‘‘ چپ!’’
جیناں نے چچی کی نظر بچا، ماتھے پر پیاری تیوری چڑھا کر قاسم کو گھورا اور پھر نشے کی شلوار کے اٹھائے ہوئے پائنچے کو مسکرا کر نیچے کھینچ لیا اور از سر نو چچی سے باتوں میں مصروف ہو گئی۔ قاسم چونک کر شرمندہ سا ہو گیا اور پھر معصومانہ انداز سے چارپائی پر پڑے ہوئے رومال پر کاڑھی ہوئی بیل کو غور سے دیکھنے لگا۔ اس کا دل خواہ مخواہ دھک دھک کر رہا تھا اور وہ محسوس کر رہا تھا گویا اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو۔
قاسم کئی بار یوں چوری چوری جیناں کے جسم کی طرف دیکھتا ہوا پکڑا جا چکا تھا۔ جیناں کے مسکرا دینے کے باوجود وہ شرم سے پانی پانی ہو جاتا اور اس کی نگاہیں چھپنے کے لیے کونے تلاش کرتیں۔ نہ جانے کیوں یوں ان جانے میں اس کی نظر جیناں کے جسم کے پیچ و خم یا ابھار پر جا پڑتی اور وہیں گڑ جاتی۔ اس وقت وہ قطعی بھول جاتا کہ کدھر دیکھ رہا ہے یا کچھ دیکھ رہا ہے۔ مصیبت یہ تھی کہ بات تبھی وقوع میں آتی جب جیناں کے پاس کوئی نہ کوئی ہمسائی بیٹھی ہوتی۔ پھر جب جیناں اکیلی رہ جاتی تو وہ مسکرا کر پوچھتی، ’’کیا دیکھتے رہتے ہو تم قاسی؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں نہیں تو۔‘‘ وہ گھبرا جاتا اور جیناں ہنستی مسکاتی اور پھر پیار سے کہتی، ’’کسی کے سامنے یوں پاگلوں کی طرح نہیں دیکھا کرتے بلو۔‘‘ اگرچہ اکیلے میں بھی جیناں کا پائنچہ اکثر اوپر اٹھ جاتا اور دوپٹہ بار بار چھاتی سے یوں نیچے ڈھلک جاتا کہ سانٹل میں ملبوس ابھار نمایاں ہو جاتے۔ لیکن اس وقت قاسم کو ادھر دیکھنے کی ہمت نہ پڑتی حالانکہ جیناں بظاہر شدت سے کام میں منہمک ہوتی۔ لیکن قاسم بے قرار ہو کر اٹھ بیٹھتا، اب میں جاتا ہوں۔ وہ نظر اٹھاتی اور پھر لاڈ بھری تیوری چڑھا کر کہتی، ’’بیٹھو بھی۔ جاؤ گے کہاں۔‘‘
’’کام ہے ایک۔‘‘ قاسم کی نگاہیں کونوں میں چھپنے کی کوشش کرتیں۔
’’کوئی نہیں کام وام۔ پھر کر لینا۔‘‘ لیکن وہ چلا جاتا جیسے کوئی جانے پر مجبور ہو اور آپ ہی آپ بیٹھی مسکاتی رہتی۔ اس روز جب وہ جانے لگا تو وہ مشین چلاتے ہوئے بولی، ’’قاسی ذرا یہاں تو آنا۔۔۔ ایک بات پوچھوں بتاؤ گے؟‘‘ وہ رک گیا۔ ’’یہاں آؤ، بیٹھ جاؤ۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھے بنا بولی۔ وہ اس کے پاس زمین پر بیٹھ گیا۔ وہ زیر لب مسکرائی۔ پھر دفعتاً اپنا بازو اس کی گردن میں ڈال کر اس کے سر کو اپنی رانوں میں رکھ کر تھپکنے لگی۔ ’’سچ سچ بتانا قاسی۔‘‘ دو ایک مرتبہ قاسم نے سر اٹھانے کی کوشش کی لیکن نشے کی ریشمیں نرمی،خس کی ہلکی ہلکی خوشبو اور جسم کی مدھم مخملی گرمی۔۔۔اس کی قوت حرکت شل ہو گئی۔
’’تم میری طرف اس طرح کیوں گھورتے رہتے ہو۔۔۔ ہوں؟‘‘ اس نے ایک پیار بھرا تھپڑ مار کر کہا، ’’بتاؤ بھی۔۔۔ ہوں۔‘‘ قاسم نے پورا زور لگا کر سر اٹھا لیا۔ وہ انجانے جذبات کی شدت سے بھوت بنا ہوا تھا۔ آنکھیں انگارہ ہو رہی تھیں۔ منہ نبات کی طرح سرخ اور سانس پھولا ہوا تھا، ’’ہیں۔۔۔ یہ تمہیں کیا ہوا؟‘‘ وہ منہ پکا کر کے پوچھنے لگی، ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ قاسم نے منہ موڑ کر کہا۔ ’’خفا ہو گیےکیا؟‘‘ اس نے از سر نو مشین چلاتے ہوئے پوچھا اور دوپٹہ منہ میں ڈال کر ہنسی روکنے لگی۔ ’’نہیں، نہیں کچھ بھی نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’اچھا اب میں جاتا ہوں۔‘‘ اور باہر نکل گیا۔
اس کے بعد جب وہ اکیلے ہوتے، قاسم اٹھ بیٹھتا، ’’اچھا اب میں جاتا ہوں۔‘‘ لیکن اس کے باوجود منہ موڑ کر کھڑا رہتا اور وہ مسکراہٹ بھینچ کر کہتی، ’’اچھا۔۔۔ایک بات تو سنو۔‘‘ اور وہ معصوم انداز سے پوچھتا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’یہاں آؤ، بیٹھ جاؤ۔‘‘ وہ منہ پکا کر کے کہتی۔ وہ اس کے پاس بیٹھ کر اور بھی معصومانہ انداز سے پوچھتا، ’’کیا ہے؟‘‘ معاً حنائی ہاتھ حرکت میں آ جاتے اور قاسم کا سر مخملی، معطر تکیہ پر جا ٹکتا اور وہ حنائی ہاتھ اسے تھپکنے لگتے۔ اس کے تن بدن میں پھلجھڑیاں چلنے لگتیں۔ نسوں میں دھنکی بجنے لگتی۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے دوڑ جاتے۔ سانس پھول جاتا۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکتا۔ ایک رنگین اضطراب اسے بے قرار کر دیتا اور وہ اٹھ بیٹھتا، ’’اب میں جاتا ہوں۔‘‘ اور وہ نیچی نگاہ کیے مسکاتی، مسکائے جاتی۔
