اپنا خون

0
220
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

سمجھ میں نہیں آتا، اس کہانی کو کہاں سے شروع کروں؟

وہاں سے جب چھمی بھولے سے اپنی کنواری ماں کے پیٹ میں پلی آئی تھی اور چار چوٹ کی مار کھانے کے بعد بھی ڈھٹائی سے اپنے آسن پر جمی رہی تھی اور اس کی میانے اسے اس دنیا میں لانے کے بعد اپلوں کے تلے دباتے دباتے ممتا کی ان جانی سی کیل کلیجے میں چبھنے پر چھاتی سے لگا لیا تھا۔

یا وہاں سے جب چھمی کی ماں کو جمن مردار خود از راہ کرم بیاہ کر لے گیا تھا۔ کیوں کہ تلے اوپر اس کی تین چار بیویا ں ٹھکانے لگ چکی تھیں اور اس کی اندھی ماں کی دیکھ بھال کے لیے اس کے تینوں لڑکے بہت چھوٹے تھے اور اس وقت چھمی بھی اپنی حرافہ ماں کے ساتھ ٹین کی صندوقچی اور مرمروں کی پوٹلی کے ساتھ بیل گاڑی میں دھری جمن کے گاؤں پہنچ گئی تھی۔۔۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ ایک دن اپنی الہڑ ماں کی کوکھ میں پہنچ گئی تھی۔

یوں تو کہانی وہاں سے بھی شروع کی جا سکتی ہے جہاں لگان نہ دینے کی وجہ سے نایب کے جوتوں کی تڑاتڑ سے جمن کا جوار باجرے سے بنا ہوا اودا اودا خون ناک سے راستے نکل رہا تھا۔ اور کوئی راستہ نہ پاکر اس نے تیرہ برس کی چھمی کو اس کی ماں کا لہنگا پہنا کر سولہ برس کی عورت بنانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی اور پھر نایب کے جوتے تڑتڑانا بند ہوگئے تھے اور چھمی محل کے زنانہ شاگرد پیشے میں یوں پہنچ گئی تھی جیسے وہ ہمیشہ وہاں پہنچنے کی عادی تھی۔

نہیں، شاگرد پیشے میں تو کہانی بالکل اتھل پتھل ہونے گی تھی۔ دوسری باندیوں نے اس کا لہنگا اٹھا اٹھا کر اس کا خوب کھیل بنایا تھا۔ جیسے پنجرے میں نئی چڑیا ڈال دی جائے تو ساری چڑیاں اس پر ٹوٹ پڑتی ہیں، اسی طرح چھمی پر ٹھونگوں کی بوچھار ہونے لگی۔۔۔ مگر چھمی پھولوں کی سیج پر تو پلی نہ تھی جو چٹکیوں طمانچوں کو خاطر میں لاتی۔ اور نہ لہنگا اٹھ جانے سےاس کی شان میں کوئی بٹہ لگ جانے کا خطرہ تھا۔ لہنگے سے اسے یوں بھی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک وہ صرف میلے ٹھیلے کے موقع پر گھگریا پہنتی تھی، جو لوٹتے وقت فوراً اتروا لی جاتی تھی کہ کہیں کیچڑ دھول میں ستیاناس نہ لگ جائے اس کا روزانہ کا لباس چند چیتھڑے تھے جنہیں وہ لنگوٹ کی طرح کس کے باندھ لیا کرتی تھی۔ ماں کے گھیردار لہنگے سے اسے قطعی دلچسپی نہ تھی۔ پھر نیفے میں بسی جوئیں الگ کھسوٹ رہی تھیں۔ جب لونڈیا ہنستے ہنستے تھک گئیں تو نئی شرارتیں ایجاد کرنے لگیں۔

- Advertisement -

’’اری نامراد تونے خانم صاحب کو مجرا کیا کہ نہیں؟‘‘ گل بدن بولی۔

’’سلام کیا تھا۔ یہ مزرا کیا؟‘‘

نو بہار تو زمین پر لوٹن کبوتر بن گئی۔۔۔ ’’اری سلام نہیں مجرا۔ ابھی تک نہیں کیا تو بس سمجھ لے تیری خیر نہیں۔ دیکھ پہلے خانم صاحب کے سامنے جاکے تین بار خوب جھک کر سلام کر۔۔۔ ایسے شبو نے سلام کر کے بتایا۔ ’’سمجھی؟‘‘

چھمی کے من بھر کی منڈیا ہلا دی۔

’’ہاں، اور دیکھ پھر نہایت ادب سے لہنگا اٹھا دینا۔۔۔‘‘ صنوبر کھلکھلانے لگی۔

’’چپ رہو گدھیو! ہنسنے کی کیا بات ہے جی!‘‘

’’اور دیکھ، مروے شونی ہنسنا نہیں، ورنہ یہ سمجھ لے کھود کے وہیں چوکی تلے گاڑدیں گی۔‘‘

چھمی سمجھ گئی۔

زمردی خانم، لونڈیوں کی دروغن، عصر کی نماز سے فارغ ہوکر مصلے پر بیٹھی ہزار دانہ پھیر رہی تھیں۔ حور و قصور دماغ میں رچا ہوا تھا۔ نگاہوں میں تقدس اور چہرے پر دھڑیوں نور برس رہا تھا۔ ان کا سن بھی چھمی کا سا تھا۔ یوں گوشت کا پہاڑ تھوڑا ہی تھیں۔ چھمی نے سلام کیا تو وہ عالم بالا کے تصور ہی میں کھوئی ہوئی تھیں مگر جب لہنگا اٹھا تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ایک دھماکے کے ساتھ وہ بنجر زمین پر آرہیں۔

کہانی یہاں بالکل دوسرا ہی پلٹا کھا سکتی تھی۔ شاید چھمی پھر جمن کے سر پر پٹخ دی جاتی، جہاں پھر جوتے منڈلانے لگتے اور اودا خون بہنے لگتا۔

مگر ایسا ہوا نہیں کہ کیچڑ میں سچا موتی رل رہا ہو تو جوہری کی آنکھ دھوکا نہیں کھاتی۔ چھمی کی میل جمی ٹانگوں پر سنہرے رونگٹے دیکھ کر زمردی خانم نے فوراً بھانپ لیا کہ موتی کیچڑ میں سنا ہوا ہے۔ انہوں نے اشارے سے چھمی کو پاس بلایا۔

لونڈیوں باندیوں کی گھگی بندھ گئی۔۔۔ اب خانم جھک کر سلیم شاہی جوتی اٹھائیں گی اور پھٹکی پھٹکی کرکے چھمی کا بھیجا دالان در دالان چھٹک جائے گا۔ نہیں۔۔۔ شاید بیٹھے بیٹھے اس کے پیٹ میں لات ماریں گی۔ خانم کی لات میں عربی گھوڑی جیسا زانٹا تھا۔ لطیفہ کے پیڑو پر یہی گھوڑی کی لات پڑی تھی جو خون کے اتنے دست آئے کہ وہ چل دی اللہ میاں کے ہاں۔

مگر خانم صاحب نے نہ عربی گھوڑی والی دولتی جھاڑی، نہ زرکار سلیم شاہی سنبھالی۔ وہ کالی ٹانگوں پر سونے کے تاروں کی نقاشی دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ پھر انہوں نے اسے سب جگہ سے ناپا ٹٹولا۔ سب کچھ جمع جوڑ کر تیرویں سال کی رقم سے تقسیم کیا۔ جواب؟ لاجواب۔

خانم کے ہاتھوں سے نہ جانے کتنی باندیاں کاٹ چھانٹ کے بعد حسن و جوانی کے مرقع بن کر نواب صاحب کی سیج کو گرما چکی تھیں۔ کیا معرکے کی نگاہ پائی تھی، پیٹ کی لونڈیا کو بھی ناپ تول کر چٹکی بجاتے میں بھانپ لیتی تھیں کہ کوکھ میں پدمنی براج رہی ہے یا کوئی چڑیل پیر پسار رہی ہے۔ ناپ تول سے یہ تو عورت بنتی ہے۔ کولہے، کمر، سینہ، بازو، پنڈلیاں، رانیں، گردن۔

