کہانی کی کہانی:’’اس افسانے میں کھچوے اور مرغابی کی کہانی کو بنیاد بنا کر موقع بے موقع بولنے والوں کے انجام کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ودیا ساگر بھکشووں کو جاتک کتھائیں سنا کر نصیحت کرتا ہے کہ جو بھکشو موقع بے موقع بولے گا، وہ گر پڑے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔ جس طرح کھچوا مرغابی کی چونچ سے نیچے گر گیا تھا اسی طرح کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔‘‘
ودّیا ساگر چپ ہو گیا تھا۔ اس نے بھکشوؤں کو اونچی آوازوں سے بولتے سنا، لڑتے دیکھا اور چپ ہوگیا، سنتا رہا، اور چپ رہا، پھر ان کے بیچ سے اٹھا اور نگر سے باہر نگر باسیوں سے ایک شال کے پیڑ کے نیچے سمادھی لگا کر بیٹھ گیا، اور کنول کے ایک پھول پر نظریں جمائیں جو پھولا، مسکایا اور مرجھا گیا، ایک پھول کے بعد دوسرا پھول، دوسرے کے بعد تیسرا پھول۔ جس پھول پر وہ درشٹی جماتا وہ پھولتا، مسکاتا اور مرجھاتا۔ یہ دیکھ اس نے شوک کیا اور آنکھیں موند لیں، نسدن آنکھیں موندے بیٹھا رہا، دنوں بعد بیتے دنوں کے سنگھی سندر سمدر اور گوپال اس کے پاس آئے بولے، ’’ہے وودّیا ساگر ہم دکھ میں ہیں۔‘‘
ودّیا ساگر پر شانت مورتی بنا بیٹھا رہا، زبان سے کچھ نہیں بولا، گوپال ڈھئی آواز میں بولا، ’’کیسا اندھیر ہے کہ جنھیں نہیں بولنا چاہئے وہ بہت بول رہے ہیں، جسے بولنا چاہئے وہ چپ ہوگیا۔‘‘ اور سندر سمدر بولا، ’’سووبھدرا نے کہا اور انھوں نے کیا، سوبھدرا نے کہا تھا کہ تتھاگت اب ہمارے بیچ میں نہیں ہے، وہ سدا ٹوکتا رہتا تھا کہ یہ کرو اور یہ مت کرو۔ اب جو ہمارے جی میں آئے گی وہ ہم کریں گے، ہے ودّیا ساگر، اب سب بھکشو وہی کرتے ہیں جو ان کے جی میں آتی ہے اور ان کا جی ترِشنا کے چنگل میں ہے، گھاس کا بستر انھوں نے چھوڑ دیا، اب وہ کھاٹ پہ سوتے ہیں اور جاجم پہ بیٹھتے ہیں، ہے گُنی، ہے گیانی تو کیوں نہیں بولتا۔‘‘
ودّیا ساگر نے آخر کو آنکھیں کھولیں، سندر سمدر اور گوپال کو غور سے دیکھا، پوچھا، ’’بندھوؤ، تم نے طوطے کی جاتک سنی ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’تو پھر سنو، ودّیا ساگر سنانے لگا، ’’بیتے سمے کی بات ہے کہ بنارس میں برہم دت کا راج تھا اور ہمارے بدھ دیوجی نے طوطےکے روپ میں جنم لیا تھا، ان کا ایک چھوٹا بھائی تھا، دونوں چھوٹے سے تھے کہ ایک چڑی مار نے انہیں پکڑا اور بنارس کے ایک برہمن کے ہاتھ بیچ دیا، برہمن نے دونوں طوطوں کو ایسے پالا جیسے اولاد کو پالتے ہیں، ایک بار برہمن کو پردیس جانا پڑا، جاتے ہوئے طوطوں سے کہہ گیا کہ مٹھوؤ تنِک اپنی ماتا کا دھیان رکھنا۔ برہمن کے جانے کے بعد وہ ناری کھل کھیلی، چھوٹے طوطے نے اسے ٹوکنے کے لئے پر تولے، بڑے نے کہا کہ بندھو تو بیچ میں مت بول، پر چھوٹا نہ مانا اور ناری کو ٹوک بیٹھا، اس چاتر ناری نے بھولی بن کر کہا کہ اچھا اب میں کوئی پاپ نہیں کروں گی تونے ٹوک دیا اچھا کیا، باہر آ، تجھے پیار کروں، وہ بھولا باہر آگیا، ناری نے جھٹ اس کی گردن مروڑ دی۔
جب دنوں بعد برہمن واپس آیا تو اس نے بڑے سے پوچھا کہ میاں مٹھو تمھاری ماتا نے میرے پیچھے کیا کیا، طوطا بولا کہ مہاراج جہاں کھوٹ ہو وہاں بدھیمان چپ رہتے ہیں کہ ایسی اوستھا میں بولنے میں جان کا کھٹکا ہے۔ طوطے نے یہ کہہ کر جی میں سوچا کہ جہاں بول نہیں سکتے، وہاں جینا اجیرن ہے، وہاں چلو جہاں بول سکو، پر پھڑ پھڑائے، برہمن سے کہا کہ مہاراج ڈنڈوت، ہم چلے۔ برہمن نے پوچھا کہ میاں مٹھو کہاں چلے، بولا کہ وہاں جہاں بول سکیں، یہ کہہ کر بدھیستو جی بنارس کی بھری بستی کو چھوڑ جنگل کی اور اڑ گئے۔‘‘
یہ جاتک سنا کر ودّیا ساگر شال کے پیڑ کے نیچے سے آگے چل پڑا، چلتا رہا، چلتا رہا کالے کوسوں جاکر ایک نرجن بن میں باس کیا، سندر سمدر اور گوپال بھی ہرج مرج کھینچتے پیچھے وہاں پہنچے۔ ودّیا ساگر تین رات بیراسن مارسے آنکھیں موندے بے کھائے پئے بیٹھا رہا، چوتھے دن سندر سمدر اور گوپال اپنے اپنے بھکشا پاتر لے کر اس بن سے نکلے اور شام پڑے بھرے بھکشا پاتروں کے ساتھ واپس آئے، ودیا ساگر کے پاس بیٹھ کر بولے کہ’’ہے ودّیا ساگر کیا تتھاگت نے نہیں کہا تھا کہ پیٹ بھرنے کے لئے کھاؤ اور پیاس بجھانے کے لئے پیو۔‘‘ یہ سن کر ودّیا ساگر نے آنکھیں کھولیں، جو سامنے رکھا تھا اسے کھایا ایسے جیسے اس میں کوئی سواد نہ ہو اور ندی کا نرمل جل پیا جیسے وہ گرم پانی ہو، پھر کہا کہ مٹی کو مٹی میں ارپن کیا۔
سندر سمدر نے یہ موقع اچھا جانا اور کہنے لگا کہ’’ہے ودّیا ساگر، بھکشو ست پتھ سے پھر گئے ہیں، تتھاگت کے بنائے ہوئے نیموں کا پالن نہیں کرتے، پیڑ کی چھاؤں چھوڑی، چھتوں تلے اونچی کھاٹوں پہ آرام کرتے ہیں، ایک سنگھ کے اندر کتنے سنگھ بن گئے اور کتنی منڈلیاں پیدا ہوگئیں، ہر منڈلی دوسری منڈلی کی جان کی بیری ہے، تو پلٹ چل اور انھیں سِکشا دے کہ تو ہمارے بیچ گنی اور گیانی ہے۔‘‘
