یہ بالکل سچاواقعہ ۱۹۴۱ کا ہے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی میں بطورکیپٹن فوج میں تھا۔ میرا تبادلہ دہلی سے لاہور کر دیا گیا۔ مجھے ہدایت کے مطابق بذریعہ ٹرین جلد سے جلد لاہور پہنچنا تھا ۔میں اپنے ضروری سامان کے ساتھ اسٹیشن پہونچ گیا۔ ٹھیک ۹ بجے رات میں گاڑی چل پڑی۔ میری برتھ ریزرو تھی۔ لہذا برتھ پر آرام سے لیٹا سفر کر رہا تھا۔ رات کے ۱۱بجے گاڑی کسی اسٹیشن پر رکی۔ میں نے دیکھاکہ کمپارٹمنٹ میں ایک لمبا تڑنگا کابلی پٹھان داخل ہوا۔ ٹرین چند منٹ رک کر پھر چل پڑی ۔کمپارٹمنٹ میں نہ کوئی برتھ خالی تھی اور نہ کوئی سیٹ سوائے میرے قریب قریب سبھی مسافر نیند کی آغوش میں پہنچ چکے تھے۔میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ٹرین میں مجھے نیند نہیں آتی ہے، چاہے وہ کتناہی طویل سفر کیوں نہ ہو۔ پٹھان نے سب سے پہلے کمپارٹمنٹ کا جائزہ لیا، پھر وہ کپامرٹمنٹ کے فرش پر ایک کپڑا بچھا کر بیٹھ گیا۔ میں برتھ پرلیٹا لیٹا پٹھان کی حرکات سے وسكناب کا مطالعہ کرنے لگا۔ پٹھان کی عمرکوئی ۵۰یا ۶۰ سال کے درمیان ہوگی۔ جسمانی طور پروہ کافی تندرست و توانا دکھائی پڑرہا تھا ۔کمپارٹمنٹ کی زرد روشنی میں بھی اس کا چہرہ سرخ نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر بعد پٹھان نے اسٹووجلایا، پھر اس پر دیگچی رکھ دی۔ ایک شیشے کے برتن سے گھی جیسی شے نکالی اور دیگچی میں اس کو ڈال دیا۔ تھیلے سے چندسیب اور کچھ خشک میوے بھی نکالکردیگچی میں ڈال دیئے۔ قرب ۲۰منٹ تک وہ کچھ پکا تا رہا۔ اسٹووکی شائیں شائیں سے کچھ مسافر بیدار ہو گئے لیکن جلد ہی وہ پھر نیندمیں کھوگئے۔ اسٹوو کی شائیں شائیں بند ہوگئی ۔ پٹھان نے حلوے جیسی چیز کھائی۔
تھرمس سے پانی پیا۔پھراس نے دوبارہ کمپارٹمنٹ کا جائزہ لیا سبھی مسافرخراٹے بھررہے تھے صرف میں جاگ رہا تھا۔ گاڑی منزل کی طرف گامزن تھی ۔پٹھان نے پھر تھیلے سے ایک خوبصورت لکڑی کا ڈبہ نکا لا حین پر خوشاٹ نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ اس نے ڈبے کو آہستہ آہستہ کھولنا شروع کیا۔ ڈبہ کے کھلتے ہی، میں نے فوجی آدمی ہوتے ہوئے بھی بدن میں ایک جھرجھری سی لی اوربرتھ پرلیٹا لیٹا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ اس کھلے ہوئے ڈبہ میں ایک سانپ کنڈلی مارے بیٹا تھا۔ پٹھان بڑی تیزی سے اپنا دایاں ہاتھ اس سانپ کے پاس لے گیا۔
رفتارفتا سانپ نے پھنکارماری – اور سر اٹھاکر اس کے ہاتھ میں ڈس لیا۔ پٹھان کے ہاتھ سے خون ٹپکنے لگا۔ اس نے ڈبہ بند کر کے تھیلے میں رکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فرش پر لڑھک گیا۔ گاڑی کئی اسٹیشنوں پررکتی ہوئی منزل کی طرف رواں دواں تھی میں نے سمجھا کہ ضرور پٹھان نے خودکشی کر لی ہے۔ وہ یقینا کچھ دیر میں مر جائے گا۔ پھر میں اسی سوچ میں رات بھر غلطاں دپیچاں رہا۔ صبح ہوگئی۔میں ٹکٹکی باندھے پٹھان کی طرف دیکھ رہا تھا کچھ دیر بعد میرے تعجب کی کوئی انتہانہ رہی جب میں نے دیکھا کہ پٹھان کے جسم میں حرکت ہوئی۔ کچھ توقف کے بعد پٹھان اٹھ بیٹھا ۔تب جا کر میری جان میں جان آئی میں اب یہ جاننے کےلئے بے چین تھاکہ سانپ کے ڈسنے پر پٹھان کیوں نہیں مرا۔۔۔؟اگر سانپ زہریلا نہیں تھا تو پٹھان نے خود کوڈسوایا کیوں ؟یہ دونوں سوال میرے دماغ میں تیرنے لگے۔ میں برتھ سے نیچے سیٹ پرآ گیا۔ پچھلے اسٹیشن پرکئی سٹیں خالی ہوگئی تھیں۔ پٹھان بھی سامنے والی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ صبح کی روشنی میں اس کا چہرہ گھنی مونچھوں اور خمار آلود سرخ سرخ آنکھوں سے کافی خوفناک نظرآرہا تھا میں نے پٹھان سے پوچھا؛آپ لاہور جارہے ہیں؟اس نے گردن ہلاکر اثبات میں جواب ديا کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھرمیں نے ہی خاموشی کو توڑا، اور دوسرا سوال کر بیٹھا خاں صاحب میں کچھ آپ سے پوچھ سکتا ہوں؟ پٹھان کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئیں کچھ توقف کے بعداس نے کہا :‘‘پوچھئے’’پھر میں نے سلسلہ کلام شروع کیا:‘‘ رات جس سانپ سے آپ نے خود کو ڈسوا یا تھا کیا وہ زہریلا نہیں ہے!اور اگر سانپ زہریلا ہے تو آپ پر اسکے زہر کا اثر کیوں نہیں ہوا؟’’ پہلے پٹھان کچھ سوچتا رہا، پھر اس نے کہنا شروع کیا: مجھے بچپن سے ہی نشہ آور چیزوں کی عادت پڑ گئی۔ شروع شروع میں بیڑی، سگریٹ سے شوق کرنے لگا، ایام جوانی میں شراب سے دل بہلایا۔ ہزاروں روپے کی شراب پی گیا، ایک عرصہ بعد شراب غیرتی ت بھخش ثابت ہوئی۔
پھرمجھے ایسے نشے کی تلاش رہنے لگی جو مجھے پورا سردر دے سکے۔ ایک ہندوستانی دوست نے۔ افیون کی لت ڈال دی اور ایک لمبے عرصے تک افیون کھا تارہا۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب افیون کی بڑی سے بڑی مقداربھی مجھے سرو رنہ دے سکی۔ اب میں پھر پریشان رہنے لگا۔ اسی زمانے میں اتفاق سے ایک زہریلے سانپ نے مجھے ڈس لیا۔ لیکن میں مرانہیں۔ الٹے اس کے زہر سے مجھے کافی سرور ملا۔ میں جس نشے کے لئےسرگرداں تھا۔وہ مجھے سانپ کے توسط سے مل گیا تھا، لذرا میں نے ایک سپیرے سے ایک نہایت زہریلا سانپ خرید لیا۔میں اس سے خودکوڈسواتا رہا۔سرورحاصل کرتا رہا لیکن چند سال کے بعدوہ سانپ میرے لئے بیکار ہوگیا۔ میں کابل چلاگیا، وہاں مجھے ہندوستانی سانپ سے زیادہ زہریلے سانپ کی ضرورت تھی جو میرے کام آسکے۔ خوش قسمتی سے مجھے وہاں ایک مصری سانپ مل گیا جسے میں نے۰۰ ۵ سو روپے میں خرید لیاوہی جسے غالبا آپ دیکھ چکے ہیں ، یہ اس قدر زہریلا ہے کہ ایک عام آدمی اس کے ڈسنے پر ایک سیکنڈ میں مر جاتا ہے اور اس کا پورا جسم بالکل سیاہ ہوجاتاہے لیکن یہ سانپ میرے لئے سرور کا خزانہ ہے میری میری زندگی کا جزو ہے۔ اس کے بغیر میری زندگی کا تصور نہیں ہوسکتا؟
میں سوچتا رہ گیا سانپ انسانوں کی موت کا باعث بنتارہا ہے لیکن پہلی بار میں نے سنا کہ سانپ کسی انسان کے لئے سرورکا خزانہ، زندگی کا جزو بن گیا ہے کتی عجیب بات ہے۔ واقعی یہ دنیا کا انوکھا نشے بازہے۔