حسن کے مقابلوں میں جیسے پور پور ناپی جاتی ہے، بالکل اسی طرح خانم کی نگاہوں کا فیتہ کام کرتا تھا۔

ہاں، اب یہاں سے اصل کہانی شروع ہوئی۔ خانم صاحب نے نورن وائی کو طلب فرمایا۔ اسے لیبارٹری یعنی حمام تیار کرنے کا حکم دیا۔ پہلا ہنگامہ تو چھمی کے جوؤں بھرے سر نے کھڑا کردیا۔ اس کا علاج فوراً قینچی سے کر دیا گیا۔ خشخاشی بال کرنے کے بعد بھی تالو سے چمٹی ہوئی جوئیں بالکل چھمی کی طرح سخت جان ثابت ہوئیں۔ دھو پھٹک کر چھمی چٹائی پر پھیلا دی گئی۔ آنکھیں اور ناک کے نتھنے چھوڑ کر اس کے بدن پر کوئی کتھئی رنگ کا لعاب دار مسالہ تھوپ دیا گیا۔ پھر اسے کھولتے ہوئے پانی سے دھویا گیا۔ اس کے بعد کوئی دوسرا لیپ چڑھایا گیا۔

چھمی چپ چاپ سسکیاں لیتی رہی۔۔۔ خانم صاحب اس کے کوفتے پکا رہی ہیں، مسالہ لگا کر چھوڑیں گی، پھر اسے سیخوں پر چڑھا کر انگیٹھی پر سینکا جائے گا پھر کتوں کو کھلایا جائے گا۔ ہفتہ بھر چھمی دھلتی رہی چھنتی رہی۔ اس کی نس نس پھوڑے کی طرح ٹپکتی رہی۔ دو دن بخار بھی چڑھا۔ پھر لیپ ختم ہوکر مرہم چپڑے جانے لگے اور چھمی کی ٹیسیں کم ہوئیں۔

ہفتہ بھر گزرنے کے بعد وہ بالکل پانی میں پھوٹی ہوئی کنول کی کوپل کی طرح نکل آئی۔ اس عرصے میں اسے دودھ اور شہد کے سوا کچھ کھانے پینے کو نہ ملا۔ بھوک کے مارے وہ بلبلاتی رہتی مگر کوئی شنوائی نہ ہوتی۔ موٹی بیجھڑ کی روٹی اور چٹنی کھانے والی کانینیوں اور شوربوں سے کیا بھلا ہوتا۔ دس بارہ خربوزے ایک سانس میں صاف کرجانے والی سردے کی ایک قاش سے کیا۔ ایک دن وہ چپکے سے شاہی مطبخ میں پہنچ گئی اور اتنا ہبڑ ہبڑ کر کے کھایا کہ تین دن تک دستوں کے مارے ہلکان ہوا کی۔ پھر اسے مسہل دیے گئے، جو شاندے اور معجونیں چٹائی گئیں اور پھلوں کے رس حلق میں ٹپکائے گئے۔

چھ مہینے بعد خانم صاحب نے اسے اپنی تجربہ گاہ سے جب نکالا تو وہ چودہ سال کی ہو چکی تھی۔ اس کا رنگ کافور کی طرح سفید ہو گیا تھا۔ بال کندھوں کو چھو لیتے، اگر خم دار نہ ہوتے۔

اب انہوں نے اسے زیتون کے تیل میں ڈبو کر جڑی بوٹیوں میں بسائے ہوئے پانی سے بار بار دھویا۔ صابن کے بغیر صرف پانی کی دھار سے تیل کی چکنائی چھڑانے میں جو محنت اور وقت صرف ہو، اس کا تو کچھ حساب ہی نہیں۔ پھر گھسا ہوا صندل اس کے انگ انگ پر مل کر پپڑیاں چھٹائی گئیں۔ زائد بال موچنے سے اکھاڑے گئے۔ پھر اسے پنڈلیوں پر چپکا ہوا کورے دھلے نین سکھ کا آڑا پاجامہ اور شبنم کا زرکار کرتا پہنایا گیا۔ اس کے بالوں کے چھلے سنوار کر کارچوبی ٹوپی لگائی گئی۔ موتی جڑی چوڑے گریبان کی صدری اور تلے کی موجڑی پہنائی گئی۔

جب چھمی پھولوں کے گجرے لے نواب بیگم کی خواب گاہ میں پہنچی تو وہ نہ ہلیں نہ جلیں، بس گم صم مخملیں تکیے پر کہنی ٹکائے اسے دیکھتی رہیں۔

’’غضنفر نواب،‘‘ بڑی شکل سے ان کے ہونٹ سسکی میں ہلے۔

مجرے کے بعد چھمی نے دو زانو ہو کر گجروں کا تھال ادب سے پیش کیا۔

کانپتے ہوئے سہمے سہمے ہاتھ سے انہوں نے سونے کے چھلوں کو چھوا۔ کنپٹی پر سنہرا غبار سالرز رہا تھا۔ کلمے کی انگلی بہکتی ہوئی رخسار کے بھورے تل کو چومتی ہونٹوں پر کانپنے لگی۔ چرکا سا لگا اور انہوں نے کہنی میں منہ چھپاکر ایک آہ بھری۔

’’غارت ہو،‘‘ انہوں نے آواز گھونٹ لی۔

چھمی کے ہاتھ سے پھولوں بھرا تھال چھوٹ پڑا۔ خانم صاحب نے جھک کر اسے ٹہوکا دیا اور وہ بھد سے بیٹھ گئی۔ انگلی کے اشارے سے انہوں نے اسے دفعان کیا اور پھول اٹھانے لگیں۔

’’حضور! خانم صاحب نے نواب بیگم کی پیشانی سے لٹ ہٹائی۔‘‘

’’غارت ہو،‘‘ نواب بیگم چھلک پڑیں۔ مگر خانم صاحب غارت نہیں ہوئیں، وہیں پٹی پر ٹک گئیں۔ اور ہولے ہولے بیگم کی پنڈلیاں سوتنے لگیں۔ نواب بیگم سسکتی رہیں۔ انہوں نے پاؤں جھٹک دیے۔ خانم صاحب نے زندگی بھونچال کے جھٹکے سہہ کر گزاری تھی۔ وہ جمی رہیں۔

’’لونڈی سے خطا ہوئی تو اسی دم غلاموں باندیوں کو حکم دیجیے کہ محل سرائے کے ستون سے باندھ کر سرکاری کتے چھوڑ دیے جائیں۔ یا حکم فرمائیں تو باندی کے صندوقچے میں سم قاتل کی کمی نہیں، ایک بوند اس زمین کے بوجھ کو دوزخ میں جھونکنے کے لیے کافی ہوگی۔‘‘

بیگم نواب سسکتی رہیں۔ پاؤں نہ جھٹکے۔

’’مجھے شبہ ہوا تھا نواب بیگم، اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟‘‘

بیگم نواب کی سسکیاں طول پکڑنے لگیں۔

پندرہ برس پہلے۔۔۔ نواب حضور کی بھولی بات بنی وہ سانسیں گن رہی تھیں۔ محل سرا کی سنگین دیواریں تھیں اور نواب بیگم کی دھڑکتی ہوئی نبضیں محلوں کے سارے شعبدے پھیکے پڑ چکے تھے۔ نواب بہادر انہیں چکھ کر اور کہیں منہ مار لیتے۔ الابلا سب ہڑپ کر جاتے۔ نئی تھالی سامنے چنی جاتی، دوچار مہینے میں اس سے پیٹ میں اپھارا پیدا ہونے لگتا۔۔۔ کھٹی ڈکاریں آنے لگتیں، فوراً دوسری ڈش کا انتظام ہو جاتا۔ نواب بیگم کو اس بات کی کوئی شکایت بھی نہ تھی، کیوں کہ نوابوں کا یہی دستور ہوا کرتا تھا۔ خود ان کے والد بزرگوار کے توشہ دان میں تو ولایت تک کے مرغن ترمال آتے جاتے رہتے تھے۔ رجواڑوں میں ان کے ٹیسٹ اور پہنچ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ویسے ان کی منہ چڑھی حبشی حلوا سوہن کی ٹکیا مبروکہ کو جو درجہ میسر ہوا کسی کو نہ ہوسکا۔

