ایک محبت کی کہانی

0
179
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ ایک کتے کی سوانحی اسلوب میں لکھی کہانی ہے۔ کتے کا نام کانگ ہے اور وہ اپنے بچپن سے لےکر اس بڑے سے گھر میں آنے، اپنا نام رکھے جانے اور وہاں کے لاڈ پیار کو بیان کرتا ہے، جس کے بدلے میں وہ اپنی جان تک دے دیتا ہے۔‘‘

باغ کے درختوں کو جب میں نے پہلی بار دیکھا اس وقت میں کتنے دنوں کا تھا یہ تو یاد نہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ میں وہاں پہلے سے تھا۔ پاس والے درخت کو اوپر تک دیکھنے کے لیے میں نے آنکھیں اوپر کی ہی تھیں کہ میرا ایک بھائی بھد سے مجھ سے ٹکرا گیا اور میں گر پڑا۔ پھر میرے باقی بہن بھائی بھی آ گئے اور مجھے ایسا لگا کہ کالے کالے گولے ایک دوسرے میں گتھے جا رہے ہوں۔ شاید انہیں بھی ایسا ہی لگ رہاہو۔ اتنے میں میری ماں آ گئی اور اس نے ہم کو ایک ایک کرکے الگ کیا، منھ سے اٹھا اٹھاکر اور پھر پاس ہی ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گئی۔ ہم سب لڑھکتے لڑھکاتے اس کے پیٹ کی طرف بڑھے، ایک دوسرے سے ٹکراتے، دھکا دیتے۔ جانے کیسے چسر چسر کی آواز کانوں میں پڑتے ہی میرا منھ میٹھے میٹھے دودھ سے بھر گیا۔ معلوم نہیں یہ آواز میرے منھ سے آرہی تھی یا میرے کسی بھائی یا بہن کی آواز تھی۔ ابھی میں نے دو چار ہی منہ مارے تھے کہ میری بہن نے دھکا دیا اور میری جگہ پر قابض ہو گئی۔ پھر نہ جانے کب مجھے نیند آ گئی۔

اس وقت تو میں ٹھیک سے چل بھی نہ پاتا تھا۔ بس لڑکھتا تھا، زمین کو چھوتا ہوا۔ یہی حال میرے دوسرے بھائی بہنوں کا بھی تھا۔ لیکن اب کچھ باتیں میری سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ مثلاً یہی کہ صبح اور شام کے وقت میری ماں کو بڑی سی رکابی میں کھانا ملتا تھا۔ ہم سب کبھی ماں کے پیر سے لپٹ جاتے اور کبھی اس کی پلیٹ تک پہنچ جاتے۔ لیکن پلیٹ میں منھ ڈال کے ہم کو کھانا نہ آتا تھا اور جو کھانا وہ بڑے شوق سے کھاتی تھی، مجھے اس کی بو ذرا پسند نہ تھی۔ میں دھیرے دھیرے الٹے پاؤں واپس آتا۔ کبھی ماں کے پاس پہنچنے کی کوشش میں میرے پیر پلیٹ میں چلے جاتے تو ماں مجھے منہ میں داب کر ہٹا دیتی۔ پکڑتی تو دانت سے تھی، ہلکی سی چبھن بھی ہوتی، لیکن بڑا اچھا لگتا تھا۔ ایک بارتو میں بس اسی مزے کے لیے جان بوجھ کر پلیٹ میں اگلے دونوں پیر رکھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ماں نے وہی کیا جو میں چاہتا تھا۔ مجھے بہت اچھا لگا تھا لیکن اس کے منہ کا کھانا میری پیٹھ اور پیٹ پر لگ گیا تھا جس سے بری سی بو آ رہی تھی۔

ان دونوں ہم لوگوں کے بس دو ہی کام تھے۔ دودھ پینا اور سو جانا یا پھر بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلنا اور کھیلنا بھی کیا تھا، بس ایک دوسرے کو دھکے دیتے یا گرانے کی کوشش کرتے اور ذرا سی دیر میں بھوکے ہو جاتے، چسر چسر دودھ پیتے اور سو رہتے۔

کبھی کبھی جانے کیسے چاروں طرف کی روشنی کم ہونے لگتی اور جب ہم دودھ پیتے پیتے سو جاتے تو ہماری ماں ایک ایک کرکے ہمیں اپنے منھ سے ہٹاکر ایک چھپر کے اندر پیال پر لٹا دیتی، نیند میں بھی مجھے اس کے دانتوں کی معمولی سی چبھن اور منھ کے گوشت کی نرمی بہت اچھی لگتی۔ جب آنکھ کھلتی تو ملگجی ملگجی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوتی جو دھیرے دھیرے بڑھتی جاتی۔ اس کے بعد پھر وہی چکر چلتا۔ دودھ پینا، تھوڑی بہت اچھل کود کرنا، پھر دودھ پینا اور سو جانا۔

- Advertisement -

کیسے مزے کے دن تھے وہ بھی۔

ایک دن ہم لوگ اسی طرح کھیل رہے تھے اور ماں تھوڑی دور لیٹی ہمیں بس دیکھے جارہی تھی کہ ایک دم کھڑی ہو گئی اور زور سے بھونکنے لگی۔ میں تو ڈر ہی گیا اور میرے سارے بھائی بہن اپنی لڑھکنیاں بھول کر ایک دوسرے پر ڈھیر ہو گئے۔ میں تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ شاید میرے بھائی بہن بھی کانپ رہے تھے کیونکہ کبھی ہمارے بدن ایک دوسرے سے ٹکراتے اور کبھی الگ ہو جاتے۔ ماں اتنے زور سے بھونک سکتی ہے یہ مجھے معلوم ہی نہ تھا۔ میں نے دھیرے دھیرے سر اٹھاکر دیکھا تو کالی کالی سی چیز اوپر اڑ رہی تھی۔ ماں منھ اوپر کیے اس وقت تک غراتی رہی جب تک وہ اڑتا ہوا دھبا بھاگ نہ گیا۔ اس کے بعد وہ ہمارے پاس آکر لیٹ گئی۔ لیکن تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ سر اٹھاکر اوپر کی طرف ضرور دیکھ لیتی تھی۔ میرے بھائی بہن تو اس کے پیٹ سے چپکے ہوئے تھے اور میں ڈر کے مارے اس کی پچھلی ٹانگوں کے بیچ گھس گیا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ مجھے اس کی رانوں کے گوشت کی گرمی بہت اچھی لگی تھی۔

اس طرح کھیلتے، دودھ پیتے اور سوتے کئی بار اندھیرا چھا یا اور کئی بار روشنی پھیلی۔

ایک دن دو لڑکے میرے مکان کے باہر آکر کھڑے ہو گئے اور کچھ دیر تک بات چیت کرتے رہے۔ ان میں سے ایک کو تو میں کچھ کچھ جانتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میری ماں کے پاس بیٹھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا کرتا تھا۔ ایک آدھ بار کھانا لے کر وہ بھی آیا تھا۔ لیکن یہ دوسرا لڑکا میرے لیے بالکل نیا تھا۔ جب پہلے والے نے مجھے اٹھاکر اس کے ہاتھ میں دیا تو میری ماں غرائی لیکن بس دھیرے دھیرے۔ تھوڑی دیر بعد دونوں آم کے درختوں کے بیچ سے چلتے ہوئے سڑک پر آ گئے۔ وہ لڑکا جو تھوڑی دیر پہلے آیا تھا، مجھے ایک ہاتھ میں اپنے سینے کے پاس پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ سے برابر میرا سر سہلا رہا تھا۔ مجھے اپنے بھائی بہن اور ماں کی یاد تو آ رہی تھی لیکن اس کے ہاتھوں کی گرمی بھی اچھی لگ رہی تھی۔

دونوں تھوڑی دیر تک کھڑے کھڑے باتیں کرتے رہے پھر اس نے جسے میں پہلے سے کچھ کچھ جانتا تھا اس سے جو میرے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا کچھ کہا اور چلا گیا۔ ذرا سی دیر بعد وہ لوٹ آیا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں سفید سفید سی کوئی گول گول چیز تھی، میں اسے ٹھیک سے دیکھ نہیں سکا تھا۔ اس لیے میں نے اس لڑکے کے چہرے پر سے نظریں ہٹاکر جسے میں بہت دیر سے ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا، اس گولے کو دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن مجھے وہ چیز نظر نہیں آئی۔ تھوڑی دیر تک دونوں ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دوسرے سے اتنے زور زور سے ہاتھ ملایا کہ میرا پورا بدن ڈر کے مارے کانپنے لگا۔

(۲)

وہ نوجوان مجھے گود میں لیے بیٹھا تھا۔ ادھر ادھر، آگے پیچھے بھی کئی لوگ بیٹھے تھے۔ مجھے ہوا خوب لگ رہی تھی۔ بھر بھرکی عجیب عجیب سی آوازیں آرہی تھیں۔ کبھی کبھی زوردار آواز ہوتی اور میں آپ ہی آپ گود میں اچھل پڑتا۔ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے دھیرے دھیرے گردن گھمائی اور اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ سچ بتاؤں تو مجھے بھوک لگ رہی تھی، شاید اسی لیے میں ’’کوں کوں‘‘ کر رہا تھا۔

’’بھوک لگی ہے۔‘‘ اس نے میرے پیٹ میں دھیرے دھیرے گدگدی کی اور جانے کہاں سے کاغذ میں لپٹا ہوا گولا نکال لیا۔ یہ تو وہی چیز تھی جس کی اس وقت میں نے ایک جھلک دیکھی تھی۔ تھوڑی دیر تک جانے وہ کیا کیا کرتا رہا۔ اس کے بعد جانے کیسے ایک موٹی سی ملائم اور گیلی بتی میرے منہ کے اندر پہنچ گئی اور دودھ ایسی کسی چیز سے میرا منھ بھر گیا۔ لیکن مجھے کچھ خاص مزا نہ آیا۔۔۔ نہ اس میں ماں کے پیٹ کی گرمی تھی نہ وہ مٹھاس۔ مجھے ابکائی سی آئی لیکن کیا کرتا پیٹ خالی تھا اس لیے وہ گیلی بتی منھ سے نہیں نکالی۔ تھوڑی تھوری دیر بعد وہ لڑکا بتی میرے منھ سے نکال لیتا اور جانے کیسے اس میں دودھ بھر کے پھر میرے منھ میں ڈال دیتا۔ دوتین بار تو میں کچھ نہ بولا لیکن پھر میں نے خوب کس کر منھ بند کر لیا۔ اصل میں میرا پیٹ بھر گیا تھا۔

یہ نیا مکان مجھے بالکل اچھا نہ لگاتھا، نہ اتنا بڑا میدان تھا۔ نہ اونچے اونچے درخت نہ سرپر اتنا بڑا آسمان، بھائی بہن تھے نہ ماں۔ کبھی کبھی مجھے ان کی یاد بھی آتی اور میں ادھر ادھر ان کو ڈھونڈنے لگتا۔ لیکن ایک بات ایسی بھی تھی جو وہاں نہیں تھی۔ گھر کے تین چار لوگوں میں سے ایک نہ ایک ہر وقت میرے آس پاس رہتا۔ یہ لوگ مجھ سے کھیلتے، میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے یا مجھے گودی میں لے کر ’’کانگ، کانگ‘‘ کہتے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ سارے ہی لوگ میرے پاس ہوتے۔ ان میں سے کبھی ایک مجھے گود میں لے لیتا اور کبھی دوسرا۔ میں بھی ناز نخرے دکھاتا۔ ایک بلاتا تو میں دوسرے کی طرف چلا جاتا، پھر یہ سوچ کر کہ اس کا دل نہ ٹوٹ جائے اس کی طرف لوٹ جاتا۔

اب مجھے ایک چھوٹے سے برتن میں دودھ پلایا جاتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی سخت اور سوندھی سی چیز بھی اس میں ڈال دی جاتی تھی لیکن میں جیسے ہی منھ مارتا وہ بکھر کر دودھ میں مل جاتی۔ اب مجھے یہ دودھ بہت اچھا لگنے لگا تھا۔ لیکن ایک بات مجھے بہت بری لگتی۔ میں دودھ پیتا تو کوئی نہ کوئی میرے پاس بیٹھا رہتا۔ جب اپنا کھانا کھانے بیٹھتے تو مجھے ایک چھوٹی سی میز پر بٹھا دیتے۔ میں اس کے کونے تک جاتا۔ کبھی ادھر کبھی ادھر اور زمین بہت دور دیکھ کر ایک دم پیچھے ہٹ جاتا۔ اس پر سب خوب ہنستے اور مجھ سے کہتے، ’’اب ہم کو کھانا کھانے دو، ہم نے تو تمہارے دودھ میں حصہ نہیں بٹایا تھا۔‘‘

ان کی یہ بات مجھے بڑی بری لگتی۔ کوئی میں ان کا کھانا چھینے لے رہا تھا۔ لیکن بعد میں جب وہ پیار سے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے تو مجھے اپنا غصہ یاد بھی نہ رہتا۔ پھر وہ مجھے نرم گدے پر لٹاکر سہلاتے رہتے جو مجھے بہت اچھا لگتا اور میں سو جاتا۔

اب مجھے نہ ماں کی یاد آتی تھی، نہ بھائی بہنوں کی۔ بلکہ سچ پوچھیے تو میں انہیں بالکل بھول چکا تھا۔ میں اپنا نام بھی پہچاننے لگا تھا۔ جب بھی کوئی مجھے ’’کانگ‘‘ کہہ کر پکارتا میں دھیرے دھیرے اس کے پیچھے دوڑتا، لیکن ہر ایک کے پیچھے نہیں۔ کوئی نیا چہرہ چاہے کتنے ہی پیار سے میرا نام لیتا، میں اس وقت تک بھونکتا اور غراتا رہتا جب تک گھر کا کوئی آدمی نہ آ جاتا۔ مجھے ان کی آوازوں کا فرق بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ ایک آواز تیز تھی اور بھاری، ایک باریک اور نرم، ایک باریک اور تیز۔۔۔ یہ تینوں آوازیں تو میں بہت جلدی پہچاننے لگا تھا لیکن چوتھی آواز پہچاننے میں بہت دیر لگی تھی۔ ایک تو وہ بات ہی بہت کم کرتا تھا اور دوسرے وہ گھر میں زیادہ دیر رہتا بھی نہیں تھا۔ صبح کے وقت اس کی صورت دیکھنے کو ملتی یا پھر رات میں۔ وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے۔ ایک کمرے میں جانے کیا کیا کرتا۔

