب آلات کام کر رہے ہوں اور اس کی ماما کو اس کے کریش اور ڈائریکشن کا پتہ چل جائے اور اسے وہ ڈھونڈ نکالیں۔ یہ سب سوچنے میں شیری کو مزید ایک سیکنڈ لگا تھا اور تیسرے سیکنڈ اس نے اپنے سامنے ایک ایسی شے دیکھی جسے دیکھ کر اس کی چیخ تک اس کے حلق میں اٹک گئی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے ہونٹ داب رکھے تھے اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے دیکھ رہی تھی ۔ اپنی بیس سالہ زندگی میں دنیا کے سارے ممالک کا دورہ کرنے کے باوجود شیری کی نظروں سے ایسی شے کبھی نہیں گزری تھی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اور مارے خوف کے آنسو بہہ نکلے تھے ۔ وہ منھ پر ہاتھ دھرے دھیرے دھیرے سسکنے لگی۔اسے گھر کی بے تحاشا یاد آنے لگی۔۔۔ماما میں کہاں ہوں۔۔۔آپ کہاں ہیں ماما یہ کیا چیز ہے ماما اس نے آنکھیں بھینچ لیں اور دماغ میں خیال اٹھتے ہی شور ختم ہوا اور سب صاف سنائی دینے لگا۔ ۔۔ہم تمھیں ڈھونڈ رہے ہیں بیٹا۔۔۔جلدی تمہارے پاس ہوں گے۔۔۔دماغ میں ماما کی آواز گونجی۔

مگر میں کہاں ہوں۔۔۔ساری ڈائریکشن لوز کر چکی ہوں۔۔۔آپ لوگ نظر نہیں آرہے برین کے اندر لگا کوئی ویڈیو کام نہیں کر رہا۔۔۔ اور یہ۔۔۔یہ میرے سامنے کیا ہے۔ شیری نے پھر آنکھیں بھینچ کر کھولیں تو دماغ نے واپس سگنل دیا۔ اس نے سامنے کھڑی مخلوق کو ایک بار پھر بغور دیکھا۔ تھوڑی دیر پہلے تک تمہارے آئی لڈس کے اوپر لگے مائکرو کیمراز، ڈیمچ ہونے کے باوجود سامنے کا منظر کچھ دھندلا سا دے تو رہے تھے۔مگر تم دونوں نے آنکھوں کو بچیوں کی طرح مسل ڈالا اور پہلے سے ہی ٹینڈر ہو چکے اور پانی سے بھرے کیمراز میں سے ایک بھی نہ بچا۔ تم کہیں نارتھ کی طرف گری تھیں۔۔۔پلین اور تم دونوں سمندر کے اندر گرے تھے۔۔۔بٹ تھینک فلی یو آرسیف ہم آچکے ہوتے مگر تمھاری ڈائریکشن کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔۔۔تمھارے سامنے ایک ساحل ہے۔ بٹ یوڈوناٹ وری۔۔۔ہم ڈھونڈ لیں گے ۔ مجھے حیرت ہے کہ دنیا کا چپہ چپہ ہمارے سب کاغذی اور برقی نقشوں میں ہے مگر یہ کون سی جگہ ہے خیر تم فکر نہ کرو اور زیادہ مت سوچو۔۔۔تمہارے مائنڈ کے رڈار اوور لوڈ ہونے سے ہم کونٹیکٹ لوز کر سکتے ہیں کیونکہ جہاں تم ہو وہاں کوئی آرٹیفیشل میگنٹک فیلڈ نہیں مل رہا۔۔۔کوئی ریڈیویوز ڈیٹیکٹ نہیں ہورہی ہیں اور ان کا چارج ہونا ناممکن ہو سکتا ہے۔ڈونوٹ اور برڈن یوئر سیلف ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہیوسم فش ٹو ایٹ یوہیو ٹوسروائیو اینڈ ریمیمبریو آراے بریو پرسن۔۔۔مچھلی پکڑتی رہو اور زندہ رہو۔۔۔ہم تمھیں جلد ہی ماما کی آواز کچھ رک رک کر آنے لگی۔۔۔ماما۔۔۔شیری کی آواز میں آنسو گھل گئے ۔دماغ میں لگے آلے نے اداسی کی لہروں سے چھوتے ہی اپنی ریزروایز جی استعمال کر ڈالی اور ماما کی آواز پھر ابھری۔۔نو۔۔بے بی۔۔نو۔۔یوہیو۔۔ماما کی اداس بھاری آواز ڈوبی، ابھری اور بات ادھوری رہ گئی اور شیری کے دماغ میں اٹھنے والی آواز میں اچانک بند ہو گئیں۔ ایسا کیوں ہوا۔۔۔میں نے تو سوچا کچھ نہیں تھا جو چار ختم ہوگیا۔۔وہ سامنے ایستادہ شے پر نظریں گاڑے سوچتی رہی۔۔۔اوہ مگر میں تو مسلسل سوچ ہی رہی ہوں۔۔۔کیا کروں۔۔۔اب میں کیا کروں۔۔۔۔ماما سے رابطہ ٹوٹتے ہی وہ اور خوف زدہ ہوگئی اور اس کاجی چاہا کہ چیخ چیخ کر روئے مگر خوف کے حملے نے اسے چیخنے بھی نہ دیا کہ یہ انجان مخلوق جانے کیا کرے گی۔ مگر انجان مخلوق نے کچھ نہ کیا۔ بس کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ یہ مخلوق حیرت انگیز طور پر شیری سے مشابہ تھی، مگر حیرت انگیز طریقے سے اس سے جدا بھی تھی۔ یہ کیا ہے۔

شاید کہیں دیکھی ہے اس نے پہلے ایسی کوئی شے مگر کہاں ہاں شاید کسی عجائب گھر میں تین سو سال سے قائم ایک عجائب گھر میں جہاں اس زمانے کی اور اس سے اور پہلے کی ناپید ہوچکی مخلوقات موجود ہیں۔ہاں وہیں۔۔۔وہیں دیکھا ہے اس نے اس مخلوق کو ۔ اس کی حنوط شدہ شکل میں حنوط شدہ مخلوق کے برابر اسی کا ایک بڑا مرمریں مجسمہ بھی رکھا گیا ہے۔۔۔سفید پتھر کے دو زمینوں والے اسٹینڈ پر ایستادہ مجسمے کا قد اس سے ملتی جلتی سامنے جو مخلوق کی طرح لمبا ہے اور اس کی دو آنکھیں اور دو دو ہاتھ پیر ہیں جن کے پٹھے خاصے نمایاں ہیں۔ اس کے سر پر گھنے اور کچھ لمبے بال ہیں اور چہرے پر ناک کے نیچے چھوٹے چھوٹے گھنے بال ہیں۔ اس کی ٹھوڑی پر بھی گھنے اور کچھ زیادہ لمبے بال ہیں۔ جسم پر بھی چھوٹے چھوٹے بال ہیں۔ اس نے ایک پیر پہلے زینے پر رکھا اور دوسرا گھٹنا موڑ کر وہ پاؤں دوسرے زینے پر رکھا ہے۔ مجسمے کے نیچے کی عبارت شیری کا دل دہلا دیتی تھی۔   یہ  ذی روح اب نہیں پایا جاتا۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے بالکل ہی نا پید ہو چکی یہ پتھری مخلوق آج کی موجودہ قوم انسان کی جانی دشمن تھی جس کے تئیں اس میں حسد کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ یہ جاندار اس قوم کی ترقی میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈالتا اور اس کو اذیتیں دیا کرتا تھا۔ یہ جاندار جنگ و جدل میں یقین رکھتا تھا اور اس پر فخر کرتا تھا۔ اپنی خوشی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب سائنس کی ایک حیرت انگیز دریافت نے دنیا کو چونکا دیا تھا۔ شیری نے اس کی تفصیل کہیں پڑھی تھی۔ گو کہ یہ اس کا موضوع نہ تھا مگر چونکہ نصاب میں اس کی ایک خاص اہمیت تھی اس لیے اسکول کے آخری درجے تک کم از کم اس کی تعلیم ضروری تھی ۔ اس کے علاوہ اس موضوع میں تحقیق و تنقید، اقتصادیات اور سائنس کے مضمون کی طرح اہمیت کی حامل مانی جاتی تھی۔ حیران کن دریافت یہ تھی عورت اب مرد کے تعاون کے بغیر اولاد پیدا کرسکتی تھی ۔ اپنے ہی جسم کے ایک خلیے کے ذریعہ مگر اولاد نرینہ کے لیے پھر مرد کا تعاون ہی ضروری تھا۔ اس خبر سے عورت ذات کی تانیثی تنظیموں کی کچھ اہم ارکان نے ایک خفیہ منصو بہ بنایا اور ایک ایسی تنظیم تشکیل دی جس کی ہر رکن کے پاس ایک ایسا تجربہ ہونا لازمی تھا جسے وہ وقت ضرورت عام کر کے اپنے مشن میں کامیابی حاصل کر سکے۔ اس تنظیم میں بڑے اہم نام تھے جو بعد کو صدیوں تک زبان زدر ہے تھے۔ پہلا نام قارا تازہ کا تھا۔ اس نے ساری عمر مردوں سے نفرت کی تھی اور ان کے خلاف لکھی اپنی کتابوں میں انھیں بیوقوف ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر پچپن سال کی عمر میں اپنے سے بیس سال کم عمر کے مرد سے شادی کر لی۔ پھر اسے ایک نو عمر لڑ کی سے عشق میں مبتلا دیکھ کر گوشہ نشین ہوگئی ۔ شرمندہ سی قارہ تاز نے تنظیم میں شامل ہونے کے لیے فوراہاں کر لی تھی۔دوسری رکن کا نام کمہ ساطی تھا۔ وہ کسی زمانے میں ایک فعال تانیثہ بن کر ابھرنے ہی والی تھی کہ اسے محبت ہوگئی اور شادی کر بیٹھی ۔ اس کے شوہر کا ایک پاؤں نقلی نکلا جو اس نے شادی سے پہلے کمہ ساطی سے چھپائے رکھا تھا اور کمہ ساطی اسے چھوڑ کر پھر سے فیمنسٹ گروپ میں جاملی ۔ وہ بھی نئے آئیڈیا کو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھ کر تنظیم میں شامل ہوگئی۔ تنظیم میں شامل ہونے والی ایک اور اہم رکن ڈاکٹر بدنی تھی جو غیر شادی شدہ تھی اور جانے کس سبب سے خواتین کی کچھ ایسی حامی تھی کہ مرد ذات کی دشمن جانی جاتی تھی اور یہ ثابت کرنے پر تیار رہتی کہ مرد آپس میں ہی ہر طرح کی محبت کرنے میں خوش ہیں اور آئے دن یہ معاملے سامنے آتے ہیں بلکہ اب یہ معاملے اتنے عام ہیں کہ سامنے ہی رہتے ہیں اور یہ عورت کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ دیکھنے میں ڈاکٹر بدنی کسی مرد سے کم نہیں نظر آتی تھی۔ اس کے میٹرنٹی اینڈ فرٹیلیٹی ہاسپٹل میں ایک بھی مرد ملازم نہیں تھا۔ اپنی ہم مزاج خواتین کا عملہ اسے آسانی سے مل گیا تھا۔ چوتھی رکن ایڈووکیٹ زازی رڈ نے اپنے بچپن کے ہم جماعت اور ہم پیشہ سے شادی کی تھی جو اسے بہت چاہتا تھا، مگر اس کی ذہانت سے عدم تحفظ کا شکار ہوکر اسے بہانے بہانے سے بہت مارتا بھی تھا۔ زازی رڈ نے اس سے رشتہ توڑ لیا اور میڈیا کے ذریعہ عورتوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ تشدد کے خلاف مہم چلائی تھی۔