پھر نجانے اسے کیا ہوا۔ ایک رنگین بے قراری سی چھا گئی۔ وہ چارپائی پر بیٹھا دعائیں مانگتا کہ وہ اکیلے ہوں۔ اس وقت آنکھیں یوں چڑھی ہوتیں جیسے پی کر آیا ہے۔ جسم میں ہوائیاں چھوٹتیں۔ جیناں نیچی نظر سے اسے دیکھ دیکھ کر مسکراتی اور پھر آنکھ بچا کر کوئی نہ کوئی شرارت کر دیتی۔ مثلاً جب چچی یا بڑی بی کی نظر ادھر ہو تو جیناں جیسے بے خبری میں کوئی کپڑا اپنی گود میں ڈال لیتی اور نیچی نگاہ سے قاسم کی طرف دیکھ کر اسے تھپکنے لگتی اور قاسم۔۔۔ اف وہ بے چارہ تڑپ اٹھتا اور جیناں منہ میں دوپٹہ ٹھونس کر ہنسی روکنے کی کوشش کرتی یا وہ دونوں ہاتھ قاسم کی طرف بڑھا کر پھر اپنی گود کی طرف اشارہ کرتی گویا بلا رہی ہو اور چچی یا بڑی بی کا دھیان ادھر ہوتا تو جیناں بڑی سرگرمی سے کپڑا سینے میں مصروف ہو جاتی اور مزید چھیڑنے کے خیال سے اپنے دھیان بیٹھی پوچھتی، ’’قاسم آج اس قدر چپ بیٹھے ہو۔ لڑ کر تو نہیں آئے اماں سے؟‘‘
پھر جب وہ اکیلے رہ جاتے تو قاسم چپکے سے اٹھ کر آپ ہی آپ جیناں کے پاس آ بیٹھتا۔ دو ایک مرتبہ ملتجی نگاہوں سے اس کے حنائی ہاتھ کی طرف دیکھتا جو شدت سے کام میں مصروف ہوتا اور پھر آپ ہی آپ اس کا سر جھک کر اس معطر سرہانے پر ٹک جاتا یا جب وہ اس کے پاس آ کر بیٹھتا تو وہ منہ پکا کر کے کہتی، ’’کیوں۔۔۔ کیا ہے؟‘‘ اور جب اس کا سر وہاں ٹک جاتا تو ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتی، ’’بہت شریر ہوتے جا رہے ہو۔ کوئی دیکھ لے تو۔ کچھ شرم کیا کرو۔‘‘
ایک دن جب وہ سر ٹکائے پڑا تھا۔ وہ بولی، ’’قاسی کیا ہے تمہیں؟ یوں پڑے رہتے ہو۔ گم سم۔ مزہ آتا ہے کیا؟‘‘ اس روز سر اٹھا لینے کی بجائے نہ جانے کہاں سے اسے زبان مل گئی۔ بولا، ’’مجھے تم سے محبت۔۔۔‘‘ معاً جیناں نے اس کا سر دبا کر اس کا منہ بند کر دیا۔ ’’چپ۔‘‘ وہ بولی، ’’کوئی سن لے تو۔ بیاہتا سے پیار نہیں کرتے۔ انہیں پتہ چل جائے تو میری ناک چوٹی کاٹ، گھر سے نکال دیں۔ سنا بلو۔‘‘ وہ اٹھ بیٹھا لیکن اس روز دوڑتے ڈوروں کی بجائے اس کی آنکھیں چھلک رہی تھیں۔ ’’اب میرا کیا ہوگا؟‘‘ آنسوؤں نے اس کا گلا دبا دیا اور جینا کے بلانے کے باوجود وہ چلا گیا۔ حسب معمول چوری چوری غسل خانے میں منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے دینے لگا۔
نہ جانے ان مخملی، معطر رانوں نے کیا کیا۔ چند ماہ میں ہی وہ قاسی سے قاسم بن گیا۔ گردن کا منکا ابھر آیا۔ آواز میں گونج پیدا ہو گئی۔ چھاتی پر بال اگ آئے اور دونوں جانب گلٹیاں سی ابھر آئیں۔ جن پر ہاتھ لگانے سے میٹھا سا درد ہوتا۔ منہ پر موٹے موٹے دانے نکل آئے۔ پھر ایک دن جب ادھر جانے کی خاطر بولا تو ماں بولی، ’’کدھر جا رہا ہے تو؟‘‘
’’کہیں بھی نہیں۔‘‘ وہ رک کر بولا، ’’ادھر جینا کی طرف اور کہاں۔‘‘
’’منہ پر داڑھی آ چکی ہے پر ابھی اپنا ہوش نہیں تجھے۔ اب وہاں جا کر بیٹھنے سے مطلب۔ نہ جانے لوگ کیا سمجھنے لگیں۔ مانا کہ وہ اپنی ہے پر بیٹا اس کی عزت ہماری عزت ہے اور لوگوں کا کیا اعتبار۔‘‘ قاسم دھک سے رہ گیا اور وہ چپ چاپ چار پائی پر جا لیٹا۔ جی چاہتا تھا کہ چیخیں مار مار کر رو پڑے۔
شاید اس لیے کہ قاسی نہ آیا تھا یا واقعی اسے کالے دھاگے کی ضرورت تھی۔ جیناں مسکراتی ہوئی آئی۔ ’’بھابھی۔‘‘ اس نے قاسم کی ماں کو مخاطب کر کے کہا، ’’کالا دھاگا ہو گا تھوڑا سا۔‘‘ اور پھر باتوں ہی باتوں میں ادھر ادھر دیکھ کر بولی، ’’قاسم کہاں ہے۔ نظر نہیں آیا۔ کہیں گیا ہو گا۔‘‘
’’اندر بیٹھا ہو گا۔‘‘ قاسم کی ماں نے جواب دیا، ’’ادھر نہیں آیا آج۔‘‘ جیناں نے جھجھک کر پوچھا، ’’خیر تو ہے۔‘‘
’’میں نے ہی منع کر دیا تھا۔‘‘ بھابھی بولی، ’’دیکھ بیٹی اللہ رکھے۔۔۔ اب وہ جوان ہے۔ نہ جانے کوئی کیا سمجھ لے۔ بیٹی کسی کے منہ پر ہاتھ نہیں رکھا جاتا اور محلے والیوں کو تو تم جانتی ہو۔ وہ بات نکالتی ہیں جو کسی کی سدھ بدھ میں نہیں ہوتی اور پھر تمہاری عزت۔ کیوں بیٹی۔۔۔ کیا برا کیا میں نے جو اسے جانے سے روک دیا۔‘‘ ایک ساعت کے لیےوہ چپ سی ہو گئی۔ لیکن جلد ہی مسکرا کر بولی، ’’ٹھیک تو ہے بھابھی۔ تم نہ کرو میرا خیال تو کون کرے۔ تم سے زیادہ میرا کون ہے۔ تم بڑی سیانی ہو بھابھی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’کہاں چھپا بیٹھا ہے؟‘‘ اور اندر چلی گئی۔ قاسی کا منہ زرد ہو رہا تھا اور آنکھیں بھری ہوئی تھیں۔ اسے یوں چپ دیکھ کر وہ مسکرائی اور اس کے پہلو میں گدگدی کرتے ہوئے بولی، ’’چپ۔‘‘ پھر با آواز بلند کہنے لگی، ’’مجھے ڈی۔ ایم۔ سی کا ایک ڈبہ لادو گے قاسی۔ سبھی رنگ ہوں اس میں۔‘‘ اور پھر اس کی انگلی پکڑ کر کاٹ لیا۔ قاسی ہنسنے لگا تو منہ پر انگلی رکھ کر بولی، ’’چپ۔ اب تو زندگی حرام ہو گئی۔‘‘ قاسی نے اس کے کان میں کہا، ’’اب میں کیا کروں گا۔ میرا کیا بنے گا۔‘‘