باریک اور نرم آواز والی ایک لڑکی تھی۔ صبح صبح جانے کہاں چلی جاتی۔ ایک چھوٹا سا تھیلا کبھی ہاتھ میں لٹکائے اور کبھی کندھے سے، اور جب سورج ریل کی پٹری کی طرف ذرا سا جھکنے لگتا تو وہ لوٹ آتی۔ اس کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگتی۔ کتنی ہی جلدی میں ہو، جاتے وقت میرے سر پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنا نہ بھولتی۔ ایک عورت بھی جو سارے دن گھر میں رہتی، مجھے چاہتی تو تھی، کھانا بھی وہی دیتی تھی لیکن ذرا دور سے، مجھے چھوتی تک نہ تھی بلکہ کبھی میں اس کی طرف اپنی طاقت بھر تیز دوڑتا تو وہ پیچھے کھسک جاتی۔ اس کی بس یہی بات مجھے پسند نہ تھی۔

وہ لڑکا جو مجھے لایا تھا، مجھے سب سے زیادہ چاہتا تھا لیکن ڈانٹتا بھی تھا۔ میں بھی اسے سب سے زیادہ چاہتا تھا لیکن اس سے کچھ کچھ ڈر بھی لگتا تھا۔ ایک دن اس نے پتھر کے ایسا ایک چھوٹا سا ڈلا اپنے کوٹ کی جیب سے نکال کر میرے سامنے پلیٹ میں رکھ دیا۔ میری کچھ سمجھ میں نہ آیا اور میں گیند سے کھیلتا رہا۔ پھر اس نے مجھے گردن سے پکڑا اور میرا منھ پلیٹ کے پاس کر دیا۔ میری ناک ایک عجیب سی خوشبو سے بھر گئی اور میں نے اس پر منھ مارا۔ بہت سخت سی چیز تھی لیکن میرے تیز دانتوں نے دو چار بار کی کوشش میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ بڑی مزیدار چیز تھی۔ میں نے اپنے دانتوں کا پورا زور لگایا پھر بھی اسے توڑنے اور کھانے میں کافی وقت لگا۔ اتنے مزے کی چیز میں نے کبھی نہیں کھائی تھی۔ اس وقت تک مجھے قیمہ کھانے کو نہیں ملا تھا۔

وہ دن خوب اچھی طرح یاد ہے جب میرے مالک نے مجھے گھر کے باہر اپنے پیروں سے چلایا تھا۔ ویسے آس پاس کے مکان، پارک، ریل کی پٹری، اس سے پہلے کا نالا اور دوچار دوسرے لوگوں کی تصویریں تو میں پہچاننے لگا تھا کیونکہ میرا مالک شام کے وقت اپنی گود میں لے کر اکثر سیر کراتا۔ لیکن آج اسے جانے کیا سوجھی کہ چار پانچ مکان چھوڑ کر تراہے کے پاس مجھے بیچ سڑک پر چھوڑ دیا۔ میری گردن میں نرم نرم موٹے سے کپڑے کا چمکدار پٹا پڑا تھا۔ میرے مالک نے مجھے گود سے اتار کر سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا کر دیا تو مجھے داہنی طرف کے سارے مکانوں کو غور سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بائیں طرف تو پارک تھا۔ ان سارے مکانوں میں میرا مکان سب سے چھوٹا تھا۔ ایک مکان تو اتنا اونچا تھا کہ میں نظریں اٹھاکر بھی پوری طرح نہ دیکھ سکا۔

اسے دیکھ کر مجھے ذرا سی لالچ آئی۔ وہاں روشنی بھی خوب ہو رہی تھی۔ لیکن جب تراہے پر مجھے چھوڑ دیا گیا تو میں نے دوڑ کر اپنے گھر کے دروازہ پر ہی دم لیا۔ اس وقت میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ دروازے پر میرے مالک کی ماں، اس کی بہن اور وہ آدمی کھڑا تھا جس کی آواز کم کم ہی سننے کو ملتی تھی۔ سب لوگ زور زور سے تالیاں بجا رہے تھے لیکن اس آدمی نے بس دو تین بار ہی تالی بجائی۔ اس کی یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور میں دوسری طرف منھ کرکے اچکنے پھاندنے لگا۔ اتنے میں سڑک پر کوئی تیز سی چیز گزری تو اس لڑکی نے جس نے بہت دیر تک تالی بجائی تھی، جلدی سے مجھے زمین سے اٹھاکر گود میں لے لیا۔

(۳)

بہت دنوں بعد معلوم نہیں کیسے مجھے یکایک احساس ہوا کہ میں گھر کے چاروں لوگوں کی آواز کے علاوہ ان کے چلنے پھرنے سے پیدا ہونے والی کھٹ کھٹ بھی پہچاننے لگا ہوں۔ اس پہچان کا سلسلہ شاید میرے مالک سے شروع ہوا۔ ایسے تو وہ تیز آواز میں نہیں بولتا تھا لیکن ایک دن جب میں نے اس کی چپل کا تسمہ دانتوں سے کاٹ پیٹ کر چتھڑا بنا دیا تھا تو وہ بہت غصہ ہوا تھا اور اس نے اتنی گرجدار آواز میں مجھے ڈانٹا تھا کہ میرا دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔ میں گردن جھکائے اس کے سامنے خاموش کھڑا رہا تھا۔ پھر تھوڑی دیر میں اس کا غصہ کم ہو گیا اور وہ برآمدے کے کونے میں بیٹھ کر میری گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگا۔

’’گڈ بوائے چپل نہیں کاٹتے۔‘‘ اس نے میری گردن کے نیچے کی ملائم کھال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ میں نے دھیرے دھیرے آنکھیں اوپر کیں اور کنکھیوں سے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں تو محبت تھی لیکن وہ ہنس نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنی گردن اس کے گھٹنے پر رکھ دی۔ تب جاکے کہیں اس کے چہرے پر ہنسی آئی۔

’’چپل نہیں کاٹتے۔‘‘ اس نے دہرایا تو میں نے دوسری چپل دانتوں سے اٹھاکر اس کے پاس رکھ دی اور اس نے مجھے دل سے معاف کر دیا۔ اس دن تو خالی ڈانٹ پڑی تھی لیکن ایک دن پٹائی بھی ہوئی۔

ہوا یہ کہ کسی نے گیٹ کھٹکھٹایا۔ میں زور سے بھونکا اور تھوڑی دیر تک برابر بھونکتا رہا لیکن دراز سے کوئی دکھائی نہ دیا۔ ابھی میرا غصہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ زمین پرمجھے کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر آیا۔ میں نے اس آدمی کا بدلہ اسی کاغذ سے لیا کیونکہ ہو نہ ہو یہ اسی نے پھینکا تھا۔ میں نے اس کا ایک کونہ پنجے سے دبایا اور دوسرا دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو اس کے اندر سے ایک بڑا اور ذرا موٹا اور چکنا کاغذ نکلا۔ میں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اور آرام سے دیوار کی چھاؤں میں لیٹ گیا۔ اپنے حساب سے میں نے بہت اچھا کام کیا تھا۔ کسی کو میرے گھر کا گیٹ کھٹکھٹانے اور کاغذ اندر پھینکنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد مالکن باہر آئی تو میں اس کی مٹھی دیکھنے لگا جس میں کبھی کبھی ہڈی دبی رہتی تھی لیکن اس کے ہاتھ خالی تھے۔ اسی وقت اس کی نظر پھٹے ہوئے کاغذوں پر پڑی تو اس نے جھک کر ایک ایک ٹکڑا اٹھانا شروع کیا اور مجھے زور سے ڈانٹا۔

’’یہ کیا کیا؟‘‘ اس نے کہا۔ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ میں تو سمجھتا تھا کہ خوب شاباشی ملےگی لیکن یہاں تو ڈانٹ پڑ رہی تھی اور وہ روہانسی ہو گئی تھی۔ پھر اس نے وہیں بیٹھ کر کاغذ کے ان ٹکڑوں کو زمین پر جمانا شروع کیا۔ بیچ بیچ میں وہ مجھے غصہ سے دیکھتی بھی جاتی تھی۔ میں چور بنا بیٹھا رہا۔

اس وقت اور کچھ نہیں ہوا اور میں تھوڑی دیر میں سب کچھ بھول گیا لیکن شام کو جب میرا مالک آیا تو اس نے روز کی طرح پتھر ایسا مزیدار ڈلا میری پلیٹ میں رکھ دیا، میں پلیٹ کی طرف لپکا لیکن اس نے ’’نو‘‘ کہہ کر مجھے روک دیا۔ پھر اپنے سیدھے ہاتھ کی دو انگلیاں ایک دوسرے سے کس کے ملا لیں۔ ذرا سی دیر بعد جانے کیسے اس کی انگلیوں سے دوبار ’’چٹ چٹ‘‘ کی آواز نکلی۔ اس آواز سے تو میری سمجھ میں کچھ خاک نہ آیا لیکن جب اس نے ’’یس‘‘ کہا تو میں اس مزے دار ڈلے پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے پیار سے میری پیٹھ اور سر سہلایا اور گھر کے اندر چلا گیا۔ ابھی میں اسے پوری طرح کھا بھی نہ پایا تھا کہ وہ گھر کے اندر سے نکلا۔ اس کے ایک ہاتھ میں پتلی سی وہی چھڑی تھی جسے لے کر وہ مجھے ٹہلانے جاتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں کاغذ کے ٹکڑے۔ میں کچھ سمجھے بغیر اس کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ لیکن جب اس نے کاغذ کے وہ ٹکڑے میرے سامنے پکے فرش پر پھینک دیے تو میرا خون خشک ہو گیا۔

’’یہ کیا کیا؟‘‘ وہ گرجا۔ وہ مزے دار ڈلا اب بھی میرے منھ میں تھا مگر ڈر کے مارے میرا رواں رواں کانپ رہا تھا اور میں اسے کھانا بھول کر سر جھکائے کھڑا رہا۔

’’پھر پھاڑوگے کاغذ؟‘‘ اس نے کہا اور چھڑی میری پچھلی ٹانگ پر ماری۔ چوٹ تو ضرور لگی لیکن مجھے اس سے زیادہ دکھ یہ تھا کہ مالک نے مجھے مارا۔ اس نے پھر چھڑی اٹھائی، میں دبک گیا۔ لیکن اس نے مارا نہیں بلکہ میرے پاس بیٹھ گیا اور میری پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا، ’’گڈ بوائے کاغذ نہیں پھاڑتے۔‘‘

وہ میرا سر، پیٹھ اور وہ جگہ جہاں اس نے مارا تھا، پیار سے دھیرے دھیرے سہلاتے ہوئے بار بار کہتا رہا، ’’یو آر اے گڈ بوائے کانگ۔ گڈ بوائے کاغذ نہیں پھاڑتے۔‘‘

اس دن مجھے معلوم ہوا کہ میرا نام کانگ تھا۔

دو تین دن بعد میں برآمدے میں کھڑکی کے پاس لیٹا تھا کہ کسی نے دھیرے سے گیٹ کھٹکھٹایا اور کوئی چیز بھد سے اندر گری۔ میں لپکا اور اس پر دانت مارنے والا ہی تھا کہ اس دن کی مار یاد آ گئی اور میں اسے پنجے کے نیچے دباکر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے مالک کی چھوٹی بہن باہر نکلی تو مجھے دیکھ کر خوب زوروں سے ہنسنے لگی۔ میں کیا جانوں وہ کیوں ہنس رہی تھی۔ پھر وہ میرے پاس آئی اور میرے پنجے کے نیچے سے وہ موٹی سی چیز نکال کر ’’گڈبوائے‘‘ کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔ ذرا سی دیر میں وہ پھر باہر آئی اور اس نے وہی مزے دار ڈلا میری پلیٹ میں ڈال دیا۔ میں اسی طرح لیٹا رہا۔ اس نے چٹکی بجائی تو میں نے لیٹے ہی لیٹے منھ بڑھاکر اسے کھانا شروع کر دیا اور وہ ’’گڈ بوائے‘‘ کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔

مجھے بڑا اچھا لگا۔

اب میں ’’گڈ بوائے‘‘ ہو گیا تھا، جبھی تو دن میں بھی مجھے ایسی اچھی چیز کھانے کو ملی تھی۔ اس کانام مجھے بہت دنوں بعد سمجھ میں آیا۔ سب لوگ اسے ’’ڈاگ بسکٹ‘‘ کہتے تھے لیکن وہ اتنی اچھی چیز کیوں نہیں کھاتے تھے، یہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔

میرے مالک کی چھوٹی بہن کا نام بہت چھوٹا سا تھا اور وہ تھی بھی چھوٹی سی۔ میں اس کا نام کچھ کچھ پہچاننے لگا تھا لیکن اس کے نام میں ایسی ملائم سی آوازیں تھیں کہ بہت دنوں تک تو میں بس ’’رین‘‘ ہی سمجھتا رہا۔ ایک دن میرا مالک بہت دیر بعد گھر آیا۔ بہت گرمی پڑ رہی تھی۔ وہ شاید بہت تھکا ہوا تھا۔ یہ مجھے ایسے معلوم ہوا کہ اس نے روز کی طرح ذرا دیر کے لیے میرے پاس بیٹھ کر نہ تو میری پیٹھ سہلائی، نہ میری گردن اور سر کو دونوں ہاتھوں میں لے کر انہیں تین چار بار پیار سے دبایا۔ بس مجھے چھوتا ہوا دروازہ کی طرف بڑھ گیا اور دروازہ پر لگا گھنٹی کا بٹن دبایا۔ گیٹ کے باہر سے گھنٹی وہ پہلے ہی بجا چکا تھا۔ ٹن ٹن کی ہلکی سی آواز میں پہلے ہی سن چکاتھا۔ اس نے گھنٹی دوبارہ بجائی اور زور سے دروازہ بھڑبھڑایا اور آواز دی، ’’زرّیں۔ زرّیں۔‘‘