پانچویں رکن سوشل سائنٹسٹ ریز ابیر نے میڈیا کے ذریعہ کئی ٹھوس تجر بے عام کر کے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی کہ جنگ اور خونریزی کا واحد ذمہ دار مرد ہے جو لالچ یا انا کی تسکین کے لیے کسی ملک پر بم برسا سکتا ہے، اور یہ کہ لڑکے ہی بڑے ہو کر تشددکا راستہ اختیار کرتے ہیں اور بچپن سے ہی پر تشد دکھیلوں کو اپنا کر خوش ہوتے ہیں۔ اگر ان میں کوئی اتفاق سے عورت جیسا دل لے کر پیدا ہوتا بھی ہے تو وہ بھی اکثر حالات میں باقی برے مردوں کا اثر لے لیتا ہے اور ان جیسا ہی بن جاتا ہے۔ اس لیے اس صنف کی موجودگی کو غیر ضروری سمجھا جانا دنیا کے منظر نامے کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ضروری ہو گیا ہے کہ اسی سے انسانیت کا مستقبل محفوظ رہ سکتا ہے کیونکہ یہ لوگ اب اور بھی کئی طریقوں سے دنیا کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہیں، اور کہیں پورے کے پورے براعظم کو ایک ہی بم سے اڑانے کے تجربوں کے کوشش میں ہیں، اور کہیں بگ بینگ تھیوری کو ایک کھیل کی طرح مصنوعی طریقے سے کھیلنے کا منصوبہ بنا کر، جس میں دنیا کے عالم وجود میں آنے کی اصل صورت حال سے آشنا ہونے کے ان کے دیوانے شوق کی تکمیل کاکم اور گل عالم کے نیست و نابود ہونے کا کئی درجے زیادہ خطرہ ہے کہ اب یہ سائنس کے نام پر انسانوں اور حیوانوں کو ملانے لگے ہیں، نئے ذی روحوں کے ڈھانچے تشکیل کرنے لگے ہیں۔یہ لوگ دوسروں کو اپنا شکار سمجھتے ہیں۔ انھیں اپنی تفریح کا سامان سمجھتے ہیں۔ سائنس کے نام پر ان سے جیسے چاہے کھیلتے ہیں اور جیسے چاہیں گے کھیلا کریں گے۔ اب یہ کسی کے بھی جذبات ان کی فطرت سے زیادہ کر دیں گے اور کہیں ان کی اصلیت سے ان کے جسم کم بنادیں گے۔ اب یہ تماشہ گر دنیا کو تماشاہ گاہ بنانے پر تل گئے ہیں جس میں بہت سے سرمایہ دار نما سیاستداں اور بہت سے سائنسداں رہ جائیں گے اور باقی ذی روح ان کے تجربے کا خام مال کہ ان کے جینے کی طرز اورمرنے کے اسباب کے وہی مختار ہوں گے۔

- Advertisement -

یہ ساری تقریر براہراست برقی رابطوں کے ذریعہ بیک وقت تمام ممالک میں عام کی گئی۔ ایسی باتیں عقل کو لگتی تھیں اور عام اذہان کے جذبہ بغاوت کی تسکین کا سامان کرتی تھیں اور اس طرح شدت پسند تانیثاؤں کا کام آسان بھی۔ ان سب محتر ماؤں نے فردا فردا منتظم طریقے سے مسلسل دو دہائیوں تک عالم بھر میں مردوں کے خلاف مہم چلالی اور پھر سب نے ایک جگہ جمع ہو کر ایک لائیو پریس کانفرنس میں دنیا بھر کی خواتین سے اپیل کی کہ وہ مردوں کا مکمل بائیکاٹ کر دیں کہ اس صنف کی اب دنیا میں قطعی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ اگر یہ نا پید نہ ہوئے تو پوری دنیا کو ختم کرنے سے پہلے یہ عورت ذات کو ضر ور ختم کر دیں گے کہ عورت کے قدرتی تخلیق کار ہونے کے سبب اور اولاد پر مالکانہ حقوق جتاتے وقت یہ ویسے ہی عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کل کو کوئی ایسی ایجاد کردیں کہ نسل بڑھانے کے لیے انھیں ہی عورت کی ضرورت نہ پڑے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ان کی ہی نسل روک دی جائے۔ ایسی باتوں کا اثر عورتوں کی نفسیات پر ہوتا دکھائی دے رہا تھا جس کا ثبوت میڈیا کے ذریعہ سوال جواب یا لائیو مباحشے تھے اور اگلے دن اخباروں میں اس پریس کانفرنس کے خوب چرچے تھے کہ ہر شعبے میں خواتین کی ایک خاصی تعداد موجود تھی جن میں ان کی ہم خیال خواتین بھی اچھی خاصی تھیں جنہوں نے اس معاملے کی ہر طرح تشہیر کی۔وقت تیزی سے بدل رہا تھا اور خیالات بھی مگر اس کے باوجود تنظیم کی ان پانچ اراکین کی حیات میں مردم شماری میں مردوں اور عورتوں کے تناسب میں کچھ نمایاں تبدیلی محسوس نہ ہوئی لیکن دنیا کے ہر کونے میں ان کی ہزاروں پیرو کار ضرور پیدا ہوگئی تھیں جو اس صدی کے اختتام تک لاکھوں میں بدلتی گئیں اور پھر مردوں کی گنتی میں حیرت انگیز طور پر کمی واقع ہونے لگی کہ جس رفتار سے عورتوں کی تعداد بڑھی تھی اسی رفتار سے مردوں کی تعداد گھٹ گئی تھی ۔ گو کہ کہیں کہیں کچھ فکرمند سائنسدانوں نے کچھ ‘‘وائی’’ کروموزوم محفوظ کر لیے تھے اور وہ اپنی زندگی جی کر اور مستقبل کے لیے بھی کچھ حفاظتی اقدامات کر کے ہی دنیا سے گئے تھے مگر مخالفین کا غلبہ ایسا تھا کہ تعداد گھٹتی ہی گئی اور اس سے اگلی صدی کے اختتام تک دنیا ایسی بدلی کہ اطفال میں سب بچیاں ہی تھیں اور مرد ذات کا کہیں نام ونشان تک پایا نہیں جاتا تھا۔ آرکائیوز میں سے ایسی فلمیں تک ضائع کر دی گئیں جن میں محبتوں کا ذکر تھا، اور وہ بھی جن میں جنگ وجدل کے قصے تھے، کہ گھروں سے ویسے ہی تصاویر اور نشانیاں مٹ گئی تھیں کہ تیسری چوتھی نسل کے بعد آنکھ سے اوجھل لوگوں کے تئیں جذباتی لگاؤ کے فقدان کے سبب کوئی محفوظ نہیں رکھ پاتا ہے یادوں کو، اور اس کے ساتھ ہی مثبت سائنسی رجحان اور نئی تیکنالوجی سے ممالک خود کفیل تھے اور جنگیں نہیں ہوتی تھیں۔ زمانہ اپنی رفتار سے ہمیشہ کی طرح انجان منزلوں کی جانب گامزن تھا۔ اب عجائب خانوں میں مردوں کے مجسمے اور تصاویر نظر آتیں ۔ بڑی بوڑھیا مردوں کی کہانی سنایا کرتیں جو انھوں نے اپنی بوڑھیوں سے سنی تھیں کہ ان میں سے کسی نے مرد ذات کو نہیں دیکھا تھا۔ شیری کی نانی نے بھی اپنی نانی سے سنی تھی کہ اس نانی نے اس کی اپنی نانی کے حوالے سے سنی تھی اور سینہ در سینہ چل رہی داستانیں بڑی خوفناک اور دلچسپ ہوا کرتیں۔ اونگھ رہی بچیاں ڈر کر دیکنے لگتیں مگر تجسس کے مارے پھر سر نکال کر پوچھتیں کہ نانی پھر کیا ہوتا تھا۔ شیری بھی پوچھا کرتی تھی اور نانی پھر اپنی نانی کی نانی کی اطلاعات کے مطابق کہتیں کہ اس کی نانی نے کیا سنا تھا۔