مگر نواب بہادر تو گندگی کی پوٹ تھے۔ ان کے حیوانات کی حدوں کو پار کرتے ہوئے پیار پربیگم کا خون کھول پڑا۔ نواب بہادر اڑ گئے۔ وہ بھی اڑگئیں۔ بیگم تیر، تلوار پر اتر آئیں اور ان سے پردہ کرلیا۔۔۔ اب وہ ان کی خواب گاہ کی طرف نہیں پھٹک سکتے تھے، ویسے جشن جلوس کے موقعوں پر وہ پیش پیش رہتیں سجے ہوئے ہاتھی گھوڑوں کی طرح۔

نواب بہادر کی جوتی سے۔ وہ اڑگئیں تو چولہے بھاڑ میں جائیں۔ انہوں نے اور نکاح کرلیے۔ جب تک بیوی ہضم ہوتی عیش باغ میں رہتی۔ جہاں باسی ہوئی اور جی سے اتری، محل سرا پر پہنچادی جاتی۔ تھوڑے دن پھنکارتی، بل کھاتی، پھر پھن پٹخ کر چپ ہوجاتی۔ بیگم کا رتبہ اپنی جگہ۔ وہ اتری کمان کی فہرست میں داخل ہوکر محل کے ایک کونے میں اپنی ایک چھوٹی سی دنیا بسا لیتی۔ پھر کسی دوسرے کے دن پورے ہو جاتے اور وہ بھی آجاتی۔ اس کے بعد اسے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ویسے تو نواب بہادر کی جھوٹن پر ساری رعایا پلتی تھی، مگر ان کی جھٹالی عورت فورا سات تالوں میں قید کردی جاتی تھی۔ رشتے دار ملنے آسکتے تھے، کھانے پینے کی افراط کپڑے زیور کے انبار، لیکن مرد کی بو باس سے محروم۔

کبھی کبھی پرانی بیوی کی کوئی بات یاد آجاتی، نواب بہادر اسے فورا طلب کرلیتے۔ نگوڑی کے خوشی سے ہاتھ پیر پھول جاتے۔ باقی بد نصیب اسے بن ٹھن کر پیا کی باہوں میں جانے کی تیاریاں کرتے دیکھتیں تو انہیں ہسٹریا کے دورے پڑجاتے، اور خانم صاحب اپنا طلسمی صندوقچہ لے کر مدد کو دوڑتی۔

بارہا نواب بہادر نے بڑی بیگم کو بھی دعوت نامہ بھیجا۔ کچھ عرصہ سے اپنے پیر صاحب کے حکم پر وہ بڑی پابندی سے باری باری سب بیویوں کو ان کا حق دینے کو تیار تھے، مگر بڑی بیگم نے بڑی گستاخی سے اپنا حق ٹھکرا دیا۔ انیس برس کی مجروح، سسکتی جوانی کا پہاڑ اٹھائے دندناتی چلی جارہی تھیں کہ خلیرے بھائی غضنفر علی خاں ولایت جانے سے پہلے شکار و کار کی دھن میں ریاست میں آنکلے۔ رشتہ کے بھائی تھے۔ تین سال چھوٹے تھے۔ ہٹھ چھٹ واقع ہوئے تھے۔ نواب بیگم کے چھکے چھڑا دئے۔

کیا لہلہاتے، مسکراتے دن تھے وہ بھی، دھما چوکڑی ہو رہی ہے، سوانگ بھرے جارہے ہیں۔ آپا دھاپی، مار کٹائی سے بھی عار نہیں۔ ہنسی ہے کہ آبشار بن کر ٹوٹی پڑتی ہے۔ بواب بیگم کی ساری بے رخی بھولا ہوا خواب ہوگئی، بچپن لوٹ کر ہمکنے لگا۔ بھونڈے بھونڈے تماشے ہوتے۔ چار لونڈیوں کو حکم دیا جاتا، کردو ایک دوسری کو ننگا۔ جو جیتے گی سونے کا کڑا یا جڑاؤ ہیکل انعام میں پائے گی۔ اور پل پڑتیں نامرادیں، ایک دوسرے پر وہ گھمسان مچتی کہ ہنستے ہنستے آنسو نکلنے لگتے۔ کپڑوں کی دھجیاں اڑنے لگتیں۔ لہولہان ہو جاتی۔ انجام کار جسم پر بس پاجامے کا نیفہ اور پانچوں کی موریوں کے چھلے پڑے رہ جاتے۔ پھر ہار جیت الگ رکھ کر سب کو انعام ملتا۔

جب غضنفر میاں ہنسنے پر آتے تو انہیں دین دنیا کا ہوش نہ رہتا، گر گر پڑتے۔ بہت زیادہ ہنسنے پر بیگم نواب کے اوپر آگرتے کبھی بالکل ہی کڈمڈ ہو جاتے۔ بڑی مشکل سے بیگم ان کے پرت اتار کر ہٹاتیں۔ شوخی، شرارت تو ان کی عادت تھی۔ بچہ ہی تو تھے۔ ذرا ذرا سی مونچھیں پھوٹی ہیں۔۔۔ وہ بھی شاید بار بار مونڈنے سے۔ سر پر تاج تو اللہ کا رکھا ہوا تھا۔ بالکل مہروں کا کچا سونا سر پر ڈھیر تھا۔ دانت کچکچا کر نواب بیگم سنہرے گچھے پکڑ کر ہلا ڈالتیں کچھ لحاظ ہی نہیں سور کو! ہاتھ ہیں کہ بالکل دیوانے! یہ کھیل صاحب زادے نے آنکھ کھول کر سب ہی کو کھیلتے دیکھا تھا۔ باندیاں آپس میں نوچتیں، کھسوٹتیں باہر نوکر چاکر کھلی کھلی باتیں کرتے۔ آتی جاتی کا بکٹا بھرلیا، کلہ نوچ لیا، کمر کھسوٹ لی۔ صاحب زادیاں تو الگ تھلگ سینت کر پالی جاتیں، ہاں لونڈیاں گود ہی میں ہتھکنڈے سکھادیتیں۔