ودّیا ساگر بولا کہ ’’ہے سندر سمدر تونے مینا کی جاتک سنی ہے؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’تو سن، اگلے جنم کی بات ہےکہ بنارس میں راجہ برہم دت براجتا تھا اور ہمارے بودھ جی مینا کے جنم جنگل میں باس کرتے تھے، ایک پیڑ کی گھنی ٹہنی میں ایک سندر گھونسلہ بنایا اور اس میں رہنے سہنے لگے، ایک بار بہت ورشا ہوئی، ایک بندر بھیگتا ہوا کہیں سے آیا اور اسی پیڑ پر مینا کے گھونسلہ کے برابر بیٹھ گیا پر یہاں بھی وہ بوندوں سے بھیگ رہا تھا۔ مینا بولی کہ’’ہے منّو، ویسے تو تو آدمی کی بہت نقالی کرتا ہے مگر گھر بنانے میں اس کی نقالی نہیں کرتا، آج تیرا گھر ہوتا تو ورشا سے یہ تیری دردشا کیوں ہوتی۔ بندر بولا کہ میناری مینا، میں نقل کرتا ہوں پر عقل نہیں رکھتا۔ مگر پھر بندر نے یہ کہنے کے بعد سوچا کہ مینا اپنے گھر میں بیٹھی باتیں بنا رہی ہے۔ اس کا گھر نہ ہو، اور میری طرح بھیگے پھر دیکھوں کیسے باتیں بناتی ہے۔ یہ سوچ کے اس نے مینا کے گھونسلے کو کھسوٹ ڈالا، بدھیستو جی اس موسلا دھار مینھ میں گھر سے بے گھر ہوگئے، انھوں نے ایک گاتھا پڑھی جس کاتت یہ ہے کہ ہرایرا غیرا کو نصیحت کرنا مفت میں مصیبت مول لینا ہے، یہ گاتھا پڑھتے وہ اس جنگل سے بھیگتے ہوئے دوسرے جنگل کی اور اڑگئے۔‘‘
ودّیا ساگر نے یہ جاتک سن کر ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا کہ بدھ دیو جی نے بندروں کے ساتھ کیا کیا اور بندروں نے بدھ دیوجی کے ساتھ کیا کیا، پھر یہ جاتک سنائی۔ ’’بنارس کے راج سنگھاسن پر برہم دت براجتا تھا اور بدھ دیوجی نے بندر کا جنم لے کے جنگل بسایا ہوا تھا، بڑے ہوکے وہ ایک موٹے تازے بندر ہوئے اور راجہ کے آموں کے باغ میں بسنے والے بندروں کے راجہ بنے، ایک بار آموں کی رت میں راجہ باغ میں آیا اور بندروں کو دیکھ کر بہت کلسا کہ وہ آموں کا ناش کر رہے ہیں، اپنے پارتھیوں سے کہا کہ باغ کے گرد گھیرا ڈالو اور ایسے تیر چلاؤ کہ کوئی بندر بچ کے نہ جائے۔
بندروں نے یہ بات سن لی، بدھیستو کے پاس گئے اور پوچھا کہ ہے بندر راجہ، بتا اب ہم کیا کریں، بدھیستو جی نے کہا کہ چنتا مت کرو، ابھی اپائے کرتا ہوں، یہ کہہ کے وہ ایک ایسے پیڑ پہ چڑھے جس کی ٹہنیاں گنگا کے پاٹ پہ دور تک پھیلی ہوئی تھیں، پاٹ پہ پھیلی ہوئی آخری ٹہنی سے دوسرے کنارے چھلانگ لگا کے فاصلہ ناپا اور اس ناپ کا ایک بانس توڑ دریا پار کی ایک جھاڑی سے باندھ پاٹ کے اوپر سے آم کی ٹہنی تک لانے کا جتن کیا، پرناپ میں تھوڑی سی چوک ہوگئی، بانس اور ٹہنی کے بیچ ان کے دھڑ برابر فاصلہ رہ گیا۔ بدھیستو جی نے کیا کیا کہ بانس کے کونے کے ساتھ اپنی ایک ٹانگ باندھی اور اگلے ہاتھوں سے آم کی ٹہنی پکڑی۔ بندروں سے کہا کہ ’’لو میں پل بن گیا ہوں، تم میرے اوپر سے ہوکے بانس پہ جاؤ، بانس پہ سے گنگا پار کود جاؤ۔‘‘
باغ میں گھرے ہوئے اسّی ہزار بندر بدھیستو جی کی پیٹھ سے سہج سہج گزرے یہ سوچ کے کہ انھیں دکھ نہ پہنچے، پر بندروں میں دیودت بھی تھا، اس نے بھی اس سمے بندر کا جنم لیا تھا، اس نے سوچا کہ کیوں نے اسی جنم میں بدھ کا کام تمام کر دیا جائے۔ وہ اس زور سے بدھیستو جی کی پیٹھ پہ کودا کہ وہ ادھ موئے ہوگئے۔
راجہ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، اس نے جلدی سے بدھیستو جی کو اوپر سے نیچے اتارا، گنگا میں اشنان کراکے زرد بانا اڑھایا، سوگندھ لگائی اور دوا دارو پلائی، پھر ان کے چرنوں میں بیٹھا اور کہا کہ ہے بندر راجہ، تو اپنی پرجا کے لئے پل بنا، پر تیری پرجا نے تیرے ساتھ کیا کیا، بدھیستو جی بولے کہ ہے راجہ اس میں تیرے لئے ایک سکشا ہے، راجہ کو چاہئے کہ پرجا کو دکھی نہ ہونے دے چاہے اس کے کارن اسے جان ہارنی پڑے، یہ کہہ کے بدھیستو جی نے آخری ہچکی لی اور بندر کے جنم سے دوسرے جنم میں چلے گئے۔‘‘
اس جاتک نے ودّیا ساگر سندر سمدر اور گوپال تینوں کو دکھی کر دیا، انھوں نے شوک کیا کہ تتھاگت نے جگ کو کونستارنے کے کارن کتنے جنم لئے اور کیسے کیسے دکھ بھوگے، پر ہر جنم میں دیودت ایسے دشٹ پیدا ہوتے رہے اور تتھاگت کے لئے کٹھنائیاں پیدا کرتے رہے، سندر سمدر نے پوچھا، ’’ہے ودّیا ساگر، کیا دیودت بدھ دیوجی کا بھائی نہیں تھا؟‘‘
’’بھائی ہی تھا۔‘‘ یہ کہہ کر ودّیا ساگر پہلے ہنسا پھر رویا۔
’’ہے گیانی تو ہنسا کیوں اور رویا کیوں؟‘‘ گوپال نے پوچھا۔
’’جب بکری ہنس اور رو سکتی ہے تو میں کہ منش جاتی سے ہوں کیوں ہنس اور رو نہیں سکتا۔‘‘
سندر سمدر کو کرید ہوئی، ’’بکری کیوں ہنسی اور کیوں روئی؟‘‘