وہ بالکل ہمارے جیسے نظر آتے تھے، مگر ہم سے کچھ بڑے ہوتے تھے اور ہم جیسی سب کی سوچ کو کچلنے پر تیار اور جسم کو نگلنے پر آمادہ۔۔۔ہم لوگوں کو پریشان کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔۔۔نئی ایجادات اور مصنوعات سے صحت مند نظر آنے والی نانی کہیں سے روایتی نانی ایسی نہ تھیں ۔ ماسوائے اس کے کہ ممتا کی فطری روایت سائنس کی ترقی کے باوجود بدلی نہیں جاسکتی تھی ۔ نانی ٹیلی ویژن کے اسکرین جیسی کسی شے پر نظریں جماتی ہوئی جمائی لیتیں۔پھر۔۔۔؟ شیری ان کے چہرے پر اپنی ملائم انگلیاں رکھ کر ان کا منھ اپنی طرف موڑتی ۔اور کیا کرتے تھے نانی۔۔۔۔؟ہم لوگوں کو تکلیف دیتے تھے۔۔۔عجیب عجیب طرح سے۔۔۔دہنی اور جسمانی۔۔۔اور ہاں ان کی ناک کے نیچے بال اگتے تھے جنہیں ان میں سے بڑھا کر اکثر بڑے اسٹائل سے تراشا کرتے تھے اور یہ بال کھاتے پیتے ان کے منھ میں گھس جاتے تھے۔۔اوہ۔۔۔چھی۔۔۔گندے۔۔شیری اپنی ناک پر انگلی رکھ کر سر ہلاتی۔ ان کی آواز بالکل الگ تھی۔۔۔شیر کی دہاڑ جیسی۔۔۔اور ہنسی ایسی کہ جیسے سمندر طوفان کے وقت چنگھاڑتا ہے بس یہ سمجھو کہ وہ کہیں سے انسان نہیں تھے۔ بھلے ہی انسان سے نظر آتے ہوں۔۔ اس دن نانی ماں بات کرتے، گاہے گاہے ٹیلی ویژن جیسی چیز پر نظر ڈالتے اونگھ گئی تھیں ۔ اورشیری سوچوں میں کھوئی جاگتی رہی تھی۔اس وقت انجان ساحل پر کھڑی پھٹی آنکھوں سے سامنے ایستادہ مخلوق کو ہونٹوں پر ہاتھ دھرے دیکھتی شیری نے جھر جھری سی لی۔اب تک وہ خاموش اسے دیکھتا رہا تھا۔ پھر اس کے ہونٹوں پر بائیں جانب ایک خم سا نمودار ہوا جسے دیکھتے ہی شیریں ایک قدم پیچھے ہٹی۔

اس شے کے ہونٹوں کے نیچے بھی گھنے گھنے سیاہ بال ہیں اور اس کا قد شیری سے لمبا ہے اور شانے چوڑے ہیں۔ اس کی ٹھوڑی پر بھی گھنے گھنے بال ہیں۔ اس کی آنکھیں کیسی کالی کالی ہیں۔ چمکیلی سی (نانی نے یہ بھی نہیں بتایا تھا) اور اس کے ہونٹ کا خم۔۔۔مسکراہٹ پر مائل سا نظر آنے والا خم۔۔۔کیسا جاذب سا ہے ( جب کہ قاعدے سے ایسا ہونا نہیں چاہیے ) ۔ اس کی کسی ساتھی کی مسکراہٹ ایسی نہیں تھی اور نہ گھر میں کسی کی۔ تو یہ ہی ہے مرد، مگر کون جانے بلا سبب پرکشش نظر آنے والا یہ خم غصے میں آنے اور حملہ کرنے کا پہلا قدم ہو۔جانے اب وہ اس پر کس طرح حملہ آور ہونے والا ہوگا۔اس خیال کے آتے ہی شیری اپنا توازن کھو کر پھر ربیت اور کیچڑ میں گرگئی۔ مرد پر اس کی نظریں جھی رہیں۔ اب۔۔۔اب یہ شیر کی طرح دہاڑے گا اور اسے اذیت دے گا۔۔۔۔اسے وہاں سے بھاگ جانا چاہیے کہیں بھی، بھلے ہی واپس پانی کے اندر شیری حملے کا اندازہ لگانے کے لیے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔ مرد اسے دیکھتا رہا اور مسکرا دیا۔ پھر اس نے جھٹک کر اپنا ہاتھ شیری کی طرف بڑھایا کہ وہ اس کے ہاتھ کے سہارے اٹھ سکے۔ شیری نے اس کا ہاتھ نہیں تھاما اور سر اوپر کیسے اسے دیکھتی رہی ۔ کئی لمحے وہ اس کے اٹھنے کے انتظار میں جھکا رہا اور جب وہ نہیں اٹھی تو یکلخت اس نے اس کا بازو پکڑ کر اوپر اٹھالیا۔ شیری کے ہونٹوں سے گھٹی گھٹی سی شیخ نکلی تو مرد مسکراتے ہوئے کچھ بولا بھی تھا۔ شیری کی گھبرائی نظروں میں حیرت شامل ہو گئی۔ اس کی آواز شیر کی دہاڑ جیسی نہیں تھی برستی ہوئی بارش جیسی لگی تھی، اور جب اس نے اس کا بازو پکڑ کر اٹھایا تھا تو اس کی گرفت بھی کسی پنجے یا شکنجے ہی نہیں تھی بلکہ ایسی ہی دوستانہ تھی جیسی نانی اور اس کی ماما دونوں نے اسے تھام رکھا ہو یا جیسے انسٹی ٹیوٹ میں ساتھیوں کی تھی ،مگر اکثر اس کے ساتھ رہنے والی کچھ بھاری بستے کی ساتا جیسی کہیں سے نہ تھی ۔ ساتا کی دبلی انگلیاں اس کے بازو میں پیوست کی ہو جاتی تھی مگر مرد کے ہاتھوں کی انگلیوں کی مضبوطی کے سہارے اٹھتے وقت شیری کی ذرا بھی طاقت نہیں لگی تھی۔