’’ہونہہ زندگی حرام ہو گئی۔ بس اتنی سی بات پر گھبرا گیے۔‘‘ پھر با آواز بلند کہنے لگی، ’’ڈبے میں لال گولا ضرور ہو۔ مجھے لال تاگے کی ضرورت ہے۔‘‘ جیناں نے یہ کہہ کر اس کے کان سے منہ لگا دیا، ’’رات کو ایک بجے بیٹھک کی تیسری کھڑکی کھلی ہو گی۔ ضرور آنا۔‘‘ ایک آن کے لیےوہ حیران رہ گیا، ’’ضرور آنا۔‘‘ وہ اس کا سر بدن سے مس کرتے ہوئے بولی اور پھر با آواز بلند اسے ڈبے کے لیے تاکید کرتی ہوئی باہر نکل آئی، ’’آج نہ سہی، کل ضرور آنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔
اس رات محلے بھر کی آوازیں گلی میں آ کر گونجتیں اور پھر قاسم کے دل میں دھک دھک بجتیں۔ عجیب سی ڈراؤنی آوازیں۔ اس رات وہ آوازیں ایک نہ ختم ہونے والے تسلسل میں پہاڑی نالے کی طرح بہہ رہی تھیں۔ بہے جا رہی تھیں۔ محلہ ان آوازوں کی مدد سے اس سے انتقام لے رہا تھا۔ بچے کھیل رہے تھے۔ ان کا کھیل اسے برا لگ رہا تھا۔ نہ جانے مائیں اتنی دیر بچوں کو باہر رہنے کی اجازت کیوں دیتی ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی آوازیں مدھم ہوتی گئیں۔ پھر دور محلہ کی مسجد میں ملا کی اذان گونجی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی چیخیں مار کر رو رہا ہو۔ کس قدر اداس آواز تھی جسے وہ بھیانک تر بنا رہا تھا۔ ایک ساعت کے لیے خاموشی چھا گئی۔ کراہتی ہوئی خاموشی، دروازے کھل رہے تھے یا بند ہو رہے تھے۔ اف کس قدر شور مچا رہے تھے۔ وہ دروازے، گویا رینگ رینگ کر شکایت کر رہے ہوں۔
کیا کھڑکی بھی کھلتے وقت شور مچائے گی۔ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ نمازی واپس آ رہے تھے۔ ان کے ہر قدم پر اس کے دل میں ’’دھک‘‘ سی ہوتی۔ توبہ! اس گلی میں چلنے سے محلہ بھر گونجتا ہے۔ ’’چرر۔۔۔ چوں۔‘‘ دروازے ایک ایک کر کے بند ہو رہے تھے۔ نجانے کیا ہو رہا تھا اس روز۔ گویا تمام محلہ تپ دق کا بیمار تھا۔ ’’اکھڑ کھڑدم۔ اہم اہم۔۔۔ آہم۔‘‘ یا شاید وہ سب تفریحاً کھانس رہے تھے۔ تمسخر بھری کھانسی جیسے وہ سب اس بھید سے واقف تھے۔
’’ٹن ٹن۔۔۔بارہ۔۔۔‘‘ اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے سنا۔ لیکن آوازیں تھیں کہ تھمتیں ہی نہ تھیں۔ کبھی کوئی بچہ بلبلا اٹھتا اور ماں لوری دینا شروع کر دیتی۔ کبھی کوئی بڈھا کھانس کھانس کر محلے بھر کو از سر نو جگا دیتا۔ نہ جانے وہ سب یونہی بیدار رہنے کے عادی تھے یا اسی رات حالات بگڑے ہوئے تھے۔ دوسرے کمرے میں اماں کی کروٹوں سے چارپائی چٹخ رہی تھی۔ اماں کیوں یوں کروٹیں لے رہی تھی۔ کہیں وہ اس کا بھید جانتی نہ ہو کہیں۔۔۔ چلنے لگے تو اٹھ کر ہاتھ نہ پکڑ لے اماں۔ اس کا دل دھک سے رہ جاتا۔ شاید جیناں نہ آئے اور وہ مضطرب ہو جاتا۔ اف وہ کتے کیسی بھیانک آواز میں رو رہے تھے۔
شاید اس لیے کہ وہ جینا کی گود میں سر رکھ کر روتا رہا۔ مجھے تجھ سے محبت ہے۔ میں تمہارے بغیر جی نہ سکوں گا اور وہ حنائی ہاتھ پیار سے اسے تھپکتا رہا اور وہ آوازیں گونجتی رہیں یا شاید اس لیے کہ وہ سارا سارا دن آہیں بھرتا، کروٹیں بدلتا اور چپ چاپ پڑا رہتا۔ رات کو علیحدہ کمرے میں سونے کی ضد کرتا اور پھر جیناں ڈی۔ ایم۔ سی کا گولا منگوانے آتی تو اس کے کان کھڑے ہو جاتے۔ آنکھیں جھومتیں اور وہ بھول جاتا کہ اماں کے پاس محلے والیاں بیٹھی تھیں، یا ویسے ہی جینا ں کا ذکر چھڑ جاتا تو اس کے کان کھڑے ہو جاتے یا شاید ا س کی یہ وجہ ہو کہ جیناں کے میاں روز بروز بیوی سے جھگڑا کرنے لگے تھے۔ حالانکہ جیناں بظاہر ان کا اتنا رکھ رکھاؤ کرتی تھی، پھر ان دنوں تو وہ اور بھی دلچسپی ظاہر کرنے لگی تھی۔ مگر میاں کو نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا، گویا وہ توجہ صرف دکھلاوہ تھی اور وہ روزبروز ان سے بے پرواہ ہوتی جا رہی تھی۔ ممکن ہے اس کی وجہ محلے کی دیواریں ہوں جو اس قدر پرانی اور وفادار تھیں کہ جیناں کا یہ رویہ برداشت نہ کر سکتی ہوں۔ اس لیے انہوں نے وہ راز اچھال دیا۔ بہرحال وجہ چاہے کوئی ہو، بات نکل گئی۔ جیسا کہ اسے نکل جانے کی بری عادت ہے۔
پہلے دبی دبی سرگوشیاں ہوئیں، ’’یہ اپنا قاسم۔۔۔ نواب بی بی کا لڑکا۔۔۔ اے ہے ایسا تو نہیں دکھے تھا۔‘‘
