افریقہ طرح طرح کے خطوں اور طرح طرح کے قبیلوں کے لیے بطور خاص مشہور ہے۔ شمال مغربی افریقہ میں مراکو میں ایک قبیلہ ایسا بھی آباد ہے جو اپنے رسم و رواج میں اس علاقےکےاور قبیلوں سے ملتا جلتا بھی ہے اور بہت کچھ مختلف بھی ہے۔ اس قبیلے کا نام بربر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بڑھتے بڑھتے بربر لوگ اب ایک چھوٹی سی قوم کی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔ ان کی زندگی کے دلچسپ پہلو اور بھی بہت ہیں۔ مگر ان میں شادی بیاه کا جو انداز ہے وہ بطورخاص قابل ذکر ہے۔ تصویر میں جو خچرسواربر بر ہے ، وہ کوئی عام بر بر نہیں خیمے کی لکڑیاں خچر پرلادے ۔پھر اس پر کمبلوں اور لحافوں کی زین بناکر خودسوار ، سرپرسفیدعمامہ باندھے ہاتھ پر ایک سوٹ کیس سنبھالے جس میں لگتا ہے کوئی خاص چیز رکھی گئی ہے۔ آخر یہ کہاں کی تیاری ہے؟ یہ جا رہا ہے مرا کو کے علاقے میں امل چل کی طرف ۔ جہاں ایک خاص میلہ لگتا ہے ۔ وہاں کے رسم ورواج کے اس منظر میں ذرا غور سے دیکھاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا یہ سفید عمامہ جسے بڑی احتیاط سے باندھا گیا ہے ایک خاض معنی رکھتاہے۔ سرکے پیچھے عمامہ سے لٹکتا ہوادم نما کپڑا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بر بر کنوارا ہے اور شادی کا آرزو مند ہے ۔ اور اس کے ہاتھ میں جو سوٹ کیس ہے وہ شادی بیاہ کے کپڑوں وغیرہ سے بھراہواہے۔جوں جوں یہ بر بر مل چل سے قریب ہوتا جا رہا ہے اس کے اشتیاق میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ جلد سے جلد وہاں پہنچنا چاہتاہے۔ جہاں اس کے قبیلے کے اور لوگ سالانہ میلے کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ اس اجتماع کو وہ اپنی زبان میں موسم کہتے ہیں ۔ کوہ اطلس کے وامن میں ایک کشادہ میدان میں ایک مقامی بزرگ سدی محمد المر حنی کا مزار ہے۔ یہیں تمام بر بر ہر سال ستمبر کے مہینے میں پابندی سے جمع ہوتے ہیں ۔ ایک طرح سے یہ ان بزرگ کی سالانہ زیارت یا عرس کا موقع بھی ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی تجارتی میلے کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے جہاں مختلف لوگ سامان خریدتے اور فروخت کرتے ہیں۔ قيمتا بھی اور اشیا کے تبادلے کے ذریعہ بھی۔ مگر اس میلے کا جوخاص پہلو ہے وہ عوامی سطح پر بڑے پیمانے میں شادی بیاہ کے عہد وپیما کا رواج ہے اسی لیے اسے امل چل کا دلہنوں کا میلہ کہاجاتاہے۔
اس میلے کی شہرت، مقبولیت اورکشش کا راز ہیں آیت حدیدو قبیلے کی شادی کے قابل جوان اورحسين دوشیزائیں اور عقد ثانی کی خواہش مند عورتیں یہ دوشیزائیں اور خواتین میلے میں مثالی اپنے حسن و جمال کو نیم وانقابوں ، ٹوپیوں اور خوب صورت رنگ برنگے۔ سرا پاؤں سے چھپائےپھرتی ہیں۔ یہ نقابیں اس شہ روزہ میلے کے دوران مستقبل کے ساتھیوں کے انتخاب کرنے میں ان کی کافی مدد کرتی ہیں ۔ یہ میلہ اب بربرقبیلے کے لوگوں کے لیے ایک ضروری اورلازمی موقع بن گیا ہے۔ عام طور پر اس میلے میں دولھا دولن ایک دوست کو پسند کر لیتے ہیں اورپھر شادی ان کے اپنے گاوں میں خاندان کے اور لوگوں عزیزوں اور دوستوں کی ۔ موجودگی میں طے پاتی ہے ۔ اور اگر یہ شادی زیادہ عرصہ تک کامیاب ثابت نہیں ہوتی ہے تو طلاق لینے اور دینے کا عام رواج ہے، دراصل آیت حدیدد کی عورتوں کو جتنی با چاہے شادی کرنے یا طلاق لینے کی آزادی حاصل ہے ۔ اس طرح امل چل کے اس موسم میں کنواری دوشیزاؤں کے مقابلے میں بیوہ یا طلاق شدہ عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی امتیازی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ نوکیلی ٹوپی یا اوپر کو نوک بناتا ہوا سراپا اوڑھتی ہیں۔
