کہانی کی کہانی:’’یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جس نے اپنی پوری زندگی فوج میں گزار دی۔ پہلے عالمی جنگ میں اپنی بہادری کے کئی تمغے حاصل کرنے کے بعد کور کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواب لے کر وہ اپنے گاؤں گیا تھا مگر وہاں اسے پتہ چلا کہ اس کی تو تین سال پہلے شادی ہو گئی ۔ وہ اپنی چھٹیاں منسوخ کرا کر واپس فوج میں چلا آیا اور پھر کبھی گاؤں نہیں گیا۔ ملک کی آزادی کے بعد دیش کی غربت کے خلاف نئی جنگ کے بارے میں سنا۔ اسی درمیان اس کی ملاقات کور کے بیٹے سے ہوئی جس نے اسے اپنی ماں کا پیغام دیا اور وہ اس نئی جنگ سے مقابلہ کرنے کے لیے کور کے گاؤں کی طرف چل دیا۔‘‘
جس دن صوبیدار راجندر سنگھ کی پینشن مقرر ہوئی تو وہ بہت پریشان تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہی جاتا رہا۔ صوبیدار نے اپنی ساری عمر فوج میں کاٹی تھی۔ نہ جانے کتنی جنگوں میں جان پر کھیل کر آدھے درجن تمغے حاصل کیے تھے۔ کتنی ہی چھاؤنیوں کی خاک چھانی تھی۔ اپنی بہادری اور مستعدی سے نہ جانے کتنے افسروں کی خوشنودی حاصل کی تھی۔ معمولی سپاہی سے جمعدار اور جمعدار سے صوبیدار مقرر ہوئے تھے۔ فوج کا کوئی ایسا کام نہیں تھا جس میں انھوں نے اپنا سکہ نہ بٹھایا ہو۔ نشانہ بازی میں ہمیشہ نمبر اول۔ چاہے چھاؤنی میں چاند ماری ہو یا فرنٹ پر دشمن کے خلاف لڑائی۔ صوبیدار راجندرسنگھ کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوا تھا۔ اپنے سپاہیوں کو پریڈ کراتے تو ایک ساتھ کام کرنے والی مشینیں بنا دیتے۔ ان کا اپنے رنگروٹوں اور سپاہیوں سے ہمیشہ یہی کہنا ہوتا تھا۔ ’’ایک ساتھ قدم اٹھاؤ۔ جوانو! ایک ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاؤ، سینہ تانو ایسے جیسے فولاد کی دیوار۔ لفٹ رائٹ۔۔۔ لفٹ رائٹ۔۔۔‘‘
پہلی جنگ عظیم میں راجندر سنگھ بالکل جوان تھا۔ جوانی کے جوش میں ایسے لڑتا تھا جیسے مست ہاتھی۔ عراق، عرب، جرمنی، فرانس۔ جنگ کے کتنے ہی میدانوں میں اس نے اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑے تھے اسے کتنے ہی میڈل ملے تھے۔ اس کے انگریز افسروں نے اس کی پیٹھ ٹھونکی تھی۔ جب وہ واپس آیا تھا تو اس کو کہا گیا کہ وہ چاہے تو فوج چھوڑ کر اپنے گاؤں میں کھیتی باڑی کر سکتا ہے۔ اس کی جنگی خدمات کے انعام میں اس کو زمین بھی الاٹ ہوئی تھی۔ نوجوان جمعدار نے اپنے کیپٹن سے کہا تھا۔ ’’ابھی تو یہی ارادہ ہے صاحب کہ گاؤں جاکے پہلے شادی کروں اور پھر کھیتی باڑی میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاؤں۔‘‘ مگر کیپٹن نے کہا، ’’ویل جمعدار ابھی تمہارا تین مہینے کا چھٹی باقی ہے۔ تم گھر جا سکتا ہے۔ تین مہینے کے اندر ہم کو بولےگا کہ آرمی چھوڑنا مانگتا ہے تو ہم چھوڑ دےگا۔ نہیں تو تم ادھر واپس آ سکتا ہے۔ ہم تم کو اپنی رجمنٹ میں رکھے گا جو فرنٹیئر جانے والی ہے۔‘‘
