ٹک، ٹک، ٹک
’’ایک تو اس وال کلاک کو آرام نہیں آتا، سردیوں میں تو اس کی آواز لاوڈ سپیکر بن جاتی ہے‘‘
ٹک ٹک ٹک
یہ آواز اور یہ احساس واقعی بہت تکلیف دہ ہے، خصوصا جب آپ گھر میں اکیلے ہوں، اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وال کلاک ٹک ٹک کی بجائے کم، کم کہہ رہا ہو۔
’’کیا وقت یونہی تیزی سے نکل جائے گا۔ کیا اس ویرانے میں میری پوری زندگی گزر جائےگی؟ میری تو زندگی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ میں اس ویرانے میں مر گیا تو شہر میں گھر والوں کو کون بتائےگا، مجھے تو ابھی بہت سے کام کرنے ہیں، لیکن میرے پاس تو وقت ہی نہیں ہے، یہ تو بھاگ رہا ہے کیا میں بھی وقت کے ساتھ بھاگنا شروع کردوں؟‘‘
اس کی سوچیں بہت بکھری ہوئی، پریشان حال تھیں۔
معلوم نہیں اسے کیا ہو گیا تھاوہ جن دنوں شہر میں تھا تب تو وہ ایسا بالکل نہیں تھا، کوئی ایک ماہ پہلے اس کا تبادلہ اس گاوں میں ہوا تھا اور اس کی نیند اس سے روٹھ کر کہیں چلی گئی تھی اب تک کی ساری عمر اس کی شہر میں گزری تھی، وہ شور کا اتنا عادی ہوگیا تھا کہ یہ سناٹا اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ آدھی آدھی رات تک جاگتا رہتا لیکن اسے نیند نہیں آتی تھی۔
اب تو روز ہی ایسا ہوتا، لیکن آج تو وحشت کچھ اور بڑھ گئی تھی۔
ٹک ٹک ٹک
’’اوہ یہ وقت تو میرے پیچھے ہی پڑ گیا ہے، ایسے تو میں نہیں سو سکتا۔ یہ آواز بہت تکلیف دہ ہے‘‘
وہ اٹھا اور الماری سے ریڈیو اٹھا لایا، ریڈیو پر پرانے گیت آ رہے تھے۔ اس نے ریڈیو کو تکیے کے ساتھ رکھا اور آنکھیں بند کر لیں، جب وہ شہر میں تھا تو روز رات کو ریڈیو سنتے ہوئے سو جاتا تھا اور جب آدھی رات کو آنکھ کھلتی تو اسے پتہ چلتا کہ ریڈیو تو چلتا ہی رہ گیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ابھی بھی وہ ویسے ہی سو جائےگا۔
گانے سنتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لیے وال کلاک کو بھول گیا تھا۔ عجیب بات تھی وہ چاہتا تھا کہ شور ہولیکن وال کلاک کے شور سے وہ بھاگتا تھا۔
’’شب کے بارہ بجے ہیں‘‘
ریڈیو پر بارہ بجنے کا وقت بتایا گیا تو اسے خیال آیا کہ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے ریڈیو سن رہا ہے لیکن افسوس کہ وہ ابھی بھی جاگ رہا ہے۔
’’آخر یہ نیند کب آئےگی‘‘
اس نے ریڈیو بند کرکے آنکھیں موند لیں۔
ٹک ٹک ٹک
’’آخر یہ کیا ہے۔ اس گھڑی کا کچھ کرنا ہی پڑےگا‘‘
وہ اٹھا اور وال کلاک کو دیوار پر سے اتارا اور ملحقہ کمرے میں جاکر رکھ آیا۔
’’اب میں سکون سے سو سکوں گا‘‘ اس نے سوچا
اس نے تکیے پر سر رکھا اور سونے کی کوشش کی، ابھی کچھ دیر ہی ہوئی ہوگی کہ اسے محسوس ہوا کہ بہت ہی آہستہ آہستہ ٹک، ٹک کی آواز ابھی بھی آ رہی ہے۔
’’کوئی نہیں آ رہی‘‘
اس نے خود کو سمجھایا اور کروٹ بدل لی۔
کان پھر نہ مانے اور دل سے کہا۔
’’سنو، آ رہی ہے‘‘
دماغ نے کہا ’’ہاں، ہاں یہ کم، کم، کم کی آواز ہی ہے‘‘
’’ اوہ میرے خدا، میں کہاں جاوں‘‘
اس نے اپنا سر پکڑ لیا، ’’یہ وقت تو میرے پیچھے ہی پڑ گیا ہے‘‘
اس نے غور سے سنا توآواز ابھی بھی آ رہی تھی۔
’’ایک ہونے کو ہے اور میں پچھلے کئی گھنٹوں سے سونے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں، صبح ڈیوٹی پر بھی جانا ہے‘‘