دروازہ کھلا تو وہی لڑکی جسے میں ’’رین‘‘ سمجھتا تھا سامنے کھڑی تھی۔ اس دن اس کا اصلی نام میری سمجھ میں آیا۔ میرا مالک تو اسے نام لے کر ہی پکارتا تھا لیکن مالکن اور سفید بالوں والا اسے بیٹی بھی کہتے تھے۔ میں کبھی کبھی چکرا جاتا، کیا اس کے دو نام ہیں۔ میرا تو ایک ہی نام ہے ’’کانگ۔‘‘ اسی وقت مجھے خیال آیا کہ مجھے بھی تو گھر کے لوگ کبھی کبھی ’’گڈ بوائے‘‘ کہتے ہیں۔ مجھے یہ دوسرا نام بہت اچھا لگتا تھا اور مالکن اور سفید بالوں والے کے نام مجھے کبھی نہ معلوم ہو سکے۔ کوئی ان کا نام لیتا ہی نہ تھا۔ جانے کیوں اور میرا مالک۔۔۔ اس کا نام۔۔۔ ساجد۔۔۔ تو ہر ایک کی زبان پر رہتا تھا۔ ہر شخص اسے نام لے کر پکارتا۔ اس لیے سب سے پہلے مجھے یہی نام یاد ہوا تھا۔ اس کے دوچار جاننے والے روز ہی آتے تھے وہ بھی اسے ساجد ہی کہہ کر آواز دیتے۔ مجھے اس کا نام بھی بڑا پیارا لگتا تھا۔

اب مجھے اپنے مالک، سفید بالوں والے اور زریں کے آنے جانے کے وقت کا بھی کچھ کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔ گھر کی مالکن تو بس کبھی کبھی ہی کہیں جاتی۔ زرّیں آتی تو میں گیٹ کے پاس آ کھڑا ہوتا اور جیسے ہی وہ داخل ہوتی اچک کے تھیلے پر دونوں ہاتھ رکھ دیتا۔ وہ میرے سر پر دھیرے سے چپت لگاتی جو مجھے بہت اچھا لگتا۔ شاید میں اس کا انتظار اسی پیار بھرے چپت کے لیے کرتا تھا۔ اپنے مالک، ساجد کے قدموں کی آواز تو میں بہت دور سے سن لیتا تھا۔ اس کی تو بات ہی اور تھی۔ مجھے ’’گڈ بوائے‘‘ سب سے زیادہ وہی کہتا تھا۔ میں چاہتا بھی سب سے زیادہ اسے ہی تھا اور ڈرتا بھی۔ جیسے ہی مجھے اندازہ ہوتا کہ وہ آرہا ہے، میں گیٹ پر اگلی دونوں ٹانگیں رکھ کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ یہ بات اسے معلوم تھی اس لیے وہ دونوں پٹ باہر کی طرف کھولتا اور میری گردن اور سر دونوں ہاتھوں میں لے کر تیزی سے ملتا۔ مجھے بڑا اچھا لگتا۔ تھوڑی دیر میرے ساتھ کھیلنے کے بعد ہی وہ گھر میں جاتا۔

سفید بالوں والا اس وقت آتا جب سورج کو ریل کی پٹری کے پار زمین میں چھپے ہوئے بھی دیر ہوگئی ہوتی۔ دن میں پندرہ بیس اسکوٹریں تو میرے گھر کے سامنے سے روز گزرتی ہوں گی۔ پر میں چپ چاپ بیٹھا رہتا یا جو بھی کر رہا ہوتا اسی میں لگا رہتا۔ لیکن اس کے اسکوٹر کی آواز سب سے الگ تھی۔ میں دور ہی سے پہچان لیتا اور جیسے ہی وہ اسکوٹر کھڑی کرکے گیٹ کھولتا، میں خوشی کے مارے بےچین ہو جاتا۔ پھر وہ اسکوٹر اندر لاتا اور میں دوڑ کر دروازہ بھڑبھڑاتا۔ اسے گھنٹی بجانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ نہ تو وہ مجھے بہت زیادہ پیار کرتا نہ میرے ساتھ کھیلتا ہی لیکن ایسی ٹھنڈی نظروں سے مجھے دیکھتا کہ میں لوٹ لوٹ ہو جاتا اور جانے کیا بات تھی کہ جب وہ گھر میں ہوتا مجھ پر ڈانٹ بھی نہ پڑتی۔ وہ مجھے کیا کسی کو بھی نہ ڈانٹتا تھا لیکن اس کی بات سب مانتے تھے۔ میں بھی۔

میرے گھر کے آس پاس بس ایک کتا تھا۔ اس کی مالکن اس کو ’’گولو‘‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر زور زور سے غراتا تو میرا مالک زمین سے پتھر اٹھاکر اس کی طرف پھینکتا بھی تھا۔ وہ تھوڑی دور بھاگ جاتا لیکن پلٹ پلٹ کے غراتا اور بھونکتا رہتا۔ غراتا اور بھونکتا تو میں بھی تھا۔ جتنی مجھ میں طاقت تھی، لیکن اس سے ڈرتا بھی تھا اور اس کی آواز سن کر اپنے مالک کے پیروں سے لگ کر کھڑا ہو جاتا۔

ایک دن میرا مالک مجھے ٹہلانے نکلا تو وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ ہم دونوں مزے سے چلے جارہے تھے کہ ایک دم پارک کے نکڑ پر اس نے جانے کس طرف سے آکر میرے مالک پر حملہ کر دیا۔ مجھے بڑا غصہ آیا اور میں بھونکا بھی، اپنی پوری طاقت لگاکر، لیکن میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اسی وقت میں نے دیکھا کہ میرے مالک نے اپنی کمر سے چوڑی اور لمبی سی رسی کھول کر اس پر خوب زور سے ماری اور وہ ’’پیں پیں‘‘ کرتا ہوا اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ میں بہت خوش ہوا۔ اس کی آواز سن کر دو تین لوگ اس کے گھر سے نکل آئے۔ میرے مالک اور ان لوگوں میں تھوڑی دیر تک خوب زور زور سے باتیں ہوتی رہیں۔

تھوڑے دنوں میں آس پاس کئی چھوٹے بڑے کتے جانے کہاں سے آ گئے لیکن ان میں سے کوئی نہ مجھ سے بولتا تھا نہ میرے مالک سے۔ دن میں تو میں بس تھوڑی دیر کے لیے باہر لے جایا جاتا لیکن رات میں جب ویسے تو ہر طرف اندھیرا ہوتا لیکن جانے کیسے مکان اور پارک بلکہ اور آگے تک کی سڑک دکھائی دیتی، مجھے خوب ٹہلایا جاتا۔ پارک میں تھوڑی دیر کے لیے مجھے آزاد چھوڑ دیا جاتا اور میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑا دوڑا پھرتا۔ میں ذرا بڑا ہو گیا تھا اور مجھ میں خوب طاقت آگئی تھی۔ کیا مزے کے دن تھے۔ پھر ایک رات کو جب میں پارک میں دوڑ رہا تھا، مجھے پوری ایک اینٹ ایک جگہ پڑی ہوئی دکھائی دی۔ مجھے اس کی بو بڑی اچھی لگی۔ میں نے اپنے اگلے پیروں اور دانتوں سے اسے سیدھا کرکے اپنے منھ میں کس کے داب لیا اور وہاں سے پارک کے دوسرے کونے تک بھاگا بھاگا چلا گیا۔ پھر وہاں سے دوسرے کونے تک خوب تیزی سے دوڑا۔ پاس ہی میرا مالک اور زریں کھڑے تھے۔ دونوں زور سے تالی بجا رہے تھے۔ ان کی خوشی دیکھ کر میں نے سمجھ لیا کہ میں کوئی بہت اچھا کام کر رہا ہوں اور ایک بار پھر دوسرے کونے کی طرف دوڑا لیکن میرے مالک نے مجھے پارک کے بیچ ہی میں روک لیا اور میری پیٹھ، گردن اور سرپر بہت دیر تک پیار سے ہاتھ پھیرتا رہا۔

اپنے گھر واپس آکر میں نے برتن میں رکھا ہوا سارا پانی پی لیا۔ اس وقت پانی تو میں روز ہی پیتا تھا لیکن اتنا نہیں۔ پھر تو یہ روز کی بات ہو گئی۔ کبھی کبھی میں اینٹ گھر لے آتا تو اسی وقت جو بھی مجھے باہر لے گیا تھا اسے اٹھاکر پارک کے پاس والے درخت کی طرف پھینک دیتا۔ ان ہی دنوں جانے کیسے ایک دن مجھے اندازہ ہوا کہ میں خوب بڑا ہو گیا ہوں اور میرے پٹھے بہت مضبوط ہو گئے ہیں۔ اس وقت مجھے ’’گولو‘‘ بہت یاد آیا، مل جائے تو بھنبھوڑ ہی ڈالوں۔

میرے گلے میں ایک پٹا تو ہر وقت ہی پڑا رہتا تھا۔ اس میں ایک جگہ دو تین چھوٹے چھوٹے چمکدار گولے تھے۔ مجھے باہر جاتے وقت میرا مالک ہو یا زرّین یا پھر وہ سفید بالوں والا، میری گردن کے پاس کچھ کھٹر پٹر کرتے اور میں ایک لمبی اور چوڑی سی رسی سے بندھ جاتا۔ یہ تو مجھے بہت دنوں بعد معلوم ہوا کہ اسے ’’لیش‘‘ کہتے ہیں۔ اسے دیکھ کر مجھے وہ رسی یاد آ جاتی جسے کمر سے کھول کر میرے مالک نے ’’گولو‘‘ کو مارا تھا اس لیے مجھے اچھی بھی لگتی لیکن اس کی وجہ سے مجھے مالک کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا اور سڑک کے کنارے پڑی ہوئی اینٹوں کو دیکھ کر مجھے بڑی لالچ آتی۔ کبھی کبھی میں پوری طاقت لگاکر جھٹکا دیتا لیکن یہ ’’لیش‘‘ ٹوٹتی نہ مالک کے ہاتھوں سے اسے چھڑا پاتا۔ ڈانٹ پڑتی تو پہلے کی طرح ساتھ ساتھ چلنے لگتا۔

پارک میں میری گردن کے پاس پھر کھٹر پٹر ہوتی اور میں دوڑنے بھاگنے کے لیے آزاد ہو جاتا لیکن مالک کے ہاتھ میں بھی وہ ’’لیش‘‘ مجھے ایک آنکھ نہ بھاتی۔ میں اسے چھیننے کی کوشش کرتا تو وہ ہاتھ اونچا کر لیتا۔ میں دور سے دوڑتا ہوا آتا اور پاس آکر ہوا میں کودتا اور مالک کے کندھے تک پہنچ جاتا، وہ ہاتھ اونچا کر لیتا۔ کبھی اس کا کونا میرے منہ میں آجاتا تو دانتوں سے دباکر اپنی طاقت بھر جھٹکے دیتا لیکن میرا مالک بھی بہت مضبوط تھا۔ ’’چھوڑ دو، چھوڑ دو کانگ‘‘ میرا مالک کہتا تو میں اسے چھوڑ دیتا۔ ایک دن جانے کیسے وہ رسی باہر رہ گئی۔ جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی مجھے ایک دم غصہ آ گیا اور میں نے اپنے تیز نکیلے دانتوں سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔

شام کو جب زرین اور میرے مالک نے اسے دیکھا تو مجھ پر خوب ڈانٹ پڑی۔ میرا مالک تو بہت خفا تھا۔ میں چپ چاپ بیٹھا ہوا دوسری طرف دیکھ رہا تھا لیکن کنکھیوں سے ادھر بھی دیکھ لیتا تھا جہاں سب لوگ کھڑے تھے۔ میرے مالک کا غصہ کسی طرح کم ہی نہیں ہو رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ دو چار ہاتھ تو پڑ ہی جائیں گے۔ اسی وقت گیٹ کھلا اور سفید بالوں والا آ گیا۔ اسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی کہ اب شاید پٹائی نہ لگے اور ہوا بھی یہی۔

میں بھی کچھ کم شیطان نہ تھا۔ دروازہ کھلا پاتا تو چپکے سے گھر کے پیچھے والے کھیت میں دوڑا دوڑا پھرتا اور بہت سے چھوٹے چھوٹے درخت کچل ڈالتا۔ کبھی اپنا گدا پھاڑ ڈالتا۔ ایک بار تو لمبا سا چکنا کپڑا میں نے چتھڑے چتھڑے کر ڈالا تھا۔ اس لیے ڈانٹ تو پڑتی ہی رہتی تھی۔ جب بھی ڈانٹ پڑتی میں دوسری طرف دیکھنے لگتا۔ میری اس حرکت پر کبھی کبھی وہ لوگ ڈانٹتے ڈانٹتے ہنسنے لگتے۔ لیکن اس دن زرین بہت غصہ تھی۔ شاید وہ کپڑا اسی کا تھا۔ مجھے بھی اپنے بے وقوفی پر افسوس ہو رہا تھا۔ میں اسی طرح چپ چاپ بیٹھا دوسری طرف دیکھتا رہا۔ آخر زرین کو ہنسی آہی گئی اور اس نے کہا، ’’میرا اتنا اچھا جمپر پھاڑ ڈالا اور کیسے بھولی بٹیر بنے بیٹھے ہیں۔‘‘

یہ ’’بھولی بٹیر‘‘ کیا ہوتی ہے، مجھے کبھی نہ معلوم ہو سکا۔

اب میں آپ ہی آپ ہر وقت خوش رہتا۔ اپنی طاقت کے نشے میں مست۔ آس پاس کوئی کتا میرا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ رات میں سامنے والے پارک اور اس کے چاروں طرف کی سڑک پر میری حکومت ہوتی۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ میرے سامنے آکر بھونک سکے۔

میرے گھر کے باہر گیٹ سے دوسرے مکان تک جھاڑیوں کی باڑھ لگی تھی۔ دن میں اور پھر شام کے وقت سڑک پر سے بہت سی بھینسیں گزرتیں تو جانے کیوں بیچ میں چلنے کے بجائے جھاڑیوں سے اپنا بدن رگڑتیں۔ مجھے ان کی یہ بات اچھی نہ لگتی۔ آخر وہ میری چیز کیوں چھوتی ہیں۔ میں خوب بھونکتا، ایک کونے سے دوسرے کونے تک دوڑتا لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ لوہے کے دروازے پر اپنے دونوں اگلے پیر رکھ کر کھڑا ہو جاتا اور دونوں پٹوں کی بیچ کی جھری سے ان کالی کلوٹی بھینسوں کو دیکھ کر اپنا غصہ اتارتا۔ ایک دن میری مالکن نے اس آدمی سے جو ایک لمبا سا ڈنڈا لیے ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کچھ کہا لیکن اس نے جھاڑی کے پاس بھینس کو بھگایا نہیں۔ میں نے زور زور سے گیٹ پر بار بار ہاتھ مارا تو جانے کیسے اوپر کا کھٹکا کھسک گیا اور میں باہر نکل آیا۔