مرد حیرتوں میں ڈوبی شیری کا شانہ تھامے کچھ دور تک اپنے ساتھ چلاتا رہا پھر آگے بڑھ گیا۔ شیری دو ایک پل رک کر سنسان، اجنبی اور کچھ عجیب کی روشنی میں ڈوبے ریگزاروں کو دیکھا کی۔ یہ روشنی ہلکی تھی نہ تیز نگر خاصی واضح تھی اور آسمان بھی بہت اونچانہ تھا بلکہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آسمان کے بعد بھی کوئی چیز ہلکے رنگوں کے شامیانے کی طرح تنی ہے۔ شیری نے سر ہلکے سے جھٹکا اور اس کے پیچھے پیچھے زمین کی طرف دیکھتی چلنے لگی کہ وہ خطرناک معلوم نہیں ہوتا تھا اور شیری کے پاس دوسرا کوئی راستہ بھی نہ تھا۔ ان کا رخ جنگل کی طرف تھا۔ کچھ دیر تک آہستہ چلنے کے بعد مرد کی رفتار تیز ہوگئی۔ وہ دوڑتا تو شیری بھی دوڑ نے لگتی تھی۔ دور دور تک اور کوئی نہیں تھا۔

یہ جنگل ایک دیوقامت چٹان پر تھا اور بہت سا چلنے کے بعد اچانک ایسے راستے کی اور مڑتا تھا جہاں صرف داہنی اور بائیں جانب سے سورج کی روشنی آتی تھی۔ گویا پہاڑ کی قوی ہیکل چھت تلے ایک اور دنیا آباد تھی جو مکمل روشن تھی مگر جنگلوں کی بہتات اور کئی میلوں تک اٹھی آڑی چٹان کے سبب اوجھل بھی تھی ۔ آڑی چٹان پر دیو ہیکل درختوں کا ایک لامنتہا سلسلہ تھا اور یہ چٹان جیسے دونوں جانب کی چھے والی ٹوپیاں پہنے ایستادہ تھی اور ساحل ایسے ڈھکا تھا کہ چٹان کے نیچے سے گزرے بغیر ساحل کا نظر آنا ممکن نہ تھا مگر سارے منظر میں روشنی بھی تھی اور سورج کی کرنیں بھی ادھر ادھر رقص کرتی پھرتی تھیں۔ جس راستے سے وہ گزر رہے تھے وہ راستہ کیا تھا۔ اطراف اونچے اونچے درختوں پر پرندے ادھر ادھر شور مچاتے پھرتے تھے۔ کچھ پرندوں کو وہ پہچانتی تھی ۔ کچھ اس نے کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اس نے عجائب گھر میں عنقا ہو چکے پرندوں کو حنوط شدہ شکل میں دیکھتے تھے، مگر سب کی بولیاں بڑی سریلی تھیں۔ کچے راستے سے نکلنے والے اور راستے پھولوں اور پھلوں سے بھرے نظر آرہے تھے۔ اب وہ کسی وادی میں آگئے تھے۔ دور دور تک پکے اناج والے سنہرے کھیت تھے۔ لکڑی اور گھاس کی گول، چوکور ، آڑی اور سیدھی چھتوں اور بڑے بڑے باغیچوں والے گھر تھے۔ سواری کے جانور تھے مگر گاڑی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی۔ آگے چلتا ہوا مرد اسے پلٹ کر دیکھ لیتا تھا اور جہاں راستہ تنگ یا پانی سے بھرا ہو تو اس کے لیے   جگہ چھوڑ کر رک جاتا اور اس کے گزرنے کے بعد خود گزرتا۔کچھ دیر بعد وہ ایک بڑے سے باغ میں پہنچ گئے تھے جہاں شیری نے اپنے جیسی بہت سی لڑکیاں اور اس مرد جیسے بہت سے مردوں کے علاوہ ہر عمر کے مرد عورت دیکھے۔ یہاں عورتوں کے چہرے اس کی دنیا کی نسبت پر سکون معلوم ہوتے تھے۔ مرد نے شیری کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے ایک اور ہم عمر مرد سے دھیرے سے کچھ کہا۔ دھیمے لہجے میں اس کی آواز گٹار کے نیچے سروں کی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی بات پر اس کا ساتھی قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ اس آواز پر شیری نے پھر حیرت سے دیکھا۔ قہقہہ پہاڑی جھرنے کی طرح اس کے ساتھی کی مضبوط گردن کے حلقوم سے ابھرا تھا۔ کسی جانور کے کھال سے ڈھکے اس کے چست پیٹ کے اوپر چھاتی کچھ اور پھیل گئی تھی ۔ قہقہہ سن کر سوکھی گھاس کو گٹھوں میں پیٹتی ایک لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور قہقہہ لگانے والے مرد کے پاس آگئی۔ مرد نے اسے بھی اپنی زبان میں کچھ کہا تو دونوں ہنس پڑے۔ اس ہنسی پر شیری مزید ایک بار چونکی کہ اس کے کان عورت اور مرد کی ملی جلی ہنسی سے نا آشنا تھے۔ اس مشتر کہ ہنسی میں بانسری اور سرود کے سر ملے ہوئے تھے جیسے برسنے پر آمادہ بادلوں کی گرج کے درمیان کوئی بلبل گارہی ہو ۔ شیری کی حیرت پر اس لڑکی نے مسکرا کر مرد کی آنکھوں میں دیکھا اور اس کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ لے جا کر کچھ بولی۔ مرد بھی مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کچھ کہنے لگا۔ وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ شیری نے اس طرح کا کوئی منظر پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ چرند و پرند قہقہ لگاتے ہیں نہ مسکراتے ہیں۔ جانوروں میں زراور مادہ آپس میں باتیں ہی کرتے ہیں نہ آنکھوں میں دیکھتے ہیں۔ انسان کو قدرت نے بولنے، مسکرانے اور آنکھوں کو دل کی جگہ استعمال کرنے کی راحت عطا کی ہے۔ آج سے قبل شیری نے قدرت کے بنائے ہوئے جو جوڑے دیکھے تھے ان سے انسانوں کا جوڑا سب سے الگ ،سب سے اشرف تھا۔ سب سے مکمل اور سمجھدار معلوم ہوتا تھا کہ بات کر کے دل کی بات کہنے کی قدرت رکھتا تھا۔ شیری ہر بات کو بغور دیکھتی۔ سمجھنے کی کوشش کرتی اور اس میں کامیاب ہوتی گو کہ ہر بات اس کے لیے نئی تھی اور بہت سی نئی باتیں اس کی منتظر تھیں ۔پھر مرد نے شیری کو دیکھ کر عورت سے کچھ کہا تو عورت کا چہرہ یکا یک بجھ سا گیا۔ وہ کچھ لمحے شیری کی طرف بغور دیکھتی رہی۔ پھر اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں شکوہ بھر کر اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور پلٹ کر واپس گھاس کے ڈھیر کی جانب چل دی۔ مرد نے مسکراتے ہوئے اسے پکارا۔ اس نے مڑکر نہیں دیکھا تو وہ بھی اس کے پیچھے گھاس کی ڈھیری کی طرف لپکا۔ وہ سر جھکائے کام میں مصروف بنی رہی۔ وہ اس کے قریب جا بیٹھا۔ پھر کبھی ہنستا اور کبھی مسکر مسکرا اسے کچھ کہتا رہا۔ وہ اس کی طرف سے منھ پھیر لیتی تو وہ اس کے چہرے کے رخ پر سامنے چلا جاتا۔ لڑکی اسے نظر انداز کرتی رہی۔ اس نے جیسے اس سے نہ بولنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر مرد کچھ پل اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے لپک کر لڑکی کو گود میں اٹھالیا اور گول گول گھومنے لگا۔ لڑکی نے مسلسل سنجیدہ صورت بنائے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی مگر پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی اور لڑکے کے گلے میں بانہیں ڈالے اس کی گود میں جھولتی رہی اور اس وقت تک ہنستی رہی جب تک وہ اسے گود میں گھماتا اس کے ساتھ ہنستا رہا۔ پھر لڑ کا جب لڑکی کا بوجھ اٹھائے تھک گیا تو لڑکی کو گھاس کی ڈھیری پر پٹخ کر زور زور سے ہنستا وہاں سے بھاگا اور لڑکی زور سے ہنس کر ہلکے سے چلائی اور اٹھ کر اس کے پیچھے بھاگی۔ یہاں تک کہ دونوں نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ شیری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی اور اسے یاد ہی نہ تھا کہ وہ گھر میں نہیں ہے بلکہ بھٹک کر کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئی ہے۔ ایسا منظر بھی شیری نے کبھی دیکھا نہ تھا نہ تصور کیا تھا۔ ان دونوں کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی شیری نے محسوس کیا کہ وہ بڑی دیر سے مسکرا رہی ہے اور ساحل سے ساتھ آنے والالڑ کا ہونٹوں کو بائیں جانب خم سادیے گویا مسکراہٹ پر آمادہ اسے دیکھ رہا ہے۔ شیری کی اس پر نظر پڑتے ہی وہ مسکرایا اور اسے دیکھتا رہا ایسے ہی جیسے کچھ دیر پہلے گھاس لپیٹنے والی لڑکی کو اسکا ساتھی دیکھ رہاتھا۔ شیری بھی اسے دیکھتی رہی۔ اس کا دل اس کے چہرے سے نظریں ہٹانے کو نہ چاہتا تھا اور وہ جیسے بے بس ہی اس کی گھورتی ہوئی آنکھوں کو دیکھتی جارہی تھی مگر شیری کو اس بے بسی کا کوئی غم نہ تھا۔۔یہ کیسی بے بسی ہے۔۔اسے اس مجبوری سے ایسی راحت کیوں مل رہی ہے۔یہ دل کے اندر کوئی راگ سا کیا چھڑ گیا ہے۔یہ روح اتنی پرسکون کیسے ہوگئی ہے۔ یہ زندگی اتنی آسان سی کیسے لگ رہی ہے ۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ یہ زندگی اس کی زندگی سے کتنی بہتر ہے۔ کتنی اصلی اور کیسی فطری ہے اس لڑکے کی آنکھوں نے اس کی آنکھوں تک یہ کیسا سلسلہ باندھ دیا جسے توڑنے کی اس میں ہمت ہی نہیں۔اور جب۔۔۔جب ساتا اسے دیکھتی تھی تو۔۔۔۔شیری کے چہرے پر سنجیدگی سی چھانے لگی تھی اور ساتا کے دیکھنے کے خیال سے اسے عجیب سی بیزاری کا خیال آیا اور پھر گھن سی آنے ہی لگی تھی کہ اس نے فورالٹر کے سے نظر ملنے کے احساس کو دوبارہ خود پر حاوی کیا اور مسکرا اٹھی۔وہ کتنی خوش نصیب ہے کہ اس نے زندگی کی اصل صورت دیکھ لی۔وہ کسی جادوئی طاقت کے زیر اثر لڑکے کو دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ کچھ بچے کسی جانب سے  دوڑتے ہوئے آئے اور ان کے پیچھے ایک ادھیڑ عمر عورت ۔ اس عورت نے دلچسپی سے شیری کو دیکھا اور بچوں سے کچھ کہا۔ ان کے پیچھے ایک دھیڑ عمر عورت ۔اس عورت نے دلچسپی سے شیری کو دیکھا اور بچوں سے کچھ کہا۔ ان کے پیچھے ایک سفید داڑھی والا بزرگ سا آدمی ایک بچے کو گردن پر بٹھائے آرہا تھا اور ان کے پیچھے ایک نوجوان جوڑا۔