’’پر چاچی جیناں تو راہ چلتے کو لپیٹ لیتی ہے۔‘‘
’’نہ بڑی بی۔ میرے من تو نہیں لگتی یہ بات۔ ابھی کل کا بچہ ہی تو ہے اور وہ اللہ رکھے۔ بھری مٹیار۔ اونہوں۔ میں کہتی ہوں بی بی۔ جب بھی جاؤ۔ اتنی آؤ بھگت سے ملتی ہے کیا کہوں۔ لوگوں کا کیا ہے، جسے چاہا اچھال دیا۔‘‘
’’پر بھابھی! ذرا اسے دیکھو تو، اللہ مارے نشے کی شلوار ہے۔ سانٹل کی قمیض ہے اور کیا مجال ہے ہاتھوں پر مہندی خشک ہو جائے۔‘‘
’’ہاں بہن رہتی تو بن ٹھن کر ہے۔ یہ تو مانتی ہوں میں۔ اللہ جانے سچی بات منہ پر کہہ دینا، میری عادت ہی ایسی ہے۔‘‘
’’تو اس کے میاں کی بات چھوڑ، میں کہتی ہوں، وہ تو بدھو ہے۔۔۔ بدھو۔ وہ کیا جانے کہ بیوی کو کیسے رکھا جاتا ہے۔‘‘
’’ائے ری کیا ہو گیا زمانے کو؟‘‘
قاسم نے محسوس کیا کہ لوگ اس کی طرف مستفسرانہ نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں۔ پہلے تو وہ شرمندہ ہو گیا۔ پھر اسے خیال آیا۔ کہیں بیٹھک کی تیسری کھڑکی ہمیشہ کے لیے بند نہ ہو جائے۔ اس کا دل ڈوب گیا۔ لیکن جوں جوں محلہ میں بات بڑھتی گئی۔ جیناں کی مسکراہٹ اور بھی رسیلی ہوتی گئی اور اس کی ’’چپ‘‘ اور بھی دلنواز۔
’’بس ڈر گیے؟‘‘ وہ ہنستی۔ ’’ہم کیا ان باتوں سے ڈر جائیں گے؟‘‘ اس کا حنائی ہاتھ بھی گرم ہوتا گیا اور اس کا سنگار اور بھی معطر۔ لیکن ان باتوں کے باوجود قاسم کے دل میں ایک پھانس سی کھٹکنے لگی۔ جب کبھی کسی وجہ سے بیٹھک کی تیسری کھڑکی نہ کھلتی تو معاً اسے خیال آتا کہ وہ اپنے میاں کے پہلو میں پڑی ہے اور وہ معطر گود کسی اور کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہ حنا آلود ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ اس خیال سے اس کے دل پر سانپ لوٹ جاتا اور وہ تڑپ تڑپ کر رات کاٹ دیتا۔ پھر جب کبھی وہ ملتے تو شکوہ کرتا۔ رو رو کر گلہ کرتا لیکن وہ ہاتھ تھپک تھپک کر اسے خاموش کرا دیتا۔
ادھر قاسم اور جیناں کی باتوں سے محلہ گونجنے لگا۔ مدھم آوازیں بلند ہوتی گئیں۔ سرگوشیاں دھمکی کی صورت میں ابھر آئیں۔ اشارے کھلے طعنے بن گیے۔ ’’میں کہتی ہوں چاچی، رات کو دونوں ملتے ہیں۔ مسجد کے ملانے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔‘‘
’’تم اس کے میاں کی بات چھوڑو بی بی۔ آنکھ کا اندھا نام چراغ دین۔ اسے کیا پتہ چلے گا کہ بیوی غائب ہے۔‘‘
’’سنا ہے چاچی ایک روز میاں کو شک پڑ گیا پر جیناں۔۔۔ توبہ اس کے سر پر تو حرام سوار ہے۔ نہ جانے کیسے معاملہ رفع دفع اور ایسی بات بنائی کہ وہ بدھو ڈانٹنے ڈپٹنے کی بجائے الٹا پریشان ہو گیا۔ پیٹ میں درد ہے کیا۔ تم چلو، میں ڈھونڈ لاتا ہوں دوا۔ اب طبیعت کیسی ہے۔۔۔ ہونہہ۔ وہاں تو اور ہی درد تھا بھابھی۔ جبھی تو پھاہا رکھوانے آئی تھی۔ مسجد کا ملا کہتا ہے بڑی بی۔۔۔اے ہے اس کا کیا ہے؟ اپنی حمیداں کہتی ہے بی بی۔ میں تو ان کی آوازیں سنتی رہتی ہوں۔ کان پک گیے ہیں۔ پڑوسن جو ہوئی ان کی اور پھر دیوار بھی ایک اینٹی ہے۔ توبہ۔ اللہ بچائے حرام کاری کی آوازوں سے، نہ جانے کیا کرتے رہتے ہیں دونوں؟ کبھی ہنستے ہیں، کبھی روتے ہیں اور کبھی یوں دنگا کرنے کی آواز آتی ہے جیسے کوئی کبڈی کھیل رہا ہو۔‘‘
’’پر مامی، اپنا گھر والا موجود ہو تو جھک مارنے کا مطلب۔‘‘
’’تو چھوڑ اس بات کو۔ میں کہوں چوری کا مزہ چوری کا، سرپر حرام چڑھا ہے۔ پر مامی تو چھوڑ اس بات کو۔‘‘
’’دلہن تجھے کیا معلوم کیا مزہ ہے۔ اس ’’چپ‘‘ میں۔ اللہ بچائے، اللہ اپنا فضل و کرم رکھے۔ پر میں کہوں، یہ ’’چپ‘‘ کھا جاتی ہے۔ بس اب تو سمجھ لے آپ ہی۔‘‘
پھر یہ باتیں مدھم پڑ گئیں۔ مدھم تر ہو گئیں۔ حتیٰ کہ بات عام ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ غالباً ان لوگوں نے اسے ایک کھلا راز تسلیم کر لیا اور ان کے لیے مزید تحقیق میں دلچسپی نہ رہی۔ نہ جانے جیناں کس مٹی سے بنی تھی۔ اس کی ہر بات نرالی تھی۔ جوں جوں لوگ اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھتے گیے، اس کی مسکراہٹیں اور بھی رواں ہوتی گئیں۔ حتیٰ کہ وہ محلے والیوں سے اور بھی ہنس ہنس کر ملنے لگی۔ حالانکہ وہ جانتی تھی کہ وہی اس کی پیٹھ پیچھے باتیں کرتی ہیں اور قاسم؟ قاسم سے ملنے کی خواہش اس پر حاوی ہوتی گئی۔ ہنس ہنس کر اسے ملتی۔ اس کے خدشات پر اسے چڑاتی۔ مذاق اڑاتی۔ اس کی ریشمیں گود اور بھی گرم اور معطر ہو گئی۔