مالکن میرا نام لے لے کر بار بار مجھے اندر بلارہی تھی لیکن میں اتنے غصے میں تھا کہ مجھے بھینسوں کے علاوہ نہ کچھ دکھائی دے رہا تھا اور نہ میں کسی کا حکم ماننے کے لیے تیار تھا۔ میں جلدی سے آگے بڑھ کر خوب زور سے بھونکا اور اپنے تیز اور لمبے دانت باہر نکال کر اس بھینس کی طرف جو اَب بھی جھاڑی سے اپنا بدن کھجا رہی تھی، بڑھا تو اس نے اپنا بھاری سر اور سینگ گھمائے۔ میں پہلے تو ڈر کے ذرا سا دبکا پھر جھکائی دے کر اس کے پیچھے چلا گیا اور اپنی پوری طاقت سے بھونکنے لگا۔ اس نے اپنی پچھلی ٹانگ سے مجھے مارنے کی کوشش کی۔ میں نے پھرتی سے اپنا بدن پیچھے کر لیا اور کودکر اس کی دم پکڑ لی۔ وہ بھاگی اور اس کے ساتھ دوسری بھینسیں بھی۔ میں نے اس کی دم نہ چھوڑی اور دانتوں سے اسے خوب زور سے دبا لیا۔ پھر جب وہ نالے پر رکھا ہوا پتھر پار کرکے ریل کی پٹری کے پاس کی گٹیوں پر چڑھنے لگی تو میرے کانوں میں آواز آئی، ’’کانگ کم۔ کانگ کم۔‘‘ میں نے دم چھوڑ دی اور اپنی کامیابی پر خوش خوش گھر کی طرف بھاگا۔ مارے خوشی کے میرے پیر زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ اس دن پہلی بار میں نے اپنی طاقت دیکھی۔ میری آواز سن کر کئی کتے سڑک پر آ گئے تھے لیکن وہ مجھ سے دور دور ہی رہے۔ کسی کو میرے پاس آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ان میں ’’گولو‘‘ نہیں تھا ورنہ میں اسے بھی مزہ چکھا دیتا۔

گیٹ کے پاس سے میری مالکن نے دھیرے سے کہا، ’’کم‘‘ اور میں گھر میں چلا گیا۔ اس دن کے بعد سے بھینسوں نے میرے گھر کی جھاڑیوں کو چھونا چھوڑ دیا۔ سورج ذرا آسمان میں اوپر ہو جاتا تو میں گیٹ کے پاس آکر بیٹھ جاتا۔ جیسے ہی بھینسوں کے پیروں کی آواز آتی میں زور سے غراتا اور بھونکتا۔ وہ بھینسیں سڑک پر تیز تیز چلتی ہوئی ریل کی پٹری کی طرف بڑھنے لگتیں۔ پھر میں دن کا کھانا کھاکر اپنے گدے پر سو جاتا۔

(۴)

ایک دن صبح صبح گیٹ کے باہر سے کسی نے گھنٹی بجائی تو میں زور سے بھونکا۔ زرّین کے ’’نوکانگ‘‘ کہنے پرمیں چپ تو ہو گیا لیکن بالکل تیار کھڑا رہا۔ ویسے تو جب بھی گھنٹی بجتی پہلے کوئی نہ کوئی پوچھتا ’’کون ہے؟‘‘ اور پھر دروازہ کھولتا۔ لیکن اس دن جانے کیا بات تھی کہ سارے لوگ خوش خوش ایک ساتھ گیٹ کے باہر نکل آئے۔ زرین نے میرے گلے کا پٹہ پکڑ لیا اور میں خاموش کھڑا سب کو دیکھتا رہا۔ آنے والوں میں ایک مرد تھا جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، یا شاید دیکھا ہو۔ ٹھیک سے یاد نہیں۔ ایک عورت تھی جس کی صورت پہچانی پہچانی لگ رہی تھی اور ایک پیارا پیارا بچہ۔ مالکن نے اس عورت کو لپٹا لیا۔ سفید بالوں والے نے اس آدمی کو سینے سے لگایا اور اس بچے کو گود میں لے کر پیار کرنے لگا۔ زرّین بھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ میری سمجھ میں یہ تو نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے لیکن میرے گھر کے لوگ خوش تھے اس لیے میں بھی خوش تھا اور پیار سے اس بچے کو دیکھ رہا تھا۔ بڑا پیارا تھا وہ بچہ۔ سفید بالوں والے کی انگلی پکڑکر گیٹ سے اندر جاتے ہوئے وہ کنکھیوں سے مجھے دیکھے جا رہا تھا۔ شاید مجھ سے ڈر رہا تھا۔ میں اسے پاس سے دیکھنے کے لیے ذرا آگے بڑھا تو وہ سفید بالوں والے کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ زریں نے پٹا کھینچ کر مجھے پیچھے کر دیا۔ مجھے بہت برا لگا۔ میں تو اتنا پیار کر رہا ہوں اور وہ ڈرا جا رہا ہے، لیکن میں ایک بار بھی نہیں بھونکا۔

دھیرے دھیرے سب لوگ گھر میں چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا گیا۔

مجھے یہ سب لوگ اچھے لگے، لیکن بچے کی بات ہی اور تھی، گورا گورا گول مٹول۔ اب تو مجھے اس کا ڈرتے ہوئے اپنی طرف دیکھنا بھی اچھا لگتا تھا۔ وہ جب بھی گھر کے باہر آتا کوئی نہ کوئی اس کے ساتھ ضرور ہوتا۔ میں اسے پیار سے دیکھتا رہتا لیکن اس کا ڈر پوری طرح ختم نہ ہوا تھا۔ یہ بات دوسری ہے کہ جب میں ذرا دور ہوتا تو وہ میری طرف ہاتھ ہلاکر کہتا ’’کانگ کانگ‘‘ اس کے منھ سے اپنا نام سن کر میں بہت خوش ہوتا اور جب بھی اسے دیکھتا تھوڑی دوری پر دیوار کے سائے میں بیٹھ جاتا۔ اب تو وہ مجھے پہلے سے بھی زیادہ اچھا لگنے لگا تھا۔

ایک دن جانے کیسے وہ اکیلے ہی گھر کے باہر آ گیا، شاید گیند اٹھانے کے لیے، جو لڑھکتی ہوئی لان میں آ گئی تھی۔ اس کی مجھ پر نظر نہیں پڑی۔ میں گملوں کے پاس لیٹا لیٹا اسے دیکھتا رہا۔ پھول دار قمیص اور پینٹ میں وہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے تیزی سے اچک کر اگلے پیر اس کے کندھوں پر رکھ دیے اور اس کے منھ پر پیار کر لیا۔ اس نے ایک چیخ ماری اور روتا ہوا اندر بھاگا۔ باہر کے کمرے میں شاید کئی لوگ آ گئے تھے۔ ان کی آوازیں تو آرہی تھیں لیکن وہ کیا کہہ رہے تھے میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں روتے روتے اس نے کہا ’’کانگ ماموں نے پیار کر لیا۔‘‘

میں حیران و پریشان کھڑا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرے پیار کرنے سے کسی کو ڈر کیسے لگ سکتا ہے۔ مجھ پر ڈانٹ بھی پڑی۔ کیوں؟ یہ میں کیا جانوں۔ میں نے تو بس اسے پیار کیا تھا۔۔۔ کچھ دنوں بعد وہ سب چلے گئے۔ جاتے وقت پیار سے اس بچے نے اپنے باپ کی گود سے میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور ڈرتے ڈرتے کہا، ’’کانگ ماموں ٹاٹا۔‘‘

اس سے میٹھی آواز میرے کانوں میں پہلے نہ پڑی تھی۔ آخر میرے پیار نے اثر دکھا ہی دیا۔ میں نے سوچا۔ وہ سب ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ میری مالکن تو رو رہی تھی۔ پھر ایک چھوٹی سی گاڑی میں بیٹھ کر وہ سب چلے گئے۔ میں دور تک اس گاڑی کو دیکھتا رہا۔ اسی میں تو وہ بچہ بیٹھا ہوگا جس نے مجھے ’’کانگ ماموں‘‘ کہا تھا۔ یہ ’’ماموں‘‘ ضرور کوئی اچھی بات ہوگی۔ میرے مالک کو بھی تو وہ ’’ماموں‘‘ کہتا تھا۔

(۵)

اب میں اپنے مکان کے آس پاس کے حصہ کا بادشاہ تھا۔ بس ایک ’’گولو‘‘ تھا اور اس کا ساتھی ’’چھٹکو‘‘ جو کبھی کبھی مجھ کو چھیڑتے۔ محلے کے دوسرے سارے کتے مجھے دیکھتے ہی ڈر کے مارے ادھر ادھر ہو جاتے تھے۔ ایک دن بہت سے کتوں نے ایک ساتھ میرے گھر کے سامنے آکر بھونکنا شرع کیا۔ میں سمجھا ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوں گے اس لیے خاموش بیٹھا رہا۔ اتنے میں ’’چھٹکو‘‘ نے جھاڑی سے اپنا منھ نکالا۔ اسے دیکھتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں چھلانگ لگاکر وہاں پہنچا تو وہ کھسک کر باہر ہو گیا۔ میں سمجھ گیا یہ ’’گولو‘‘ ہی کی شرارت ہے۔ لیکن پوری طاقت سے بھونکنے کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ گیٹ بند تھا۔ میں نے اسے زور سے دھکا دیا لیکن کھٹکا نہ کھلا۔ غصہ کے مارے میرا خون کھول رہا تھا۔ اس لیے میں کبھی جھاڑیوں کے پاس سے اور کبھی گیٹ پر آکر غراتا اور بھونکتا رہا۔ اتنے میں وہ موٹی سی عورت آ گئی جو میرے گھر میں کام کرتی تھی۔ میرے کھانا کھانے اور پانی پینے کے برتن بھی وہی صاف کرتی تھی۔ کبھی کبھی میرے لیے قیمہ بھی لاتی تھی۔

اس نے جیسے ہی دروازہ کھولا میں باہر نکل کر ان کتوں پر جھپٹا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ سارے کے سارے بھاگے۔ بھاگنے والوں میں سب سے آگے ’’گولو‘‘ تھا اس کے پیچھے ’’چھٹکو۔‘‘ میں نے اور کسی کی طرف دیکھا بھی نہیں، بس ان دونوں کے پیچھے لپکا۔ لیکن پارک کے کونے تک پہنچنے کے بعد جب وہ کہیں دکھائی نہ دیے تو میں رک کر غرانے لگا۔ اتنے میں مجھے اپنا نام سنائی دیا، کوئی مجھے پکار رہا تھا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو گیٹ کے باہر وہی موٹی عورت کھڑی تھی۔ میں گھر کی طرف لوٹا لیکن پلٹ پلٹ کے دیکھتا بھی جاتا تھا۔ ’’گولو‘‘ اور ’’چھٹکو‘‘ کہیں دکھائی نہ دیے۔ اس دن سے سارے کتوں پر میرا دبدبہ بیٹھ گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ بے کار ڈرتے تھے۔ میں یوں ہی ان پر حملہ تھوڑی کرتا۔ میرا مالک بہت سخت تھا۔ مجھے خود سے کسی کو چھیڑنے کی اجازت نہیں تھی۔

وہ دن بھی کیسے پیارے تھے۔ بھلائے نہیں بھولتے۔ جاڑوں میں گیٹ کے پاس پکی زمین پر ملائم سے گدے کے اوپر لیٹے لیٹے چاروں طرف کے پھولوں سے لدے ہوئے پودوں کو دیکھنا، بیچ میں ایک آدھ جھپکی مار لینا، کوئی مکھی ناک یا کان پر بیٹھ جائے تو ہاتھ ہلائے بغیر دھیرے سے غرا کر اسے اڑا دینا، گیٹ پر کوئی ہاتھ بھی لگا دے تو بھونک بھونک کر اس کی سٹی پٹی گم کردینا اور شان سے، ادھر ادھر دیکھے بغیر، شریفے، امرود اور پپیتے کے پیڑوں کے پاس سے ہوتے ہوئے، دروازہ کھلا ہو تو مکان کے پیچھے کے کھیت میں نکل جانا اور بدن سمیٹے دھیرے دھیرے دوڑتے ہوئے اس جگہ تک پہنچ کر جہاں کانٹے دار تار لگے تھے، دور دور تک پھیلے ہوئے اونچے اونچے درختوں کو دیکھنا۔ کیسے پیارے تھے وہ دن۔

کانٹے دار تاروں سے تھوڑا آگے ایک نالا تھا، اس طرف سے نیولے آ جاتے تھے۔ شروع شروع میں تو میں انہیں دوڑاتا اور وہ بھاگ جاتے لیکن پھر دوستی ہو گئی اور میں نے انھیں دوڑانا چھوڑ دیا۔ وہ مکان کے پیچھے کی دیوار کے پاس کے چھپر سے جس میں جانے کیا کیا بھرا تھا نکلتے، تو میں انہیں چپ چاپ دیکھا کرتا، کچھ نہ بولتا، لیکن کھیت میں کھلنے والے دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے وہ مجھے پلٹ پلٹ کے دیکھتے ضرور۔ پرانے دنوں کا ڈران کے دلوں میں سمایا ہوا تھا۔ مجھے یہ لمبورے سے نیولے جو زمین سے چپکے چپکے دوڑتے، اب اچھے لگنے لگے تھے، ان کا ڈرنا بھی اچھا لگتا تھا۔ گھر کے باہر کے کتوں کی طرح انہیں بھی سہما سہما دیکھ کر میرے دل میں اپنے طاقتور ہونے کا احساس اور بھی بڑھ جاتا لیکن دل میں ایک کانٹا اب بھی چبھا ہوا تھا۔ ’’گولو‘‘ اور ’’چھٹکو‘‘ ویسے تو میرے سامنے نہ آتے لیکن جب بھی میں ان کے گھر کے سامنے سے گزرتا مجھے دیکھ کر خوب بھونکتے۔ ایک دن پارک کے نکڑ کے پاس میں نے یوں ہی پلٹ کر دیکھا تو دونوں جھاڑیوں میں ایسے بیٹھے تھے جیسے حملہ کرنے ہی والے ہوں۔ کون جانے مجھے بےخبر دیکھ کر پیچھے سے حملہ کر دیتے۔ یہ طاقت کا نشہ برا ہوتا ہے اس میں ڈر بھی سمایا رہتا ہے۔

