اب تو جگنو بھی نہیں راہ دکھانے والا
شہر میں قید ہوا گاؤں سے آنے والا
پھر وہی عرض مری حق و صداقت والی
پھر وہی عذر ترا حیلہ بہانے والا
فرش گل جان کے خاروں پہ قدم رکھتا ہوں
کون ہے میرے لئے پلکیں بچھانے والا
تم دکھاتے پھرو اپنا گل و گلزار بدن
کوئی مرہم نہیں زخموں پہ لگانے والا
مستقل درد کا درماں ہو وہ تدبیر سجھا
عارضی حل نہ بتا کام چلانے والا
صاف گوئی ہے مرا عیب یہ مانا لیکن
پہلے زخموں کو گنے عیب گنانے والا
معجزہ خوب ہوا جنگ بھی ہم جیت گئے
کھیل کھیلا بھی نہیں تیرا نشانے والا
چاہتا ہوں کہ ظفرؔ گھول کے پی جاؤں اسے
وہ جو نسخہ ہے سر آنکھوں سے لگانے والا
مأخذ : شاخ آہو
شاعر:ظفر نسیمی