انجیر اور زیتون کے درختوں اور ستارۂ سحری کے پھولوں سے گھری ہوئی کسی جھیل کے خاموش اور پر سکون پانیوں میں زور سے ایک پتھر پھینکنے سے لہروں کا لحظہ بہ لحظہ پھیلتا ہوا ایک دائرہ سا بن جاتا ہے نا! یا جب کوئی تھکا ہارا مطرب رات کے پچھلے پہر اپنے رباب پر ایک آخری مضراب لگا کر ساز کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور اس کے نقرئی تاروں میں سے جو لرزتا، دم توڑتا ہوا آخری نغمہ بلند ہوتا ہے۔ یا پھرجیسے سفید یاسمین کی معصوم کلیوں کی مہک کی تیز لپٹوں میں ملفوف ہوا کا ایک جھونکا صبح ہوتے چپکے سے اندر داخل ہو کر شمع کو بجھا دیتا اور پھر اس بجھی ہوئی شمع میں سے جو ہلکا سا غمگین سا دھواں لہراتا ہوا اوپر کو اٹھتا ہے نا۔۔۔
لیکن ٹھہریئے بھئی۔ اس قدر شاعری کی ضرورت نہیں۔ بس یوں ہی سمجھ لیجئے کہ ایسی ہی کچھ ناقابلِ اطمینان، نا قابلِ تشریح سی کیفیت اس وقت شاہینہ پر چھائے جارہی تھی بلکہ حاوی ہو رہی تھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا، نہ جانے کیا کیا محسوس ہورہا تھا، کیوں کہ ہماری اس احمق سی دنیا میں بہت سی باتیں ایسی عجیب سی ہوجاتی ہیں جن کی تشریح نہیں کی جاسکتی اور نہ ان کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں آتی ہے۔جانے کیوں، پر ایسا ہوتا ضرور ہے، ہمیشہ، کہ جب، لیکن، خیر، کہانی بے ربط ہوجائے گی اور پھر آپ عقل مندوں کے نزدیک اس زندگی میں بہت سے گہرے گہرے اور اونچے اونچے نشیب و فراز ہیں ، اوریہ زندگی ایک دوراہا ہے۔ ایک چھوٹا سا المیہ ہے یا طربیہ ۔ یا المیہ اور طربیہ دونوں۔۔۔ یا ایک۔۔۔ خیر۔۔۔ افوہ۔۔۔!
کیوں کہ یہ رخشندہ کا خط تھا جسے وہ اب تک کم از کم پچیس مرتبہ پڑھ چکی تھی۔ اور اب اسے خوف ہورہا تھا کہ کہیں اسے ڈاکٹر عارف سے اپنی سائیکوانالسس نہ کروانی پڑ جائے۔
زندگی بھی واقعی کیسی عجیب چیز ہے۔ بے انتہا عجیب۔ بالکل بے سروپا ۔ رخشندہ کا خط اسی طرح قالین پر پڑا ہوا تھا۔ بھئی اللہ یہ کرسمس کی صبح تھی ۔ کیرل گانے والی ٹولیاں دور نکل چکی تھیں اور پہاڑی خوبانیوں کی ڈھلوان کے پرے کیتھیڈرل کی دوسری طرف سے بیگ پائپ کے تیز اور مدھم سروں کی لہریں برفانی ہوا میں تیرتی ہوئی دریچے کے شیشے سے ٹکرا کر اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ہرسال یہ بیگ پائپ بجانے والے ۲۵؍ دسمبر کی صبح کو اسے اسی طرح جگا دیا کرتے تھے اور وہ جھنجھلا کر پھر تکیے میں منہ چھپا لیتی تھی۔ مگر اب۔۔۔ اب تو ساری کہانی ہی ختم ہوچکی ہے۔ توبہ۔۔۔ افوہ۔۔۔ ہوا کے ایک جھونکے سے رخشندہ کا خط اڑتا ہوا آتش دان میں جاگرا۔ اس نے اٹھ کر دریچہ بند کردیا اوردیوان پر گر گئی۔ صبح کی ہلکی ہلکی قرمزی روشنی دیواروں پر پڑ رہی تھی۔ کتھیڈرل کا گھنٹہ بجے جارہا تھا اور Gants brough کا۔ ’’بلوبوائے‘‘دیوار پر سے جھانک کر مسکرا رہا تھا۔ ’’بلو بوائے۔‘‘ شاہینہ نے آنکھیں بند کر لینی چاہیں لیکن تصویر کے شیشے پر بہت سی دھندلی دھندلی رنگین پر چھائیاں ناچنے لگیں۔
