وہ مرتے مرگیا مگر مغلیہ شہنشاہیت کی ضد کو بر قرار رکھا۔
فتح پور سیکری کے سنسان کھنڈروں میں گوری دادی کا مکان پرانے سوکھے زخم کی طرح کھٹکتا تھا۔ کگیا اینٹ کا دو منزلہ گھٹا گھٹا سا مکان ایک مار کھائے روٹھے ہوئے بچے کی طرح لگتا تھا۔ دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا وقت کا بھونچال اس کی ڈھٹائی سے عاجز آکر آگے بڑھ گیا اور شاہی شان و شوکت پر ٹوٹ پڑا۔
گوری دادی سفید جھک چاندنی بچھے تخت پر سفید بے داغ کپڑوں میں ایک سنگ مرمر کا مقبرہ معلوم ہوتی تھیں۔ سفید ڈھیروں بال، بے خون کی سفید دھوئی ہوئی ململ جیسی جلد، ہلکی کرنجی آنکھیں جن پر سفیدی رینگ آئی تھی، پہلی نظر میں سفید لگتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر آنکھیں چکاچوند ہو جاتی تھیں۔ جیسے بسی ہوئی چاندنی کا غبار ان کے گرد معلق ہو۔
نہ جانے کب سے جئے جارہی تھیں۔ لوگ ان کی عمر سو سے اوپر بتاتے تھے۔ کھلی گم سم بے نور آنکھوں سے وہ اتنے سال کیا دیکھتی رہی تھیں۔ کیا سوچتی رہی تھیں کیسے جیتی رہی تھیں۔ بارہ تیرا برس کی عمر میں وہ میری اماں کے چچا دادا سے بیاہی تو گئی تھیں مگر انہوں نے دلہن کا گھونگٹ بھی نہ اٹھایا۔ کنوارپن کی ایک صدی انہوں نے انہی کھنڈروں میں بتائی تھیں۔ جتنی گوری بی سفید تھیں اتنے ہی ان کے دولہا سیاہ بھٹ تھے۔ اتنے کالے کہ ان کے آگے چراغ بجھے، گوری بی بجھ کر بھی دھواں دیتی رہیں۔
سرشام کھانا کھاکر جھیلوں میں سوکھا میوہ بھر کے ہم بچے لحافوں میں بدک کر بیٹھ جاتے اور پرانی زندگی کی ورق گردانی شروع ہوجاتی بار بار سنکر بھی جی نہ بھرتا۔ ادبدا کر گوری بی اور کالے میاں کی کہانی دہرائی جاتی۔ بچارے کی عقل پر پتھر پڑگئے تھے کہ اتنی گوری دلہن کا گھونگٹ بھی نہ اٹھایا۔
اماں سال کے سال پورا لاؤلشکر لے کر میکے پر دھاوا بول دیتیں۔ بچوں کی عید ہوجاتی فتح پور سیکری کے پراسرار شاہی کھنڈروں میں آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے جب شام پڑ جاتی تو کھوئی کھوئی سرمئی فضا سے ڈر لگنے لگتا۔ ہر کونے سے سائے لپکتے۔ دل دھک دھک کرنے لگتے۔
’’کالے میاں آگئے۔‘‘ ہم ایک دوسرے کو ڈراتے۔ گرتے پڑتے بھاگتے اور کگیا اینٹ کے دومنزلہ مکان کی آغوش میں دبک جاتے۔ کالے میاں ہر اندھیرے کونے میں بھوت کی طرح چھپے محسوس ہوتے۔ بہت سے بچے مرنے کے بعد حضرت سلیم چشتی کی درگاہ پر ماتھا رگڑا۔ تب گوری بی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔ ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک گوری بی بڑی ضدی تھیں۔ بات بات پر اٹوائٹی کھٹواتی لے کر پڑجاتیں۔ بھوک ہڑتال کر دیتیں گھر میں کھانا پکتا، کوئی منہ نہ جھٹالتا جوں کا توں اٹھوا کر مسجد میں بھجوا دیا جاتا گوری بی نہ کھاتی تو اماں باوا کیسے نوالہ توڑتے۔