وہاں دیکھنے ٹوکنے والا کون تھا۔ غضنفر علی کوئی گستاخی کر بیٹھتے تو لونڈیاں ٹھٹھے لگانے لگتیں۔ نواب بیگم کا دم لبوں پر آجاتا۔ کبھی گھڑک دیتیں، کبھی جان بوجھ کر انجان بن جاتیں۔ مگر چھینا جھپٹی سے بات آگے بڑھنے لگتی تو وہ فوراً بندھ باندھ کر سمٹ جاتیں۔ اور باادب باملاحظہ ہو جاتیں۔ انہیں بے قاعدگی سے سخت نفرت تھی۔ چوٹی گوندھنے میں اگر مانگ میں ایک بال بھی ادھر کا ادھر ہو جاتا تو بے کل ہوجاتیں اور ساری رات تکیے پر سر پٹختیں۔ ان سے کبھی کوئی لغزش نہیں ہوئی۔ سلگنے کی عادی تھیں، بڑھکنے کی شرط نہیں تھی۔ مگر غضنفر میاں ٹھہرے کل کے لونڈے۔ ڈھڑ ڈھڑ جلنے لگے۔ بھوک لگے کھالو، پیاس لگے پی لو، نیند آئے سو جاؤ۔ انہوں نے یہی سیکھا تھا۔ بیگم کی حدبندیوں پر الف ہوگئے۔ نگاہیں کھینچیں تو اگاڑی پچھاڑی تڑانے لگے۔ چند مصاحبین کی رائے سے ادھر ادھر شکارکے لیے چل دیے۔ بیگم کی دنیا اجڑ گئی۔ محل سرا میں موت سی ہوگئی۔ جاسوسوں نے خبر دی کہ صاحب زادے چوروں چماروں پر موتی رول رہے ہیں۔ ایک عدد موتی چھمی کی صورت میں الھڑ کمہارن کی کوکھ میں جلوہ افروز ہوگیا۔ ولایت جانے کا وقت آگیا اور وہ رخصت ہوئے لیکن ہوائی جہاز کے حادثے میں ختم ہوگئے۔ بیگم نے برسوں چپکے چپکے ماتم کیا۔ اگر اس دن انہوں نے غضنفر میاں کو دھتکارا نہ ہوتا تو شاید یہ موتی ان کی پیاسی کوکھ کو سیراب کر دیتا۔ یہ تو ان کی امانت تھی جس میں اب خیانت ہوگئی۔۔۔ تو کیا چھمی ان کی کوئی نہیں؟ کوئی رشتہ نہیں؟ کیا کسی کی مرغی جا کر دوسرے کے ڈربے میں انڈا دے آئے تو مرغی کے مالک کا اس پر حق نہیں رہتا؟ جینے کے لیے انسان کیسے کیسے ہتھکنڈے چلاتا ہے۔ محرومیوں اور تنہائیوں سے اکتا کر تخیل کی دنیا بسا لی۔ زخمی دل نے مرہم چاہا اور پالیا۔۔۔ جیسے سیپی اپنے زخم کو موتی بناکر سینے میں چھپا لیتی ہے۔

’’لونڈی نے سوچا، آخر اپنا خون ہے۔ شاگرد پیشے میں نیچ کمینی عورتیں اسے کسی کرم کا نہیں رکھیں گی۔‘‘

’’ہاں اپنا خون ہے!‘‘ نواب بیگم کو یہ بات بڑی پیاری لگی۔ اوپر سے برسوں کی دبی دبائی ممتا پھٹ پڑی۔ انہوں نے چھمی کو اٹھا کر کلیجے سے لگا لیا۔

بیگم بادشاہ زادی کی طرح چھمی کے بھاگ جاگ اٹھے۔۔۔ چھمی سے اسے شگفتہ بانو بنا دیا گیا۔ وہی باندیاں جو لہنگا اٹھا اٹھا کر اس کی گت بنایا کرتی تھیں، آفتابہ، سلفچی سنبھالے اس کی خدمت گزاریاں کرنے لگیں اسے نہلاتیں دھلاتیں، کنگھی چوٹی کرتی، نواب بیگم کی رائے سے اسے گڑیا کی طرح سجاتیں۔ اور اس کی قسمت پر رشک کرتیں کہ کاش صاحب زادے ان کی ماؤں پر مہربان ہوئے ہوتے۔

شگفتہ بانو کی اعلی پیمانے پر تعلیم اور تربیت ہونے لگی۔ سلیقہ سکھایا جاتا۔ وہ بڑی مستعدی سے ہر کام پہ جٹ جاتی۔۔۔ اسی طرح جیسے گاؤں میں خوشی خوشی اپلے تھاپا کرتی تھی۔ بنائی، کڑھائی سیکھتی۔ تیج تہوار پر محل سرا سجاکر دلہن بنائی جاتی۔ وہ باندیوں کے غول میں مل کر محل سرا سر پر اٹھا لیتیں۔ ساون میں جھولے پڑتے۔ دیوالی پر چراغاں ہوتا۔ محرم پر تعزیے رکھے جاتے، مجلس ہوتیں۔ رعیت میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، مگر سب ہی تہوار دھوم دھام سے منائے جاتے۔ نواب صاحب ہر تہوار کے جشن میں لازماً شریک ہوتے تھے۔

نواب صاحب کے حرم میں لونڈیوں باندیوں کے علاوہ سترہ اٹھارہ بیویاں بھی تھیں جو کبھی ان کے نکاح میں رہ چکی تھیں۔ شرع کی رو سے چار شادیوں سے زیادہ نہیں کر سکتے تھے، جن میں سے نواب بیگم کو وہ طلاق نہیں دے سکتے تھے، کیوں کہ ان کے بھائی بہت با رسوخ اور طبیعت کے ٹیڑھے تھے، اس لیے ان کے علاوہ تین اور نکاح میں رہتیں۔ جب کوئی نئی دل میں بس جاتی تو تین میں سے جو سب سے زیارہ پرانی گھسی ہوتی اسے طلاق دے دیتے اور وہ روتی پیٹتی محل سرا میں پہنچا دی جاتی۔ اسے باہر جانے یا دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہزار پابندیوں کے باوجود ادھر ادھر ٹھگی لگانے میں بھی کامیاب ہوجاتی تھیں۔ نواب صاحب کے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق وہ سب بیویوں کے حق زوجیت باری باری سے بخشتے تھے۔ روز شام کو ایک بیوی کا بلاوہ آ جاتا تھا۔ اس میں سے بڑے جوڑ توڑ چلا کرتے۔ بالا بالا رشوتیں چلتی تھیں۔ جو بیوی ذرا کنجوسی کرتی، اہل کار اس کی باری گڈمڈ کردیتے۔ نواب صاحب بے چارے کو تو ٹھیک طرح یاد بھی نہیں تھاکہ کون سی نکاح میں ہے۔

کسی بات پر اچانک کسی پچھلی بیوی کی ہڑک اٹھنے لگتی تو نواب صاحب بے قرار ہو جاتے۔

’’ارے بھئی آج نوری کوحاضر کیا جائے۔‘‘

’’عالی جاہ، ان کو تو طلاق فرما چکے۔‘‘

’’اماں نہیں۔۔۔ کب؟‘‘

’’سرکار، وہ تیسری بٹیا کے بعد جب فروزاں نواب سے عقد فرمایا تھا۔‘‘

’’اچھا اچھا۔‘‘ نواب صاحب کو یاد آجاتا، ’’کوئی مضائقہ نہیں، نمک خوار تو ہے۔‘‘

اور نمک خوار خوش خوش سولہ سنگھار کرکے آجاتی، اور ایسی پٹی پڑھاتی کہ احمق نواب بہادر نمبر۲ کو طلاق دے کر اس سے دوبارہ نکاح فرمالیتے۔ زیادہ تر نکاحوں کی وجہ یہ تھی کہ سب کم بخت نواب صاحب کو چرانے کے لیے لڑکیاں ہی پیدا کرتی تھیں۔ تین چار لڑکے ہوئے بھی مگر جاتے رہے۔

محل سرا میں جب یہ جشن ہوتے تو نواب صاحب تشریف لاتے۔ دربار لگتا۔ انعامات تقسیم کیے جاتے۔ خلعتیں بٹتیں۔ اس دن ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر سنگھار کرتی، بڑی بیگم حضور اعلی حضرت کے دائیں طرف جلوہ افروز ہوتیں، باقی تین میں سے سب سے چہیتی بائیں طرف، اس کے بعد سب درجہ بہ درجہ بیٹھتیں ،جشن سے پہلے بڑے دنگے فساد ہوتے۔ بیویاں آنے والے دن کی تیاریوں میں اپنے مرتبے کا بہت خیال رکھتیں۔ چھپی ڈھکی نوک جھونک چلتی۔ کبھی ان موقعوں پر کوئی پرانی بیوی ایک دم سے نئی لگنے لگتی اور اس کا نام پھر چار بیویوں کی فہرست میں آجاتا۔ باری مقرر کرنے کا کام مشیر قانونی کے ہاتھ میں تھا۔۔۔ کچھ خانم صاحب پر بھی دارومدار تھا۔ وہ اگر کہہ دیتیں کہ طبیعت کسل مند ہے تو بے چاری کی باری غائب ہو جاتی۔ ان کے بھی مسکہ مارنے کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔

میرے خیال میں چھمی کی کہانی دراصل ہولی کے تہوار سے شروع ہوئی یہ ہولی تھی بھی پچھلے سارے تہواروں سے زیادہ شان دار۔ اس دھوم دھام کی وجہ یہ تھی کہ ریاست میں کانگریس کا اثر 1935ء کے بعد سے بہت بڑھ گیا تھا۔۔۔ کانگریس جو بدیسی راج کا ناک میں دم کیے ہوئے تھی اور برٹش راج کے فرزندانِ دل بند میں سے نواب صاحب بھی تھے۔ کوئی بیٹا نہیں تھا۔ اس وجہ سے بھی کچھ خائف رہتے تھے۔ اسی کی خاطر شادیوں پر شادیاں کر رہے تھے، اور ابھی ناامید ہونےکی نوبت نہیں آئی تھی۔ کانگریس کےزور کو کچلنے کے لیے ریاست میں ہندو مسلم کشیدگی کا بیج بویا گیا، جو فوراً جڑ پکڑ گیا، لیکن خود نواب صاحب پر بھی فرقہ پرستی کی شہ پڑنے لگی۔

خود نواب صاحب قطعی فرقہ پرست نہیں تھے، انہیں خود پرستی سے ہی چھٹی نہیں ملتی تھی جو فرقہ پرستی کے جھنجھٹ میں پڑتے۔ ناچ رنگ اور شکار سے اگر کبھی مہلت مل جاتی تو برٹش راج کی سلامتی کی فکر کر ڈالتے۔ انہیں ہر فرقے کے لوگوں سے بے انتہا پیار تھا، اور ہر فرقہ ان کی ریاست میں اطمینان سے اپنے دھرم کا پالن کر سکتا تھا۔ مسلمان اور ہندو میں وہ کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے۔ دونوں ہی انکے راج میں قلاش تھے، بلکہ مارواڑیوں نے تو کچھ فیکٹریاں بنا بھی لی تھیں، مسلمان بے انتہا جاہل اور مفلس تھے۔ عہدہ داروں میں وہ انگریز کے بعد ہر اس شخص سے مرعوب تھے جو سرکاری قبیلے کا تھا اور پنشن کے بعد ان کی ریاست کی قسمت جگانے آ جاتا تھا۔ محبت کے معاملے میں وہ انتہائی غیر جانبدار تھے۔ بیویوں میں نہایت اطمینان بخش طریقے سے انہوں نے بغیر کسی تفریق کے سب کو نوازا تھا۔

کچھ پروپیگنڈے کی کاٹ منظور تھی، کچھ پرانا دستور تھا، ٹیسو کے پھول دیگوں میں ابال کر رنگ تیار ہوا۔ ابرق ملا، عنبر اور گلال بڑے بڑے پیتل کے تھالوں میں بھر کر چبوتروں پر سجا دیا گیا تھا۔ رنگوں کی بھری نادیں اور پچکاریاں افراط سے موجود تھیں۔ کڑھاؤ چڑھے ہوئے تھے۔ حلوائی پکوان تل رہے تھے اور کہار ڈولیوں میں رکھ رکھ کر محل سرا میں پہنچا رہے تھے۔ ساری خلقت رنگ کھیلنے اور انعام لینے کے لیے ٹوٹی پڑتی تھی۔ کمینوں کی ٹولیاں سوانگ بھرے ناچتی گاتی چلی آرہی تھیں۔ محل سرا کے لق و دق صحن میں ریاست کے اعلی افسروں کی عورتیں، شاہی خاندان کی بہو بیٹیاں ہولی کھیلنےاور ترمال اڑانے میں مشغول تھیں نواب بہادر بھی محفل کی رونق بڑھانے کی خاطر تھوڑی دیر کو جلوہ افروز ہوجاتے۔ رعیت کے مائی باپ تھے، ان سے کوئی پردہ نہیں کرتا تھا، سب کو ہاتھ جوڑ جوڑ کو نمسکار کرتے، رنگ ڈلواتے، اور آنکھیں بھی سیکنے سے باز نہ آتے۔۔۔

ان موقعوں پر لونڈیوں باندیوں کی خرمستیاں قابل دید ہوا کرتی تھیں۔ خوب ناچ، گانے، سوانگ اور کشتم پچھاڑ ہوتی۔ مقصد نواب بہادر کی توجہ پانا ہوتا۔ ایسے ہی موقعوں پر تو لونڈیوں کو بیگمیں بننے کے موقعے ملا کرتے تھے۔

روک ٹوک کے باوجود چھمی عرف شگفتہ بانو اس طوفانِ رنگیں میں بجلی بنی چمک رہی تھی۔ سڑاندی کیچڑ اور گوبر سے کھیلنے والی چھمی کی یہ پہلی رنگ برنگی مہکتی ہولی تھی۔ پندرہواں سال لگا ہی تھی، مگر جسم کی اٹھان ماہ و سال کا جھنجھٹ نہیں پالتی۔ رنگوں سے بھیگے کپڑے جسم سے چمٹ کر رہ گئے تھے۔ قوس و قزح بنی ادھر ادھر قلانچیں لگا رہی تھی۔ نواب بہادر کے نتھنے پھڑکے ’’مانس گند، مانس گند۔‘‘

نواب بیگم نے ان بڑی بڑی غلافی آنکھوں کی نیت پہچان لی۔۔۔ نواب بہادر کی ننگی آنکھوں کی گالی پر وہ تلملا اٹھیں۔ انہوں نے جھک کر خانم صاحب کے کان میں کچھ کہا۔

ادھر نواب بہادر نے جھک کر خواجہ سرا کے کان میں کچھ کہا اور اٹھ گئے۔

عیش باغ کے مرمریں حوض میں لال مچھی طرارے بھر رہی تھی۔ اس کے آس پاس کے پانی شعلے بھڑک رہے تھے۔ نواب بہادر کی بھاری بھاری آنکھیں رس گھول رہی تھیں۔ چھمی عرف شگفتہ بانو نے عیش باغ کی اونگھتی اکتائی فضا کو ایک دم جھنجوڑ کر جگا ڈالا۔ نواب بہادر کی تھکی تھکائی آنکھیں ایک دم چونک کر ٹھٹھے مارنے لگیں۔ یہ چٹپٹی تتیا مرچ کس مرتبان میں سینتی پڑی تھی؟ ان کا کام و دھن تو اکتاہٹ کے پھپوند سے اٹھ رہا تھا۔ ایسی بے عذر، بے تکلف شے ان کے شاہی دسترخوان پر آج تک نہیں اتری تھی۔ سب ہی کٹی پسی کپڑچھن کی ہوئی معجون مرکب بنی ان کے حضور تک پہنچی تھیں۔

نواب بہادر ہنستے ہنستے لوٹن کبوتر ہوگئے جب گریبان میں ہاتھ ڈالنے پر اس نے چٹ سے ہاتھ پر تھپڑ ٹکایا اور پھنکارنے لگی۔

’’واہ!‘‘ بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔ ’’ارے بھئی ادھر آؤ،‘‘ انہوں نے مصاحبین کو دعوت دی۔ ’’ذرا اسے تو دیکھو،‘‘ انہوں نے پھر وہی حرکت کی، اور شگفتہ بانو نے اب کے پیر کی جوتی نکال کے ہاتھ پر رسید کی۔ ’’بدمعاش!‘‘ ساتھ ہی خطاب بھی عطا فرما دیا۔ یہ حرکت اب تک اس سے کسی مرد نے نہیں کی تھی۔