’’جب میں بڑا ہو کرڈیڈی کی طرح میجر بنوں گا اور ری شی سے شادی کروں گا تو تم اورسلیم ہمارے ہاں مہمان آنا۔ میں راج پور میں یوکلپٹس کے جنگلوں میں ایک بہت بڑا اوراونچا سا چاکلیٹ اور کیک کا گھر بناؤں گا۔ پھر اس میں ری شی اسنو وائٹ کی طرح رہا کرے گی۔‘‘
’’ہشت ندیدے، کہیں ہر وقت چاکلیٹ کھاتے کھاتے بیمار جو پڑجاؤ گے تو جناب عالی میں تو کبھی آپ کو دیکھنے بھی نہیں آؤں گی، اور ڈبل فیس لوں گی ہمیشہ۔ سلیم تم بھی کبھی نہ جانا ان لالچی خرگوشوں کے گھر۔ میاں عمر بھر پڑے رہیں گے یوں ہی۔ اور ہم تو اپنے ٹھاٹ سے ہوائی جہاز میں پھریں گے۔
صبح کو چاند میں جاکر چائے پی، دوپہر کو میکسیکو پہنچ گیے، رات کو گھر۔ آہاکیسے مزے کی زندگی ہوگی۔ لیکن رخشندہ نے لکھا تھا: ’’خدا را شی شی میرا خط پڑھ کر اپنے آپ کو غمگین مت کر لینا۔ میں تم کو پورے چھ سال بعد لکھ رہی ہوں۔ کتنی طویل مدت ہے اور میں کس قدر احسان فراموش۔ یقینا مجھے تم سے معافی مانگنی چاہئے۔ ایک یتیم اور کمزور لڑکی، جس نے تمہارے گھر پر ، تمہارے گھر والوں کے رحم و کرم پر، پرورش پائی ہو اور وہ ایسی باغی اور سرکش نکل جائے۔ سوچو تو شی شی میں ہمیشہ ہنسنے والی ری شی کیسی عجیب باتیں لکھ رہی ہوں کیوں کہ زندگی نے مجھے رونا بھی سکھا دیا ہے۔ شاید میں اب بھی تم کو خط نہ لکھتی اور تم کو معلوم نہ ہونے پاتا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہی ہوں۔ لیکن گذشتہ ہفتے پونا سے بنگلور آتے ہوئے میری ایمبولینس کار ایک اور فوجی لاری سے ٹکرا کر کھڈ میں گر گئی اور میری یونٹ کے آفیسر کمانڈنگ کو مجھ سے پوچھ کر تمہیں میرے زخمی ہوجانے کی اطلاع دینی پڑی کیوں کہ اس وسیع دنیا میں میری Next of kin تم ہی ہو۔
پریشان نہ ہونا۔ اب میں اچھی ہوتی جارہی ہوں۔ کرسمس آنے والا ہے اورنہایت سرگرمی سے اس کے استقبال کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ کاغذی ربن اور رنگین جاپانی قندیلیں ، مصنوعی مسکراہٹیں اور لالہ کے پھولوں سے بھرے ہوئے گل دان۔ کینٹین میں رات گیے تک گیتوں اور قہقہوں کا شور رہتا ہے۔ اپنے گھروں سے ہزاروں میل دور پڑے ہوئے امریکن اور آسٹریلین فوجی ہر وقت خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر وقت چیخ چیخ کر گاتے رہتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو خود فریبی میں مبتلا رکھنے کا کتنا شوقین ہے۔ ’’ایلس بلو گاؤں‘‘ کا ریکارڈ تیزی سے بج رہا ہے۔ یاد ہے ’’ بلو بوائے‘‘ کون تھا؟ اللہ! اچھا اب ختم کرتی ہوں۔ ہمارا نیا میجر ابھی اپنا راؤنڈ لینے کے لیے آنے والا ہے۔ اس نے ابھی مجھے لکھنے پڑھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ یا اللہ ! میں اس قدر احمق سی کیوں ہوتی جارہی ہوں۔ صبح وہ مجھ پر جھکا ہوا میرا ٹمپریچر لے رہا تھا اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً وہاں سے ہٹ جائے، میرے راستے سے الگ ہوجائے اور پھر وہ نئے راگ سنانے پر نظر آتا ہے۔ اس کی نیلی آنکھیں دیکھ کر مجھے وہ گزرے دن اور پرانی باتیں اس قدر تیزی سے یاد آنے لگتی ہیں کہ جنہیں میں اس چھ سال کے عرصے میں بھولنے میں خاصی کامیاب ہوچکی ہوں۔ خدا کے لیے شی شی مسکراؤ۔‘‘
دس برس پہلے کرسمس کی ایسی ہی برفانی صبح تھی جب رخشندہ بھاگی بھاگی اس کے کمرے میں آئی تھی اور اس سے کہا تھا: ’’کاہل بلّی اٹھو، مہمان آگیے ہیں۔‘‘اور شاہینہ یہ خبر سنتے ہی لحاف پرے پھینک کر برش سے جلدی جلدی بالوں کو ٹھیک کر ابّا جان کے کمرے میں پہنچی تھی جہاں وہ مہمان بیٹھے تھے جو اپنے بچوں کو سینٹ جو زفز اکیڈیمی میں داخل کر نے کے لیے آئے تھے۔ برآمدے میں ڈھیروں اسباب پھیلا پڑا تھا اور ان بچوں کی گوری سی ممی سیاہ فرکے لبادے میں لپٹی اس کی امی سے باتیں کر رہی تھیں۔ ان کے ڈیڈی بھی باتوں میں مصروف تھے اور’’ بے حد شریر، بڑی بڑی، نیلی آنکھوں اوربھورے بالوں والے لڑکے نہایت مسکین اور غمگین صورت بنائے ایک ہولڈال پر چڑھے بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک برابر ٹانگیں ہلائے جارہا تھا اور دوسرا جس کی ناک سردی اور زکام کی وجہ سے ٹماٹر کی طرح سرخ ہورہی تھی، رخشندہ کے ہاتھ سے چائے دانی گرانے کی فکر میں تھا جو میز پر جھکی ہوئی چاے بنا رہی تھی۔
’’تم نے اپنی بہنوں کو سلام نہیں کیا۔‘‘
’’ہم نہیں کیا کرتے لڑکیوںکو سلام۔ ہونہہ، احمق گلہریاں۔‘‘
’’ہائیں اسلم بری بات۔‘‘
ان کے ڈیڈی نے ڈانٹا۔
’’اچھا ہم سے دوستی نہیں کروگے؟ لٹل بوائے بلو۔‘‘
’’تمہیں اسکیٹنگ آتی ہے؟ باکسنگ کرو گی؟ ہمیں اپنی بے وقوف گڑیاں دکھاؤ۔‘‘ اور بہت جلد وہ چاروں کیڈ بری چاکلیٹ کے البم، مکینو، لیڈی سیلنڈ، مکی ماؤس اور ریل کے انجنوں کے ڈھیر میں منہمک ہوگیے، جیسے ہمیشہ کے ساتھی تھے اور زندگی بھر اسی طرح ایک ساتھ خوب صورت اور رنگین کھلونوں سے کھیلتے رہیں گے۔
اسلم نے سینئر کیمبرج فرسٹ گریڈ میں پاس کیا، ’’ بلو بوائے کیا انعام لوگے بتاؤ؟‘‘رخشندہ نے پوچھا۔
’’ہونہہ ، بہت انعام دینے چلی ہیں۔ ذرا شکل تو اپنی آئینے میں ملاحظہ فرما لیجیے۔ میں خود تم کو نہ دے ڈالوں گڑیا ٹیڈی بئر گوبلن۔ مانگ کیا مانگتی ہے لڑکی؟‘‘
’’سر تمہارا گدھے کی دم کہیں کے۔‘‘