مگر جب بات عام ہو گئی اور لوگوں نے دلچسپی لینا بند کر دی تو نہ جانے اسے کیا ہوا۔۔۔ اس نے دفعتاً قاسم میں دلچسپی لینا بند کر دی جیسے لوگوں کی چپ نے اس کی ’’چپ‘‘ کو بے معنی کر دیا ہو۔ اب بیٹھک کی تیسری کھڑکی اکثر بند رہنے لگی۔ آدھی رات کو قاسم اسے انگلی سے ٹھونکتا اور بند پاتا تو پاگلوں کی طرح واپس آ جاتا اور پھر بار بار جا کر اسے آزماتا۔ اس کے علاوہ اب جینا کو ڈی۔ ایم۔ سی کے تاگے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ اس لیے وہ قاسم کے گھر نہ آتی۔ جب سے کھڑکی بند ہونا شروع ہوئی قاسم پاگل سا ہو گیا۔ وہ رات بھر تڑپ تڑپ کر گزار دیتا اور جینا ں کا میاں تو ایک طرف، اسے ہر طرف چلتا پھرتا راہ گیر جیناں کے نشے کی شلوار کی تہوں میں گیند بنا ہوا دکھائی دیتا۔ تعجب یہ ہوتا کہ اب اسے جینا کی لاپروائی کا شکوہ کرنے کا موقع ملتا تو وہ بے پروائی سے کہتی، ’’کوئی دیکھ لے گا، تبھی چین آئے گا تمہیں۔ مجھے گھر سے نکلوانے کی ٹھان رکھی ہے کیا؟ کیا کروں میں، وہ ساری رات جاگ کر کاٹتے ہیں۔‘‘
دو ایک مرتبہ ڈھیٹ بن کر کسی نہ کسی بہانے وہ جینا کی طرف گیا بھی۔ اول تو وہاں کوئی نہ کوئی بیٹھی ہوتی اور جب نہ ہوتی تو بھی جیناں سینے کے کام میں اس قدر مصروف ہوتی کہ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔ ایک دن جب وہ ادھر گیا تو دیکھا کہ جینا کے پاس اس کا ماموں زاد بھائی مومن بیٹھا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کبھی وہ خود بیٹھا کرتا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ مومن کا سر بھی کسی طرح ریشمیں، معطر تکیہ سے اٹھا ہے۔ اس پر دیوانگی کا عالم طاری ہو گیا اور جیناں کے بلانے کے باوجود چلا آیا۔ اس وقت اس کا جی چاہتا کہ کسی کھمبے سے ٹکرا کر اپنا سر پھوڑ لے۔
ناگاہ وہ واقعہ پیش آیا۔ نہ جانے کیا ہوا؟ آدھی رات کو جینا کی چیخیں سن کر محلے والیاں اکٹھی ہو گئیں۔ دیکھا تو جیناں کا خاوند پسلی کے درد سے تڑپ رہا ہے اور وہ پاس بیٹھی آنسو بہا رہی ہے۔ ڈاکٹر بلوائے گیے۔ حکیم آئے، مگر بے سود، صبح دس بجے کے قریب میاں نے جان دے دی اور جیناں کی پر درد چیخوں سے محلہ کانپ اٹھا۔ لیکن اس کے باوجود دبی ہوئی سرگوشیاں از سر نو جاگ پڑیں۔ کوئی بولی، ’’اب قدر جانی جب وہ مر گیا۔‘‘ کسی نے کہا، ’’ابھی کیا ہے، ابھی تو جانے گی۔ بے چارہ ایسا نیک تھا، اف تک نہ کی اور یہ بی بی ہولی کھیلنے میں مصروف لگی رہی۔‘‘ چاچی نے سر پیٹ لیا۔ کہنے لگی، ’’آئے ہائے ری، تم کیا جانو۔۔۔ اس کے لچھن۔ میں کہتی ہوں، نہ جانے کچھ دے کر مار دیا ہو۔‘‘
’’ہیں چاچی بس۔ تو چپ رہ، ہائے ری جوان میاں کو تڑپا تڑپا کر مار ڈالا۔ وہ منع کرتا تھا اسے۔ اس کے سامنے تو کھیلتی رہی اپنے کھیل، پھر جان لے لینا؟ یا اللہ تو ہی عزت رکھنے والا ہے۔ ہم تو کسی کو منہ نہیں دکھا سکتے۔ محلے کی ناک کاٹ دی، میں کہتی ہوں اگر سرکار کو پتہ چل گیا تو، وہ تو قبر بھی کھود لیں گے۔‘‘
’’بس بھابھی بس تو چھوڑ۔ اب اس بات کو دفع کر، سمجھ۔۔۔ کچھ ہوا ہی نہیں۔‘‘
جب قاسم کی ماں نے سنا کہ بیٹا جیناں سے بیاہ کرنے پر تلا ہوا ہے تو اس نے سر پیٹ لیا۔ اپنا سر پیٹنے کے سوا وہ کر ہی کیا سکتی تھی۔ قاسم اب جوان تھا۔ اپنی نوکری پر تھا۔ ہر ماہ سو پچاس اس کی جھولی میں ڈالتا تھا۔ البتہ اس نے ایک دو مرتبہ اسے سمجھانے کی کوشش ضرور کی مگر بیٹا تو گھر بار چھوڑنے کے لیے تیار تھا۔ اس لیے وہ چپ ہو گئی۔ اگرچہ اندر ہی اندر گھلنے لگی اور جیناں کے متعلق ایسی دعائیں مانگنے لگی کہ اگر وہ پوری ہو جائیں تو قاسم سر پیٹ کر گھر سے باہر نکل جاتا۔
محلے والیوں نے سنا کہ قاسم کا پیغام جیناں کی طرف گیا ہے تو چاروں طرف پھر سے چرچا ہونے لگا، ’’کچھ سنا تم نے چاچی۔۔۔؟‘‘
’’بس تو چپ کر رہ۔ آج کل تو آنکھوں سے اندھے اور کانوں سے بہرے ہو کر بیٹھ رہو، تب گزارہ ہوتا ہے۔‘‘
’’پر چاچی کبھی سننے میں نہ آیا تھا کہ بیوہ کو کنوارہ لڑکا پیغام بھیجے۔۔۔ میں کہتی ہوں، بیوہ مر جاتی تھی مگر دوسری شادی کا نام نہ لیتی تھی اور اگر کوئی پیغام لاتا بھی تو اس کا منہ توڑ جواب دیتی۔ لیکن آج نہ جانے کیا زمانہ آیا ہے۔ پر چاچی وہ تو لڑکے سے سات آٹھ سال بڑی ہو گی۔ اے اپنی فاطمہ سے دو ایک سال ہی چھوٹی ہے۔‘‘
’’آئے ہائے کیا کہتی ہو تم۔ دکھنے کا کیا بہن، ہار سنگار کر کے بیٹھ جاؤ۔ منہ پر وہ اللہ مارا کیا کہتے ہیں، اسے آٹا لگا لو تو تم بھی چھوٹی دکھو گی۔ دکھنے کی کیا ہے؟ اس سے تو عمر چھوٹی نہیں ہو جاتی۔‘‘