مصاحبین کے دلوں کی حرکت بند ہوتے ہوتے بچی۔ مگر نواب صاحب بہادر نے سر پیچھے جھٹک کر فرمائشی قہقہہ لگایا اور مصاحبین معاملے کی اہمیت کو سمجھ گئے۔ نواب بہادر اتنا ہنسے کہ من من بھر کی آنکھیں سوائی ہوگئیں۔ پھر چاروں طرف سے ہاتھ چلنے لگے اور جوتی چومکھی مدافعت کرنے لگی۔ اس کی اجڈ قسم کی گالیوں کو سنوں میں بھی بلا کی حلاوت تھی۔ پھر وہ تنتنا کے کھڑی ہوگئی۔ ’’ہم جاتے ہیں ہاں،‘‘ اس نے غرور سے اعلان کیا۔

’’اچھا بیٹھو بیٹھو۔ اب نہیں چھیڑیں گے،‘‘ نواب بہادر نے پچکارا۔ ’’شہزادیوں جیسے دماغ ہیں،‘‘ دل میں سوچا۔

نواب بیگم غیض و غضب کی دیوار بنی پوری محل سرا پر برس رہی تھیں تین بار دورہ پڑچکا تھا کلیجے میں جوالا مکھی دہک رہا تھا۔۔۔ لونڈیاں باندیاں سوکھے پتوں کی طرح لرز رہی تھیں۔ خانم صاحب دست بستہ مجرموں کی طرح قدموں میں سر رکھے دے رہی تھیں۔

’’کیسے لے گئے؟‘‘ انہوں نے خانم صاحب کی چوٹی مروڑ ڈالی۔

’’کیا عرض کروں، ایک جھلک تو میں نے دیکھی، پھر جیسے بجلی سی کوندی، جیسے زمین پھٹی اور وہ سما گئی۔ یا آسمان سے غیبی ہاتھ اترا اور اڑالے گیا۔ کسی نے جان بوجھ کر میری آنکھوں میں عبیر جھونکا تھا، ورنہ بندی یوں حواس باختہ نہ ہو جاتی۔ اور جب میں نے آنکھیں مسل کر کھولیں تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ ڈیوڑھی پر کسی نے دھیان بھی نہ دیا ہوگا، نہ چیخی نہ چلائی۔‘‘

’’اب کیا ہوگا خانم؟‘‘ نواب بیگم ایک دم بہہ نکلیں۔

’’باقر ابھی خبر لے کر آیا ہے، چہلیں ہو رہی ہیں۔ لیکن میری سرکار بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔‘‘

’’یہ کسی دن بھی نہیں ہونا ہے؟‘‘ بیگم تمتما اٹھیں۔

سونے کا ڈلہ بنی چھمی مینا کی طرح چہک رہی تھی۔ اس نے حاضرین کی تمام انگوٹھیاں جیت کر پور پور پر ٹکالی تھیں۔ اب اشرفی کا کھیل ہو رہا تھا کھلاڑیوں میں سے ایک اسے اشرفی چٹکی میں پکڑ کر دکھاتا اور جب وہ اشرفی لینے لپکتی تو چٹکی کھل کر اشرفی کھلاڑی کی گود میں ڈوب جاتی۔ چھمی اشرفی کی کھوج میں ہاتھ مارتی اور مغلظات میں لتھڑے ہوئے قہقہے گونجنے لگتے۔ وہ بڑی بڑی حیران آنکھیں کھول کر ہنسنے والوں کو دیکھتی۔ مہذب قسم کے اونچے مذاق اس کی سمجھ سے اوپر نکل جاتے، یہ ناسمجھی ہی تو سارا لطف پیدا کر رہی تھی۔ جب کوئی انتقام لینے کا قصد کرتا تو وہ جوتی سنبھال لیتی، اور محفل لوٹ پوٹ ہوجاتی۔

نواب بہادر تو روز ہی رت جگا کرتے تھے۔ جب پو پھوٹنے لگتی تو ہینگن بائی بھیرویں کے مقدس سروں میں کوئی غزل یا ٹھمری چھیڑ دیتیں اور سرکار کی رگوں میں نیند اتر آتی۔ جگانے کا راگ ان کے کانوں میں لوری بن جاتا۔ مگر آج چھمی کی شوخیوں نے محفل جمنے ہی نہ دی، دن بھر کی جھنجوڑی ہوئی تو تھی، سر چوکی کے پائے لگا تو پٹ سے سوگئی۔

ایک دم محفل پر سناٹا چھا گیا۔ بارہ دری میں ایک ایک کرکے سب شمعیں گل ہوگئیں۔ شبنمی پردے چھوٹ گئے۔ بظاہر تخلیہ ہوگیا۔ چھمی نے ڈھیلی انگوٹھیوں کو گرنے سے روکنے کے لیے مٹھیاں باندھ کر تھوڑی کے نیچے رکھ لی تھیں۔ نواب بہادر نے اپنا بھاری پیر اس کی چھاتی پر دھر کے جگانا چاہا، مگر وہ مردے کی طرح بے ہوش پڑی رہی۔ انہیں اس کی یہ گستاخی بڑی پسند آئی۔ جیسے بھوکے کو ہبڑ ہبڑ کھاتے دیکھ کر بھوک لگنے لگتی ہے، اسی طرح چھمی کی الھڑ نیند کا جادو ان پر بھی چلنےلگا۔ برسوں بعد وہ سحر سے کئی گھنٹے پہلے وہیں مسند پر ڈھیر ہوکر سوئے۔

دستور کے مطابق اعلی حضرت کے بیدار ہونے سے پہلے ہی بارہ دری کی صورت بدل گئی۔ رات کے مسلے ہوئے پھول مع چھمی کے جھاڑ دیے گئے، دبیز پردے چھوڑ کر بالکل بند کمرہ بنادیا گیا۔

جب چھمی سر سے پاؤں تک سونے اور جواہرات میں ڈوبی، آنچل میں اشرفیوں کے توڑے اور پور پور انگوٹھیاں پروئے نواب بیگم کے حضور میں پیش کی گئی تو وہ آنکھوں پر کہنی کا تکون کھڑا کیے بے کل سی پڑی تھیں۔ چھمی نے چھنکتا ہوا مجرا کیا تو آنکھیں کھول کر دیکھا اور تڑپ کر اٹھ بیٹھیں۔ چھمی ان کے لاڈ پیار کی ایسی عادی ہو چکی تھی کہ اس نے ان کے تیور نہ دیکھے۔ اپنی دھن میں رات کے طوفانوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ وہیں ان کے قدموں کے پاس بیٹھ گئی۔

بیگم نواب نے چوٹی پکڑ کر اس کا سر اونچا کیا، پھر ان کے ہاتھ کانٹوں کی طرح اس کے وجود کو کھرچنے لگے۔ ایک ایک زیور انہوں نے پیروں تلے مسل ڈالا۔ کپڑے تار تار کر دیے اور پھر اتنے طمانچے لگائے کہ ان کے ہاتھوں میں خون چھلک آیا۔ پھر لات مار کر انہوں نے اسے دور گرایا اور ان پر ہسٹریا کا شدید دورہ پڑگیا۔

جب خانم صاحب نے آکر اطلاع دی کہ شگفتہ بانو ویسی ہی ثابت لوٹ آئی ہے جیسی گئی تھی تو وہ دوبارہ زندہ ہوگئیں۔ انہوں نے اسے بلا کر اس کے سوجے ہوئے مکھڑے پر اپنے نرم ریشم جیسے ہاتھ پھیرے۔ صندوقچہ منگا کر ان سے دوگنی دے دیں۔ اپنا ڈھیروں زیور اپنے ہاتھوں سے پہنایا، اور ڈھیٹ چھمی کھی کھی ہنسنےلگی۔

