گھر میں رہتا ہوں تو پاؤں میں سفر جاگتا ہے
جیسے آغوش میں دریا کے بھنور جاگتا ہے
جب کسی اونچی حویلی پہ ٹھہرتی ہے نگاہ
کیوں اسی وقت مرے دل میں کھنڈر جاگتا ہے
بیٹھ جاتے ہیں گھنی چھاؤں میں ہم بھی جس دم
وادیٔ روح میں یادوں کا شجر جاگتا ہے
عجز آنکھوں سے ٹپکتا ہے جب آنسو بن کر
تب کہیں جا کے دعاؤں میں اثر جاگتا ہے
بات کیا ہے کہ ہمیں آتی نہیں گہری نیند
بند ہوتی ہیں اگر پلکیں تو سر جاگتا ہے
کچھ عجب ہوتا ہے وہ لمحۂ تخلیق ظفرؔ
دست فن کار میں جب وقت ہنر جاگتا ہے
شاعر:احمد علی