اور ایک دن وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ اس دن میں اپنے مکان کا گیٹ کھلتے ہی چپکے سے باہر نکل گیا تھا۔ مالکن کی نظر مجھ پر نہیں پڑی تھی۔ اصل میں مجھے پیشاب بڑے زور سے لگا تھا اور کچھ جی بھی چاہ رہا تھا کہ ’’لیش‘‘ کے بغیر تھوڑی دیر گھوم لوں۔ بڑے والے مکان سے ذرا آگے، پارک کی دیوار کے پاس، پیر اٹھاکر پیشاب کر رہا تھا کہ ان دونوں نے ایک دم حملہ کر دیا۔ ذرا دیر تو مجھے سنبھلنے میں لگی۔ اس کے بعد میں غرایا تو گولو نے پینترا بدل کر میری ٹانگ اپنے دانتوں میں دبانے کی کوشش کی، بلکہ دبا بھی لی۔ اب مجھے سچ مچ غصہ آ گیا اور میں نے پلٹ کر اس کی گردن پر وار کیا تو اس کے منہ سے میری ٹانگ چھوٹ گئی۔ مجھے منھ میں کچھ سیٹھا سیٹھا محسوس ہوا لیکن میں نے اپنے دانت گاڑے گاڑے آگے کے داہنے ہاتھ کے پنجے سے اس کی ناک نوچ لی۔

وہ زمین پر گر گیا تو ’’چھٹکو‘‘ بھاگا اور ’’گولو‘‘ نے بھی زور لگاکر جھٹکے سے اپنی گردن چھڑالی اور بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ تو زرّین نے جو لڑائی کی آواز سن کر باہر نکل آئی تھی میرا پٹا نہ پکڑ لیا ہوتا تو میں ان دونوں کو حملہ کرنے کا مزہ چکھا دیتا۔ لیکن خیر۔ اس دن کے بعد سے ان دونوں کی پھر کبھی ہمت نہ ہوئی کہ مجھ پر حملہ کریں اور میں جب بھی آس پاس یا سامنے سے گزرتا تو ان کے گھر کی طرف منھ کرکے کم از کم غراتا ضرور۔ وہ بھی غراتے لیکن بس اس وقت جب ان کی مالکن وہاں ہوتی۔ ان کی آواز سن کر میں سلاخوں والے پھاٹک کی طرف منھ کرکے اس وقت تک بھونکتا رہتا جب تک وہ انہیں لے کر اندر کمرے میں چلی نہ جاتی۔

(۶)

یاد نہیں یہ انہی جاڑوں کی بات ہے یا پچھلے جاڑوں کی۔ گھر کے سارے لوگ ایک ایک کرکے کہیں چلے گئے، بس زرّیں رہ گی۔ وہ موٹی سی عورت جو میرے برتن دھوتی تھی ان دنوں گھر ہی میں رہتی تھی۔ بس کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے کہیں چلی جاتی۔ باقی سارے لوگوں کو میری آنکھیں ڈھونڈھا کرتی تھیں لیکن کوئی دکھائی نہ دیتا۔ گھر سونا سونا لگتا۔ کھانا تو مجھے پہلے ہی کی طرح دونوں وقت پیٹ بھر ملتا لیکن جب سے وہ لوگ گئے تھے، مجھے ہڈی نہیں ملی تھی۔ اس کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔۔ شام ہونے لگتی تو زرین کوٹ پہناکر اس کی ڈوریاں میرے پیٹ پرباندھ دیتی۔ سردی تو پھر بھی لگتی لیکن میں ساری رات گھر کی رکھوالی کرتا رہتا۔ دن کو نیند پوری نہ ہوتی تو شام کو ذرا سی دیر کے لیے سو جاتا۔ سوتا کیا بس ذرا سی انگھائی لے لیتا۔

ایک شام میں ذرا آنکھ بند کرکے لیٹا ہی تھا۔۔۔ شاید آنکھ بھی نہ لگنے پائی تھی کہ زرّین کی آواز سنائی دی۔ ڈری ڈری آواز۔ میں ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور گردن اونچی کرکے سونگھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک اجنبی سی بوناک سے ٹکرائی۔ میں بھونکتے ہوئے چھپر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ گیٹ کے پاس کچھ کھٹ پٹ سنائی دی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو پہلے زرین نظر آئی، اس کے بعد وہ موٹی سی عورت جو میرے یہاں کام کرتی تھی۔ دونوں گھبرائی گھبرائی سی لگ رہی تھیں۔ میں ان کی طرف لپکا۔ وہ عورتیں زرین کو پڑوس کے ایک گھر میں چھوڑنے جارہی تھی۔ میں ساتھ ہو لیا اور اس مکان کے باہر اس وقت تک کھڑا رہا جب تک زرّین دروازہ کھول کر اندر نہیں چلی گئی۔ اس کے بعد دوڑتے ہوے چھپر تک گیا لیکن وہاں اب کوئی نہیں تھا۔ بو ضرور تھی۔ میں تھوڑی دیر تک وہاں کھڑا ہوا بھونکتا اور غراتا رہا۔ اس وقت مجھے اپنے آپ پر بھی غصہ آ رہا تھا۔ آنکھ نہ جھپکی ہوتی تو اسے بھنبھوڑ ہی ڈالتا۔

کچھ روز بعد سب لوگ آ گئے اور میں صبح کے وقت اور شام میں پھر ٹہلنے جانے لگا۔ ویسے تو میرا مالک جب مجھے ٹہلانے لے جاتا تو خوب مزا آتا، وہ اچھل کود بہت کراتا لیکن سفید بالوں والے کے ساتھ دوسرا ہی مزہ آتا۔ ایک تو آزادی زیادہ رہتی، بات بات پر ڈانٹ نہ پڑتی، اور میں آوارہ پھرنے والے اور ان بڑے چھوٹے کتوں پر جو اپنے اپنے مالکوں کے ساتھ ہوتے دھونس بھی زیادہ جما پاتا۔ میں خود سے تو کسی سے بولتا نہیں تھا۔ غصہ بھی مجھے دیر میں آتا تھا لیکن ڈرتا بھی کسی سے نہ تھا۔ ایک دن جب میں اس سفید بالوں والے (کیا کروں مجھے اس کا نام ہی نہیں معلوم۔ کوئی اسے نام لے کر پکارتا ہی نہ تھا۔ نہ جانے کیوں) کے ساتھ صبح صبح اپنے محلے سے نکل کر چوڑی سڑک پر جا رہا تھا، چھ سات کتوں نے مجھے یک دم گھیر لیا اور لگے بھونکنے۔ میں نے زور کاجھٹکا دیا تو جانے کیسے لیش سے میری گردن آزاد ہو گئی۔ میں زور سے غرایا۔ اس وقت غصہ کے مارے میرا برا حال تھا۔ میں نے گردن گھماکر چاروں طرف دیکھا اور ان میں سے سب سے مضبوط کتے کی طرف چھلانگ لگاکر اس کی ٹانگ دبوچ لی۔ دوسرے کتے تو دھیرے دھیرے ’’بھوں بھوں‘‘ کرتے ہوئے بھاگے اور جن کی ٹانگ میرے جبڑے میں دبی تھی ’’پیں پیں‘‘ کرنے لگا۔

سفید بالوں والے نے مجھے زور سے ڈانٹا اور ’’نو کانگ لیو ہم‘‘ کہا۔ لیکن اس وقت تو مجھ پر بھوت سوار تھا۔ میں نے دانت اور زور سے اس کی ہڈیوں میں گاڑ دیے۔ وہ تکلیف کے مارے زمین پر گر گیا۔ اب مجھے اس پر کچھ کچھ رحم بھی آنے لگا تھا۔ اسی وقت چھڑی میری پیٹھ پرپڑی اور میں نے اس کی ٹانگ چھوڑ دی۔ وہ لنگڑاتا ہوا بھاگا اور سڑک کے کنارے کی دوکان کے پیچھے چھپ گیا۔ واپسی میں سفید بالوں والے نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے خفا ہے۔ جب بھی کوئی ایسی ویسی بات ہوتی وہ بس چپ ہو جاتا۔ ویسے بھی وہ بہت کم بولتا تھا۔

انہی دنوں مجھے پہلی بار ایک کتیا اچھی لگی۔ میری ہی طرح کالی، بھوری اور لمبائی چوڑائی میں مجھ سے بس ذرا سی کم۔۔۔ میں تیزی سے اس کی طرف لپکا تو میرے مالک نے ’’لیش‘‘ کھینچ لی۔ اس وقت میرے بدن کی ایک ایک بوٹی تھرک رہی تھی اور میں جس طرح بھی ہو، اس تک پہنچ جانا چاہتا تھا لیکن وہ اپنے مالک کے ساتھ میری محبت سے انجان بنی چلی جا رہی تھی۔ مجھے اس کی یہ بات اچھی نہیں لگی اور میں اسی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت تک جب وہ تیسرے موڑ پر ایک دم میری نظروں سے غائب نہ ہو گئی۔ میں بہت دیر تک اس کے بدن کی خوشبو سونگھتا رہا۔ میٹھی میٹھی خوشبو اور پھر یہ بو میری ناک میں بس گئی۔

شام کے وقت میں باہر نکلتا تو پارک کے کونے پر جھاڑیوں کے پاس، بجلی کے کھمبے سے چپکی کھڑی اور بالوں میں لیٹی ہوئی کئی کتیا دکھائی پڑتیں۔ ان میں سے بس ایک کے بال چمکدار تھے اور ڈیل ڈول میں بھی اچھی تھی لیکن اسی وقت وہ مجھے یاد آ جاتی جس نے بس ایک جھلک دکھاکر مجھے اپنا بنا لیا تھا۔ دوسری بار تو اسے دیکھنا نصیب ہی نہیں ہوا۔۔۔ پھر کئی دنوں بعد پارک میں دوڑتے دوڑتے میں بائیں طرف اس جگہ جہاں ریت کا ڈھیر لگا تھا کودا تو وہی چمکدار کتیا جیسے میرا انتظار کر رہی تھی۔ میں تیزی سے اس کی طرف بڑھا لیکن جوں ہی اسے سونگھے کے لیے میں نے اپنی ناک بڑھائی، بدبو کا ایسا زبردست بھبکا آیا کہ میرا سارا عشق ہرن ہو گیا اور میں پارک کی منڈیر پر چڑھ گیا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ اسی وقت میرے مالک نے جو ایک کونے میں لوہے کی سلاخوں کے پاس کسی سے باتیں کر رہا تھا، مجھے آواز دی اور میں ہوا سے باتیں کرتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا۔

ان دنوں مجھے لگتا جیسے گھر کا ہر شخص جو بھی کام کرتا ہے وہ میرے لیے ہی ہوتا ہے۔ میرا مالک باہر صرف اس لیے جاتا ہے کہ میرے لیے ’ڈاگ بسکٹ‘ لائے۔ سفید بالوں والا موم پھلیاں لینے۔ ایک لمبا سا سفید ڈبہ صرف اس لیے تھا کہ اس میں میرا دودھ اور قیمہ رکھا جائے، مالکن کا کام بس میرے لیے کھانا پکانا تھا اور میرے برتن دھونے اور میرے بیٹھنے کی جگہ صاف کرنا نہ ہوتا تو وہ موٹی عورت کیوں آتی۔ زرّین تو ہر وقت میری دیکھ بھال کیا ہی کرتی تھی۔ مجھے باہر آنگن میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں چلی جاتی تو مجھے بہت برا لگتا۔ پھر میں سوچتا شاید سو رہی ہو۔ آخر میں بھی تو دن میں کئی بار سوتا تھا لیکن اس کا کتاب لے کر بیٹھ جانا اور سفید بالوں والے کا اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلینا مجھے ایک آنکھ نہ بھاتا۔

مجھے کھانے کو خوب بہت سا ملتا اور وہ بھی مزیدار۔ قیمے میں روٹی ملاکر دی جاتی تو میں پہلے روٹی الگ کرکے سارا قیمہ چٹ کر جاتا اس کے بعد روٹی کے ان ٹکڑوں کی نوبت آ جاتی جن میں قیمہ لگا ہوتا۔ کبھی کبھی نرم سی موٹی اور پھولی ہوئی روٹی ایسی کوئی چیز ملتی، وہ بھی بڑے مزے کے ہوتی۔ بس ایک بات مجھے بہت بری لگتی۔ کھانا پلیٹ میں ڈالا جاتا، دودھ دیا جاتا یا وہ سخت سا بسکٹ جسے توڑنے کے لیے مجھے دانتوں سے زور لگانا پڑتا تو کوئی یہ نہیں سوچتا تھا کہ شاید مجھے بہت بھوک لگ رہی ہو۔ مجھے تھوڑی دور پر کھڑے کھڑے یا بیٹھ لیٹ کر انتظار کرنا پڑتا۔ میں کبھی پلیٹ کی طرف دیکھتا اور کبھی کھانا دینے والے کے ہاتھوں کی طرف۔ پھر ہاتھ کی دو انگلیاں ملتیں اور جیسے ہی چٹکی بجتی میں کھانے پر ٹوٹ پڑتا۔

کبھی کبھی مالکن مجھے نلی دیتی جس کے موٹے والے حصہ پر گوشت لگا ہوتا، پہلے تو میں گوشت چٹ کر جاتا اس کے بعد نلی کو دانتوں سے دباکر توڑ ڈالتا اور اس کے اندر کا گودا چاٹ ڈالتا۔ ہڈی کی باری اس کے بعد آتی۔ یہ گودا تو قیمہ سے بھی زیادہ مزیدار ہوتا۔ ہڈی ختم کرنے کے بعد بھی گودے کا مزہ یاد کرکے میں بہت دیر تک ہونٹوں پر زبان پھیرا کرتا۔

ڈرتا میں سب سے زیادہ مالک سے تھا اور اس کی آنکھ کا ایک ایک اشارہ بھی سمجھتا تھا لیکن جب سفید بالوں والا موجود ہوتا تو میں مالک سے میں ذرا کم ڈرتا۔ وہ کہتا ’’کانگ گو‘‘ تو میں بڑے مالک کی طرف دیکھتا اور اپنی جگہ گردن جھکائے کھڑا رہتا لیکن اپنے مالک سے آنکھیں ملانے کی ہمت مجھے اس وقت بھی نہ ہوتی۔