مراکو اس علاقے میں آیت حدیدو کا آزادکسان و گلہ بان ہی ہر اعتبار سے خالص بربر لگتا ہے۔ یہ لوگ اس پہاڑی علاقے میں عرب مسلمان فاتحین کی آمد سے پہلے سے قابض ہیں ۔ ان بربروں نے اسلام قبول کیا جیسا کہ وہ پہلے عیسائیت کو قبول کر چکے تھے۔ مگر یہ سلام کی کاہل پیروی نہیں کرتے۔ ان کا مذہب اسلامی اصولوں کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے قدیم قبائیلی عقائدسے مرکب ہے ۔بربر لوگوں کا یہ سالانہ موسم، امل چل کے جنوب میں منعقد ہوتا ہے ۔ میلے کے پہلے دن صبح سے ہی مختلف قبائلی خاندان اپنے گلوں کے ساتھ پہاڑیوں کے راستوں سے آکر اس میدانی علاقے میں خیمہ زن ہونے لگتے ہیں۔دور دراز کے گاوں سے آنے والے یہ لوگ اپنے ساتھ اون،گوشت، غلہ اور سبزیاں وغیرہ فروخت کرنے یا تبادلہ کر نے کے لیے لے آتے ہیں۔ بعض سوداگر اپنے خیموں میں ہی تجارتی مال و اسباب سجادیتے ہیں اور یہیں لین دین ہوتاہے ۔سدی محمدا لمرحنی کا مزار عبادتی اورسماجی امو ر کا مرکز بن جاتا ہے۔ آیت جدیدو کے قایئلی لوگ اس بات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں کہ ان بزرگ نے کب اور کن حالات میں نوع انسانی کی رشدورہنمائی کا کام انجام دیا۔ وہ اس علاقے کی تہذیبی اور مذہبی زندگی کی تاریخ سے پوری طرح واقف نہیں ہیں مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اپنے دور میں سدی محمدالمرحتی نے جن شادیوں کی سرپرستی کی یاجن شادیوں کے لیے دعائیں دیں وہ بہت کامیاب اور بابرکت رہیں۔ ان کا اب بھی یہی عقیده ہے کہ سدی المرحنی کی روح اس مقبرہ میں رہتی ہے اور اب بھی اس کا فیض جاری ہے ۔ چنانچہ آج بھی ایسےمناظر وہاں دیکھنے کو مل جاتے ہیں کہ کوئی دولھا عبادت کے لیے اس مقبرہ میں جارہا ہے ۔ کہیں کوئی دلہن مقبرہ کے صحن سے مٹھی بھر مٹی اٹھا کر اپنے دامن میں باندھ رہی ہے ۔
ایک دلچسب بات یہ بھی ہے کہ اس میلے میں ایک طرف دولہا دولن اپنے شریک حیات کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہیں مگرساتھ ہی اس معاملے میں خاندان کے دیگر افراد کی شمولیت بھی ضروری ہے، وہ اس طرح کہ دولھا دلہن پہلے خود ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے خاندان والوں سے دیگر مراسم کی تکمیل کراتے ہیں۔ دولھا عام طورپر دلہن کے لیے شادی کے کپڑے اور دیگر سازوسامان لاتا ہے اور ایک خاص مہر کے ساتھ عقد ہوجاتا ہے۔عام طورپر ردلہنوں کا لباس سفید ہوتا ہے ۔ اس پر ایک سیاہ اونی کیپ جس میں قبائلی خصوصیت رکھنے والی رنگ برنگی دھاریاں ہوتی ہیں پہنادیاجاتاہے۔ مگر عقدثانی کی صورت میں سرپر ایک مخروطی وضع کی ٹوپی پہنا دی جاتی ہے جس پر رنگین سراپا ہوتا ہے۔ ورنہ پہلی شادی کی بات ہو تو صرف سراپا ہوتا ہے ، مخروطی ٹوپی نہیں ہوتی۔بربرقبیلے کے بزرگ لوگ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کے لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ موسم میں بربر قبیلوں میں دلہنیں فروخت ہوتی ہیں ۔ اس کے برخلاف حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملات اہل خاندان اور دیگر احباب کی ۔ منظوری اور سر کاری کاروائی کے ساتھ طےپاتے ہیں ۔ آئیے پورے سلسلے کوذراقریب سے دیکھیں۔