وہ پچھلے کئی دنوں سے ٹھیک سے سو نہیں سکا تھا پوسٹ آفس میں باقی لوگ اسے کام چور سمجھنے لگے تھے، حالانکہ وہ کام چور نہیں تھا اسکے پیچھے تو وقت پڑ گیا تھا۔
وہ غصے سے اٹھا، ساتھ کے کمرے سے وال کلاک کو اٹھایا اور صحن میں جاکر پٹخ دیا۔
پٹاخ۔۔۔کی آواز کے ساتھ وال کلاک چور چور ہو چکا تھا۔
اتنی بلند آواز سن کر وہ ڈر گیا۔
’’یہ تو کافی اونچی آواز تھی‘‘ میں نے توڑنے سے پہلے کیوں نہ سوچا۔
’’آدھی رات کو یہ آواز محلے کے لوگوں نے بھی سنی ہوگی اوہ یہ کیسا برا کیا میں نے‘‘ اسے اب خیال آیا
’’کوئی پوچھنے آ گیا تو کیا جواب دوں گا، لوگ کہیں گے کہ یہ نیا شہری بابو کتنا عجیب ہے آدھی رات کو شور شرابا کرتا ہے حالانکہ رہتا بھی اکیلا ہے، اس چھوٹے گاوں میں اتنی رات گئے ایسا شور کسی نے پہلے کب سنا ہوگا؟‘‘
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔
’’اوہ یعنی لوگوں نے یہ شور سن لیا ہے۔۔۔میں نے وال کلاک کیوں توڑا ہے‘‘ اسے اب ڈر لگنے لگا تھا۔ ’’ اب کیا جواب دوں گا‘‘
اب افسوس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
’’میں دروازہ ہی نہیں کھولتا۔ جو ہوگا صبح دیکھا جائےگا‘‘ اس نے خود کو سمجھایا او ر کمرے کی طرف مڑنے لگا۔
گھنٹی پھر ہوئی۔۔۔اس کے قدم رک گئے۔
’’کاش میں کہیں جاکر چھپ جاوں اور جب لوگ آکر ڈھونڈیں کہ وال کلاک کس نے توڑا ہے تو وہ مجھے نہ ڈھونڈسکیں۔ میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا‘‘
لیکن اس وقت تو یہ آفت سر پر تھی
’’میں دروازہ نہیں کھولتا۔۔۔لیکن یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ مجھے دروازہ کھولنا چاہیے۔ میں کہہ دوں گا کہ وال کلاک میرے ہاتھ سے گر گیا تھا۔ہاں یہ ٹھیک ہے۔میں یہی کہوں گا۔۔۔انسان سے چیزیں گرتی ہی رہتی ہیں۔۔۔‘‘ اس نے خود کو سمجھایا اور ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔
سامنے اس کے پڑوسی کا بڑا بیٹا کھڑا تھا
’’السلام علیکم‘‘
’’وعلیکم السلام‘‘
’’وہ، وہ وال کلاک میرے ہاتھ سے گر گیا تھا، میں معذرت چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کی آنکھ کھل گئی۔ لیکن میں نے دانستہ ایسا نہیں کیا‘‘
لڑکے نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا، جیسے وہ کچھ سمجھ نہ پا رہا ہو۔۔۔
’’وہ جی اباجی کہہ رہے ہیں آپ کے پاس بخار کی کوئی دوا ہے میری چھوٹی بہن کو تیز بخار ہے اور شور کیسا جی میں تو سو رہا تھا، مجھے تو اباجی نے جگا کر آپ کی طرف بھیجا ہے‘‘
اوہ یعنی اسے نہیں پتہ اس شور کا۔۔۔یہ تو بہت اچھا ہواکہ انہیں شور سنائی نہیں دیا۔
’’کچھ نہیں، کچھ نہیں وہ، وہ میں۔۔۔چھوڑو میں دوا لاتا ہوں‘‘
اس نے اندر سے بخارکی ٹیبلٹس لاکر لڑکے کو تھما دیں
’’شکریہ‘‘ لڑکے نے کہا
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور سوال پوچھتا، اس نے فورا دروازہ بند کر دیا اور آکر بستر پر لیٹ گیا۔۔۔
’’اب تو سکون سے سو سکتا ہوں۔۔۔وال کلاک سے بھی جان چھوٹی اور اچھی بات کہ کسی نے شور بھی نہیں سنا‘‘۔
اس نے تکیے پر سر رکھا، ایک لمبی سانس لی اور آنکھیں موند لیں۔۔۔
لیکن یہ کیا۔۔۔
’’اوہ میرے خدا‘‘
’’ٹک، ٹک کی آواز تو ابھی بھی آ رہی ہے‘‘
مصنف:محمد جمیل اختر