’’اس وقت نہیں جائیں گے۔‘‘ زرین کہتی، ’’دیکھ نہیں رہے ہیں ابو بیٹھے ہیں۔‘‘

یہ سن کر میں دو قدم اور آگے بڑھ جاتا۔ سر جھکائے جھکائے۔ سفید بالوں والا وہی سخت سابسکٹ جیب سے نکال کر میرے سامنے پلیٹ یا کاغذ پررکھ دیتا اور فوراً ہی چٹکی بجا دیتا۔ مجھے اس کی یہ بات بہت پسند تھی۔ دوسرے کتوں کو نالیوں کے کنارے درختوں کے نیچے اور سڑک پر پڑی ہوئی چیزوں کو کھاتے ہوئے دیکھتا تو مجھے بہت برا لگتا۔ معلوم نہیں ان کے مالک انہیں ٹوکتے نہیں تھے یا وہ ان کا کہنا نہیں مانتے تھے۔ شروع میں تو میں بھی ہر جگہ منھ مار دیتا تھا لیکن سمجھانے اور ایک آدھ بار کی ڈانٹ یا مار کے بعد میری یہ عادت چھوٹ گئی تھی۔ میں اپنے سامنے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ تھوڑا تھوڑا مجھے غرور ہو گیا تھا اور میرے گھر کے لوگ! وہ تو تھے ہی سب سے اچھے اور ان کی ہر چیز سب سے اچھی۔

وہ مکان جس کی دیوار میرے گھر سے ملی ہوئی تھی بہت بڑا تھا اور اونچا بھی۔ آس پاس اور بھی بہت سے چمک دار مکان تھے جن میں رہنے والے خوب اچھے کپڑے پہنتے تھے لیکن مجھے نہ اپنے گھر سے زیادہ کوئی مکان پسند تھا نہ اپنے لوگوں سے زیادہ کوئی دوسرا۔ پاس والے گھر میں دو دو گاڑیاں تھیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑی تھی اور دوسری ذرا چھوٹی۔

ایک رات میں اپنے مالک کے ساتھ ٹہلنے کے بعد لوٹ رہا تھا کہ ایک گاڑی آکر اسی مکان پر رکی۔ اس کی روشنی سیدھی میری آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔ مجھے بہت برا لگا۔ گھر آکر میں مالک کی اسکوٹر کے پاس جاکر پچھلی گدی پر پیر رکھ کر کھڑا ہو گیا اور میں نے اپنا منھ اس پر ٹکا دیا۔ میرے مالک کی یہ چھوٹی سی گاڑی بھی بہت تیز دوڑتی تھی۔ اس گاڑی کا اس سے کیا مقابلہ؟ اور پھر اس کے چلنے کی تو آواز بھی ہوتی تھی جو میں پہچانتا تھا۔ ایسی تھوڑی تھی کہ پاس سے نکل گئی اور پتہ بھی نہ چلا۔ میرا مالک اس پر بیٹھ کر کہیں جاتا تھا۔ ایک دن میرے مالک نے اسکوٹر باہر ہی کھڑی رہنے دی اور گیٹ کھول کر مجھے باہر بلایا۔ دھیرے دھیرے میرا سر سہلایا اور کہا، ’’اسٹے ہیئر‘‘ میں سمجھا نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اندر کی طرف بڑھا تو اس نے رک کر اسکوٹر پر ہاتھ رکھا اور بولا، ’’اسٹے ہیئر۔ آئی ایم کمنگ جسٹ ناؤ۔‘‘ اب بات میری سمجھ میں آگئی اور میں اسی جگہ رکا رہا۔

میری مالک کو گھر سے آنے میں کچھ دیر لگ گئی لیکن میں وہیں کھڑا رہا۔ اتنے میں کسی نے آکر گدی پر ہاتھ رکھ دیا تو میں اپنے اگلے دونوں پیر اس کے کندھے پر ٹکاکر زور زور سے بھونکنے لگا۔ وہ بھاگا تو میں نے بھونکتے بھونکتے اس کا پیچھا کیا لیکن پلٹ پلٹ کر اسکوٹر بھی دیکھتا رہا اس لیے وہ جانے کہاں چھپ گیا۔ میری آواز سن کر مالک دوڑا دوڑا گھر کے اندر سے آیا تو میں گدی پر پیر رکھے کھڑا تھا۔ ’’کیا ہوا کانگ؟‘‘ اس نے کہا اور میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ اتنے میں وہی آدمی جس کو میں نے دوڑا یا تھا، پارک کے موڑ سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ میں غرایا تو میرے مالک نے مجھے چمکارا اور دونوں باتیں کرنے لگے۔ مجھے بڑی شرم آئی کہ میں اپنے مالک کے دوست کو بھی نہیں پہچانتا۔ وہ میرے مالک اور میرے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔

(۷)

برسات کے دن تھے۔ کل رات ہی میں نے سڑک پر جگہ جگہ پانی بھرے ہونے کے باوجود خوب اچک پھاند کی تھی۔ لیکن اس وقت مجھے اپنا بدن بھاری بھاری لگ رہا تھا۔ روز کی طرح مجھے کھانا دیا گیا لیکن میں اپنی جگہ سے اٹھا تک نہیں۔ مالکن نے بہت کہا لیکن میں نے کھانے کو منہ بھی نہ لگایا۔ زرّین اپنا تھیلا لے کے جا چکی تھی۔ تھوڑی دیر میں میرا مالک گھر سے نکلا تو اس کی نظر میری پلیٹ پر پڑی۔ ’’کانگ تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟‘‘ اس نے کہا اور میری پیٹھ سہلائی۔ پھر اس نے میرا منھ اونچا کرکے ناک دیکھی اور بولا، ’’سوکھ رہی ہے‘‘ اور پھر میرے سر کو دھیرے دھیرے سہلاتے ہوئے کہا، ’’ٹمپریچر ہے، ہلکا سا۔‘‘ اس کے بعد اس نے میری پیٹھ تھپتھپائی اور مجھے تسلی دی، ’’شام کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے چلیں گے۔‘‘ میں دھیرے دھیرے چلتا ہوا گیٹ تک اسے چھوڑنے گیا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے دیکھا اور چلا گیا۔

میں سارے دن برآمدے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ زرین اپنے وقت پر واپس آئی۔ میری پلیٹ کے کھانے میں چونٹیاں دیکھ کر اس نے سارا کھانا پھینک دیا اور دوسری صاف پلیٹ میں قیمہ دیا۔ میں نے سونگھا تک نہیں، پھر اس نے مونگ پھلی کے دانے دیے۔ میں نے انہیں بھی بس سونگھ کر چھوڑ دیا۔ کچھ کھانے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ جب گھر کی مالکن نے کھانے کے لیے بار بار کہا تو میں نے منھ دوسری طرف کر لیا۔ شام کو واپس آتے ہی میرے مالک نے پیٹھ چھوئی اور ’’بخار تیز ہو گیا‘‘ کہتا ہوا اندر چلا گیا۔ بس ذرا سی دیر میں باہر آیا اور رکشہ پر بٹھا کر مجھے ڈاکٹر کے یہاں لے گیا۔

ڈاکٹر صاحب کو میں جانتا تھا، میرا مالک اسے یہی کہتا تھا۔ تین چار بار تو وہ دو دو انجکشن لگا چکے تھے۔ تکلیف تو ہوئی تھی لیکن بہت زیادہ نہیں۔ وہ میری پیٹھ پر پیار سے ہاتھ بھی پھیرتے تھے اس لیے مجھے اچھے لگتے تھے۔ انہوں نے میز پر لٹاکر انجکشن لگایا۔ میرے مالک نے میرا منھ پکڑ رکھا تھا۔ اس کی یہ بات مجھے اچھی نہیں لگی۔ کیا میں ڈاکٹر صاحب کو کاٹ لیتا؟

اگلے دن میری طبیعت ٹھیک ہو گئی۔ میں نے ڈٹ کر کھانا کھایا اور شام کو پارک میں خوب ادھم چوکڑی مچائی۔ لیکن تین چار دن کے بعد مجھے پھر بخار آ گیا۔ پھر انجکشن لگایا گیا اور طبیعت ٹھیک ہو گئی۔ لیکن ہر چوتھے پانچویں دن یا آٹھ دس دن بعد بخار آ جاتا۔ کبھی کبھی تو بخار دو دو دن رہتا۔ میں بہت دبلا ہو گیا تھا۔ میری پیٹھ پر لوگ ہاتھ پھیرتے تو ان کی انگلیاں میری پسلیوں سے لگتیں۔ کمزور تو تھا لیکن میری ہمت میں کمی نہیں آئی تھی۔ چار پانچ دن کے بخار سے اٹھا تو اسی شام یا اگلی شام میں پارک میں دوڑ بھاگ کرتے کرتے ہمیشہ کی طرح اس جگہ کود گیا جہاں اینٹوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔ آگے کے داہنے پیر میں زور دار ٹیس اٹھی لیکن میں پی گیا اور دھیرے دھیرے چل کر اپنے مالک کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے میرے گلے کے پٹے میں ’’لیش‘‘ ڈالی۔ میں ان کے ساتھ چپ چاپ گھر آکر اپنے گدے پر بیٹھ گیا۔

صبح پیشاب کرانے کے لیے گیٹ کھولا گیا تو میری وہی ٹانگ جس میں رات کو زوردار چمک ہوئی تھی خوب سوج گئی تھی اور مجھے بستر سے اٹھنے میں بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ میرا مالک مجھے فوراً ڈاکٹر کے یہاں لے گیا۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی چمک دار ڈنڈی سے جس کے ایک کونے پر چکنا سا پتھر لگا ہوا تھا میری ٹانگ کو دھیرے دھیرے ٹھونکا۔ وہ کچھ کچھ پریشان معلوم ہو رہے تھے۔ انہوں نے میرے مالک سے کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا لیکن مجھے دوبارہ رکشہ میں بٹھاکر بہت دور لے جایا گیا۔ اتنی دور کہ میں بیٹھے بیٹھے تھک گیا تو پائیدان پر لیٹ گیا۔ آخر وہ مکان آیا جہاں مجھے لے جایا جا رہا تھا۔ میرے مالک نے ایک عورت سے کچھ بات کی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور تھوڑی دور جاکر کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہاں کئی کتے پہلے سے تھے۔ ان میں سے ایک کو دیکھ کر مجھے اپنی بیماری سے پہلے کے دن یاد آ گئے۔ خوب کسی ہوئی چمک دار جلد، چاروں ٹانگوں پر اوپر کی طرف گوشت ہی گوشت، چوڑا سینا اور دانتوں کی مضبوط پکڑ۔ اس وقت میری حالت دیکھ کر کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں کیسا تھا۔ پھر بھی مجھے یقین تھا کہ میرا مالک علاج کراکے مجھے پہلے ہی جیسا کر دےگا لیکن اس کی پریشانی دیکھ کر میرا دل کڑھتا تھا، پر میں کر بھی کیا سکتا تھا۔

آخر مجھے ایک مشین کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ خوب تیز روشنی ہوئی اور مجھے میز پر سے اتار لیا گیا۔ میرے مالک نے اپنی جیب سے بہت سے روپے نکال کر اس عورت کو دیے۔ مجھے اپنے مالک پر بہت رحم آیا اور اس عورت پر غصہ۔

دو تین دن بعد میں پھر ڈاکٹر صاحب کی میز پر لیٹا ہوا تھا۔ ایک گیلے اور چپچپے سے کپڑے کی پٹی میری اس ٹانگ پر جس میں زوروں کا درد تھا باندھ دی گئی، اوپر سے نیچے تک۔ مجھے بہت برا لگ رہا تھا او ریہ ٹانگ بھاری بھاری بھی لگ رہی تھی۔ گھر آکر میں نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور سو گیا اور بہت دیر تک سوتا رہا۔ آنکھ کھلی تو پٹی سوکھ گئی تھی۔۔۔ میں نے اٹھنا چاہا تو پٹی والی ٹانگ موڑ نہ سکا لیکن کسی نہ کسی طرح اٹھ کھڑا ہوا۔ دو تین دن تک تو اٹھنے اور چلنے پھرنے میں بہت پریشانی ہوئی۔ اس کے بعد میں تین ٹانگوں کے سہارے چلنے اور کبھی کبھی دوڑنے لگا۔ لیکن مجھے دوڑنے سے منع کیا جاتا تھا۔ میری خوراک تو کم ہو گئی تھی لیکن مجھے بخار نہ تھا اور ناک بھی گیلی تھی۔ کھانے کے علاوہ دونوں وقت دوا ڈال کر مجھے دودھ بھی دیا جاتا تھا جس سے بدن میں کچھ کچھ طاقت آنے لگی تھی لیکن کمزوری اب بھی بہت تھی۔

پہلے تو میں دن میں بھی دو تین بار سوتا تھا لیکن اب سارے دن سوتا جاگتا رہتا۔ اونگھتے اونگھتے وہ دن یاد آجاتے جب میں پارک میں دوڑتا پھرتا تھا اور بھینسوں کو دیکھ کر پاگل ہو جاتا تھا تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ بھینسیں میرے گھر کی جھاڑیوں کو تو اب بھی نہ چھوتیں اور سڑک پر سے تیز تیز چلتے ہوئے گزر جاتیں۔ شاید انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ میں ان پر جھپٹ پڑنا تو دور کی بات، زوروں سے بھونک بھی نہ سکتا تھا۔

ایک دن جانے سب کو کیا ہوا کہ خوب اچھے اچھے کپڑے پہن کر کہیں چلے گئے اور مجھے گھر کے اندر کردیا۔ میں پہلے تو دروازے کے پاس کان لگائے پیروں کی چاپ سنتا رہا لیکن جب باہر کے گیٹ میں تالا لگانے کی آواز آئی تو میں بدن کا سارا بوجھ تین ٹانگوں پر ڈالے لنگڑاتا ہوا لابی پار کرکے اپنے مالک کے کمرے کے دروازے کے پاس آکر لیٹ گیا۔ لیٹے لیٹے میں نے سوچا کہ میں نے اپنی چھوٹی سی دم، جو ذرا سی خوشی کی بات پر آپ ہی آپ ہلنے لگتی تھی، جانے کتنے دن سے نہیں ہلائی۔ میں نے جھوٹ موٹ خوشی میں اسے ہلانے کی کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ سر گھماکر پیچھے کی طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ پھر میں نے بائیں ٹانگ پر ذرا سا زور دے کر کروٹ لینے کی کوشش کی تو بھاری سر پر قابو نہ رہا اور وہ پکے فرش سے ٹکرا گیا، بہت تیز درد ہوا اور آنکھوں کے سامنے تھوڑی دیر تک اندھیرا سا چھایا رہا لیکن کیا کرتا۔ ویسے اس طرح کی تکلیفوں کا اب میں کچھ کچھ عادی ہو گیا تھا۔