ودّیا ساگر نے جواب میں ایک جاتک سنائی، ہے سنتو، بیتے سمے کی بات ہے کہ بنارس میں برہم دت کا راج تھا، ایک برہمن نے کہ ویدوں کی ودّیا میں رچا بسا تھا، مردوں کو بھوجن دینے کے دھیان سے ایک بکری خریدی، بکری کو اشنان کرایا، گلے میں گجرا ڈالا، بکری اپنے بھینٹ کی یہ تیاریاں دیکھ کے پہلے ہنسی پھر روئی، برہمن نے پوچھا کہ ہے بکری تو ہنسی کیوں اور روئی کیوں۔ بکری بولی کہ ’’ہے برہمن، اگلے جنم میں میں بھی برہمن تھی اور میں بھی ویدوں کی ودّیا میں پیری ہوئی تھی اور میں نے بھی ایک بار مردوں کو بھوجن دینے کے لئے ایک بکری لی تھی اور اس کا گلا کاٹا تھا۔ پر ایک بار بکری کا گلا کاٹنے کے بدلے میں میرا گلا پانچ سوبار کاٹا گیا، آج پانچ سو ایکسویں بار میرے گلے پر چھری پھرے گی، میں یہ دھیان کر کے ہنسی کہ آج آخری بار میرا گلا کٹ رہا ہے، اس کے بعد اس دکھ سے میرا نستارا ہوجائے گا۔ اور میں یہ دھیان کر کے روئی کہ میرا گلا کاٹنے کے بدلے میں اب تجھے پانچ سو بار گلا کٹانا پرے گا۔‘‘
برہمن بولا کہ ’’ہے بکری تو ڈر مت میں تیرا گلا نہیں کاٹوں گا۔‘‘
بکری زور سے ہنسی اور بولی کہ ’’مجھ بکری کا گلا تو کٹنا ہی ہے، تیرے ہاتھوں نہیں کٹے گا تو کسی اور کے ہاتھوں کٹے گا۔‘‘ برہمن نے بکری کی سنی اَن سنی کی، اسے آزاد کیا اور چیلوں سے کہا کہ دیکھو اس کی رکھشا کرو، چیلوں نے اس کی بہت رکھشا کی، پر ہونی ہو کر رہی، اس بکری نے چرتے چرتے ایک ٹہنی پر منھ مارا، وہ پیڑ اس پر گرا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگئی۔
ہے سنتو اب سنو کہ اسی پیڑ کے برابر ایک سندر پیڑ کھڑا تھا، یہ بدھیستو جی تھے جنھوں نے ترور کے روپ میں جنم لیا تھا، انھوں نے ترت ترور کا جنم چھوڑا اور ہوا کے بیچ آسن جما کے بیٹھے، جنتا نے یہ دیکھ اچنبھا کیا اور اکھٹی ہونے لگی، بدھیستو جی نے اس گھڑی ایک منگل گاتھا پاٹھ کی جس کا ارتھ یہ ہے کہ ’’پر شو ہنسا کا انت دیکھو جو دوسرے کا گلا کاٹے گا ایک دن اس کا بھی گلا کاٹا جائے گا۔‘‘
سندر سمدر اور گوپال نے یہ جاتک دھیان سے سنی اور شردھا سے سر جھکا لیا مگر پھر سندر سمدر بولا کہ ’’ہے گیانی میرا سوال جوں کا توں ہے، کیا دیودت بدھ دیو جی کا بھائی نہیں تھا؟‘‘
ودّیا ساگر بولا، ’’ہے سندر سمدر یہ پرشن مت کر، نہیں تو میں پہلے ہنسوں گا اور پھر روؤں گا۔‘‘
’’ہے گیانی تو کیوں ہنسے گا اور کیوں روئے گا؟‘‘
’’میں یہ بتا کے ہنسوں گا کہ دیودت ہمارے بدھ دیوجی کا بھائی تھا اور یہ دھیان کر کے روؤں گا کہ وہ بھکشو بھی تھا۔‘‘
’’سندر سمدر یہ سن کر رویا اور بولا کہ ’’ہے پربھو بھکشوؤں کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘
ودّیا ساگر نے سندر سمدر کو گھور کر دیکھا، ’’ہے سندر سمدر یہ مت پوچھ۔‘‘
’’کیوں نہ پوچھوں؟‘‘
’’مت پوچھ کہ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ برائی کا کھوج کرتے کرتے انت میں ہمیں اپنا ہی آپا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
’’یہ کیسے؟‘‘
’’یہ ایسے کہ بنارس کے راجہ برہم دت کی رانی کسی دوسرے مرد سے مل گئی۔ راجہ نے اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے کہا کہ میں کسی پرائے سے ملی ہوں تو میں مرنے کے بعد چڑیل بن جاؤں اور میرا منھ گھوڑی کا ہو جائے اور ایسا ہوا کہ رانی مرکے سچ مچ چڑیل بن گئی اور اس کا منھ گھوڑی کا سا ہوگیا، وہ ایک بن میں جاکے ایک کھوہ میں رہنے لگی۔ آتے جاتے کو پکڑتی اور کھا لیتی، ایک دن ایک برہمن تکشیلا سے ودّیا پراپت کر کے آرہا تھا، چڑیل اسے کمر پہ لاد کے اپنی کھوہ میں لے گئی، پر برہمن جوان تھا جب انگ سے انگ ملا تو چڑیل گرما گئی، کھوہ میں لے جا کے اس سے کھیلنے لگی۔ برہمن ودھوان تھا پر جوان بھی تو تھا، ودّیا اپنی جگہ، جوانی اپنی جگہ، وہ بھی گرما گیا، چوما چاٹی کی اور بھوگ کیا، اس بھوگ سے چڑیل کو گربھ رہا، نو مہینے بعد اس نے پتر جنا، یہ پتر واستو میں ہمارے بدھ دیو مہاراج تھے جنھوں نے اب کی بار چڑیل کے پتر کے روپ میں جنم لیا تھا۔
بدھیستو جی نے بڑے ہوکے باپ کو چڑیل کے چنگل سے نکالنے اورمنش جاتی کے بیچ جانے کی ٹھانی، چڑیل نے کہا میرے لال تونے منش جاتی کے بیچ جانے کی بات ٹھان ہی لی ہے تو اپنی میّا کی بات سن لے کہ چڑیلوں کے بیچ گزارہ کرنا آسان ہے آدمی کے ساتھ گزارہ کرنا کٹھن کام ہے۔ میں تجھے ایک ٹوٹکا بتاتی ہوں جو اس دنیا میں تیرے کام آئے گا، اس ٹوٹکے کے بل پہ تو آدمی کے پاؤں کے نشان بارہ کھونٹ تک دیکھ سکتا ہے۔
اپنی میّا سے یہ ٹوٹکا لے کے پوت پتا کے سنگ بنارس پہنچا اور اپنا گن بتاکے راجہ کے دربار میں چاکری کرلی، درباریوں نے یہ دیکھ کےکھسر پھسر کی اور راجہ سے کہا کہ مہاراج پرکھنا تو چاہئے کہ اس آدمی کے پاس یہ گن ہے بھی یا نہیں، راجہ نے اس کی پرکھشا کے لئے کیا کیا کہ خزانے کا مال چوری کیا اور دور جا کے ایک تلیّا میں ڈبو دیا، دوسرے دن شور مچا کہ خزانے میں چوری ہوگئی، بدھیستو جی سے کہا کہ چوری ہوگئی۔ بدھیستو جی سے کہا کہ چور کا پتا لگاؤ بدھیستو جی نے جھٹ پٹ پاؤں کے نشان دیکھے اور تلیّا سے مال برآمد کر دیا۔