میلہ شروع ہونے کے بعد شادی کی خواہشمند دوشیزائین یا عقد ثانی چاہنے والی بیوائیں یا مطلوقہ عورتیں دولہنوں کا رواعیتی قبائلی لباس پہن کر بناؤ سنگار کے ساتھ سدی محمد المرحنی کے مقبرے کے پاس آ کر میدان میں آپس میں بات چیت کرتے ہوئے بیٹھ جاتی ہیں ۔ یہ دراصل وہ وقفہ ہوتا ہے جب وہ شادی کے آرزو مند مردوں کو دیکھتی ہیں اور خودکوبھی نمائش کرواتی ہیں تاکہ طرفین کے انتخاب میں آسانی ہو۔ گفتگو پہلے اشاروں کی زبان سے ہوتی ہے اور یہ اشارے ایسے واضح اور بامعنی ہوتے ہیں جیسے جملے اور فقرے ان کی زبان عربی نہیں بلکہ عر بی سے بہت مختلف زبان طماز یغت ہے ۔ہاں مراکو کی سرکاری زبان عربی ہے متوقع دولھے جو دوست بھی ہوسکتے ہیں ، رشتہ داربھی ہو سکتے ہیں، دم دار سفید عمامہ باندھے میلے میں ایک دوسرے سے بغلگیرہو تے اور تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔ ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی دلہنوں کا جائزه بھی لیتے ہیں اوراپنے دوستوں سے بھی مشورہ کرتے رہتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ دن میں چار بار دلہنوں کے جھنڈ میں سے گزرتے ہیں ۔ اینی پسند کی دلہن سے اشاروں اشاروں میں گفتگو کرتے ہوئے اورجب خاصی حوصلہ افزاپیش رفت ہوتی ہے تو اس کے قریب جاکراس کا ہاتھ تھام لیتے ہیں ۔ بعض اوقات کسی تجربہ کار دوست کا ہاتھ بھی ان کے شانے پر ہوتا ہے۔ شایداس سے ان کی ہمت بندھی رہتی ہے۔ اس طرح انتخاب کا مرحلہ شادی کا عہد وپیماں طے ہوجاتاہے ۔ اس ایک مرحلے کے طے کرنے میں امیدویاس وہیم کے مختلف مرحلوں سے بھی گزرنا پڑتاہے ۔ شادی کے ایک آرزو مند ایک مرد نے ایک دلہن کا ہاتھ تھام لیا اور وہ بہت خوش ہے کہ بیل منڈھے چڑھ جائے گی۔ مگر دولہن کے خاندان کے لوگوں نے ناپسندیدگی کا مشورہ دیا تو دلہن نے اس مرد کا ہاتھ جھٹک دیا۔ اب اسے کہیں اور قسمت آزمائی کرنی ہوگی ۔
جب کوئی دلہن کسی مرد سے شادی کے لیے رضا مند ہوجاتی ہے تو ساحرانہ انداز میں کہتی ہے ۔ تم نے میرا دل جیت لیا ہے ، مگر اس کے ساتھ ہی آیت حدیدد کے قبیلے نے ایک سماجی اول بھی بناسکتاہے۔و شادی باہمی رضامندی سے اورآ پسی نا چاقی یا نا پاپسندید گی ہو تو طلاق بہرحال جب پسندیانا پسند کا مرحلہ طے پا جاتا ہے تو باقاعدہ عقدکی نوبت آتی ہے۔دولھا دلہن دونوں اپنے روایتی قبائلی لباس پہن کر عقدکے اعلان کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور شادی بیاہ کے خیمے کی طر ف جاتے ہیں جہاں سرکاری افسروں کی موجودگی میں عقدکی ضروری کارروائی کی جاتی ہے۔اس کے بعد اس جوڑے کو سرکار کی طرف سے مقرر کردہ ایک قاضی (جج) کے سامنے پیش کیا جاتاہے۔ یہ قاضی اگرچہ غیررسمی انداز میں گفتگو کرتا ہے ۔ گفتگو میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ہوتی ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ وہ ہر جوڑے کی شادی کی تجویز کومنظور کرلے۔ وہ دیکھتا ہے کہ آیا طرفین شادی کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں بھی توعمروں میں بہت بڑا فرق تونہیں ہے۔ عقد کے لیے ضروری کارروائی کی گئی یا نہیں ۔ اس طرح کی باتوں کی چشم دیدانداز میں تصدیق کرلینے کے بعد عقد کی اجازت دیتا ہے۔
اس طرح جب شادی کا اقرارنامہ مکمل ہوجاتا ہے تووولها سر کارکو ۲۰ در ہم فیس ادا کرتا ہے . اوردولہن کوپچاس درہم اگر پہلی شادی کا معاملہ ہے تودولہن۔۔موسم ۔۔سے چل کر اپنے والدین کے سا تھ اپنے گاؤں چلی جاتی ہے۔ اس کے کچھ دن بعد دولہا والوں کی طرف سے دولہن کو بلایا جاتا ہے ۔ اس کا خیر مقدم ہوتاہے۔ شاندار دعوتیں ہوتی ہیں۔پھراسکے بعد ان کی ازدواجی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کی دوبارہ شادیوں کے وقت ۔۔موسم۔۔سے سیدھے اپنے شوہروں کے ساتھ چلی جاتی ہیں ۔ تین دن کے اس دلچسپ ہماہمی اور سرگرمی کے بعد ستمبر کا موسم سینکڑوں زندگیوں میں نئے باب کھول دیتا ہے ۔