یہ سن کر نوجوان جمعدار صرف مسکرا دیا تھا۔ اس نے سوچا تھا ہمارے صاحب کو کیا معلوم کلونت کور کیا چیز ہے۔ بھلا کوئی ایسی لڑکی سے بیاہ کرنے کے بعد گھر چھوڑ کر فوج میں جا سکتا ہے؟ کلونت ان کے ہی گاؤں کے پینشنر صوبیدار رنجیت سنگھ کی بیٹی تھی۔ کلونت جس کی رائفل کی نالی جیسی کالی کالی آنکھیں تھیں اور جس کے بازو ایسے گدرائے ہوئے تھے جیسے آرمی کی ڈبل روٹی اور جس کی زبان ایسے چلتی تھی جیسے مشین گن اور جس کی یاد ہر فرنٹ کی ہر ٹرنچ میں راجندر سنگھ کے ساتھ ساتھ ایسے چلتی تھی جیسے ہر رجمنٹ کے ساتھ سیپرز اینڈ مائینرز کا دستہ چلتا ہے۔
مگر چھ برس کے بعد جب وہ اپنے گاؤں پہنچا اور اس کے سب رشتہ دار اور دوست اس سے ملنے، جنگ کے حالات سننے اور اس کے ماں باپ کو اس کی خیریت سے واپسی پر مبارکباد دینے، راجندر سنگھ کے گھر آئے۔ مگر اس کی آنکھیں کلونت کو ڈھونڈتی رہیں۔ جب سب اپنے اپنے گھر چلے گئے تو اس نے اپنی ماں سے پوچھا، ’’ماں۔ کلونت نظر نہیں آئی۔‘‘ اور تب اس کی ماں نے اسے وہ سب کچھ بتا دیا جو تین برسوں سے اس سے چھپاتے آئے تھے اور جس کے بارے میں اس کے ماں باپ نے جان بوجھ کر کسی خط میں ذکر نہیں کیا تھا کہ یہ خبر پڑھ کر نہ جانے وہاں میدان جنگ میں بیٹا کیا کر بیٹھے اور راجندر کو معلوم ہوا کہ کلونت کے بیاہ کو تو تین برس ہو چکے ہیں۔ اس کی شادی قریب کے گاؤں میں ایک نوجوان ٹھیکیدار بختاور سنگھ سے ہو گئی ہے اور اب تو اس کی گود میں ایک بچہ کھیلتا ہے۔
یہ سن کر راجندر کچھ نہیں بولا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ شادی کی شہنائیاں جو برسوں سے اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں اب دور ہوتی جارہی ہیں۔۔۔ یہاں تک کا وہ یاد کے دھندلکے میں کھو گئیں اور ان کی بجائے بگل کی آہنی چیخ دور سے پکارتی ہوئی قریب آتی گئی اور اس کے شعور میں ہزاروں بم بیک وقت پھٹ پڑے۔
اور اگلے روز صبح صویرے ہی وہ وردی پہن کر واپس جانے کو تیار ہو گیا۔ ماں باپ نے گھبراکر سبب پوچھا تو اس نے صرف اتنا کہا، ’’بس دو دن ہی کی چھٹی ملی تھی۔ کل ہماری رجمنٹ فرنٹیئر کے لیے روانہ ہو رہی ہے۔‘‘
فرنٹیکر رزبک، جمرود اور درّۂ خیبر کی چھاؤنیاں۔ کتنے ہی برس اس نے کوشش کی کسی پٹھان کی گولی اس کا سینہ چیر کر اس کم بخت جان لیوا یاد کا گلاگھونٹ دے جو اب تک اس کے دل کو نرغے میں لیے ہوئے ہے۔ پر نہ جانے کیوں ہر گولی اس سے کتراکے نکل گئی۔