پکا فرش پسلیوں میں چبھنے لگا تو میں نے کروٹ بدلنے کی کوشش کی لیکن پلاسٹر کی وجہ سے دوسرا پیر مڑ نہ سکا اور میں ذرا ادھر ادھر ہوکر لیٹا رہا، لیٹے لیٹے شایدایک جھپکی آ گئی۔ آنکھ کھلی تو لابی کے پیچھے دیوار پر کچھ کھٹ پٹ ہو رہی تھی۔ میں نے سونگھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو میں اسی طرح لیٹا رہا، چپ چاپ۔ تھوڑی دیر میں آوازیں آنا بند ہو گئیں یا مجھے جھپکی آ گئی، آنکھ کھلی تو زیادہ شور ہو رہا تھا لیکن سمجھ میں اب بھی کچھ نہ آیا۔ میں اسی طرح لیٹا ان دنوں کو یاد کرتا رہا، جب ذرا سی کھٹ پٹ ہونے پر میں دیوانہ ہو جاتا تھا اور گیٹ سے مکان کے پیچھے کی دیوار تک دوڑا دوڑا پھرتا اور بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیتا تھا۔ اتنے میں چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ کھڑکی کا پورا چوکھٹا پیچھے کی طرف جھک گیا اور ایک چھوٹے سے قد کا لڑکا لابی میں کودا۔

اس کی نظر مجھ پر نہیں پڑی اور اس نے بڑا دروازہ کھول دیا۔ اب ایک لمبا چوڑا آدمی جس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک موٹی سی راڈ تھی، اندر آ گیا۔ لوہے کی یہ راڈ میرے ہی گھر کی تھی۔ اس سے مزدور پیچھے کے کھیت میں زمین کھودتے تھے۔ اب چار آنکھوں نے ایک طرف سے اور دو آنکھوں نے دوسری طرف سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ نہ میں کچھ بولا نہ وہ دونوں۔ میں نے سوچا کہ شاید مجھے دیکھ کر ہی وہ دونوں ڈر کے مارے بھاگ جائیں۔ لیکن وہ مجھ سے ذرا نہ ڈرے۔ ہو سکتا ہے انہیں میری حالت کے بارے میں پہلے سے معلوم رہا ہو۔

وہ دونوں ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے اور ان کی پیٹھ میری طرف ہوئی تو میں نے پہلے بائیں ٹانگ پر زور دیا اور پھر دائیں ٹانگ پر جو موٹے سے سخت کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی، زوروں کی چمک ہوئی جس سے میرے منھ سے ہلکی سی ’’سی‘‘ کی آواز نکل گئی لیکن میں برداشت کر گیا اور پچھلی دونوں اور اگلی بائیں ٹانگ پر سارے بدن کا بوجھ ڈال کر کھڑا ہو گیا۔ ایک بار سارے بدن کو ذرا سا پیچھے کرکے اپنی طاقت آنکنے کی کوشش کی۔ اس وقت وہ دونوں کچن سے نکل کر اس کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے جس میں سفید بالوں والا رہتا تھا اور گھر کی مالکن بھی۔ میں ساری ہمت اکٹھی کرکے تخت اور پھر بڑی سی میز کے پاس آ گیا۔ میں نے پھر ایک بار اپنی طاقت کو تولا۔ وزن بہت کم تھا لیکن دل کی طاقت نے پلڑا بھاری کر دیا۔ وہ لوگ کمرے میں داخل ہی ہونے والے تھے۔ میں نے اپنے مالک اور گھر کے سارے لوگوں کو یاد کیا اور ساری طاقت پچھلی ٹانگوں کے پٹھوں میں بھر کر ایک جست لگا دی۔ سوچا تو یہ تھا کہ کم سے کم چھوٹے والے کی گدی تک تو پہنچ ہی جاؤں گا لیکن اس کی کمر تک پہنچتے پہنچتے ہی ہمت اور طاقت دونوں نے ساتھ چھوڑ دیا اور میں بھد سے پکے فرش پر گر پڑا۔

میرے گرنے کی آواز سن کر لمبے والے نے پلٹ کر دیکھا اور مڑکر اسی لوہے کی راڈ سے میرے پیٹ کے ذرا اوپر دو وار کیے۔ درد کی ایک لہر اور پھر ایک سلاخ سی پورے بدن میں بجلی کی سی تیزی سے دوڑ گئی۔ میں بھونک بھی نہ سکا۔ پھر جب دونوں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور کمرے کے اندر سے آنے والی ’’کھٹ کھٹ‘‘ کی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرانے لگیں تو میں بڑی مشکل سے اٹھا اور تین ٹانگوں پر دھیرے دھیرے چلتا ہوا پہلے والی جگہ پر آکر لیٹ گیا۔ مجھ پر غشی سی طاری ہو گئی تھی لیکن ایسی بھی نہیں کہ اندازہ نہ کرسکوں کہ کمرے میں کچھ گڑبڑ ہو رہا ہے۔ اگلی داہنی ٹانگ کا درد، پکی زمین پر ٹکرانے سے پسلیوں کی چبھن اور کولہے کی چوٹ ہی کیا کم تھی کہ انہیں آتا جاتا دیکھ کر آنکھوں سے بھی تکلیف کو اپنے جسم میں داخل ہونے دیتا۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

میں کتنی دیر تک غافل رہا یا سوتا جاگتا رہا کچھ بھی نہیں معلوم لیکن جب آنکھ کھلی تو وہ دونوں بھاگ رہے تھے۔ چھوٹے والے کے بارے میں تو نہیں معلوم لیکن لمبے والے کی بغل میں ایک پوٹلی دبی ہوئی تھی۔ میں اپنے آپ کو ہلا بھی نہ سکا لیکن آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب میں اپنے گھر کی جھاڑیوں سے کس کس کے اپنے موٹے سے پیٹ کو رگڑتی ہوئی بھینس کی دم سے لٹک گیا تھا اور پھر ریل کی پٹری کے پاس اس کی دم چھوڑ کر خون کا پورا مزا لینے کے لیے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے گھر لوٹ آیا تھا۔

ابھی خون کے مزے کی یاد پوری طرح سے زبان سے غائب بھی نہ ہوئی تھی کہ میری نظر زرّیں پر پڑی اور پھر گھر کی مالکن پر۔ دونوں کو گھبرائے گھبرائے ادھر ادھر آتے جاتے، پاس پڑوس کے لوگوں کے سوالوں اور زرین کو سسکیاں لے لے کر روتے ہوئے دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ کچھ گڑبڑ ہو گیا ہے، لیکن کیا گڑبڑ ہوا ہے یہ مجھے ٹھیک سے معلوم نہ تھا۔ وہ لوگ کیا باتیں کر رہے تھے یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ایسا تو میرے گھر میں ہوتا نہیں تھا۔ اس دن اور کیا کیا ہوا، یہ تو یاد نہیں لیکن کئی دنوں تک دو تین نئے لفظ۔ چور۔ چوری اور پولیس بار بار سنائی دیتے رہے۔

تھوڑی دیر بعد جب میں نے اپنے مالک کے جوتوں کی آواز سنی تو کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا، ’’اسی دن کے لیے تو پالا تھا اور تم بیمار پڑ گئے کانگ!‘‘ اس نے کہا۔ میں نے شرم کے مارے منھ دوسری طرف کرکے آنکھیں بند کرلیں۔ اپنے مالک سے آنکھیں ملانے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ اسی وقت پیٹ کے پاس سے ایک ٹیس سی اٹھی اور میرے بدن کی ایک ایک بوٹی جیسے کانپ گئی۔ اتنے میں کچھ اور جانے پہچانے لوگ گھر میں آئے اور اسی طرح کی باتیں ہونے لگیں جو میں بہت دیر سے سن رہا تھا۔ کسی نے کہا، ’’کوئی ایسا ضرور تھا جسے سب معلوم تھا، یہ بھی کہ کانگ بیمار ہے۔‘‘

اپنی بیماری کا ذکر سن کر مجھے اپنے اوپر بہت غصہ آیا۔ ایسی زندگی سے کیا فائدہ کہ اپنے مالک کے کام نہ آسکوں۔ میں کسی سے آنکھیں نہ ملاتا۔ بڑی شرم آتی۔ اسی طرح دوتین دن گزر گئے۔ دھیرے دھیرے سب کچھ پہلے کی طرح ہوتا جا رہا تھا۔ ایک شام سفید بالوں والا آہستہ آہستہ میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ جب اس کی انگلیاں اس جگہ پہنچیں جہاں مجھے لوہے کی راڈ سے مارا گیا تھا تو زوروں کی چمک ہوئی، میں نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے اسی جگہ پھر ہاتھ پھیرا اور زرین کو پکارا، ’’زرین بیٹی یہاں آؤ۔ دیکھو تو یہ کیا ہے؟‘‘

تھوڑی دیر بعد زرین اور گھر کی مالکن اس جگہ کو دھیرے دھیرے چھو رہے تھے۔ میں اپنی تکلیف ظاہر نہیں ہونے دے رہا تھا اس لیے وہ لوگ پریشان تو تھے لیکن زیادہ نہیں۔ ان کے ہاتھ پھیرنے سے مجھے بھی محسوس ہوا کہ پیٹ کے اوپر اوپر کچھ ابھرا ابھرا سا ہے۔ اتنے میں میرا مالک آ گیا اور اس نے کوئی گیلی گیلی چیز روئی سے اس جگہ لگا دی۔

رات بہت بے چینی سے گزری۔ ویسے تو سوتا میں دن ہی تھا اور رات کے وقت تو میں جھاڑیوں، لوہے کے گیٹ، درختوں والے پتلے راستے اور پیچھے کے آنگن کے بس چکر لگایا کرتا تھا۔ تھک جاتا تو گیٹ کے پاس اس طرح بیٹھ جاتا کہ جھاڑیوں کے پاس والی دیوار سے گھر کے پیچھے تک کی دیوار دیکھ سکوں۔۔۔ جاگتے رہنے کی اس عادت کی وجہ سے رات کاٹنا مشکل ہو گئی۔ لیکن صبح ہوتے ہوتے مجھے معمولی سی جھپکی آ گئی۔ اتنے میں میرے مالک نے پیٹھ پر اسی جگہ دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرا تو میری آنکھ کھل گئی۔

(۸)

ڈاکٹر صاحب نے جیسے ہی میز پر لٹاکر اس جگہ ہاتھ پھیرا۔ وہ میرے مالک کی طرف منھ کرکے بولے، ’’میں کہتا نہ تھا کہ کانگ نے حملہ ضرور کیا ہوگا۔ چوروں نے کسی سخت چیز سے مارا ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب کی یہ بات سن کر بہت دنوں بعد میری آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور میں نے اپنے مالک سے آنکھیں ملائیں۔ وہ محبت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اسی وقت ڈاکٹر نے کچھ اور کہا جس سے وہ پریشان سا ہو گیا لیکن میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ اپنے مالک کے پیار بھرے اشارے پر میں ٹانگیں پھیلاکر لیٹ گیا۔ یہ ہاتھ بدن پر رکھے ہوئے ہوں تو پھر کیا پریشانی۔ زیادہ سے زیادہ یہی تو ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب لمبی لیکن پتلی سی سوئی پیٹ میں گھونپ دیں گے۔ یہ تو وہ کئی بار کر چکے ہیں، مجھے ذرا بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے الماری سے دوتین شیشیاں، سوئیاں، دو ایک لمبی لمبی چاقو ایسی چیزیں اور رسی کی ایک جالی نکالی۔ اسے دیکھ کر میرے مالک نے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب اس کی کیا ضرورت، میں منھ پکڑے لیتا ہوں۔‘‘

’’نہیں منھ پر جالی ضرور باندھ دیجیے۔ مانا بہت کمزور ہو گیا لیکن ہے تو ڈوبرین۔ پلٹ پڑا تو ہاتھ چبا ڈالےگا۔‘‘ انہوں نے کہا۔

’’ڈوبرین۔‘‘ یہ نام تو میں نے کئی بار سنا تھا لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں۔

جالی سے میرا منھ باندھ دیا گیا۔ میرے مالک نے ذرا زور دے کر ایک ہاتھ سے میرا سر داب لیا اور دوسرے ہاتھ سے پیٹ۔ میز پر کچھ کھٹر پٹر ہوتی رہی۔۔۔ پھر ایک دم مجھے لگا کہ اس جگہ کو جو ابھر آئی تھی جیسے چاقو سے کاٹا جا رہا ہو۔ درد کی ایک بہت تیز لہر بدن میں چاروں طرف پھیل گئی لیکن جب سر کے پاس پہنچی تو میں برداشت نہ کر سکا۔ میں نے غصہ سے منھ ڈاکٹر صاحب کی طرف بڑھایا۔ وہ ہڑبڑاکر پیچھے ہٹ گئے تو مالک نے مجھے چمکارا تو میں نے دانت اندر کر لیے اور طے کر لیا کہ کچھ ہو جائے اب سر نہ اٹھاؤں گا۔ میں نے منھ بھی سختی سے بند کر لیا۔

کھال کئی بار کاٹی گئی۔ اندر سے بدبودار پانی چھل چھل بہنے لگا۔ طرح طرح کی دوائیں کاٹی ہوئی جگہ میں بدن کے اندر لگائی گئیں۔ اس کے بعد میری کھال کو سی دیا گیا۔ سوئی جب جب اندر جاتی، بدن کارواں رواں کانپ جاتا لیکن میں دل ہی دل میں اپنے مالک سے پکا وعدہ کر چکا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے اپنے منھ سے آواز نہ نکلنے دوں گا۔ یہی میں نے کیا۔ تھوڑے دنوں بعد میرا زخم بھرنے لگا۔ پھر پیروں کی پٹی بھی کاٹ دی گئی۔ مجھے بڑا اچھا لگا۔ اب میں دھیرے دھیرے چلنے پھرنے لگا تھا۔ بدن میں تھوڑی تھوڑی طاقت بھی آ گئی تھی۔