قاسم کا خیال تھا کہ جب جیناں بیاہ کا پیغام سنے گی تو اٹھ کر ناچنے لگے گی لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ سوچ میں پڑ گئی تو جل کر راکھ ہو گیا۔ پھر۔۔۔ اسے مومن کا خیال آیا اور غصے سے منہ لال ہو گیا، ’’صاف انکار کیوں نہیں کر دیتی تم؟‘‘ اس نے گھور کر جینا کی طرف دیکھا۔ جیناں مشین چلانے میں لگی رہی۔ پھر آنکھ اٹھائے بغیر کہا، ’’تم تو قاسی ہی رہے۔‘‘
’’قاسی رہتا تو تم اس قدر لا پرواہ کیوں ہو جاتیں؟‘‘ وہ بولا، ’’میں تو لا پرواہ نہیں۔‘‘ اس نے سوئی میں دھاگا پروتے ہوئے کہا، ’’مجھے جواب دو۔‘‘ وہ بولا۔ اس کی آواز میں منت کی جھلک تھی۔ ’’جواب دو۔ میں یوں انتظار میں گھل گھل کر مرنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’اچھا!‘‘ جینا ں نے آہ بھر کر کہا، ’’تمہاری خوشی اسی میں ہے تو یہی سہی۔‘‘
’’جینا۔۔۔‘‘ اس کا سر اس ریشمیں تکیے پر جا ٹکا، ’’اے ہے کوئی دیکھ لے گا۔‘‘ وہ بولی۔
’’دیکھ لے۔‘‘ اس نے جیسے نیند میں کہا، ’’کہیں مومن نہ آ جائے۔‘‘ جینا نے سرسری طور کہا، ’’مومن!‘‘ اس کے دل پر تیر سا لگا اور وہ اٹھ بیٹھا۔ ’’مومن آ جائے تو اسے جان سے نہ مار دوں۔‘‘ وہ غرایا۔
اس کے نکاح پر محلے والیوں نے کیا کیا نہ کہا۔ کوئی بولی، ’’لو۔۔۔ یہ یوسف زلیخاں کا قصہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘‘ کسی نے کہا، ’’ابھی نہ جانے کیا کیا دیکھنا باقی ہے۔ ابھی تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو۔‘‘
کسی نے کہا، ’’اے ہے جیناں، کیا اسے گود میں کھلائے گی۔ میاں نہ ہوا، لے پالک ہوا۔‘‘ چاچی ہنسی،بولی، ’’تو چھوڑ اس بات کو بی بی۔ آج کل کے لڑکوں کو گود میں پڑے رہنے کا چسکا پڑا ہوا ہے۔ جورو کو ماں بنا لیتے ہیں۔ ہاں۔۔۔‘‘ کوئی کہنے لگی، ’’خیر چاچی حرام سے تو اچھا ہے کہ نکاح کر لیں۔ کیوں بڑی بی ہے نا یہ بات؟ میں سچی کہوں گی۔ ہاں بہن نہ جانے کب سے گھٹے ہوئے تھے ایک دوسرے سے۔‘‘
نہ جانے بیاہ کے بعد کیا ہوا انہیں۔۔۔ جیناں تو گویا گھر گرہستی عورت بن گئی۔ اس کے نشے کے پاجامے نظر آنے لگے جو محض جسم ڈھانپنے کے لیے پہنے جاتے ہیں اور خس کی خوشبو تو گویا اڑ ہی گئی۔ حالانکہ اب بھی وہ خس کا عطر لگاتی تھی۔ اس کے اٹھے اور گرے ہوئے پائنچوں میں چنداں فرق نہ رہا۔ البتہ جب کبھی قاسم اس کا پائنچہ اٹھا ہوا دیکھتا تو پھر وہ بے قرار ہو کر اندر چلا جاتا اور چپ چاپ پڑا رہتا۔ شروع میں وہ اکثر جیناں کے پاس آ بیٹھتا۔ لیکن اب جیناں کا حنائی ہاتھ شدت سے کام میں لگا رہتا اور اس کی گود بند رہتی۔ اگر کبھی قاسم کا سر وہاں ٹک بھی جاتا تو وہ اپنے کام میں یوں مگن بیٹھی رہتی گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو، کبھی چڑ کر کہتی، ’’ کیا بچوں کی سی باتیں ہیں تمہاری؟‘‘ اس پر وہ محسوس کرتا، گویا وہ گود کسی اور کے لیے مخصوص ہو چکی ہو اور تھپکنے والا ہاتھ کسی اور کا منتظر ہو۔
کئی مرتبہ دفتر میں کام کرتے ہوئے یہ شک سانپ کی طرح ڈسنے لگا کہ دونوں بیٹھے ہیں۔ وہ اور مومن اور اس کا سر ریشمیں تکیے پر ٹکا ہوا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ کانپ اٹھتا اور واپسی پر جیناں کو ڈھونڈتا تو دیکھتا کہ جیناں یوں مگن بیٹھی ہے گویا پرانے خواب دیکھ رہی ہو۔ کسی رنگین ماضی کے دھیان میں مگن ہو یا شاید کسی متوقع مستقبل کے، وہ چپ ہو جاتا۔ اسے یوں دیکھ کر جیناں مسکرا کر کہتی، ’’کیا ہے آج سرکار کو؟‘‘ اور وہ ہنسنے لگتی، ’’پائی ہوئی چیز کو کھونے کا بہت شوق ہے سرکار کو؟ پائی ہوئی۔۔۔ وہ ہنستا۔ جسے رنگین خواب میسر ہوں۔ وہ بھلا تلخ حقیقت کیوں دیکھے۔ اسے جاگنے کی کیا ضرورت، جاگ کر دکھتا بھی کیا ہے۔ بس چپ چاپ سنائی دیتی ہے۔ ان دنوں تو ’’چپ‘‘ میں بہت مزہ تھا۔ اب ہماری چپ بھی پسند نہیں اور وہ چڑ کر جواب دیتی۔ ’’کہاں وہ ’’چپ‘‘ اور کہاں یہ۔۔۔‘‘ وہ غصہ میں آ جاتا۔ ’’نہ جانے کس کس سے ’’چپ‘‘ کا کھیل کھیلا ہو گا؟‘‘
’’بس کھا لیا شک نے۔‘‘ وہ جل کر کہتی۔
’’جی۔۔۔‘‘ قاسم طنزاً جواب دیتا، ’’ہم تو ٹھہرے شکی۔ اب مومن کیسے بنیں؟‘‘
یا کسی روز دفتر سے واپسی پر وہ کہتا، ’’کس کے انتظار میں بیٹھی تھی؟‘‘ اور وہ جل کر بولتی، ’’کوئی بھی جو آ جائے۔‘‘
’’اوہو۔‘‘ وہ سنجیدگی سے چھیڑتا، ’’ہم تو غلطی سے آ گیے۔‘‘
’’تو واپس چلے جاؤ۔‘‘ وہ جل کر کہتی۔