راجہ نے کہا کہ تونے چور کا پتا نہ بتایا، بدھیستو جی نے کہا کہ مہاراج مال مل گیا چور کا پتہ پوچھ کے کیا کروگے، راجہ نہ مانا، کہا کہ چور کا پتا بتا، بدھیستوجی نے کہا کہ ہے راجہ میں ایک کہانی سناتا ہوں، تو بُدھیمان ہے، جان لے گا کہ اس کا ارتھ کیا ہے، ایک نرتکار گنگا میں اشنان کرتے ہوئے ڈوبنے لگا، اس کی بھاردواج نے یہ دیکھا تو چلائی کہ سوامی تم تو ڈوب رہے ہو۔ مجھے بانسری بجا کے کوئی دھن سکھا دوکہ میرے پاس کچھ گن آجائے اور تمھارے بعد میں پیٹ پال سکوں۔ نرتکار ڈبکیاں کھاتے ہوئے بولا کہ اری بھاگوں بھری میں بانسری کیا بجاؤں اور کیا دھن سناؤں۔ پانی جو جیو جنتو کو طراوت دیتا ہے اور مری مٹی میں جان ڈالتا ہے مجھے مار رہا ہے، پھر اس نے ایک گاتھا پڑھی کہ جس کا ارتھ یہ ہے کہ جو میرا پالن ہار تھا وہی میرا جان لیوا بن گیا۔
بدھیستو جی نے یہ سنا کے کہا کہ مہاراج، راجہ بھی پرجا کے لئے پانی سمان ہے، اگر پالن ہار ہی جان لیوا بن جائے تو پرجا کہاں جائے۔ راجہ نے کہانی سنی پر اسے چین نہ آیا، بولا کہ متر کہانی اچھی تھی پر میں تجھ سے چور کی پوچھتا ہوں وہ بتا۔
بدھیستو جی نے کہا کہ مہاراج جو میں کہتا ہوں وہ کان لگا کے سنو اور پھر انھوں نے یہ کہانی سنائی، بنارس میں ایک کمھار رہتا تھا، روز نگر سے نکل کے جنگل جاتا اور اپنے برتن بھانڈوں کے لئے مٹی کھود کے لاتا، ایک ہی استھان سے مٹی کھودتے کھودتے ایک گڈھا بن گیا تھا، ایک دن اس گڈھے میں اتر کے مٹی کھود رہا تھا کہ آندھی چل پڑی اور اوپر سے ایک تو دہ اس پر گر پڑا۔ بیچارے کا سر پھٹ گیا، وہ چلاّیا اور یہ گاتھا پڑھی کہ جس دھرتی سے کونپل پھوٹتی ہے اور جیو کو چگا ملتا ہے اسی دھرتی نے مجھے کچل ڈالا، جو میرا پالن ہار تھا وہی میرا جان لیوا بن گیا، اور پھر بدھیستو جی نے کہا کہ مہاراج راجہ پرجا کے لئے دھرتی سمان ہے، وہ پرجا کو پالتا ہے، پر راجہ پرجا کو موسنے لگے تو پر جا کہاں جائے۔
راجہ نےکہانی سنی اور کہا کہ کہانی میری بات کا جواب نہیں۔ تو چور پکڑاور میرے سامنے لا، بدھیستو جی نے کہا، مہاراج اسی بنارس کے نگر میں ایک جنا تھا، ایک بار وہ بہت بھات کھا گیا، اس کی ایسی دردشا ہوئی کہ جان کے لالے پڑ گئے، وہ چلاتا تھا اور کہتا تھا کہ جس بھات سے ان گنت برہمنوں کو سکت ملتی ہے اسی بھات نے میری سکت چھین لی، اور ہے مہاراج راجہ بھی پرجا کے لئے بھات سمان ہے، وہ اس کی بھوک دور کرتا ہے اور سکت دیتا ہے، پر اگر راجہ ہی پرجا کا بھات چھین لے تو پرجا کہاں جائے؟
راجہ نے یہ کہانی بھی ایک کان سے سنی اور دوسرے کان اڑائی، کہا کہ متر مجھے کہانیوں پر مت ٹرخا، چور کا پتا بتا، بدھیستوجی بولے مہاراج ہمالہ پہاڑ پہ ایک پیڑ تھا، اس میں بہت سی ٹہنیاں تھیں، ان ٹہنیوں میں بہت سی چڑیاں بسیرا کرتی تھیں، ایک بار دو موٹی ٹہنیوں نے ایک دوسرے سے رگڑ کھائی اور ان سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ یہ دیکھ کر ایک چڑیا چلائی کہ پنچھیو، یاں سے اڑ چلو کہ جس ترور نے ہمیں شرن دی تھی، وہی اب ہمیں جلانے پر تلا ہے، جو ہمارا پالن ہار تھا وہ ہمارا جان لیوا بن گیا ہے، اور ہے مہاراج جس پر کار پیڑ چڑیوں کو شرن دیتا ہے اسی پر کار راجہ پرجاکو شرن دیتا ہے، پر اگر شرن دینےوالا ہی چور بن جائے تو چڑیاں کہاں جائیں۔
وہ مورکھ راجہ اس پہ بھی کچھ نہ سمجھا، وہی مرغے کی ایک ٹانگ کہ چور کا نام بتا۔ بدھیستو جی نے ہار کے کہا کہ اچھا سب پرجا کو اکٹھا کرو، پھر میں چور کا نام بتاؤں گا، راجہ نے ڈونڈی پٹوا کے ساری پرجا کو اکٹھا کر لیا، تب بدھیستو جی نے اونچی آواز سے کہاکہ ہے بنارس نگر کے باسیوں، کان لگا کے سنو اور دھیان دو، جس دھرتی میں تم نے اپنا دھن دابا تھا اسی دھرتی نے تمھارا دھن موس لیا۔ لوگ یہ سن کےچونکے، انھوں نے تاڑ لیا کہ بدھیستو جی نے کیا کہا، وہ راجہ پر پل پڑے، پھر اسے ہٹا کے بدھیستو جی کو راج سنگھاسن پر بٹھایا اور ان کی جے بولی۔
یہ سنتے سنتے سندر سمدراور گوپال دونوں نے اتساہ سے تتھاگت کی جے بولی، ودّیا ساگر نے دونوں کو دیکھا یہ جاننے کے لئے کہ ان میں پوچھنے کی چٹک ابھی تک ہے یا جاتی رہی، پھر کہا کہ ’’بھکشوؤ بتانے والا ہمیں تمھیں سب کچھ بتا کے پرلوک سدھارا ہے، سو اب کسی سے مت پوچھو اور اب اپنا دیا آپ بنو کہ امی تابھ نے سدھارتے سمے آنند سے یہی کہا تھا۔ سندر سمدر اور گوپال دونوں تتھاگت کے سدھارنے کا دھیان کر کے دکھی ہوئے اور بولے کہ جس دیے نے جگ میں جوت جگائی تھی اور ہمیں ڈگر دکھائی تھی، وہ دیا بجھ گیا، اب سرشٹی میں اندھکار ہے، ہم اپنے دیوں کے دھندلے اجالوں میں بھٹکتے ہیں، اندھیری چل رہی ہے اور اندھکار بڑھتا جا رہا ہے اور ہمارے ٹمٹماتے دیوں کی لو مندی ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ودّیا ساگر نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ ’’سنتو تم امی تابھ کے لئے کیسی بات دھیان میں لاتے ہو، وہ تو امر جوتی ہیں وہ کیسے بجھ سکتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر سندرسمدر اور گوپال دونوں اپنی چوک پر پچھتائے۔ ایک شردھا کے ساتھ امی تابھ کو دھیان میں لائے اور دھرتی سے انبر تک انھوں نے ایک اجالا پھیلا دیکھا، ان کی دیہی کانپنے لگی اور آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے، ودّیا ساگر کے سنگ مل کر انھوں نے پرارتھنا کی کہ ہم بھکشو تتھاگت امی تابھ کی پرارتھنا کرتے ہیں جو دیوستھان میں باس کرتے ہیں، جہاں ہر سمے ان پر سوگندھت پھول برستے ہیں، ہے آتما روپی، ہے ہمارے شاکیہ منی، ہے ودّیا ساگر، ہے امی تابھ، ہم تم کو سماّن کے ساتھ بلاتے ہیں، تم ہمارے استھان میں آکے باس کرو اور ہمارے اندر جوت جگاؤ۔‘‘
پھر وہ چپ ہوگئے پر آنسوؤں کی گنگا دیر تک بہتی رہی، پھر انھوں نے ان دنوں کو یاد کیا جب امی تابھ ان کے بیچ موجود تھے اور نگر نگر ڈگر ڈگر، کیا بستی کیا جنگل سب جگہ اجالا پھیلا تھا، ودّیا ساگر بولا، ’’ان دنوں ہم امی تابھ کے سنگ رات رات بھر چلتے تھے، اندھیری راتوں میں گھنے بنوں سے گزرتے تھے پر کبھی مجھے یہ نہیں لگا کہ اندھیرے میں چل رہا ہوں، ڈگر ایسے دکھائی دیتی تھی جیسے پورنیماشی کا چاند نکلا ہوا ہو، پیڑ پودے پھول پتّے، جانور کہ پوری دھرتی اور سارا انبر اجیارا ہے اور امی تابھ کی جے دھنی کرتا ہے۔
گوپال سنتے سنتے ان دنوں کو دھیان میں لایا، کہنے لگا ’’سنتو ان دنوں ہم کتنا چلتے تھے، نسدن چلتے ہی رہتے تھے، کبھی گھنے جنگلوں میں، کبھی میدانوں میں اور کبھی بھکشا پاتر لئے نگر نگر گلی گلی۔‘‘ سندر سمدر کل سے ترت آج میں آگیا۔ دکھ سے بولا، ’’اب بھکشوؤں نے چلنا چھوڑ دیا، ان کے پاؤں تھک گئے ہیں، شریر پھیل گئے ہیں اور توندیں پھول گئی ہیں۔‘‘ اس پہ ودّیا ساگر نےکہا، ’’بندھوؤ تتھاگت نے کہا کہ جو جیو بہت کھا کھا کے موٹا ہوگیا ہے اور بہت سوتا ہے وہ جنم چکر میں پھنسا رہے گا، سوئر کے سمان بار بار پیدا ہوگا اور بار بار مرے گا۔‘‘
سندر سمدر نے کہا، ’’ہے گیانی، وہ بہت کھاتے ہیں اور کھاٹ پہ سوتے ہیں اور گدوں پر لوٹتے ہیں اور ناری سے ہنس کے بولتے ہیں۔‘‘
’’ناری سے ہنس کے بولتے ہیں؟‘‘ ودّیا ساگر نے ڈری آواز میں کہا۔
’’ہاں پربھو، ناریوں سے ہنس کے بولتے ہیں اور میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ خود سنگھ کی بھکشو ناریاں مسکا کے بات کرتی ہیں اور جھا نجھن پہنتی ہیں۔‘‘ ودّیا ساگر نے آنکھیں موند لیں اور دکھ کی آواز میں بڑبڑایا، ’’ہے تتھاگت تیرے بھکشو تجھ سے پھر گئے ہیں، میں اس بھوساگر میں اکیلا ہوں۔‘‘ سندر سمدر اور گوپال نے بھی آنکھیں موند لیں اور گڑگڑائے، ’’ہے تتھاگت ہم اکیلے ہیں اور دکھی ہیں اور ہمارے ارد گرد بھو ساگر امنڈا ہوا ہے۔‘‘ وہ آنکھیں موندے بیٹھے رہے، پھر سندر سمدر نے آنکھیں کھولیں اور کہا کہ ’’گوپال تونے یہ دھیان کیا کہ ہم آج پوری بستی میں پھرے ہیں، ہمیں بھکشا میں سب کچھ ملا پر کھیر نہیں ملی۔‘‘
گوپال نے ہاں میں ہاں ملائی، ’’تونے سچ کہا، کھیر ہمیں کسی گھر سے نہیں ملی، اور کھیر تو اب کبھی کبھی ہی دیکھنے میں آتی ہے۔‘‘ سندر سمدر نے سوال اٹھایا، ’’میں پوچھتا ہوں کھیر اب گھروں میں کیوں نہیں پکتی، کیا لوگ تتھاگت کو بھول گئے ہیں یا گیوں نے دودھ دینا کم کر دیا ہے۔‘‘ گوپال بیتے دنوں کو یاد کرکے کہنے لگا، ’’ان دنوں سب نرناری تتھاگت کے نام کی مالا جپتے تھے اور گیوں کے تھن دودھ سے بھرے رہتے تھے اور گھروں میں کھیر اتنی پکتی تھی کہ گھر باہر والے جی بھر کے کھاتے تھے، پھر بھی بچ رہتی تھی۔‘‘
’’اور ہم کتنا سواد لے کر کھیر کھاتے تھے۔‘‘ سندر سمدر کے منھ میں پانی بھر آیا۔ ودّیا ساگر نے گھور کر اسے دیکھا، ’’سواد؟ مورکھ، کیا تو سواد لے کے بھوجن کرتا ہے؟‘‘
’’نہیں پربھو۔‘‘ سندر سمدر نے جھینپ کر کہا، ’’میں نے بھوجن کبھی سواد لے کے نہیں کھایا۔ سدا یہی دھیان کرکے کھایا کہ مٹی میں مٹی مل رہی ہے اور پیٹ بھر رہا ہوں، پر جب کھیر آتی تھی تو میرے دھیان میں وہ کھیر آجاتی تھی جو سجاتا نے تتھاگت کو کھلائی تھی اور میرے تالو اور جیبھ کو کچھ ہونے لگتا تھا۔ ودّیا ساگر نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’’بندھوؤ، بھولے مزوں کو مت یاد کرو۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ تم پھر اندریوں کے پھیلے جال میں پھنس جاؤ۔‘‘ دونوں نے کان پکڑے اور کہا، ’’پربھو ہم ہر سواد کو تیاگ چکے ہیں، بس تتھاگت کے سواد میں دھیان لیتے ہیں۔‘‘
ایک بار شاکیہ منی ان کےدھیان میں پھر گئے، جو اٹھتے بیٹھتے بھکشو ؤں کو اپدیش دیتے کہ سنسار اسارہے اور سنسار کے سوا دکھوکھلے ہیں، گوپال بولا، ’’سندر سمدر تجھے ووہ گھڑی یاد ہے جب تتھاگت نے تجھے ناری سواد کے جال سے نکالا تھا؟‘‘
’’ناری سواد کے جال سے؟‘‘ سندر سمدر نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