’’سر تو فی الحال نہیں دے سکتا۔ اس کی مجھے خود کافی ضرورت ہے اور جو چاہے لے لو۔ رولر اسکیٹس کی نئی جوڑی خریدی ہے، لوگی؟‘‘
’’جی میرے پاس خود ہیں اسکیٹس۔ آپ اپنے پاس ہی رکھیے اپنے۔‘‘
’’واللہ کیا آپ کے اسکیٹس ہیں۔ نیلام میں خریدے تھے نا۔ اور اسکیٹنگ آپ کس قدر نفیس کرتی ہیں۔۔۔ گویا۔۔۔ موری نیا ڈگمگ ڈولے رے۔ اور کرکٹ۔۔۔‘‘
’’کرکٹ کھیلتی ہیں تو کرکٹ سکھا کر آپ نے میری جان پر کیا احسان کردیا۔ آپ تو مر کر بھی ایک پل اوور نہیں بن سکتے۔‘‘
’’اگر ہمیں پُل اوور بننے ہوتے تو پھر خدا نے لڑکیاں کس مصرف کے لیے بنائی تھیں۔‘‘
نیلو فر اور نرگس کے شگوفوں سے گھرا ہوا راستہ اسی طرح طے ہوتا رہا لیکن اگر منزلیں مختلف نہ ہوتیں تو ستاروں کی راہوں کا یقین کسے آتا؟ اور اب اتنے برسوں کے بعد شاہینہ پھر اسی سایہ دار روش پر آہستہ آہستہ قدم رکھتی ہوئی نیچے اتر رہی تھی جس پر اس کے دل کا ساتھی کمل اس لیے اس کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا کیوں کہ وہ اس کے طبقے اور اس کے فرقے سے تعلق نہ رکھتاتھا اور اسلم بے دلی سے سیٹی بجاتا ہوا اس کے ساتھ ساتھ اس لیے آرہا تھا کیوں کہ وہ ایک نائٹ کی لڑکی تھی اور وہ اس کے منگیتر کی حیثیت سے کرسمس گزارنے دہرہ دون مدعو کیا گیا تھا۔ پھر وہ آلوچے کی ٹہنیوں کے نیچے چلتے چلتے یک لخت رک گئی اور اس کی طرف مڑکے کہنے لگی، ’’ٹھیک ٹھیک بتاؤ کیا تم واقعی میرے ساتھ خوش رہ سکو گے؟‘‘
’’کوشش تو کروں گا۔‘‘اس نے بے تعلقی سے ایک پتّا توڑ کر کہا۔
’’اسلم ! میں تم سے التجا کرتی ہوں بنگلور واپس چلے جاؤ۔‘‘
’’اوہو، رخشندہ پر کرم کرنا چاہتی ہیں آپ۔ بہت جلد اس کا خیال آیا۔ اطمینان رکھو، وہ تم سے ایک اور احسان کی آرزو مند نہیں ہے۔ وہ پوری طرح تندرست ہونے سے پہلے ہی ہسپتال چھوڑ کر کہیں اور جاچکی ہے۔‘‘ اسلم نے بے پروائی کے ساتھ کہا۔ ہوا کا جھونکا پتوں میں سے سرسراتا ہوا نکل گیا۔ اسلم یکایک نہایت تلخی سے بولا: ’’مجھے تم سے نفرت ہے۔ تمہارے گھروالوں سے نفرت ہے۔ سچ کہتا ہوں مجھے اس دن سے تم سے سخت نفرت ہے جب میں نے پہلی مرتبہ بچپن میں تم کو رخشندہ کے ساتھ ایک خادمہ کا سا برتاؤ کرتے دیکھا تھا۔‘‘ وہ پھاٹک تک پہنچ گئے : ’’اچھا اب اجازت ہے، خدا حافظ۔‘‘ وہ اپنی ڈوج میں بیٹھا اور وہ زنّاٹے سے ڈھلوان پر سے اترتی ہوئی کتھیڈرل کے دوسری طرف جا کر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
اور پھر بیگ پائپ اسی طرح بجتا رہا۔ ہوا نے دریچے کا پٹ کھول دیا تھا۔ شاہینہ نے اٹھ کر دوبارہ اسے بند کردیا۔ باہر بارش کے پہلے قطروں سے بھیگی ہوئی سڑک دور تک خاموش اور سنسان پڑی تھی۔ یہ اجنبی راستے نہ معلوم کیوں شروع ہوئے اور کہاں جاکر ختم ہوں گے؟
مأخذ : ستاروں سے آگے
مصنف:قرۃ العین حیدر