بات اتنی سی تھی کہ جب منگنی ہوئی تو لوگوں نے مذاق میں چھینٹے کئے۔
’’گوری دلہن کالا دولہا۔‘‘
مگر مغل بچے مذاق کے عادی نہیں ہوتے۔ سولہ سترہ برس کے کالے میاں اندر ہی اندر گھٹے رہے۔ جل کر مرنڈا ہوتے رہے۔
’’دلہن میلی ہوجائے گی خبردار یہ کالے کالے ہاتھ نہ لگانا۔‘‘
’’بڑے نازوں کی پالی ہے تمہاری تو پرچھائیں پڑی تو کالی ہوجائے گی۔‘‘
’’بڑا تیہا ہے ساری عمر جوتیاں اٹھوائے گی۔‘‘
انگریزوں نے جب مغل شاہی کا انتم سنسکار کیا تو سب سے بری مغل بچوں پر بیتی کہ وہی زیادہ عہدے سنبھالے بیٹھے تھے۔ جاہ جاگیر چھن جانے کے بعد لاکھ کے گھر دیکھتے دیکھتے خاک ہوگئے۔ بڑی بڑی ڈھنڈار حویلیوں میں مغل بچے بھی پرانے سامان کی طرح جاپڑے۔ بھونچکے سے رہ گئے جیسے کسی نے پیروں تلے سے تختہ کھینچ لیا۔
تب ہی مغل بچے اپنے غرور اور خودداری کی تار تار چادر میں سمٹ کر اپنے اندر ہی اندر گھلتے چلے گئے۔ مغل بچے اپنے محور سے کچھ کھسکے ہوئے ہوتے ہیں۔ کھرے مغل کی یہی پہچان ہے کہ اس کے دماغ کے دوچار پیچ ڈھیلے یا ضرورت سے زیادہ تنگ ہوتے ہیں۔ عرش سے فرش کی طرف لڑھکے ہی تو ذہنی توازن ڈگمگا گئے۔ زندگی کی قدریں غلط ملط ہوگئیں۔ دماغ سے زیادہ جذبات سے کام لینے لگے۔
انگریز کی چاکری لعنت اور محنت مزدوری کی کسرِشان جو کچھ اثاثہ بچا اسے بیچ بیچ کر کھاتے رہے۔ ہمارے ابا کے چچا روپیہ پیسہ کی جگہ چچی کے جہیز کے پلنگ کے پایوں سے چاندنی کا پترا کھیڑے جاتے تھے۔ زیور اور برتنوں کے بعد ٹکے جوڑے نوچ نوچ کر کھاتے۔ پان دان کی کلھیاں سل بٹے سے کچل کر ٹکڑا ٹکڑا بیچیں اور کھائیں۔ گھر کے مرد دن بھر پلنگ کی ادوائین توڑتے۔ شام کو پرانی گھنی اچکن پہنی اور شطرنج پچیسی کھیلنے نکل گئے۔ گھر کی بیویاں چھپ چھپ کر سلائی کرلیتیں۔ چار پیسوں سے چولہا جل جاتا، یا محلہ کے بچوں کو قرآن پڑھادیتیں تو کچھ نذرانہ مل جاتا۔
کالے میاں نے دوستوں کی چھیڑخانی کو جی کا گھاؤ بنا لیا جیسے موت کی گھڑی نہیں ٹلتی ویسے ہی باپ ماں کی طے کی ہوئی شادی نہ ٹلی۔ کالے میاں سرجھکا کے دولہا بن گئے۔ کسی سر پھری نے عین آر سی مصحف کے وقت اور چھیڑ دیا۔
’’خبردار جو دلہن کو ہاتھ لگایا‘ کالی ہوجائے گی۔‘‘
مغل بچہ چوٹ کھائے ناگ کی طرح پلٹا، سر سے بہن کا آنچل نوچا اور باہر چلا گیا۔
ہنسی میں کھسی ہوگئی۔ ایک ماتم برپا ہوگیا۔ مردان خانہ میں اس ٹریجڈی کی خبر ہنسی میں اڑا دی گئی بغیر آر سی مصحف کے رخصت ایک قیامت تھی۔
’’بخدا میں اس کا غرور چکناچور کردوں گا۔ کسی ایسے ویسے سے نہیں مغل بچہ سے واسطہ ہے‘‘، کالے میاں پھنکارے۔
کالے میاں شہتیر کی طرح پوری مسہری پر دراز تھے۔ دلہن ایک کونے میں گٹھری بنی کانپ رہی تھیں۔ بارہ برس کی بچی کی بساط ہی کیا؟
’’گھونگٹ اٹھاؤ۔‘‘ کالے میاں ڈکرائے۔
دلہن اور گڑی مڑی ہوگئی۔
’’ہم کہتے ہیں گھونگٹ اٹھاؤ‘‘، کہنی کے بل اٹھ کر بولے۔