اس طرح مذاق ہی مذاق میں وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گیے۔ جیناں کام میں منہمک رہنے لگی لیکن شاید کام تو محض ایک دکھاوا تھا۔ ایک پس منظر، ایک اوٹ جس میں ماضی کے خواب دیکھتی تھی۔ اس کے خواب قاسم کو اور بھی پریشان کرتے۔ اسے اس بات پر غصہ آتا کہ وہ خوابوں کو حقیقت پر ترجیح دے رہی ہے۔ پھر اسے خیال آتا کہ شاید کوئی اور خواب ہوں، جن کا اس سے تعلق نہ ہو۔ اس خیال پر اسے جیناں کے خوابوں میں مومن کی تصویر نظر آنے لگتی۔
البتہ ان دنوں جب قاسم کے ماں باپ چند دن کے لیے ان کے پاس آئے تو قاسم نے محسوس کیا کہ جیناں وہی پرانی جیناں تھی۔ اس روز جب اماں سے باتیں کر رہا تھا تو جیناں نے آ کر اندھیرے میں اس کی کمر پر چٹکی بھر لی اور جب وہ گھبرا کر کچھ بولنے لگا تو بولی، ’’چپ‘‘ اور حنائی ہاتھ نے بڑھ کر اس کا منہ بند کر دیا۔ پھر اس دن جب وہ ابا کے دیوان خانے میں سویا ہوا تھا، کسی نے اس کے کان میں تنکا چبھو کر اسے جگا دیا۔ ابھی وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ وہ ہونٹ اس کے ہونٹوں سے مل گیے اور پھر ایک ہلکا سا پیارا سا تھپڑ گال پر پڑا۔ ایک حنائی انگلی اس کے ہونٹوں پر آ رہی۔ ’’چپ‘‘ اس معطر اندھیرے میں سے پیاری سی آواز آئی۔ بیشتر اس کے کہ قاسم اسے پکڑ سکتا، وہ جاچکی تھی۔
پھر ایک روز غسل خانے میں جب وہ نہانے لگا تو معاً کوئی دروازے کی اوٹ سے نکل کر اس سے چمٹ گیا۔ وہ گھبرا کر چلانے لگا، مگر دو حنائی ہاتھوں نے اس کا منہ بند کر دیا۔ ’’چپ۔‘‘ وہ دیوانہ وار ان حنائی ہاتھوں کو چومنے لگا۔ پھر جب اس نے جیناں کو پکڑنے کی کوشش کی تو وہ منہ پکا کر کے بولی، ’’شور مچا دوں گی تو ابھی اماں آ کر سمجھ لے گی تم سے۔‘‘ جب اس کے والدین نے جانے کی تیاری کی تو قاسم نے اس خیال سے انہیں نہ روکا کہ ان کے چلے جانے پر اس کی کھوئی ہوئی جیناں مکمل طور پر اسے مل جائے گی۔ حالانکہ جیناں نے ہر ممکن طریقے سے انہیں روکنے کی کوشش کی، اس کی منتیں سن کر یوں گمان ہوتا تھا جیسے کوئی ڈوبتا تنکے کا سہارا ڈھونڈ رہا ہو۔ مگر وہ چلے گیے اور جیناں ہار کر بیٹھ گئی۔
ان کے چلے جانے کے بعد قاسم نے ہزار کوششیں کیں لیکن اپنی جیناں کو پانے کی جگہ اور بھی کھوئے چلا گیا۔ اس بات پر قاسم کے شکوک از سر نو چمکے۔ ان شکوک نے جیناں کو اور بھی چڑا دیا۔ جیناں کے چڑنے نے اس کے شبہات کو ہوا دی اور وہ چپ چپ رہنے لگا۔ حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے سے اور بھی بے گانہ ہو گیے۔ پھر ایک دن جب وہ دفتر سے لوٹا تو اس نے دیکھا کہ جیناں بن ٹھن کر مشین پر کام میں لگی ہوئی ہے اور پاس مومن بیٹھا ہے۔ جیسے اس نے ابھی اس معطر گود سے سر اٹھایا ہو۔ اس کی نظروں میں دنیا اندھیر ہو گئی۔ مومن کے جانے کے بعد وہ غرایا، ’’مومن اس مکان میں نہیں آئے گا، سنا تم نے؟ اس مکان میں کوئی جوان لڑکا نہ آئے۔‘‘
’’تمہارا ہی لگتا ہے کچھ، میں کیا جانوں کون ہے؟‘‘ وہ بولی۔
’’اپنی گود سے پوچھ لو کہ کون ہے۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔
’’بس جی۔‘‘ وہ غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی، ’’پھر نہ کہنا یہ بات۔‘‘
’’کہنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ وہ بولا، ’’اب کے آیا تو ہڈیاں توڑ دوں گا۔‘‘
وہ شیرنی کی طرح بپھر گئی، ’’ذرا ہاتھ لگا کر تو دیکھو، تم مجھ پر ہاتھ اٹھانے والے کون ہو؟‘‘ قاسم کی نگاہوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ اس کا ہاتھ اٹھا۔۔۔ محلے والوں نے جیناں کی چیخیں سنیں۔ کوئی گرج رہا تھا، ’’مومن۔۔۔ مومن!‘‘ وہ چیخ رہی تھی، ’’بس میں اس گھر میں ایک منٹ نہ رہوں گی۔‘‘
’’سنا تم نے، اب مومن کا جھگڑا ہے۔ توبہ‘‘ یہ عورت کسی لڑکے کو لپٹے بنا چھوڑے گی بھی۔ میں کہتی ہوں اس کے سر پر حرام سوار ہے۔۔۔ ’’ہاں۔‘‘
’’میں کہتی ہوں، اچھا کیا جو میاں نے ہڈیاں سینک دیں ذرا۔‘‘ پر چاچی کہاں مومن کہاں جیناں۔ مومن تو اس کے بیٹے کے سمان ہے۔‘‘
’’اللہ تیرا بھلا کرے۔ جبھی چھاتی پر لٹا رکھتی ہو گی نا؟اب خاوند سے لڑ کر اپنے بھائی کے پاس چلی گئی ہے۔‘‘
’’نہ جانے وہاں کیا گل کھلائے گی۔ میں جانوں اچھا ہوا۔ خس کم جہاں پاک۔ مرد ہوتا تو جانے نہ دیتا۔ کمرے میں بند کر دیتا۔ اچھا نہیں کیا جو اسے جانے دیا۔‘‘
’’بلکہ وہ تو اور بھی آزاد ہو گئی۔‘‘
’’سنا ہے چاچی خط آیا ہے۔ ہاں۔۔۔ طلاق مانگتی ہے۔‘‘
’’بڑی آئی طلاق مانگنے والی۔‘‘
’’میری مانے تو۔۔۔ ساری عمر بٹھا رکھے۔‘‘
’’خیر بی بی یارانے کے بیاہ کا مزہ تو پا لیا۔‘‘