’’ارے مورکھ تو بھول گیا، مجھے وہ سمے آج تک یاد ہے، تتھاگت آنکھیں موندے پرشانت مورتی بنے بیٹھے تھے اور ہم پریم اور شردھا سے انھیں تک رہے تھے، ہم نے دیکھا ان کے ہونٹ تنک مسکائے، آنند نے پوچھا، ہے تتھاگت مسکانے کا کارن کیا ہوا، بولے کہ اس سمے ایک بھکشو کا ناری سے مقابلہ ہے، ’’مقابلہ میں کون جیتے گا؟‘‘ آنند نے پوچھا۔
’’مقابلہ کڑا ہے۔‘‘ تتھاگت بولے۔ ’’ناری چاتُر ہے، گلے لگتی ہے اور مچل کے نکل جاتی ہے، انگ دکھاتی ہے اور چھپا لیتی ہے، چھلکتی چھاتیوں کی جھلک دکھاتی ہے پھر اوٹ کر لیتی ہے، لہنگا اتارنے لگتی ہے، پھر چڑھا لیتی ہے۔‘‘
سندر سمدر دھیان سے سنتا رہا، اسے اس بیتی گھڑی کی ایسے یاد آئی جیسے سمندر امنڈ کے آتا ہے، بولا، ’’گوپال تونے کب کی بات یاد دلائی، ہاں مقابلہ بہت سخت تھا، کیا ناری تھی مانو کنول کا پھول، میں پہلے اس بستی میں جاتا تو گلی گلی پھرتا اور کیا نردھن کیا دھنوان، ہر چوکھٹ پہ جاکے بھکشا لیتا، پر اس کی سندر تا نے مجھے ایسا موہت کیا کہ سب رستے بھولا، بس اسی چوکھٹ کا ہو رہا ہے۔ روز بھکشا پاتر لئے اس دوار سے جاتا اور آواز لگاتا کہ سندری بھکشو کو بھکشا ملے، اس چھبیلی نے مجھ پہ بہت دیا کی اور بہت بھکشا دی، میں نے بہت سواد لوٹا اور ایک دن تو اتنی دیالو بنی کہ میں نے جانا کہ گنگا نہالوں گا۔ اندر لے جا کے سائکل لگا لی اور گود میں پھول کے سمان آپڑی، گوپال مت پوچھ کہ کیسی کومل سرل گات تھی، کیا رسیلا سینہ تھا اور کیسے بھرے بھرے کولھے تھے اور پیٹ بالکل ملائی۔ انگ سے انگ ملنے لگا تھا کہ تتھاگت کی مورتی پر کاشت ہوئی۔ سندر سمدر ٹھنڈا سانس لے کر چپ ہوگیا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ گوپال نے پوچھا۔ سندر سمدر نے مری سی آواز میں کہا، ’’پھر کیا ہونا تھا، میں نے باسنا کو مارا اور میٹھی نیند سے بے پئے نکل آیا۔‘‘ سندر سمدر نے چپ ہوکے آنکھیں بند کر لیں جیسے دور کے دھیان میں کھو گیا ہو۔ پھر آنکھیں کھولیں، دھیرے سے بولا، ’’اب وہ کہاں ہوگی؟‘‘
’’کون؟‘‘ گوپال نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔
’’وہی سندری۔‘‘
’’کون جانے کہاں ہو۔‘‘
سندر سمدر اٹھ کھڑا ہوا، گوپال نے ایک اچنبھے کے ساتھ دیکھا کہ اس کے قدم بستی کی طرف اٹھ رہے ہیں، گوپال پکارا، ’’بندھو پلٹ آ۔‘‘ سندر سمدر کھویا کھویا چلتا چلا گیا، گوپال نے زور سے آواز دی، ’’بندھو، پلٹ آ۔‘‘ ودّیا ساگر خشک آواز میں بولا، ’’سندر سمدر اب پلٹ کے نہیں آئے گا کہ وہ اب باسنا کے چنگل میں ہے۔‘‘ گوپال چلاّیا، ’’ہے ودّیا ساگر ایسا جتن کر کہ وہ باسنا کے چنگل سے نکلے اور پلٹ آئے۔‘‘ ودّیا ساگر نے اسی خشک آواز میں کہا، ’’ہے گوپال تو اسے بھول جا، اپنے آپ کو بچا سکتا ہے تو بچالے۔‘‘
’’پربھو، میری چنتا کر، میں بچا ہوا ہوں۔‘‘ ودّیا ساگر نے اس پر کچھ نہیں کہا، چپ رہا، پھر زہر بھری ہنسی ہنسا اور بولا، ’’جو یاں سب سے زیادہ بول بول رہا تھا وہ سب سے پہلے گیا، باسنا بہا لے گئی جیسے باڑھ سوتے گاؤں کو بہا لے جاتی ہے۔‘‘
گوپال ودّیا ساگر کا منھ تکنے لگا پھر بولا، ’’ہے گنی بولنے میں کیا برائی ہے۔‘‘
ودّیا ساگر کہنے لگا، ’’بندھو شاید تونے زیادہ بولنے والے کی جاتک نہیں سنی، اچھا تو سن، ہمارے بدھ جی مہاراج ایک بار ایک درباری کے گھر جنمے تھے، بڑے ہوکے راجہ کے منتری بنے مگر وہ راجہ بہت بولتا تھا، بدھیستو جی نے من میں وچار کیا کہ کسی پرکار راجہ پر جتایا جائے کہ راجہ کی بڑائی زیادہ بولنے میں نہیں، زیادہ سننے میں ہے۔ اب سنو کہ ہمالہ پہاڑ کی تلی میں ایک تلیّا تھی، وہاں ایک کچھوا بھی رہتا تھا، دو مرغابیاں بھی اڑتی وہاں آئیں، تینوں میں گاڑھی چھننے لگی، پر ایک سمے ایسا آیا کہ تلیّا کا پانی سوکھنے لگا، مرغابیوں نے کچھوے سے کہا کہ متر ہمالہ پہاڑ میں ہمارا گھر ہے، وہاں بہت پانی ہے، تو ہمارے سنگ چل وہاں چین سے گزرے گی۔
کچھوا بولا کہ، ’’مترو میں دھرتی پر رینگنے والا جانور، بھلا اتنی اونچائی پہ کیسے پہنچوں گا۔‘‘ مرغابیوں نے کہا کہ ’’اگر تو یہ و چن دے کہ تو زبان نہیں کھولے گا تو ہم تجھے وہاں لے چلیں گے۔‘‘ کچھوے نے چپ رہنے کا وچن دیا، مرغابیوں نے ایک ڈنڈی لاکے کچھوے کے سامنے رکھی اور کہا کہ بیچ میں سے اپنے دانتوں سے پکڑ اور دیکھ بولنا مت، پھر ایک مرغابی نے اپنی چونچ سے ڈنڈی کا ایک سرا اور دوسری نے اپنی چونچ سے دوسرا سرا پکڑا اور اڑ لئے، اڑتے اڑتے جب وہ ایک نگر سے گزرے تو بالکوں نے یہ تماشا دیکھا اور شور مچایا، کچھوے کو بہت غصہ آیا، وہ کہنے لگا تھا کہ اگر میرے متروں نے مجھے سہارا دیا ہے تو تم کیوں جل مرے، مگر اس نے یہ کہنے کے لئے جیبھ کھولی ہی تھی کہ ٹپ سے زمین پر گر پڑا۔