سہیلیوں نے تو کہا تھا۔ دولہا ہاتھ جوڑے گا پیر پڑے گا پر خبردار جو گھونگٹ کو ہاتھ لگانے دیا۔ دلہن جتنی زیادہ مدافعت کرے اتنی ہی زیادہ پاکباز۔
’’دیکھو جی تو نواب زادی ہوگی اپنے گھر کی ہماری تو پیر کی جوتی ہو۔ گھونگٹ اٹھاؤ۔ ہم تمہارے باپ کے نوکر نہیں۔‘‘
دلہن پر جیسے فالج گر گیا۔
کالے میاں چیتے کی طرح لپک کر اٹھے جوتیاں اٹھاکر بغل میں دابیں اور کھڑکی سے پائیں باغ میں کود گئے۔ صبح کی گاڑی سے وہ جودھپور دندنا گئے۔
گھر میں سوتا پڑا تھا۔ ایک اکابی جو دلہن کے ساتھ آئی تھیں جاگ رہی تھیں۔ کان دلہن کی چیخوں کی طرف لگے تھے۔ جب دلہن کے کمرے سے چوں بھی نہ آئی تو ان کے تو پیروں کا دم نکلنے لگا ہے ہے کیسی بے حیا لڑکی ہے۔ لڑکی جتنی معصوم اور کنواری ہوگی اتنا ہی زیادہ دندمچائے گی۔ کیا کچھ کالے میاں میں کھوٹ ہے۔ جی چاہا کوئیاں میں کود کے قصہ پاک کریں۔
چپکے سے کمرے میں جھانکی تو جی سن سے ہوگیا۔ دلہن جیسی کی تیسی دھری تھی اور دولہا غائب۔
بڑےغیر دلچسپ قسم کے ہنگامے ہوئے تلواریں کھینچیں بڑی مشکل سے دلہن نے جو بیتی تھی کہہ سنائی۔ اس پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ خاندان میں دوپارٹیاں بن گئیں۔ ایک کالے میاں کی، دوسری گوری بی کی طرفدار۔
’’وہ آخر خدائے مجازی ہے۔ اس کا حکم نہ ماننا گناہ ہے۔‘‘ ایک پارٹی جمی ہوئی تھی۔
’’کہیں کسی دلہن نے خود گھونگٹ اٹھایا ہے؟‘‘ دوسری پارٹی کی دلیل تھی۔
کالے میاں کو جودھپور سے بلواکر دلہن گھونگٹ اٹھوانے کی ساری کوششیں ناکام گئیں۔ وہ وہاں گھوڑ سواروں میں بھرتی ہوگئے اور بیوی کو نان نفقہ بھیجتے رہے جو گوری بی کی اماں سمدھن کے منہ پر مارآتیں۔
گوری بی کلی سے پھول بن گئیں۔ ہر اٹھواڑے ہاتھ پیر میں مہندی رچاتی رہیں اور بندھے ٹکے ڈوپٹے اوڑتی رہیں اور جیتی رہیں۔
پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ باوا کی مرن گھڑی آ پہنچی۔ کالے میاں کو خبر گئی تو نہ جانے کس موڈ میں تھے کہ بھاگے آئے۔ باوا موت کا ہاتھ جھٹک کر اٹھ بیٹھے۔ کالے میاں کو طلب کیا دلہن کا گھونگٹ اٹھانے کی باریکیوں پر مسکوٹ ہوئی۔
کالے میاں نے سر جھکا دیا۔ مگر شرط وہی رہی کہ حشر ہوجائے مگر گھونگھٹ تو دلہن کو اپنے ہاتھوں اٹھانا پڑے گا۔ ’’قبلہ کعبہ میں قسم کھا چکا ہوں میرا سر قلم کر دیجیے مگر قسم نہیں توڑ سکتا۔‘‘
مغل بچوں کی تلواریں زنکھیا چکی تھیں۔آپس میں مقدمہ بازیوں نے سارا کلف نکال دیا تھا۔ بس احمقانہ ضدیں رہ گئی تھیں، ایک انہیں کو کلیجے سے لگائے بیٹھے تھے۔ کسی نے کالے میاں سے نہ پوچھا تم نےایسی احمقانہ قسم کھائی ہی کیوں کہ اچھی بھلی زندگی عذاب ہوگئی۔
خیرصاحب گوری بی پھر دلہن بنائی گئیں۔ کگیا اینٹ والا مکان پھر پھولوں اور شمامۃ العنبر کی خوشبو سے مہک اٹھا۔ اماں نے سمجھایا۔ ’’تم اس کی منکوحہ ہو بیٹی جان۔ گھونگٹ اٹھانے میں کوئی عیب نہیں۔ اس کی ضد پوری کردو مغل بچہ کی آن رہ جائے گی۔ تمہاری دنیا سنور جائے گی، گودی میں پھول برسیں گے۔ اللہ رسول کا حکم پورا ہوگا۔‘‘