’’میں پوچھتی ہوں، اب اور کسے پھنسائے گی؟ تمہیں کیا معلوم، اسی روز سے اپنا مومن غائب ہے۔‘‘
’’جبھی تو قاسی سر جھکائے پھرتا ہے۔ دنیا کو منہ کیسے دکھائے گا۔‘‘
’’میں کہتی ہوں، بس ایک طلاق نہ دے اور جو جی چاہے کرے۔‘‘
’’ہونہہ ان تلوں میں تیل نہیں اپنی فاطمہ بتا رہی تھی کہ کاغذ خرید لیا ہے۔‘‘
اس واقعہ پر قاسم کی زندگی نے ایک بار پھر پلٹا کھایا۔ اسے عورت سے نفرت ہو گئی۔ محبت پر اعتبار نہ رہا۔ ’’عورت۔۔۔؟‘‘ وہ دانت پیس کر کہتا، ’’عورت کیا جانے محبت کسے کہتے ہیں۔ ناگن صرف ڈسنا جانتی ہے صرف ڈسنا۔ اگر اس نے طلاق لکھ بھیجی تھی تو صرف اس لیے کہ محلہ کے لوگ اسے مستفسرانہ نگاہوں سے دیکھتے تھے اور عورتیں صبح و شام اس کی باتیں کرتی تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ اس قصہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے اور اپنی زندگی از سر نو شروع کرے۔‘‘
لیکن جب اس نے سنا کہ جیناں نے مومن سے نکاح کر لیا تو وہ اس بظاہر بے تعلقی کے باوجود جو وہ جیناں کے متعلق محسوس کرنا چاہتا تھا، تڑپ کر رہ گیا۔ حالانکہ وہ ہر وقت جینا سے نفرت پیدا کرنے میں لگا رہتا تھا۔ اسے برا بھلا کہتا تھا۔ بے وفا فاحشہ سمجھتا۔ لیکن کبھی کبھی اس کی آنکھوں تلے ریشمیں معطر گود آ کر کھل جاتی اور اس کا جی چاہتا کہ وہیں سر ٹکا دے۔ وہ حنائی ہاتھ اسے تھپکے اور وہ تمام دکھ بھول جائے۔ پھر کسی وقت اس کے سامنے ایک مسکراتا ہوا چہرا آ کھڑا ہوتا۔ دو ہونٹ کہتے۔ ’’چپ‘‘ اگرچہ اس وقت وہ لاحول پڑھ کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیتا تھا لیکن یہ تصاویر اسے اور بھی پریشان کر دیتیں اور وہ اور بھی کھو جاتا۔ ایک سال کے بعد جیناں اور مومن محلے میں آئے تو پھر چرچا ہونے لگا۔ محلے والیاں بڑے اشتیاق سے دلہن دیکھنے لگیں۔ اگرچہ ان کی مبارک باد طعنہ آمیز تھی لیکن مومن کی ماں کو مبارک تو دینا ہی تھا۔
اتفاق کی بات تھی کہ جب مومن اور جیناں محلے میں داخل ہوئے، عین اس وقت قاسم گلی میں کھڑا چاچی سے بات کر رہا تھا۔ اس روز وہ ایک سرکاری کام پر ایک دن کے لیےباہر جا رہا تھا اور چاچی سے کہہ رہا تھا، ’’ہاں چاچی سرکاری کام ہے۔ کل رات کی گاڑی سے لوٹ آؤں گا۔‘‘ پیچھے آہٹ سن کر وہ مڑا تو کیا دیکھتا ہے، جیناں کھڑی مسکرا رہی ہے۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ پھر آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور وہ بھاگا حتیٰ کہ اسٹیشن پر جا کر دم لیا۔
اس روز دن بھر وہ جیناں کے بارے میں نہ سوچنے کی کوشش کرتا رہا، دل میں ایک اضطراب سا کھول رہا تھا مگر وہ تیزی سے کام میں مصروف رہا۔ جیسے ڈوبتا تنکے کا سہارا لینے کے لیے بے تاب ہو۔ کام ختم کر کے وہ رات کو گاڑی پر سوار ہو ہی گیا۔ گاڑی میں بہت بھیڑ تھی۔ اس گہماگہمی میں وہ قطعی بھول گیا کہ وہ کون ہے۔ کہاں جا رہا ہے اور وہاں کون آئے ہوئے ہیں۔ جب وہ محلے کے پاس پہنچا تو ایک بجنے کی آواز آئی۔ ’’ٹن‘‘ معاً وہ دبے پاؤں چلنے لگا۔ گویا ہر آہٹ اس کی دشمن ہو۔ گلی میں پہنچ کر اس نے محسوس کیا جیسے وہ وہی پرانا قاسی تھا۔ دفعتاً ایک ریشمیں معطر گود اس کی نگاہ تلے جھلملائی۔ دیکھوں تو بھلا۔ اس کے دل میں کسی نے کہا۔ دل دھڑکنے لگا، نگاہ بیٹھک کی تیسری کھڑی پر جا ٹکی۔ انگلی سے دبایا تو پٹ کھل گیا اور وہ اندر چلا گیا۔ معاً سامنے سے اس پر ٹارچ کی روشنی پڑی۔ وہ گھبرا کر مڑنے ہی لگا تھا کہ وہ روشنی ایک حسین چہرے پر جا پڑی۔ ’’ہاں وہی‘‘ سیڑھیوں میں جینا کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ’’تم؟‘‘ وہ غصے سے چلایا۔
ایک ساعت میں اسے سب باتیں یاد آ چکی تھیں۔ اس کا جسم نفرت سے کھولنے لگا تھا۔ ’’چپ‘‘ جینا نے منہ پر انگلی رکھ لی۔ قاسم کا جی چاہتا تھا کہ اس حسین چہرے کو نوچ لے اور کپڑے پھاڑ کر باہر نکل آئے۔ لیکن اچانک حنائی ہاتھ بڑھا۔ ’’میں جانتی تھی تم آؤ گے۔ میں تمہاری راہ دیکھ رہی تھی۔‘‘ قاسم کا سر ایک رنگین معطر گود پر جا ٹکا۔ جس کی نیم مدھم گرمی حنائی ہاتھ کے ساتھ ساتھ اسے تھپکنے لگی۔ قاسم نے دو ایک مرتبہ جوش میں آ کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ خوشبودار ریشمیں بدن، مدھم گرمی اور حنائی ہاتھ۔۔۔ اس کا غصہ آنسو بن کر بہہ گیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رو رہا تھا اور وہ حنائی ہاتھ اسے تھپک رہے تھے۔
’’چپ‘‘ جیناں منہ پر انگلی رکھے مسکرا رہی تھی۔
مصنف:ممتاز مفتی