آسام، برما کی سرحد، جنگل، ملیریا، اس کے کتنے ہی ساتھی جو گولوں اور گولیوں سے نہ مرے تھے معمولی بخار کا شکار ہو گئے۔ مگر راجندر کو موت نہ آئی۔
دوسری جنگ عظیم میں راجندر نے کہاں کہاں موت کو تلاش نہیں کیا؟ مصر اور لیبیا کے لق و دق ریگستان کوہیما اور برما کی پہاڑیاں۔ ملایا کے جنگل اور دلدل۔ اس کے سینے پر تمغے لگتے رہے۔ جمعدار سے وہ صوبیدار ہو گیا۔ اس کی داڑھی میں سفید بال چمکنے لگے۔ مگر جتنے بھی زخم اسے لگے ان میں کوئی بھی کاری نہ ثابت ہوا اور ایک یاد کا گھاؤ اندر ہی اندر ستاتا رہا یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم بھی ختم ہو گئی۔ ہندوستان آزاد ہو گیا۔ ملک کی تقسیم ہو گئی اور راجندر سنگھ کو پنشن دیدی گئی۔
چھاؤنی میں یہ اس کاآخری دن تھا۔ وہ N.C.O.S کے میس میں اکیلا بیٹھا بے توجہی سے ریڈیو سن رہا تھا پر ایک جانی بوجھی آواز ہندوستانیوں کو ایک نئی جنگ کے لیے للکار رہی تھی۔
’’یہ جنگ کسی بیرونی دشمن کے خلاف نہیں ہے بلکہ اندرونی دشمنوں کے خلاف ہے۔۔۔‘‘
راجندر سنگھ کے فولادی ہاتھ کی پکڑ اپنی رائفل پر اور بھی مضبوط ہو گئی۔
’’یہ جنگ ہے جہالت کے خلاف۔۔۔‘‘
’’یہ جنگ ہے مفلسی اور بیکاری کے خلاف۔۔۔‘‘
’’یہ جنگ ہے بیماری کے خلاف۔۔۔‘‘
’’اس جنگ میں خندقیں نہیں کھودی جائیں گی۔ کوئیں کھودے جائیں گے۔‘‘
’’اس جنگ میں اپنی حفاظت کے لیے سنگین فصیلیں نہیں بنائی جائیں گی، سکولوں اور ہسپتالوں کی دیواریں کھڑی کی جائیں گی۔‘‘
’’یہ جنگ بندوقوں اور تلواروں، مشین گنوں اور بموں سے نہیں، ہلوں اور کدالوں اور ٹریکٹروں اَور بل ڈوزروں سے لڑی جائےگی۔‘‘
راجندر سنگھ کی سمجھ میں کچھ آیا اور کچھ نہیں آیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے لیے یہ نئی جنگ بھی ایسی ہی ہے تعلق ہے جیسی اور عام جنگیں جو اس نے اب تک لڑی تھیں۔
وہ عربوں سے، ترکوں سے، جرمنوں اور اطالویوں سے اور پھر جاپانیوں سے لڑا تھا۔ حالانکہ اس کو ان سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ صرف اس لیے لڑا تھا کہ یہ اس کے افسروں کا حکم تھا اور آج اس کا سب سے بڑا افسر اسے اس نئی جنگ کے لیے للکار رہا تھا۔ مگر اب بھی صوبیدار راجندر سنگھ کو یہ یقین نہیں تھا کہ یہ جنگ اس کی اپنی جنگ ہے اور اس کے اپنے دشمنوں کے خلاف ہے۔
اس کے دماغ میں اور اس کے دل میں ایک عجیب تنہائی کا، ایک عجیب اندھیرے کا احساس تھا۔ جیسے کالی رات میں کوئی سپاہی جنگل میں راستہ بھول جائے اور اسے یہ نہ معلوم ہو کہ دشمن کی فوج کدھر ہے۔ آج اسے اپنی رجمنٹ سے چھٹی مل جائےگی۔ اس کے بعد وہ کہاں جائےگا، کیوں جائےگا، کہاں رہےگا، کیا کرےگا۔ ماں، باپ دونوں مدت کے مرچکے تھے اب گاؤں میں اس کا کون ہے۔ جس کے پاس وہ جائے۔