بڑی دیر تک خانم صاحب سے سرجوڑ کر مسکوٹ ہوتی رہی کہ اگر شام کو سرکار نے اسے پھر یاد کیا تو کیا بہانہ بنایا جائے۔ نسوانی مجبوری کا بہانہ چند روز چل جائے گا۔ پھر کیا ہوگا۔۔۔ دیکھاجائے گا۔

شام ہوئی اور سرکاری موٹر آ دھمکی۔ بیگم نے فروزاں کو جو انہیں بے حد پیاری تھی، بنا سنوار کر روانہ کردیا۔ اسے ہر طرح کی تاکیدیں کردی گئیں مگر فروزاں الٹے پیروں روتی پیٹتی آگئی۔

نواب بہادر کسی جھانسے میں آنے کو تیار نہیں تھے۔

اسی دم اعلان جنگ ہوگیا۔ نواب بیگم نے کھلی بغاوت پر کمر باندھ لی۔ چاہے حشر ہوجائے، مگر وہ اپنے اعلی خاندان کے مقدس خون کو موری میں لنڈھانے کو تیار نہیں۔ پہلے تو سوال و جواب دونوں طرف سے اہل کاروں کے ذریعہ چلتے رہے۔ نواب بہادر، بیگم نواب کو سمجھا سمجھا کر ہار گئے مگر وہ اپنی ہٹ پر قائم رہیں۔ نواب بہادر نے ان کے خون کی عزت افزائی کی غرض سےنکاح کے قصد کا بھی ذکر فرمایا۔ مگر نواب بیگم ٹس سے مس نہ ہوئیں۔۔۔ مصاحبین نہ جانے کیا کیا جتن کرکے سرکار کو بہلائے ہوئے ہوتے، مگر چھمی کے بغیر شام ان پر بڑی بھاری گزر رہی تھی۔ عشا کی نماز کے بعد تو نواب بہادر بالکل ہی بکھر گئے۔ نواب بیگم کے زیادہ تر جواب ان کے کانوں تک پہنچے ہی نہیں تھے۔ بس طرح طرح کے بہانے بنائے جا رہے تھے۔ کسی میں اس گستاخی کی ہمت نہ تھی۔ بدکے ہوئے گھوڑے کو طرح طرح بہلایا جا رہا تھا۔

وہ تو خیریت یہ ہوئی تھی کہ نواب بہادر کو چھمی کا نام نہیں یاد رہا تھا۔ وہ بس تڑپ تڑپ اس اس کی تفصیل بتاتے تھے، ’’حرام زادو! وہ جو ننھی سے جوتی دکھا رہی تھی، جس نےتھوک دیا تھا۔۔۔ وہی۔‘‘ وہ احمقوں کی طرح بتاتے اور مصاحبین نہایت مستعدی سے فوراً تعمیلِ حکم کے لیے دوڑتے اور جوتی والی کی جائے کسی اور آفت کی پرکالا کو پکڑ کر حاضر خدمت کر دیتے۔ نواب بہادر چمچماتی ہوئی بوجھل آنکھوں سے اسے دیکھتے اور پھر دہاڑنے لگتے۔

عیش باغ میں ایک قیامت برپا تھی۔ سب کے سروں پر موت منڈلا رہی تھی۔ طرح طرح کے جھنجھنے بجائے گئے۔ بندر نچائے گئے مگر اعلی حضرت کسی گھسے میں آنے کو تیار نہ تھے۔ نام انہیں کبھی کسی عورت کا یاد ہی نہیں رہتا تھا۔ اس کے جسم کے ٹکڑے یاد رہ جاتے تھے۔ لوگوں نےانہیں بے وقوف بنانے کی بھی کوشش کی۔

’’اے قربانت شوم حضور والا، کل تو طرفہ ہی حاضر خدمت ہوئی تھی۔‘‘

’’طرفہ کو حاضر کیا جائے،‘‘ وہ دہاڑتے۔ مگر جب اینڈتی بل کھاتی طرفہ ان کی آغوش میں انڈیلی گئی تو وہ بے حساب دولتیاں جھاڑنے لگے۔ طرفہ اور اس کے لواحقین کی خوب جوتے کاری ہوئی۔ اور پھر وہ چھمی کے لیے ایڑیاں رگڑنے لگے۔

جب سب کی جان سولی پر ٹنگ گئی تو انجام کار اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا کہ اصل صورتِ حال سے نواب بہادر کو آگاہ کیا جائے۔ جب حضور والا کو معلوم ہوا کہ وہ فتنہ روزگارِ علیا حضرت نواب بیگم کی نہایت چہیتی منہ بولی بیٹی ہے اور شاہی خاندان سے ہے تو وہ تھوڑی دیر کے لیے لچک کر رہ گئے۔ نواب بیگم کے مائیکے سے وہ کنی کاٹتے تھے۔ ان کے دونوں سالے انتہائی خوں خوار قسم کے تھے۔ مگر پھر خودداری امڈنےلگی۔ اچھا تو نواب بیگم سے ٹکر ہے۔ دماغ پر بہت زور ڈالا بیگم کی کوئی واضح صورت یاد نہ آئی۔۔۔ برسوں کی بات تھی بیگم، نہ جانے کتنے سال سے ان پر بھرپور نظر ڈالنا ہی چھوڑ دی تھی۔ جشن جلوس کے موقع پر وہ پتھر بنی ان کے پہلو میں بیٹھی رہتیں، اور نواب بہادر کی نظریں بادہ پیمائی میں مصروف رہتیں۔

جب نواب بہادر کی سواری پہنچی تو بیگم نواب کا دل بری طرح بھڑک رہا تھا۔ نواب دولہا بارات لے کر آئے تھے تب بھی اس طرح دل نہیں دھڑکا تھا۔ یوں بھی بڑا فاصلہ تھا ان دو دھڑکوں میں۔ بارات کے وقت ارمانوں اور امنگوں کی شہنائیاں بھی تو ہم آہنگ تھیں۔ آج صرف نفرت اور حقارت کا طوفان کھول رہا تھا۔

’’جان من، ایک فضول اور بے بنیاد قسم کے وہم کی بنا پر آپ ہماری دل شکنی پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ جتنے کالے میرے باپ کے سالے۔ ریاست کے سارے حرامی پلوں سے آپ کا خون کا رشتہ جوڑنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہیں تو اتنا سمجھ لیجے کہ ہم بھی اپنی ضد کے پکے ہیں۔ بات اتنی بڑھ گئی ہے کہ آپ کی ہٹ دھرمی ہماری سبکی کا باعث ہو رہی ہے۔‘‘

’’حضور یقین فرمائیے۔ میں مجبور ہوں۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ بیگم نے ادب سے سر جھکا کر کہا۔‘‘ یہ لونڈی کا وہم نہیں حقیقت ہے ولایت سدھارنے سے پہلے غضنفر میاں نے التجا کی تھی۔۔۔ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے،‘‘ یہ نکتہ بڑے سوچ بچار کے بعد خانم صاحب نے انہیں سمجھایا تھا۔

’’واللہ، مذاق فرما رہی ہیں بیگم۔ ارے وہ کم سن نازک اندام چھوکرا۔ ہٹائیے بھی وہ تو خود ہی معشوق تھا۔‘‘

’’قطع کلامی ہوتی ہے سرکار، مگر مرحوم کی شان میں ایسے کلمے آپ جیسے باوقار حاکم کو زیب نہیں دیتے۔‘‘ بیگم کی آنکھوں میں لاوا کھدبدانے لگا۔

’’ہمارا مطلب ہے، وہ تو خود ہی بچہ تھے، میس بھی تو نہ بھیگی ہوں گی۔۔۔ یہ ہوائی جہازوں کا سفر، توبہ توبہ!‘‘ نواب صاحب فوراً ڈھیلے پڑ گئے۔’’ خیر بیگم ضد چھوڑیے اور۔۔۔‘‘

’’قبلہ عالم، یہ مرنے والے کی آخری وصیت کا سوال ہے۔ ان کی روح کو چین نصیب نہ ہوگا۔میں حشر میں انہیں کیا منہ دکھاؤں گی۔‘‘