اب سنو کہ یہ کچھوا جہاں گرا تھا وہ جگہ راجہ کے محل میں تھی، محل میں شور مچا کہ ایک کچھوا ہوا میں اڑتے اڑتے زمین پر گر پڑا ہے، راجہ بدھیستو جی کی سنگت میں اس جگہ آیا، کچھوے کی دردشا دیکھ بدھیستو جی سے پوچھا، ’’ہے بدھیمان تو کچھ بتا کہ کچھوے کی یہ درگت کیسے بنی؟‘‘ بدھیستو جی نے ترنت کہا، ’’یہ بہت بولنے کا پھل ہے۔‘‘ اور کچھوے اور مرغابیوں کی پوری کہانی سنائی، پھر کہا کہ’’ہے راجہ جوبہت بولتے ہیں ان کی یہ درگت بنتی ہے؟‘‘ راجہ نے بدھیستو جی کی بات پر جی ہی جی میں وچار کیا، بات اس کے جی کو لگی۔ اس دن کے بعد سے یہ ہوا کہ وہ کم بولتا تھا اور زیادہ سنتا تھا۔
یہ جاتک سنا کر ودّیا ساگر نے کہا کہ ’’بندھو ہم بھکشو لوگ کچھوے ہیں اور رستے میں ہیں، جو بھکشو موقع بے موقع بولے گا، وہ گر پڑے گا اور رہ جائے گا۔ تو نے دیکھا سندر سمدر کس طرح گرا اور رہ گیا۔‘‘ گوپال کے جی میں یہ بات اتر گئی، بولا کہ ’’کتنے بھکشو ابھی رستے میں تھے کہ گر پڑے اور رہ گئے۔‘‘ پھر کہا، ’’اب میں چپ رہوں گا۔‘‘
اور گوپال سچ مچ چپ ہوگیا، گیان دھیان کرتا، بھکشا لینے بستی جاتا اور کسی سے بات کئے بنا واپس آجاتا، پر ایک دن اسی بستی کے بیچ اس کے نگر باسی اور بچپن کے متر پر بھا کرنے اسے آن پکڑا، کہا کہ ’’ہے متر میں تیرے لئے راج کا سندیش لایا ہوں، سن کہ تیرا پتا پر لوک سدھارا، اب راج گدی خالی پڑی ہے، تیری میّا تجھے بلاتی ہے اور تیری سندر استری سولہ سنگھار کئے تیری باٹ دیکھتی ہے۔‘‘ گوپال نے کہا کہ ’’ہے متر، یہ سنسار دکھ کا استھان ہے، راج پاٹ موہ کا جال ہے، ماتا پِتا استری مایا کا کھیل ہیں، ہم بھکشو تتھاگت کے بالک ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر گوپال مڑ لیا، پربھا کر پیچھے سے پکارا، ’’متر میں نے تیری بات سنی، پھر بھی میں تجھ سے کہتا ہوں کہ میں تین دن اس بستی میں رہوں گا اور اسی استھان پہ بیٹھ کے تیری باٹ دیکھوں گا۔‘‘
گوپال واپس ہونے کو تو ہولیا پر بہت بیاکل تھا، پربھاکر کی آواز رہ رہ کر اس کے کانوں میں گونج رہی تھی، وہ ودّیا ساگر کے پاس آکے ایسے بیٹھا جیسے پیڑ سے پتا گرتا ہے، بولا کہ ’’ہے گیانی، میں چپ ہوں پھر بھی گر رہا ہوں، ڈنڈی میرے دانتوں سےنکلی پڑ رہی ہے، بتا کہ میں کیا کروں؟‘‘ ودّیا ساگر نے کہا، ’’پھول کو دیکھ۔‘‘
گوپال پاس کی ایک پھولوں کی جھاڑی کے سامنے آسن مار کر بیٹھا اور ایک پھول کو کہ ابھی ابھی کھلا تھا، تکنے لگا، تکتا رہا، پھول مسکاتا رہا، پر پھر دھیرے دھیرے رنگ بے رنگ ہوا اور پھول مرجھا گیا، گوپال کو جیسے کل آگئی ہو، اپنے آپ سے کہا کہ ہے گوپال سنسارا سار ہے اور آنکھیں بند کر لیں، پر جب بھور بھئے اس نے آنکھیں کھولیں تو اسی ٹہنی پہ ایک اور پھول کھلا ہوا تھا اور اسے دیکھ دیکھ مسکا رہا تھا، کھلے پھول کو دیکھ وہ بیاکل ہوگیا۔ اس کی درشٹی بکھر گئی، آنکھیں اِدھر اُدھر بھٹکنے لگیں اور اسے یاد آیا کہ آج تیسرا دن ہے، وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے پاؤں آپ ہی آپ بستی کی طرف اٹھنے لگے۔ ودّیا ساگر اسے جاتے دیکھا کیا اور چپ رہا، جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تو وہ زہر بھری ہنسی ہنسا، پھر اسے تتھاگت کی کہی ہوئی بات یاد آئی کہ یاترا میں اگر سوجھ بوجھ والا سنگھی ساتھی نہ ملے تو بھلائی اسی میں ہے کہ یاتری اکیلا چلے، جنگل میں ہاتھی کے سمان۔
تتھاگت کی یہ بات یاد کرکے اسے بہت ڈھارس ہوئی، اس نے اس پر وچار کیا اور اسے اس میں بہت گمبھیرتا دکھلائی دی، میں نے تتھاگت سے پہلے سنا اور اب جانا کہ جو آدمی مورکھ کے ساتھ چلتا ہے وہ رستے میں بہت دکھ اٹھاتا ہے، مورکھ کی سنگت سے یہ اچھا ہے کہ آدمی اکیلا رہے اور اکیلا چلے، اس نے یاد کیا کہ سندر سمدر اور گوپال کی سنگت نے اس کے گیان میں کتنی کھنڈت ڈالی ہے۔ وہ بولتے ہی رہتے تھے اور اس کا دھیان بار بار بٹ جاتا تھا، اسے لگا کہ کتنے منوں کا بوجھ تھا جو ان کے چلے جانے سے اس کے سر سے اتر گیا ہے، اس نے اب اپنے آپ کو ہلکا ہلکا جانا اور نچنت ہوکر جنگل میں گھومنے لگا اور کبھی اونچی اونچی گھاس کے بیچ چلا، کبھی کسی بٹیا پر پڑ لیا، کبھی کسی اونچی ڈگر پہ ہو لیا۔
اس کے ڈال ڈال پات پات کو دیکھا، پھولوں کو مسکاتے اور ٹہنیوں کو لہراتے دیکھا، ندی کنارے چلتے ہوئے شیتل دھارا کا شور سنا، اسے لگ رہا تھا کہ سارا سنسار آنند سنگیت سے بھر گیا ہے اور پھولوں کی سگندھ جل ستھل میں رچ بس گئی ہے اور اس نے جانا کہ اسے وستو گیان مل رہا ہے، اس نے سوچا کہ آتم گیان اپنی جگہ مگر آدمی کو دستو گیان بھی ملنا چائیے۔