گوری بی سرجھکائے سنتی رہیں۔ کچی کلی سات سال میں نوخیز قیامت بن چکی تھی۔ حسن اور جوانی کا ایک طوفان تھا جو ان کے جسم سے پھوٹا نکلتا تھا۔
عورت کالے میاں کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ سارے حواس اسی ایک نکتہ پر مرکوز تھے۔ مگر ان کی قسم ایک میخ دار آہنی گولے کی طرح ان کے حلق میں پھنسی ہوئی تھی۔ ان کے تخیل نے سات سال آنکھ مچولی کھیلی تھی۔ انہوں نے بیسیوں گھونگٹ نوچ ڈالے رنڈی بازی، لونڈے بازی، بٹیر بازی، کبوتر بازی غرض کوئی بازی نہ چھوڑی مگر گوری بی کے گھونگٹ کی چوٹ دل میں پنجے گاڑے رہی۔ جو سات سال سہلانے کے بعد زخم بن چکی تھی۔ اس بار انہیں یقین تھا ان کی قسم پوری ہوگی۔ گوری بی ایسی عقل کی کوری نہیں کہ جینے کا یہ آخری موقع بھی گنوا دیں، دو انگلیوں سے ہلکا پھلکا آنچل ہی تو سرکانا ہے کوئی پہاڑ تو نہیں ڈھونے۔
’’گھونگٹ اٹھاؤ‘‘، کالے میاں نے بڑی لجاحت سے کہنا چاہا مگر مغلی دبدبہ غالب آگیا۔
گوری بیگم غرور سے تمتمائی سناٹے میں بیٹھی رہی۔
’’آخری بار حکم دیتا ہوں۔ گھونگٹ اٹھادو، ورنہ اسی طرح پڑی سڑ جاؤگی، اب جو گیا، پھر نہ آؤں گا۔‘‘
مارے غصہ کے گوری بی لال بھبوکا ہوگئیں۔ کاش ان کے سلگتے رخسار سے ایک شعلہ لپکتا اور وہ منحوس گھونگٹ خاکستر ہوجاتا۔
بیچ کمرےمیں کھڑے کالے میاں کوڑیالے سانپ کی طرح جھومتے رہے۔ پھر جوتے بغل میں دبائے اور پائیں باغ میں اترگئے۔
اب وہ پائیں باغ کہاں؟ ادھر پچھواڑے لکڑیوں کی ٹال لگ گئی۔ بس دو جامن کے پیڑ رہ گئے تھے اور ایک جغادری بدگو بیلے چمبیلی کی روشیں، گلابوں کے جھنڈ، شہتوت اور انار کے درخت کب کے لٹ پٹ گئے۔
جب تک ماں زندہ رہیں گوری بی کو سنبھالے رہیں ان کے بعد یہ ڈیوٹی خود گوری بی نے سنبھال لی۔ ہر جمعرات کو مہندی پیس کر پابندی سے لگاتیں ڈوپٹہ رنگ چن کر ٹانکتیں اور جب تک سسرال زندہ رہی تہوار پر سلام کرنے جاتی رہیں۔
اب کے جو کالے میاں گئے تو غائب ہی ہوگئے۔ برسوں ان کا سراغ نہ ملا۔ ماں باپ رو رو کر اندھے ہوگئے، وہ نہ جانے کن جنگلوں کی خاک چھانتے پھرے۔ کبھی خانقاہوں میں ان کا سراغ ملتا۔ کبھی کسی مندر کی سیڑھیوں پر پڑے ملتے۔
گوری بی کے سنہری بالوں میں چاندی گھل گئی۔ موت کی جھاڑو کام کرتی رہی۔ آس پاس کی زمینیں مکان کوڑیوں کے مول بکتے گئے۔ کچھ پرانے لوگ زبردستی ڈٹ گئے۔ کنجڑےقصائی آن بسے، پرانے محل ڈھے کر نئی دنیا کی بنیاد پڑنے لگی۔ پرچون کی دکان، ڈسپنسری ایک مرگھلا ساجنرل سٹور بھی اگ آیا، جہاں المونیم کی پتلیاں اور لپٹن چائے کی پڑیوں کے ہار لٹکنے لگے۔
ایک مفلوج مٹھی کی دولت رس کر بکھر رہی تھی۔ چند محتاط انگلیاں سمیٹنے میں لگی تھیں۔ جو کل تک ادوائین پر بیٹھتے تھے جھک جھک کر سلام کرتے تھے آج ساتھ اٹھنا بیٹھنا کسر شان سمجھنے لگے۔