کئی دنوں بعد مجھے خوب مل مل کے نہلایا گیا۔ میرے بال چمک اٹھے اور میری آنکھوں میں بیماری سے پہلے کے دنوں کی یادیں ابھرنے لگیں۔ میں تو پارک میں دوڑ بھی لگانا چاہتا تھا لیکن اس کی اجازت نہ تھی۔ اب میں آس پاس کے مکانوں اور ان کے رہنے والوں کو جنہیں بیماری کے دنوں میں بھول سا گیا تھا، دوبارہ کچھ کچھ پہچاننے لگا تھا۔ ایک دن پارک کے دوسری طرف کے کونے پر ’’گولو‘‘ دکھائی دیا۔ جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی آڑ میں ہو گیا۔ اچھا ہی ہوا۔ اسے میری بیماری کے بارے میں معلوم نہ ہوگا نہیں تو حملہ ضرور کر دیتا اور میرا سارا بھرم ٹوٹ جاتا۔ کیسی شرمندگی ہوتی۔

(۹)

رات بھر جاگتی آنکھوں سے سہانے خواب دیکھتا رہا لیکن صبح ذراسی جھپکی لے کر اٹھا تو بدن بھاری تھا۔ میرا مالک کہیں جانے کے لیے باہر آیا تو میں ایسا بن کے بیٹھ گیا جیسے بالکل ٹھیک ہوں۔ جانے کہاں جا رہا ہے۔ اسے پریشان کیوں کروں۔ شاید جلدی میں تھا۔ اس نے میرے سر پر دھیرے دھیرے گدگدی کی اور چلا گیا۔ اسے خوش دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا۔ میں اس کے پیروں کی چاپ سنتا رہا اور جب یہ آواز غائب ہو گئی میں اسی جگہ لیٹ گیا۔

طبیعت کچھ عجیب سی ہو رہی تھی۔ تکلیف کسی ایک جگہ نہ تھی۔ بدن میں درد کبھی ایک جگہ ہوتا کبھی دوسری جگہ۔ ایسا درد پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا۔ مجھ سے نہ دن میں کھانا کھایا گیا نہ شام کو۔ زرین نے بہت چمکارا۔ کھانے کے لیے بار بار کہا لیکن میرا ذرا بھی جی نہ ہوا۔ رات میں جب میرا مالک آیا اور اسے معلوم ہوا کہ میں نے سارے دن کچھ نہیں کھایا ہے تو وہ آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ انہیں کپڑوں میں جو صبح پہن کر گیا تھا۔ مجھے اپنے اوپر بڑا غصہ آیا۔ دن بھر کا تھکا تھکایا گھر لوٹا تو اب میری وجہ سے پریشانی میں پڑ گیا۔ وہ میری پیٹھ سہلانے لگا تو میں نے اس کے دل کا بوجھ کم کرنے کے لیے جھوٹ موٹ بھونکنے کی کوشش کی۔ آواز جیسے گلے میں پھنس کے رہ گئی۔ لیکن میں نے اپنی تکلیف اس پر ظاہر نہیں ہونے دی۔ وہ کچھ مطمئن ہو گیا اور میری چمک دار پلیٹ میں قیمہ اور وہ پھولی پھولی روٹی لے آیا جو مجھے پسند تھی۔ میں اسی طرح لیٹا رہا۔ لیکن جب اس نے کئی بار پیار سے ’کھالو کانگ‘ کھالو کانگ‘ کہا تو میں نے سوچا کہ اس کا دل رکھنے کے لیے جیسے بھی بن پڑے ایک دو نوالے تو کھا ہی لوں۔ میں نے ذرا سا قیمہ چکھا ہی تھا کہ جانے کیسے پورا منھ پانی سے بھر گیا اور میں نے پلیٹ میں ہی قے کر دی۔

اگلی صبح پھر مجھے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے میری پیٹھ، پیٹ، ٹانگوں اور گردن کو دبا دبا کر دیکھا۔ وہ کچھ کچھ پریشان معلوم ہو رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے میری ٹانگ اور پیٹ کے بیچ میں شیشے کی ایک پتلی سی نلکی لگا دی۔ یہ پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا۔ میں خاموش لیٹا رہا۔ تھوڑی دیر بعد نلکی نکال کر انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے کر دی۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہ تھی۔ لیکن جب انہوں نے وہ نلکی اسی طرح میرے مالک کی آنکھوں کے سامنے کی تو میں نے سوچا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے میری پیٹ میں سوئی لگا دی۔ تکلیف تو ہوئی لیکن کوئی خاص نہیں۔ یہ تو کئی بار ہو چکا تھا۔ لیکن دوسری سوئی جب پیچھے کی بائیں ٹانگ میں لگائی گئی میری جان ہی نکل گئی۔ ایسا لگتا تھا جیسے گاڑھا گاڑھا گرم پانی دھیرے دھیرے اوپر چڑھ رہا ہے۔ جہاں جہاں وہ پانی پہنچتا ایسی ٹیس اٹھتی کہ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن میرے مالک کے ہاتھ نے جو میری پیٹھ پر رکھا ہوا تھا، بڑا سہارا دیا۔

اس سوئی کے بعد تو میرے لیے وہ پیر زمین پر رکھنا مشکل ہو گیا تھا لیکن مجھے بار بار پیشاب لگتا تھا اور باہر جانا پڑتا تھا۔ بڑی تکلیف ہوتی۔ اس پیر کا پنجہ زمین سے چھو بھی جاتا تو ایسی تیز چمک اٹھتی کہ جی چاہتا وہیں لیٹ جاؤں لیکن یہ سوچ کر کہ محلے کے کسی کتے نے مجھے سڑک پر لیٹا دیکھ لیا تو کیا سوچےگا۔ کسی نہ کسی طرح سڑک کے اس پار پیشاب کرنے کی کوشش کرتا۔ پیشاب تو نہ ہوتا بس دو ایک قطرے ٹپکتے۔ میں اپنے مالک کو دیکھتا تو کٹ کے رہ جاتا اور مجھے اپنی بیماری سے گھن آنے لگتی۔ آخر اسے کتنی تکلیف دوں، اور پھر مجھے دیکھ کر اس کے چہرے اور آنکھوں میں جو پریشانی دکھائی دیتی، اسے برداشت کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ میں اپنا منھ دوسری طرف کر لیتا۔

میں نے اپنے مالک کو کئی دنوں سے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ سفید بالوں والا جب گھر سے باہر جانے لگتا تو گیٹ کے پاس سے واپس آکر ایک بار پھر میرے پاس کھڑا ہو جاتا۔ شام کو گیٹ کھولتے ہی وہ بس ایک سوال کرتا ’’کانگ کیسا ہے؟‘‘ جواب تو کوئی نہ کوئی ضرور دیتا لیکن ہنستے ہوئے میں نے تین چار دن سے کسی کو نہیں دیکھا تھا۔

اب میرے لیے بستر سے اٹھنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ لیکن میرے مالک نے جب رات میں کہا، ’’کانگ باہر چلوگے؟‘‘ تو میرا دل مچل گیا، سامنے والا پارک دیکھنے کے لیے۔ ان کتوں کو دیکھنے کے لیے جو مجھے دیکھ کر کونوں میں دبک جاتے تھے۔ ان کتیوں پر ایک نظر ڈالنے کے لیے جو میرے انتظار میں کھڑی رہتی تھیں۔ اب تو یہ موٹا گدا بھی جو تھوڑے ہی دن پہلے میرے لیے بنایا گیا تھا بدن میں چبھنے لگا تھا۔ اس پر جب میں پہلی بار لیٹا تھا تو مجھے کتنا اچھا لگا تھا۔ خود اپنا آپ بھی۔۔۔ اسی یاد کے سہارے میں نے بدن کی ساری طاقت تینوں ٹانگوں میں بھری اور دھیرے دھیرے اٹھ کھڑا ہوا اور مالک کے ساتھ لنگڑاتا لنگڑاتا پارک کے پاس جاکر رک گیا۔ رک کیا گیا، بدن نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ جانے کیسے، میں جو بھی سوچتا، جو بھی چاہتا میرے مالک کو اس کا پتہ لگ جاتا۔ اس نے ایک بار بھی آگے بڑھنے کو نہیں کہا اور میری پیٹھ سہلاتا رہا۔ میں نے منھ اٹھاکر جو کچھ بھی دیکھ سکتا تھا، خوب اچھی طرح دیکھا۔ اس کے بعد اپنے گھر کیسے آیا، کیا سوچا، کچھ بھی یاد نہیں۔ پھر رات ہو گئی۔ بڑی لمبی رات کے بعد صبح ہوئی اور سورج کی روشنی چاروں طرف پھیل گئی۔

پہلے پیٹ کے پاس جہاں چوٹ تھی وہاں درد ہوتا تھا۔ پھر پیر میں جیسے ہر وقت سوئیاں چبھتی رہتی تھیں اور اب تو سارا بدن۔۔۔ بس کیا بتاؤں کیا ہو رہا تھا۔ پیٹ میں جانے کیا ادھر سے ادھر چکر لگایا کرتا۔ یہ سب اسی ڈاکٹر کا کیا ہوا ہے۔ میں سوچتا۔ لیکن میرا مالک مجھے پھر اسی کے پاس لے گیا۔ اس نے میری آنکھوں کے اوپر اور نیچے کی کھال کھینچ کھینچ کر بار بار دیکھا۔ میرا منھ کھلواکر زبان دیکھی۔ لیکن نہ سوئی لگائی نہ کوئی دوا لگائی۔ یہ بات مجھے اچھی لگی۔ اس نے میرے مالک سے کہا، ’’شام کے وقت کانگ کو نہ لائیے گا، بس مجھے حال بتا دیجیےگا۔‘‘ شام اترنے لگی تو میں نے دل ہی دل میں کہا، ’’چلو پہاڑ ایسا دن تو کٹا۔‘‘

اس وقت میرا مالک ڈاکٹر صاحب کے یہاں ہی گیا ہوا تھا۔ گھر کے باقی سارے لوگ میرے پاس بیٹھے تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر پریشانی اور اداسی چھائی ہوئی تھی۔ زرّین تو رو رہی تھی۔ شاید دوسرے بھی رو رہے ہوں۔ مجھے صاف صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اتنے میں گیٹ کھلنے کی آواز ہوئی۔ میرا مالک اندر آیا۔ نیلا پینٹ اور نیلا کوٹ پہنے ہوئے۔ مجھے اس کے یہ کپڑے بہت اچھے لگتے تھے۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا میرے سامنے کی لمبی سی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے مجھے دیکھا اور اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ’’نونو‘‘ کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مجھ سے اس کا رونا نہ دیکھا گیا اور میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن کان بند کرنا میرے بس میں نہ تھا اس لیے بہت کچھ سنتا رہا۔ کبھی کبھی آنکھیں کھول کے اپنے مالک کو دیکھتا۔ اسی وقت سفید بالوں والے نے اسے چمٹا لیا، پیار کیا اور پوچھا، ’’ڈاکٹر صاحب نے کیا کہا۔‘‘ میرے مالک کی آواز بھی رندھ گئی تھی۔

’’کہتے ہیں صبح تک پیشاب نہ ہو تو زہر دے دیجیے۔ آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ وہ کتنی تکلیف میں ہے۔ دوسرے کتے تو کاٹنے لگتے ہیں۔ ایسے صبر کا ڈوبرین تو میں نے دیکھا نہیں۔‘‘ اس نے روتے روتے کہا۔

’’ہم اپنے ہاتھ سے زہر نہ دے پائیں گے۔‘‘ سفید بالوں والے نے کہا۔

یہ ڈاکٹر صاحب کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھے اتنی تکلیف ہے۔ میں نے حیرت سے سوچا اور یہ سوچتے سوچتے میرے منھ سے کراہ نکل گئی۔ میں نے جلدی سے دانت بھینچ لیے۔ اس کے بعد کی یادیں دھندلا گئی ہیں۔ رات گئے تک سارے لوگ میرے پاس بیٹھے رہے۔ اس کے بعد بجلی بجھا دی گئی۔ پھر بھی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی آتا۔ پاس بیٹھ کر میرے پیٹ اور سر پر ہاتھ پھیرتا۔ پھر مجھے شاید نیند آ گئی یا کچھ پتہ نہیں کیا ہوا۔۔۔ معلوم نہیں کب، جانے کیسے میرے منھ سے زوروں کی چیخ نکل گئی۔ اتنے میں بجلی جلی۔ یہ زرین تھی۔ اس نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ سفید بالوں والا آگیا۔ اس نے میرے کھلے ہوئے منھ کو آہستہ آہستہ بند کر دیا۔ پھر دھیرے دھیرے میری آنکھوں پر اس طرح ہاتھ پھیرا کہ دونوں پپوٹوں کے بیچ کی پتلی سی لکیر سے جو دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا تھا وہ بھی غائب ہو گیا۔ آگے والی ایک ٹانگ جانے کیسے لیٹے لیٹے ہی اوپر اٹھ گئی تھی، اس نے وہ ٹانگ بھی دھیرے دھیرے نیچی کرکے گدے پر رکھ دی۔

میں نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ ہوا۔ لوگوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ کوئی اب بھی میرے بدن پر ہاتھ پھیر رہا تھا لیکن اب ان میں اتنی گرمی نہیں تھی اور میں پہچان بھی نہیں پا رہا تھا کہ یہ ہاتھ کس کا ہے۔ اسی وقت میں نے کئی دنوں بلکہ شاید مہینوں بعد چڑیوں کی چہکار سنی۔ صبح ہونے والی تھی۔ مجھے نہلائے جانے کا وقت۔ اس کے بعد مجھے بس اتنا یاد ہے وہ بھی کچھ کچھ کہ اسی گدے اور میری خوبصورت چادر کے ساتھ مجھے پیچھے کھیت میں لے جایا گیا اور دھیرے دھیرے ایک گڑھے میں اتار دیا گیا۔

نہ میں نے کسی کے رونے کی آواز سنی نہ کسی کو روتے دیکھا لیکن میں جانتا ہوں وہ سب رو رہے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں رو رہا تھا یا نہیں لیکن اتنا پیار کرنے والے لوگوں کو چھوڑتے وقت کون ہے جو اپنے آپ کو رونے سے روک سکے۔

(۱۰)

میں کانگ تھا۔ میں ڈوبرین تھا۔

لیکن میں چوروں کو چوری کرنے سے نہ روک سکا۔

ہاں میں نے جان ضرور دے دی۔

یہ آخری خیال تھا جو میرے دماغ یا بدن یا آس پاس کی ہوا یا مٹی کو چھوتا ہوا گذر گیا۔۔۔ اس کے بعد مجھے نہ اپنے ہونے کے بارے میں کچھ معلوم ہے نہ اپنے نہ ہونے کے بارے میں۔

مصنف:عابد سہیل

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here