اتنے میں اسے کسی کے نئے فوجی جوتوں کی کھٹ کھٹ سنائی دی۔ صوبیدار نے دیکھا کہ ایک نوجوان رنگروٹ جس کے نرم نرم سر کے بال پگڑی سے باہر نکلے ہوئے تھے اور جس کے چہرے پر داڑھی کی جگہ ابھی صرف سنہری رواں ہی اگا ہے۔ جو پہلی بار وردی پہن کر عجیب عجیب لگ رہا ہے اور جس کی نگاہیں ادھر ادھر کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ اور نہ جانے اسے کیسے یہ محسوس ہوا کہ اس نے اس لڑکے کو کہیں دیکھا ہے۔
’’صوبیدار راجندر سنگھ آپ ہی ہیں؟‘‘
’’ہاں میں ہی ہوں۔ تم کون ہو۔۔۔ بیٹا؟‘‘ اور نہ جانے اس نوجوان کو بیٹا کہنا راجندر سنگھ کو کیوں اچھا لگا۔
’’جی میرا نام امر سنگھ ہے۔‘‘
’’تمہارے پتا کا نام؟‘‘
’’بخت آور سنگھ۔‘‘
’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘
’’جی وہ ٹھیکیداری کرتے تھے۔ پر کئی برس ہوئے ان کا دیہانت ہو گیا۔‘‘
’’اور تم ٹھیکیدار کے بیٹے ہوکر فوج میں بھرتی ہونے آئے ہو۔ کیوں؟‘‘
’’میری ماں نے کہا۔ مجھے فوج میں بھرتی ہونا چاہیے۔ دیش کی حفاظت کرنے کے لیے۔‘‘
’’بڑی بہادر ماں ہے تمہاری۔ مگر میرا نام تمھیں کس نے بتایا؟‘‘
’’ماں نے۔ وہ کہتی تھیں صوبیدار صاحب کے پاس جانا وہ تمھیں فوج کے بارے میں سب بتا دیں گے۔‘‘
’’اور کچھ بھی کہا تھا؟‘‘
’’کہا تھا صوبیدار صاحب سے کہنا ان کے گاؤں کی حالت بہت خراب ہے۔‘‘
’’کہاں رہتی ہے تمہاری ماں۔‘‘
’’اپنے بابا کے گاؤں۔ سنگھپور میں۔ تو آپ جائیں گے نا؟‘‘
’’ہاں۔ بیٹا۔ ضرور جاؤں گا۔ بلکہ آج ہی، ابھی۔ وہیں جارہا ہوں۔ چلو میں تمھیں اپنے کمانڈر صاحب سے ملادوں۔ تمھیں فوج میں سنگھپورا کے بہادر نوجوانوں کانام امر رکھنا ہے۔‘‘
وہ دونوں ایک بوڑھا اور ایک جوان۔ ایک پینشنر اور ایک رنگروٹ قدم سے قدم ملائے کیپٹن کے آفس کی طرف چلے اور ان کے بوٹوں کی آواز دور تک برامدے میں گونجتی رہی۔
اور اس شام کو جب صوبیدار نے اپنے گاؤں کی سرحد میں قدم رکھا اور تالاب پر مچھر بھنبھناتے دیھا اور ملیریا کے مارے کسانوں کو دیکھا اور ان کے ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے دیکھے اور ہڈیاں نکلے ہوئے بیلوں کو دیکھا اور سوکھیا کے مارے بچوں کو چیتھڑے پہنے گاؤں کی گندی گلیوں میں کھیلتے دیکھا تو اسے دور جنگی بگل بجنے کی آواز سنائی دی۔۔۔ یہ اعلان جنگ تھا لیکن کسی انسانی دشمن کے خلاف نہیں بلکہ انسان کے دشمنوں کے خلاف۔ غربت کے خلاف۔ گندگی کے خلاف۔۔۔ بیماریوں کے خلاف۔
اور ایک بار پھر راجندر سنگھ کا سینہ عزم سے تن گیا۔
اسے اب نئی جنگ لڑنی تھی۔
مأخذ : نئی دھرتی نئے انسان
مصنف:خواجہ احمد عباس