وستوگیان میں مگن اور آنند سے بھرپور وہ ڈگر ڈگر چلتا رہا، دیکھتا رہا، سنتا رہا، چھوتا رہا، سونگھتا رہا، اسی چلنے پھرنے میں اسے ایک پیڑ دکھائی دیا، ’’ارے یہ تو املی کا پیڑ ہے۔‘‘ وہ ٹھٹک گیا، اسے اچنبھا ہوا کہ اس نے کتنے دنوں سے اس جنگل میں باس کر رکھا ہے مگر اسے پتہ ہی نہ چلا کہ یاں املی کا پیڑ بھی ہے، پھر اسے یہ دھیان کرکے اچنبھا ہوا کہ اپنے نگر سے نکلنے کے بعد اس نے کتنے پیڑوں کی چھاؤں میں بسیرا کیا ہے مگر کبھی املی کا پیڑ دکھائی نہ دیا، میں نے کبھی دھیان نہیں دیا تھا یا ان بنوں میں املی کا پیڑ ہوتا ہی نہیں اور یہ سوچتے سوچتے اس کا دھیان پیچھے کی طرف گیا، املی کا گھنا اونچا پیڑ، کمان کی سمان لمبی لمبی کٹاریں، تیرتی اترتی طوطوں کی ڈاریں، جاڑوں کی رت میں بھور بھئے طوطوں کی لمبی لمبی ڈاریں شور کرتی آتیں اور اس پیڑ پہ اترتیں، میں نے اس کے بعد بہت بن دیکھے پر کبھی ایسا ہرا بھرا پیڑ نہیں دیکھا اور کبھی کسی پیڑ پہ اتنے طوطے اترتے نہیں دیکھے۔ اور پھر اس پیڑ کے ساتھ اسے تھوڑا تھوڑا کرکے بہت کچھ یاد آیا، آس پاس پھیلے ہوئے اونچے نیچے مٹی میں اٹے رستے، ان پر دوڑتی گرد اڑاتی ر تھیں۔
پیڑوں پر دوڑتی گلہریاں، گرگٹ، اس کا قمچی لے کر گلہری کے پیچھے بھاگنا، گلہری کا اچک کر پیڑ پر چڑھنا، ٹہنی پہ جا کر دو ننھی ننھی ٹانگوں پہ کھڑے ہوکر اسے دیکھنا اور پھر پتّوں میں چھپ جانا، کسی بھٹ میں سے دوسوئیوں جیسی زبان کے ساتھ ایک لال لال منھ کا اچانک دکھائی دینا اور اوجھل ہوجانا اور اس کے سارے بدن میں ڈر کی ایک لہر کا سر سرانا اور ہاں کوشمبھی، اسی پیڑ تلے شام کے جھٹپٹے میں وہ اس سے ملی تھی ایسے جیسے ندی ساگر سے ملتی ہے، پہلے ہونٹ ملے، پھر وہ ڈالی کی طرح لی لچکتی لمبی باہیں اس کی گردن کے گرد اور آن میں وہ دونوں شام کے جھٹپٹے سے رات کے اندھیرے میں چلے گئے۔ یہ دھیان کرتے کرتے اس کے اندر ایک مٹھاس گھلتی چلی گئی مانو اس نے سوم رس پیا ہو’’وستوو گیان‘‘ اس نے من ہی من میں کہا اور ایک آنند میں ڈوب گیا۔
اس اوستھا میں وہ تنک دیر رہا پھر بیاکل ہوگیا اور اس نے سوچا کہ سب بھکشو پیڑوں کی چھاؤں سے نکل کر چھتوں کے نیچے چلے گئےاور کھاٹوں پر سونے لگے، اور ناریوں سے آنکھ ملا کر باتیں کرنے لگے اور وہ اکیلا بن میں بھٹکتا پھر رہا ہے، سب پلٹ کر اپنے اپنے استھانوں پر چلے گئے، میں کیوں اپنے پیڑ سے دور ہوں، پیڑ کی یاد اس کے لئے بلاوا بن گئی، اس کے پاؤں اس ڈگر پر پڑ لئے جو اس جنگل سے نکل کر اس کے نگر کی طرف جاتی تھی۔
جنگل سے نکلتے نکلتے وہ ایک دم ٹھٹکا، ایک پرسیندھ مورتی اس کے دھیان کا رستہ کاٹ رہی تھی اور وہ اپدیش جسے وہ بھول ہی گیا تھا کہ بھکشو ؤ اپنے وچاروں کی دیکھ بھال رکھو اور اگر تم برائی کے رستے پر پڑ جاؤ تو اپنے آپ کو وہاں سے ایسے نکالو جیسے ہاتھی دلدل سے نکلتا ہے، اس نے آگے اٹھتے ہوئے پاؤں کو روکا اور ایسے پلٹا جیسے ہاتھی دلدل سے نکلتا ہے۔ وہ ایک پچھتاوے کے ساتھ پلٹ کر آیا اور ایک پیپل کے پیڑ تلے بیراسن مار کر بیٹھ گیا، وہ پچھتایا یہ سوچ کر کہ وہ کھلتے پھولوں اور بہتی ندی کو دیکھ کر خوش ہوا تھا، کیا تتھاگت نے نہیں کہا تھا کہ بھکشو ؤ ہنسنا مسکانا کس کارن اور خوشی کس بات کی کہ سنسار تو دہڑ دہڑ جل رہا ہے، اس نے اپنے ارد گرد دیکھا، اس نے جانا کہ یہ سنسار اگنی کنڈ ہے۔ ہر چیز جل رہی ہے، پھول، پتّے، پیڑ، بہتی ندی اور اس کی اپنی درشٹی، اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
وہ دنوں بیراسن مارے، آنکھیں موندے، گم سم بیٹھا رہا، پر اسے شانتی نہیں ملی، اس کا دھیان بار بار بھٹکتا اور املی کے پیڑ کی طرف چلا جاتا، نراش ہوکر وہ اٹھا اور شانتی کے کھوج میں ایک لمبی یاترا کی۔ ایک جنگل سے دوسرے جنگل میں، دوسرے جنگل سے تیسرے جنگل میں، چلتے چلتے اس کے تلوے خونم خون ہوگئے اور پاؤں سوج گئے اور ٹانگیں دکھنے لگیں، آخر کو وہ ارد بلو کے جنگل میں جا نکلا، وہ سہج سہج کرکے بودھی ورم کے پاس گیا، اس اونچے گھنے برگد کو دیکھا جو ایک دیوتا سمان پیڑوں کے بیچ کھرا تھا، وہ اس پیڑ کے نیچے بیراسن مار کے بیٹھا۔ ہاتھ جوڑ کر بنتی کی کہ ہے شاکیہ منی، ہے تتھاگت، ہے امی تابھ، یہ بھکشو تیرا کچھوا ہے اور رستے میں ہے، آنکھیں موند لیں اور بڑبڑایا، ’’شانتی، شانتی، شانتی۔‘‘
بیٹھا رہا، بیٹھا رہا، دن بیتتے چلے گئے اور وہ پتھر بنا بیٹھا رہا، پھر ایسا ہوا کہ دھیرے دھیرے شوک اس کے جی سے دھل گیا، من میں آنند کی ایک کونپل پھوٹی اور دھیان میں ایک ہرا بھرا پیڑابھرا، وہ پیڑ وہی املی کا پیڑ تھا، وہ اٹھ بیٹھا، جانا کہ اس نے بھید پا لیا ہے، یہی کہ ہر نر ناری کا اپنا جنگل اور اپنا پیڑ ہوتا ہے، دوسرے جنگل میں ڈھونڈنے والے کو کچھ نہیں ملے گا چاہے وہاں بودھی ورم ہی کیوں نہ ہو، جو ملے گا اپنے جنگل میں اپنے پیڑ کی چھاؤں میں ملے گا۔
یہ بھید پاکر ودّیا ساگر نے جاناکہ اس نے گیان کی مایا پالی اور چلا اپنے پیڑ کی اور، پر اردبلو کے جنگل سے نکلتے نکلتے ایک بھاؤ نانے اس کے پیر پکڑ لئے، دبدا میں پڑ گیا کہ ڈنڈی اس کے دانتوں میں ہے یا دانتوں سے چھوٹ گئی ہے، اس دبدا میں اس کا ایک پاؤں اردبلو کے جنگل میں تھا اور دوسرا پاؤں اپنے پیڑ کی طرف اٹھا ہوا تھا اور اگن کنڈ میں چاروں اور آگ دہک رہی تھی۔
مصنف:انتظار حسین