گوری بی کا زیور آہستہ آہستہ لالہ جی کی تجوری میں پہنچ گیا۔ دیواریں ڈھے رہی تھیں۔ چھجےجھول رہے تھے۔ بچے کھچے مغل بچے افیون کا انٹا نگل کر پتنگوں کے پیچ لڑا رہے تھے۔ تیتر بٹیر سدھا رہ تھے۔ اور کبوتروں کی دموں کے پرگن کر ہلکان ہو رہے تھے۔ لفظ مرزا جو کبھی شان اور دبدبے کی علامت سمجھا جاتا تھامذاق بن رہاتھا۔ گوری بیوی کو لہو کے اندھے بیل کی طرح زندگی کے چھکڑے میں جتی اپنے محور پر گھومے جا رہی تھیں۔ ان کی کرنجی آنکھوں میں تنہائیوں نے ڈیرہ ڈال دیا تھا۔
ان کےلیے طرح طرح کے افسانے مشہور تھے کہ ان پر جنوں کا بادشاہ عاشق تھا۔ جونہی کالے میاں ان کے گھونگٹ کو ہاتھ لگاتے چٹ تلوار سونت کر کھڑا ہو جاتا۔ ہر جمعرات کو عشاء کی نماز کے بعد وظیفہ پڑھتی ہیں تب سارا آنگن کوڑیالے سانپوں سے بھر جاتا ہے۔ پھر سنہری کلغی والا سانپوں کا بادشاہ اگجر پر سوار ہوکر آتا ہے۔ گوری بی کی قرآت پر سر دھنتا ہے پو پھٹتے ہی سب ناگ رخصت ہو جاتے ہیں۔
جب ہم یہ قصے سنتے تو کلیجے اچھل کر حلق میں پھنس جاتے اور رات کو سانپوں کی پھنکاریں سن کر سوتے ہیں چونک کر چیخیں مارتے۔
گوری بی نے ساری عمر کیسے کیسے ناگ کھلائے ہوں گے۔ کیسے اکیلی نامراد زندگی کا بوجھ ڈھویا ہوگا۔ ان کے رسیلے ہونٹوں کو بھی کسی نے نہیں چوما۔ انہوں نے جسم کی پکار کو کیا جواب دیا ہوگا؟
کاش یہ کہانی یہیں ختم ہوجاتی۔ مگر قسمت مسکرا رہی تھی۔
پورے چالیس برس بعد کالے میاں اچانک آپ ہی آن دھمکے۔ انہیں قسم قسم کے لاعلاج امراض لاحق تھے پور پور سڑ رہی تھی۔ روم روم رس رہاتھا۔ بدبو کے مارے ناک سڑی جاتی تھی۔ بس آنکھوں میں حسرتیں جاگ رہی تھیں جن کے سہارے جان سینے میں اٹکی ہوئی تھی۔
’’گوری بی سے کہو مشکل آسان کرجائیں۔‘‘
ایک کم ساٹھ کی دلہن نے روٹھے ہوئے دولہا میاں کو منانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ مہندی گھول کر ہاتھ پیروں میں رچائی۔ پانی سمو کر پنڈا پاک کیا۔ سہاگ کا چکٹا ہواتیل سفید لٹوں میں بسایا۔ صندوق کھول کر بور بور ٹپکتا جھڑتا بری کا جوڑا نکال کر پہنا اور ادھر کالے میاں دم توڑتے رہے۔
جب گوری بی شرماتی لجاتی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے سرہانے پہنچیں تو جھینگے پر چکیٹ تکیے اور گوڈر بستر پر پڑے ہوئے کالے میاں کی مٹھی بھر ہڈیوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ موت کے فرشتے سے الجھتے ہوئے کالے میاں نے حکم دیا، ’’گوری بی گھونگٹ اٹھاؤ۔‘‘
گوری بی کےہاتھ اٹھے مگر گھونگٹ تک پہنچنے سے پہلے گر گئے۔
کالے میاں دم توڑ چکے تھے۔
وہ بڑی سکون سے اکڑوں بیٹھ گئیں، سہاگ کی چوڑیاں ٹھنڈی کیں اور رنڈا پے کا سفید آنچل ماتھے پر کھنچ گیا۔
مأخذ : بڑی شرم کی بات
مصنف:عصمت چغتائی