بچے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے کھیلنے لگے اور ایک بہت چھوٹا سا ننگ دھڑنگ بچہ شیری کی طرف دوڑا اور آدھے راستے میں رک کر اسے دیکھ کر شرما تا ساٹھہر گیا اور پھر کچھ پل بعد مسکرادیا تو شیری کو ہنسی آگئی۔ وہ اسے غور سے دیکھتی مسکراتی رہی کہ بچے بھی بچیوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں اور ویسے ہی پیار کرنے اور پیار چاہنے والے بھی۔تو جو اس نے آج تک پڑھا ، سنا، جانا، سمجھا، سب جھوٹ تھا۔ سب غیر فطری اور غلط تھا۔شیری کے چہرے پر تناؤ بھر آیا ۔ اس نے سر جھٹک کر دوسری طرف دیکھا۔ اور۔۔۔اورگھناؤنا بھی اس کی نظروں میں ساتا کا سراپا گھوم گیا۔ اسے عجب سی کراہیت کا احساس ہوا۔ایسی مثال درندو چرند میں کیا پر ند وحشرات الارض میں بھی نہیں مل سکتی کہ جسمانی ساخت میں باکل اپنی کی صنف کا سا غیر فطری طور پر اپنایا گیا فل محض کسی بیمار تجس کی تسکین کے لیے۔۔۔غیر متوازن نفسیات کے جنونی غلبے میں خود کو بے قابو ہو جانے دے کر اپنے غلط عمل کو صحیح ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں دوسروں کو ان عادات کا شریک بنانے کا صدیوں پر محیط مسلسل عمل اور معصومیت کا استحصال۔۔۔اور پھر ایسے ذہنی مرض کو فطری ظاہر کرنے کے لیے احتجاجات بھی اور ہم خیالوں سے ان رجحانات کے تحفظ کی سند بھی۔۔۔۔جب کہ فطرت نے انسان کو مکمل بنایا۔۔۔۔ہرزی روح کی طرح ایک جوڑے کی صورت ایک منطق کے تئیں۔۔۔ادھیڑ عمر عورت نے شیری کو سوچوں میں گم دیکھا تو قریب آگئی اور سر کے اشارے سے ساتھ چلنے کو کہا۔ شیری پلٹ پلٹ کر ساحل والے لڑکے کو دیکھنے لگی تو عورت نے اپنی زبان میں لڑکے سے کچھ کہا۔ چھوٹا ساوہ گھر بڑا پر سکون تھا جہاں شیری نے تازہ دم ہو کر نوجوان کے ساتھ پھلوں کا ناشتہ کیا تھا۔اور کوئی شربت پیا تھا۔ شیری ایسی پر سکون تھی جیسے اس کا جہاز ڈوباہی نہ۔ ایسی مطمئن تھی جیسے وہ گھر سے دور ہو کر گم ہی نہ ہوئی ہو۔ ایسے خوش تھی جیسے خوشی اس نے پہلی بار محسوس کی ہو اور ایسے خاموش تھی جیسے کچھ حاصل کرنے کو باقی نہ رہا ہو اور زندگی اس نوجوان کے ہمراہ رہ جانے کا نام ہو۔ اور وہ وہیں رہ گئی۔ اپنی تہذیب یافتہ دنیا سے کہیں زیادہ مہذب اور کچی دنیا میں جہاں تک مشینوں اور مشینی خیالات کی رسائی نے انسانوں اور فضا کو آلودہ نہیں کیا تھا۔ دنیا کا یہ اوتھل حصہ برباد ہونے سے بچ گیا تھا۔ شیری نے ان کی زبان سیکھ لی اور ان میں رچ بس کر اس ماحول کا حصہ ہوگئی۔ کئی مہینے بعد جب اس کے اندر اس کے ساحل والے ساتھی کا بچہ ننھے ننھے ہلکوروں سے اپنے ہونے کا احساس دلانے لگا تو وہ اپنے ساتھی کا ہاتھ تھامے سرشماری کے عالم میں اس مقام کی طرف نکل آئی جہاں زندگی سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک دلفریب شام تھی جب اس نے دیکھا کہ سمندر نے اس کا جہاز اگل دیا ہے۔ خوش ہونے کے بجائے اس پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ جہاز میں لگے آلات کی مدد سے اسے ڈھونڈ نکالا جاسکتا تھا اور وہ شدت غم سے خود کلامی ہی کرنے لگی تو اس کے ساتھی نے اس کا سر اپنی چھاتی سے لگالیا۔ اب اب اس کی مسرتیں اس سے چھین لی جاسکتی ہیں۔ شیری نے جھر جھری سی لی۔ اور۔۔۔اور اس مقام کی معصومیت نوچ لی جاسکتی ہے۔ شیری کا چہرہ پیلا سا پڑ گیا۔ اس کی دنیا تہ و بالا ہو سکتی ہے۔۔۔اور وہ اگر اپنے ساتھی کو اپنے ساتھ لے جائے تو کون جانے اس کے ساتھ کیا۔سلوک۔۔۔اس کے ساتھی کو زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔۔۔شیری ایک شیخ مار کر بے خودی ہوگئی۔ اس کے ساتھی نے اس کے سرکو اپنی گود میں لے لیا اور اس کا ماتھا سہلا تارہا۔ شیری نے آنکھیں کھولیں اور جہاز کی طرف گردن موڑی۔ پھر کچھ لچوں بعد اٹھ کر جہاز کے قریب چلی گئی۔ جہاز میں بہت زیادہ خرابی پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ جہاز کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ وہ سگنل ریسیو کر رہا تھا۔ بس چند ایک بٹن دبانے کی دیر تھی جس کے بعد اس کا اپنی دنیا سے رابطہ ہوسکتا تھا، اور شیری یہ بھی جانتی تھی کہ سگنلز ہمیشہ کے لیے کیسے بند ہو سکتے ہیں۔اس نے نظر گھما کر نو جوان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے سے لہرارہے تھے۔ تکنیکی دنیا کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا اور اس بات کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا تھا کہ اس کے بچے کی ماں اس کے پاس ہے اور وہ دور بھی ہوسکتی ہے۔ اس نے شیری کے شانوں کو ہاتھوں سے تھام لیا۔ اس کی بانہوں میں شیری کے مستقبل کا تحفظ تھا۔ اس کی گہری گہری آنکھوں میں وعدے تھے۔ اس کے چہرے پر دکھ اور سکھ بانٹنے کا عزم تھا۔ پریشان سی پیشانی پر ابھری لکیروں کے اوپر اس کے لہرار ہے بال اسے مزید حسن بخش رہے تھے ۔ لانبی لانبی انگلیوں والے اس کے ہاتھ اسی لیے بنے تھے کہ شیری کے کندھوں کو تھام سکیں۔ اس کے بازوؤں کی مچھلیاں اسی لیے ابھری ہوئی تھیں کہ شیری کی کمر کو سہارا دے سکیں۔شیری کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے نوجوان کے کھردرے رخسار کو اپنی نرم انگلیوں سے چھوا اور ایک گہرا سانس لیا۔یہ راحتیں اس سے چھن سکتی ہیں ۔ اور وہ کبھی کسی کو ان راحتوں کے بارے میں سمجھا نہیں سکے گی اور۔۔۔ اور ایسی راحتوں سے اس جیسی سوچ رکھنے والی لڑکیاں محروم رہیں گی۔۔۔ ہمیشہ۔۔ہمیشہ۔۔شیری نے پلٹ کر شکستہ جہاز کو دیکھا۔

اگر وہ کسی طرح ماما کو اپنا ہم خیال بنالے تو ایک نئی دنیا کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔۔۔ آنے والی نسلیں مکمل پیدا ہوسکتی ہیں۔ اور آنے والی نسلوں کی تکمیل کی خاطر ہے اسے دو جہاں کی فکروں میں غلطیاں اس وجیہ پیشانی سے بچھڑنے کا خطرہ مول لینا ہوگا۔شیری نے جہاز سے نظریں ہٹا کر مرد کے چہرے کی طرف دیکھا۔ پھر اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر آہستگی سے اپنے پیٹ کے اطراف رکھ دیئے ۔ اور پھر اس کے سینے پر اپنا سر رکھ کر اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ جانے کتنی دیر وہ روتی رہی کہ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس نے ماما کی آواز سنی ہو۔ اچھا ہوا اب مجھے گرینی بننے کے لیے کسی ٹام، ڈک اینڈ ہیری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تم اکیلے مجھے نانی بنا سکتی ہو ۔ یوکین بی کم اے مام آن یوئراون، بے بی۔۔۔اس کے کانوں نے سنا تو وہ گھبرا گئی۔ اس کے پیٹ میں فطرت کے اصولوں سے الگ کوئی بچہ نہیں ہوگا۔ کبھی نہیں اس نے چلا کر کہنا چاہا تو دیکھا کہ اس کی ماما تازہ اخبار کے سائنس والے صفحے کے اس کالم کو بغور پڑھ رہی ہیں جسے شیری نے کچھ دیر پہلے پڑھا تھا، اور اخبار، ماہ جون سن پچیس سوسات کا نہیں ماہ جون سن دو ہزار سات کا تھا۔ اس نے اپنے صندلیں سے پیٹ پر انگلیاں گھمائیں۔ اس میں کوئی بچہ تھا نہ اس کی کمر کے گرد کسی حسین نوجوان کی بانہیں۔ اس انکشاف سے اس کے ہونٹوں پر پر سکون ہنسی ابھری اور غائب ہوگئی۔ اس نے پلٹ کر کھڑکی کی چوکھٹ کے قریب لگی تصویر کی جانب نظر ڈالی۔آئی لویو پاپا۔ وہ تصویر کے قریب چلی گئی اور کچھ اونچی آواز میں بولی۔آئی ہیٹ ہم۔۔۔او کے نفرت ہے مجھے اس سے۔۔۔مامانے بھی ذرا اونچی آواز میں کہا۔وائی ماما؟نن آف یوئر بزنس۔۔۔۔؟نومام۔۔۔اٹ از مائی بزنس۔۔۔تم کیا جانو صدیوں سے عورت نے کتنا سہا ہے۔ہو سکتا ہے اس سے پہلے مردوں نے سہا ہو۔۔۔یا اس کے بعد سہنے والے ہوں خواہ مخواہ فضول کی بحث مت کرو تم جانتی ہی نہیں ہماری حیثیت کیا تھی۔ ترقی اور تہذیب پرفخر کرنے کے باوجود ہمیں کس کس طرح محروم رکھا گیا۔۔۔شروعات میں ووٹ تک کا حق لینے میں ہمیں صدی بھر کا وقت لگا تھا۔ سب سے پہلے اٹھنے والی آوازوں کو یورپ اور امریکہ جیسی جگہ میں دہائیوں چرچ سے ریکویسٹ کرنا پڑی تھی۔ پھر ساری دنیا میں پھیلا ہماراموومنٹ۔۔۔۔یا ساتھ ساتھ اپنے انداز میں دنیا بھر میں چلتا رہا چل رہا ہے یا چل رہا ہوگا۔اوکے بٹ پاپا۔۔۔۔یوئیر پاپا۔۔۔مائی فٹ۔۔۔۔وہ بھی ویسا ہی نکل تمھارا باپ۔۔۔انسیکیور۔۔۔اے ٹیپکل میل شاوینسٹ۔اوکے اب ماما آپ لوگوں نے اپنے حقوق حاصل کر لیے نا۔۔۔آپ اپنی ہر مانگ قانونا پوری کراسکتی ہیں۔ ۔۔اب میں۔۔۔شیری نے لمحے بھر کے لیے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ پھر اٹھ کر کھڑکی کے قریب چلی گئی۔ تو پھر مجھے بھی ماما۔۔۔ایک موومنٹ شروع کرنا پڑے گی ۔۔۔ اینٹی فیمنسٹ موومنٹ آئی لو بوتھ آف یو۔۔۔اس نے چوکھٹ کے قریب لگی تصویر کے کانچ پر اپنی نرم نرم انگلیوں سے پاپا اور ماما کے چہروں کو چھوا اور پلیٹ کر ماں کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔

مصنف:ترنم ریاض

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here