’’ہم جانتےہیں کہ یہ سب ہمیں زک پہچانے کے لیے شوشے چھوڑے جارہے ہیں۔‘‘ نواب صاحب جھلا اٹھے۔ ’’اور پھر ہم اسے باندی نہیں بنارہے ہیں۔ ہم اسے نکاح میں لائیں گے۔‘‘ نواب صاحب ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگے۔

’’نکاح؟ میں نےاسے بیٹی کہا ہے اور وہ میری بیٹی ہے۔ آپ کی بھی بیٹی ہوئی، یہ گناہ عظیم!‘‘ بیگم کی آنکھوں میں شرارے لپکنے لگے۔ ’’نکاح جائز نہ ہوگا۔‘‘

’’لاحول و لاقوہ! یہ کس مردود کا فتوی ہے؟ کیوں ستارہی ہیں بیگم؟ آپ نے بیٹی کہا تو وہ ہم پر حرام ہوگئی؟ کون سی شریعت کے حکم سے؟‘‘

’’میری زبان کے قول کا پاس آپ پر بھی اتنا ہی واجب ہے جتنا مجھ پر۔‘‘ لاوا کھدبدانے لگا۔’’ اس سےنکاح فرمانے کے لیے مجھے طلاق دینا ہوگی۔‘‘

’’آپ جانتی ہیں بیگم ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ آپ کے برادر عزیز ہمارے خون کے پیاسے ہوجائیں گے۔ سچی بات کہیے بیگم، اس بڑھاپے میں بھی سوتیاڈاہ۔۔۔‘‘

’’توبہ کیجیے حضور۔ اگر گلی پچھلی سوتوں کا ڈاہ کرتی تو بندی کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی۔ یہ نہ ہوگا۔‘‘

’’یہی ہوگا،‘‘ نواب بہادر اپنے پورے جلال سے کھڑے ہوگئے۔ ’’آج شام کو بعدِ نمازِ مغرب۔‘‘

’’عالی جاہ، ایسا ظلم نہ کیجیے۔ آپ کو کیا کمی ہے؟ میری سونی گود کا مان کیجیے۔‘‘

’’بیگم ہمیں اتنا ذلیل نہ کیجیے، ایک چھوٹے سے وہم کی خاطر ہمارا دل چکنا چور کیے دیتی ہیں۔ ہم مانتے ہیں اس کی رگوں میں آپ کا خون ہے۔ ہم اس کا مان کر رہے ہیں۔ ہم نکاح کریں گے۔ اور اگر خدائے برتر کی عنایت و مہربانی سے اس کے بطن سے نر بچہ پیدا ہوا تو ہماری دیرینہ مراد برآئے گی اور ہمارا ولی عہد ہوگا۔‘‘

’’کمال فرماتے ہیں عالی جاہ، کل تو وہ مصاحبوں اور پاپوش برداروں کے لاشے جگارہی تھی۔ چوبدار اس کی بوٹیاں مسل رہے تھے تیری میری گودمیں ہمک رہی تھی آج اسےنکاح کا مرتبہ عطا فرما رہے ہیں!‘‘ بیگم باز نہ آئیں۔

کل کی رنگ برنگی یاد قہقہہ بن کر نواب بہادر کے حلق سے چھلک گئی۔ ’’قہر ہے بیگم! ایک قیامت ہے! ظالم نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔۔۔ کہاں ہے؟ ذری بلوائیے تو اپنی لاڈلی کو۔ اچھا رہنے دیجیے۔۔۔ یہ ہجر کے لمحے بھی بڑے مزہ دار ہیں۔ کیا ہم ایک نظر دیکھ بھی نہیں سکتے؟ اللہ قسم دور سے، بس، ہاتھ نہ لگائیں گے۔‘‘ مگر بیگم کی آنکھوں میں ابلتے ہوئے طوفان نے ان کی زندہ دلی پر اوس ڈال دی۔

’’یہ عمر، اس پر چونچلے۔‘‘ مگر نواب بہادر سنی کو ٹال کر رخصت ہو گئے۔

اگر خانم صاحب نہ سمیٹ لیتیں تو بیگم نواب ریزہ ریزہ ہو جاتیں۔ انہیں سر پیر کاہوش نہ رہا۔ کلیجہ تھام کر وہیں ڈھیر ہوگئیں اور کٹی مرغی کی طرح فرش پر لوٹنے لگیں۔

’’یہ نہیں ہوگا۔ ہرگز نہیں ہوگا،میرے جیتے جی نہیں ہوگا۔‘‘

’’نہیں ہوگا، قربان جاؤں میری شہزادی، نہیں ہوگا،‘‘ خانم صاحب کی آنکھوں میں سورج جگمگا اٹھے۔

دالان در دالان میں زرنگار جوڑوں اور زیورات کے تھال یہاں سے وہاں تک چنے ہوئے تھے۔ باندیاں چھمی عرف شگوفہ بانو کو دھو پھٹک کر عطر کے پانی میں بسا رہی تھیں۔ مہندی رچے لال لال تلوے اور ہتھیلیاں دیکھ دیکھ کر چھمی کلکاریاں مار رہی تھیں۔ اس کا بیاہ ہو رہا ہے۔ جب دلہن سج دھج کر تیار ہوگی تو چھم چھم کرتی نواب بیگم کی قدم بوسی کوحاضر ہوئی۔ انہوں نے بڑی حسرت سے اسے سر سے پیر تک نہارا۔ ایک ترشول سا کلیجے میں اترتا چلا گیا۔ غضنفر علی خاں کے عکس پر ایک اور ننھی سی تصویر سپرامپوز ہوگئی۔

ایک نہ سہی دو گھاؤ سہی۔ جب دل ہی قیمہ ہو چکا ہو تو نئے اور پرانے سب ہی زخم ایک ہو جاتے ہیں۔ پاس بٹھا کر نواب بیگم نے اسے بڑے پیار سے چھوا۔ دماغ میں طوفان کھولنے لگا۔ خانم صاحب نے مٹھائی کی طشتری پیش کی، انہوں نے بچی کا منہ میٹھا کرایا، بدنصیب سسرال جانے کے لیے بے قرار تھی۔

جب چھمی دلہناپے کے نشے میں جھومتی چلی تو اس کے پاؤں بہکے بہکے پڑ رہے تھے۔ گنگاجمنی جھماجھم کرتی پالکی میں جب وہ سوار ہوئی اور سرخ شبنمی پردے چھوڑ دیے گئے تو ساری محل سرا کی لونڈیوں کے کلیجوں پر سانپ لوٹ گئے۔ بیگم نے اپنی کہنی کا تکون بنا کر آنکھوں پر کھڑا کر لیا اور سسکنے لگیں۔

بڑی دھوم دھام سے دلہن کی سواری دولہا کی چوکھٹ پر پہنچی۔۔۔ پالکی بیچ بارہ دری میں رکھ دی گئی۔ نواب صاحب کا دل مست ہرن کی طرح قلانچیں بھر رہاتھا۔ کم سن دولہاؤں کی طرح ٹھنڈے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ بس اب کوئی دم میں شبنمی بادلوں کے درمیان سے بجلی تڑپ کر نکلے گی اور خرمن ہستی کو پھونک دے گی۔

مہریوں نے پردے اٹھائے۔۔۔ نہ بجلی تڑپی، نہ شعلہ لپکا۔

ڈھیلی انگوٹھیوں کو اترنے سے روکنے کے لیے اس نےکس کےمٹھیاں بھینچ لی تھیں سکڑی سمٹی پالکی کے کونے میں دبکی بیٹھی تھی، جیسے اچانک پل بھر کے لیے اونگھ گئی ہو، اور ابھی جاگ پڑے گی۔

مأخذ:بڑی شرم کی بات

مصنف:عصمت چغتائی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here